Topics
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم استاد جامی صاحب نے فرمایا ہے کہ آج کا لیکچر مراقبہ پر ہو گا۔ مراقبہ کیا ہے اور مراقبہ کے فوائد کیا ہیں؟
عزیز طالبات اور طلباء!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
موجودہ دور علمی موشگافیوں کا دور ہے۔ ہر جہت میں ترقی ہوئی ہے۔ ایجادات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اس دور میں اتنی زیادہ علمی موشگافیاں ہوئی ہیں کہ پچاس سال کے مختصر عرصے میں بے شمار نئی چیزیں ہمارے سامنے آ گئی ہیں۔ مثلاً ٹیلیفون، ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل، لاسلکی نظام اور اس سے متعلق بہت ساری چیزیں۔ جیسے Satelliteوغیرہ۔ زمین کے اوپر کی چیزوں میں بھی نئی نئی دریافتیں ہوئی ہیں اور زمین کے طبقات میں جو خزانے چھپے ہوئے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔ جیسے Uranium, Gases, Petrolاور دوسری دھاتیں۔
یجادات سے جہاں انسان کو سہولیات میسر آئیں وہاں انسان کی تباہی کے سامان بھی ہوئے۔ مثلاً ایٹم، میزائل۔۔۔۔۔۔وغیرہ۔ جب سے بجلی دریافت ہوئی ہے، ایجادات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان ایجادات میں انسانوں کے لئے آسائش و آرام کی چیزیں بھی بنیں اور ان ایجادات میں انسان کے لئے تباہ کن ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی جمع ہوا۔
جس دور کو ہم ترقی کا دور کہتے ہیں، اس کے پیچھے وسائل کی بہتات ہوئی ہے۔آرام و آسائش کا ہر سامان میسر آیا۔ چھ مہینے کا سفر گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ دنیا ایک کمرے میں آ گئی ہے۔ دنیا اتنی مختصر ہو گئی کہ ہمیں ایک کمرے کے برابر نظر آتی ہے۔
باس کے معاملے میں، سواری کے معاملے میں، بلڈنگوں کے معاملے میں، گھروں ے متعلق، ہر جگہ آپ کو ترقی نظر آتی ہے۔ لیکن بڑی مایوس کن بات ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود انسان پریشان ہے۔ سکون کم ہوتے ہوتے اتنا کم ہو گیا ہے کہ انسان سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
کاریں مہیا ہو گئیں، ہوائی جہاز بن گئے۔ ان کاروں سے اور ہوائی جہازوں سے انسانی مسائل میں کمی نہیں آئی۔ پچاس سال پہلے اتنی بیماریاں نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔ پچاس سال پہلے “ہائی بلڈ پریشر” اور “لو بلڈ پریشر” کی بیماریاں تو تھیں، کتابوں میں ان کا تذکرہ بھی تھا، علاج بھی ہوتا تھا لیکن گھر گھر پر بیماری نہیں تھی۔ اگر کسی کو ہارٹ اٹیک ہو جاتا تھا تو وہ اخبار کی شہ سرخی بن جاتا تھا۔۔۔۔۔۔
اب صورت یہ ہے کہ آپ کارڈیالوجی ہسپتال جائیں مریضوں کے لئے کوریڈور میں بھی جگہ نہیں ہے۔ تین مہینے میں نمبر آتا ہے۔ یہی حال دوسرے امراض کا ہے، جس شخص کو دیکھو وہ بیمار ہے۔ ہر خاندان میں آپ کو کینسر کے مریض مل جائیں گے۔ اسی طرح شوگر کا مرض ہے۔
پہلے بھی لوگ شکر کھاتے تھے۔ پہلے بھی لوگ اسی دنیا میں رہتے تھے یہی ان کی غذا تھی جو ہماری غذا ہے لیکن شوگر کا تذکرہ شاذ و نادر ہوتا تھا۔
آج شوگر کا مرض عام ہو گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکہ میں ہر پانچویں یا تیسرے آدمی کو شوگر کا مرض لاحق ہے اور اس میں بوڑھے جوان اور بچوں کی کوئی شرط نہیں۔ آج کی ترقی دراصل ترقی کا فسوں ہے۔ اس ترقی کے پیچھے انسان بے چین ہے، مضطرب ہے، گروں کا ٹرانس پلانٹ، جگر میں ہیپاٹائٹس، قلبی امراض، السر، آنتوں میں زخم، طرح طرح کے بخار عام بات ہو گئی ہے۔
جب ہم مذہب کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو مذہب ہمیں ایک عقیدے پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کو وحدہ لاشریک مانو، اللہ کو اپنا کفیل سمجھو، اللہ کو اپنا محافظ مانو۔ اللہ ہی ہے جو انسانوں کو پیدا کرتا ہے۔ اللہ ہی ہے جو انسانوں کے لئے وسائل مہیا کرتا ہے۔ اللہ ہی ہے جو انسانوں کو ایک معین مدت تک اس دنیا میں رکھنے کے بعد اس دنیا سے کسی اور دنیا میں منتقل کر دیتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ترقی کے ساتھ ساتھ جب ہماری شعوری استعداد میں اضافہ ہوا تو اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق بھی زیادہ ہوتا، عقیدے میں بھی پختگی آتی۔ لیکن ترقی کے ساتھ ساتھ ہم عقیدے کے اعتبار سے بھی اپنے اسلاف کے مقابلے میں بہت پست ہیں۔
یہ تمہید میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ مذہب کے حوالے سے قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کر سکیں کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات نے ہمیں کیا دیا ہے اور موجودہ ترقی سے ہمیں کیا کیا چیزیں منتقل ہوئیں۔ جہاں تک ترقی کا تعلق ہے، کوئی بھی باشعور آدمی ترقی ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ہم اپنے پیاروں سے، اپنے عزیزوں سے، اپنے رشتے داروں سے پاکستان میں بیٹھ کر امریکہ بات کر لیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ترقی ہے۔ پہلے چھ مہینے سفر کر کے حج کرتے تھے۔ اب چھ گھنٹوں میں جدہ پہنچ جاتے ہیں۔
میں یہ کہنا نہیں چاہتا کہ ترقی نہیں ہوئی۔ ترقی ہوئی ہے لیکن مادی ترقی کے ساتھ روحانی اقدار کم ہو گئی ہیں۔ اس ترقی سے ہمارے اندر سے مذہب کا تصور کمزور ہو گیا اور جیسے جیسے مذہب کا تصور کمزور ہوا اسی مناسبت سے ہم لوگ پریشانیوں میں، بیماریوں میں اور نئی نئی الجھنوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“اللہ کا ذکر کرنے سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔”
اللہ کے ذکر سے کیا مراد ہے؟
ایک ذکر تو یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔ہم رات دن اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً صبح سے رات تک اگر آپ ڈائری بنائیں اور جتنی بار اللہ بولا جائے اسے ڈائری میں لکھ لیں۔ اس کی تعداد سینکڑوں تک ہو جائے گی۔ اللہ مالک ہے جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔
ذکر سے مراد یہ ہے کہ جب آپ کسی آدمی کا، کسی دوست کا، کسی رشتہ دار کا نام پکاریں مثلاً آپ کی کوئی سہیلی ہے حمیدہ۔ جیسے ہی آپ حمیدہ کہتے ہیں تو حمیدہ کی شخصیت اور اس کا سراپا آپ کے سامنے آ جاتا ہے۔ آپ کی دو دوست ہیں دونوں کا نام حمیدہ ہے۔ ایک کا رنگ گورا ہے، ایک کا رنگ کالا ہے۔ جب آپ کالے رنگ کی حمیدہ کو آواز دیں گی تو گورے رنگ کی حمیدہ کا تصور قائم نہیں ہو گا اور جب گورے رنگ کی حمیدہ کو آواز دیں گی تو کالے رنگ کی حمیدہ کا تاثر قائم نہیں ہو گا۔ جب آپ کہتی ہیں۔۔۔اماں۔۔۔ تو ماں کی شخصیت سے متعلق، ماں کی مامتا سے متعلق، ماں کی خدمات سے متعلق، ماں کے احترام سے متعلق تمام تاثرات آپ کے اوپر قائم ہو جاتے ہیں۔ جب آپ کہیں گے۔۔۔ابا۔۔۔ابا کی شخصیت سے متعلق، ابا کے دل میں اولاد کی شفقت کی صفات کا تاثر قائم ہو گا۔ جیسے جذبات ہوں گے ایسے ہی تاثرات قائم ہوں گے۔
اب یوں کہیں گے کہ ذکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ جس ہستی کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کی شخصیت کا تاثر قائم ہو۔ ہم سو100دفعہ اللہ کا نام لیتے ہیں، اللہ یہ کر دے، اللہ نے یہ کر دیا، اللہ نے مہربانی فرمائی۔ کچھ لوگ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا (نعوذ باللہ) وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کا وہ تاثر قائم نہیں ہوتا جو آپ کے اوپر ایک دوست کا نام لینے سے قائم ہوتا ہے یا ماں کو پکارنے سے جو تاثر قائم ہوتا ہے۔ اللہ کے ذکر سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے، وہ اطمینان قلب اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اللہ کی ذات اور اللہ کی صفات کا تاثر آپ کے اوپر قائم ہو۔ جس کی ہمیں کوئی پریکٹس نہیں ہے۔
لیکن اگر انسان اپنے تمام معاملات سے یکسو ہو کر صرف اور صرف اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ اس کے اوپر تاثر ضرور قائم ہوتا ہے اور بندہ اللہ سے قربت محسوس کرتا ہے۔
ہم روز پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔الحمداللہ رب العالمین۔۔۔۔۔۔سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے۔ یہ سورۃ ہم پندرہ سو سال سے پڑھ رہے ہیں، نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں۔ اپنی نجی زندگی میں جب شکر کی بات ہوتی ہے تو۔۔۔الحمدللہ۔۔۔کہتے ہیں۔ لیکن اس کا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ اگر آپ اس آیت کے معنی اور مفہوم کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ “سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے” تو آپ کے اوپر پہلا انکشاف یہ ہو گا کہ عالم ایک نہیں ہے، دنیا ایک نہیں ہے۔ بہت ساری دنیائیں ہیں، بہت سارے اسٹار ہیں، اسٹار کے بہت سارے طفیلی سیارے ہیں۔ چودہ سو سال پہلے رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہلوا دیا کہ دنیا ایک نہیں ہے، عالم ایک نہیں ہے۔ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو اس دنیا کی طرح لاکھوں کروڑوں دنیا کا رب ہے۔
رب سے مراد ہے دنیا کو قائم رکھنے والا۔ دنیا کو قائم رکھنے میں جن وسائل کی ضرورت ہے۔ ان وسائل کو مہیا کرتا ہے، ان وسائل کو تخلیق کرتا ہے۔ زمین ایک عالم ہے اور اس زمین کے اوپر اور اندر گیسز ہیں، آکسیجن ہے، ہوا، پانی ہے، آسمان ہے، خورد و نوش کے لئے حیوانات اور فوڈ ہیں، سائے کے لئے درخت ہیں، کھانے کے لئے پھل فروٹ ہیں۔ یہ سارے وسائل اگر نہیں ہوں گے تو آپ اس دنیا کو دنیا نہیں کہیں گے۔ دنیا کو قائم رکھنے کے لئے روشنی چاہئے اور روشنی کے لئے سورج ضروری ہے۔ رات کو بھی روشنی چاہئے، رات کو روشنی چاہئے تو چاند موجود ہے۔ سمندر ضروری ہیں تا کہ آپ کشتیاں چلا سکیں، جہاز چلا سکیں۔ ہوا چاہئے تا کہ ہوا سے زندگی کے تقاضے بھی پورے ہوں۔
سواری کے لئے آپ کو جانور چاہئے، گوشت کھانے کے لئے بھی جانور چاہئیں۔ یہ ساری چیزیں زمین کے اوپر موجود ہیں۔
یہ وہ وسائل ہیں جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور ان سارے وسائل کی پیدائش میں، سارے وسائل کے انتظام و انصرام میں، ترتیب و توازن میں، استحکام میں، اللہ کے قانون کا عمل جاری ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو وہ نہ بیٹھ سکتا ہے، نہ کروٹ بدل سکتا ہے، لیکن بتدریج زمین کا ماحول، زمین کا Atmosphereزمین کے اندر موجود گیسز، زمین کے اندر روشنیوں اور لہروں کا انتظام، دھوپ، چاندنی، ماں کا لمس، گرمی، سردی اس بچے کے اندر ایسی استعداد اور سکت پیداکر دیتی ہے کہ بچہ کرولنگ کرتا ہے، سہارے سے کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر چلتا پھرتا ہے، بھاگتا دوڑتا ہے اور کُشتیاں لڑتا ہے۔ بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹ دیتا ہے۔ سرکش سمندر کی موجوں میں کشتیاں ڈال دیتا ہے۔ چاند پر جانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ زمین کی تیہوں میں سے تیل اور پیٹرول نکال لیتا ہے۔ دریاؤں کے رخ موڑ دیتا ہے سمندر کے اندر ریل چلا دیتا ہے۔
جب بچہ اس دنیا میں آیا تو اس نے اپنے لئے کوئی چیز نہیں بنائی، ہر چیز اسے بنی بنائی ملی۔ زمین موجود تھی، ماں موجود تھی، ماں کے دل میں بچے کی مامتا تھی، باپ کے دل میں بچے کی شفقت تھی۔ محلے پڑوس میں جہاں کہیں بھی خبر گئی کہ فلاں گھر میں بچہ ہوا ہے، ہر شخص شاد مان فرحان بچہ کو دیکھنے کے لئے دوڑ پڑا۔ سوچئے!
اگر بچہ کو اپنے لئے زمین بنانی پڑتی، ہوا بنانی پڑتی، اپنے لئے سورج کی روشنی تخلیق کرنی پڑتی تو کیا ہوتا؟
کیا وہ بچہ اس دنیا میں زندہ رہ سکتا تھا؟
جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے وہ سب پیدا کر دیا تھا جب ہمیں اس کا استعمال بھی نہیں آتا تھا۔ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے جو عالمین کا رب ہے، جو عالمین کو پیدا کرتا ہے، تخلیق کرتا ہے اور تخلیق کی تمام ضروریات کو پیدا کر کے ہر تخلیق کی کفالت کرتا ہے۔
تصوف اور دوسرے علوم میں بنیادی فرق یہی ہے کہ تصوف کا طالب علم، جس کو سالک کہتے ہیں، جب اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ کی صفات اپنے اندر ڈھونڈتا ہے، اللہ کی صفات کا اور اللہ کی ذات کا تاثر قبول کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم کسی دوست کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس کی صفات سے متاثر ہوتے ہیں۔ تاثر قائم ہونے کے لئے تصوف میں مراقبہ کرایا جاتا ہے۔
مراقبہ ایک عمل ہے، ایک علم ہے، یکسو ہونے کا ایک مشن ہے۔ آپ ماشاء اللہ ماسٹر کے اسٹوڈنٹ ہیں۔ جب بھی کوئی کام آپ کریں، ایسا کام جس میں Concentrationہو جائے جس میں آپ کا ذہن یکسو ہو جائے، اس کا نام مراقبہ ہے۔ مثلاً آپ ایک کتاب پڑھتے ہیں، کورس کی کتاب ہو یا کوئی اور کتاب ہو، افسانہ ہو یا ڈرامہ ہو، اگر اس کے اندر آپ کا ذہن مرکوز ہو گیا تو اس کیفیت کا نام مراقبہ ہے۔
مراقبہ سے مراد یہ ہے کہ انسان کا ذہن کسی کام میں اس طرح مصروف ہو جائے کہ اس کے اوپر سے زمان و مکان(ٹائم اسپیس) کی گرفت ٹوٹ جائے۔ آپ کو تجربہ ہوا ہو گا، کوئی اچھا ناول، کوئی اچھی کتاب، سیرت کی کتاب یا کوئی کورس کی کتاب جو آپ کی دلچسپی کے مطابق ہے پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جب گھڑی پر نظر پڑتی ہے تو آپ حیران ہوتے ہیں کہ چار گھنٹے ہو گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ آپ نے چار گھنٹے کتاب کو مسلسل پڑھا، آپ نے اس دوران نشستیں بھی بدلیں، کبھی آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے، کبھی التحیات کی طرح بیٹھ گئے، کبھی ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گئے، کبھی تکیہ لگا کے پڑھنے لگے، کبھی لیٹ گئے، کبھی سیدھے کبھی الٹے لیٹ کر پڑھ رہے ہیں، اس دوران میں آپ نے پانی پیا، کوئی بندہ آیا اس کی بات کا جواب بھی دے دیا لیکن آپ کو چار گھنٹے کا احساس نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔آخر کیوں؟
بتایئے! وقت کا احساس کیوں نہیں ہوا؟
دوستو!
ایک دلچسپ کتاب پڑھی، اس کے مطالعہ میں چار گھنٹے گزر گئے۔ چار گھنٹے بڑا وقت ہے، آپ ایک آدمی کو چار گھنٹے کے لئے کسی جگہ کھڑا کر دیں اس کے لئے کھڑے ہونا مسئلہ بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ چار گھنٹے کا وقت کیسے حذف ہو گیا؟ چار گھنٹے گزرنے کا احساس کیوں نہیں ہوا؟
بتایئے 240منٹ کیوں محسوس نہیں ہوئے؟
دوستو!
چار گھنٹے کا وقت اس لئے حذف ہو گیا، جیسے بیٹی نے بتایا کہ مطالعہ میں دلچسپی قائم ہو گئی تھی۔ اس کتاب کو آپ کے شعور میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ آپ سفر کریں، کئی گھنٹے کا سفر، ریل کی سلیپر پر آپ لیٹ جائیں، سو جائیں۔ کوئی کہتا ہے اٹھو! اسٹیشن آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔آپ کہیں گے ارے اسٹیشن آ گیا، کئی گھنٹے گزر گئے۔۔۔۔۔۔
کیوں؟ اس لئے آپ کی شعوری کیفیات نیند میں منتقل ہو گئیں۔ یعنی شعور ایک طرح سے Suspendہو گیا، معطل ہو گیا۔ معطل(Suspend) ہونے کا مطلب ختم ہونا نہیں ہے۔ عارضی طور پر شعور کی تمام دلچسپیاں معطل ہو گئیں۔ آپ کے شعور کی دلچسپیاں ایک ہزار باتوں میں ہیں۔ شعور کی تمام دلچسپیاں ایک ہزار باتوں کی بجائے ایک نقطے پر سمٹ آئیں تو ایک ہزار باتیں پردے میں چلی گئیں، وقت کا احساس ختم ہو گیا۔
مراقبہ کا مطلب ہے، کسی ایک نقطے پر ذہن کا مرکوز ہونا۔ کسی ایک نقطے کے اوپر اپنا ذہن مرکوز کر دینا ہی مراقبہ ہے۔
سورۃ مزمل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
“اے اوڑھ لپیٹ کے سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔”
آپ کو ایک ہزار خیالات آ رہے ہیں، اس میں اماں، ابا، کاروبار، جو بھی کچھ ہے سب سے قطع تعلق کر کے آپ اللہ کا ذکر کریں تب آپ کے ذہن میں اللہ کے علاوہ اور کچھ نہیں آئے گا۔ ایک آدمی پریشان ہے اس کو خیالات چین نہیں لینے دیتے۔ وہ تمام خیالات سے یکسو ہو کر کسی کام میں مشغول ہو جاتا ہے۔ کیا اس کو پریشانی سے نجات نہیں مل جائے گی؟
کیوں بھائی، مل جائے گی یا نہیں مل جائے گی؟
جواب: جی ہاں! مل جائے گی۔
اس صورت سے جب انسان اللہ کا ذکر کرتا ہے اور ہر چیز سے عارضی طور پر قطع تعلق کر لیتا ہے تو اسے سکون مل جاتا ہے۔ اللہ مکمل رحمت ہے، مکمل عافیت ہے، مکمل محبت ہے۔۔۔جب آپ کے اندر اللہ کی صفات منتقل ہو جائیں گی، آپ پر سکون ہو جائیں گے۔ اللہ کا ذکر اطمینان قلب عطا کرتا ہے۔ لیکن ہماری صورت حال بالکل الٹ ہے۔ سب سے زیادہ نماز میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔سے ۔۔۔۔۔۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔۔۔۔۔۔تک اللہ کا ہی ذکر ہوتا رہتا ہے۔ اللہ کے ذکر میں ہم ایک منٹ کے لئے یکسو نہیں ہوتے، دنیا بھر کے خیالات، وسوسے، پریشانیاں اور وہ باتیں جو ہمیں یاد نہیں آتیں نماز میں یاد آ جاتی ہیں۔ دراصل اللہ کا ذکر یہ ہے کہ جب نمازی نیت باندھ کر۔۔۔۔۔۔الحمداللہ رب العالمین۔۔۔۔۔۔کہے تو اس کے اوپر کائنات روشن ہو جائے، اس بات کا علم ہو جائے کہ دنیا ایک نہیں ہے، کروڑوں دنیائیں ہیں اور ہر دنیا وسائل کی محتاج ہے اور وسائل اللہ عطا کرتا ہے۔ جب آپ کا ذہن اللہ کی طرف متوجہ ہو گا، آپ پریشانیوں سے محفوظ ہو جائیں گے، آپ کے دل کو سکون مل جائے گا۔
اولیاء اللہ کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اولیاء اللہ کے پاس جب کوئی بندہ جاتا ہے، وہ کتنا ہی پریشان ہو اسے سکون مل جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ ولی اللہ کی پہچان یہ ہے کہ بندہ ان کے پاس روتا ہوا جاتا ہے اور ہنستا ہوا آتا ہے۔ چونکہ اللہ کی ذات کے ساتھ ان کی وابستگی ہوتی ہے۔ اسی لئے ان کے پاس جو بھی جاتا ہے اس کو سکون ملتا ہے۔ ایک آدمی رو رہا ہے، آپ اس کے پاس بیٹھ جائیں، تھوڑی دیر میں آپ بھی رونے لگیں گے۔ ایک آدمی خوش مزاج ہے، ہنس رہا ہے، بول رہا ہے، لطیفے سنا رہا ہے، خود بھی کھا پی رہا ہے، آپ کو بھی کھلا پلا رہا ہے، آپ وہاں سے خوش ہو کر آئیں گے۔ ایک ماحول خوشبودار ہے، آپ خوشبو سونگھے بغیر خود کو ہلکا اور لطیف محسوس کریں گے۔ فضا میں بھاری پن ہے۔ کُتے، بلیاں مری پڑی ہیں۔ ان کے مردہ اجسام سے بدبو کے بھبھکے اٹھ رہے ہیں، اس ماحول میں جو بھی آدمی جائے گا اس کا مزاج بھاری ہو جائے گا۔
لیکن اولیاء اللہ کا گروہ چونکہ اللہ سے وابستہ ہوتا ہے اور جب اللہ سے بندہ کا تعلق قائم ہوتا ہے تو اس کے اوپر سے دنیا کی گرفت ختم ہو جاتی ہے اور جب بندہ دنیا میں مشغول ہوتا ہے تو دنیا اس کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے۔ اللہ والے بچوں کی پرورش بھی کرتے ہیں، کاروبار بھی کرتے ہیں، نوکریاں بھی کرتے ہیں، پڑوسیوں کا خیال بھی کرتے ہیں، خدمت خلق کے شعبے میں بہت سارا وقت دیتے ہیں۔ علم بھی حاصل کرتے ہیں، علم سکھاتے بھی ہیں۔ ان کی عام زندگی عوام سے مختلف نہیں ہوتی۔ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں۔ پچاس پچاس سال، چالیس چالیس سال، اسّی اسّی سال نماز پڑھتے رہتے ہیں اور حال یہ ہے کہ آپ اپنے کسی بزرگ، نانی سے، دادی سے پوچھئے کہ اماں! آپ جنتی ہیں؟
آپ کو پتہ ہے اماں کا جواب کیا ہو گا؟ اماں کہیں گی۔ “ہاں بیٹا! دعا کرو اللہ مجھے جنتی بنا دے۔”
یعنی پچاس سال نمازیں پڑھنے کے بعد بھی اماں جی کو اس بات کا یقین نہیں ہوا کہ میں جنتی ہوں۔
کیوں نہیں ہوا یقین؟
اس لئے نہیں ہوا کہ پچاس سال تک ایک آدمی کسی کو آواز دیتا ہے اور پچاس سال میں ایک مرتبہ بھی وہ اس آواز کا جواب نہیں سنتا تو پھر اسے کیسے یقین حاصل ہو گا؟ لیکن اگر اسے Concentrationہو جائے، سورۃ مزمل کی آیت کے مطابق وہ قطع تعلق کر کے صرف اور صرف اللہ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لے تو اللہ کی آواز آئے گی۔ اللہ نظر آئے گا۔ اللہ ضرور نظر آئے گا، اللہ کا یقین پیدا ہو گا۔ اللہ کی صفات کا لازمی مشاہدہ ہو گا۔
یہ تو ہو گئی روحانی بات، اب دنیاوی بات سنیئے۔ کوئی اسٹوڈنٹ، کوئی شاگرد، کوئی استاد ایک کتاب پڑھتا ہے۔ اگر اس کتاب میں Concentrationنہ ہو، کیا وہ پاس ہو سکتا ہے؟
استاد کو Concentrationحاصل نہ ہو، کیا وہ استاد لیکچر دے سکتا ہے؟
کیوں سعید بھائی؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ استاد لیکچر دینے سے پہلے اسٹڈی کرتا ہے کتاب پڑھتا ہے اس کے ذہن میں ہے کہ مجھے لیکچر دینا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ کوئی بھی اسٹوڈنٹ اس مضمون سے متعلق مجھ سے سوال کر سکتا ہے اور میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں اس کو مطمئن کروں۔ استاد زیادہ توجہ اور یکسوئی کے ساتھ کتاب پڑھے گا۔ تفہیم کرے گا، مزید غور و فکر کرے گا۔ یہ ساری یکسوئی، یہ ساری تفہیم، یہ سارا غور و فکر مراقبے کی تعریف میں آتا ہے۔
اب آپ گھر میں آ جایئے۔ ہماری بہن، بیٹی، ماں، خالہ کھانا پکاتی ہیں۔ کھانے میں ان کی توجہ نہیں تھی جو ہونی چاہئے۔ دوسری طرف خواتین کھانا پکاتی ہیں، ان کی پوری توجہ کھانا پکانے میں ہے۔
کھانا کس کا مزیدار ہو گا؟
پروفیسر صاحب! کس کا کھانا مزیدار ہو گا؟
بالکل صحیح ہے جس نے توجہ سے کھانا پکایا ہے۔
جس نے ذہنی انتشار کے ساتھ کھانا پکایا ہے اس کا کھانا مزیدار نہیں ہو گا۔
عزیز دوستو! توجہ سے کھانا پکانا بھی یکسوئی کی تعریف میں آتا ہے۔ مائیں اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں۔ اگر بچوں میں Concentrationنہ ہو، اگر بچے کی تعلیم و تربیت میں ماں کی مرکزیت قائم نہ ہو تو بچہ کی تربیت صحیح نہیں ہو گی۔
بابا فرید گنج شکرؒ کو گڑ کھانے کا شوق تھا۔ جیسے ہمارے بچے آج کل ٹافیاں کھاتے ہیں۔ اس زمانے میں گڑ کھایا کرتے تھے، ٹافیاں ہوتی ہی نہیں تھیں۔ ان کی اماں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مصلیٰ بچھا دیتی تھیں اور چپکے سے مصلے کے نیچے گڑ رکھ دیتی تھیں۔ وضو کراتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اللہ سے دعا مانگو۔۔۔۔۔۔یا اللہ! مجھے گڑ چاہئے۔ دعا کے بعد جب اماں مصلیٰ اٹھاتیں تو وہاں گڑ موجود ہوتا تھا۔ بابا فریدؒ خوش ہو کر کھا لیتے تھے۔ طویل عرصے تک یہ سلسلہ قائم رہا۔
بابا فریدؒ ایک روز بچوں کے ساتھ باہر کھیل رہے تھے، گڑ کا تذکرہ آ گیا انہوں نے کہا کہ گڑ تو اللہ میاں دیتے ہیں۔ دوستوں نے کہا۔۔۔۔۔۔گڑ تو اماں دیتی ہیں۔ کہنے لگے نہیں اماں نہیں دیتی، اللہ دیتا ہے۔ بچوں کی سمجھ میں بات نہیں آئی کیونکہ ان کی ماؤں نے ایسی تربیت نہیں کی تھی۔
بابا فریدؒ بھاگتے ہوئے گھر گئے اور اپنی جائے نماز اٹھا لائے۔ وہیں فٹ پاتھ پر جائے نماز بچھائی اور توتلی زبان میں کہا۔ اللہ میاں! گڑ دے؟
مصلیٰ اٹھایا تو اس کے نیچے اتنا گڑ تھا جو سب دوستوں میں تقسیم ہو گیا۔
یہ واقعہ آپ حضرات نے ضرور سنا ہو گا۔ اس کے پیچھے یہ حکمت ہے کہ ماں کی تربیت سے بچے کے اندر یقین کی اتنی طاقت ہو جاتی ہے کہ بچہ کے اندر سے شک نکل جاتا ہے۔ بچہ نے دعا کی، مصلیٰ اٹھایا، وہاں گڑ رکھا ہوا تھا۔ یعنی والدہ صاحبہ نے ڈھائی تین سال کی عمر سے ہی بچے کو Concentrationکی مشق شروع کرا دی تھی۔
ایک کردار ہندوستان میں بہت مشہور ہوا، جس کا نام سلطانہ ڈاکو تھا۔ وہ بچہ شرارتی تھا۔ ماں کی توجہ تربیت کی طرف کم تھی۔ پڑوس میں مرغی نے انڈا دیا، بچہ چرا کر لے آیا۔ ماں نے بجائے اس کے کہ سرزنش کرتی، مارتی یا اس بچے کو پڑوس میں لے جا کر وہ انڈا واپس کراتی۔ اس نے محبت میں انڈا پکایا اور بیٹے کو کھلا دیا۔
دیکھئے! ایک بابا فریدؒ کی ماں ہیں، مٹھائی وہ بھی کھلا رہی ہے اور ایک دوسری ماں ہے۔ جب ماں نے بچہ کو چوری کا انڈا کھلایا تو آہستہ آہستہ بچہ کو چوری کی عادت پڑ گئی۔ پھر وہ ڈاکو بن گیا۔ برائی کا انجام برا ہوتا ہے، اچھائی کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ سلطانہ ڈاکو پکڑا گیا، مقدمہ چلا، پھانسی کی سزا ہو گئی۔ پھانسی کے تختے پر جانے سے پہلے اس سے پوچھا گیا تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں پھانسی کے تختہ پر اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں۔
ماں آ گئی تو اسے تختے پر کھڑا کر دیا گیا۔ ماں نے جب دیکھا کہ میرا بیٹا مر جائے گا۔ بے قرار ہو گئی۔ رونے لگی، دھاڑیں مار مار کر چیخنے لگی۔ اس کے بیٹے نے کہا کہ ماں میں نے تجھے اس ہی لیے بلایا ہے کہ تو میرا حشر دیکھ لے، اگر اس دن جب میں پڑوس سے انڈا چرا کر لایا تھا تو مجھے پکا کر نہ کھلاتی تو آج میں پھانسی پر نہیں چڑھتا۔
غور کیجئے!
ایک ماں نے بچے کو وہ Concentrationعطا کی جس نے بچے کے یقین کو اللہ کے ساتھ مستحکم کر دیا اور دوسری ماں نے بچے کی تربیت میں یہ کردار ادا کیا کہ اس کو چور سے ڈاکو بنا دیا۔
مراقبہ کوئی ماورائی چیز نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ روحانی لوگوں نے خواہ مخواہ اسلام میں پیوند کاری کر دی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں اسلام میں تصوف نہیں ہے۔ صحابہ کرامؓ میں کہاں تصوف تھا، صحابہ کرام کون سے مراقبے کرتے تھے؟ مراقبہ Means Concentraion۔ صحابہؓ اور صحابیاتؓ رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ میں جب نماز کی نیت باندھ لیتے تھے اور۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔کہہ دیتے تھے تو ہر چیز کی نفی ہو جاتی تھی۔
جب ہم ۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔کہہ کر نماز پڑھتے ہیں تو اس بات کا اقرار کرتے ہیں، اعلان کرتے ہیں کہ اس وقت میں دنیا سے Surrenderکرتا ہوں، اس لئے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اب اگر اللہ سب سے بڑا ہے اور اس حالت میں آپ کو دنیا کا خیال آ جائے تو بتایئے کہ وہ خیال بڑا ہے یا اللہ بڑا ہے؟۔۔۔۔۔۔
ایک ماں نماز پڑھ رہی ہے، ابا نماز پڑھ رہے ہیں، ان کو بیٹے کا خیال آ گیا وہ کہہ تو یہ رہے ہیں کہ اللہ سے بڑا کوئی نہیں مگر بیٹے یا اور کوئی دنیا کا خیال اس طرح مسلط ہو جاتا ہے کہ یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کونسی سورۂ پڑھی ہے۔
روحانی آدمی اس بات کو جب بیان کرتا ہے تو وہ کہتا ہے، انسان اپنے آپ سے جھوٹ بول رہا ہے۔ کہتا یہ ہے کہ اللہ بڑا ہے اور کاروبار کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ روحانی آدمی نماز پڑھتا ہے جب اس نے ایک دفعہ۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔کہہ دیا، کیونکہ اس نے اقرار کر لیا کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اسے کوئی دوسرا خیال نہیں آتا۔ اگر اللہ کے علاوہ کوئی خیال آتا ہے تو وہ توبہ استغفار کرتا ہے۔ تزکیۂ نفس کے لئے ریاضتیں کرتا ہے۔ خود سے شرمندہ ہوتا ہے۔ اللہ کے سامنے روتا ہے اور نتیجے میں اس کو یکسو ہونے کی عادت پڑ جاتی ہے اور اسے نماز میں یکسوئی ہو جاتی ہے۔
دنیا کا کوئی بھی کام ہو، چاہے وہ دین کا ہو، چاہے وہ دنیا کا ہو، چاہے وہ خودغرضی کا ہو، چاہے وہ لوٹ مار کا ہو، چاہے وہ خیرات کا ہو، اگر ذہنی یکسوئی نہیں ہوتی تو کام کا نتیجہ صحیح نہیں نکلے گا۔ ہم اسی ذہنی یکسوئی کو کسی حد تک مراقبہ کہہ سکتے ہیں۔
تصوف اور مراقبہ کے بارے میں پتہ نہیں لوگ کیوں اعتراض کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں عظیمی صاحب نے اسلام میں مراقبے کی پیوندکاری کر دی ہے۔ میں پوچھتا ہوں اسلام میں مرکزیت کے علاوہ اور ہے کیا؟ ہم کہتے ہیں اللہ وحدہ لا شریک ہے۔ اللہ رازق ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ Bossناراض ہو جائے گا تو ترقی رک جائے گی ۔ سیٹھ خوش ہو جائے گا تو ترقی ہو جائے گی۔ روحانی آدمی اس بات کو نہیں مانتا۔ وہ کہتا ہے مالک، قادر، رازق اللہ ہے، یہ ساری دنیا اللہ کے تابع ہے۔ روحانی آدمی ہر جگہ، ہر حال میں سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، اللہ کو اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ اللہ کی صفات اس کے اوپر محیط ہوتی ہیں۔
یہ کیوں ہوتا ہے؟
اس لئے ہوتا ہے کہ روحانی آدمی پر یقین روشن ہو جاتا ہے۔ ایم اے میں یکسوئی کے ساتھ جب آپ تعلیم حاصل کریں گے تو ایم اے کی ڈگری ملے گی اور ایم اے کے مضامین یکسوئی کے ساتھ نہیں پڑھیں گے تو ڈگری نہیں ملے گی۔
اس سلسلے میں کسی کو کچھ پوچھنا ہو تو سوال کر سکتا ہے۔
سوال: آپ نے فرمایا ہے کہ مراقبہ سے سکون ملتا ہے جب کہ مادی ترقی انسانی پریشانیوں کا باعث ہے۔ بندہ اگر مراقبہ کرتا رہے تو مادی ترقی کیونکر ممکن ہے؟
جواب: مادی ترقی ممکن ہی اس لئے ہے کہ آدمی میں Concentrationہوتی ہے اگر ذہنی یکسوئی نہ ہو تو ایجاد نہ ہوتی۔ ایجاد تو ہوتی ہی جب ہے، جب آدمی کو ذہنی یکسوئی حاصل ہو۔ Atomکو آپ نے کب تلاش کیا؟ ایک آدمی آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا، چوتھا آیا، اب ایٹم دریافت ہوا۔ ایک ایٹم کے اوپر کئی سو سال ریسرچ ہوئی، پچاس آدمیوں نے تو ریسرچ کی ہو گی۔ مرکزیت جہاں ہے، مراقبہ ہے۔ وہ لوگ اس کو ریسرچ کہتے ہیں، ہم اسے مراقبہ کہتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے تفکر کہتے ہیں، ہم اسے مسلسل جدوجہد اور تلاش کہتے ہیں۔ روحانی بندوں نے ریسرچ کا نام ذہنی یکسوئی اور مسلسل تلاش کا نام مراقبہ رکھ دیا ہے۔
سوال: کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ صوفیاء نے اپنے شاگردوں کو مراقبے تک محدود کر کے عملی زندگی سے دور کر دیا ہے اور کہتے ہیں کہ تصوف افیون کی طرح ہے۔ آدمی دنیا کے کام کا نہیں رہتا؟
جواب: داتا صاحبؒ نے کشف المحجوب کتاب لکھی ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جس کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ جس بندہ کی کتاب کا دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہوا ہو اس بندے نے کیسے دنیا کو محدود کر لیا۔ امام غزالیؒ ہیں، حضور قلندر بابا اولیاءؒ ہیں، شاہ ولی اللہؒ ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ نے اب سے ڈھائی سو سال پہلے یہ بات بتائی تھی کہ ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک انسان ہوتا ہے۔ کسی نے مانا ہی نہیں۔ اب ڈھائی سو سال کے بعد جب انگریزوں نے کہا کہ آدمی کے اوپر Auraہوتا ہے، سب نے مان لیا۔
عزیز دوستو!
صوفیاء نے تو یہ بات ڈھائی سو سال پہلے بتا دی تھی جو آج سائنٹسٹ بتا رہا ہے۔ سائنٹسٹ کہتا ہے کہ ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک Reflectionہوتا ہے، اس Reflectionکو وہ AURAکہتے ہیں۔ ابھی وہ نہیں بتا سکے کہ Reflectionکہاں سے آ رہا ہے؟ شاہ ولی اللہؒ نے تو پوری وضاحت کی ہے۔ کسی روحانی آدمی نے کبھی انسان کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ بڑے پیر صاحبؒ کے بارے میں کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ترقی روک دی؟ امام جعفر صادقؒ اور ان کے ہزاروں پیروکاروں نے دنیا کی ترقی میں بے شمار خدمات انجام دی ہیں۔ حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ نے ہندوستان میں انقلاب برپا کر دیا۔ وہ کام کر گئے جو بڑے بڑے بادشاہ نہیں کر سکے۔ مجدد الف ثانیؒ نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
سوال: کسی چیز کی طرف توجہ مرکوز کرنے سے جب آدمی بے خیال ہو جاتا ہے تو مادی ترقی کیسے ممکن ہے؟
جواب: دیکھئے! آپ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ وہ کون سی دوا ہے میرے ذہن سے نکل گئی جسے ایک سائنٹسٹ نے خواب میں سانپ کی طرح سے ہلتے ہوئے دیکھا تھا۔ غالباً وہ Benzeneہے۔ سوچتے سوچتے وہ سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ چار سانپ ہیں، وہ ایک دوسرے کو منہ میں پکڑے ہوئے ہیں، دوائی ایجاد ہو گئی۔
سوال: صوفیاء کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ مراقبہ کرنے کے بعد وہ دنیا سے Cut offہو جاتے ہیں، جب کہ اسلام دین و دنیا میں ترقی کا سبق دیتا ہے؟
جواب: آپ یہ بتائیں کون دنیا سے بیزار ہے؟ ہمارے جو نامی گرامی بزرگ ہیں، داتاصاحبؒ ہیں، بابا فریدؒ ہیں، خواجہ نظام الدین اولیاءؒ ہیں، بہاء الدین زکریا ملتانیؒ ہیں، لعل شہباز قلندرؒ ہیں، خواجہ غریب نوازؒ ہیں، قلندر بابا اولیاءؒ ہیں، ان کے بارے میں بتائیں، کون دنیا سے Cut offہوا۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہیں، جیند بغدادیؒ ہیں، حسن بصریؒ ہیں، بازید بسطامیؒ ہیں، امام غزالیؒ ہیں۔ بتایئے کس نے ترکِ دنیا کی؟
میں چھوٹا سا، ٹوٹا پھوٹا روحانی آدمی ہوں۔ عمر کے اس دور میں ہوں جہاں آدمی لاٹھی پکڑ کر چلتا ہے۔ میں لیکچر کے لئے کراچی سے ملتان آتا ہوں، کراچی سے ہر مہینے پیرانہ سالی میں ملتان آنا کیا دنیا سے کٹ جانا ہے۔ میرے بچے بھی ہیں، میرا گھر بھی ہے۔ میں لوگوں کے علاج معالجے کے لئے بھی وقت نکالتا ہوں، کتابیں لکھتا ہوں، روحانی علوم کو پھیلانے کے لئے ملکی اور غیر ملکی دورے کرتا ہوں۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق مجھے بلڈ پریشر ہے، شوگر ہے، کولیسٹرول ہائی رہتا ہے، ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ میرے دل کے دو وال بند ہیں۔ میں تو دنیا سے بیزار نہیں ہوں۔ مرشد کریم قلندر بابا اولیاءؒ نے میری ڈیوٹی لگا دی ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے کام کرنا ہے۔ الحمدللہ! میں اللہ کے بھروسہ پر چل پڑا ہوں۔
عزیز دوستو!
یہ سازش ہے اور کچھ نہیں ہے۔ مراقبہ کرنے والا آدمی اتنا فعال ہو جاتا ہے کہ کام کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ وہ مخلوق کے دکھ درد کا مداوا کرتا ہے۔ ٹوٹے گھروں کو جوڑتا ہے، روتوں کو ہنساتا ہے۔ تبلیغ دین کے سلسلے میں قریہ قریہ، قصبوں، شہروں اور ملکوں کے دورے کرتا ہے۔ ٹانگیں معذور ہو جاتی ہیں تو وہیل چیئر پر بیٹھ کر توحید اور رسالت کی دعوت عام دیتا ہے۔ لوگ گالیاں دیتے ہیں، پتھر پھینکتے ہیں، برے برے القاب سے یاد کرتے ہیں، لیکن وہ حضرت محمدﷺ کی نسبت اور سرپرستی میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا پیغام سناتا رہتا ہے۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔
ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔
عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "