Topics

تیس کروڑ لوح محفوظ

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ رب العالمین ،  وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین.

یہ لیکچر میلاد النبیﷺ کے سلسلے میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھ عاجز بندے کو توفیق عطا فرمائے کہ میں رسول اللہﷺ کی سیرت پر معروضات پیش کر سکوں۔

حاضرین مجلس، محترم اساتذہ کرام، طلبا و طالبات سے درخواست ہے کہ وہ دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ مجھے رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ پر کچھ عرض کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)

اللہ تعالیٰ اپنے تعارف کے لئے فرماتے ہیں کہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے اور اپنے محبوب بندے حضرت محمد رسول اللہﷺ کا تعارف کراتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔۔۔۔۔۔ہم نے اے رسولﷺ آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔الحمدللہ رب العالمین۔۔۔۔۔۔سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو عالمین کا رب ہے۔

غور فرمائیں! سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی صفات ربوبیت ہے۔

اگر اس دنیا کو ہم ایک عالم سمجھ لیں تو عالمین سے مراد یہ ہے کہ دنیا ایک نہیں ہے۔ بے شمار دنیائیں ہیں۔ جیسے ہماری دنیا ہے۔ ان دنیاؤں میں سورج طلوع ہوتا ہے، غروب ہوتا ہے۔ اس طرح بے شمار عالمین ہیں۔ جب ہم ایک دنیا کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس دنیا میں ہمیں زمین کے ساتھ ساتھ، مشرق و مغرب، شمال و جنوب کی سمتوں کا علم بھی حاصل ہوتا ہے۔ معدنیات، نباتات، جمادات اور دوسری مخلوقات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ زمین پر چوپائے ہیں، پرندے ہیں۔ زمین میں درخت ہیں، بے شمار گیسز ہیں۔ زمین پر سمندر ہے، سمندر کی مخلوق ہے۔ 

طلب یہ ہوا کہ عالم سے مراد وہ دنیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات موجود ہیں اور زندگی گزارنے کے لئے مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وسائل فراہم کئے جاتے ہیں۔

مثال:

ہمارے ہاں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ جب وہ دنیا میں آتا ہے تو اس بچے کے لئے زندگی کے تمام وسائل پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ جو بچہ یہاں پیدا ہوتا ہے، وہ محنت مزدوری سے رزق کماتا ہو۔ اس کے لئے پہلے سے ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ماں کے سینے کو دودھ سے بھر دیتا ہے۔ زمین پہلے سے موجود ہے۔ ہوا، آکسیجن  پہلے سےموجود ہے اور ماں کی خورد و نوش کا سارا سامان بھی پہلے سے موجود ہے۔ اگر ماں کے لئے خورد و نوش کا انتظام موجود پہلے سےنہ ہو تو بچے کو دودھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ ماں کی زندگی کا دارومدار جن چیزوں پر ہے اگر وہ چیزیں موجود نہیں ہوں گی تو بچے کو دودھ نہیں ملے گا۔ بچے کی نشوونما نہیں ہو گی۔ بچے کی زندگی میں نشوونماGrowthنہیں ہو گی۔

عالم کا ہم جب تذکرہ کرتے ہیں۔ تو دراصل عالم میں بے شمار چیزیں اور مخلوق کا تذکرہ کرتے ہیں۔

دنیا کیا ہے؟ دنیا زمین ہے۔ زمین میں پانی ہے، ہوا ہے، بادل ہے۔ غذائی ضروریات ہیں، باغات ہیں، لکڑی ہے، سیمنٹ ہے، لوہا ہے یعنی دنیا اسے کہتے ہیں جس میں رہنے والوں کی ضروریات کی چیزیں موجود ہوں۔ اگر یہ سب چیزیں نہیں ہوں گی تو ہم اسے دنیا نہیں کہیں گے۔

اس وقت ہم بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں موجود ہیں۔ یونیورسٹی میں کمرے نہ ہوں، الگ الگ ڈیپارٹمنٹ نہ ہوں، اساتذہ نہ ہوں تو اس کو ہم یونیورسٹی نہیں کہیں گے۔ یونیورسٹی کا مطلب یہ ہے کہ یونیورسٹی میں مختلف شعبے ہوں، مختلف ڈیپارٹمنٹ ہوں، مختلف Facultiesہوں، اساتذہ ہوں، چیئرمین ہو، وی سی ہو۔

اسی طرح گھر ہے، گھر میں کچن نہ ہو، کمرے نہ ہوں، باتھ روم نہ ہو، ڈرائنگ روم نہ ہو، ہوا نہ ہو، بجلی اور روشنی نہ ہو، پنکھے نہ ہوں تو ہم گھر کو گھر نہیں کہیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں چھ ارب انسان بستے ہیں۔ پرندے کتنے ہیں؟ اگر مکھی مچھروں کی تعداد آپ  شمار کریں تو ان کی تعداد کھربوں ہو جائے گی۔ درخت کتنے ہیں، حشرات الارض کتنے ہیں، چوپائے کتنے ہیں؟ پھر اسی Globeکے اندر جنات آباد ہیں، وہ کتنے ہیں؟ اس کا کوئی شمار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:

“اللہ کی باتیں تم شمار کرنے لگو تو تمہارے سارے سمندر روشنائی بن جائیں اور زمین کے اوپر جتنے درخت ہیں وہ سب قلم بن جائیں۔ سمندر کا پانی روشنائی بن کر خشک ہو جائے گا، درخت ختم ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اللہ کی باتیں باقی رہیں گی۔”

۔۔۔۔۔۔الحمد للہ رب العالمین۔۔۔۔۔۔سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کو وسائل فراہم کرتا ہے۔ ربوبیت کا مطلب ہے، کفالت کرنا، وسائل پیدا کرنا، ان وسائل کو مخلوق تک پہنچانا۔ اللہ مخلوق کی کفالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک کائنات بنائی جس میں اربوں، کھربوں دنیائیں ہیں۔ کروڑوں سورج ہیں، کروڑوں چاند ہیں اور ارب در ارب درخت ہیں۔ ہوا ہے، آکسیجن ہے، گیسز ہیں۔ اب باقی رہا تقسیم کا مرحلہ۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔اے محمدﷺ ہم نے تمہیں رحمت للعالمین بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم کائنات میں توازن قائم کر کے رحمت کے ساتھ ان وسائل کو تقسیم کرو۔

میں نے آپ کے سامنے دنیاؤں کا تذکرہ کیا ہے۔ روحانی بزرگ کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔قرآن پاک میں لوح محفوظ کا ذکر ہے، قرآن پاک میں کتاب المبین کا بھی تذکرہ ہے۔ یہ بزرگ کائناتی سسٹم کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ایک کتاب المبین ہے۔ ایک کتاب المبین میں تیس کروڑ لوح محفوظ ہیں۔ آپ کتاب المبین کو ایک کتاب سمجھ لیں تو اس کتاب کے اوراق تیس کروڑ ہیں۔ ہر لوح محفوظ پر اسی ہزار حزیرے ہیں۔ ہر حزیرے میں ایک کھرب آباد نظام اور بارہ کھرب غیر آباد نظام ہیں، ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہے۔ یہ ایک بڑا طویل حساب ہے۔ ہم نے کئی دفعہ کمپیوٹر پر کوشش کی کہ اس کو trillian, billionکسی بھی صورت سے بیان کر سکیں لیکن ہمیں کامیابی نہیں ہوئی۔ بات وہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارے سارے سمندر روشنائی بن جائیں اور تمہارے سارے درخت قلم بن جائیں، اللہ کی باتیں باقی رہیں گی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سب تعریفیں میرے لئے ہیں اور میں عالمین کو پیدا کر کے ان کے لئے وسائل فراہم کرتا ہوں اور ان وسائل کی تقسیم سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے کرائی جاتی ہے۔ یہ بات تو آپ کے سامنے آ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کائنات بنائی اور اس کائنات میں اربوں، کھربوں عالمین ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سارا سسٹم کیوں بنایا ہے اور اس کے پیچھے کیا مقصد ہے؟

آپ کوئی عمارت بناتے ہیں ، اس کے پیچھے مقصد ہوتا ہے کہ اس عمارت میں ہسپتال قائم ہو گا۔ کوئی اور عمارت بناتے ہیں کہ یہاں یونیورسٹی بنے گی۔ کوئی اور عمارت بناتے ہیں یہ ہمارا گھر ہے، ہم یہاں رہائش اختیار کریں گے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایاہے کہ:

“ہم نے انسان کو اور جنات کو اس لئے تخلیق کیا ہے تا کہ یہ ہماری عبادت کریں۔”

(اور عبادت کے ذریعے ہمارا تعارف حاصل کریں) ہمارا عرفان حاصل کریں۔ یعنی کائنات اس لئے بنائی گئی کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کو پہچانے۔

ترجمہ: “میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے مخلوق کو محبت کے ساتھ تخلیق کیا کہ لوگ مجھے پہچانیں، مجھے جانیں۔ میرا تعارف حاصل کریں۔” 

حدیث قدسی)

عزیز طالبات اور طلبا غور کیجئے!

ایک ماں ہے، ماں کو اگر بچہ نہ پہچانے یا باپ کو اس کا بیٹا نہ پہچانے تو ماں باپ کے اوپر کیا گزرے گی؟ اس کو ہم سب بہت اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے تعارف کے لئے یہ ساری کائنات بنائی۔ اس تعارف کے لئے ضروری تھا کہ کوئی قاعدہ ہو، کوئی ضابطہ ہو، جیسے آپ حساب سیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ Mathsنہیں پڑھیں گے، آپ کو حساب نہیں آئے گا۔ Mathsاس وقت پڑھیں گے جب پہلے سے Mathsموجود ہو گا۔ گنتی ہو گی، اکائیاں ہوں گی، ضرب، تقسیم کے فارمولے ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے تعارف کے لئے ایک پروگرام ترتیب دیا، اپنے عرفان کے لئے علم متعین کیا۔ اپنی صفات کا علم۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا۔ یہ آپ سب نے پڑھا بھی ہے، سنا بھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔کہ جب آدم ؑ کو  اللہ تعالیٰ نےبنایا اور کہا کہ زمین میں اپنا نائب اور خلیفہ بنانے والا ہوں اور آدم کی تخلیق ہو گئی تو فرشتوں نے کہا کہ یہ خون خرابہ اور فساد برپا کرے گا۔

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو علم الاسماء سکھایا۔۔۔۔۔۔اس کے بعد فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ ہم نے تجھے جو علم سکھایا ہے وہ فرشتوں کے سامنے بیان کر۔ آدم علیہ السلام نے اللہ کی صفات کا علم فرشتوں کے سامنے بیان کیا تو فرشتوں نے کہا کہ آپ کی ذات برحق ہے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔۔۔۔۔۔علم الاسماء کا یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوا۔ پھر آدم علیہ السلام جنت میں رہے۔ جنت میں سے اس دنیا میں آئے اور اس دنیا میں آنے کے بعد آدم علیہ السلام کی نسل چلی، اس نسل میں پیغمبروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت اسحٰق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ یہ اس علم کا تسلسل ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا تھا اور اس علم میں بنیادی بات یہ ہے کہ:

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صفات کا علم سکھا کر فرشتوں سے کہا کہ تم سجدہ کرو۔ (سجدہ سے مراد یہ نہیں کہ آدم علیہ السلام کو تم اپنا رب تسلیم کرلو یا خدا تسلیم کر لو) اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی حاکمیت کو تسلیم کر لو۔ فرشتوں نے سجدہ کیا، شیطان نے سجدہ نہیں کیا اور شیطان مردود قرار پایا۔

کائناتی نظام اور علم الاسماء کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ میرے علاوہ دوسرا کوئی رب نہ ہو، معبود نہ ہو۔ واحد ذات اللہ کی ہے جو پرستش اور عبادت کے لائق ہے۔ ہر پیغمبر نے توحید کا پرچار کیا ہے۔ شرک سے منع کیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آپ نے پڑھا ہے جب انہیں اللہ کی تلاش ہوئی اور انہوں نے دیکھا کہ لوگ جن بتوں کو پوجتے ہیں۔ ان کے اوپر مکھیاں بیٹھی رہتیں اور وہ مکھیوں کو اڑا نہیں سکتے تھے۔ کتے آ کر پیشاب کر دیتے تو وہ اسے منع نہیں کر سکتے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا یہ معبود نہیں ہو سکتے۔ یہ کیسے اللہ ہو سکتے ہیں؟ جن کے اپنے اندر نہ کوئی حرکت ہے، نہ کوئی اختیار ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں کو دیکھا۔ انہوں نے سوچا یہی اللہ ہے۔ چاند کو دیکھا تو انہوں نے کہا یہ اللہ ہے۔ پھر سورج کو دیکھا کہ یہ اللہ ہے۔ آخر میں جب سورج بھی غروب ہو گیا۔ انہوں نے کہا “چھپنے والا، گھٹنے والا اللہ نہیں ہو سکتا” اور اس طرح انہوں نے اللہ کی شناخت کی۔ اللہ کو پہچان کر، اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا اور شرک سے بیزاری کا اظہار کیا۔

یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم ہے۔ یہی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی تعلیم ہے اور یہی حضرت اسحٰق علیہ السلام کی تعلیم ہے اور یہی آخری نبی رسول اللہﷺ کی تعلیمات ہیں کہ عبادت اور پرستش ک لائق اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اور ہر پیغمبر نے اسی بات کا اعادہ کیا ہے کہ ہم شرک سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔ اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ وہی پیدا کرتا ہے، وہی زندہ رکھتا ہے۔ وہی وسائل فراہم کرتا ہے۔ وہی موت دیتا ہے۔ جب تک اس کا دل چاہے دنیا میں رکھتا ہے اور جب اس کا دل چاہتا ہے وہ دنیا سے بلا لیتا ہے۔

رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو جو بات ہمیں نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی پوری زندگی اور رسول اللہﷺ کی زندگی کا ہر کردار اس بات کی شہادت فراہم کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ ہمیشہ اللہ کی معرفت سوچتے تھے۔ ہر چیز کا رخ اللہ کی طرف موڑ دیتے تھے اور یہی بات رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو بتائی۔ یہی بات صحابہ کرامؓ نے کر کے دکھائی اور یہی بات آج بھی اولیاء اللہ اور اللہ دوست لوگوں میں موجود ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ راسخ فی العلم ہوتے ہیں یا علم حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے علم میں مستحکم ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ یہاں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کی طرف سے نہ ہو۔ عالم ارواح سے آنا، جینا، مرنا، ہوا کا چلنا، سمندر میں لہریں اٹھنا، چشمے ابلنا، بارش برسنا، دن نکلنا، رات کا ہونا، دن میں سے رات نکلنا اور رات میں سے دن نکلنا۔ 

دن پر سے رات کو ادھیڑ لینا اور رات پر سے دن کو ادھیڑ لینا، بادشاہت عطا کرنا، بادشاہی لے کر فقیر کر دینا، موسموں کو تبدیل کرنا، ماں کے پیٹ میں طرح طرح کی تصویریں بنانا جوکچھ بھی ہے من جانب اللہ ہے۔یہ سارا کام اللہ کے نظام کے تحت ہو رہا ہے۔

رسول اللہﷺ نے جو کچھ بھی فرمایا ہے وہ تمام پیغمبران علیہم الصلوٰۃ والسلام کے علم اور اس کے پیچھے واحد مقصد کا تسلسل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ صرف اور صرف اللہ کی ذات پرستش اور عبادت کے لائق ہے۔ جب انسان اس بات سے واقف ہو جاتا ہے تو اس کی زندگی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ اگر انسان اللہ کی وحدانیت اور اللہ کی ربوبیت اور اللہ کی خالقیت کا پوری طرح ادراک نہیں کرتا تو اس کی زندگی کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔وہ اس دنیا میں بھی گھاٹے میں رہے گا اور آخرت میں بھی گھاٹے میں رہے گا۔

رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ جب ہم پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا اخلاق کیسا تھا۔ حضور پاکﷺ  کی معاشی اور معاشرتی زندگی کیسی تھی۔حضور پاکﷺ   کا رہن سہن کیسا تھا۔حضور پاکﷺ کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ، اپنی ازدواج مطہرات کے ساتھ، اپنے رشتے داروں کے ساتھ کیسا سلوک تھا؟ اس کے ساتھ سیرت طیبہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسان کے اندر سے شرک ختم ہو جائے۔ اگر سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان کے اندر شرک کا شائبہ بھی ہے تو رسول اللہﷺ کی سیرت میں حکمت اور دانائی اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ کے جو انوار و تجلیات ہیں ان سے وہ محروم رہے گا۔ اخلاق و آداب کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر عملاً شرک سے بیزاری ہونی چاہئے۔ ہمیں شریعت و طریقت پر صدق دل سے عمل کرنا چاہئے۔

میلاد النبیﷺ بڑی سعادت ہے۔ بہت بڑی نیکی ہے کیونکہ حضرت محمد رسول اللہﷺ کی شان اقدس میں نعتیں پیش کی جاتی ہیں۔ ذکر نبی ہوتا ہے اخلاق حسنہ پر تقاریر ہوتی ہیں۔ تزکیۂ نفس کی باتیں ہوتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے، خود محسوس کیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ماحول میں نور کی بارش ہوتی ہے۔ فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ حاضرین وجدانی کیفیت میں سرشار ہو جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی یہ نورانی پروگرام ختم ہوتا ہے ہم پنڈال یا مجلس سے باہر آتے ہیں۔ وہی ہمارے شب و روز ہوتے ہیں۔ ہم وہ سب کام شروع کر دیتے ہیں جن سے ہمارے آقاﷺ نے منع فرمایا ہے۔

ہم رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کے سلسلے میں ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ سب نے درود شریف پڑھا۔ درود شریف کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ درود شریف ایک ایسی فضیلت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ اور اس کے فرشتے درود پڑھتے ہیں۔ اللہ اور اللہ کے فرشتے، رسول اللہﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی درود بھیجو۔

ہر مسلمان جانتا ہے کہ جب رسول اللہﷺ پر کوئی آدمی درود پڑھتا ہے تو حضور پاکﷺ کو درود پہنچتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے۔ ہم ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ ہم رسول اللہﷺ کی زیارت سے مشرف ہوں لیکن رسول اللہﷺ تو ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہمیں اس بات کا یقین حاصل ہو جائے کہ ہم نے درود شریف پڑھا ہے۔ رسول اللہﷺ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ اس یقین کے بعد بتایئے کیا ہمارے اندر ایمان پختہ نہیں ہو جائے گا؟ ضرور ہو جائے گا۔

ہم کہتے ہیں اللہ دیکھ رہا ہے۔ اللہ حاضر و ناظر ہے۔ کوئی بھی آدمی جب گناہ کرتا ہے تو وہ اس بات کا اطمینان کر لیتاہے کہ “مجھے کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟”۔ ایک آدمی چوری کرتا ہے۔ اس بات کا اطمینان کر لیتا ہے کہ “مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے۔” جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا تب وہ چوری کرتا ہے۔ اگر ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ اللہ دیکھ رہاہے تو ہم چوری کیسے کر سکتے ہیں، برائی کس طرح سرزد ہو سکتی ہے؟

اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ صرف زبانی بیان ہے۔ اقرار باللسان ہے۔ تصدیق بالقلب نہیں ہے۔ اگر تصدیق بالقلب ہو جائے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم ہر اس بات سے خود بخود رک جائیں گے جو اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔

رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کا اگر ہم مطالعہ صدق دل سے کریں تو منکشف ہو گا کہ رسول پاکﷺ اللہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آپﷺ کی ہر سوچ اللہ کی معرفت ہے۔ اللہ کی معرفت ہی آپﷺ سوچتے ہیں، اللہ کی معرفت ہی آپﷺ پیغام پہنچاتے ہیں، اللہ کی معرفت ہی آپﷺ نے دین اسلام پھیلایا۔

سوال - قرآن کریم اور احادیث پڑھ کر ہمارے اندر تبدیلی کیوں نہیں آتی؟

میں سمجھتا ہوں تبدیلی اس لئے نہیں آتی کہ ہمارے اندر یقین کرنے کی جو ایجنسی ہے۔ ہم نے اس کو بیدار کرنے کے لئے جدوجہد نہیں کی۔ 

يونیورسٹی میں آپ لوگ تشریف لاتے ہیں۔ اگر آپ کلاس میں نہ آئیں، لیکچر نہ سنیں، اس کے نوٹس نہ لیں۔ گھر جا کر ہوم ورک نہ کریں تو آپ امتحان میں پاس نہیں ہوں گے۔ دین کی باتیں ہم اس طرح سنتے ہیں جس طرح کہانیاں سنتے ہیں۔۔۔۔۔۔آپ میرے بچے ہیں۔۔۔۔۔۔آپ سے درخواست ہے کہ سیرت طیبہﷺ اس طرح پڑھیں کہ آپ کے ذہن میں رسول اللہﷺ کے اخلاق حسنہ اور اللہ کے رابطہ کا نقش بن جائے۔

اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کا بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی کے بارے میں سوچے کہ وہ کس طرح پیدا ہوا؟ کس طرح بڑا ہوا؟ کس طرح جوان ہوا؟ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو عقل و شعور دیا؟ آنکھیں دیں، آنکھ نہ ہو، اللہ تعالیٰ دماغ نہ دے تو انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ Handy Capبچے بھی تو ہوتے ہیں۔ آپ سوچیں آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے سارا انتظام کیا ہوا ہے۔ غذا کا، ہوا کا، پانی کا، تو جب آپ اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں گے تو لازماً یہ یقین آپ کے اندر پیدا ہو جائے گا کہ جو کچھ ہے دروبست ہے سب کا سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

۔۔۔۔۔۔اے پیغمبرﷺ کہہ دیجئے میری نماز، میری قربانی، میرا مرنا، میرا جینا سب اللہ کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس میں رسول اللہﷺ کی زندگی کے جو اعمال وظائف ہیں ان میں تفکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جب تک ہم تفکر نہیں کریں گے، میلاد النبیﷺ کی محفلیں ہوتی رہیں گی، سیرت طیبہﷺ پر کلاسیں بھی ہوتی رہیں گی لیکن ہمیں علم الاسماء حاصل نہیں ہو گا۔

سوال: رسول اللہﷺ کی سیرت میں اگر ہم غور کریں تو ہم میں تبدیلی آئے گی تو وہ تبدیلی کیسی ہو گی؟ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں دیکھ رہا ہے پھر بھی ہمارے اندر تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔

جواب: تبدیلی اس لئے نہیں ہوتی کہ ہمیں صرف اطلاع ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اطلاع یقین میں تبدیل نہیں ہوئی اگر اطلاع یقینی درجہ حاصل کر لے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے تو ضرور تبدیلی واقع ہو گی۔ رسول اللہﷺ کی سیرت کے حوالے سے جب آپ غور کریں گے کہ رسول اللہﷺ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لاتے تھے۔ رسول اللہﷺ کی یہ بھی سیرت طیبہ ہے کہ ان پر قرآن نازل ہوتا تھا۔ جب ہم قرآن میں تفکر کریں گے تو قرآن کے مفہوم اور حکمت سے واقف ہو جائیں گے۔ رسول اللہﷺ نے اللہ کو دیکھا، بہت قریب سے دیکھا ہم بھی اللہ کو دیکھنے کا یقین حاصل کر سکتے ہیں۔ جب تک یقین کا پیٹرن ہمارے اندر نہیں بنے گا ہم حکمت و دانائی سے محروم رہیں گے اور یقین کے پیٹرن کے لئے ضروری ہے کہ ہم کسی چیز کے اوپر تفکر کریں، غور و فکر کریں۔ غور و فکر سے خود بخود انسان کے اندر یقین مستحکم ہو جاتا ہے۔

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

*****



Khutbat Multan

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔ 

ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی  کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔

عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "