Topics

حنین جذع کا واقعہ


                عربی میں حنین مشتاق کی اس آواز کو کہتے ہیں جو محبوب کے فراق میں اس کے منہ سے نکلے اور جذع کھجور کے کٹے ہوئے تنے کو کہتے ہیں۔

                رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں جمعہ کے روز کھجور کے خشک درخت سے ٹیک لگا کر خطاب فرماتے تھے ۔ ایک انصاری صحابیہ نے بہترین لکڑی سے منبر تیار کرا کے مسجد نبوی میں بھیجا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ خطبہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر رونق افروز ہوں۔ جمعہ کے روز جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو کھجور کا تنا رونے لگا ۔ اس کا رونا ایسا درد ناک تھا جیسے اونٹنی اپنے بچے سے بچھڑ کربلکتی ہے، کوئی بچہ اپنی ماں سے جدا ہو کر روتا ہے ۔ اس کی فریاد اتنی غم ناک تھی کہ لگتا تھا کہ شدت غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ۔ مسجد نبوی میں موجود تمام صحابہ نے اس آواز کو سنا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر آئے ، درخت پر اپنا دست شفقت رکھا اور پھر اسے اپنے سینے سے لگا یا ۔کھجور کا تنا چپ ہو گیا ۔ مگر روتے ہوئےبچے کی طرھ ہچکی لگی ہوئی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:

                  اگر تو پسند کرے تو میں تیرے لئے دعا کروں اور اللہ تعالی تجھے جنت الفردوس میں اس مقام پر جگہ دے جہاں میں ہوں ۔ تو وہاں ابد الآ باد تک رہے ۔ انبیا اور اولیا تیرے پھل کھایا کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے جواب میں کھجور کے تنے نے کہا ۔   ایسا ضرور فرمائیے۔  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے اس تنے کو مسجد میں دفن کرا دیا۔

                نباتات زندہ ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور بھی ہیں۔ وہ مکمل حواس رکھتے ہیں۔ وہ ہماری محبت و نفرت کو پہچانتے ہیں اور اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ انتقال خیال کے علوم سے پودے پوری طرح واقف ہیں۔ پودے دیکھتے ہیں، بولتے ہیں، سوچتے ہیں، یاد رکھتے ہیں اور ہمارے مخفی خیالات پڑھ لیتے ہیں۔

                سائنسی تجربات نے  یہ ثابت کیا ہے کہ پودے شعور رکھتے ہیں اور اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ درخت اور پودے پاک طینت لوگوں کی قربت سے خوش ہوتے ہیں۔ پیچیدہ اور منفی خیالات رکھنے والے افراد کی قربت انہیں ناگوار گزرتی ہے۔ کر لین فوٹو گرافی کے تجربات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ محبت کا ہاتھ پھیرنے سے پودے خوش ہوتے ہیں اور ان کے اردگرد موجود روشن ہالہ کی طاقت بڑھ جاتی ہے ۔ پودوں کے لئے دل میں پیار و محبت کے جذبات رکھنے والا فرد جب پودا لگاتا ہے ، اس کی آبیاری اور دیکھ بھال کرتا ہے تو پودوں کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے ۔ کیلیفورنیا میں ایک نرسری کے مالک نے برسوں کی محنت سے تھور(Cactus) کی ایک قسم پیدا کی ۔ جس پر کانٹے نہیں ہوتے ۔ نرسری کے مالک نے پودوں سے مخاطب ہو کر انہیں تسلی دی کہ وہ پودے کی حفاظت کرے گا ۔ اس کی ہر طرح کی ضروریات کا خیال رکھے گا ۔ پودے کو اب کانٹے اگانے کی ضرورت نہیں ۔ طویل عرصے تک وہ پودے کو یقین دلا تا رہا ۔ وہ پودے سے محبت بھرے انداز میں بات کرتا تھا ۔ اس کی آبیاری اور صفائی وغیرہ کا خیال رکھتا تھا ۔ جب پودے کو یقین و اطمینان ہو گیا تو بغیر کانٹوں والی نئی قسم پیدا ہو گئی ۔

کینیڈا کے سائنسدانوں نے اوٹاوا یونیورسٹی  میں     تجربات کئے کہ اگر گندم کے بیجوں کو Herts 5000کی آواز سنائی جائے تو وہ بہت جلد اگتے ہیں۔ پودوں پر موسیقی کے اثرات پر تجربات گئے گئے تو یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اونچی آواز والی موسیقی کے شور سے پودے میوزک کے منبع کی مخالف سمت جھک جاتے ہیں، جبکہ نرم و لطیف موسیقی پودوں میں سر شاری اور مستی کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔

                ملزموں کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے لئے ایک مشین ایجاد ہوئی ہے ۔ جسے جھوٹ پکڑنے والی مشین کہا جاتا ہے ۔ یہ مشین جھوٹ یا سچ بولنے کی صورت میں جسم میں ہونے والی تبدیلیوں مثلا خون کے دباؤ تنفس کی رفتا ر، نسوں اور پٹھوں کے کھچاؤ، تناؤ اور جلد پر دوڑنے والی خفیف کرنٹ میں ہونے والی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے ۔ ایک محقق نے پودے کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرنے کے لئے یہ مشین استعمال کی ۔ اس نے مشین کی تاریں پودے سے جوڑ دیں اور تبدیلیوں کے اتار جڑھاؤ کے اثرات پولی گراف مشین پر گراف کی صورت میں حاصل کئے ۔ پودے کو پانی دیا گیا ۔ گراف پر پودے کے احساسات پر سکون لکیروں کی صورت میں ظاہر ہوئے ۔ محقق کے ذہن میں خیال آیا کہ پتے کو جلا نا چاہیے ۔ خیال پودے پر منکشف ہوا اور پودے نے خوف کا اظہار کیا ۔ پولی گراف کا پن یکدم گراف کی بلندی تک پہنچ گیا ۔ لیکن جب اس نے جھوٹ موٹ ماچس جلائی تو پودے نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ۔ اس محقق کا پودوں سے لگاؤاور تعلق اس قدر تھا کہ ایک مرتبہ اس کی انگلی زخمی ہوئی ۔ زخم کی تکلیف اور درد کو پودے نے محسوس کیا اور گراف پر اپنا رد عمل ظاہر کر دیا۔

                پریزیڈنسی کالج کلکتہ میں فزکس کے پروفیسر ریڈیو ریسرچ کے ماہر تھے ۔ دھات ( مادے کی سخت ترین قسم ) اور گوشت کے پٹھوں ( مادے کی نرم قسم ) کے تناؤ پر تحقیق کے دوران انہیں پودوں کے Tissuesپر تحقیق کرنے کا خیال آیا ۔ تحقیق سے انہوں نے ثابت کیا کہ پودے کے ٹشوز پر بھی تناؤ کھنچاؤکے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کلوروفام سونگھنے سے بے ہوش ہو جاتے ہیں اور تازہ ہوا انہیں ہوش میں لے آتی ہے ۔ پودے چھیڑ چھاڑ سے تھکن محسوس کرتے ہیں۔

                قازقستان یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے جب دھاتوں کی تلاش کے لئے پودوں سے تعاون چاہا ہو انہیں ہدایت کی کہ مٹی میں کوئی دھات موجود ہو تو وہ بجلی کی طرح جھٹکا دیں ۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔

                پودوں پر ریسرچ کرنے والے ایک ماہر نے تجربات سے ثابت کیا کہ انسان اور نباتات کے اطلاعاتی نظاموں کے درمیان تعلق ہے۔ اطلاعاتی نظام بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ قرآن میں ہے:

ترجمہ: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین میں ہر مخلوق اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور اڑتے ہوئے پرندے اور ہر ایک کو اپنی اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے اور اللہ کو ان سب کے اعمال کا پورا پورا علم ہے ۔ ( النور۔ ۴۱)

ترجمہ : ساتوں آسمانوں اور زمین  میں جتنی بھی موجودات ہیں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو ۔ لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کرنے کو سمجھتے نہیں ۔ ( اس لئے کہ تم اس کے بارے میں تدبر نہیں کرتے) تحقیق وہ ہے تحمل والا بخشنے والا ۔  ( بنی اسرائیل ۔ ۴۴)

ترجمہ: جو کچھ آسمانوں اور زمین  میں ہے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ۔ اس کی حکمت ہر چیز پر غالب ہے۔ آسمان اور زمین اس کی ملکیت ہیں ۔ حیات و ممات اور ہر چیز پر قادر ہے ، وہی ابتدا ہے ، وہی انتہا ہے ، وہی ظاہر ہے ، وہی باطن ہے ، وہ ہر چیز کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے  ۔( الحدید ۱۔۳)

                قرآن پاک میں کئی جگہ اللہ نے یہ بتایا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں موجود ہر شے باشعور ہے اور انہیں اپنی نماز اور تسبیح بیان کرنے کا طریقہ معلوم ہے ۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام رحمت اللعالمین ہونے کی حیثیت سے آسمانوں اور  میں کی ہر مخلوق سے واقف ہیں۔ ہر مخلوق یہ مانتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری لئے رحمت ہیں ۔ درخت نے جب یہ دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے ہیں تو اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی شاق گزری اور اس نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا ۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا دریائے رحمت جوش میں آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکڑی کے تنے پر دست شفقت پھیرا اور اس سے فرمایا ۔

                  اگر تو چاہے تو میں تیرے لئے دعا کروں اور اللہ تعالی تجھے جنت الفردوس میں اس مقام پر جگہ دے ، جہاں میں ہوں ۔ تو وہاں ابدالآباد تک رہے ۔ انبیا اور اولیا تیرے پھل کھایا کریں۔

                باشعور درخت کا تنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عنایت پر چپ ہو گیا ۔ اس معجزہ سے منکشف ہو تا ہے کہ ہر درخت بولتا ہے ، سنتا ہے ، اس کے اندر قربت اور دوری کا  احساس ہے۔ انسانوں کی طرح درخت خوش ہوتا ہے اور روتا ہے اور دعاکی درخواست بھی کرتا ہے۔

Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔