Topics

جذبات کہاں بنتے ہیں؟

پروفیسر جامی صاحب! اساتذہ کرام بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان۔

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

خیالات و تصورات جسم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟

زندگی کا کوئی رخ ہو، صحت مندی کا رخ ہو، بیماری کا ہو، پریشانی کا ہو، خوشی کا ہو، احساس کمتری یا احساس برتری کا رخ ہو۔ یہ تمام اعمال، تاثرات ، جذبات خیالات کے تابع ہیں۔ اس وقت چھ ارب کی آبادی ہے، چھ ارب آبادی میں ایک انسان بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ اس کی زندگی کا دارومدار خیالات کے اوپر ہے۔ جب تک کسی چیز کے بارے میں خیال وارد نہیں ہوتا وہ چیز واقع نہیں ہوتی۔

اس کی بہت ساری مثالیں ہیں مثلاً ہم رات کو سوتے ہیں، صبح کو بیدار ہو جاتے ہیں۔ صبح کے معمولات میں ہمارا ایک معمول یہ ہے کہ ہمیں دفتر جانا ہے۔ اگر ہمیں بیدار ہونے کے بعد دفتر جانے کا خیال نہ آئے تو ہم دفتر نہیں جائیں گے۔

یہی حال کھانے پینے کا ہے۔ مریض کو بھوک نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔مریض کھانا کیوں نہیں کھاتا؟

کھانا اس لئے نہیں کھاتا کہ اسے کھانے کی اطلاع نہیں ملی۔ علیٰ ہذالقیاس زندگی کے جتنے بھی معمولات ہیں ان میں کوئی عمل ایسا نہیں ہے کہ جو خیال آئے بغیر انجام دیا جا سکے۔ کلیہ یہ بنا کہ زندگی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جب کوئی کام آپ کرنا چاہیں تو پہلے آپ کو خیال آئے گا اور اس کے بعد آپ وہ عمل کریں گے۔

ہماری پوری زندگی اطلاعات پر قائم ہے۔ اگر آپ کا ذہن آپ کے شعور کو اس بات سے مطلع نہیں کرے گا کہ آپ کو پانی پینے کی ضرورت ہے تو آپ پانی نہیں پی سکتے۔ اگر آپ کا ذہن آپ کے شعور کو اس بات سے مطلع نہیں کرے گا کہ آپ کو اب نیند کی ضرورت ہے، آپ سو نہیں سکتے۔ انتہا یہ ہے کہ اگر آپ کو سونے کی گولیاںSleeping Pillsبھی دی جائیں گی پھر بھی آپ کو نیند نہیں آئے گی۔ نیند کی گولی دینے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جو انفارمیشن آپ کو سلاتی ہے وہ متحرک ہو جائے۔ زندگی کا کوئی ایک عمل پیدائش سے لے کر موت تک ایسا نہیں ہے جو آپ خیال آئے بغیر کر سکیں۔

خیال ایک اطلاع ہے۔ انسان کے اندر ایک ایسی ایجنسی ہے جو ایجنسی انفارمیشن قبول کرتی ہے اور انفارمیشن جس قسم کی ہوتی ہے اس قسم کے تاثرات قائم ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی گھر میں بیٹھا ہے، اس کو ایک بری اطلاع ملی۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ سب کے بچوں کو محفوظ رکھے۔۔۔۔۔۔کہ بچے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ جیسے ہی یہ انفارمیشن ملے گی زندگی میں ایک ہلچل برپا ہو جائے گی۔ سوائے پریشانی کے اور کوئی بات ذہن میں نہیں آئے گی۔ جب تک آپ بچے کو دیکھ نہیں لیں گے۔ جب تک آپ بچے کو ہسپتال نہیں پہنچا دیں گے، جب تک اس اطلاع یا انفارمیشن کے مقابلے میں آپ کو تسلی نہیں ہو جائے گی کہ ایکسیڈنٹ خطرناک نہیں ہے، آپ مطمئن نہیں ہوں گے۔

آپ کو یہ اطلاع ملی کہ بیٹی اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی ہے۔ ابھی آپ نے اس کی مارکس شیٹ نہیں دیکھی۔ بیٹی نے آ کر بتایا بھی نہیں ہے لیکن اس انفارمیشن کے تاثرات خوشی کی شکل میں مرتب ہوں گے۔ مفہوم یہ نکلا کہ خوشی ہو یا غمی ہو اس کا تعلق انفارمیشن سے ہے۔

سوال: انفارمیشن کہاں سے آتی ہے؟

جواب: اس انفارمیشن کا تعلق روح سے ہے۔

سوال: روح سے جسم کا تعلق کیوں اور کس طرح ہے؟

جواب: ہم دیکھتے ہیں کہ روح جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو کسی بھی انفارمیشن کا اثر جسم پر مرتب نہیں ہوتا۔ ایک آدمی مر گیا، اس کے کان میں کہا جائے تیرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے یا بیٹا پیدا ہوا ہے۔ تو اس پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔

کیوں۔۔۔۔۔۔؟

کان ہیں، دماغ بھی ہے۔

بات یہ ہے کہ روح نے اس Physical Bodyسے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے۔

اب ہم اس طرح کہیں گے کہ جب تک روح کا تعلق جسم سے رہتا ہے، اس وقت تک انفارمیشن رہتی ہے اور جیسے ہی روح کا جسم سے رشتہ منقطع ہو جاتا ہے انفارمیشن کا عمل ختم ہو جاتا ہے۔

ہم لیکچر میں بتا چکے ہیں کہ مادی جسم روح کا لباس ہے۔ جب تک روح لباس کو پہنے رہتی ہے، اس میں حرکت رہتی ہے۔ بلکہ دماغ خیالات آنے کا ذریعہ ہے۔

خیالات کہاں سے آتے ہیں؟

یہ بات تو آپ سمجھ گئے ہیں کہ خیالات دماغ سے نہیں آتے۔ اگر خیالات دماغ میں سے آتے تو مردہ جسم بھی خیالات کو قبول کرتا۔ خوشی اور غم سے جسم متاثر نہیں ہوتا بلکہ روح کا لباس متاثر ہوتا ہے۔ جب تک روح اس جسم کو پہنے رہتی ہے، اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں اور روح جب اس لباس کو یعنی جسم کو اتار دیتی ہے تو کوئی تاثر قائم نہیں ہوتا۔

ہمیں بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ ہمارا جسمانی وجود جس کو ہم Phsycial Bodyکہتے ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ روح نے اس کو اپنا لباس بنایا ہوا ہے۔ جب تک روح اس- لباس کو پہنے رہتی ہے، جسم میں حرکت رہتی ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح آپ کوٹ پہنے رہتے ہیں اور جسم کے ساتھ کوٹ بھی حرکت کرتا ہے۔

یہ کیا بات ہوئی؟

بات یہ ہوئی کہ دنیا کے چھ ارب انسان Physical Bodyکو اصل سمجھے ہوئے ہیں۔ جب کہ یہ اصل نہیں ہے۔ جب تک ہم اسے اصل سمجھتے رہیں گے ہم فکشن کی زندگی میں قید رہیں گے اور جب ہمارے اوپر یہ عقدہ کھل جائے گا کہ جس طرح کوٹ جسم کے بغیر حرکت نہیں کرتا، اسی طرح روح کے بغیر جسم حرکت نہیں کرتا تو ہم Fictionسے نکل کر Realityمیں داخل ہو جائیں گے۔

جہاں Realityہوتی ہے وہاں شک نہیں ہوتا۔ جہاں Fictionہوتا ہے وہاں شک ہوتا ہے۔ جب تک انسان شک کی زندگی میں مبتلا رہے گا، تکلیف میں رہے گا۔ جتنا زیادہ شک بڑھ جائے گا اسی مناسبت سے مزاج میں تبدیلی آتی رہے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ شعور غیر متوازن ہو جائے گا۔ جب شعور غیر متوازن ہو جائے گا تو طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہو جائیں گی۔ مرگی، آسیب، کینسر، سِل، دق، شوگر، بے خوابی، بلڈ پریشر وغیرہ یہ سارے امراض اس بنیاد پر ہیں کہ ہم Physical Bodyکو اصل سمجھ رہے ہیں۔

روحانیت کہتی ہے کہ انسان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس Physical Bodyکو روح کے تابع کیا ہے۔ روح Physical Bodyکے تابع نہیں ہے۔

*****



Khutbat Multan

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔ 

ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی  کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔

عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "