Topics
تصوف کیا ہے?
تصوف کے ماخذ اور اس کے مخرج و منبع کے بارے میں
علمائے اسلام اور مستشرقین نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے ۔پروفیسر نکلسن کا کہنا
ہے کہ تصوف یونانی فلسفہ کے زیر اثر پیدا ہوا ۔ کچھ لوگ تصوف کو اہل صفہ کی طرف
منسوب کرتے ہیں۔اس لیے کہ جس طرح اہل صفہ دنیا داری اور فکر معاش سے علاحد ہو
کرعین کے حصول کی خاطر فقروفاقہ کو اپنائے ہوئے تھےاسی طرح اہل تصوف بھی مال و
عیال سے دامن چھڑا کر اصلاح باطن کی غرض سے خانکاہوں اور جنگلوں میں وقت گزارتے
ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ :
صوفی کا ماخذ صوفانہ ہے۔ صوفانہ سے جو ایک خوشنما اور خود
رو جنگلی ساگ ہے جو چھوٹے چھوٹے پتوں کی شکل کا ہوتا ہے اہل تصوف کے تسوف جنگل کے
ساگ پات پر گزارا کر لیتے ہیں اس لیے
انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں
کہ :
صوفی منسوب ہے ( صوفۃ القفا) کی طرف ،صوفی حق کی طرف متوجہ
اورخلق سے منہ پھیرے ہوئے ہے۔
ابو ریحان البیرونی کا خیال ہے کہ( صوفی )کا مادہ اشتقاق
ایک یونانی لفظ ہے۔
چنانچہ وہ لکھتا ہے۔
" صوفی بمعنی فلاسفر ہے کیونکہ یونانی لفظ سوف بمعنی
فلسفہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی زبان میں فیلسوف کو فلاسفہ کہا جاتا ہے یعنی فلسفہ
دلدادہ چونکہ اہل اسلام میں ایک جماعت ایسی تھی جو ان کے مسلک سے قریب تھی اس بنا
پر ان کا نام بھی صوفی پڑ گیا۔
صوفیائے کرام کے نزدیک تصوف اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدہ کے
ذریعے اخلاق رذیلہ سے پھیرنے اور اخلاق حمیدہ و یعنی ذہد و علم ، صبر و اخلاص اورصدق
و صفا جیسے مسائل حسنہ پر آمادہ کرنے کا نام ہے جس سے دنیا و آخرت میں کامرانی
نصیب ہو ۔
خانقاہ چورہ شریف کی ویب سائٹ پر مضمون نگار نے اس بارے میں
کئی پہلو یوں بیان کئے ہیں۔
" بعض لوگ لفظ صوفی کو صفا سے مشتق خیال کرتے ہیں یعنی
صوفی وہ ہے جس کو حق تعالیٰ نے صفائی قلب سے زینت بخشی ہے۔بعض کی رائے سے صوفی لفظ
سے مشتق ہے یعنی صوفیا حضورحق میں اپنے
قلوب کے ساتھ صف اول میں حاضر ہوتے ہیں۔بعض
نے صوفی کو " صفہ " کی طرف منسوب کیا ہے۔ حضور انور صلی اللہ
علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ نے جن کی تعداد 70 سمجھی جاتی ہے دنیوی تعلقات کو
ترک کردیا تھا اور" فقیری "اختیار کرلی ،وہ صرف ایک کپڑے میں زندگی بسر
کرتے تھے ۔ان کو اہل صفہ کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے "صفہ"مسجد نبوی کو
اپنی قیام گاہ بنا لیا تھا۔بعض کا خیال ہے کہ یہ یونانی لفظ "سوفوس "سے بنا ہے جس کے معنی
حکمت کے ہیں۔
راجح قول یہی ہے کہ لفظ صوفی" صوف"سے مشتق ہے کیونکہ
لغوی اعتبار تو یہ لفظ اپنے مادے کے زیادہ قریب ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم
میں صوفیہ اکثر و بیشتر یہی لباس استعمال
کرتے تھے۔ تصوف کا لفظ(صوف) سے بنا ہے جس کے معنی اون کے ہیں۔ ابن خلدون کا یہی قیاس ہے عربی لغت کے
اعتبار سےتصوف کے معنی ہیں "اس نے لباس پہنا" جیسے"تقمض" معنی
ہیں اس نے قمیض پہنی۔
ہو سکتا ہے کہ ابتدا میں صوفیا کو ان کی صوف پوشی سے مخصوص
وہ مختص نہیں اور نہ ہی صوف پوشی ہی اہل معرفت کی پہچان ہو سکتی ہے ۔اس سے مراد
درویش اور اللہ ترس بندگان ہیں جو دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے کنارہ کش ہو کر
اللہ کی یاد میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ سادہ لباس پہنتے ہیں اور جیسا بھی کھانے کو مل
جائے اس سے پیٹ بھر لیتے ہیں۔ گو کہ اونی لباس پہننا تصوف کی لازمی شرط نہیں تاہم صوفیہ عجز
و نیاز اور ریاضت و مجاہدہ کے لئے اسی لباس کو پہننا پسند کرتے تھے ۔ان کا یہ
معمول بھی سنت نبوی سے ماخوذ تھا۔
حضرت انس بن مالک
رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے :
لبس رسول اللہ الصوف
حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونی لباس پہنا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔
قالت صنعت لہ ثوبا من صوف فلبثہ
میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صوف کے کپڑے بنائے
جو آپ نے پہنے۔
جب سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو حضرت
عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی صفات عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ۔
لبس الصوف (آپ صوف کا لباس پہنتے تھے)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ
میں سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے
حضرات بھی صوف ہی کے کپڑے پہنتے تھے۔
حضرت خواجہ حسن
بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ:
میں ستر بدری صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ملاقات کی ہے ان سب کا لباس صوف تھا۔حضرت اویس
قرنی رضی اللہ تعالی عنہ معرکہ صفین میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے
لڑنے کے لیے تشریف لائے تو ان کے جسم پر صوف کا لباس تھا اور سر منڈا ہواتھا۔
مختصر یہ کہ اہل
تصوف نے تصوف کی بنیاد پر قائم کی ہے وہ یہ ہیں:
صدق و صفا ،اخلاص و
محبت، خشوع و خضوع ، فقر، توکل ، صبر ورضااور شکر وغیرہ۔
اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد کے لئے اقوال رسول کو سر چشمہ
ہدایت بنایا ہے اور یہ بھی امر واقع ہے کہ ائمہ تصوف نے اپنے اعمال اور احوال و
مقامات کے لئے سنت نبوی سے استنادودلائل فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب
ہم تصوف کا جائزہ لیتے ہیں تو احادیث سےبھی
مضمون ثابت ہے۔ جس کی تائید درج ذیل احادیث نبوی ﷺ سے ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے :
میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو برتن حفاظت میں لئے۔ ایک کو لوگوں میں پھیلا دیا
اور دوسرا گر پھیلاؤں توگردن کاٹ دی جائے۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی
عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو علم سیکھے یعنی ایک علم قال اور دوسرا علم حال۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ
سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علم کے 70
ابواب بتا رکھے ہیں اور تعلیم کیے ہیں۔"
تاریخ تصوف
تصوف تاریخ بشریت
کی ابتداء سے موجود رہا ہے اس کا بیج ہر انسان کے قلب میں مخفی رہا ہے ۔انسانوں
میں دو رجحان بہت عام رہے ہیں۔ ایک رجحان دنیا پرستی کا ہے اس میں مال و دولت شہرت
حاصل کرنے کے لیے اپنے دین و ایمان کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔اس کے بالکل برعکس
دوسرا رجحان دنیا سے گریز کا ہے جس میں انسان دنیا کو چھوڑ کر جنگلوں میں نکل جاتا
ہے۔ قدیم دور سے یہ دو نوں رجحان انسانوں
میں موجود رہے ہیں۔ ایسے خواتین و حضرات جن میں دنیا سے گریز کا رجحان قوی تھا،
انہوں نے ضروریات زندگی سے منہ موڑ کر جنگلوں اور خانقاہوں کی راہ لی اور اپنا
پورا وقت اپنے رب کی تلاش میں صرف کرنا شروع کر دیا۔دنیا کے جھمیلوں سے فراغت کی
وجہ سے ان خواتین و حضرات نے خدا کے بارے میں سوچتے سوچتے بہت سے فلسفے وضع کیے۔انہوں
نے تصوف کےبنیادی نظریات اور اعمال کو قائم رکھتے ہوئے ہر مذہب کے اندر جگہ بنالی ۔قدیم
مذاہب میں بدھ مت ہندومت اور ایران کازرتشی
مذہب اس کی مثال ہیں۔ خاص طور پر ہندو
جوگی برصغیر کے معاشرے میں آج تک غیر معمولی مقام کے حامل رہے ہیں۔یہودیوں کے ساتھ
بھی یہی معاملہ ہوا۔ ان کے ہاں "کبالہ" کا مکتب فکر پیدا ہوا۔یہودیت کے بعد عیسائیت کا دور آیا۔عیسائیوں نے رہبانیت یا
تصوف کو غیر معمولی درجہ دیا ۔انہوں نے رہبانیت کو باقاعدہ فن بنا کر پوری دنیا
میں پھیلا دیا ۔کے طول و عرض میں بڑی بڑی خانقاہ قائم ہوئیں جن میں ہزاروں کی
تعداد میں لوگ اپنی نفس کشی کے لئے خود کو اذیت دینے میں مصروف رہا کرتے تھے ۔
چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی دنیا کی تاریخ میں بدترین زمانہ تھا۔ دنیا کا کوئی مذہب اپنی اصل
حالت پر قائم نہ تھا۔ انبیاء کی تعلیمات مسخ ہو چکی تھیں۔ انسانوں کی عملی زندگیوں پر غفلت و گمراہی کی تیرہ و تار گھٹائیں چھائی
ہوئی تھیں۔ انسانیت کی جاں بلب تھی اشرف المخلوقات کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر رحمت حق کا بحر رحمت موجزن
ہوا اور دنیا کی اصلاح کے لئے ایک مصلح اعظمﷺ کو مبعوث فرمایا۔
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
"انما بعثت لمکارم الاخلاق "
(میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں)
آپ ﷺ کے اس وعدے کی تائید قرآن کریم میں ہے۔
انک لعلی خلق عظیم
توحید اور حسن خلق ہی دو ایسی چیزیں ہیں ۔ جو تصوف کی روح
رواں ہیں۔
حضور ﷺ کے دست حق پر جن لوگوں نے بیعت کی تھی وہ سب تقوی کی بنیاد پر
صوفی تھے۔
یہ وہ دور ہے جہاں سے حقیقی تصوف کا آغاز ہوتا ہے۔ اگرچہ
اسلام سے قبل بھی موجود تھا مگر وہ تو وہ دنیا کی تعلیم دیتا تھا کہ دنیا سے دور جنگلوںمیں
جا کر اللہ اللہ کریں۔ مگر اہل تصوف کی بنیاد اسلام نے آکردی ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں اسلام عروج
کی طرف گامزن رہا۔ مگر خلفائے راشدین کے بعد جب اسلام تنزل کی طرف آیا تو ہر وہ طبقہ جواحکام شریعت کا
پابند تھا۔ اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا تھا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ
علیہ اور ان کے اولیاء نے واقعہ کربلا اور واقعہ حرا بھی دیکھا۔ جب یزیدی فوج نے
کربلا اور مدینہ منورہ میں خانوادہ اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہ اور صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تاراج کیا تو مسلمانوں کا دین دار طبقہ حکومت سے متنفر
ہو گیا اور اس نے حکومت سے قطع تعلق کر لیا اور حسرت و آرزو کے ساتھ عہد نبوی ﷺ
اور خلفائے راشدین رحمۃ اللہ علیہ کے دور کو اختیار کیا۔حجاج بن یوسف نے حضرت
خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کو اتنی تکلیف اور اذیت پہنچی کہ آپ مسلسل گیارہ
سال گوشہ نشین رہے اور جب حجاج کے مرنے کی خبر سنی تو سجدہ شکر ادا کیا اور فرمایا۔
(ترجمہ) اے اللہ
میں تجھ سے ڈرتا ہوں اور اس سے ڈرتا ہوں جو تجھ سے نہیں ڈرتا۔
یہ تھے وہ حالات جن میں صوفیہ کا پہلا طبقہ وجود میں آیا۔
مورخین نے اس طبقے کےزمانے کو 661 تا 850 تک بتاتا ہے۔اس میں خواجہ حسن بصری رحمۃ
اللہ علیہ حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ حضرت محمد واسع رحمۃ اللہ علیہ حضرت
حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابراھیم ادھم
رحمۃ اللہ علیہ شامل ہیں۔
نویں صدی عیسوی کے عالی قدر صوفی بایزید بسطامی رضی اللہ
تعالی عنہ(قطب المقدسی )عرفان و تصوف کی تاریخ یوں بیان کرتے ہیں :
"عرفان و تصوف کے بیچ حضرت دم کے زمانے میں بویا
گیا۔حضرت نوح علیم السلام کے زمانے میں اس میں اس کی کونپل پھوٹی ، حضرت
ابراہم علیہم السلام کی نگرانی میں برگ
وبار لایا۔حضرت موسیٰ علیم السلام کے دور
میں اس کا پھل ، یعنی انگور ظاہر ہوا، حضرت
عیسی علیہ السلام کے عہد میں یہ انگور پگ گئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
زمانے میں شراب طہورتبدیل ہوگئے۔
تاریخ اسلام میں تصوف
تاریخ میں تصوف ایک عالمگیر تحریک ہے دنیا کے بیشتر مذاہب
میں تصوف کی روایت ملتی ہے ۔اصل تصوف مخلوق کو معبود حقیقی تک پہنچاتاہے۔
اولیائے کرام اور صوفیائے کرام نے اسلام کی اتباع کرتے ہوئے
عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ کبھی بھی معاشرے سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کیا ۔بل کہ معاشرے
میں رہ کر لوگوں کے دکھ درد کی چارہ جوئی بھی کی اور انہیں عمل اور اخلاق سے مزین
بھی کیا۔ اسی لئے اسلامی تصوف دنیا کے تمام مکاتب تصوف سے اعلیٰ اور افضل ہے۔
اسلامی تصوف کی ابتدا کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ
تیسری صدی ہجری اور اس کے بعد جب عباسی خلفاء کےزیر حکومت مسلم معاشرہ علم اور
معاشرتی پہلو سے اپنے عروج پر تھا ،اسی دور میں تصوف کی روایت بھی لوگوں کو اپنی
طرف متوجہ کر رہی تھی۔شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ 297ھ شیخ بایزید بسطامی رحمۃ
اللہ علیہ 261ھ شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ
علیہ3 25ھ شیخ ذوالنّون مصری رحمۃ اللہ علیہ 245ھ شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ 334ھ اور شیخ ابو القاسم رحمۃ
اللہ علیہ 450ھ جیسے اکابرین نے اگر تصوف کی عملی روایت کو منتہائےکمال پر پہنچایا
تو سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ 283ھ شیخ ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ
386ھ امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ 465ھ شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ
465ھ امام غزالی رحمۃ اللہ
علیہ 505ھ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ
علیہ 561ھ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ 632 ھ شیخ اکبر ابن عربی رحمۃ
اللہ علیہ 638ھ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ
672ھ جیسے صوفیوں نے عملی روایت کے ساتھ علم اور قلم کی طاقت کے ساتھ تصوف
کے اسرار و رموز کو عالمی سطح پر پیش کیا۔
ہندوستان میں تصوف
برصغیر میں اسلام کے ابتدائی تیسری صدی ہجری میں شمار ہوتی
ہے جو صوفیاء کرام برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اور ان کی وساطت سے ہند میں اشاعت
اسلام کا کام ہوا۔
ان میں دوستیاں
زیادہ قابل ذکر ہے جو پہلے پہل تشریف لائیں۔ پہلے حضرت سید علی ہجویری داتا گنج
بخش رحمۃ اللہ علیہ 1009٫ تا 1072٫ ہیں، یہ ہندوستان میں 1069ء میں تشریف لائے اور دوسرے بزرگ حضرت خواجہ معین
الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 1124ء
تا 1235ء ہیں۔جن کی ہندوستان میں آمد کی
تاریخ 10 محرم 561 ھ بمطابق 1161ءبتلائی جاتی ہے۔بعض تذکرہ نگاروں کے بیان کے
مطابق یہ تاریخ 577ھ یا580ھ ہونی چاہیے۔
ان دو مشہور بزرگوں کے علاوہ دو اور بزرگوں کی آمد کابھی تذکروں سے پتہ چلتا ہے۔
ان میں سے ایک تو شیخ محمد اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو 395ھ بمطابق 1005 ء
میں لاہور تشریف لائے ۔
دوسرے بزرگ خواجہ ابو محمد بن ابو احمد رحمتہ اللہ علیہ ہیں
جو سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے۔
یوں یہاں مسلمانوں کی آمد کا آغاز ہوا ۔نئے معاشرے میں
اسلامی تعلیمات کے ظاہری اور باطنی دونوں رخ پیش کرنا ضروری تھے ۔یہاں آنے والے
مسلمان ضرورتھے لیکن عالم دین نہیں تھے نہ
مبلغ ۔اس لیے دین کی تبلیغ کی ذمہ داری بہ راہ است ان پر عائد نہیں ہوتی تھی۔
محمود غزنوی کے دور میں یہاں علماء کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔
محمود غزنوی چونکہ خود بھی صوفی منش اور صوفیہ کا قدردان
تھا ۔اس لیے اس نے یہ تحریک پیدا کی کہ دوسرا علمائے دین کے ساتھ صوفیا بھی اس
زمین میں تشریف لائیں اور مفتوحہ علاقوں میں اشاعت اسلام کا فریضہ سر انجام دیں۔ چنانچہ
پہلے صوفی جن کا نام تذکروں میں ملتا ہے وہ اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں
جنہیں وہ 1005ءاپنے ساتھ لایا تھا۔ اس دور میں آنے والے زیادہ لوگ علماء تھے اس
لئے ابتدائی صدیوں میں فقہ اور حدیث کی تدوین اور فلسفیانہ بحثوں میں مشغولیت کے
باعث اہل علم کی بڑی تعداد عوام الناس کی اخلاقی تربیت نہ کر سکی تھی۔ صوفیاء نے
اس خلا کو پر کیا ۔انھوں نے انسانی نفسیات میں مہارت حاصل کی اور اس کو اپنے
نظریات کے ساتھ لوگوں کی اخلاقی تربیت کی۔
ان مسلم صوفیاء نے عوام سے قربت اختیار کی انہوں نے اپنے
لباس رہن سہن اور نشست و برخاست کو عوامی بنایا ۔علماء نے اپنے خیالات کو لوگوں تک
پہنچانے کے لیے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا طریقہ اختیار کیا۔برصغیر کے علماء نے عام طور
پر مقامی زبانوں کی بجائے عربی و فارسی کو اپنے خیالات کے اظہارکا ذریعہ بنایا۔اس
طریقے سے وہ پڑھے لکھے طبقے تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر عوام
الناس تک ان کی رسائی ممکن نہ ہوسکی ۔اس کے برعکس صوفیاء کی جانب سے دینی اورعلمی عمل کا
آغاز آغاز ہوا کیونکہ مقامی زبانوں میں کام کرنے کی وجہ سے صوفیاء نے زبان کو
تحریک دے کر علمی ترقی کے عمل کا آغاز کیا۔
ان صوفیاء کی خانقاہیں اس زمانے میں سماجی ادارے کی حیثیت
رکھتی تھیں۔ یہی وہ خانقاہیں ہیں جنہوں نے ہندوستان کی صرف تعمیر و تشکیل میں
نمایاں کردار ادا کیا بلکہ انہوں نے ہندوستان کو پوری دنیا میں ایک الگ شناخت دی۔انہی
صوفیا کےفیض سے آج بھی رواداری، اخوت، محبت اور امن قائم ہے ۔یہ آج کے دورکی بڑی ضرورت اس لئے بھی ہیں کہ یہاں من و تو کا امتیاز
نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھید بھاؤ کادخل ہے اس دربار میں سب آ سکتے ہیں۔
صوفیوں نے عوام سے
قریب ہونے کے لیےاسلام کا وہ طریقہ اپنایا جو محبت اور رواداری کا طریقہ ہے۔ انہوں
نے عملی طور پر اخلاق کا نمونہ پیش کر کے لوگوں کو عشق حقیقی تک پہنچایا۔ان صوفیاء
کے حسن اخلاق اور تبلیغ دین کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول
کیا۔ اسی لیے برصغیر پاک و ہند میں اشاعت اسلام کے لیے صوفیاء کرام کا کردار بہت
اہم تسلیم کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کے سندھ کو فتح کرنے اور محمود غزنوی کے
ہندوستان پر حملوں کے ساتھ بزرگان دین اور صوفیائے کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہو
گیا تھا۔
برصغیر میں اللہ تعالی کی ذات اقدس کی کرم نوازی اور سرور
کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ ہے کہ اس سر زمین کو اولیاء کرام کے
نیک بندوں سے مالامال کیا ہوا ہے ۔یہی وجہ تھی کہ اس سر زمین پر حضرت خواجہ معین
الدین چشتی سنجری اجمیر رحمۃ اللہ علیہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ
، نور العارفین حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت سید
مخدوم علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ، احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت نظام الدین
اولیاء محبوب سبحانی رحمۃ اللہ علیہ، سید عژمان مروندی المعروف حضرت سخی لعل شہباز
قلندر رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ عبدالطیف کاظمی المعرف بری امام سرکار رحمۃ اللہ
علیہ، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ
اللہ علیہ، حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ، ھضرت سید شاہ قبول اولیا
ءرحمۃ اللہ علیہ، حضرت سید شاہ قبول اولیاء رحمۃ اللہ علیہ،حضرت پیر مہر علی شاہ
گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت پیر سید عبدالرحمن شاہ بابا چشتی صابری رحمۃ اللہ
علیہ ،حضرت علی امام الحق رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت
شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت سید
میراں حسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ
اللہ علیہ ،اور حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ،وغیرہ کی تعلیمات کے بعد
اس پاک سرزمین کی کایا پلٹ گئی۔ اور ان کی محنتوں اور کوششوں کی وجہ سے غیر مذہب
اپنی موت خود مر گئے اور ان اللہ والوں کی کوششوں سے دین اسلام کا عروج
شروع ہو گیا۔
صحیح معنوں میں
اسلامی تعلیمات کو اخلاق کی بنیاد پر ان محترم حضرات نے پھیلایا۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی بھی معرکہ حق و باطل برپا ہوا امت
کو جو بھی آزار پہنچا صوفیا ہی اس کا مداوا بنے ان کا وجود ہر دور اور ہر خطےکی
ضرورت ہے۔پھر برصغیر پاک و ہند تو اصلاً ہے ہی روحانیت پرور خطہ۔ اس کی مٹی گدازآفرین،
اس کا ماحول روح افزاءاور اس کے باسی سوز دروں کے شیدا۔یہاں کے شعر و سخن کا آہنگ
الم انگیز، صوت ونغمہ کی لے پر سوز ،نظریہ حیات متشائم اور طرزِ احساس پر دروں بینی غالب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ شاعری میں
تصوف کی بھر پور آمیزش اسلامی تہذیب کی بالکل
ابتدائی صدیوں میں ہی ہوگئی تھی ابو سعدی الخیر کی رباعیوں سے شروع ہو کر
عمر خیام ، حکیم سنائی ، خواجہ بوعلی قلندر رحمۃ اللہ علیہ ، امیر خسرو، نظیری،
عرفی، حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ حسین رحمۃ اللہ علیہ حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ تتک پہنچی۔
سید محمد عظیم رحمتہ اللہ کی ادبی خدمات
اکیسویں صدی کے
صوفی شعراء کی صف اول میں عہد آخر کے صوفی حضرت سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ شاعر
اور ادیب کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ آپ نے شعر ونثر کے ذریعہ سے روحانیت اور ادب
دونوں کی خدمت کی۔ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ شاعری کے جس دبستان سے تعلق رکھتے ہیں اس کا
سرچشمہ تصوف اور روحانیت ہے۔
سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ نے رباعی کے ذریعے کلاسیکی
روایت کو زندہ کیا ،موضوعات کے ذریعے تصوف کو تحریک دی انہوں نے ترقی پسند اور
جدیدیت کے دور میں کلاسیکی روایت کا رشتہ عہد حاضرسے جوڑا ،روایت کا لحاظ رکھتے
ہوئے نئے موضوعات کا اضافہ کیاشعر و نثر میں قرانی حوالہ جات، عرفان نفس اور
تاریخی تلمیحات کے استعمال سے نئے رجحانات کے فروغ کا باعث بنے ہیں۔
صوفیانہ شاعری کا
درجہ کمال یہ ہے کہ اسلام آباد دونوں ہی نقطہ عروج پر ہوں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں
پہنچ کر شعر تصوف میں ڈھل جاتا ہے اور تصوف شعر میں اتر آتا ہے۔سید محمد عظیم
رحمتہ اللہ علیہ کے طرز بیان میں فطری جاذبیت، زبان صاف اور اسلوب دل کش و سادہ ہے۔عمیق
صوفیانہ مضامین میں بیان کرتے ہوئے بھی مشکل پسندی سے گریز کیا ہے۔یوں زبان و بیان
کے حوالے سے بھی آپ کی شعری اور نثری اکیسویں صدی صوفیانہ ادب میں نمایاں مقام رکھتی
ہیں۔قوت مشاہدہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطالعے کی بدولت ان کی تحریروں کے سادہ الفاظ میں بھی گہرے
معنی ہیں۔ اسی اسلوب نے اسلوب بیان نے ان کی تحریروں میں گہرائی اور گیرائی پیدا
کی اورفکر کو وسیع ہمہ گیر بنایا ہے۔
علی گڑھ یونیورسٹی
کے تعلیم یافتہ حضرت سید محمد عظیم رحمتہ اللہ تعالی علیہ سلسلہ تاجیہ کے امام
حضرت بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے اور تربیت یافتہ نے کے ساتھ
ساتھ گیا اور روحانی سلاسل کے بزرگان سے فیض یافتہ تھے۔ سید محمد عظیم المعروف
قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے نام
سے منسوب سلسلہ عظیمیہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دینی علمی اور سماجی خدمات میں مصروف
عمل ہے امام سلسلہ سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ علمی ادبی اور صوفیانہ خدمات کے
حوالے سے بیسویں صدی کی اہم شخصیت ہیں۔جامعہ کراچی آپ کے قائم کردہ سلسلہ عظیمیہ
کی علمی خدمات پر لکھے گئے مقالہ "سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات
کا تحقیقی جائزہ "پر پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کر کے علمی قدر شناسی کا ثبوت دے
چکی ہے۔
سید محمد عظیم
المعروف قلندر بابا اولیاء نے صوفیانہ ادب کی نشوونما میں شعر( نظم غزل رباعی )اور
نثر (تالیف، تحقیق، سوانح عمری ،کہانی،
تنقید) کو ذریعہ اظہار بنایا۔قیام پاکستان سے پہلے رسائل و جرائد کی صحافت اور
شعرا کے دواوین کی اصلاح کا کام کیا اور بعد میں ڈان میں معاون ایڈیٹر کے عہدے پر
فائز رہے۔ آپ نے علامہ نیاز فتح پوری کے رسالہ نقاد میں بھی کام کیا ۔آپ کی زیرسرپرستی
یکم دسمبر 1978 کو روحانی ڈائجسٹ کے نام سے رسالہ کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔مکتوبات
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں بھی علمی ورثہ موجود ہے۔ یوں بیسویں صدی
کے صوفیانہ ادب کے حوالے سے آج سید محمد عظیم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کے کئی پہلوؤں میں نئےعلوم کا حصول ،مذہب
کی عقل سے تفہیم،روایتی پیری مریدی کے بجائے جدید سائنسی انداز، کے ساتھ ساتھ
سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں۔سید محمد عظیم رحمۃ اللہ
علیہ کی تحریروں کا ایک فعال زاویہ "ادبی زاویہ "ہے اس کے تحت نہ صرف
اردو زبان کو وسعت ملی بل کہ اردو کے
اسالیب بیان اور روحانی معانی بھی متاثر ہوئے اور اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع ہو
گیا۔
سید محمد عظیم
رحمتہ اللہ علیہ سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ تصوف ،تاریخ اور تذکرہ نگاری تک
محدودتھا، سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نےروحانیت کا سائنسی انداز فکر متعارف کروایا۔
ان کی تصنیف لوح و قلم موضوعات کے اعتبار سے اردو ادب میں پہلی کتاب ہے جس میں
کائناتی اسرار و رموز کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔یوں سید محمدعظیم رحمۃ اللہ علیہ کے فکر و فن کا اثر و اسلوب بیان پر بھی ہو اور موضوع پر بھی۔ اگرچہ سید محمد عظیم رحمتہ اللہ
علیہ سے پہلے سے صوفیانہ ادب موجود ہےلیکن سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی
بھی تحریر نظر انداز نہیں کی جا سکتی کیونکہ سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کی
بدولت نثر میں موضوعات کا تنوع اور سادگی پیدا ہوئی۔
سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کا روئے سخن خواص سے کہیں
زیادہ عوام کی طرف تھا کیونکہ صرف شاعری اس تحریک کی ضرورت کی کفیل نہیں ہو سکتی
تھی ۔اس لئے سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کی تحریروں نے گہرے تعقل ، تدبر اور
شعور کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا
اور صرف اردو نثر ہیں ان مقاصد میں زیادہ معاونت کر سکتی
تھی۔ چنانچہ ادبی سطح پر سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ نے اردو نثر کا ایک
باوقار، سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا اور حتیٰ کے رباعی کو بھی شاعری کے مقفیٰ
اور مسجع اسلوب سے نجات دلاکر سادگی اور متانت کی کشادہ ڈگر پر ڈال دیا اور یوں
ادب کی افادی اور مقصد ی حیثیت ابھر کر
سامنے آئی۔
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ نے سائنسی نقطہ نظر اور اطہار
کی صداقت کو اہمیت دی اور سب سے زیادہ اثرسوانح اور سیرت نگاری کی صنف پر پڑا۔ تذکرہ بابا تاج
الدین اس کی واضح مثال ہے۔
سید محمد عظیم
رحمتہ اللہ علیہ نے تعلیم کے حامی اور جدیدیت کے علمبردار تھے انھوں نے حضور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کے لیے اخلاقیات کی خالص قدروں
کو فروغ دینے کی کوشش کی ان کی تحریروں کا آہنگ دریافت کر لینے سے مستقبل کو
سنوارا اور ارتقاء کے تسلسل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔سید محمد عظیم رحمتہ اللہ
علیہ نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اسلاف کی عظمت
سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کا اندازہ تھا کہ بزرگوں
کی یاد رکھنا اچھا اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے۔چناچہ انہوں نے تاریخ کے برے
پھل سے عوام کو بچانے کی کوشش کی اور ماضی کے تذکرہ جمیل سے صرف اتنی توانائی حاصل
کی کہ قوم مستقبل کی مایوسی ختم کرنے کے لئے ایک معیار مقرر کر سکے۔
اردو رباعی میں سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کا مقام و
مرتبہ
انیس سو بیسویں صدی میں فارسی شعرا کے اتباع میں اردو شعرا
نےبھی رباعی گوئی میں اپنی اپنی طبع کی
جولانیاں دکھائی ہیں۔مشہور اردو رباعی گو شعرا میں میر تقی میر ،سودا ،میر درد میر
،انیس، غزل ،غالب، ذوق، مومن، حالی، اکبر الہ آبادی ،اور علامہ اقبال شامل ہیں اقبال
کے بعد افسوس اردو رباعی کا چلن بہت کم رہ گیا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ترقی
پسند تحریک اور "جدیدیت "کی لہر میں جب نئے اردو شعرا نے شاعری میں
تجربات کیے اور آزاد نظم کا چلن عام ہوا تو اس سے کلاسیکی اصناف سخن پیچھے چلی
گئیں۔ نہ صرف ان کا رواج کم ہو گیا بلکہ ایک طرح سے ان سے نفرت بھی کی گئی۔اقبال
کے بعد رباعی گو شعرامیں جوش،فانئ،فراق،شمس الرحمٰن فاروقی اور صبا اکبرآبادی،
عبدالعزیز خالد اور صادقین کے نام نمایاں ہیں۔ احمد فراز نے بھی چند ایک رباعیاں
کہی ہیں۔ لیکن اکیسویں صدی میں صوفیانہ ادب کی نشوونما شعر و نثر کے ذریعے سید
محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ نے سب سے زیادہ کی۔ آپ نے رباعی کے ذریعے سے کلاسیکی
روایت کو زندہ کیا، موضوعات کے ذریعے تصوف کی تحریک دی اور زبان کی نشوونما کی۔آپ نے ترقی پسندی اور جدیدیت کے دور میں کلاسیکی روایت کا
رشتہ اہل حاضر سے جوڑا روایت کا لحاظ رکھتے ہوئے نئے موضوعات کا اضافہ کیا اور نئے
رجحانات کے فروغ کا باعث بنے ہیں۔ ان کی رباعیات میں قرآنی حوالے سے عرفان نفس،
تاریخی تلمیحات، بہ طور خاص زیر بحث آئے
ہیں۔سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کا طرز بیان فطری جاذبیت لیے ہوئے ہے۔ عمیق
صوفیانہ مضامین میں بیان کرتے ہوئے بھی سریت ایمائیت اور مشکل پسندی سے گریز کیا
ہے ۔یوں زبان و بیان کے حوالے سے بھی آپ کی رباعیات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
فنی محاسن کے اعتبار سے رباعیات عظیم رحمۃ اللہ علیہ ہر اس
معیار پر پورا اترتی ہیں جو کہ اردو شاعری کو امتیاز بخشتا ہے۔ رباعیات کے موضوعات
اس کی زبان میں مصرعوں کی ترتیب اس کی بحر، الغرض ہر معیار پر یہ رباعیات منفرد
اور معیاری ہیں اور بلاشبہ فنی محاسن کے سبباردو ادب میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے قابل ہیں۔اس
طرزکی صوفیانہ شاعری میں یہ خوبی سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کو ایک منفرد مقام
عطا کرتی ہے ۔حرف آخر کے طور پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ
علیہ کی ذات گرامی سے رباعیات اور شعر و شاعری کی صورت میں شراب عرفانی کا ایک
چشمہ پھوٹ نکلا جس سے رہروان سلوک نشہ توحیدی میں مست و بے خود ہونےکے لیےہمیشہ
سرشار ہوتے رہیں گے اورشعر و سخن کو سمجھنے والے اپنی علمی و ادبی تشنگی دور کرتے
رہیں گے۔ آنے والا وقت اس بات کا شاہد ہو گا کہ یہ رباعیات و شاعری جہاں اپنی فنی
اور معنوی اعتبار سے کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں وہاں یہ چشمہ ہدایت اور کائناتی رازوں
کی امین بھی ہیں۔
اردو کے نثری صوفیانہ ادب میں سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کا حصہ
حضور بابا صاحب نے اپنی تحریروں میں بیشتر موضوعات پر روشنی
ڈالی ہے کہیں بنی نو انسان کی فطرت اور حقیقی طرزفکر کواجاگر کیا گیا ہے کہیں مٹی
کے ذرے کی حقیقت اور فناو بقا پر روشنی ڈالی ہے۔ کہیں فطرت پروردگار کی شان و عظمت
کا ذکر ہی کہیں عالم ملکوت و جبروت کا تذکرہ ہے۔کہیں کہکشانی نظام اور سیاروں کا
ذکر ہے کہیں فطرت آدم کی مستی وقلندری اور گمراہی پر روشنی ڈالی ہے۔ کہیں فرمان
الہی اور فرمان رسول ﷺپیش کر کے تصوف کے پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کہیں عارف کے بارے میں فرمایا ہے کہ عارف وہ ہے جو اللہ تعالی کی مشیت پر رضا پر راضی برضا ہو۔
آپ کے تحریر کردہ مکتوبات کتاب لوح و قلم،تذکرہ بابا تاج
الدین اور قدرت کی اسپیس جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ جاوید ثبوت ہیں
کہ سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی شراب عرفانی کا ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہےجس سے رہروان سلوک نشئہ توحیدی میں مست و بے
خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہے ہیں اور ہمیشہ ہوں گے۔
سید محمد عظیم رحمتہ اللہ علیہ کی نثر اور نظم کے امکانات و
اثرات
بیان کردہ پس منظر
کے پیش نظر 21ویں صدی میں صوفیانہ ادب کی نشوونما کے حوالے سے سید محمد عظیم رحمۃ
اللہ علیہ اور نثری تخلیقات کے امکانات اور اثرات پر روشن ہیں کیوں کہ
سید محمد عظیم رحمۃ
اللہ علیہ کی ادبی تخلیقات کے فنی اور فکری جائزہ سے اکیسویں صدی کے صوفیانہ شعری
رجحانات اور تصوف اور روحانیت کے موضوعات کی نشاندہی ہوتی ہے۔
سید محمد عظیم رحمۃ اللہ علیہ کی تخلیق کردہ اسلاف ادب کے
جائزے سے اصناف کے فنی اور فکری ارتقاء کو
سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
سید محمد عظیم احمد
کی ادبی تخلیقات کے تناظر میں صوفیانہ ادب کی نشوونما میں اردو زبان اور اردو زبان
کی نشوونما میں صوفیاء نہ ادب کے کردار کا
اندازہ ہوتا ہے۔
حرف آخر کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سید محمد عظیم رحمتہ
اللہ علیہ کی شعری اور نثری تخلیقات کا مطالعہ صوفیانہ ادب کے تناظر میں نوآموز
گان خصوصا نثر اور شعر کے طلباء کے لئے مفید مطالعہ ثابت ہو گا۔ انشاءاللہ
Huzoor Qalander Baba Aulia R.A (Hayat, Halat, Taleemat..)
Yasir Zeeshan Azeemi
میں
نے اس عظیم بندے کے چودہ سال کے شب و روز دیکھے ہیں۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی
معمولات میرے سامنے ہیں۔ میں نے اس عظیم بندہ کے دل میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے۔ میں
نے اس عظیم بندہ کے من مندر میں اللہ کو دیکھا ہے۔ میں نے اس عظیم بندہ کے نقطۂ
وحدانی میں کائنات اور کائنات کے اندر اربوں کھربوں سنکھوں مخلوق کو ڈوریوں میں
باندھے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کائنات کی حرکت اس عظیم بندہ کی ذہنی
حرکت پر قائم ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ میں نے اس بندہ کی زبان سے اللہ
کو بولتے سنا ہے۔
گفتہ
اور گفتہ اللہ بود
گرچہ
از حلقوم عبداللہ بود
عظیم
بندہ جسے آسمانی دنیا میں فرشتے قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارتے ہیں، نے مجھے
خود آگاہی دی ہے۔ ڈر اور خوف کی جگہ میرے دل میں اللہ کی محبت انڈیل دی ہے۔ قلندر
بابا اولیاءؒ نے میری تربیت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہاں دو طرز فکر کام کر رہی
ہیں۔ایک شیطانی طرز فکر ہے جس میں شک، وسوسہ، حسد، لالچ، نفرت، تعصب اور تفرقہ ہے۔