Topics
حضور قلندر بابا اولیاؒء ایک خوش طبع ، نفاست پسند اور با وضع انسان تھے -
آپؒ کی طبیعت میں مزاح بھی تھا - ازروۓ لغت مزاح کے
معنی " ہنسی ، خوش طبعی ، ٹھٹھا ،
ظرافت اور مذاق " کے ہیں -
درج
بالا معانی کو سامنے رکھا جائے تو آپؒ ہنستے تھے اس طرح کہ دہانہ قدرے کھل جاتا
تھا - چہرہ پر شگفتگی چھا جاتی تھی اور حلق سے ہلکی سی آواز نکلتی تھی - کسی نے
آپؒ کو ٹھٹھا ( قہقہہ ) مارتے نہیں سنا - آپؒ نے کسی کی ہنسی بھی نہیں اڑائی -
بیشتر اوقات خاموش رہتے لیکن جب روحانی مصروفیات اجازت دیتیں تو گفتگو فرماتے -
کسی کے زبانی سوال یا نا گفتہ الجھن کا تسلی بخش جواب عنایت فرماتے یا پھر اپنی
طرف سے کسی بات کو بیان فرماتے -
حضور
بابا صاحبؒ اپنے شاگردوں یا احباب کے ساتھ اپنی گفتگو میں بعض اوقات مختلف حکایات
بھی بیان کیا کرتے تھے - ان میں سے کئی حکایات کو خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ،
سلسلہ عظیمیہ کے ارکان غلام رسول قادری العظیمی ، پروفیسر فقیر محمّد شیخ ، احمد
جمال عظیمی اور دوسرے اصحاب نے قلمبند بھی کیا - ان میں سے دستیاب حکایات یہاں پیش
کی جارہی ہیں - ان دلچسپ حکایات کے مطالعہ سے
بابا صاحبؒ کے نفیس ذوق ظرافت کی بھی نشاندہی ہوتی ہے -
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بستی
میں سخت قحط پڑا - ایک عرصہ کے بعد کچھ لوگ حضرت موسیٰؑ کے پاس دعا کے لئے پہنچے -
حضرت موسیٰؑ نے کہا کہ الله میاں سے پوچھ کے بتاؤں گا –
چنانچہ جب وہ طور پر الله تعالیٰ سے ہم کلام
ہوئے تو آپ نے گاؤں والوں کی درخواست پیش کردی –
الله
تعالیٰ نے فرمایا ...
اے موسیٰؑ اس بستی میں ایک چغل
خور ہے
اس کی وجہ سے ہی بستی پر ادبار
آیا ہے -
موسیٰؑ گویا ہوئے ... یا
الله مجھے اس بندے کا نام بتائیے –
الله
تعالیٰ نے فرمایا ...
اے موسیٰ ..
کیا تم مجھ سے غیبت کراؤ گے ؟
جنت
حضورعلیہ الصلوة والسلام کے سامنے ایک خاتون
آئیں - کافی ضعیف تھیں - دعائے خیر کی استدعا کی –
آپ صلّ الله علیہ وسلّم نے فرمایا ..." جنت میں نوجوان عورتیں اور
مرد ہی جائیں گے - "
خاتون بہت ملول ہوئیں تو آپ صلّ الله علیہ
وسلّم متبسم ہوئے اور فرمایا کہ ...
"
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے - جنت میں سب لوگ جوان ہوجائیں گے - "
یہ
غالباً حضرت جان جاناںؒ کا واقعہ ہے - ان
کو تعالیٰ نے عرفان اس شرط پر عطا کیا کہ
وہ فلاں عورت سے شادی کرکے نبھائیں - حضرت جان جاناںؒ کی نفاست طبع کا یہ عالم کہ
بادشاہ وقت نے پانی پی کر کٹورہ ٹیڑھا رکھ دیا تو انہوں نے بادشاہ کو ڈانٹ دیا کہ
تم سے ایک کٹورہ تک تو سیدھا رکھا نہیں جاتا تم امور سلطنت کیونکر چلاتے ہو گے -
اور زوجہ محترمہ کا یہ حال کہ حضرت کو نہ صرف خاطر میں نہ لاتیں بلکہ بے نقط بھی
سناتی تھیں - ایک مرتبہ حضرت کے ذہن میں آیا کہ بیگم صاحبہ کو کوئی کرامت دکھائی
جائے تو شاید راہ راست پر آجائیں –
چنانچہ
ایک روز جب بیگم صاحبہ صحن میں بیٹھی تھیں وہ باہر نکلے اور اڑتے ہوئے صحن کے اوپر
سے گزر گئے - تھوڑی دیر کے بعد جب گھر میں داخل ہوئے تو بیگم صاحبہ بولیں آج میں
نے ایک ولی کو اڑتے ہوئے دیکھا - ایک تم ہو کہ دعوے تو بہت کرتے ہو ، آتا جاتا کچھ
نہیں ہے -
حضرت
نے آہستہ سے کہا ... میں ہی تو تھا وہ –
بیگم صاحبہ نے سر پر ہاتھ مارا اور بولیں ..
ہائے ، میں جب ہی تو کہوں کہ یہ ٹیڑھے ٹیڑھے کیوں اڑ رہے ہیں –
زمانہ گزرا کہ ایک آدم زاد اتنی عمر کو پہنچ گئے
کہ ان کا دنیا میں کوئی نہیں رہا - گزر بسر کے لئے جنگل سے لکڑیاں توڑ کر فروخت
کرتے تھے - ایک روز زیادہ لکڑیاں جمع کرکے گٹھر باندھ تو لیا لیکن اٹھاتے وقت
ہاتھوں میں لرزہ آگیا - خون پانی بن کر آنکھوں سے بہہ نکلا - بڑی حسرت کے ساتھ آہ
بھری اور بولے کہ مجھ سے تو ملک الموت بھی روٹھ گیا ہے - اس کو بھی میرے حال پر
رحم نہیں آتا -میں اب تک کیوں زندہ ہوں - میرے سب مر کھپ گئے - مجھے موت کیوں نہیں
آجاتی – ابھی لمحہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک خوبصورت نوجوان سیدھی طرف آ کھڑا ہوا
- سلام کیا اور پوچھا بزرگوار میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں - بزرگ نے پوچھا تم
کون ہو ؟
نوجوان بولا میں ملک الموت ہوں - ابھی آپ نے یاد
کیا تھا - سو حاضر ہوگیا ہوں خدمت بتائیں -
بزرگ فوراً بولے اس وقت تو خدمت یہ ہے کہ تم
لکڑی کا یہ گٹھا اٹھا کر میرے سر پر رکھ دو -
روحانی علوم کی درسگاہ مرکزی مراقبہ ہال کراچی
میں قلندر شعور اسکول کی کلاس میں لیکچر دیتے ہوئے سعید اور شقی روحوں پر ایک طالب
علم کے سوال کے جواب میں روحانی استاد حضرت عظیمی صاحب نے کہا ..." حضور
قلندر بابا اولیاؒء نے ایک روز مجھے ایک
واقعہ سنایا -
ایک روز شیطان بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوا –
حضورعلیہ
الصلوة والسلام نے دریافت فرمایا کیسے آنا ہوا ؟
ابلیس نے دست بستہ عرض کیا ... حضورؐ آپؐ کو
الله نے عالمین کے لئے رحمت بنایا ہے - انہی عالمین کا ایک فرد میں بھی ہوں - آپؐ
کی رحمت میرے لئے بھی ہونی چاہیئے – حضورؐ نے فرمایا ..." کہو "
شیطان نے کہا .. بارگاہ رب العزت سے معافی دلوا
دیجئے –
حضورعلیہ
الصلوة والسلام نے فرمایا کہ ..."
ٹھیک ہے لیکن تم اب یہ کرو کہ آدم علیہ السلام کی قبر پر چلے جاؤ اور صرف اتنا کہہ
دو کہ میں آپ کی حاکمیت قبول کرتا ہوں - "
شیطان
نے کہا ... واہ صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں جس کی زندگی میں نہیں مانا اب مٹی کے
ڈھیر پر جاکر اس کی حاکمیت تسلیم کرلوں - اور یہ کہہ کر ابلیس وہاں سے اٹھ آیا -
کسی بستی میں ایک بڑی خانقاہ تھی - دسیوں دیگیں
پکتیں اور سینکڑوں افراد لنگر کھاتے - قریب ہی ایک نوجوان رہتا تھا - والدین فوت
ہوچکے تھے - روزگار ملتا نہ تھا - کھانے کے بھی لالے پڑے ہوئے تھے - ایک روز اس کے
دل میں آئی کہ چلو پیر صاحب ہی کے نیاز حاصل کرلیں - شاید قسمت پلٹ جائے - چنانچہ
ایک روز وہ خانقاہ کے اندر داخل ہوا اور پیر صاحب کی محفل میں شریک ہوگیا - جب
محفل برخاست ہوئی تو وہ بھی باہر آگیا - یہ سلسلہ کئی روز چلتا رہا - نوجوان محفل
میں شریک ضرور ہوتا لیکن بغیر کسی سوال کے واپس آجاتا –
ایک
روز وہ حسب معمول واپس ہورہا تھا تو پیر صاحب نے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میاں
صاحبزادے میں کئی روز سے تمہیں آتا جاتا دیکھ رہا ہوں - کیا بات ہے کہ تم کوئی
سوال کئے بغیر ہی چلے جاتے ہو -
پرسش احوال پر اس کے آنسو نکل آئے - کافی تسلی
کے بعد جب ذرا دم ٹھہرا تو اس نے احوال سنایا کہ جناب کے زیر سایہ رہتا ہوں لیکن
تباہ حال ہوں - پیر صاحب کو بڑا ترس آیا اور نوجوان سے کہا کہ آج سے تم ہمارے
مہمان ہو - کھانا پینا ، کپڑا لتہ سب ہمارے ذمہ - جب تمہاری طبیعت بحال ہو تو
ہمارے پاس آنا ، ہم پھر کچھ کریں گے -
کچھ عرصے کی بے فکری اور کھانے پینے کی فراوانی
سے تو نوجوان کا حلیہ ہی بدل گیا - پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کہ حضور حکم
فرمائیں - پیر صاحب نے نوجوان کو اوپرسے نیچے تک دیکھا تو کہنے لگے ماشاء الله
بھئی اب تم ایک کام کرو کہ میرے پاس ایک گدھا ہے اس کے اوپر سوار ہو کر تم بڑے پیر
صاحب کی زیارت کر آؤ - اور اس کو زاد راہ دے کر روانہ کردیا -
وہ
نوجوان گدھے پر بیٹھ کر منزل پر منزل مارتا چلا جارہا تھا کہ ایک جگہ گدھا بیمار
ہو کر مر گیا - نوجوان بہت پریشان ہوا کہ پیدل بڑے پیر صاحب کے پاس کیسے پہنچوں گا
اور یہ گدھا جو پیر صاحب نے دیا تھا اس کو سڑنے اور چیل کوؤں کو نوچنے کے لئے نہیں
چھوڑا جا سکتا - بڑی بے حرمتی ہوگی - چنانچہ ایک گڑھا کھود کر گدھے کو دفن کردیا -
اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے
- اسی شش و پنج میں کئی دن گزر گئے - شاہراہ پر تو بیٹھا ہی تھا - جب ادھر سے کوئی
قافلہ گزرتا کچھ مدد کردیتا - اپنے پیر صاحب کے عطیہ کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا
-
اسی
شش و پنج میں ایک قافلہ ادھر سے گزرا تو اس نے تباہ حال نوجوان کی مدد کردی - اب
تو یہ سلسلہ چل پڑا اور اس کی آمدنی ہوتی رہی - آہستہ آہستہ اس نے گرمی ، سردی اور
برسات کے سخت موسموں سے بچنے کے لئے جھونپڑی ڈال لی - قریب ہی ایک گاؤں تھا - وہاں
کے لوگوں نے پینے کے پانی کا انتظام کردیا - یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور تین چار
سال میں وہ جھونپڑی ایک بڑی خانقاہ میں تبدیل ہوگئی -
اب
ادھر کی سنیئے ، پیر صاحب کی پیری مندی پڑگئی - آمدنی کم ہوگئی تو انہوں نے اعلان
کر دیا کہ وہ بڑے پیر صاحب کی زیارت کو جا رہے ہیں - وہ سفر کرتے کرتے جب اس جگہ
پہنچے جہاں نوجوان نے خانقاہ بنائی تھی تو پیر صاحب نے بھی وہیں پڑاؤ ڈال دیا -
رات کو کھانے سے فارغ ہو کر کہنے لگے چلو بھائی
مزار کے متولی کے نیاز حاصل کرلیں - ابھی وہ حجرہ خاص میں داخل ہی ہوئے تھے کہ
مسند نشین ایک دم ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا - پیر صاحب بہت حیران ہوئے - پوچھا
حضرت آپ مجھے کیوں گنہگار کر رہے ہیں - لیکن وہ نوجوان یوں ہی کھڑا رہا تو پیر
صاحب نے پوچھا کہ کچھ تو بتائیے کہ ماجرا کیا ہے -
نوجوان گویا ہوا کہ حضور نے مجھے پہچانا نہیں -
میں وہی شخص ہوں جسے آپ نے اپنا گدھا دے کر بڑے پیر صاحب کی زیارت کو بھیجا تھا -
اچھا تو پھر کیا ہوا ؟ پیر صاحب نے پوچھا –
ہوا
یوں کہ آپ کا وہ گدھا بیمار ہوکر مر گیا - مجھے یہ گوارا نہ ہوا کہ آپ کے عطیہ کی
بے حرمتی ہو ، اسے بصد احترام دفن کر دیا اور اس کی قبر پر بیٹھ گیا تو الله نے یہ دن دکھایا -
پیر صاحب بہت خوش ہوئے ، نوجوان کو گلے لگا کر
خوب خوب پیار کیا اور کہا بیٹا تو میرا صحیح جانشین ہے - میں بھی اس گدھے کی ماں
کی قبر پر خانقاہ بنا کر کام چلارہا تھا۔
ایک بزرگ تھے - ان کا ایک مرید ان سے بار بار
کہتا حضرت مجھے پیر بنا دیجئے - وہ عرصے تک ٹالتے رہے لیکن وہ پکا تھا کہ اس
مطالبہ سے دست بردار نہیں ہوا - ایک روز جب وہ بزرگ کے پاس حاضر ہوا تو کیا دیکھتا
ہے کہ ان کے ہاتھ میں خون آلود چھری ہے اور کپڑوں پر بھی خون کے چھینٹے پڑے ہوئے
ہیں -
مرید
نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا ہوا - فرمانے لگے اب میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے - مجھ
سے ایک قتل ہوگیا ہے اور میں نے اس کو فلاں جگہ دفن کردیا ہے - مرید کہنے لگا آپ
فکر نہ کریں - میں یہ بات کسی کو نہیں کہوں گا - لیکن ہوا اس کے بر خلاف -
اس نے بے شمار لوگوں سے کہا کہ پیر صاحب سے قتل
ہوگیا ہے لیکن تم کسی کو بتانا نہیں - شدہ شدہ یہ خبر کوتوال کو ہوگئی - پولیس
تفتیش کے لئے آئی جب قبر کو کھودا تو اس میں سے بکری کا پنجر ملا -
لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے تو پیر صاحب
نے بتایا کہ یہ شخص پیر بننے کے لئے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا - اس کو پرکھنے کے لئے
میں نے یہ کام کیا - اب آپ ہی بتائیں کہ اس سے اتنی سی بات ہضم نہ ہوئی ، یہ الله
کے رازوں کی کیا پردہ داری کرے گا -
ایک بندر جنگل سے کسی انسانی آبادی میں نکل آیا
- وہ کچھ عرصہ انسانوں میں ہی رہا اور انسانی بود و باش کو دیکھ کر واپس جنگل میں
چلا گیا - برادری میں پہنچتے ہی سارے جنگل کے بندروں نے اسے ایک اونچے درخت پر
بٹھایا اور کہا کہ انسانی آبادی کے بارے میں کچھ بتاؤ -
اس
بندر نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ شہر میں جہاں پر میں ٹھہرا ہوا تھا وہاں ایک
انسان بندر رہتا تھا - اس کی بیوی اور بچے بھی تھے - انسان بندر صبح سویرے روزی کی
تلاش میں نکلتا اور رات کو واپس آتا مگر وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا اس کی مادہ
خو خو کرتی ہوئی اس کے پیچھے پڑجاتی اور جھگڑتی رہتی -
صبح
کو وہ انسان بندر پھر روزی کی تلاش میں چلا جاتا اور جو کچھ کھانے کو ملتا واپس لا
کر اپنی مادہ کو دیتا مگر گھر لوٹتے ہی مادہ خو خو کرکے اس کے پیچھے پڑجاتی -
یہ بات سن کر دوسرے بندر حیران رہ گئے اور سیاح
بندر سے پوچھا کیا اس بندر کی مادہ نے اس کے گلے میں رسی ڈال رکھی تھی کہ وہ رات
کو واپس آجاتا تھا - سیاح بندر نے کہا نہیں ، اس کے گلے میں رسی نہیں تھی بس وہ
پاگل خود ہی واپس آجاتا تھا –
ایک
صوفی بزرگ طویل عرصہ بعد اپنے بیٹے سے ملے - بیٹا لڑکپن کی حدود عبور کرکے جوانی
میں قدم رکھ چکا تھا - جوان بیٹے کو سامنے پا کر یکایک ان کے دل میں بیٹے کی محبت
غالب آگئی اور دوڑ کر اسے سینے سے لگا لیا -
اسی وقت ندائے غیبی آئی " دعویٰ تو ہم سے
اور یہ کیا ؟ " صوفی بزرگ کانپ گئے - چہرہ فق ہوگیا -
الله
سے فریاد کی " اے الله میری مدد فرما - اے الله میری مدد فرما " -
بیٹے نے جھرجھری لی اور دوسرے ہی لمحے بےجان
ہوکر زمین پر گر گیا - لوگوں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ اس کی روح پرواز
کر چکی ہے -
اولاد
کی محبت تو فطری عمل ہے لیکن اولاد کی محبت اگر خدا کی محبت پر غالب آجائے تو
اولاد فتنہ بن جاتی ہے - اولاد کی محبت اگر اس لئے ہے کہ الله نے مجھے اولاد کا
تحفہ دیا ہے - اولاد میری خوشی کا سامان ہے - الله کی نعمت ہے اور میں اس نعمت کا
امین ہوں تو یہی اولاد دین و دنیا کی بھلائی بن جاتی ہے -
سخاوت
کے بارے میں ایک مجلس میں حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا ... ایک شخص رسول الله صلّ الله علیہ وسلّم کی خدمت
اقدس میں حاضر ہوا - اس نے عرض کیا یا رسول الله صلّ الله علیہ وسلّم مجھے شہد
چاہیئے
نبی اکرم صلّ الله علیہ وسلّم نے فرمایا ...
عثمانؓ کے پاس چلے جاؤ -
جب یہ شخص حضرت عثمانؓ کی خدمت میں پہنچا تو
وہاں بہت سارے اونٹ بیٹھے ہوئے تھے گیہوں کی بوریاں لادی جارہی تھیں - ایک بوری کا
منہ کھل کر چند کلو گیہوں زمین پر گر گیا - حضرت عثمانؓ نے جب یہ دیکھا تو انہوں
نے اپنے ملازم سے باز پرس کی اور اس کو ڈانٹا ڈپٹا کہ یہ گیہوں زمین پر کیوں گرا
ہے -
شخص
مذکور یہ دیکھ کر واپس رسول الله صلّ الله
علیہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا -
یا
رسول الله صلّ الله علیہ وسلّم شہد چاہیئے -
حضور صلّ الله علیہ وسلّم نے پھر یہی ارشاد
فرمایا ... عثمان کے پاس چلے جاؤ -
اس نے ساری روداد سنا دی ...
رسول
الله صلّ الله علیہ وسلّم نے فرمایا ... تم جاؤ تو سہی تم جا کر شہد مانگو تو ...
یہ شخص دوبارہ حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوا
- اور ان کے ملازم سے شہد مانگا - ملازم نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ اس آدمی کو شہد چاہیئے -
حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ اسے شہد دے دو –
ملازم
نے برتن مانگا - شخص مذکور نے کہا کہ میرے پاس برتن نہیں ہے - ملازم نے پھر حضرت
عثمانؓ سے عرض کیا کہ حضور اس کے پاس شہد لینے کے لئے برتن نہیں ہے -
حضرت عثمانؓ نے فرمایا ... شہد کا کپا اٹھا دو -
( ایک کپے میں تقریباً ڈیڑھ کنستر شہد آتا ہے )
سائل نے کہا میں کمزور آدمی ہوں ، اتنا زیادہ
وزن نہیں اٹھا سکتا -
ملازم
پھر حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ ایک کپا اٹھانا سائل کے لئے ممکن
نہیں ہے -
حضرت
عثمانؓ کو ملازم کی بار بار مداخلت پسند نہیں آئی ، ذرا تیز لہجے میں فرمایا ...
اونٹ پر لاد کر دے دو ، اور سائل اونٹ اور شہد لے کر چلا گیا -
یہ واقعہ بیان کرکے حضور قلندر بابا اولیاؒء نے
فرمایا کہ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ ہر مسلمان دولت مند بننا چاہتا ہے لیکن کوئی
آدمی حضرت عثمانؓ کے طرز عمل کو اختیار کرنا نہیں چاہتا -
خواجہ
شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں ایک روز حضور قلندر باباؒ نے شیخ سعدی کی روایت
سے مجھے ایک قصہ سنایا فرمایا ...
"
ایک تاجر تھا اس کے پاس ایک طوطا تھا جو انسانوں کی طرح باتیں کرتا تھا - تاجر کا
دل اس کی باتوں سے خوش ہوتا تھا وہ طوطا اس کو بہت پیارا تھا - ایک روز وہ کاروبار
کے سلسلے میں کہیں باہر جانے لگا تو اس نے طوطے سے پوچھا کہ میں کاروبار کے سلسلے
میں ملک سے باہر جارہا ہوں واپسی میں تمہارے لئے کیا تحفہ لاؤں -
طوطے نے کہا کہ اگر تمہارا گزر کسی جنگل میں سے
ہو اور تمہیں وہاں طوطوں کا کوئی غول نظر آئے تو انہیں میرا سلام کہہ دینا اور
کہنا کہ تمہارا ایک ساتھی جو قفس میں بند زندگی کے دن گزار رہا ہے تمہیں سلام کہتا
ہے -
سوداگر
سفر پر چلا گیا - اس کا گزر ایک باغ سے ہوا تو اس میں بہت سارے طوطے ٹیں ٹیں کرتے
موجود تھے ، طوطوں کا غول دیکھ کر اسے یاد آیا کہ طوطے کا پیغام پہنچانا ہے -
سوداگر
نے طوطوں کو مخاطب کرکے پنجرے میں قید طوطے کا پیغام دیا ، پیغام کا سننا تھا کہ
ایک طوطا پٹ سے زمین پر گرا اور مر گیا - تاجر کو اس بات کا بہت افسوس ہوا - واپسی
پر اس نے سارا ماجرا طوطے کے گوش گزار کردیا - اتنا سننا تھا کہ وہ طوطا بھی پنجرے
میں گرا اور مر گیا - تاجر کو اس کا بہت ہی افسوس ہوا - اس نے پنجرے سے مردہ طوطا
نکالا اور باہر پھینک دیا -
آناً فاناً مردہ طوطے نے حرکت کی اور اڑ کر ایک
اونچی شاخ پر جا بیٹھا - تاجر نے جب یہ
دیکھا تو حیران ہوا اور طوطے سے پوچھا کہ بھئی یہ تم نے کیا حرکت کی ہے ؟
طوطے
نے جواب دیا کہ وہ طوطا جو پیغام سن کر گرا اور مر گیا اس نے مجھے پیغام بھیجا ہے
... مر کر ہی آزادی حاصل کی جاسکتی ہے -
یہ
واقعہ سنانے کے بعد حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا کہ ... اس واقعہ میں یہ
پیغام پوشیدہ ہے کہ جب تک تم اپنی انا میں ابلیسیت کو مار نہیں دو گے تمہیں قید و
بند کی زندگی سے آزادی نہیں ملے گی -
حضورعلیہ الصلوة والسلام کی حدیث مبارکہ مر جاؤ مرنے سے پہلے کا بھی یہی
مفہوم ہے کہ جب تک تمہیں اپنے نفس کا عرفان نصیب نہیں ہوگا، جب تک تم اپنی انا
اپنی ذات کی نفی نہیں کرو گے زمان و مکان سے آزاد نہیں ہوسکتے - بندہ جب اپنے
شعوری علم کی نفی کر دیتا ہے تو اس پر لاشعوری دنیا کا دروازہ کھل جاتا ہے -
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بیان کرتے ہیں ...
ایک مرتبہ حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا
..." ایک پیر صاحب کے دو مرید تھے - پیر صاحب نے اپنے ایک مرید کو ایک مرغا
اور چھری دی اور کہا اسے کسی ایسی جگہ لے جا کر ذبح کرو جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھ
رہا ہو -
مرید چھری اور مرغا لے کر نکلا اور تھوڑی ہی دیر
میں ذبح کرکے لے آیا - اب پیر صاحب نے دوسرے مرید کو ایک مرغا اور چھری دے کر یہی
حکم دیا - مرید کو گئے ہوئے چوبیس گھنٹے ہوگئے –
آخر میں زندہ مرغ اور چھری کے ہمراہ واپس آگیا
اور عرض کیا حضور میں تو جہاں بھی گوشہ تنہائی میں گیا اور اس مرغ کے حلق پر چھری
رکھی تو نظر آیا کہ الله دیکھ رہا ہے اور آپ نے ایسی جگہ ذبح کرنے سے منع فرمایا
تھا جہاں کوئی دیکھ رہا ہو - "
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بیان کرتے ہیں
...
حضور
قلندر بابا اولیاؒء نے مجھے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ... ایک پیر صاحب تھے ان کے
ایک دوست تھے ، جن کا انتقال ہوگیا - کچھ عرصہ بعد پیر صاحب کو اپنے دوست کے بچوں
کا خیال آیا کہ چلو ان سے ملا جائے - تو وہ چھوٹے بیٹے کے پاس گئے - جب چھوٹے لڑکے
سے ملاقات کی تو بہت گرم جوشی سے ملے اور اپنے گھر لے گئے -
ان کے گھر میں بہت تنگدستی اور عسرت تھی - خیر
پیر صاحب نے وہاں قیام کیا اور رات کو ان سے پوچھا کہ تم کیا کام کرتے ہو - تو
چھوٹے لڑکے نے بتایا کہ والد صاحب نے بہت سمجھایا کہ پڑھ لکھ لو لیکن میں نے کوئی
توجہ نہ دی بلکہ برے لوگوں کی صحبت میں وقت گزارا - اب میں چڑی مار ہوں -
پیر
صاحب بولے کہ اچھا صبح ہم تمہارے ساتھ چلیں گے - لڑکے نے کہا کہ حضور آپ میرے والد
صاحب کے پیر صاحب ہیں - آپ کہاں جائیں گے - آپ یہاں قیام کریں - میں جلدی آجاؤں گا
لیکن پیر صاحب نہ مانے اور بولے کہ نہیں میں تو ضرور آپ کے ساتھ جاؤں گا -
صبح کو وہ پیر صاحب کو بھی ساتھ لے گئے - جال
لگا دیا - بہت چڑیاں ، طوطے اور پرندے آئے لیکن جب بھی لڑکا جال کھینچنے لگتا تو
پیر صاحب بولتے نہیں رہنے دو - وہ جو دانہ تھا پرندے سب چگ گئے - شام کو خالی ہاتھ
واپس آگئے -
کچھ
عرصہ یونہی چلتا رہا ، جال لگایا جاتا لیکن پرندوں کو پکڑنے سے پہلے ہی روک دیا
جاتا رہا - اتنے میں تمام رزق جو جمع تھا ختم ہوگیا - اب وہ قرض لے کر اپنی
ضروریات پوری کرنے لگے - ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ لوگوں نے قرض دینا بند کردیا -
پیر صاحب سے عرض کیا انہوں نے اپنے پاس سے روپے دے دیئے اور کچھ عرصہ یونہی کام
چلتا رہا - ایک دن جال لگائے بیٹھے تھے کہ ایک پرندہ آگیا - پیر صاحب نے کہا کہ
فوراً جال کھینچ لو - جال کھینچ لیا - پرندہ پکڑ کر دیکھا تو وہ باز تھا -
پیر
صاحب نے لڑکے کو سختی سے تاکید کی کہ باز کو شہر میں اچھے داموں فروخت کرنا - اس
نے باز فروخت کردیا جس سے حاصل ہونے والی رقم سے ان کے حالات اچھے ہوگئے - پھر پیر
صاحب نے فرمایا کہ تیری قسمت یعنی لوح
محفوظ میں پرندے پکڑنا لکھا تھا - چڑی بھی ایک پرندہ ہے اور باز بھی ایک پرندہ -
دونوں میں کیا فرق بس تو باز ہی پکڑا کر -اس کے بعد بڑے لڑکے کے پاس پیر صاحب چلے
گئے - وہ بھی بڑی گرم جوشی سے ملا ، اپنے گھر لے گیا - اس سے حال احوال پوچھا اس
نے کہا کہ حالات بڑے اچھے ہیں - پیر صاحب نے پوچھا آپ کیا کام کرتے ہیں ، کہا کہ
میں سرکاری اصطبل میں گھوڑوں کی خدمت پر مامور ہوں -
ایک رات انہوں نے لڑکے کو بلایا اور کہا بھئی آپ
ملازمت چھوڑ دیں - لڑکے نے کہا جی پھر کیا کریں گے - پھر سوچا والد صاحب کے پیر
صاحب ہیں اس لئے ادب کی خاطر آخر کار
انہوں نے وہاں سے استفعیٰ دے دیا - لوگوں نے کہا بھئی خوب ترقی ہوئی ہے سرکاری
ملازمت ہے آپ چھوڑ رہے ہیں –
الغرض
ایک دن پیر صاحب نے کہا دلہن کو بلاؤ اس کے زیورات لے کر کہا کہ انہیں بیچ کر اس
سے اعلیٰ نسل کا گھوڑے کا بچہ خرید لاؤ - وہ خرید لایا –
پیر
صاحب نے کہا کہ اب اس کی خوب خدمت کرو -
اس نے خوب کھلایا پلایا - گھوڑا اچھا خاصہ صحت مند اور جوان ہوگیا - انہوں
نے کہا کہ اب اسے بازار لے جا کر اچھے داموں فروخت کرو - گھوڑا اچھے داموں فروخت
ہوگیا - پیر صاحب نے کہا کہ اس رقم سے دوسرے دو یا تین گھوڑے آجائیں گے لے آؤ -
اسی طرح ان سب کی خدمت کرو اور بیچو پھر پیر
صاحب فرمانے لگے کہ تیرا رزق اگر گھوڑوں میں ہی تھا تو کیوں نہ گھوڑوں کا سوداگر
بن ، گھوڑوں کا ملازم ہی کیوں - اس طرح وہ گھوڑوں کا سوداگر بن گیا -
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔