Topics

ہر شئے دو رخوں پر تخلیق کی گئی ہے

اعوذباللہ من الشیطن الرجیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم


اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ہر چیز جوڑے جوڑے بنائی گئی ہے۔۔۔۔۔۔مذکر مؤنث الگ الگ دو ہیں۔ ان سے ایک یونٹ بنا، ایک رخ مذکر ہے، ایک مؤنث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔کائنات میں ہر شئے دو رخوں پر تشکیل دی گئی ہے۔۔۔۔۔۔زوجین الشنین۔۔۔۔۔۔یعنی جوڑے، دوہرے۔

تصوف کے معنی یہ بتائے جاتے ہیں کہ تصوف کا مطلب “تزکیۂ نفس” ہے۔ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی نفس سے کیا مراد ہے؟۔۔۔۔۔۔کیا انسان کی جسمانی ساخت کا مطلب نفس ہے یا انسان کی Thinkingیا سوچ یا وچار کا مطلب نفس ہے۔ نفس سے مراد اس کی جان ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ صاحب نے نفس کی تشریح کی ہے لیکن وہ اتنی واضح نہیں ہے کہ عام آدمی سمجھ سکے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے اسلاف یا بزرگ ان تشریحات سے واقف نہیں تھے۔ وہ ان تشریحات سے واقف تھے۔ داتا صاحبؒ نے بھی کشف المحجوب میں اس کا تذکرہ کیا ہے لیکن بات پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ادوار کے مطابق بات کی ہے۔ ادوار سے مراد یہ ہے کہ ارتقاء کتنا ہوا۔ جتنی زیادہ ذہنی استعداد بڑھی، اسی مناسبت سے انہوں نے باتیں کیں۔

ایک دور تھا کہ انسان کو ستر پوشی کے لئے پتوں کے علاوہ اور کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ پھر ایک دور ایسا آیا اس کو ہم Stone Ageکہتے ہیں۔ ہر چیز پتھروں سے بنتی تھی۔ پھر لوہے کا دور آیا، پھر آگ دریافت کر لی گئی، دھاتوں کو پگھلا کر ان سے کام لیا گیا۔ پھر بجلی کا دور آ گیا۔ 

electricityکے بعد جو ترقی ہوئی نئی نئی ایجادات سامنے آ گئیں۔ نیوکلیئر سسٹم سے واقفیت ہوئی۔ ایٹم کی تھیوری معلوم ہوئی۔ بہت دیر تک تذکرہ ہوتا رہا کہ ایٹم ٹوٹ سکتا ہے یا نہیں ٹوٹ سکتا۔ بہرحال ایٹم ٹوٹ گیا۔ الیکٹرون، پروٹون، نیوٹران کا علم حاصل ہوا۔ میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک انسان ارتقاء پذیر ہے، زمانہ ترقی کر رہا ہے۔

ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چھ فٹ کا انسان نو فٹ کا ہو گیا۔ ترقی کا مفہوم ہے انسان کے ذہن میں وسعت پیدا ہوئی۔ ذہن کے دروازے زیادہ کھلے۔ جیسے جیسے ذہن کے دروازے زیادہ کھلے، علم میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سائنسی ایجادات کے دور میں ریڈیو بن گیا۔ اس وقت انسانی شعور میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اس کو وہ فوراً قبول کر لیتا۔ لوگوں نے مذاق اڑایا۔ ٹیلیفون کے بعد ٹی وی، ٹی وی کے بعد کمپیوٹر ایجاد ہوا۔ یہ دور کمپیوٹر ایج ہے۔

غور کیجئے! آدم علیہ السلام سے لے کر اس زمانے تک اگر ہم نوع انسانی کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور نوع انسانی کے شعور کا تجزیہ کریں تو یہی ایک بات سامنے آتی ہے کہ جب سے یہ دنیا بنی ہے یا جب سے آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے ہیں نوع انسانی ترقی کر رہی ہے۔ 

ترقی علم کے حساب سے ذہن کے حساب سے اور تفکر کے اعتبار سے ایجادات کے اعتبار سے ہوئی ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کا اگر آپ تقابلی جائزہ لیں تو آدم علیہ السلام کی نسبت عیسیٰ علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کا دور زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ دین کی تکمیل ہو گئی۔ یعنی انسانی شعور دین کے معاملے میں جتنا بالغ ہونا چاہئے تھا حضور پاکﷺ کی بعثت کے بعد شعور بالغ اور پختہ ہو گیا۔

تصوف کو متنازعہ مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ تصوف کو لوگ مانتے بھی ہیں، لوگ تصوف کا انکار بھی کرتے ہیں۔ تصوف کے بارے میں بہت ساری غیر اخلاقی باتیں بنائی گئیں۔ لوگوں نے دعوے بھی کئے۔

تصوف کے معنی مفہوم پر عجیب عجیب بحثیں ہوئیں۔ کسی نے کہا تصوف کا مطلب ہے اون کے کپڑے پہن لینا۔ کسی نے کہا یہ لفظ اصحاب صفہ سے نکلا ہے۔ کسی نے کہا تصوف کا مطلب ایک مخصوص گروہ کا مخصوص لباس ہے۔ چونکہ وہ اون کا لباس پہنتے ہیں اس لئے انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔

میرے علم کے مطابق تصوف ایک علم ہے۔ جس طرح میڈیکل سائنس ایک علم ہے، جس طرح Mathsایک علم ہے، جس طرح Engineeringایک علم ہے۔ ہر علم کی الگ الگ افادیت ہوتی ہے۔ مثلاً میڈیکل سائنس پڑھ کرآدمی ڈاکٹر بن جاتا ہے اور علم الابدان سے واقف ہوتا ہے، بیماریوں سے واقف ہوتا ہے۔ بیمار لوگوں کا علاج کرتا ہے۔ Engineeringایک سائنس ہے۔ 

Mechanical Engineeringکی الگ فیلڈ ہے۔ Civil Engineeringکی الگ ایک افادیت ہے۔ یعنی ہر علم کی اپنی ایک افادیت ہوتی ہے اگر افادیت نہیں ہو گی تو وہ علم ختم ہو جائے گا۔

تصوف ایک علم ہے۔ یہ علم انسان کے باطن اور کائنات کے راز جاننے کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے بنایا یعنی ہر چیز کے دو رخ ہیں ایک مذکر ایک مؤنث، ایک عورت اور ایک مرد۔ یہ عورت اور مرد، مذکر اور مؤنث انسانوں میں ہی نہیں ہیں، درختوں میں بھی ہیں، پرندوں میں بھی ہیں، چوپایوں میں بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“ہر چیز کے جوڑے بنائے دوہرے۔”

یہ ایسے کہ ایک مؤنث ہے اس کی تعریف یہ ہو گی کہ اس کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک مذکر ہے، اس کی تعریف یہ ہو گی کہ اس کے بھی دو رخ ہیں۔ تو جب ہر چیز دو رخ پر ہے تو علم کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک علم ظاہر ہے ایک علم باطن ہے۔

اسی طرح انسان کے شعور کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک ظاہر ہے، جسے ہم بیداری کہتے ہیں۔ ایک باطن ہے، جسے ہم خواب کہتے ہیں۔ انسان جو کچھ بیداری میں کرتا ہے وہی سب خواب میں کرتا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ خواب میں مادی جسم کام نہیں کرتا اور جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو خواب میں کام کرنے والا جسم متحرک نظر نہیں آتا۔ کچھ لوگ خواب کو خیال کہتے ہیں۔ اگر ہم خواب کو خیال مان لیں تو خیال کے بھی دو رخ ہیں۔ میں ایک ہی بات کو بار بار اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔

ہم بیداری میں چلتے پھرتے ہیں۔ زمین کے اوپر کوئی دہشت ناک منظر ہمارے سامنے آتا ہے تو اس منظر کی دہشت ناکی ہمیں اس طرح متاثر کرتی ہے کہ ہمارا دل دھڑکنے لگتا ہے، ہمیں پسینہ آنے لگتا ہے، ہم گھبرا جاتے ہیں، وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواب میں بھی کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ڈر جاتا ہے گھبرا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ خواب میں Physical Body Involveنہیں ہے تو دہشت سے دل کیوں دھڑکتا ہے، پسینہ کیوں آتا ہے، خوف کیوں محسوس ہوتا ہے؟

ہر انسان زندگی میں ایسے خواب ضرور دیکھتا ہے یا خواب میں ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں کہ اس کے اوپر غسل واجب ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس کا مادی جسم Involveنہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ غسل واجب کیوں ہوا؟ بغیر غسل کئے آپ نماز نہیں پڑھ سکتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دونوں علوم یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔

علم کی تعریف یہ ہوئی کہ ایک علم ظاہری علم ہے، شعوری علم ہے۔ دوسرا علم باطنی علم ہے۔ باطنی علم کو ہم لاشعوری علم کہتے ہیں۔ انسان کے اندر شعور کام کرتا ہے اور انسان کے اندر لاشعور کام کرتا ہے۔ لاشعوری علم باطنی علم ہے اور شعوری علم ظاہری علم ہے۔

ظاہری علوم Fictionہے۔ یہ بات غور طلب ہے، تمام اسٹوڈنٹس کو ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ظاہری علوم Fictionہے۔ کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ سب Fictionہے۔ باطنی علومFictionنہیں ہوتے۔ باطنی علوم کو آسمانی صحائف اور قرآن کریم کے مطابق حقیقی کہا گیا ہے اور Fictionعلوم ظاہری علوم ہیں۔

اب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ان کا جواب دیں۔ میں نے ابھی وضاحت کی ہے کہ ہر شئے کے دو رخ ہیں۔ Physical Bodyکے بھی دو رخ ہیں۔ کوئی ایک رخ بتایئے۔۔۔۔۔۔جو دو نہ ہوں۔

جی۔۔۔۔۔۔؟

غور کریں تھوڑا سا سوچ لیں۔

میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہر عضو کے دو رخ ہیں۔ اگر کوئی ایک رخ ہو تو بتایئے۔

سر دو ہوتے ہیں، دماغ دو ہوتے ہیں۔ ایک دائیں طرف دماغ ہوتا ہے، ایک بائیں طرف دماغ ہوتا ہے۔ دو آنکھیں ہوتی ہیں۔ ناک کے بھی دو حصے ہیں ایک دایاں اور ایک بایاں۔ منہ بھی دوہرا ہے۔ حلق بھی دو ہیں۔ درمیان میں کوا لٹکا ہوا ہے۔ دل کے چار خانے ہیں، پھیپھڑے دو ہیں، دانت کی بتیسی بھی دو ہیں۔ ہاتھ بھی دو ہیں۔ ٹانگیں بھی دو ہیں۔ معدے کے بھی دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک Upper Chamberہوتا ہے، نیچے کا حصہ الگ ہوتا ہے۔ جگر بھی دو ہوتے ہیں۔

تصوف کا مطلب ہے تفکر کرنا، سوچنا، کھوجنا، تحقیق کرنا۔

اب یہ بات طے ہو گئی ہے کہ انسانی جسم کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ہر عضو کے بھی دو رخ ہیں۔ 

انسان کی سوچ بھی دو رخوں میں کام کرتی ہے۔ ایک سوچ سے اس کو تسکین ملتی ہے اور ایک سوچ سے اس کے اوپر پریشر پڑتا ہے۔ یہ اسٹریس، ڈیپریشن، سوچ ہی تو ہے اور سکون بھی ایک سوچ ہے۔

طے یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ہر تخلیق کے دو رخ ہیں۔ لہٰذا علم کے بھی دو رخ ہوئے۔ علم کا ایک رخ باطنی ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو خود سکھایا ہے۔

آدم زاد نے تحقیق و تلاش کے بعد علوم حاصل کئے۔ نئے نئے فلسفے بنے، اس میں موشگافیاں ہوئیں۔ انسانوں نے سوچ بچار کی، تفکر کیا، تفکر کے نتائج مرتب ہوئے۔ جیسے سائنسی علوم ہیں۔

ہم ڈھائی سال کے بچے کو اسکول میں داخل کرتے ہیں وہ پچیس سال تک اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتا رہتا ہے۔ ان پچیس سالوں میں کہیں بھی باطنی علم کا تذکرہ نہیں ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچہ جب باشعور ہوتا یہ تو اس کے ذہن میں باطنی علم کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ ظاہری علم میں وہ ماہر ہو جاتا ہے۔ بی اے ہو جاتا ہے، ایم اے ہو جاتا ہے، Ph.Dہو جاتا ہے۔ لیکن باطنی علوم میں وہ مبتدی ہوتا ہے۔

جبکہ اسے اس دنیا سے جانے کے بعد باطنی علم کی ضرورت ہے۔

Fictionمیں مسلسل تغیر ہوتا رہتا ہے۔ ہر آن ہر لمحہ اس میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ جب ہر آن اور ہر لمحہ تغیر ہوتا رہے گا تو ہمیں کبھی سکون نہیں ملے گا۔ سکون ایک حقیقت ہے اور سکون تب ملتا ہے جب ہم اپنی باطنی کیفیات اور باطنی صلاحیتوں سے واقف ہوں۔ اطمینان قلب ظاہری کیفیت نہیں ہے۔ اطمینان قلب اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ہم Realityمیں داخل ہو جائیں۔ حقیقت آشنا ہو جائیں۔۔۔۔۔۔

جب تک کوئی انسان اپنے باطن سے واقف نہیں ہو گا، اس کو سکون نہیں ملتا۔

اس سلسلے میں آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو پوچھ سکتے ہیں۔

سوال: ہم لوگ باطن سے واقفیت کیسے حاصل کریں، ہمیں سکونِ قلب کیسے حاصل ہو؟

جواب: سکون قلب کا فارمولا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرما دیا ہے۔ جو لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں انہیں اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے۔ ذکر سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کی طرف متوجہ ہو جائے۔ اللہ کی طرف متوجہ ہونا، اللہ کو ڈھونڈنا، اللہ نے جن صفات پر انسان کو پیدا کیا ہے ان صفات کو تلاش کرنا اور اللہ سے قربت حاصل کرنا۔

اب میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ میں ایم اے کس طرح کروں؟۔۔۔۔۔۔

آپ کا جواب ہو گا کہ پہلے میٹرک کریں، پھر ایف اے کریں، پھر بی اے کریں، اس کے بعد ایم اے کریں۔ میٹرک کرنے کے لئے اسکول جائیں۔ ایف اے، بی اے، کرنے کے لئے کالج جائیں، ایم اے کرنے کے لئے یونیورسٹی جائیں۔ اگر آپ روحانیت میں Ph.Dکریں تو وہی طریقہ ہے جو ایم اے کرنے کا ہے۔ تو اس کے لئے جامی صاحب مجھے کراچی سے بلواتے ہیں تا کہ میں لیکچر ڈلیور کروں۔ میں ضعیف آدمی ہوں، Heart Patientہوں، یہاں یونیورسٹی میں آتا ہوں تا کہ باطنی علوم کے بارے میں اسٹوڈنٹس کو آگاہی حاصل ہو جائے۔ جتنی زیادہ آگاہی حاصل ہو جائے گی اسی مناسبت سے آپ باطنی علوم سیکھ جائیں گے اور اسی حساب سے آپ کو اطمینان قلب حاصل ہو جائے گا۔ آپ کے اندر سے خوف اور غم نکل جائے گا۔ دنیا اور آخرت دونوں منور ہو جائیں گی۔ اگر سکون نہیں ملا، اپنی روح سے واقفیت نہیں ہوئی تو دین و دنیا دونوں میں خسارہ ہے

*****

عزیز طلباء و طالبات! دو دن آپ نے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لیکچر سماعت فرمائے۔ کل انہوں نے فرمایا تھا کہ آج سوال و جواب کی نشست ہو گی۔ میں طلباء و طالبات سے ملتمس ہوں کہ وہ اپنے مختلف سوالات یا اشکالات جو ان کے ذہن میں تصوف کے حوالے سے ہیں، بیان کریں خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب موجود ہیں۔
سوالات کریں (پروفیسر ڈاکٹر نورالدین جامی صاحب)۔
سوال: احسان اور تصوف میں کیا فرق ہے، تصوف کا اسلام میں داخل کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟
جواب: آپ کا سوال یہ ہے کہ جب اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے تو اس میں کسی دوسرے علم کی آمیزش کی کیا ضرورت ہے؟ یہی سوال ہے ناں؟
جواب: جی ہاں۔
دین اسلام انسانوں کی راہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا مکمل پروگرام ہے۔ نماز کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا تعلق اور ربط قائم ہو جائے۔ ہم جو نماز پڑھتے ہیں اس میں 101فیصد، 99فیصد نہیں، 101فیصد لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ نماز میں ہمیں خیالات آتے ہیں، نماز میں حضور قلب نہیں ہوتا، نماز میں یکسوئی نہیں ہوتی۔ یعنی نماز میں ہمارا رجوع اللہ کی طرف نہیں ہوتا۔ روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“روزے کی جزا میں خود ہوں۔”
تمام عبادات کے سلسلے میں ایک عبادت “روزہ” ایسا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ روزے کی جزا میں خود ہوں۔ روزے کی جزا میں خود ہوں کا مطلب ہے کہ روزے دار جب روزہ رکھتا ہے، اگر روزے کے آداب پورے ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں بندے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعارف ہو جاتا ہے۔ جب روزے دار روزہ رکھتا ہے اس کے نتیجے میں بندے کے اوپر اللہ تعالیی کی تجلی یا صفت کی رونمائی ہوتی ہے۔
ہم چالیس سال سے روزے رکھ رہے ہیں دیدار تو بہت بڑی چیز ہے روشنی کی ایک رمق بھی نظر نہیں آئی۔ اسی طرح حج ہے۔ ہم حج کے لئے جاتے ہیں، بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہیں لیکن کتنے لوگ ہیں جنہوں نے بیت اللہ شریف میں اللہ کو دیکھا ہے۔ خانہ کعبہ کا طواف کر کے، سعی کر کے اور حج کے ارکان پورے کر کے ہم آ جاتے ہیں۔ کیا ہماری اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوئی ہے؟ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس کے ارکان کی صحیح حکمت تک پہنچنا اور ارکان اسلام کو پورا کرنا ہر مسلمان کی ڈیوٹی ہے۔
تصوف اسلام سے الگ نہیں ہے۔ اگر تصوف اسلام سے الگ کوئی چیز ہے تو وہ تصوف نہیں ہے۔
سوال: آپ نے تصوف کو سائنس قرار دیا ہے۔ دوسرے مفکرین اسلام سے آپ کی تحقیقات مختلف ہیں؟
جواب: مسلم مفکرین میں ہمارے آئمہ شامل ہیں، فقہ کے لحاظ سے بھی بہت سارے لوگ ہیں، جن لوگوں نے احادیث جمع کی ہیں۔ 
سائنس صرف یہ نہیں ہے کہ ایٹم ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا۔ سائنس دانوں نے اصطلاحات قائم کی ہیں۔ الیکٹرون، پروٹون، نیوٹران وغیرہ۔ سائنس سے مراد تحقیق اور Researchہے۔ میں جب سائنس کا لفظ بولتا ہوں تو میری مراد تفکر اور ریسرچ سے ہوتی ہے۔ تفکر اور تحقیق کا میں نے ایک دفعہ روحانی ڈائجسٹ میں لکھ دیا کہ اللہ سب سے بڑا عالم ہے۔ سائنسدان ہے۔ میں Englandگیا مجھے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ 
مسلمان بھائیوں نے کہا توبہ توبہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو سائنسدان کہہ دیا ہے، سائنسدان تو کافر ہوتے ہیں۔
تحقیق و تصرف سے ہی ایجادات ہوئی ہیں، اگر کوئی مسلمان ریسرچ کرے، تحقیق کرے تو وہ بھی سائنسدان ہے۔ استغفراللہ! کیا آپ مسلمان سائنس دان کو کافر کہیں گے؟انا للہ و انا الیہ راجعون۔
سوال: صوفیوں سے خرق عادت صادر ہوئی ہیں اور غیر مسلموں سے بھی۔ آپ بیان فرمایئے کہ صوفی کی پہچان کس طرح ہو گی؟
جواب: پہلے بھی یہ موضوع زیر بحث آیا تھا کہ خرق عادت کا تعلق افتاد طبیعت اور مشق سے ہے۔ مشق سے بھی خرق عادت ظاہر ہو سکتی ہے۔ صوفی حضرات خرق عادت ظاہر کرنے سے طبعاً گریز کرتے ہیں۔ ان کے پاس بیٹھ کر ان کی گفتگو سن کر ان کے شب و روز دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس بندہ کا اللہ سے تعلق ہے۔ خرق عادت کا مطلب صوفی نہیں ہے۔ صوفی اس کو نہیں کہتے جو کرامات دکھائے۔۔۔۔۔۔کرامات صوفی دکھا سکتا ہے لیکن کرامات ہندو بھی دکھا سکتا ہے۔ بعض ہندو ایسے ہیں کہ جسمانی طور پر اُڑ جاتے ہیں اور بہت ساری خرق عادات ان سے ظاہر ہوتی ہیں۔
جیسے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے پاس ایک سادھو آیا اور اس نے تصوف کے بارے میں بات کی اور اس نے اپنا کمال یہ دکھایا کہ وہ ہوا میں اڑ گیا۔ خواجہ غریب نوازؒ کھڑاویں پہنتے تھے۔ انہوں نے کھڑاووں سے کہا اسے نیچے اتارو۔ وہ کھڑاویں اوپر گئیں اور اس کے سر پر اتنی بار پڑیں کہ سادھو نیچے اتر آیا۔
تصوف صرف خرق عادت کا نام ہے۔ تصوف وہ علم ہے جس کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ سے متعارف ہو جاتا ہے۔
سوال: کیا ہمارا جسم جو پیدا ہوتا ہے اور عمر طبعی پا کر مر جاتا ہے Fictionہے؟
جواب: ہمارا جسمانی نظام سب کا سب Fictionہے، عارضی اور فانی ہے۔ مٹی میں مل کر مٹی بن جاتا ہے۔ لیکن روح فانی نہیں ہے لہٰذا انسان کی اصل جسم نہیں، روح ہے۔
سوال: کیا ہم اللہ تعالیٰ کو بھگوان، Godیا اور کسی نام سے پکار سکتے ہیں؟
جواب: اللہ کے بے شمار نام ہیں۔ بندہ ہر نام سے اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ تعالیٰ پکارنے والے کی آواز سنتے ہیں۔ انگریزی میں حساب کو Mathsکہتے ہیں، اردو میں حساب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی Godکہتا ہے، کوئی ایل کہتا ہے، کوئی ایلیا کہتا ہے، کوئی برھما کہتا ہے، کوئی یزدان کہتا ہے، کوئی بھگوان کہتا ہے، کوئی رحمٰن کہتا ہے، بھگوان یا رحمٰن کہنے میں زبانوں کا فرق ہے۔
سوال: کیا بندہ اللہ تعالیٰ سے باتیں کر سکتا ہے۔ اس ذات پاک سے ہمکلام ہو سکتا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کوئی بشر نہیں جو اللہ سے ہم کلام ہو سکے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا قاصد کے ذریعہ یا اللہ جس طرح چاہے۔ اللہ جب چاہے جس طرح چاہے اپنے بندوں سے باتیں کرتا ہے۔
ایک ذریعہ وحی ہے کہ آواز آئے۔ حضور پاکﷺ کے ارشاد کے مطابق مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز ہوتی ہے، کبھی وہ جرس اور گھنٹیوں کی طرح آواز ہوتی ہے اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ کوئی فرشتہ نازل ہو جائے، یہ بھی ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے ذہن میں کوئی خیال وارد ہو جائے، پردے کے پیچھے سے یا کسی قاصد کے ذریعے سے۔ وحی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام پر بھی وحی نازل ہوئی۔ حضرت مریم ؑ کے پاس فرشتہ آیا، فرشتے نے ان سے باتیں کیں۔
سوال: سچے خواب کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: سالک کو پہلے سچے خواب آتے ہیں۔ خوابوں کے بعد کیفیات شروع ہوتی ہیں۔ ان کے اصطلاحی نام ہیں۔ غنود، ورود، کشف، الہام، وحی، شہود، مکاشفہ، معائنہ، سیر، فتح، انسلاخ۔ یہ وہ درجہ بندی ہے جو روحانیت میں کسی روحانی آدمی کو حاصل ہوتی ہے۔
سوال: صوفیاء کرام تصوف کو تعلق بااللہ کے حوالے سے جانتے تھے۔ اب لوگوں نے اس کو طریقہ علاج بنا لیا ہے؟
جواب: جن لوگوں نے اس کو طریقہ علاج بنا لیا ہے وہ کاروباری لوگ ہیں اور ان کے لئے میڈیکل سائنس سے بھی زیادہ Profitableکام ہے۔ کچھ کرنا ہی نہیں پڑتا، ایک انچ کے برابر کاغذ کا تعویذ بنا دیا۔ دس روپے سے، ہزار روپے، پانچ ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ ڈراتے ہیں کہ تمہارے اوپر جادو کیا ہوا ہے، تمہارے اوپر ٹونہ کر دیا ہے۔وہ ایسی بات کہتے ہیں کہ جس کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ مثلاً ڈاکٹر کہتا ہے کہ آپ کو بلڈ پریشر ہے، شوگر ہے، ٹیسٹ کرا لیں تصدیق یا تکذیب ہو جائے گی۔ جادو کے بارے میں کیسے پتہ چلے؟
صوفی لوگ علاج کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے بھی علاج کیا ہے۔ مثلاً کسی کے اوپر اگر شک ہے جادو کا تو وہ کہتے ہیں آپ سورۃ فلق پڑھ کر، صبح شام پانی پر دم کر کے پیو۔ جادو کا اثر ختم ہو جائے گا۔ کوئی پیسہ دھیلا نہیں لیتے۔ تصوف میں کاروبار نہیں صوفی خالصتاً اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔
سوال: اسلام کے خانقاہی نظام میں رہبانیت کی اجازت دی جاتی ہے اور عیسائیت میں بھی رہبانیت ہے تو کیا یہ اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہے؟
جواب: حضور پاکﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔۔۔۔۔۔لا رھبانیتہ فی الاسلام۔۔۔۔۔۔اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ رہبانیت کی اجازت نہیں ہے۔ سورۃ مزمل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے “اے اوڑھ لپیٹ کے سونے والے رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔” اگر کوئی صاحب عارضی طور پر والدین اور خاندان سے دور ہو کر خانقاہی نظام میں علم سیکھنے آ جاتے ہیں تو کون سی قیامت آ گئی۔ آپ کیا ہاسٹل میں چار چار سال ماں باپ سے الگ ہو کر نہیں پڑھتے؟ 
ہاسٹل میں رہنے کو آپ رہبانیت کیوں نہیں کہتے؟ جب آپ ہاسٹل میں رہ کر دنیاوی علوم سیکھنے کے لئے والدین سے خاندان سے دور ہوں تو کیا یہ رہبانیت نہیں اور جب اللہ کا علم سیکھیں رہبانیت ہے۔ بات یہ بالکل لا یعنی ہے۔ یہ بہت بری بات ہے اور اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے، بے ادبی ہے۔
جتنے اولیاء اللہ گزرے ہیں انہوں نے فارغ التحصیل ہو کر شادیاں کی ہیں۔ بابا فریدؒ ہیں، خواجہ معین الدین چشمی اجمیریؒ ہیں۔۔۔۔۔۔انہوں نے پہلے علم حاصل کیا۔ بالکل اس طرح جیسے سٹوڈنٹس یونیورسٹیوں کے ہاسٹل میں رہتے ہیں، کالج میں رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔جب آدمی ہاسٹل میں رہ کر دنیاوی علوم سیکھتا ہے، اس لئے کہ اس علم کے ذریعہ وہ دنیا کی دولت کماتا ہے۔۔۔۔۔۔رہبانیت نہیں ہے؟ خواجہ غریب نوازؒ نے 22سال خانقاہ میں گزارے، Ph.Dبھی بائیس سال میں ہوتا ہے۔ بڑے پیر صاحب شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ نے 12سال خانقاہ میں گزارے۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے چالیس سال ریاضت و مجاہدہ میں گزارے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ شادی کی۔ الحمدللہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں حیات ہیں۔ دونوں بیٹے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ہماری دنیا کا یہی اصول ہے کہ پہلے ہم علم حاصل کرتے ہیں، بیس پچیس سال تو علم حاصل کرنے میں گزر جاتے ہیں۔ اس کے بعد شادی کرتے ہیں۔ د س بارہ سال یا دو تین سال علم سیکھنے کے لئے خانقاہی نظام میں رہنا ضروری ہے۔ میں نے 16سال شب و روز اپنے مرشد کے پاس قیام کیا ہے۔ ان سے روحانی علوم سیکھے ہیں۔ میں نے مزدوری کی ہے۔ کاروبار کیا ہے، بچوں کو پڑھایا ہے۔ بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیاں کی ہیں۔ ضعیفی کی اس عمر میں بھی دورے کرتا ہوں۔ یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتا ہوں۔ تقریبات میں شریک ہوتا ہوں۔ کیا یہ سب رہبانیت ہے؟۔۔۔۔۔۔
تصوف میں رہبانیت نہیں ہے۔ یہ تصوف کے خلاف سازش اور نفرت کا اظہار ہے۔ ہندوستان میں آج بھی الحمدللہ اسلام ہے۔ لیکن اسپین میں جہاں ساڑھے سات سو سال مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اسلام نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہاں کوئی خواجہ معین الدین چشتیؒ نہیں تھے۔
نقشبندیہ سلسلے کے بزرگ حضرت مجدد الف ثانیؒ صوفی تھے۔ انہوں نے اکبر کے دور میں سجدہ تعظیم ختم کرا دیا۔
سوال: موجودہ دور میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ تصوف عملی زندگی سے دور کر دیتا ہے یہ تاثر غلط ہے یا صحیح ہے؟
عظیمی صاحب: بالکل غلط ہے۔
سوال کنندہ: اگر یہ غلط ہے تو آپ کی نظر میں تصوف عملی زندگی کو آگے بڑھانے میں کیا کردار ادا کر رہا ہے؟
جواب: تاریخ بتاتی ہے اور اس سے کوئی آدمی انکار نہیں کر سکتا کہ خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیریؒ کے زمانے میں ہندوستان میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ جتنے بڑے بڑے سلاطین آئے ان سے اسلام نہیں پھیلا۔ صوفیاء نے پہلے مسلمان کئے پھر علماء کرام نے ان کو تعلیمات دیں۔ اگر تصوف نہ ہوتا یعنی علم باطن نہ ہوتا یا علم حقیقت نہیں ہوتا تو معلوم نہیں اسلام کی کیا پوزیشن ہوتی۔ تاریخ کہتی ہے کہ اسلام پھیلنے میں صوفیاء کا بڑا کردار ہے۔ صوفیاء کرام نے لوگوں کو ایک کر کے، ان کی خدمت کر کے، اخلاق حسنہ کا مظاہرہ کر کے لوگوں کو مسلمان کیا۔
سوال: عبادت کے بعد مراقبہ کی کیا ضرورت ہے؟
جواب: اس لئے کہ مراقبہ کرنے سے انسان یکسو ہو جاتا ہے، نماز میں اسے خیالات نہیں آتے جیسے نماز کا ترجمہ Prayہے، نماز کا ترجمہ عبادت ہے، نماز کا ترجمہ رحمت ہے، نماز کا ترجمہ تسکین ہے۔ نماز میں “حکمت” تلاش کرنے کا نام مراقبہ ہے۔ کسی کام کو مکمل یکسوئی کے ساتھ پورا کریں۔ اس کو مراقبہ کہہ سکتے ہیں۔ جہاں یکسوئی نہیں ہو گی وہاں مراقبے کی کیفیات نہیں ہوں گی۔ مراقبہ Concentrationکا نام ہے۔ آپ نماز پڑھتے ہیں، دنیا بھر کے خیالات آپ کو آتے ہیں، سلام پھیر دیتے ہیں، کیا آپ اس نماز سے مطمئن ہیں؟۔۔۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
“پس خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں۔”
یعنی نمازی تو وہ ہیں لیکن انہیں کچھ پتہ نہیں وہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔فویل اللمصلین۔۔۔۔۔۔یہاں ماشاء اللہ سارے پڑھے لکھے لوگ ہیں اساتذہ کرام ہیں، پروفیسر سعید صاحب اور جامی صاحب بھی یہاں موجود ہیں۔ اگر یہ بات غلط ہو تو اصلاح کریں۔ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے کرنے سے نماز میں Concentrationہو جاتی ہے۔
سوال: کل کے لیکچر میں آپ نے کہا تھا کہ ایک ظاہری علم ہوتا ہے، ظاہری علم Fictionہے، بے کار ہوتا ہے؟ 
جواب: میں نے یہ کہا تھا کہ ظاہری علم Fictionہیک، بے کار میں نے نہیں کہا۔ بے کار کوئی علم نہیں ہوتا۔ ہر علم کی افادیت ہے۔
سوال کنندہ: Fictionکا مطلب کیا ہے؟
عظیمی صاحب: Fictionکا مطلب ہے جس میں علم رد و بدل ہوتا رہے۔ اس میں ہر وقت تغیر ہوتا رہتا ہے اور علم باطن میں تغیر نہیں ہوتا۔
سوال: سلسلہ عظیمیہ کا مشہور سلاسل میں سے کس سلسلہ سے تعلق ہے؟
جواب: سلسلہ کا ترجمہ راستہ، دروازہ اور شاہراہ ہے۔ یہ سلاسل اصل میں ذریعہ ہیں، حضور پاکﷺ کے دربار تک پہنچنے کا راستہ ہیں۔ البتہ Methodsالگ الگ ہیں۔ طریقۂ کار میں فرق نظر آتا ہے لیکن فرق نہیں ہے۔ شریعت، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ پھر سلسلہ کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ کسی نے کہا کہ ۔۔۔یاحی یا قیوم۔۔۔۔۔۔زیادہ پڑھ لیں۔ کسی نے کہا۔۔۔۔۔۔یا اللہ یا رحمٰن یا رحیم۔۔۔۔۔۔پڑھیں۔ کسی سلسلہ میں ذکر بالجہر ہے۔ کسی سلسلہ میں ذکر خفی ہے لیکن شریعت سے انحراف نہیں ہے اور اگر کوئی سلسلہ شریعت کے خلاف بات کرتا ہے یا عمل کرتا ہے وہ سلسلہ کامل نہیں ہے۔
سلسلہ ایک Methodہے ایک اسکول ہے۔ اس کے ذریعے آپ یونیورسٹی تک آتے ہیں۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ اسلام کی یونیورسٹی مدینہ منورہ ہے۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے لئے ہمیں میٹرک تک پڑھنا ہے، بی اے کرنا ہے، پھر یونیورسٹی میں داخل ہونا ہے۔ قادریہ سلسلہ، چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ، فردوسیہ، ملامتیہ، قلندریہ، عظیمیہ سلسلہ تقریباً دو سو سلاسل ساری دنیا میں ہیں۔ ان سب کا Methodیہی ہے کہ آپ اپنی روح کی بالیدگی کس طرح حاصل کریں اور رسول اللہﷺ کے دربار تک کس طرح پہنچیں۔ رسول اللہﷺ کی معرفت اور اللہ کا عرفان کیسے حاصل کریں۔ توحید و رسالت ہر سلسلے کا ایک ہی پیغام ہے۔
عظیمیہ سلسلہ چودھویں صدی کا سلسلہ ہے۔ چودہ سو سال میں انسانی ذہن نے ارتقاء کیا ہے، Knowledgeمیں اضافہ ہوا ہے۔ پرانے سلاسل نے اپنے ادوار کے مطابق اسباق متعین کئے ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر موجودہ دور کے مطابق روحانی علوم سکھانے کی پیشکش کرتا ہے۔
اس صدی میں انسانی ذہن تیز ہو گیا ہے، اتنا تیز ہو گیا ہے کہ جن چیزوں کو پہلے کرامات سمجھا جاتا تھا وہ عام ہو گئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں بزرگ کی یہ کرامت ہے کہ وہ ایک وقت میں سات جگہ نظر آئے۔ اب ٹی وی کی یہ کرامت ہے کہ ایک آدمی ایک کروڑ جگہ نظر آتا ہے۔ 
اب لاسلکی نظام کے تحت ہزاروں میل دور بات کی جا سکتی ہے، بات کرنے والے کی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ پیر صاحب نے گلاس بھر پانی میں انگلی ہلا دی اور پانی میٹھا ہو گیا۔ اب سکرین سے پانی میٹھا ہو جاتا ہے۔ چھ سات سال کا بچہ کمپیوٹر گیم کھیلتا ہے۔ مسجد میں مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے۔ مولوی صاحبان سے معذرت کے ساتھ، مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے۔ دنیا پانی پر آباد ہے اور پانی پر ایک تخت رکھا ہوا ہے۔ اس تختے کے اوپر ایک بیل کھڑا ہے اور اس بیل کے ایک سینگھ پر دنیا ہے، جب بیل تھک جاتا ہے تو وہ اپنے ایک سینگھ سے دوسرے سینگھ پر دنیا کو رکھتا ہے اس وقت زلزلہ آتا ہے۔ نو 9سال کا پوتا کہتا ہے دیکھو ابا جی! مولوی کیا کہہ رہا ہے اور خوب ہنسا۔ چونکہ Knowledgeبہت زیادہ ہو گئی۔ اس لئے حضور پاکﷺ کے حکم سے ایک ایسا سلسلہ قائم ہوا جو سائنسی ذہن سے روحانی تعلیمات کو پیش کرے۔ سلسلہ عظیمیہ کا مقصد بھی یہی ہے، جو اکابرین کا تھا اور ہے۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں، علم بغیر تربیت کے فائدہ نہیں پہنچاتا۔ آپ کتنا ہی علم سیکھا دیں، اگر اس کی تربیت صحیح نہیں ہے تو وہ علم اس کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ پہلے تربیت ہو گی، پھر علم ہو گا۔ سلسلہ عظیمیہ پہلے تربیت کرتا ہے، پھر روحانی علم سکھاتا ہے اور مقصد وہی ہے جو سارے سلسلوں کا مقصد ہے۔ سالک کو ایسی تعلیمات سے آراستہ کر دیا جائے اور اس کی ایسی تربیت کر دی جائے جو اس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے قریب کر دے اور اس کے اندر اللہ کی مخلوق کی خدمت کا جذبہ کارفرما ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور سارے مسلمانوں کو توفیق دے کہ ہم عشق رسولﷺ سے سرشار ہو جائیں اور صراط مستقیم پر قائم رہیں۔
*****


Khutbat Multan

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔ 

ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی  کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔

عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "