Topics
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اسلام کا نور تیزی سے پھیلا ۔ کفار مکہ اس صورت
ھال سے پریشان تھے ۔ انہوں نے مدینہ پر سیاسی تسلط قائم کرنے کے لئے یہودیوں کے
ساتھ جنگی معاہدہ کیا اور مدینہ کے گرد و نواح میں آباد قبائل کو اپنا تحادی بنا
لیا ۔ مدینہ کے تجاری قافلے ان گزر گاہوں سے نہیں گزر سکتے تھے کہاں اتحادی قبایل
آباد تھے۔ اس طرح مدینہ اقتصادی محاصرے میں آ گیا ۔ منصوبے کے اگلے مرحلے میں
منافقوں کے سربراہ عبداللہ بن ابی نے قریش مکہ کے ساتھ مل کر قبیلہ بنو مصطلق کو
مسلمانوں پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا تا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حملہ آوروں سے نمٹنے کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے جائیں اور ان کے پیچھے مدینہ
میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کر دیا جائے۔
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کو
سازش کا علم ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق کے متوقع حملے کی پیش
بندی کے لئے احکامات صادر کئے اور جوابی کاروائی کے لئے تیس افراد پر مشتمل دستہ
ترتیب دیا اور بنو مصطلق کے علاقے میں تشریف لے گئے ۔ بنو مصطلق اس صورت حال سے
نبرد آزما ہونے کے لئے تیار نہ تھے ۔ دو سو افراد پر مشتمل بنو مصطلق کا لشکر
شکست سے دو چار ہوا اور پورا قبیلہ اسیر ہو گیا ۔
سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام ایک
گروہ کی قیادت عبداللہ بن ابی کے سپرد کر کے اپنے ہمراہ محاذ جنگ پر لے گئے تھے
اور اس طرح منافقوں کی جماعت مدینہ میں سر براہ کے بغیر رہ گئی ۔ اس حکمت عملی کا
یہ نتیجہ نکلا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی غیر موجودگی میں مدینہ پر حملہ کا
منصوبہ نا کام ہو گیا ۔
قیدیوں میں قبیلہ کے سربراہ کی
بیٹی برہ بھی
شامل تھیں۔ غنائم اور قیدی مسلمانوں میں تقسیم ہوئے تو برہ حضرت ثابت بن قیس کے
حصے میں آئیں ۔ برہ نے بے بسی کے عالم میں روتے ہوئے التجا کی میں ہر گز کنیز
نہیں ہوں ۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے زر فدیہ اد اکر کے انہیں آزاد کرا دیا
اور آپ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کی زوجیت میں آ گئیں ۔ ازواج مطہرات میں آپ
حضرت جویریہ بنت حارثؓ کے نام سی پہچانی جاتی ہیں۔
قبیلہ بنو مصطلق کے سارے لوگ حضرت
جویریہؓ کے رشتہ دار تھے اس نسبت سے صحابہ کرامؓ نے تمام قیدیوں کو آزادکر دیا ۔
قبیلہ کے لوگ مسلمانوں کی جوانمردی اور لطف و عنایت اور حسن سلوک سے متاثر ہو ئے
اور سب مسلمان ہو گئے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اور اسلامی لشکر ابھی اسی مقام پر قیام پذیر تھے کہ دو مسلمان بھائیوں میں
کسی بات پر جھگڑا ہو گیا ۔ پست ذہن عبداللہ بن ابی نے اس معمولی واقعہ کا فائدہ
اٹھا کر مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ وہ
اسلامی لشکر کے انصار دستہ میں پہنچ گیا اور کہا ، میں آج
کے دن سے پہلے مر جاتا تو اچھا تھا ۔ آج سے زیادہ رسوا کن دن میں نے اپنی زندگی
میں نہیں دیکھا۔ تم نے مہاجر مسلمانوں کو ٹھکانہ دیا ۔ اپنا مال و اسباب ان پر لٹا
دیا ۔ ان کی خاطر اپنے بیوی بچوں کو معاشی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ۔ اس کا صلہ
یہ ملا کہ مدینہ میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے اور تم اقلیت بن گئے ہو اور اب وہ
تمہارے مقابلے پر آ گئے ہیں ۔ میری مانوں تو انہیں مار مار کر مدینے سے نکال دو
تا کہ انہیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائے ۔
انصار مدینہ کے دل میں اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے بد گمانی پیدا کرنے میں
عبداللہ بن ابی منافق کو جب خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو ئی تو وہ مہاجر دستے کے پاس
گیا اور ان سے کہا ، تم لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ آئے ۔ کٹھن
سفر کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اسلام کے نام پر تم نے زندگی کی آسائشوں کو چھوڑا اور
بدلے میں تمہیں جھڑکیاں اور بدگمانیاں ملیں۔ عبداللہ بن ابی نے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا ، اس دفعہ تو تم سرا سر گھاٹے میں رہے، تم لوگ مال
غنیمت سے محروم کر دئے گئے ہو۔ انصار کے پاس گھر بار اور ذرائع معاش موجود ہیں،
لیکن زیادہ تر مہاجرین مسلمان تہی دست ہیں اور انصاریوں پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ مال
غنیمت نہ ملنے سے جتنا نقصان تم لوگوں کو پہنچا ہے انصاریون کو اتنا گھاٹا نہیں
ہوا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے مسلمانوں کو بد گمان کرنے کے لئے اس نے کہا ، محمد
صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلے کے سردار سے
نا تا جوڑ لیا ہے اور تم لوگ بغیر کچھ لئے دئیے اپنے قیدی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے
۔ اب جبکہ مدینہ واپس جا رہے ہو تو تمہارے ہاتھ اسی طرح خالی ہیں جس طرح اس پر
مشقت سفر کے لئے روانہ ہوتے وقت تھے ۔
سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام
کو منافق عبداللہ بن ابی کی شر انگیزی کا پتہ چلا تو بے حد کبید ہ خاطر ہوئے اور
اپنے تدبر اور کلام نبوت سے بھائی چارہ اور اخوت کا درس دیا اور فوری طور پر کوچ
کا حکم جاری ہوا۔ مسلمانوں کا قافلہ روانہ ہو گیا ۔
واپسی میں قافلے نے ایک جگہ پڑاو
ڈالا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس سفر
میں شریک تھیں ، ضرورت کے تحت اونٹ سے اتریں ، قافلہ جب دوبارہ روانہ ہوا تو کجاوے
کا پردہ گرا ہوا تھا ۔ قافلہ والے حضرت عائشہؓ کی موجودگی سے لا علم تھے۔ حضرت
عائشہؓ قافلے سے پیچھے رہ گئیں۔
حضرت صفوان بن معطلؓ قافلہ کے پیچھے چلنے کی ذمہ داری انجام دے رہے تھے ۔
قافلہ کی گری پڑی اشیائ کو سنبھالنا اور مالک تک پہنچا دینا ان کے ذمہ تھا ۔ وہ جب
پڑاو کے مقامتک پہنچے تو انہیں وہاں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو قافلے سے
بچھڑا ہوا پایا ۔ سیدہ عائشہؓ نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ حضرت صفوان بن معطلؓ
نے سفر کے لئے انہیں اپنا اونٹ پیش کیا اور خود اونٹ کی لگا تھام لی ۔
اسلامی کاروان تیزرفتاری سے سفر کرتے ہوئے مدینہ پہنچ گیا ، حضرت صفوانؓ ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ہمراہ بعد میں مدینہ پہنچے ۔منافقین سیدنا حضور
علیہ الصلوۃ والسلام کے رفقاکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بد گمان کرنے کا کوئی
موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔ انہیں اپنے سیاہ باطن کی اظہار اور محمد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا لگانے کا موقع مل گیا ۔ عبداللہ بن ابی منافق
اپنے ہمنوا ٹولے کے ہمراہ صبح سے شام تک مدینہ کی گلی کوچوں میں فتنہ پھیلانے میں
مصروف رہتا ۔ عصمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن اطہر پر بہتان تراشی کا طوفان
اٹھا دیا گیا ۔ یہودی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے تھے ۔ غزوہ بنی
مصطلق کے موقع پر انصار اور مہاجر مسلمانوں کے درمیان جھگڑے اور سیدہ عائشہؓ پر
بہتان کی تشہیر میں یہودیوں نے کوئی وقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔
حضرت حسان بن ثابتؓ بڑے قادر
الکلام شاعر تھے ۔ منافقوں نے مہاجر و انصار کی عصبیت کو بھڑکایا اور حضرت صفوان
بن معطلؓ کی ہجو کہنے پر اکسایا ۔ انہوں
نے تخیلات کے زور پر ایک موہوم واقعہ کو کچھ اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ
دیگر سادہ لوح مسلمان بھی شیطانی وسوسے سے محفوظ نہ رہ سکے ۔ سیدنا علیہ الصلوۃ
والسلام شدید آرزدہ خاطر ہوئے ۔
اسلامی تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے
کہ یہ صورت حال تقریبا ایک ماہ تک رہی اور اس دوران حضرت عائشہ صدیقہؓ پر شدید
ذہنی کرب و الم کے لمحات گزرے ۔ یہاں تک کہ ایک دن سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام ان
کے پاس پہنچے اور فرمایا عائشہ ! جانتی ہو کہ لوگ تمہارے بارے میں کیا
کہہ رہے ہیں؟ حضرت عائشہؓ کی آنکھوں سے
اشکون کا سیل رواں ہو گیا اور انہوں نے بڑی مشکل سے کہا ، یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سرا سر جھوٹ ہے
۔ افترا ہے ۔
اسی لمحہ وحی نازل ہوئی اور حضرت
عائشہ صدیقہؓ کی بے گناہی اور برات کے باراے میں سورہ نور کی آیات نازل ہوئیں۔
ترجمہ: جن لوگوں
نے یہ طوفان ( حضرت عائشہؓ کی نسبت) برپا کیا ہے وہ تم میں سے ایک گروہ ہے ۔ تم اس
کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو بلکہ تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے ۔ ان میں سے ہر
شخص کو ، جتنا کسی نے کچھ کیا تھا گناہ ہوا اور ان میں جس نے اس میں سب سے بڑا حصہ
لیا ہے سخت سزا ہو گی ۔ جب تم نے یہ بات سنی تو ایمان والے مرد اور عورتون نے نیک
گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں ایسا کہا کہ صریح جھوٹ ہے ۔ یہ لوگ اس پر چار گواہ
کیوں نہیں لائے ۔ سو جس صورت میں یہ لوگ گواہ نہیں لائے ۔ بس اللہ کے نزدیک یہ
جھوٹے ہیں۔ اگر تم پر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو دنیا اور آخرت میں جس شغل میں
تم پڑے ہوئے تھے اس میں تم پر سخت عذاب واقع ہو تا ۔ جب کہ تم اس کو اپنی زبانوں
سے نقل در نقل کر رہے تھے اور اپنے منہ سے ایسی باتیں کہہ رہے تھے جس کی تم کو خبر
نہیں اور تم اس کو بلکی بات سمجھ رہے تھے ۔ حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری
رات ہے ۔ اور تم نے جب اس کو سنا تھا تو یوں نہیں کہا کہ ہم کو زیبا نہیں کہ ہم
ایسی بات منہ سے نکالیں ۔ یہ تو برا بہتان ہے ۔ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ پھر
ایسی حرکت مت کرنا اگر تم ایمان والے ہو اور اللہ تم سے صاف صاف احکام بیان کرتا
ہے اور اللہ بڑا جاننے والا ہے ، بڑا حکمت والا ہے
( آیت ۱۱۔۲۹)
اللہ کی طرف سے حضرت عائشہؓ کے لئے برات کی یہ آیتیں نازل ہونا بلا شبہ بہت
بڑا اعجاز ہے۔
اس واقعہ سے دین اسلام میں خواتین کا مقام اور ان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔
اللہ تعالی نے مردو خواتین کے اعمال کو برابری عطا کی ہے۔
قرآن نے جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کی برات کا تذکرہ کیا ہے اس طرح حضرت
عائشہؓ کے بارے میں قرآن میں آیتیں نازل ہوئی ہیں۔
ترجمہ: اس طرح ہم
نے یوسف کے لئے اس سر زمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی
تعلیم دینے کا انتظام کیا اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے ۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں
ہیں۔ اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا۔
اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔
جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اس پر
ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی آ جا یوسف نے کہا ، خدا کی پناہ میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی ۔ ایسے ظالم
کبھی فلاح نہیں پایا کرتے ۔ وہ اس کی طرف بڑھتی اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھتا اگر
اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا ایسا ہوا ، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور
کر دیں۔ درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ آخر کار یوسف اور وہ آگے
پیچھے دروازے کے طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یوسف کی قمیض پھاڑ دی ۔ دروازے پر
دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی ۔ کیا سزا ہے اس
شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ
قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے ۔ یوسف نے کہا یہ مجھے پھانسنے کی کوشش کر
رہی تھی ۔ اس عورت کے اپنے قبیلے والوں میں ایک شخص نے شہادت پیش کی کہ اگر یوسف
کی قمیض آگے سے پھٹی ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا اور اگر اس کی قمیض پیچھے سے
پھٹی ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچا ۔ جب شوہر نے دیکھا کہ یوسف کی قمیض پیچھے سے
پھٹی ہوئی ہے تو اس نے کہا یہ تم عورتوں کو چالاکیان ہیں واقعی بڑے غضب کی
ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ یوسف اس معاملے سے
درگذر کر اور اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ تو ہی اصل میں خطا کار تھی ۔ ( سورہ یوسف)
ترجمہ: اے
انسانوں ! تم سب کو اللہ نے ایک ہی مرد اور عورت سے پید اکیا ہے اور تم کو قبیلوں
اور خاندانوں میں اس لئے بنایا تاکہ ایک دوسرے کو پہنچان سکو ، یقینا اللہ کے
نزدیک وہ شریف ہے جو پر ہیز گار ہے ۔
(سورہ الحجرات)
ترجمہ: تحقیق
مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں
اور قرآن پڑھنے والے مرد اور قرآن پڑھنے والیاں اور سچ بولنے اور سچ بولنے
والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات دینے والے اور خیرات
دینے والیاں اور روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے والیاں اور نگہبانی کرنے والے شرم
گاہ اپنی کی اور نگہبانی کرنے والیاں اور یاد کرنے والے اللہ کے بہت اور اور یاد
کرنے والیان ، تیار کیا ہے اللہ نے ان کے واسطے بخشش اور اجر بڑا۔ (سورۃ احزاب۔۳۵)
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔