Topics
قلندر
بابا اولیاؒء یہ نام آج زبان زد خاص و عام ہے - جس مبارک و مسعود ہستی کا یہ خطاب
ہے ہم اسے " اماں " کہہ کر پکارتے تھے - اس ہستی سے تعارف تو اول روز سے
ہی ہے کہ ہم نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی اور جس ماحول میں پرورش پائی اس میں
قلندر بابا اولیاء کی ہستی گھنے درخت کے سایہ کی طرح ہر طرف محیط تھی تاہم یہ نام
قلندر بابا اولیاء میں نے پہلی مرتبہ سنا نہیں تھا بلکہ پڑھا تھا - اس عالم فانی
میں شاید میں اپنی عمر کی دوسری دہائی میں ہوں گا جب میں نے اماں کی ایک چھپی ہوئی
تصویر دیکھی اس تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا قلندر بابا اولیاء -"اماں "
کا یہ نام میرے لئے نیا تھا کیونکہ ہم خود انہیں اماں کہتے تھے ہمارے ماں باپ
انہیں بھائی صاحب کہتے تھے -بدر صاحب ، محسن صاحب ، جمال صاحب اور دیگر کئی حضرات
انہیں حضور بھائی صاحب کہتے تھے - ڈاکٹر صاحب باوا کہتے تھے - ان کے صاحبزادے شمشاد
بھائی ، رؤف بھائی اور صاحبزادیاں سلمیٰ باجی اور تسلیمہ باجی انہیں ابا کہتی تھیں
- بابا صاحب کی اہلیہ محترمہ ، ہماری سب کی اماں جی یا تو کوئی نام لئے بغیر ان کا
ذکر کرتی تھیں یا تمہارے بھائی صاحب ، تمہارے ابا اور ہم بچوں سے مذاق میں تمہاری
اماں کہہ کر ذکر کیا کرتی تھیں - لیکن میرے سامنے کبھی کسی نے اماں کو قلندر بابا
اولیاء کہہ کر نہیں پکارا تھا - تصویر ہمارے ابا نے مجھے دکھائی تھی میں ابا کے
برابر میں بیٹھا ہوا تصویر دیکھ رہا تھا اس وقت اماں شاید ہمارے گھر میں نہیں
تھے میں نے سر اٹھا کر ابا کی طرف دیکھا اور پوچھا یہ کیا لکھا ہوا ہے -وہ
مجھے دیکھ کر مسکرائے مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ کس پیار بھرے انداز میں مسکرائے
تھے میں ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا اور وہ مجھے دیکھ دیکھ کر مسکراتے
رہے – شاید میرا یہ سوال پوچھنا ان کے لئے بہت خوشی کا باعث تھا اور ان کی اندرونی
پرمسرت کیفیات کا اظہار ان کی خوبصورت مسکراہٹ سے ہورہا تھا لیکن میں یہ سمجھا کہ
شاید میں نے کوئی غلط سوال کرلیا ہے لہٰذا اپنی جھینپ مٹانے کو ادھر ادھر دیکھتے
ہوئے میں بھی مسکرانے لگا اب وہ گویا ہوئے یہ اماں کا نام ہے - میں نے قدرے حیرت
سے کہا یہ اماں کا نام ہے ؟ اماں کا نام تو عظیم ہے - انہوں نے کہا کہ یہ بھی اماں
کا نام ہے - بات آئی گئی ہوگئی اس کے بعد بھی جو بھی اماں سے ملنے آتا کہتا بھائی
صاحب سے ملنا ہے یا حضور بھائی صاحب سے ملنا ہے - کچھ عرصہ گزرنے
کے بعد یہ تصویر کتاب تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوری میں چھپی اب میں نے پھر اماں
کی تصویر کے نیچے قلندر بابا اولیاء لکھا ہوا دیکھا - مجھے اچھی طرح یاد ہے ابا
اور کبھی کبھار کوئی اور صاحب ساتھ بیٹھ کر کتاب " تذکرہ بابا تاج الدین
ناگپوری " کا ڈکٹیشن اماں سے لیتے - اماں ناظم آباد کے مکان میں باہر صحن میں
تخت پر کبھی بیٹھے ہوئے اور کبھی تکیہ سے ٹیک لگائے نیم دراز آہستہ آہستہ بولتے
جاتے اور ابا لکھتے جاتے - ہم آتے جاتے یہ کاروائی دیکھتے تھے کبھی کبھار میں
بھی تخت پر اماں کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور اماں کو بولتے ہوئے اور ابا کو لکھتے
ہوئے دیکھتا رہتا - کبھی کبھی اماں کسی لفظ یا جملے سے مطمئن نہیں ہوتے تھے اور
ایک لفظ یا جملے کو بار بار کٹوا کر لکھواتے - ڈکٹیشن کے دوران کبھی وہ اپنے
نانا تاج الدین کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو یاد کرتے ہوئے گہری سوچ میں گم ہوجاتے -
میں یہ سمجھتا کہ اماں شاید کوئی مناسب لفظ لکھوانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور
یہ سوچتے ہوئے کبھی کبھی میں خود بیچ میں بول پڑتا - میرے بولنے سے ان کی محویت پر
اثر پڑتا تھا لیکن اس طرح دخل در معقولات پر اماں نے کبھی مجھے ڈانٹا نہیں –
ایک
مرتبہ تو کمال ہی ہوگیا اماں بار بار کوئی لفظ کٹوا کر دوبارہ لکھوا رہے تھے کہ
میں بیچ میں اپنی دانست میں کوئی متبادل لفظ بول پڑا اور اماں کہنے لگے ہاں یہ
ٹھیک رہے گا - ابا نے لکھ لیا - اب مجھے یاد نہیں کہ وہ لفظ کیا تھا اور یہ کہ
واقعی وہ لفظ کتاب میں شامل ہوا یا اس طرح محض ایک بچے کی دلجوئی مقصود تھی
- لیکن میں تو اس وقت اماں کی اس بات سے بہت خوش ہوا ، خوشی میں دوڑتا ہوا
اپنی امی کے پاس گیا اور انہیں اپنے اس کارنامے کے بارے میں بتایا -
"
تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوریؒ " کے آخر میں ایک منقبت شائع ہوئی ہے - منقبت
مکمل طور پر کس وقت لکھوائی گئی یہ تو یاد نہیں لیکن اس کا ایک مصرعہ میں نے اپنے
سامنے بابا صاحب کو لکھواتے ہوئے دیکھا وہ تھا
یہ
آپ ہی کا تو نواسہ ہے دریا پی کر جو پیاسا ہے
شاید
مزید اشعار بھی اسی نشست میں لکھوائے گئے ہوں لیکن مجھے صرف یہ ہی یاد ہے غالباً
اس وجہ سے بھی یاد رہ گیا ہو کہ منقبت کے باقی اشعار کی نسبت اس وقت یہ مصرعہ میرے
لئے زیادہ آسان تھا -اس وقت بھی میں بیچ میں بولا اور اماں سے کہنے لگا اماں دریا
تو بہت بڑا ہوتا ہے کوئی اس کا سارا پانی پی سکتا ہے ؟ اس وقت صحن میں اماں
کے تخت کے گرد تین چار حضرات موجود تھے ایک ابا ایک جمال صاحب اور باقی یاد نہیں
-اماں میری بات سن کر مسکرائے باقی حضرات بھی مسکرانے لگے لیکن کوئی کچھ بولا نہیں
پھر اماں ہنستے ہوئے کہنے لگے ..." بھئی ایک آدمی اپنی ساری عمر میں ایک دریا
کے برابر پانی تو پی ہی لیتا ہوگا -"
بس اسی طرح ہنستے بولتے وقت گزرتا رہا - پھر ہم
نے دیکھا کہ ہمارے ابا نے اخبار میں لکھنا شروع کیا - اس کی ابتداء بھی مجھے کچھ
کچھ یاد ہے شروع میں ایسا ہوتا تھا کہ چند خطوط کے جواب تو ابا خود لکھ لیا کرتے
تھے لیکن بعض خطوط الگ کرلیتے تھے اور بعد میں کسی وقت یہ خطوط اماں کو پڑھ کر
سناتے اور اماں خود ان خطوط کے جواب ابا کو لکھواتے - اس وقت ابا کا کالم دو طرح
کے خطوط پر مشتمل ہوتا تھا ایک تو مسائل ، بیماریاں وغیرہ اور دوسرے خوابوں کی
تعبیر - مسائل اور بیماریوں سے متعلق تو کسی خط کا جواب ابا خود لکھتے اور کوئی خط
اماں کو دکھاتے لیکن کافی عرصہ تک یہ ہوتا رہا کہ خواب کی تعبیر کے لئے آنے والے
ہر خط کا جواب اماں ہی لکھواتے تھے - اس کا طریقۂ کار یہ ہوتا کہ پہلے اماں
خواب کی مجموعی تعبیر لکھواتے پھر تفصیلاً خواب میں دیکھی ہوئی باتوں کو بیان کرتے
ہوئے ان کا تجزیہ لکھواتے رفتہ رفتہ اماں نے خواب کی تعبیر بھی ابا سے لکھوانی
شروع کی اور انہیں ہدایت کی کہ جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے وہ مجھ سے پوچھ لیا
کریں پھر کچھ عرصے بعد فرمایا ... خواجہ صاحب اب آپ خود ہی لکھ لیا کریں
- اماں کی شخصیت ہمارے لئے گھنے درخت کے سایہ کی طرح تھی - اماں ہمارے لئے
محبتوں کا خزانہ تھے - ہمیں ان کی بات سن کر اور ان کا کہا مان کر بہت خوشی ہوتی - اگر
وہ اپنے کسی کام کے لئے کہتے تو ہم بڑی خوشی خوشی وہ کام کیا کرتے تھے لیکن اس کے
ساتھ ساتھ ایک عجیب سی بات یہ بھی تھی کہ اس وقت ہماری نظروں میں اماں کوئی خاص
شخصیت نہ تھے - اس بات کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی فرد اپنے گھر میں
اپنے بچوں کی نظر میں اپنے علمی مقام و مرتبہ یا اپنی سماجی حیثیت سے قطع نظر صرف
ایک باپ ہوتا ہے یا کوئی بزرگ اپنے کم عمر پوتوں یا نواسوں کے لئے دادا یا نانا
ہوتے ہیں - بچے ان کی بزرگی یا ان کے علمی مقام یا سماجی حیثیت سے مرعوب و
متاثر نہیں ہوتے بلکہ بچے تو صرف اور صرف اس ہستی اور اپنے درمیان
پائے جانے والے تعلق کے حوالے سے اس ہستی سے اپنا ذہنی یا قلبی ناطہ جوڑتے ہیں -
بالکل اسی طرح ہم بھی بچپن میں اماں کو صرف اماں سمجھتے تھے ان کے بلند اور
ارفع روحانی مقام کا کوئی ادراک تھا نہ شعور مگر اس کے ساتھ ساتھ شاید یہ اماں کی
خصوصی توجہ کا اثر تھا کہ ہم اماں کو کوئی عام شخصیت بھی نہ سمجھتے تھے - جب ہم
کسی کے گھر ملنے جاتے اور وہاں بچوں کے نانا یا دادا کو دیکھتے اور ان سے ملتے تو
دیکھنے میں تو وہ بھی اماں کی طرح بڑی عمر کے اور دھیمے دھیمے باتیں کرتے ہوئے
اپنے پوتوں نواسوں سے پیار کرتے نظر آتے مگر اس وقت ایک بات ضرور ذہن میں آتی کہ
اماں والی بات ان میں نہیں ہے –
بچپن
کی یہ بات کہ اماں کوئی عام شخصیت نہیں ہیں رفتہ رفتہ گہری ہونا شروع ہوئی
اور دل میں محبت کے ساتھ ساتھ عقیدت نے بھی گھر کرنا شروع کیا - حالانکہ بچپن میں
نہ تو ہم نے کبھی ان کی کوئی خاص خدمت کی اور نہ کبھی اس طرح عقیدت و احترام کا
مظاہرہ کیا جس طرح ہماری نظروں کے سامنے دوسرے لوگ کرتے تھے ۔بلکہ ہم تو اکثر ان
کے کمرے میں شور شرابہ کرتے رہتے تھے کبھی وہ ہمیں شور مچانے دیتے کبھی منع
کرتے اور جب وہ منع کرتے تب بھی یہ ضروری نہیں تھا کہ ہم ان کی بات فوراً مان لیں
بلکہ اکثر ہم بہن بھائی اپنی شرارتیں جاری رکھتے اور وہ کچھ نہ کہتے اگر کوئی
مہمان آجاتے تو ہم ان کے کمرے سے نکل کر باہر صحن میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے
- اس دوران کبھی اماں مجھے آواز دیتے - بھائی جان! میں ان کے کمرے میں
جاتا وہاں کچھ لوگ موجود ہوتے اور اماں مجھ سے کہتے ... " بھائی
جان! چائے لاؤ یا پانی لاؤ یا کھانا لاؤ - " مجھے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے
کام کرکے بہت خوشی ہوتی زیادہ خوشی اس بات سے ہوتی کہ کام کرنے پر اماں خود بہت
زیادہ خوشی کا اظہار کرتے تھے اور مختلف اوقات میں کچھ اس طرح کہا کرتے بھئی واہ -
بہت عمدہ - واہ بھئی واہ - بہت اچھا بچہ ہے - شاباش -
میں
اسکول میں پڑھا کرتا تھا کہ اماں کے اندر چھپے ہوئے ایک بڑے آدمی کا وجود رفتہ
رفتہ مجھ پر آشکار ہونا شروع ہوا - اب میری شرارتیں کم ہوگئیں اور اماں کے سامنے
میں نے خاموشی اور ادب سے بیٹھنا شروع کردیا - مختلف لوگ اماں سے مختلف موضوعات پر
بات کرتے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ اماں سوال سن کر اکثر برجستہ جواب دینا شروع
کردیتے تھے - اب کبھی کبھی میں نے بھی اماں سے سوالات کرنا شروع کردیئے - اماں میری
عمر اور میرے ذہن کے مطابق انتہائی محبت سے مجھے جواب دیتے اور پھر سمجھاتے میں
کبھی اپنا کوئی خواب بھی انہیں سناتا تھا - وہ بڑے غور سے سنتے اور پھر اس
کا مطلب بتاتے - میں اب سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں میری باتوں پر اماں نے یہ سوچ
کر یہ تو بچہ ہے کبھی بے توجہی نہیں برتی بلکہ ایک کم عمر بچے کی بات بھی وہ اسی
توجہ اور انہماک سے سنتے تھے جس طرح بڑوں کی باتیں سنتے تھے - اور مجھے بھی اتنا
ہی مفصل جواب دیتے تھے جتنا کہ دوسروں کو حتیٰ کہ میں مطمئن ہوجاتا -
تذکرہ بابا تاج الدین ناگپوری چھپ چکی تھی لیکن " لوح و قلم
" کا مسودہ کئی برسوں سے ایک دراز میں پڑا ہوا تھا - میں کبھی کبھار دراز
کھول کر فائل سے وہ مسودہ نکالتا اور اس کے شروع کے ایک دو صفحوں پر نظر ڈالتا اور
پھر واپس رکھ دیتا -اماں کے پاس بیٹھنا اور ان کی باتیں سننا بہت اچھا لگتا تھا -
ذہن جیسے کہ کھل جاتا اور نئی نئی باتیں ذہن میں آنے لگتیں - اب ایک نئی بات یہ
شروع ہوئی کہ جہاں کبھی کسی معاملے پر ذہن رکا ، فوراً دھیان اماں کی طرف گیا -
خیال آیا کہ اماں سے پوچھ لیں گے - اماں کا خیال ہی مطمئن کردیتا تھا - اور بعد
میں اماں سے وہ بات پوچھ لیا کرتا - اماں سے بات کرنے کے لئے کسی موضوع کی کوئی
ضرورت نہیں تھی - انہیں شعر و ادب سے خصوصی لگاؤ ضرور تھا لیکن ان سے مذہب و
روحانیت کے علاوہ کیمسٹری اور جغرافیہ پر بھی بات کی جاسکتی تھی اور طب و حکمت پر
بھی - وہ علوم کے مختلف شعبوں کے بارے میں سوالوں کا جواب اتنی آسانی و برجستگی
سے دیتے تھے کہ جیسے وہ اسی ایک شعبے کے ماہر ہوں - جینیٹکس کا نام شاید آج بھی بہت سارے لوگوں کے
لئے نیا ہو لیکن ہم نے اماں سے آج سے 20 سال پہلے اس علم کی مبادیات پر گفتفو سنی
ہے - جب کبھی میں ان کی مجلسوں میں شریک ہوتا اور اس قسم کی باتیں سنتا تو دوران
گفتگو وہ کبھی کبھی مجھ سے بھی پوچھا کرتے کیوں بھئی بات سمجھ میں آرہی ہے
نا میں اثبات میں سر ہلا دیتا اور واقعی وہ بات میری سمجھ میں آچکی ہوتی - ان
کے ساتھ گزارے ہوئے وقت میں جو باتیں ہوئیں وہ سب کی سب الفاظ و جملوں کی شکل میں
من و عن تو اب ذہن میں نہیں ہیں البتہ ان باتوں کا مفہوم اور تاثر ذہن میں رچ بس
کر میری شخصیت کا حصہ بن گیا ہے -
جیسے
جیسے وقت گزرتا رہا اماں کی عظمت و توقیر میرے دل میں بڑھتی رہی اور اب ایک نیا
احساس دل میں جاگزیں ہوا وہ یہ کہ جس طرح اماں کو ہمارے ابا جانتے ہیں یا ہم چند
لوگ جانتے ہیں اسی طرح انہیں سارا عالم جانے - یہ خیال دل ہی دل میں پروان چڑھتا
رہا لیکن اس خیال کو اماں کے سامنے براہ راست ظاہر کرنے کی کبھی ہمت نہ ہوئی - ہاں
بالواسطہ طریقے سے اکثر ضرور اظہار کردیا کرتا تھا - کہتا اماں جس طرح نانا تاج
الدین پر آپ نے کتاب لکھی ہے اسی طرح اور بھی کوئی کتاب لکھیں - وہ میری بات سن کر
مسکراتے اور کہتے اچھا - اب بات کو آگے بڑھانے کی میری ہمت نہ پڑتی کہ جب آپ نے
حامی بھرلی ہے تو لکھوانا شروع کردیں بس یہیں تک بات ہوکر ختم ہوجاتی - اماں
کے سامنے تو بات ختم ہوجاتی لیکن دل میں جو خواہش جڑ پکڑ چکی تھی اس کی شدت میں
مزید اضافہ ہوجاتا – جی چاہتا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اماں کی باتیں پہنچیں -
لوگوں کو پتہ چلے کہ ان کے درمیان ایک ایسی ہستی موجود ہے جو الله تعالیٰ کے عطا
کردہ علوم سے مالا مال ہے اور الله کی محبت اور حضورعلیہ الصلوة والسلام کے عشق
میں سر تا پا ڈوبی ہوئی ہے - اماں کا پیغام پھیلنا چاہیئے کہ محبت کا پیغام ہے
- وہ الله کی محبت و چاہت کی باتیں کچھ اس طرح بتاتے ہیں جیسے الله نے ابھی
انہیں اپنی گود میں بٹھا کر پیار کیا ہو - وہ کہتے ہیں کہ الله کے قریب ہوجاؤ الله
سے محبت کرو الله تعالیٰ خالق ہیں ان کی ہر تخلیق محبت کی ساتھ تشکیل پائی ہے
چنانچہ تم بھی ہر دوسرے فرد سے محبت کرو اسے اچھا جانو اس کا احترام کرو -اگر تم
چاہتے ہو کہ تمہیں کسی دوسرے سے کوئی تکلیف نہ پہنچے تو پہلے اپنی ذات کو دوسروں
کے لئے باعث راحت و سکون بناؤ - بہتر بات یہ ہے کہ تمہاری ذات سے دوسروں کو
فائدہ پہنچے لیکن اگر یہ کوئی نہیں کرسکتا تو اتنا ضرور کرے کہ اس کی ذات سے کسی
کو کوئی نقصان نہ پہنچے -
ہم
سب بہن بھائیوں کے نام اماں نے رکھے ہیں - ہم سب کو انہوں نے اپنی گود میں پرورش
کیا ہے اماں کی گود کی عظمت سے اماں کی طرزفکر ہمارے اندر منتقل ہوئی ہے - میں نے
کائناتی نظام اور اس نظام پر مصروف عمل کارندوں کی بچپن میں باتیں سنیں ہیں
- بچپن میں ہی میرے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی تھی کہ الله کے بندے انسان بھی
کائناتی نظام چلاتے ہیں - غوث - قطب - مدار - کوچک ابدال - ابدال کے عہدوں سے میں
واقف ہوگیا تھا - لیکن میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ یہ لوگ یہاں دنیا میں بیٹھے ہوئے
آسمانی دنیاؤں میں کس طرح کام کرتے ہیں - مجھے حیرت اس وقت ہوتی تھی کہ جب کوئی
شخص اماں کے پاس آکر فریاد کرتا تھا تو اماں کہتے تھے جاؤ خوش ہوجاؤ تمہارا کام
ہوگیا ہے - اور یہ کام ہوجاتا تھا - میں نے کبھی اماں کو وسائل کا پابند نہیں
دیکھا - بس جو کہہ دیا ، جو سوچ لیا اس کے مطابق خود بخود وسائل مہیا ہوجاتے تھے
بلکہ وسائل بن جاتے تھے – کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گھر میں ہم سب بچے اماں کے ساتھ
بیٹھ کر چٹنی سے روٹی کھاتے تھے - اماں بہت خوش ہوکر کہتے ... " بچو خوش
ہوکر کھاؤ ، آج الله کے یہاں ہماری خصوصیت ہے کہ ہم چٹنی سے روٹی کھا رہے ہیں اور
دوسرے لوگ گوشت وغیرہ کھا رہے ہیں –
میری یہ خواہش کہ اماں کا نام عالم میں پھیل
جائے اس طرح پوری ہوئی ابا نے روحانی ڈائجسٹ اماں کی اجازت سے جاری کردیا - روحانی
ڈائجسٹ کے سرورق پر جو تحریر مسلسل پندرہ سال سے چھپ رہی ہے - یہ اماں ہی کی
لکھوائی ہوئی ہے - من و عن ان کے ہی الفاظ ہیں -
"یہ
پرچہ بندہ کو خدا تک لے جاتا ہے اور بندہ کو خدا سے ملا
دیتا ہے"
آج
ہزاروں لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اماں کی اس تحریر نے لوگوں کے دلوں کو منور
کردیا ہے اور لوگ واقعی خدا تک پہنچ گئے ہیں - انہیں خدا کا قرب نصیب ہوا ہے –
اماں
کی زندگی میں ابا نے دو پرچے نکالے - پہلا پرچہ تجربہ نہ ہونے کے باوجود اچھا تھا
- مگر دوسرا شمارہ دیکھ کر اماں نے کہا مضامین کی ترتیب اچھی نہیں ہے - اور تیسرے
پرچے میں اماں کے وصال کی خبر لگ گئی –
انّا للّہ و انّا الیہ راجعون
ہم
بچوں کی اماں کو کتنی فکر تھی - یہ بات مجھے جناب بھائی نثار علی بخاری جو اماں کے
گہرے دوست تھے سے معلوم ہوئی - ایک روز انہوں نے فرمایا ... بھائی صاحب فرما رہے
تھے میں نے بنیادی کام کردیئے ہیں - اب یہاں رہنا کوئی اتنا ضروری نہیں ہے - مجھے
خواجہ صاحب کی فکر ہے کہ وہ عیال دار ہیں الله ان کی معاش کا بندوبست کردے - بس
پھر میں فارغ ہوں -
روحانی
ڈائجسٹ نکلنے کے بعد ابا کی مصروفیت بےپناہ ہوگئی ، ہم دوستوں نے اپنی عمر اور
اپنی عقل کے مطابق ان کا ہاتھ بٹایا - ان دوستوں میں جاوید احمد ، نسیم احمد ،
حافظ ضیاء ، زبیر احمد ، انیس احمد ہیں - جیسے جیسے میری عمر کے مطابق میری صلاحیت
میں اضافہ ہوا میرے ذمہ روحانی ڈائجسٹ کی خدمات زیادہ ہوتی رہیں -
ایک
رات میں نے خواب میں دیکھا کہ 1D
،1/7 کے نیچے کے مکان کے صحن کی طرف برآمدہ میں اماں ہیں اور میں صحن میں ہوں -
اماں نے کہا میں تم سے خوش ہوں تم نے خواجہ صاحب کی مصروفیت میں حصہ لیا –
اب
میں سوچتا ہوں کہ یہ تو خود میری خواہش پوری ہوئی ہے کہ مجھے روحانی ڈائجسٹ کا کام
مل گیا ہے – میں بچپن سے ہی چاہتا ہوں کہ اماں کا نام اور اماں کے علوم عالم میں
پھیل جائیں –
کیا
لکھوں کتنا لکھوں ، میرے سراپا کا ایک ایک رواں اماں کی شفقت ، عظمت ، محبت ، خلوص
اور ایثار کا گواہ ہے - اماں کہتے تھے۔
۱۔ کسی
کو کچھ بنانے کے لئے اپنا بہت کچھ کھونا پڑتا ہے –
فرماتے تھے۔
موم
بتی اپنے وجود کو جلا کر پگھلا کر اور خود کو فنا کرکے دوسروں کو روشنی دیتی ہے –
اماں میری شناخت ہیں مجھے ان کی
گود کا لمس نہ ملتا تو میں کچھ بھی ہوسکتا تھا مگر وقار یوسف عظیمی نہ
ہوتا -[1]
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔