Topics
سوال: کیا خواتین روحانی علوم سیکھ سکتی ہیں؟ کیا مرد اور عورتوں میں روح الگ الگ ہوتی ہے؟
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات والقانتین والقانتات والصادقین والصادقات والصابرین والصابرات والخاشعین و الخاشعات والمتصدقین والمتصدقات والصائمین والصائمات والحافظین فروجھم والحافظات اعد اللہ لھم مغفرۃ واجرعظیما
قاری صاحب نے قرآن پاک کی جو آیتیں تلاوت کی ہیں ان میں مرد حضرات اور خواتین کے اعمال و کردار کا محاسبہ اور اعمال کی جزا و سزا کا مفصل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“پس تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں”
اب غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلم اور مومن کو الگ الگ کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے مومن الگCategoryہے اور مسلم الگCategoryہے۔ اسلام الگCategoryہے اور ایمان الگ Categoryہے۔
“پس تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد مومن عورتیں، قناعت کرنے والے مرد اور قناعت کرنے والی عورتیں، سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں، اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ تعالیٰ کے پاس ان لوگوں کا اجر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں گے اور ان کو اجر عظیم عطا کریں گے۔”
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“یہ کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں لیکن ابھی ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔”
جب ہم اس آیت مبارکہ پر غور کرتے ہیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو مرد مسلمان ہوئے وہ بھی اللہ کے یہاں معزز ہیں اور جو عورتیں اسلام لائیں وہ بھی اللہ کے یہاں معزز ہیں۔ لیکن جو مرد و عورتیں ایمان اور یقین کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان کے لئے اللہ کے یہاں خصوصیت اور اجر عظیم ہے۔ ایمان کا ترجمہ یقین ہے۔ یقین اس وقت مستحکم ہوتا ہے جب مشاہدہ ہوتا ہے۔ جب تک ہم دیکھ نہیں لیتے، اس وقت تک ہمارے اندر یقین کی تکمیل نہیں ہوتی۔
غور کیجئے! عدلات میں ایک مرد یا عورت گواہ کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ عدالت حلف لیتی ہے۔ جو کہو گے اللہ رسول کو حاضر و ناظر جان کر سچ کہو گے۔ عدالت قرآن اٹھواتی ہے۔ ایک آدمی گواہ کی حیثیت سے پیش ہوا کہ فلاں بندے نے چوری کی ہے۔ عدالت اس سے پوچھتی ہے کہ تم نے چوری کرتے دیکھا ہے؟ تو گواہ کہتا ہے کہ میں نے چوری کرتے نہیں دیکھا، میں نے سنا ہے۔ عدالت اس کی گواہی تسلیم نہیں کرے گی اور عدالت کہے گی کہ اس آدمی کو پیش کیا جائے جس نے چوری کرتے دیکھا ہے۔
ایمان کا مطب ہے یقین حاصل کرنے والے مرد اور یقین حاصل کرنے والی عورتیں۔ مشاہدہ کرنے والے مرد اور مشاہدہ کرنے والی عورتیں۔ دیکھنے والے مرد اور دیکھنے والی عورتیں۔ دیکھنے سے مراد۔۔۔۔۔۔ایک دیکھنا ظاہری دیکھنا ہے اور ایک دیکھنا غیب کی دنیا میں دیکھنا ہے۔ مومن کی شان یہ ہے کہ اس کے اندر یقین کا پیٹرن بن جاتا ہے اور اس یقین کی بنیاد پر وہ اپنی زندگی کے اصول و ضوابط مرتب کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کے درجے متعین کئے ہیں۔ مرد نماز قائم کرتا ہے اور عورت بھی نماز قائم کرتی ہے، اس کو جتنا ثواب ملے گا عورت کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا۔ مرد حج کرتا ہے، عورت بھی حج کرتی ہے، اس کو جتنا ثواب ملے گا عورت کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا۔ قرآن پاک میں جہاں مردوں کی فضیلت کا تذکرہ ہے کہ مردوں کو عورتوں کے اورفضیلت ہے۔ مرد حکم ہیں عورتوں پر۔
“رجال” کہتے ہیں مردوں کو ’قوامون‘ معنی فضیلت ’علی النساء‘ عورتوں کے اوپر۔ مردوں کو عورتوں کے اورفضیلت ہے۔ اب کیسی فضیلت ہے؟ سب کو نہیں ہے، بعض مردوں کو بعض عورتوں پر فضیلت ہے۔ سب کو فضیلت نہیں ہے بعضوں کو بعض پر فضیلت ہے۔
مردوں کو عورتوں کے اوراس لئے فضیلت ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں، محنت مزدوری کرتے ہیں، بچوں کی پرورش کا انتظام کرتے ہیں۔ جب عورتیں بھی معاش میں شریک ہو جائیں اور ملازمت اختیار کر لیں تو فضیلت کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا پڑے گا۔ مرد کو اس لئے فضیلت حاصل ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ مگر اب مرد بھی ملازمت کرتا ہے اور عورت بھی۔ بیوی کی تنخواہ ہے 12ہزار روپے، میاں کی تنخواہ ہے 5ہزار روپے تو دونوں گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اب کیا صورت حال ہو گی؟ اس سلسلے میں ہمیں علماء کرام سے رجوع کرنا چاہئے۔
صحابہ کرامؓ کی زندگی اور صحابیاتؓ کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جس طرح صحابہ کرامؓ جہاد میں شریک ہوئے، اسی طرح ہماری ماؤں نے بھی شرکت کی۔ نرسنگ کا کام کیا، مرہم پٹی کی، لاشیں اٹھانے کا کام کیا۔
حضرت بی بی خدیجہؓ کاروبار کرتی تھیں۔ حضور پاکﷺ کے زمانے میں بہت ساری خواتین تھیں جو کاروبار کرتی تھیں۔ بہت ساری خواتین تھیں جو ملازمت کرتی تھیں۔ جہاں تک عورت اور مرد کے حقوق کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ نے عورتوں اور مردوں کی Dutiesالگ الگ کی ہیں۔ مثلاً عورت کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ ماں بن جاتی ہے، مرد کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ باپ بن جاتا ہے۔ لیکن جب ہم عورت اور مرد دونوں کا موازنہ کرتے ہیں تو عورتوں کی ڈیوٹی، مردوں کی ڈیوٹی سے بالکل مختلف ہے اور مرد حضرات کی ڈیوٹی عورتوں کی ڈیوٹی سے بالکل مختلف ہے۔ Dutiesالگ الگ ہونے سے عورت اور مرد کے درجے میں فرق واقع نہیں ہوتا۔
تعلیم حاصل کر کے عورتیں مفتی بن سکتی ہیں، شیخ الحدیث بن سکتی ہیں۔ عورت فتویٰ دے سکتی ہے۔ حضرت ام ورقہ کو حضور پاکﷺ نے اپنے گھر میں امامت کرانے کی اجازت دی تھی اور ان کا موذن مرد تھا۔ ان کی امامت کا سلسلہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے تک قائم رہا۔
لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں پر وحی نازل نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ کون سی وحی نازل نہیں ہوتی۔ وحی تو شہد کی مکھی پر بھی نازل ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی پر وحی کی۔ اللہ نے فرشتے کے ذریعے حضرت مریم پر وحی کی۔ عورتیں فرشتے دیکھ لیتی ہیں۔
عورتوں نے جنت کی سیر کی ہے۔ تاریخ پڑھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ جتنے اولیاء اللہ کے تذکرے ہیں تقریباً اس میں تمام مرد حضرات کے نام ہیں۔ عورتیں کیا ولی اللہ نہیں ہوتیں؟ بہرحال میں نے ریسرچ کی، پتہ نہیں کہاں کہاں سے کتابیں منگوائیں۔ اس میں ہم نے غیر مذاہب عورتوں کی بھی تاریخ پڑھی، خواتین اسلام کی تاریخ پڑھی۔ تلاش کے بعد ہمیں 101اولیاء اللہ خواتین مل گئیں۔ میں نے کتاب 101اولیاء اللہ خواتین میں اس تاریخ کو ضم کر دیا۔
مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق ہیں۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ اگر بیویوں کے اوپر مردوں کے حقوق ہیں تو شوہر کے اوپر بیوی کے حقوق ہیں۔ اگر شوہر بیوی سے خدمت لیتے ہیں تو بیویاں بھی مردوں سے خدمت لے سکتی ہیں۔ الٰہی نظام کے تحت عورت اور مرد دونوں کو اللہ تعالیٰ نے صلاحیتیں عطا کی ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ مرد اپنی صلاحیتوں سے واقف ہو کر زندگی میں استفادہ کریں اور عورتیں اپنی صلاحیتوں سے واقف ہو کر استفادہ حاصل کریں۔ اگر ماں ولی اللہ ہے، باپ بھی ولی ہے، دونوں کے بچوں کی تربیت اچھی ہو گی۔ اگر ماں اور باپ دونوں اللہ سے کوئی رشتہ ناطہ نہیں رکھتے تو اولاد کی تربیت اچھی نہیں ہو گی۔ اگر ماں باپ روحانی صلاحیتوں کو استعمال کریں، روحانیت سیکھیں جس طرح دنیا کا علم حاصل کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں تو معاشرہ روحانی بن جائے گا۔ دنیا میں سے حسد اور خود غرضی ختم ہو جائے گی۔ ہم سب زمین کے باسی ایک دوسرے کے دوست بن جائیں گے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام کا بول بالا ہو گا۔
ہمارے دانشور اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں کہ خواتین کو کتنے حقوق دینے چاہئیں۔ پاکستان بننے سے پہلے یہ بات عام تھی کہ لڑکیوں کو تعلیم نہ دی جائے۔ یہ بات بڑی عجیب لگتی تھی کہ لڑکیوں کو اس لئے نہ پڑھایا جائے کہ اگر وہ پڑھ لکھ گئیں تو عشقیہ خط لکھیں گی۔ کیا مرد عشقیہ خط نہیں لکھ سکتا؟
حضورﷺ نے فرمایا:
“علم سیکھنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے۔”
جب علم کے بارے میں ہم سوچ بچار کرتے ہیں تو رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد ہمارے لئے مشعل راہ ہے کہ اگر تمہیں علم چین میں ملے تو چین جاؤ۔ مقصد یہ ہے کہ علوم جہاں ملیں جس خطے میں بھی ہوں، آپ وہ سیکھیں۔ اس زمانے میں چین متمدن ملک تھا۔ چین میں کپڑوں کے کارخانے تھے۔ روشنائی ایجاد ہو گئی تھی، کاغذ کی صنعت تھی، پریس ایجاد ہو گیا تھا۔ اطلس و کمخواب چین سے آتے تھے۔
علم کے سلسلے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ علم صرف مرد ہی سیکھے گا اور عورت نہیں سیکھ سکتی۔ جہاں تک صلاحیت کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے جب عورت اور مرد دونوں کو تخلیق کیا تو دونوں کو اللہ نے صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ اس دور میں چین میں پچیس25فیصد عورتیں پائلٹ ہیں۔
اب حکمرانی کی طرف نظر اٹھتی ہے کئی ملکوں کی سربراہ خواتین ہیں۔ وزیراعظم ہیں، صدر ہیں، اسٹیٹ بینک کی گورنر ہیں، امریکہ میں خواتین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ جب ہم میڈیکل سائنس کی طرف آتے ہیں تو عورتیں ہر قسم کی ڈاکٹر ہیں، Surgeonہیں، آپریشن کرتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں پروفیسر، وائس چانسلر، ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن، ڈین خواتین ہیں۔ اسی صورت سے خواتین کاروبار میں، بینکنگ میں بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں خواتین وزیراعظم ہوئی ہیں۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس شعبے میں خواتین نہیں ہیں۔
میں نے جہاں تک تفکر کیا ہے، مجھے تو کوئی شعبہ ایسا نظر نہیں آتا کہ جس کے بارے میں کہا جائے کہ عورت اس میں کام نہیں کر سکتی۔ دو آنکھیں عورت کی ہیں، دو آنکھیں مرد کی ہیں۔ فی زمانہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عورت نازک اندام ہے، کمزور ہے۔ آج کی نشست میں ماشاء اللہ عورتوں کی نمائندگی مردوں سے زیادہ ہے۔ تعلیمی میدان کا یہ حال ہے کہ لڑکے زیادہ فیل ہوتے ہیں، لڑکیاں زیادہ پاس ہوتی ہیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں ایم اے کے ساٹھ اسٹوڈنٹس ہیں جن میں سے چالیس خواتین ہیں اور بیس مرد ہیں۔
ہم برملا اعلان کر سکتے ہیں اپنے بچوں، بیٹوں اور بڑوں سے معذرت کے ساتھ کہ جس طرح مرد معاشرہ پانچ ہزار سال سے قائم ہے اب یہ معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے۔ میں نے اپنا مشن بتای ہے کہ اپنی بہو بیٹیوں کو میں اس بات سے آگاہ کروں کہ زمانہ تبدیل ہو رہا ہے۔ ساری دنیا میں خواتین برسراقتدار آ جائیں گی۔ لہٰذا ان کے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کے علم کو سیکھیں۔ اگر انہوں نے رسول اللہﷺ کے علم کو نہ سیکھا اور خواتین نے انبیاء کی تعلیمات کو نہیں اپنایا تو جس طرح یہ معاشرہ مرد حضرات کی وجہ سے خراب ہوا، فساد برپا ہوا۔۔۔۔۔۔خواتین کے دور حکومت میں بھی فساد برپا ہو جائے گا اور انسان کو چین و سکون نہیں ملے گا۔
لوگ کہتے ہیں بڑی ترقی ہوئی ہے۔ ایٹم بم بن گئے ہیں۔ ایک ایٹم بم سے تین لاکھ آدمی مر جائیں گے۔ ہائیڈروجن، نیپام بم وغیرہ وغیرہ بن گئے ہیں۔ ایسے بم بنا لئے گئے ہیں کہ ہوا میں Burstہونگے اور فضا میں سے آکسیجن ختم ہو جائے گی۔ بے شمار مخلوق مر جائے گی۔ اس ترقی کو آپ فساد کے علاوہ کوئی نام نہیں دے سکتے۔ لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ علمی ترقی نہیں ہوئی ہے۔
علمی ترقی ضرور ہوئی ہے۔ اتنی زیادہ ترقی ہوئی ہے کہ سویا ہوا شعور بیدار ہو گیا ہے۔ لیکن اس ترقی کی چکاچوند میں انسان بے حال ہو گیا ہے۔ طرح طرح کی بیماریوں نے اسے جکڑ لیا ہے، بے زاری اور پریشانی مسلط ہو گئی ہے، بیمار لوگوں سے ہسپتال بھر گئے ہیں، غربت کے عفریت نے ایک مخصوص طبقے کے علاوہ عوام کو جکڑ لیا ہے۔
اگر ہم جان لیوا پریشانیوں اور بے سکونی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ روحانی علوم بھی سیکھنے ہونگے۔ قرآن پاک کے علوم کے مقابلے میں ہمیں جو علوم حاصل ہیں وہ اتنے محدود ہیں جو ناقابل ذکر ہیں۔ الٰہی علوم کے مقابلے میں ان کی حیثیت شاید صفر ملتی جلتی ہے۔ اگر ہم سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم دنیا میں خوفناک تصادم سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ بجز علوم روحانی کے کچھ نہیں ہے اور روحانی علوم حاصل کرنے کے لئے ہمیں قرآن پاک سے رجوع کرنا پڑے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“کہ ہم نے قرآن پاک میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کی وضاحت کر دی ہے۔”
ہر مذہب میں، ہر کتاب میں، بائبل میں، تورات میں، بھگوت گیتا میں اشارات ملتے ہیں، آخری کتاب قرآن حکیم میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
اس دنیا کا وجود اس طرح شروع ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جمع کیا اور فرشتوں سے کہا “میں اس زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔”
دیکھئے! بہت غور طلب بات ہے، ماشاء اللہ آپ سب علمی ذہن رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم کی تخلیق سے پہلے زمین موجود تھی۔ یہ بات میں اس لئے عرض کر رہا ہوں تا کہ آپ کو سوالات کرنے میں آسانی ہو۔ فرشتوں نے کہا۔ آدم زمین میں فساد برپا کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو علوم سکھائے اور آدم سے فرمایا کہ ہم نے تجھے جو علوم سکھائے ہیں فرشتوں کے سامنے بیان کر۔ جب آدم نے علوم بیان کئے تو فرشتوں نے کہا کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔
آدم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو۔اور جنت میں جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو، جنت کا پورا رقبہ تمہارے لئے تصرف میں ہے۔ اگر تم اس درخت کے قریب چلے گئے تو تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔”
آپ کا بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے قابل احترام اساتذہ اور طلبا و طالبات کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ روحانی لیکچر سنا اور مجھے عزت بخشی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین یا رب العالمین)
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
انشاء اللہ اگلی نشست سوال و جوابات کی ہو گی۔ طلبا و طالبات سے درخواست ہے کہ وہ اجتماعی نوعیت کے سوالات لکھ کر لائیں۔
آج انشاء اللہ سوال و جواب کی نشست ہو گی۔ محترم پروفیسر نور الدین جامی صاحب، اساتذہ کرام بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور عزیز طلبا و طالبات!
السلام علیکم
آپ سوال کیجئے میں اپنی محدود معلومات کے مطابق انشاء اللہ جواب پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
سوال: اگر مرد اور عورت دونوں کی صلاحیتیں برابر برابر ہیں تو عورت کو وہ درجہ کیوں نہیں دیا گیا جو مرد کا ہے؟
جواب: بھئی سیدھی سی بات ہے، معاشرے پر مرد کا قبضہ ہے۔ جب معاشرے پر عورت کا قبضہ ہو گا تو عورت مرد کو درجہ نہیں دے گی۔
سوال: آپ نے ایمان اور اسلام کو الگ الگ کیوں بیان کیا ہے؟
جواب: ایمان اور اسلام کو میں نے الگ الگ بیان نہیں کیا، قرآن بیان کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے “یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن ابھی ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔” اسلام یہ ہے کہ آپ اللہ کو وحدہ لاشریک مانیں اور رسول پاکﷺ کو آخری رسول اور نبی تسلیم کریں اور کہیں ۔۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔۔۔۔۔۔اب آپ مسلمان ہو گئے۔ لیکن یہ اقرار باللسان ہے۔ ہم نے زبان سے اقرار کیا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے، اس کے علاوہ کوئی پرستش کے لائق نہیں ہے اور محمدﷺ اللہ کے نمائندے Messengerاور رسول ہیں۔
ہر مسلمان کو نماز قائم کرنی ہے، روزہ رکھنا ہے، استطاعت ہو تو حج کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک آدمی ساری زندگی نماز پڑھتا ہے اور اس کا تعلق اللہ سے قائم نہیں ہوتا۔
نماز کا حق پورا نہیں ہوا بلکہ اس کی سورہ الماعون میں وعید ہے۔ “پس خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں۔”
ایک آدمی اکاؤنٹنٹ ہے۔ وہ صبح سے شام تک حساب کی میز پر بیٹھا رہتا ہے اگر اس کا ذہن اِدھر اُدھر بھٹکتا رہے تو حساب صحیح نہیں ہو گا۔ آپ ہمیں بتایئے ایسا آدمی جو منتشر ذہن ہو اس کو کمپنی کتنے دن ملازم رکھے گی؟۔۔۔۔۔۔وہ حساب کر رہا ہے، اس کو خیالات آتے ہیں تو دو اور دو چار، چار اور چار نو، نو اور بارہ بیس۔ ٹھیک میزان نہیں لگائے گا اس لئے کہ ذہن منتشر ہے۔ آپ یہ بتائیں ادارہ اسے کتنے دن ملازم رکھے گا؟
ہم نماز کیوں پڑھتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔
ہم نماز اس لئے پڑھتے ہیں کہ ہمارا اللہ سے تعلق قائم ہو جائے۔ وضو کا اہتمام کرتے ہیں تا کہ ہمارے اندر پاکیزگی پیدا ہو۔ مصلیٰ بچھاتے ہیں اور کہتے ہیں ’اللہ اکبر‘ اس کا مطلب ہوا کہ اب ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اللہ سے بڑا کوئی نہیں ہے ’اللہ اکبر‘ اللہ سے بڑا کوئی نہیں ہے۔ فوراً ہی بیوی یا شوہر کا خیال آجاتا ہے۔ آپ یہ بتائیں نعوذ باللہ! بیوی بڑی ہے، شوہر بڑا ہے یا اللہ بڑا ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں ’اللہ اکبر‘ اب اللہ کے علاوہ کوئی بڑا نہیں ہے۔ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں، اللہ کے سامنے جھک رہا ہوں، اللہ کے سامنے سجدہ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔میں نے عشاء کی سترہ رکعتیں پڑھی اور ایک دفعہ بھی میرا ذہن اللہ کی طرف نہیں گیا۔
اسلام اور ایمان کی Definitionیہ ہے ’اقرار باللسان‘ اسلام ہے اور ’تصدیق بالقلب‘ ایمان ہے۔
سوال: بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ خواتین ناقص العقل ہوتی ہیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے اگر یہ سچ ہے تو اس کے پیچھے کیا Logicہے؟
جواب: پیارے دوستو! کیا سارے ہی مرد ذہین ہوتے ہیں، کم عقل نہیں ہوتے۔ کیا پاگل خانوں میں ساری عورتیں ہی ہوتی ہیں، مرد نہیں ہوتے؟ دیکھئے مرد بھی ذہین اور ہوشیار ہوتے ہیں، عورتیں بھی ذہین اور ہوشیار ہوتی ہیں۔ ایسے مرد بھی ہیں جو عورتوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور ایسی عورتیں بھی ہیں جو مردوں کو بیوقوف بناتی ہیں۔
ایک خاتون نے اپنا قصہ سنایا۔ اس کے شوہر یکایک مذہبی ہو گئے داڑھی رکھ لی اور پانچ وقت کے نمازی بن گئے۔ بیوی بہت خوش ہوئی کہ شوہر متقی اور نمازی ہو گئے۔ کچھ دن کے بعد مسجد میں جا کر تہجد کی نفلیں ادا کرنے لگے۔ بیوی نے خاوند کی اور زیادہ خدمت شروع کر دی۔ کئی سال تک یہ معاملہ چلتا رہا۔ ایک روز انکشاف ہوا کہ خاوند صاحب نے دوسری شادی کی ہوئی ہے۔ وہ مسجد میں تہجد ادا کرنے نہیں جاتے بلکہ دوسری بیوی کے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔
کیا عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں؟ یہ بات مرد حضرات کہتے ہیں۔
میں نے روحانی ڈائجسٹ میں ایک مضمون لکھا تھا۔
ایک صاحب کی شیر سے ملاقات ہو گئی، شیر انسان کی زبان سمجھتا تھا۔ ان دونوں کی آپس میں بحث ہو گئی۔
شیر نے کہا کہ میں زیادہ طاقت ور ہوں۔ انسان نے کہا میں زیادہ طاقت ور ہوں۔ دونوں نے بڑی دلیلیں دیں۔ شیر نے کہا میں تیز بھاگ سکتا ہوں انسان اتنا تیز نہیں بھاگ سکتا۔ میرے ہاتھ کی گرفت ایسی ہے کہ میں ایک دفعہ اگر بیل کی گردن پکڑ لوں تو وہ خود کو چھڑا نہیں سکتا، ہرن کی کمر پکڑ لوں تو وہ بھاگ نہیں سکتا۔ انسان اور شیر دونوں میں خوب بحث ہوئی۔ انسان نے ایسی دلیل پیش کی کہ شیر گھبرا گیا، اس کے پاس کوئی جواب نہیں رہا۔
شیر بولا! بھائی انسان تیری بات اونچی ہوتی ہے۔
یہ بتا کہ تیرے پاس ثبوت کیا ہے کہ انسان شیر سے زیادہ طاقتور ہے۔ انسان نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک تصویر نکالی۔ تصویر یہ تھی کہ شیر کے اوپر آدمی بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے کہا یہ دیکھو۔ شیر بڑا پریشان ہوا۔ اس نے سوچا بڑا پکا ثبوت ہے، شیر بکری کی طرح سر جھکائے کھڑا ہے اور آدمی اس پر بیٹھا ہوا ہے۔ شیر سوچتا رہا، سوچتا رہا، بالآخر شیر نے پوچھا بھائی آدمی یہ بتا کہ یہ تصویر کس نے بنائی ہے؟
انسان نے بنائی ہے۔
شیر بولا۔ پھر تو مسئلہ حل ہو گیا، جس وقت شیر تصویر بنائے گا اس وقت شیر آدمی کے اوپر ہو گا اور آدمی شیر کے نیچے۔
عورت کو ناقص العقل مرد کہہ رہے ہیں۔ جس دن عورت برسراقتدار آئے گی اس وقت عورت ذہین ہو گی اور مرد ناقص العقل سمجھا جائے گا اور یہ بات دور نہیں ہے۔
سوال: جس طرح جسم میں پانچ حسیں کام کرتی ہیں کیا اسی طرح روح میں پانچ حواس کام کرتے ہیں؟
جواب: انسان کا اگر ہم تجزیہ کریں، ان ہڈیوں کے ڈھانچے پر اللہ تعالیٰ نے عجیب سسٹم بنایا ہوا ہے، لگتا ہے ایک صندوق ہے ایک صندوق کے اندر ایک جگہ دل لٹکا ہوا ہے۔ پھیپھڑے ہیں، گردے ہیں۔ سب کو اللہ نے صندوق میں رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے روئی رکھی۔
روئی کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے گوشت بنایا۔ اس کے اوپر اللہ تعالیٰ نے پٹیاں باندھی یعنی پٹھے کس دیئے۔۔۔۔۔۔پھر گوشت رکھ کر اوپر پٹیاں باندھ دیں، یعنی گوشت پٹھوں کے اوپر کھال منڈھ دی۔ آدمی اسے کہتے ہیں جس کے اندر حرکت ہو، جو سنتا، بولتا، دیکھتا اور چلتا پھرتا ہو۔
اسے گردمی سردی کا احساس ہو، اس کے اندر محبت ہو، اس کے اندر غصہ، انتقام ہو، معافی اور عفو درگزر ہو۔ اگر یہ چیزیں نہیں ہوں گی تو ہم اسے آدمی نہیں کہیں گے لیکن ایک بات اور سوچنے کی ہے وہ یہ کہ آدمی چلتا کب ہے؟
جواب: جب ضرورت ہو۔
اسے چلنے کی تحریک کہاں سے ملتی ہے؟
جواب: دماغ سے۔۔۔۔۔۔
دماغ میں تحریک کہاں سے ہوتی ہے۔ آپ نے ٹی وی دیکھا، ٹی وی میں تصویر کہاں سے آ رہی ہے۔ بوسٹر سے آ رہی ہے۔ بوسٹر میں کہاں سے پہنچی؟ ٹی وی اسٹیشن سے پہنچی۔
آپ جانتے ہیں انسان پانچ حواس رکھتا ہے۔ سننا، دیکھنا، محسوس کرنا، چھونا اور بولنا۔ دو انسان آپ کے سامنے ہیں۔ ایک انسان میں ہوں، ایک انسان وی سی صاحب ہیں۔ ہم دو انسان آپ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ وی سی صاحب سوچ رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، بات کر رہے ہیں، میں بھی سوچ رہا ہوں، بات کر رہا ہوں۔ بیٹھے بیٹھے اچانک میرا دل فیل ہو جاتا ہے اور میں مر جاتا ہوں لیکن میں کرسی پر بیٹھا رہتا ہوں۔ وی سی صاحب مجھ سے بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔میں جواب نہیں دیتا۔ کیوں جواب نہیں دیتا؟
میں اس لئے بات نہیں کرتا کہ میری روح نکل گئی ہے۔
وی سی صاحب اس لئے بات کر رہے ہیں کیونکہ ان کے اندر روح موجود ہے۔
یہ ایک بات ہوئی، دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو بھوک لگی ہے، آپ کھانا کھاتے ہیں۔ میں Dead Bodyہوں، میں کھانا کیوں نہیں کھاتا، آپ کھانا کیوں کھا رہے ہیں؟ اس لئے کہ آپ کے اندر روح ہے۔ میں اس لئے کھانا نہیں کھا رہا ہوں کہ میرے اندر روح نہیں ہے۔
آپ کو کسی نے تھپڑ مارا، آپ کا ردعمل ہو گا آپ اسے بھی تھپڑ ماریں گے۔ میں مردہ ہوں، کسی نے میرا ہاتھ کاٹ دیا، میں کچھ بھی نہیں کہتا۔۔۔۔۔۔کیوں؟ اس لئے کہ میرے جسم میں روح نہیں ہے۔
پتہ چلا کہ انسان جو دو رخوں سے تخلیق ہوا ہے۔ ایک رخ جسم ہے، ایک رخ روح ہے لیکن اصلی رخ جسم نہیں ہے، روح ہے۔ میرے کان ہیں، آپ کے بھی کان ہیں۔ آپ آواز سن رہے ہیں، میں نہیں سن رہا ہوں اس لئے کہ میں Dead Bodyہوں۔ آپ اس لئے سن رہے ہیں کہ آپ کے اندر روح موجود ہے اور آپ زندہ ہیں۔ لُبِ لباب یہ نکلا کہ Dead Bodyکو روح نے اپنا Mediumبنایا ہوا ہے۔ دنیا کی اکثریت Mediumکو اصل سمجھتی ہے۔ بس یہی لا علمی ہے جس کی بنا پر ہم اپنے مقصد حیات سے بے خبر ہیں اور پریشان و بے سکون ہیں۔
آپ حضرات کا بہت شکریہ اللہ حافظ و نگہبان۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ
*****
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔
ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔
عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "