Topics

جن نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلدی چلو

 

سواد بن قاربؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک عامل کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے۔ ان کے قبضے میں ایک جن تھاجو غیب کی خبریں ان تک پہنچاتا تھا ۔ قاربؓ کہتے ہیں کہ ایک رات میرے مطیع جن نے مجھے نیند سے بیدار کیا اور کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سواد اٹھو!

میری بات غور سے سنو

عقل مند ہو تو عقل سے کام لو ۔

بلا شبہ نبی کی بعثت ہو چکی ہے۔

وہ خدائے واحد کی طرف بلاتے ہیں۔

پھر جن نے جھوم جھوم کر اشعار کہے۔

  میں جنوں کے دور دراز سفر کے لئے بوریا بستر باندھنے پر تعجب کر رہا ہوں۔ اگر تم ہدایت کے طلب گار ہو تو مکہ معظمہ کی طرف جلدی چلو۔ یاد رکھو سچا جن جھوٹے جن کی طرح نہیں ہوتا ۔ جلدی کر بنو ہاشم کے اس چہرہء جمیل کا دیدار کر لے جو تو نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

سودا بن قاربؓ نے جن کو اپنے پاس سے بھگا دیا ۔ اگلی رات جن پھر آیا اور دعوت سفر دی ۔ تیسری رات جن نے سودا بن قاربؓ کو جھنجوڑ کر اٹھا دیا اور کہا:

  بنو ہاشم کے عظیم فرد کی زیارت سے اپنا دل روشن کر لے۔

جن نے گذشتہ دو راتوں کی طرح یہ شعر دہرایا ۔

  میں حیران ہوں کہ جنات اونٹوں پر کجاوے کس کر مکہ ہدایت پانے کے لئے بیقراری کے عالم میں دوڑے جا رہے ہیں۔

سودا بن قاربؓ بے چین ہو گئے رات بھر نیند نہیں آئی ، صبح ہوتے ہی تیز رفتار سواری کا انتظام کیا اور سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔ سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا :

  مرحبا اے سودا بن قارب! ہمیں معلوم ہے کہ تم کس لئے یہاں آئے ہو ۔   سودا بن قارب کو جن کی صداقت پر یقین آ گیا او روہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اورجنات کی دنیا ایک جیسی ہے ۔ جس طرح انسان ، اونٹوں پر سوار ہو کر سفر کرتے ہیں جناب کی دنیا میں بھی اونٹ ہیں ۔ انسان جس طرح ہدایت کے متلاشی ہیں اور اللہ کی توفیق کے ساتھ اسلام قبول کیا ہے اسی طرح جناب بھی گروہ در گروہ مسلمان ہوتے ہیں۔ جس طرح مسلمان سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نورانی چہرہ پر عاشق اور حضور پر جان نثار ہونا اپنے لئے سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں، جنات بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر جان نثار کرنے کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔

 

Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔