Topics
ایک دوپہر حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ نے دیکھا کہ بچے دھوپ میں کھیل رہے ہیں ۔ آپ ؓ نے بچوں کو سائے میں کھیلنے کی ہدایت کی ۔ حضور کی رضاعی بہن نے اپنی والدہ کو بتایا ، اماں جان! میرا قریشی بھائی دھوپ کی تمازت سے محفوظ ہے ۔ بادل اس پر سایہ کرتا ہے ، جب یہ چلتا ہے تو بادل اس کے ساتھ چلنے لگتا ہے اور جب یہ ٹھہرجاتا ہے تو بادل بھی رک جاتا ہے۔
ترجمہ :
” خدا ہی تو ہے جو ہواﺅں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں ۔ پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے ۔ جس طرح چاہتا ہے اور انہیں بدلیوں میں تقسیم کرتا ہے ۔ پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے ہیں ۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں پر ، جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکا یک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں“۔
( سورہ الروم۔ ۴۸)
بارش کا وسیلہ
خشک سالی کی وجہ سے جب مکہ میں قحط پڑ گیا تو لوگ حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور کہا ” اے ابو طالب ! بچے قحط کی وجہ سے بھوک سے بلک رہے ہیں ، کعبہ میں چل کر دعا کیجیے۔“
ابو طالب نے کمسن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کعبہ میں آکر دعا کی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر بادل چھا گئے اور موسلا دھار بارش برسی ، ابو طالب نے آپؐ کی شان میں یہ شعر کہا:
” وہ خوبصورت چہرہ جس کے فیضان سے بارش برستی ہے“۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔
آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔
میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔
آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔
یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔
آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔
مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔
میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔
آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔