Topics
مجھے حال ہی میں بلیک ہول کے بارے میں ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ میرے
ذہن میں مضمون کی چیدہ چیدہ باتیں گونج رہی تھیں اور مجھے اشتیاق یہ ہو رہا تھا کہ
میں اپنے مراد سے اس کے بارے میں کچھ سنوں۔ میں نے بالآخر بلیک ہول کے بارے میں
ان سے کچھ جاننے کو سوال پوچھ ہی لیا۔
مرشد کریم اپنے روحانی فرزندوں کی تربیت کے لئے سائلوں کی ذہنی استعداد اور
افتاد طبع کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جو ایک گہرے تفکر کو
جنم دے۔ ان کے ذہن میں تلاش و جستجو اور کھوج پیدا ہو۔ تجسس کو مہمیز لگے اور ذوق
آگہی بیدار ہو۔ اس کا اصل پس منظر جس قدر میں سمجھ سکا ہوں یہی ہے کہ روحانی علوم
کا تعلق طرز فکر سے ہوتا ہے اور طرز فکر کا ایک اعجاز یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں ہر
لحظہ ایک نئی آن اور ایک نئی شان کا اظہار ہوتا ہے۔
میرے مراد نے میرے سوال پہ بڑی معصومیت سے طرح دے کر کہا ’’بھئی بلیک ہول کے
بارے میں تو وہی بتا سکتا ہے جس نے بلیک ہول کا مشاہدہ کیا ہو۔‘‘ اب میرا یقین کہ
مرشد ہی مجھے اس کے بارے میں اصلیت سے آگاہ کر سکتے ہیں، ان کی اس بات کو ماننے میں
آڑے آ رہا تھا۔ مجھے مصر پا کر صرف اتنا فرمایا کہ قرآن میں ان کا تذکرہ موجود
ہے اور اس پر تین آیات ہیں اور ان میں اندھیروں کا لفظ استعمال کر کے ان کی وضاحت
کی گئی ہے۔ اس مختصر سے جملے میں انہوں نے مجھ کو کیا کیا سمجھایا۔ میں اسی تگ و
دو میں لگا ہوا ہوں لیکن بادی النظر میں اصلیت جاننے کو انہوں نے نشانات منزل کی
نشاندہی کے علاوہ پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کوئی نیا Phenomenonنہیں جس پر آپ اتنا اچھل رہے ہیں۔ بہت عرصہ پیشتر صدیوں پہلے قرآن اس کی
وضاحت کر چکا ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں تین بار اور یہ کہ بلیک ہول کی خصوصیات
اندھیروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ اس طرح بات کو قرآن فہمی کی ترغیب بنا کر مجھے
قرآن پڑھنے، سمجھ کر پڑھنے اور اس میں تلاش و جستجو کا سلیقہ تعلیم فرما دیا۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔