Topics
لوح قلم
ادارہ روحانی ڈائجسٹ کا یہ فیصلہ مستحسن اور وقت کی اشد ضرورت کی تکمیل ہے کہ اس موقر رسالہ میں قسط وار شائع ہونے والا مضمون ‘‘لوح و قلم’‘ آموختہ کی شکل میں دوبارہ قسطوں میں شائع کیا جائے گا۔ علوم روحانی سے دلچسپی رکھنے والے قارئین جنہوں نے اس نایاب و یکتائے روزگار سلسلۂ مضامین کا بہ نظر غور مطالعہ کیا ہے ان پر یہ حقیقت ضرور واضح ہوگئی ہوگی کہ یہ کوئی عام طرز کی تصوف یا روحانی تعلیم کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کے مندرجات اپنے روحانی اور معنوی سحر انگیز تاثرات کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کے بند اور کند گوشوں کو کھول کر اور جلا بخش کر قدرت کے ان عظیم رازوں کو بھی واشگاف کردیتے ہیں جن پر کسی مروجہ علوم یا سائنس کے تصورات کا عکس بھی اب تک نہ پڑا تھا۔ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا یہ گراں بہا عطیہ رہتی دنیا تک مشعل ہدایت اور مینارۂ نور کا کام دے گا۔ وہ زمانہ گو ہماری آنکھوں سے لاکھ اوجھل سہی، عالم غیب میں ضرور پرورش پارہا ہے جو ‘‘لوح و قلم’‘ کے اسرار و رموز سے روشناس ہوگا اور جب دنیا میں ایک روحانی انقلاب برپا ہوگا اور یقیناًہوگا تو یہی حاملان علوم سماوی اس انقلاب کے نقیب ہوں گے۔ اس دور کے یہ عظیم قائدین اپنی نورانی اور روحانی قیادت و رہنمائی سے انسانی دل و دماغ کو ایک نئی روشنی اور قوت عطا کریں گے۔ ان کے توسط سے اور ان کی شخصیت کی فیض رسانی کے طفیل ایک ایسا نظام عالم تشکیل پائے گا جس میں موجودہ زمانہ کی نفسا نفسی اور خود فریبی کا گزر نہ ہوگا۔
یہ زمانہ جس میں ہم اور آپ یکساں طور پر کش مکش اور ابتلا کی زندگی بسر کررہے ہیں اور جہاں ہر طرف مادیت کی یلغار ہے، بتدریج اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مادیت کی تیز روشنی میں بصارت کی خیرگی اور دل سوز جلن ہے، مگر روح کی لطافت اور بصیرت کی نمی نہیں ہے۔ جس طرح مادیت کو قرار اور دوام نہیں ہے، اسی طرح مادیت کی بنیاد پر جو عمارت تعمیر ہوگی وہ دیر یا سویر سے ضرور زمین بوس ہوجائے گی۔ یہ نظام قدرت ہے اور کوئی اس کا توڑ نہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے81 سال کی عمرِ طبعی پائی۔ ان کی بصیرت پرور نگاہوں کے سامنے موجودہ صدی کے روح فرسا حادثات اور انقلابات رونما تھے۔ انہوں نے مادی قوتوں کو پروان چڑھتے دیکھا اور اپنی گہری مگر حزن و ملال سے بھری نگاہوں سے مشاہدہ فرمایا کہ انسانیت کس طرح باوجود فراوانی علم ودانش پامال اور درماندہ ہورہی ہے۔ خارجی زینت و آرائش اور عیش کوشی کے پس پردہ داخلی انتشار و اضطراب اور نکبت و فلاکت کا دیو روح و دل کو روند رہا ہے اور راہ نجات اور جائے مفر نظر نہیں آتی۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ زمانۂ حاضرہ کے لوگوں کی ،خاص طور پر مسلمانوں کی زبوں حالی اور غفلت کوشی اور مرکز گریزی کا ذکر اکثر اوقات نہایت دل سوزی اور قلبی اضطرار کے ساتھ بیان فرمایا کرتے تھے۔ ان کا اصرار تھا بلکہ ان کا مشن تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو دنیاوی فنون و کمالات سے بلند ترین مقامات پر فائز کرنے کے لئے کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی فراموش نہ کی جائے کہ یہ معاشی اور مادی ترقی اور خوش حالی ہی زندگی کا مقصد اور مدعا نہ قرار دیا جائے۔ بصارت چشم سے زیادہ بصیرت قلب پر فکری اور عملی توجہ مرتکز رہنی چاہیئے۔ بقول علامہ اقبال
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
اس مشینی دور کے انسان کی مادی ترقی اور روحانی یا باطنی تنزل کا حال عجب فکر انگیز ہے۔ سر بفلک، پابہ گل، سر پر غرور آسمان کی بلندی سے بھی بلند تر اور پائے ناموس ہلاکت و عدم تحفظ کی دلدل میں دھنسا ہوا۔ ایک بار پھر علامہ اقبال کی طرف رجوع کرنا پڑا۔
ڈھونڈھنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفرکرنہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر نہ سکا
ان حوصلہ شکن اور ایمان سوز حالات میں حضور قلندر بابا ؒ کا وجود پاک انسانی ہمدردی اور مشفقانہ رشد و ہدایت کے سرچشمہ کی حیثیت سے قدرت کا گراں قدر اور تشکر و احسان مندی کا مستقیض خزانہ تھا۔ مگر افسوس ہماری اس بے حسی اور حق گریزی پر کہ ہم اس ذات گرامی کی نورانی ہدایت اور رہنمائی سے اپنے تاریک دلوں کو منور نہ کرسکے۔ اب جب کہ حضور جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں ہیں ہمارے لئے آپ کی تعلیمات اور ارشادات ہی ایسے ذرائع باقی رہ جاتے ہیں جن سے ہم بقدر ذوق و عقیدت استفادہ کرسکتے ہیں۔ اگر تلاش حقیقت کی لگن خلوص و نیاز مندی کے ساتھ جاری رہ سکے تو یہ روحانی ذرائع اب بھی رشد و ہدایت کے اس خلا کو کسی حد تک پُر کرسکتے ہیں۔ ان ذرائع میں کتاب ‘‘لوح و قلم’‘ کو روشن ترین مینارہ نور کی حیثیت حاصل ہے۔ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے کہ اس نسخۂ رشد و ہدایت کا بلاالتزام اور دل جمعی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور اس کے مندرجات کو حرزجاں بنالیا جائے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ عالم روحانیت کے اسرار و رموز کے کتنے روشن دریچے کھل کر آپ کے قلب و روح کو لطافت و تازگی بخشتے ہیں اور اس جہان سو د و زیاں سے گزار کر کس حسین انداز میں آپ کو کیفیات و احساسات کی اس فضا میں پہنچا دیتے ہیں جہاں نور ہی نور ہے اور جہاں مظاہر قدرت کا عین الیقین کے ساتھ مشاہدہ "نظارہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست" کے مصداق آپ کو حیات سرمدی سے ہم کنار کردے گا۔
‘‘لوح و قلم’‘ کا ابتدائی مسودہ غالباً 1957ء کے دوران حضور قلندر بابا ؒ نے لکھوانا شروع کیا اور کم و بیش دو سال میں تھوڑا تھوڑا کرکے مکمل ہوا تھا۔ یہ اعزاز و شرف محترم خواجہ شمس الدین عظیمی کو حاصل ہے کہ اس کتاب کی ایک ایک سطر حضور قلندر باباؒ کے ارشادات پر مشتمل بطرز املا نویسی تحریر کی گئی ہے۔ راقم الحروف کی درخواست پر خواجہ صاحب نے الہامی ارشادات کی حامل اس کتاب کی ترتیب و تشکیل کا پس منظر بتایا۔ حضور قلندر بابا ؒ اس دور میں خواجہ صاحب کے موجودہ مکان واقع ناظم آباد میں مقیم تھے۔ عموماً ہر روز شام کے بعد عقیدتمند اور احباب حاضر خدمت ہوکر حضورؒ کے ارشادات اور تعلیمات سے مستفیض ہوتے تھے۔ ان نشستوں میں عالم روحانیت کے اسرار و رموز بھی بیان ہوتے تھے اور حاضرین اپنے اپنے مسائل اور مشکلات بھی پیش کرتے تھے جنہیں حضور اسی شفقت و توجہ سے سنتے تھے جس دل جمعی کے ساتھ وہ عالم روحانیت کے مضمرات و مقامات اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتے تھے۔
ان ہی روزانہ کی نشستوں میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ بعض اوقات عالم اسلام کی زبوں حالی اور فکری انتشار پر اپنے احساسات کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ اسلامی ممالک کے زوال کے بعد برصغیر کے مسلمان مایوس کن حالات کا شکار ہوچکے تھے جبکہ اغیار اپنی علمی اور عملی منتشر قوتوں کو یکجا کرکے اپنے مستقبل کے لئے ترقی اور استحکام کے اسباب فراہم کررہے تھے۔ مسلمانوں میں جو اس بگڑتی ہوئی صورت حال سے متفکر اور پریشان تھے انہوں نے خانقاہوں اور رجعت پسندی میں پناہ تلاش کی اور عملی دنیا سے یکسر کنارہ کش ہوگئے۔ عامۃ الناس افرا تفری کا شکار ہوکر مالی اور ذہنی بھنور میں گھر کر کہیں کے نہ رہے۔ رہی سہی کسر جنگ آزادی 1857ء کی ناکامی نے پوری کردی اس کا سارا خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑا جس کے دور رس نتائج سے مسلمانان ہند عرصہ دراز تک نہ پنپ سکے۔ اسلام اور اسلام کے نام لیوا ہر جہت سے ابتلا اور آزمائش میں گرفتار تھے۔ یہاں ان تاریخی عوامل کا اعادہ منظور نہیں ہے مگر اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ان درد و کرب کی گھڑیوں میں اگر کہیں جائے پناہ تھی تو ان ہی خانقاہوں میں اور اگر کہیں سے ہدایت و رہنمائی کے اسباب مہیا ہونے کے امکانات تھے تو ان ہی صاحبان بصیرت اور دل درد مند کے مالک بزرگوں کے سایہ عاطفت میں تھے۔ مگر یہاں بھی بہت کچھ اصلاح و تنظیم کا فقدان تھا یعنی رشد و ہدایت کے ذرائع یا تو دیرینہ روایات تھیں یا علم سینہ۔ تصوف یا روحانی علوم کے ماخذ بزرگان سلف کے ارشادات ملفوظات کی شکل میں جمع تھے جن کا بیشتر حصہ ارکان و احکام کی تعلیمات پر مبنی تھا۔ان میں بھی روایات اور سوانحی واقعات نمایاں تھے۔ سال پر سال گزرتے گئے مگر مسلمانوں میں نفوذ کردہ جمود نے کروٹ ہی نہ لی۔ سائنسی علوم اور ان کے زیر اثر مادی ترقی نے جو نئی راہ عمل کھول دی تھی وہ محض مادی علوم اور مادی ترقی کی راہ تھی۔
اسلام ایک مکمل اور جامع نظام حیات ہونے کی بنا پر نہ تو مادی علوم کے لئے سدراہ ہے اور نہ مادی ترقی و فروغ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلام دنیوی فروغ اور خوش حالی کو تکمیل حیات کا ذریعہ قرار دیتا ہے مگر اس کے ساتھ اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ مسلمان اسلام کا مخلص پیروکار ہونے کا دعویدار ہوکر محض دنیوی آسائش و آرائش کا دلدادہ ہوکر نہ رہ جائے۔بلکہ اس کی زندگی کا معتدبہ حصہ باطنی اصلاح و فروغ پر بھی مشتمل ہونا ضروری ہے۔ یہی حقیقی مقصد حیات ہے اور اسی کی بنیاد پر کامرانی جا وداں کاانحصار ہے۔
حضور قلندر باباؒ کے پیش نظر ایک جامع اور قابل عمل مجموعہ علوم کو کتابی صورت میں یکجا کرکے امت مسلمہ کو عالم روحانیات کے اسرار و رموز سے روشناس کرنا تھا۔ حضور فرمایا کرتے تھے کہ چودہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی روحانی شعبہ حیات میں ماورائی علوم کے سمجھنے اور اس پر دسترس حاصل کرنے کی غرض سے سلسلہ وار اسباق و ہدایات ایک جامع شکل میں پیش نہ کئے جاسکے۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ علوم روحانیت کے شیدائیوں اور صفائے قلب و روح کے متمنی افراد کے لئے کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جس میں تخلیق و تکوین کائنات کے اسرار و مقامات کی عام فہم زبان میں نشان دہی کی گئی ہو اور جس کے توسط سے اہل عقیدت صحیح روحانی اور ماورائی علوم سے آگاہی حاصل کریں ۔ اس راہ کا ہر راہی کچھ دور چل کر تھک ہار کر یا مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
ان ہی احساسات و جذبات کے تحت حضور قلندرباباؒ نے فیصلہ کیا کہ اہل بصیرت اور حقیقت کے متلاشی لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے علوم روحانیت میں کار فرما اصول و ضوابط کو عام فہم زبان میں کتابی شکل میں پیش کردیا جائے۔ اس بلند پایہ اور عام ڈگر سے ماورا مقصد کی تکمیل کے لئے اور مجوزہ کتاب کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے حضور والا کی نگاہ انتخاب خواجہ صاحب پر پڑی اور یہ طے پایا کہ حضور روزانہ شب کی آخری تہائی میں خواجہ صاحب کو ڈیڑھ دو گھنٹے روزانہ کے ارشادات بطور املا نویسی تحریر کرائیں گے۔ جنہیں خواجہ صاحب ایک ضخیم کاپی یا رجسٹر میں رواں شکل میں جمع کرتے جائیں تا آنکہ ایک مکمل کتاب کا مسودہ تیار ہوجائے۔ چنانچہ ان پروگرام پر بہت جلد باقاعدگی سے عمل شروع ہوگیا۔
اس مقصد کے لئے آخری تہائی حصۂ شب کا انتخاب جتنا معنی خیز ہے اتنا ہی سحر انگیز بھی۔ یہی وہ ساعتیں ہیں جب نسیم سحر کے لطیف و جانفزا جھونکے مضبوط اعصاب کو محوا ستراحت رکھنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ متبرک اور فیض آگیں لمحات ہیں جب مقربان الٰہی اور دل و بیدار و نفس مطمئنہ کے مالک گرم و گداز بستروں کو خیر باد کہہ کر خالق کائنات سے مصروفِ راز و نیاز ہوجاتے ہیں۔ ان ہی مقدس اور فیض آثار ساعتوں میں ارضی و سماوی امور طے پاتے ہیں جن پر یہ مقربین بارگاہ شاہد ہوتے ہیں اور حاملان عرش ان کی تائید و تصدیق میں کلمات تحسین ادا کرتے ہیں۔ یہ صبح خیزی اور ان لطیف و نرم لمحوں میں خالقِ کائنات کی حمد و ثناء کے ساتھ تخلیق کائنات میں تدبر اور تفکر جیسی لازوال اور بیش بہا نعمتیں اہل نصیب ہی کا مقدر ہو سکتی ہیں۔
یہ رتبۂ بلند ملا جس کے تھا نصیب
ان لطف آگیں ساعتوں میں جو رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں روح پرور ترین ساعتیں ہوتی ہیں مقربین بارگاہ ایزدی کا اپنے پہلو بستروں سے علیحدہ کرکے یاد الٰہی میں مصروف ہونا اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور توفیق ہے۔ اس کے صلے میں حاصل ہونے والے انعام و اکرام پر خود قرآن کریم بھی گواہ ہے۔
ترجمہ:
‘‘ان کے پہلو خواب گاہ سے علیحدہ ہوتے ہیں اس طور پر کہ وہ لوگ اپنے رب کو امید سے اور خوف سے پکارتے ہیں (مصروف عبادت رہتے ہیں) اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کسی ذی روح کو (مطلق) خبر نہیں ہوتی کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے کیسے کیسے سامان ایسے لوگوں کے لئے خزانہء غیب میں موجود ہیں۔ یہ ان لوگوں کے اعمال کا صلہ ہے۔’‘
( السجدہ۔ آیت 16, 17)
جب تحریر و تذکیر کا پروگرام طے پاگیا تو ٹھیک ساڑھے تین بجے شب حضور قلندر بابا ؒ اور خواجہ صاحب دیگر محو خواب افراد خانہ سے علیحدہ ہوکر ایک کمرہ میں یکسوئی اور خاموشی کے عالم میں بیٹھ جاتے تھے۔ حضور قلندر بابا ؒ اپنے نرم رو لہجہ میں سلسلہ کلام جاری رکھتے تھے اور خواجہ صاحب ہمہ تن گوش ہوکر سر جھکائے کاغذ و قلم پر نظر جمائے لکھتے جاتے تھے۔ جب کسی مقام پر خواجہ صاحب کا ذہن رُک جاتا اور وہ سوالیہ نظروں سے حضور کی طرف دیکھنے لگتے تھی تو حضور اسی دھیمے فہم آموز لہجہ میں وضاحت فرما دیتے یا نقشہ بنا کر عالم تکوین کے مقامات کی نشاندہی کردیتے۔ خواجہ صاحب مطمئن ہوجاتے اور پھر اس کے بعد ان کا قلم رواں ہوجاتا۔ تقریباً دو گھنٹے کی املا نویسی اور وضاحت و اشارت کے بعد اس روز (شب) کا حصہ ختم ہوجاتا اور اگلی شب اسی ساعت پر اور اسی ذہنی و مادی ساز و سامان کے ساتھ پھر نشست ہوتی اور اس نشست کا متعین حصہ پورا کرلیا جاتا۔
خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی اول شب میں مصروفیت یا دن بھر کے کام کاج کے سبب نیند کا غلبہ ہوجاتا اور وقت مقررہ پر آنکھ نہ کھلتی تو حضور خود ان کو بیدار کردیتے تھے۔ یہ عجیب انکشاف بھی خواجہ صاحب نے کیا کہ دوران تحریر ان کو نیند آجاتی تھی تو حضور آہستگی کے ساتھ ہوشیار کردیتے تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کبھی ان کے ذہن و دماغ پر ایک خمار کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور ان کا قلم رُک جاتا تھا اور کبھی واقعی تکان کے سبب نیند کا غلبہ ہوجاتا تھا مگر کسی حالت میں بھی اس الوہیت بداماں پروگرام میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہ ہوا اور نہ تقدیم و تاخیر کو روا رکھا گیا۔ کم و بیش دوگھنٹے کی طولانی نشست میں موسم کی گرم و سرد ستم ظریفی بھی کبھی آڑے نہ آئی۔ خواجہ صاحب جب ان روح پرور اور دل کشا لمحوں کو یاد کرتے ہیں تو ان پر کیف و سرور کی لہر چھا جاتی ہے۔ کہتے ہیں تقریباً دو سال تک پھیلے ہوئے طویل لمحات اتنی تیزی سے بیت گئے کہ گویا ایک ہی نشست تھی جو پلک جھپکتے برخاست ہوگئی۔
خواجہ صاحب بجا طور پر اس سعادت و خدمت پر ناز کرتے ہیں کہ ‘‘لوح و قلم’‘ کا ایک ایک لفظ ان کے قلم سے ضبطِ تحریر میں آیا ہے۔ بات صرف اتنی نہ تھی کہ حضور قلندر باباؒ اپنی زبانِ فیض بار سے ارشاد فرماتے تھے اور خواجہ صاحب ان کے ارشادات کو لکھتے جاتے تھے اور افہام و تفہیم کا سوال نہ تھا۔ یہ نہیں، بلکہ حضور جو نکتہ بھی بیان فرماتے اس کی تشریح و وضاحت مثال اور جدول کے ذریعے بھی کرتے جاتے تھے جس میں ملاء اعلیٰ کے مقامات تجلیات و انوار کا محل وقوع اور ان کے توسط سے دنیائے زیریں پر مرتب ہونے والے آثار و تاثرات بھی واضح کردیتے تھے۔ اس طرح خواجہ صاحب کے لوح ذہن پر لوح محفوظ اور مقاماتِ سماوی کا خاکہ اب تک موجود ہے۔ یہ وہ خصوصی فیض و کرم ہے جس سے خواجہ صاحب نوازے گئے ہیں اور وہ تشکر و احسان مندی کا جس قدر اظہار کریں کم ہے۔
جب کتاب مکمل ہوگئی اور اس پر نظرِ ثانی فرما کر حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اس میں ضروری تصحیح و ترمیم بھی کردی تو اس کی طباعت کا مسئلہ درمیان آیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ مالی اور طباعتی مشکلات کے پیشِ نظر اس کتاب ‘‘لوح و قلم’‘ کی طباعت و اشاعت کا مسئلہ سرِدست ملتوی رکھا جائے اور فوری طور پر اس تصحیح شدہ مسودہ کی مزید نقلیں اردو ٹائپ رائٹر پر تیار کرکے متوسلین اور معتقدین کے پاس محفوظ رکھ دی جائیں تاکہ اس نادر و نایاب نسخہ کے گم یا ضائع ہوجانے کا احتمال بھی نہ رہے اور مزید نقلوں کے ذریعے اس کا حلقہ مطالعہ واردات کسی قدر وسیع ہوجائے اور بوقتِ ضرورت ان نقلوں سے سند کا کام بھی لیا جائے۔
اس طرح کائنات کی تخلیق و تکوین کے اسرار و رموز پر مشتمل یہ معرکۃ الآرا تصنیف حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے ذہنِ الوہیت رساکے توسل سے معرضِ وجود میں آگئی۔ جیسا کہ خود حضور فرمایا کرتے تھے روحانی دنیا کے علوم و کوائف پر مشتمل یہ پہلی مربوط و مبسوط تصنیف ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں پیش کردہ رموز و حقائق انتہائی سادہ اور ذہن نشین پیرایہ میں بیان کئے گئے ہیں حالانکہ تخلیقِ کائنات میں کار فرما عوامل اتنے دقیق اور وسیع ہیں کہ عام انسانی ذہن اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ مگر حضور کے طرزِ بیان میں پوشیدہ سلاست و سادگی کا یہ اعجاز ہے کہ ایک متجسس اور مخلص قاری کا ذہن کہیں کسی مقام پر نہیں رکتا (البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کے مندرجات کو مستقل طور پر ذہن نشین کرنے اور اس کی جزئیات اور تفصیل پر عبور حاصل کرنے کیلئے تائیدِ ربی اور مرشدِ کامل کا تقرب ضروری ہے۔ یہ علیحٰدہ بحث ہے اور اس پر اہلِ بصیرت ہی اظہارِ خیال کرسکتے ہیں)۔ اگر نثر میں سہلِ ممتنع کی اصطلاح کا استعمال بارِ خاطر نہ ہوتو اس مختصر مگر جامع تصنیف کو اس صنعتِ کلام کا شاہکار قرار دے سکتے ہیں۔
زبان تسنیم و کوثر میں دھلی ہوئی اور روز مرہ کی چاشنی لئے ہوئے چشمہ رواں کے پانی کی طرح لطیف و ہموار ، دل و دماغ کو فرحت و تازگی بخشنے والا۔ مندرجات و مشتملات کے سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہو مگر جب آپ اس میں پیش کردہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرنا چاہیں تو روح و قلب اضطراری کیفیت کا شاہکار ہوجائیں کہ کاش کسی شارحِ اسرارِ الٰہی کی دستگیری میسر ہوکہ اس خوش نما سیپ میں بند گوہرِ نایاب کی جھلک ہی دکھائی دے جاتی۔ اگر آپ اس روحانی تصنیف سے ادبی شاہکار کی حیثیت میں محض عقل و ذہن سے کام لینا چاہیں گے تو آپ کو کوئی دقت محسوس نہ ہوگی بلکہ آپ اس کے طرزِ بیان اور اندازِ تشریح و توضیح کی جاذبیت سے متاثر ہوکر عش عش کہہ اٹھیں گے مگر جب آپ اسرارِ کائنات کے بحر ناپیدا کنار میں غوطہ زنی کا ارادہ کریں گے تو قدمِ اول ہی میں دم گھٹنے لگے گا۔
بات واضح ہے کہ علومِ عالمِ روحانی کی یہ تصنیف ذہن و دماغ سے روحِ بیدار اور قلبِ مضطرب کی کاوشوں کی متقاضی ہے۔ یہاں سہل انگاری اور تغافلِ عارفانہ کی نہیں بلکہ اس تڑپ اور جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے جس کا صلہ جادۂ منزل کی نشان دہی یعنی ہدایت ربانی ہے اور جس کی نوید قرآن کریم میں دی گئی ہے۔
‘‘ جو لوگ ہماری راہ میں (مستقل مزاجی کے ساتھ) جدو جہد کریں گے ہم ان پر اپنی ذات کی معرفت (ہدایت) کی راہیں کھول دیں گے۔’‘( العنکوت۔آیت69)
حضور قلندر بابا اولیاءؒ اس کتاب ‘‘لوح وقلم’‘ کی نسبت غیر مبہم انداز میں فرماتے تھے کہ جوشخص کھلے اور بے لوث ذہن و قلب کے ساتھ خدا رسائی کی پر خلوص نیت سے اس کتاب کا مطالعہ جاری رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے غیبی اسباب پیدا کردے گا جن کے طفیل اس کا دل حاجاتِ دنیوی سے مستغنیٰ اور اس کی روح کشف و شہود کی روحانی دولت سے مالا مال ہوجائے گی۔
مادر پیالہ عکسِ رُخِ یار دیدہ ایم
اے بے خبر ز لذتِ شرب دوامِ ما
تحریر: پروفیسر شیخ فقیر محمد
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔
ا نتساب
اُس نوجوان نسل کے نام
جو
ابدالِ حق، قلندر بابا اَولیَاء ؒ کی
‘‘ نسبت فیضان ‘‘
سے نوعِ ا نسانی کو سکون و راحت سے آشنا کرکے
اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے
ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر
انسان اپنا ازلی شرف حاصل کر کے جنت
میں داخل ہوجائے گا۔
دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا
کیا کہیے کہ ہے کیا یہ ہماری دنیا
مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق
مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا
اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا
اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیمٓ
میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا