Topics
نتیجہ میں جو لوگ فی
الواقع اس سے محبت کرتے ہیں اس کے بے اعتدال طرز عمل کی وجہ سے اس سے دور ہو جاتے
ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بچے کی والدہ یا والد کا انتقال ہو گیا یا دونوں
اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بہن بھائیوں نے حق تلفی کی تو بھی احساس کمتری پیدا ہو جاتا
ہے۔ بڑا ہونے پر اس پر اللہ تعالیٰ کا کتنا ہی انعام ہو جائے لیکن وہ احساس کمتری
سے نہیں نکلتا۔ اور وہ ایسی ایسی باتیں دہراتا ہے کہ جس سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔
یہ ایسا مرض ہے جس سے وہ خود بھی پریشان رہتا ہے اور دوسرے لوگ بھی عذاب میں مبتلا
ہو جاتے ہیں۔ یہی صورت حال احساس برتری کی ہے۔ احساس برتری میں انسان تکبر میں
مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ احساس کمتری سے بھی زیادہ بڑی بیماری ہے۔
ھُوَالشَافِی
۱۔بِسْمِ
اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَ لرَّضَاعَتُ عَمَا نَوِیْلُ
۳
دفعہ پڑھ کر پانی پر دم کر کے پئیں۔ دن میں ۳ دفعہ ایک چمچ شہد کھائیں
اور اس پر بھی الرضاعت عما نویل پڑھ کر دم کریں۔
۲۔
آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں۔ آنکھوں پر سیاہ روئیں دار کپڑے کی پٹی باندھ لیں اور
دل میں یہ الفاظ بار بار دہرائیں۔
میرے ماحول میں ہر چیز
دلفریب اور خوش گوار ہے۔
میں کسی سے کمتر نہیں
ہوں۔
میں جو چاہوں وہ کر سکتا
ہوں۔
یہ عمل روزانہ پندرہ منٹ
تک کریں۔
۱۰۰
مرتبہ اللہ اکبر پڑھ کر مراقبہ کریں۔ مراقبہ میں یہ تصور کیا جائے کہ آسمان سے سبز
روشنی آ رہی ہے اور میرے اوپر پڑ رہی ہے۔ مراقبہ فجر کی نماز پڑھنے سے پہلے بیس
منٹ تک کیا جائے۔
۳۔
جوارش شاہی بہ نسخہ کلان ۶۔۶ گرام صبح شام کھائیں۔
۴۔
ناشتہ میں اور رات کو کھانے کے بعد عمدہ قسم کی ۲۔۲کھجوریں کھائیں۔
۵۔
9X12انچ
پکے سفید شیشے پر نیلا رنگ پینٹ کر کے وقفہ وقفہ سے دیکھیں۔
۶۔
احساس کمتری کی وجہ سے اعصابی کمزوری دور کرنے کے لئے حب یاقوت ایک ایک گولی ناشتہ
کے بعد اور سوتے وقت کھائیں۔
احساس برتری والا مریض
خود نمائی کے خول میں بند ہو جاتا ہے۔ کبر و نخوت میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو نعوذ
باللہ فرعون سمجھنے لگتا ہے۔ بہت بُرا مرض ہے اگر مریض نہ چاہے اور اپنے مزاج میں
تبدیلی نہ کرے تو اس مرض کا علاج نہیں ہے۔
مریض کو چاہئے کو اپنے سے
نیچے لوگوں کو دیکھے۔ اپنے اوپر والوں کی نقل نہ کرے اور توبہ استغفار کرے۔ ۱۰۰ مرتبہ استغفار
پڑھ کر سبز روشنی کا مراقبہ کرے۔
غریب رشتہ داروں کی
دستگیری کرے۔ ان میں گھل مل کر رہے۔
روغن کدو اور روغن کاہو
ام الدماغ میں مالش کرے۔ گھر میں بخور جلائیں۔ صدقہ و خیرات خوب کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ہادئ
برحق کی تعلیمات پر عمل کر کے اکابرین نے علم کے سمندر میں شناوری کر کے علم طب پر
بھی ریسرچ کی اور اس طرح علم طب کا خزانہ منظر عام پر آ گیا۔ ان علوم کا یونانی
زبان سے عربی زبان میں ترجمہ ہوا۔ مصر، ہندوستان اور جہاں سے بھی جو فنی کتاب ان
کے ہاتھ آئی انہوں نے اس کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔ بڑے بڑے نامور طبیب پیدا ہوئے۔
تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۔ علوم و فنون پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔