Topics

ارشادات

مخدوم مکرم قبلہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ اس مادی دور کی تاریکیوں میں روشنی کا مینار اور مضطرب و پریشان دلوں کے لئے سرچشمۂ سکون و قرار تھے۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب آپ کی تعلیمات و ہدایت کا بیش بہا خزانہ منظر عام پر آجائے گا اور دنیا کے بڑے بڑے دانشور اور حکمت و فلسفہ کے داعی یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جائیں گے کہ انہوں نے چاند ستاروں پر کمند ڈالنے کی سعی ناتمام میں وقت اور دولت کا بے دریغ ضیاع کیا مگر فطرت کے راز ہائے سربستہ کے ایسے مایۂ افتخار محرم کے فیض سے محروم رہے جو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ان ہی کے درمیان جسد خاکی کے روپ میں جلوہ فگن تھا اور جس کے درحکمت و ہدایت سے متلاشی حق کو وہ سب کچھ مل سکتا تھا جس کی اُنہیں تلاش تھی۔ اس صورت حال کو مادی روشنی کے اندھیروں میں بھٹکنے والے انسان کی کم نصیبی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ 

غنیمت ہے کہ اس پُر آشوب دور میں جبکہ مادی وسائل کی بہتات ہی زندگی کا معیار بنتی جارہی ہے، روحانی ڈائجسٹ تشنگان علومِ روحانی کیلئے سیرابی اور طمانیت کا سرچشمہ ہے۔ انشاء اللہ اس مقتدر جریدہ کی وساطت سے حضور بابا صاحبؒ کی تعلیمات اور انکی مقدس زندگی کے نادر المعانی تجربات جستہ جستہ منظر عام پر آئینگے اور قدرت کی حکمت بالغہ کے راز ہائے سربستہ بقدر مشیت ایزدی آشکار ہوتے جائیں گے۔

مخدوم مکرم، مرشد معظم، حامل علم لدنی، وارث علومِ انبیاء، مقبول بارگاہ عزوجل اورمنظورنظر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کا ایک نہایت سلیس اور سادہ مگر حقائق و رموز فطرت سے بھرپور مضمون عامۃ الناس کے افادہ کی غرض سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔ اپنے مرشد و مخدوم کے ایک نہایت ہی حقیر قدم بوس کی حیثیت سے مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ اس بیش بہا خزانہ حکمت و ہدایت کو پیش کرنے کا شرف خود میرے ملجاء و ماویٰ مرشد مخدوم نے بخشا ہے۔ یہ مضمون عام فہم اور سلاست بیان کے باوصف وقت نظر اور پرسکون تفکر و تحقیق کا متقاضی ہے۔ ۔ مطالعہ و تفکر کے یہ لوازمات اگر صحیح معنوں میں بروئے کار لائے جائیں تو ایک قاری خود محسوس کرے گا کہ یہ روز مرہ مشاہدات میں آنے والے واقعات جنہیں ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے اپنے دامن میں رموز و حقائق کے کتنے بیش قیمت گوہر سمیٹے ہوئے ہیں۔ 

۱۔ پانی کی ذاتی ایک حرکت ہے اور ہمہ وقت موجود ہے۔ پانی میں حرکت اور لہر کا خاصہ موجود ہے۔ 

۲۔ جب کنکر تہہ میں پہنچا تو پانی میں لہریں اٹھنا شروع ہوگئیں بشرطیکہ پانی کی وسعت اتنی ہوکہ وہ باطن کا مظاہرہ کرسکے۔

۳۔ کنکر کے تصادم سے پانی اپنا باطن یعنی حرکت نمایاں کرتا ہے۔ 

۴۔ جو چیز واقع ہوتی ہے وہ مظاہرقدرت کے باطن میں موجود ہے۔ اسی لئے واقع ہوتی ہے۔ البتہ اس کے واقع ہونے کا ایک محل ہے ۔

۵۔ کنکر ارادہ کی جگہ ہے یا ارادہ کا مقام رکھتا ہے اور کنکر کا پانی سے تصادم "توجہ" کا قائم مقام ہے۔ دراصل کنکر ہی ارادہ کا تمثل ہے اور پانی میں حرکت پیدا ہونا توجہ کا تمثل ہے۔ یعنی جب ارادہ میں تکرار واقع ہوئی تو توجہ کا عمل شروع ہوگیا۔ ارادہ کی تکرار کو توجہ کہتے ہیں۔ اکثر ارادہ لاشعوری طور پر تکرار کرتا ہے اور وہ توجہ بالکل لاشعوری ہوتی ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ لازم ہے۔ نتائج کی دونوں صورتوں میں اہمیت ہے۔ یکساں طور پر دونوں اثر انداز ہوتے ہیں۔ یعنی مظاہر کی دنیا میں دونوں کی حیثیت ایک ہے۔دونوں کا اثر ایک ہے۔ خواب کی بھی یہی حالت ہے اور کیفیت بھی یہی معنی رکھتی ہے۔

۶۔ کنکر ہی جو لاشعوری ہے وہ کائناتی ذہن کا ارادہ ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا "امر"ہے۔ "امر" میں یعنی کائناتی ذہن میں برابر تکرار ہوتی رہتی ہے یہ کبھی بغیر تکرار کے نہیں ہوتا۔ یہ کنکر یعنی "امر"کی تکرار ہی "کتاب المبین"ہے۔"کتاب المبین"ہی کی تکرار سے مظاہر قدرت یا کائنات رونما ہوئی۔ "تکرار"   " کتاب المبین"ہی میں واقع ہوتی ہے لیکن تکرار کے نتائج "کتاب المرقوم" کہلاتے ہیں۔ دراصل کائنات "کتاب المرقوم" ہے۔ تکرار کبھی ذہن کی اوپری سطح پر واقع نہیں ہوتی بلکہ ذہن کی گہرائی میں واقع ہوتی ہے۔ جب کنکر پانی کی گہرائی میں پہنچتا ہے تو لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔ گویا پانی کا باطن مظاہر کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ مظاہر پانی کے باطن میں موجود ہیں۔ لیکن تکرار واقع نہیں ہوئی تھی۔ وہ باطن جس میں تکرار واقع نہیں ہوئی، صرف مفرد حرکت ہے۔ اسی ہی کو"غیب" کہتے ہیں۔ اگر اس میں تکرار واقع ہوجائے تو مظاہر قدرت بن جائے گی۔ صوفی کی توجہ اسی میں تکرار پیدا کرتی ہے اور جب صوفی توجہ کرتا ہے تو اس کی توجہ اس مطلوب کی شکل و صورت اختیار کرلیتی ہے جو صوفی کے ذہن میں ہے۔ پہلے سے جو شکل و صورت وہاں موجود تھی وہ سادہ، مفرد، بے رنگ شکل و صورت تھی۔ یہ شکل و صورت وہی ہے جو کائناتی ذہن کی ہے لیکن جب صوفی کی توجہ اس میں داخل ہوگئی تو وہ شکل و صورت بھی داخل ہوگئی جو صوفی کا مطلوب ہے۔ اگر عارف کی توجہ شامل نہیں ہوتی تو پانی کے اندر جو خواص موجود ہیں ان کا عمل ہوتا رہتا۔ اس سے کسی بھی مخلوق کا کوئی واسطہ یا تعلق ہوتا مگر خواص کی شکل و صورت اسی شخص سے بے نیاز ہوتی جس سے اس کا تعلق ہوتا۔ پانی کے خواص ایک شخص کو ڈوبنے کے اور دوسرے کو تیرنے کے اسباب پیدا کردیتے ہیں۔ 

۷۔ ارادہ کی تکرار ارادہ کی قوت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ارادہ سوا لاکھ بار ہی دہرایا جائے لیکن ارادہ میں اتنی قوت ہونی چاہیئے جو سوا لاکھ بار دہرانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر وہ قوت موجود ہے تو ایک حرکت کافی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے ، اور زیادہ تر اس زمانے میں ۹۹۹ فی ہزار ایسا ہی ہوتا ہے کہ سوا لاکھ دہرایا ہوا ارادہ بھی ایک بار کی قوت سے آگے نہیں بڑھتا۔ دراصل ارادہ دہرایا ہی نہیں جاتا کیونکہ جن الفاظ کے ذریعے ارادے کو دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ الفاظ دہرانے والے انسان کے ذہن میں اپنی کوئی تصویر یعنی معنی کے خدوخال پیدا نہیں کرتے۔ 

۸۔ ارادہ دراصل کوئی شکل و صورت رکھتا ہے ۔ جس مطلب کا ارادہ ہو، مطلب اپنی پوری شکل و صورت کے ساتھ ارادہ میں مرکوز ہونا ضروری ہے۔ بغیر شکل و صورت کے کسی ارادہ کو ارادہ نہیں کہتے۔ 


تحریر پروفیسر فقیر محمد


Topics


Tazkira Qalandar Baba Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔


ا نتساب

اُس نوجوان نسل کے نام 

جو

ابدالِ حق، قلندر بابا  اَولیَاء ؒ  کی 

‘‘ نسبت فیضان ‘‘

سے نوعِ ا نسانی  کو سکون و راحت سے آشنا کرکے

 اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے

 ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر

انسان  اپنا  ازلی  شرف حاصل کر کے جنت 

میں داخل ہوجائے گا۔



دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا

کیا کہیے کہ ہے کیا یہ  ہماری   دنیا

مٹی  کا  کھلونا ہے   ہماری تخلیق

مٹی  کا کھلونا  ہے یہ ساری   دنیا


اک لفظ تھا اک لفظ سے  افسانہ ہوا

اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا

گردوں نے ہزار عکس  ڈالے ہیں عظیمٓ

میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا