Topics
اشفاق احمد نے اپنے ایک سفرنامے میں ممتاز مفتی کی زبانی صاحب حال کی خصوصیات
پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’وہ ہر معمولی، بے معنی اور لایعنی کا صحیح ادراک رکھتا ہے۔ اصل بات اس کی سمجھ
میں آ چکی ہوتی ہے کہ معمولی ادنیٰ، لاشے اور لامکاں ہی حقیقت ہے اور بے حقیقی ہی
اصل اور امر واقعہ ہے۔‘‘
ایک بار یہیں لاہور میں اشفاق احمد ہمارے مرشد سے ملنے آئے۔ ہمیں تجسس ہوا کہ
آج ان سے گفتگو میں کیسا رنگ جمے گا۔ اشفاق احمد کی روانی گفتار آج کیا سماں
باندھے گی اور میرے مراد کی عقدہ کشائیاں کس کس طرح ان کے ذہن کی آبیاری کریں گی
لیکن گفتگو کو رسمی جملوں سے آگے نہ بڑھتے دیکھ کر حیرت ہوئی۔ اشفاق احمد کی
خاموشی تعظیماً ہی ہو گی ورنہ وہ گفتار کے ایسے غازی ہیں جو رنگ جمانے سے کم ہی
چوکتے ہیں۔ پھر اشفاق احمد کو مخاطب کر کے فرمایا۔
’’آدمی 5روپے خرچ کر کے اخبار خریدتا ہے۔ صبح سویرے جھوٹ اور دہشت گردی کی
تلاوت کرتا ہے، تمام دن کی پریشانی خریدتا ہے۔‘‘
اشفاق احمد کرسی پر سیدھے ہو کر بیٹھے اور کہا۔’’ میں نے بانو قدسیہ سے کئی
بار کہا کہ تم دو اخبار خریدتی ہو اور پھر تمام دن دہشت زدہ رہتی ہو، تمہیں خوف
زدہ رہنے کا اتنا ہی زیادہ شوق ہے تو مجھے چار آنے دے دیا کرو میں تمہیں اتنا ڈرا
دیا کروں گا، تمہیں مزید ڈرنے کی طلب نہیں رہے گی۔‘‘
مراد نے تبصرہ کیا۔ ’’آدمی خبر پڑھتا ہے کہ فلاں جگہ اتنے لوگ مر گئے۔ اب وہ
کچھ کر تو سکتا نہیں۔ اپنی بے بسی کا احساس اس کی افسردگی کا سبب بن جاتا ہے۔ پھر
وہ خبر پڑھتا ہے فلاں جگہ بم پھٹا۔ فلاں جگہ حادثے میں اتنے لوگ مر گئے۔ فلاں جگہ
زلزلہ آیا۔ فلاں جگہ لڑائی ہوئی۔ اس سے بھی ذہن دہشت کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔‘‘
پھر کچھ دیر توقف کے
بعد کہا۔ ’’دراصل لوگوں کو بھی تو دوسروں کو مرتا دیکھ کر لطف آتا ہے۔‘‘
اشفاق احمد ’’جی ہاں‘ کہہ کر خاموش ہو کر بیٹھ رہے۔ نماز کا وقت ہوا تو مرشد
کریم کی اقتداء میں نماز پڑھی گئی۔ حضور کی تلاوت پہ میرا ذہن ہمیشہ مجھے لحن داودی
کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ مراقبہ اور نماز کے بعد وہیں صف پر بیٹھے بیٹھے اشفاق احمد
سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
’’حضور قلندر بابا اولیاء نے مجھ سے ایک بار فرمایا تھا کہ آپ کی نظر کبھی اپنی
صلاحیتوں پر نہیں جانی چاہئے۔‘‘
پھر قدرے توقف کے بعد
کہا۔’’ہاں بھئی! بات ہے بھی درست۔ انسان کا اپنا ہے ہی کیا۔ صلاحیتیں بھی تو اسی کی
دی ہوئی ہیں۔‘‘ پوری تقریر کو ایک جملے میں سمو دینا اختصار کلام کہلاتا ہے اور یہ
فن بہت ہی گہرے تفکر سے جنم لیتا ہے۔
اشفاق احمد کچھ دیر خاموش رہے پھر وہ سوال جو جانے کب سے ان کے اندر اچھل کود
مچائے ہوئے تھا باہر آ گیا۔
’’حضور۔اس تمام تر موجودہ سماجی اور معاشرتی بگاڑ کو درست کرنے کا کیا علاج ہو
گا؟‘‘ اس سے پیشتر کہ جواب آنا شروع ہوتا انہوں نے ہلکے سے اضافہ کر دیا ’’میرا
مطلب ہے تکوینی طور پر۔‘‘
میرے مراد نے اس بار جملہ میں دو لفظی بات کہی ’’طوفان نوح‘‘ اب اس کہنے میں
نہ جانے کیا اثر تھا۔ اشفاق احمد کے چہرے پر ایک تاثر لہرا کر گزر گیا۔ اشفاق احمد
مزید جتنی بھی دیر بیٹھے خاموش بیٹھے۔ پھر جانے لگے تو مرشد کریم انہیں ان کی گاڑی
تک رخصت کرنے گئے۔ جب وہ رخصت ہو گئے میرے مراد نے اپنے مخصوص دھیمے سے لہجے میں
تبصرہ کیا۔
’’یہ بہت اچھے آدمی ہیں۔‘‘
اس دن کے بعد جب بھی کبھی ٹی وی پہ اشفاق احمد صاحب کا کوئی ڈرامہ چلا یا ان کی
کوئی کتاب نظر سے گزری تو بے اختیار دل اس کی طرف کھنچا کہ یہ ایک اچھے آدمی کی
تحریر ہے۔ اس جملے کو سننے کے بعد سے اشفاق احمد سے ایک ذاتی سا تعلق محسوس ہونے
لگا۔
ایک روز بہت بعد میں اشفاق احمد نے میرے مراد کی کتاب ’’مراقبہ‘‘ کی تقریب
رونمائی میں تقریر کرتے ہوئے یہ کہہ کر اپنا احترام کروایا :
’’عظیمی صاحب کو خدا کی طرف سے راہنمائی اور دستگیری کا ایسا ہنر عطا ہوا ہے کہ
وہ آپ کے اندر پیدا ہونے والی الجھنوں سے آپ کو آپ ہی کی بدولت نکال دیتے ہیں یعنی
جو گر ہیں آپ نے اپنی ذات کی مشکیں کسنے میں خود لگائی تھیں، انہیں آپ ہی کے
ہاتھوں کھلوا کر آپ کو ہلکا پھلکا بنا دیتے ہیں اور پھر آپ کو اپنے کئے پر
شرمندہ ہونے کا موقع بھی فراہم نہیں کرتے۔‘‘
اللہ والے کبھی کسی کو شرمندہ نہیں کرتے‘ کبھی کسی کی دل شکنی نہیں کرتے، کبھی
کسی کو ڈانٹتے نہیں، برا بھلا نہیں کہتے اور نہ جانے کتنے ہی ایسے کام وہ نہیں
کرتے جنہیں ہم دنیا دار لوگ محض اس لئے کئے چلے جاتے ہیں کہ شریعت میں ان کے کرنے
پہ کوئی تعزیر نہیں، حالانکہ وہ منع ضرور کئے گئے ہیں۔ اب شریعت میں تو جھوٹ بولنے
اور غیبت و حسد سے بھی منع کیا گیا ہے۔ طریقت میں وہ ذہن بنایا جاتا ہے جب منع کی
جانے والی باتوں سے طبیعت ہی ہٹ جاتی ہے۔ کسی تعزیر کے خوف سے نہیں بلکہ محض اس
لئے کہ آپ کے دوست خالق کائنات نے انہیں پسندیدہ قرار نہیں دیا ہوتا۔ یہ ہوتی ہے
وہ طرز فکر جو بندے میں معمولی بے معنی اور لایعنی کا صحیح ادراک پیدا کر دیتی ہے
اور یہی وہ طرز فکر ہے جس کے حصول کے لئے لوگ جوق در جوق میرے مراد کے حضور آتے ہیں
اور فیضیاب ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔