Topics
اٹک جاتے ہوئے راستے میں سوچا کہ اس گاڑی کو پیچھے سے دیکھنے والوں کو کیا
محسوس ہو رہا ہو گا۔ ایک عام سی گاڑی جس میں پانچ افراد سوار ہیں یا ایک بہت معزز
ہستی کی سواری والی گاڑی۔ مجھے مرشد کریم کی کہی ہوئی ایک بات دھیان میں آئی۔
کراچی میں ایک بار وہ ائیر پورٹ گئے۔ وہاں جاتے ہوئے راستے میں دو رویہ پولیس کھڑی
تھی اس روز وزیراعظم یا صدر نے وہاں آنا تھا۔ سیکیورٹی کے انتظامات دیکھ کر میرے
مراد کے ہمراہ ایک صاحب نے کہا:
’’دنیا کے حاکموں کے لئے تو نشانات امتیاز ہوتے ہیں۔ اسی طرح باطنی دنیا کے
حاکموں کے لئے بھی کوئی نشان ہونا چاہئے۔ کوئی بیج یا کوئی کارڈ وغیرہ۔‘‘
لطیف بھائی نے بہت اچھی بات کہی۔ انہوں نے کہا:
’’اگر ہمیں بیج وغیرہ لگا کر نمایاں کر دیا جائے تو ہمارا ائیرپورٹ تک پہنچنا ہی
دوبھر ہو جائے۔ لوگ قطار اندر قطار ہاتھوں میں درخواستیں لئے کھڑے ملیں۔‘‘
اس پر فرمایا:
’’فقیر بھی بادشاہ ہی ہوتا ہے۔ صرف اس کا تاج نہیں ہوتا۔‘‘
فقیر کی بادشاہت کے خیال سے جانے کیسے گفتگو حضور قلندر بابا اولیاء کے بازو
پر بندھے تعویذ تک جا پہنچی۔ اس پر بتایا کہ:
’’اس تعویذ میں دراصل تین تعویذ ہیں۔ ایک وارث شاہ صاحبؒ، دوسرا عبدالرحیم صاحبؒ
نے لکھ کر دیا تھا اور تیسرا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عطا کیا تھا۔‘‘
ہم نے حیرت کا اظہار کئے بغیر دریافت کیا:
’’حضورﷺ نے؟‘‘
فرمایا: ’’جی ہاں۔ انہوںﷺ نے جسمانی طور پر مرحمت فرمایا تھا۔‘‘
پھر بتانے لگے کہ:
’’حضور قلندر بابا اولیاء نے اسی سال سے زیادہ عمر پائی۔ یہ دونوں تعویذ ان کے
پاس ان کے بچپن سے تھے۔ بھئی اتنی عمر تک ان تعویذوں کی حفاظت کرنا کوئی معمولی
بات نہیں ہے۔ پہلے پہل تو ان کی والدہ نے ان کا خیال رکھا ہو گا۔ پھر وہ خود ان کی
حفاظت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ جب اماں بی یعنی اپنی بیگم سے ان کا کپڑا بدلواتے
تو اپنی نگاہوں کے سامنے۔ وہ بہت جز بز ہوا کرتیں کہ تم مجھ پر اعتماد نہیں کرتے۔
حضور قلندر بابا اولیاء کی وفات کے بعد ان کے ایک عزیز نے وہ تعویذ تبرکاً مانگ کر
پہن لیا۔ وہ لکھ پتی سے ہزار پتی ہوئی اور پھر جب روٹی کے لالے پڑ گئے تو وہ تعویذ
لا کر واپس اماں بی کو پیش کیا۔ وارث شاہؒ، عبدالرحیمؒ، فضل الرحمٰن گنج مراد
آبادیؒ، نانا تاج الدین بابا اولیاء اور شرڈی کے سائیں بابا یہ پانچوں ایک ہی دور
میں آئے تھے۔ یہ بہت زرخیز اور عطا کا دور تھا۔ ایک ہی وقت میں اتنے بلند پایہ
لوگوں کا عطا ہونا قدرت کی فیاضی تھی۔‘‘
پھر بتایاکہ:
’’فضل الرحمٰن گنج مراد آبادیؒ کے خلیفہ مجاز ان سے ملنے آئے تھے۔ وہ بہت ضعیف
العمر تھے۔ ان کے ہمراہ بہت سے لوگ بھی آئے تھے۔‘‘
فرمایا: ’’میں انہیں عزت و احترام سے ملا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں تمہیں دیکھنے
آیا ہوں۔ تم ڈیوٹی پر ہو۔ مجھ سے بہت سے لوگ ملے اور یہی کہا۔ ہم تمہیں دیکھنے
آئے ہیں تم ڈیوٹی پر ہو۔‘‘
ہمارے ذہنوں میں یہ سوال مچل کر ہی رہ گیا۔ کہ ڈیوٹی، کیسی ڈیوٹی؟ کہتے ہیں کہ
قلندر کے سامنے انسان وہی کچھ کہہ سکتا ہے جو وہ سننا چاہتے ہوں وہ کچھ کہہ نہیں
پاتا جو وہ خود سنانا تو چاہتا ہو مگر وہ سننے پر آمادہ نہ ہوں۔ انہوں نے خود ہی
اس کا جواب دے دیا:
’’لوگوں کی خدمت کرنا ہی یہ ڈیوٹی ہو گی تبھی تو کروا رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔