Topics

تزکیہ نفس

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم استاد جناب محمد نصیر خان صاحب، وائس چانسلر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ستارہ امتیاز اساتذہ کرام، معزز مہمانان گرامی طلبا و طالبات اور حاضرین مجلس!

السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔

سیرت طیبہ کے موضوع پر بیٹی نے بہت اچھی آیات تلاوت کیں۔ قرآن حکیم کی یہ آیتیں تزکیۂ نفس کے بارے میں اور علم و حکمت کے بارے میں ہیں۔ ڈاکٹر نور الدین جامی صاحب نے بھی تزکیۂ نفس کے بارے میں قرآن حکیم کی آیت پڑھی۔

ترجمہ:”ہمارے پیغمبر جو ہم نے بھیجے وہ تمہارا تزکیۂ نفس کرتے ہیں، تمہیں علم و حکمت کی باتیں سکھاتے ہیں۔ اور نبی کریمﷺ کے آنے سے پہلے تم لوگ گمراہی میں تھے۔

تزکیۂ نفس سیرت طیبہ سے متعلق بہترین موضوع ہے اور چودہ سو سال سے اس کے اوپر مقالے، مضامین اور کتابیں لکھی جا رہی ہیں، تقریریں کی جا رہی ہیں۔ قرآن پاک کی تفسیر میں طویل ترین تحریریں لکھی گئی ہیں۔

میں عرض کرتا ہوں کہ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کرنا ہی تزکیۂ نفس ہے۔

حضورﷺ نے عمل کر کے ہمیں بتایا ہے کہ غصہ نہیں کرنا۔ معاف کرنا ہے۔ عفو و درگزر سے کام لینا ہے۔ ہندہ کا واقعہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے بڑی اذیت اور اس سے بڑی تکلیف دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتی کہ چہیتے چچا کا سینہ چاک کر کے کلیجہ نکالا جائے، اسے چبا کر اور حقارت سے تھوک دیا جائے۔ اس سے بڑی درندگی اور جرم دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب ہندہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام قبول کر لیا اور اس نے معافی مانگی تو حضور پاکﷺ نے اسے معاف کر دیا۔

سیرت طیبہ آج کا موضوع ہے اس موضوع سے متعلق علم و حکمت کو تلاش کرنا ہمارا مقصد ہے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ معلوم ہو جائے کہ “نفس” کیا ہے؟

ہمیں نفس کے بارے میں قرآن سے جو استدلال ملتا ہے اور احادیث سے جو رہنمائی ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

“جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔”

اگر جسمانی وجود کا نام نفس ہے۔ اگر اپنی پہچان کا نام نفس ہے، اگر حواس کا نام نفس ہے تو ان حواس سے ہم اللہ کو نہیں پہچانتے۔

کون آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے آپ کو نہیں جانتا۔ اگر نفس سے مراد Physical Bodyہے۔ اگر نفس سے مراد ہمارے حواس خمسہ ہیں۔۔۔۔۔۔سننا، دیکھنا، بولنا، چھونا، محسوس کرنا ہے۔ اگر نفس سے مراد سونا جاگنا، کھانا پینا، شادی بیاہ کرنا ہے۔ اگر بچوں کی محبت، والدین کی محبت نفس ہے۔ زندگی کے ان عوامل سے اللہ کو کسی نے نہیں پہچانا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“نگاہ اس کا احاطہ نہیں کر سکتی اور وہ نگاہوں کا احاطہ کر لیتا ہے۔”

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی آنکھ اللہ کا ادراک نہیں کر سکتی اللہ خود آنکھ کا ادراک بن جاتا ہے۔

اگر نفس سے مادی وجود مراد ہے، ہاتھ ، آنکھ، کان، پیر یا Physical Bodyمراد ہے تو جب ہم مر جاتے ہیں، ہاتھ پیر، آنکھ، دماغ، دل کام نہیں کرتے۔ ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد اس مادی وجود کو قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔ جسم کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوتی۔ مرنے کے بعد ہندو “مادی وجود” کو چتا پر رکھ کر جلا دیتے ہیں، کوئی مزاحمت نہیں ہوتی۔ مادی وجود کو دفنا دیتے ہیں، جلا دیتے ہیں کوئی مزاحمت نہیں ہوتی، گدھ اور چیل کوے کھا جاتے ہیں۔ جسم کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوتی۔ مردہ جسم کے پیر میں رسی باندھ کر پورے ملتان شہر میں گھسیٹتے پھریں، یہ مادی وجود آپ سے نہیں کہے گا کہ مجھ پر ظلم کیوں کر رہے ہو؟ مردہ وجود کے آپ ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، جسم ایک سسکاری بھی نہیں بھرے گا۔ سیدھی سی بات ہے مادی وجود نفس نہیں ہے۔ نفس وہ ہے جس نے مادی وجود کو متحرک کیا ہوا ہے، سنبھالا ہوا ہے، جس نے اس مادی وجود کو قوت سماعت، قوت بصارت اور قوت لمس منتقل کی ہوئی ہے۔

حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ مادی جسم کی معرفت سے صرف تحریکات عمل میں آتی ہیں۔

ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ کروموسوم (Chromosome) کے ملاپ سے جب ماں کے پیٹ میں وجود بنتا ہے تو اس وجود میں حرکت اور حواس اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اس وجود کے اندر روح داخل ہوتی ہے۔ اگر اس وجود کے اندر روح داخل نہ ہو تو وجود کی نشوونما نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“ہم نے بجنی مٹی سے پتلا بنایا اور اس پتلے کے اندر اپنی روح پھونک دی۔اور جب ہم نے اس پتلے کے اندر اپنی روح پھونک دی تو پتلا چلنے پھرنے لگا، بولنے سننے لگا۔”

مثال:

ایک Toyہے، چابی سے چلنے والا کھلونا۔ اس میں چابی ہو گی تو چلتا ہے، اچھلتا ہے، دوڑتا ہے، آوازیں نکالتا ہے۔ لیکن جب اس کے اندر چابی ختم ہو جاتی ہے تو وہ Dead Bodyکی طرح ڈھیر ہو جاتا ہے۔ نہ اچھلتا ہے، نہ کودتا ہے، نہ اس میں سے کوئی آواز نکلتی ہے۔

ہم کرنٹ کو نہیں دیکھ رہے ہیں جس سے وہ کھلونا چل رہا ہے۔ جب تک چابی اس کے اندر رہتی ہے کھلونا اچھل کود کرتا رہتا ہے اور جب چابی ختم ہو جاتی ہے کھلونے میں حرکت نہیں رہتی، لاش کی طرح ہو جاتا ہے۔

اسی طرح انسان کے اندر Energyہے، توانائی اور طاقت ہے۔ اللہ کا امر ہے اللہ کی پھونک ہے۔ اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے “ہو جا” اور وہ ہو جاتی ہے۔

کس طرح ہو جاتی ہے؟ پہلے اللہ تعالیٰ نے پتلا بنایا اور پتلے میں اپنی روح پھونکی۔ 

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

“جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔”

جس نے اپنی جان کو پہچان لیا، اس نے اللہ کو پہچان لیا۔ جس نے اپنے اندر اللہ کے امر کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔ جس نے اپنی روح کو پہچان لیا، اس نے اللہ کو پہچان لیا۔ روح اور جسم کے رشتہ کو سمجھنا تزکیۂ نفس ہے۔۔۔۔۔۔اور جب نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو علم و حکمت اللہ کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

تزکیہ۔۔۔۔۔۔؟

جسم کا تزکیہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔

جسم کا تزکیہ یہی ہو سکتا ہے کہ نہالو، نماز ادا کرو، روزہ رکھو۔ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ کسی کی دل آزاری نہ کرو۔ اللہ وحدہ لا شریک کی پرستش کرو، شریعت مطہرہ پر عمل کرو۔ غیر شرعی باتوں پر عمل نہ کرو۔ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ایک آدمی اسّی سال تک نماز پڑھتا ہے لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے عرفان الٰہی حاصل ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ نماز نہ پڑھیں۔ نماز فرض ہے، کسی حال میں نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر ہم نماز ادا نہیں کریں گے تو تزکیۂ نفس تک ہم نہیں پہنچیں گے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور شریعت تزکیۂ نفس تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ جب آدمی راستہ پر چلے گا ہی نہیں تو منزل تک کیسے پہنچے گا؟

انسان زندگی دو رخوں میں گزارتا ہے۔ زندگی کا ایک رخ یہ ہے کہ ہم چل پھر رہے ہیں، شریعت مطہرہ پر عمل کر رہے ہیں، رزق کے حصول کے لئے محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ میں آپ کو دیکھ رہا ہوں، آپ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ زندگی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ انسان جسمانی وجود کے بغیر زندگی گزارتا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جسمانی وجود کے بغیر انسان کیسے زندگی گزارتا ہے؟

عزیز طلبا و طالبات اور اساتذہ کرام! غور فرمایئے۔

ہم رات کو سوتے ہیں۔ سونے کی حالت میں ہمارا جسمانی وجود چارپائی پر، زمین پر، فرش پر ہوتا ہے، ہم سو جاتے ہیں۔ ہمارے اندر سے ہم خود نکلتے ہیں۔ عورت کے اندر سے ایک عورت نکلتی ہے۔ مرد کے اندر سے ایک مرد نکلتا ہے۔ جوان آدمی کے اندر سے جوان آدمی نکلتا ہے۔ بوڑھی عورت کے اندر سے بوڑھی عورت نکلتی ہے۔ وہ عورت یا مرد چلتا ہے، پھرتا ہے، کھاتا ہے، ڈرتا اور خوش ہوتا ہے۔ ریگستان میں گھومتا ہے، باغوں کی سیر کرتا ہے، جنتی تلذذ میں غسل واجب ہو جاتا ہے، غسل کئے بغیر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

سانپ دیکھ کر آدمی خوف زدہ ہو جاتا ہے، دل دھڑکتا ہے، پسینہ میں شرابور ہو جاتا ہے، ہاتھ پیر سُن ہو جاتے ہیں۔

اس کے برعکس باغ، روشیں، گلاب کے تختے دیکھتا ہے۔ چنپا، چنبیلی، موتیا کے پھولوں کی خوشبو آتی ہے۔ تالاب میں مچھلیاں اور کنول کے پھول دیکھتا ہے۔ آبشاریں اور برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑیاں دیکھتا ہے۔ آنکھ کھلتی ہے خوش ہوتا ہے۔

ایک بہن اپنے بھائی کو خواب میں دیکھتی ہے کہ اس کے سر پر سہرا بندھا ہوا ہے۔ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ بہن اس طرح خوش ہوتی ہے جیسے سچ مچ اس کے بھائی کی شادی ہو رہی ہے۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں کہ کوئی انسان انکار نہیں کر سکتا۔ ہر آدمی اس زندگی سے لازماً گزرتا ہے۔ 

ایک رخ میں انسان جسمانی وجود کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور دوسرے رخ میں انسان مادی جسم کے بغیر خواب میں زندگی گزارتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب انسان جسمانی وجود میں زندگی گزارتا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن وہی انسان جب جسمانی وجود کے بغیر زندگی گزارتا ہے اور زندگی کے تمام تاثرات اس پر مرتب ہوتے ہیں، چاہے پریشانی کے ہوں یا خوشی کے ہوں تو ہم کیسے یقین نہ کریں کہ انسان کے دو وجودہیں اور دونوں بیک وقت متحرک اور فعال ہیں؟

سوال یہ ہے کہ وہ کون سا انسان ہے جو مادی وجود کے بغیر سفر کرتا ہے۔ مادی وجود کے بغیر سیر کرتا ہے۔ مادی وجود کے بغیر دہشت زدہ ہو جاتا ہے، اس طرح دہشت زدہ ہو جاتا ہے کہ جسم پسینہ میں شرابور ہو جاتا ہے؟

دراصل یہ ایک پردہ ہے جو انسان کو مادی وجود سے قریب کرتا ہے اور ایک دوسرا پردہ ہے جو انسان کو روحانی وجود سے قریب کرتا ہے۔ قرآن کی زبان میں اسے ظاہری اور باطنی رخ کہتے ہیں۔ انسان کا ایک ظاہری رخ ہے اور انسان کا ایک باطنی رخ ہے۔

حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق نفس کے تزکیہ کے بعد آدمی علم و حکمت سیکھ لیتا ہے۔

اب یہ بات ہماری سمجھ میں آ گئی ہے کہ انسان کے دو وجود ہیں۔ انسان کا ایک باطنی وجود ہے اور انسان کا دوسرا وجود ظاہری ہے۔ ہم مادی وجود میں پیدا ہونے کے بعد ستر اسّی سال زندگی گزارتے ہیں لیکن ہمارے باطنی وجود کی کوئی عمر متعین نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ہزاروں سال گزاریں، ہو سکتا ہے ہم لاکھوں سال باطنی وجود کے ساتھ زندگی گزاریں۔ میں نے عرض کیا ہے۔ مادی وجود (لباس) روحانی وجود کے تابع ہے۔ جبکہ روحانی وجود، مادی جسم کے تابع نہیں ہے۔

جن لوگوں نے اس علم و حکمت کو سمجھ لیا ہے وہ سب ہاتھ اٹھا دیں۔ ماشاء اللہ! سارے Intelligentلوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ الحمداللہ! سمجھدار لوگ ہیں۔ آپ سب میرے بچے ہیں۔ آپ سب میرے دوست ہیں۔ بچے اس لئے ہیں کہ یہاں میری عمر کا کوئی نہیں ہے۔ سب مجھ سے چھوٹے ہیں۔ اساتذہ کی حیثیت سے آپ سب میرے لئے قابل احترام ہیں۔ یاد رکھئے! اس وقت تقریر نہیں ہو رہی، کلاس ہو رہی ہے۔ آپ کو حق ہے جو دل چاہے سوال کریں۔

عزیز دوستو! ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ جسمانی وجود Mediumہے۔ اس میں ذاتی کوئی حرکت نہیں۔

میں پوچھتا ہوں کہ آدمی پانی پیتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ مر گیا۔۔۔۔۔۔پانی کیوں نہیں پیتا؟

آدمی کھانا کھاتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ مر گیا۔۔۔۔۔۔وہ کھانا کیوں نہیں کھاتا؟

پہلوان کشتی لڑتا ہے۔۔۔۔۔۔پہلوان مر گیا۔۔۔۔۔۔وہ کشتی کیوں نہیں لڑتا؟

کشتی تب لڑتا ہے جب اس کے اندر روح ہوتی ہے۔

سوال: اصل آدمی کیا ہے؟

جواب: ۔۔۔۔۔۔روح ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ روح نے اللہ کو دیکھا ہے۔

اللہ نے روحوں سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ میں تمہارا رب ہوں۔ روحیں آواز کی طرف متوجہ ہوئیں۔ روحوں نے آواز سنی۔

جیسے ہی روحوں نے آواز سنی قوت سماعت متحرک ہوئی، کان بن گئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم میری سماعت سے سنتے ہو۔ روحوں نے اللہ کی آواز سنی۔۔۔۔۔۔الست بربکم۔۔۔۔۔۔آواز سننے کے بعد روحیں اللہ کی طرف متوجہ ہوئیں تو انہوں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ موجود ہیں۔ جیسے ہی روحوں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ سامنے موجو دہیں، بصارت منتقل ہو گئی۔

اللہ کی آواز آئی کان بن گئے، پھر اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوا، بصارت بن گئی اور روحوں نے اللہ کو دیکھا۔ عرض کیا۔۔۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔۔۔ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔

میرے دوستو! ہم ازل کے دن اللہ کی آواز سن کر، اللہ کو دیکھ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کر چکے ہیں۔

روح نے اللہ کو دیکھا، روح نے اللہ کی آواز سنی۔ روحوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اللہ کے پیغمبر جب نفسوں کا تزکیہ کرتے ہیں تو وہ انسانوں کو ایسی علم و حکمت کی باتیں بتاتے ہیں کہ انسان اگر ان کی طرف متوجہ ہو جائے تو وہ زندگی کا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔

ماشاء اللہ! یہاں ڈین، چیئرمین، فیکلٹی کے معتبر، طلبہ اور طالبات جمع ہیں۔

بتایئے! کون آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ میری روح نے اللہ کو نہیں دیکھا؟ روح اللہ کی آواز نہ سنتی تو کان نہ ہوتے۔ اگر روح اللہ کو نہ دیکھتی تو آنکھیں نہ ہوتیں۔ روح اللہ کو نہ دیکھتی تو آپ کے اندر تجسس پیدا نہ ہوتا، تفہیم پیدا نہ ہوتی، اقرار اور انکار کی حس پیدا نہ ہوتی۔

میں اس لئے سنتا ہوں کہ میرے کان اللہ کی آواز سن چکے ہیں۔ میں اس لئے ساری دنیا کو روشن دیکھتا ہوں کہ میری آنکھ اللہ کو دیکھ چکی ہے۔ 

میں اقرار اور انکار اس بنیاد پر کرتا ہوں کہ ازل میں اللہ کی ربوبیت کا اقرار کر چکا ہوں۔

تزکیۂ نفس سے مراد یہ ہے کہ انسان مفروضہ اور حقیقی حواس سے آگاہی حاصل کرے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اپنی روح، اپنے نفس سے واقف ہو جائیں۔

روح ہمارے اندر ہے۔ روح ہمارا اِنر ہے۔ روح ہماری اصل ہے۔

ہم جب روح کو ڈھونڈیں گے تو کیا کریں گے؟

اپنے اندر جھانکیں گے، اپنے اندر دیکھیں گے، اپنے اندر تلاش کریں گے۔

میرے دوستو! اپنے اندر جھانکنا مراقبہ ہے۔ مراقبہ کو انگریزی میں Concentrationکہتے ہیں۔ اردو میں ارتکاز توجہ کہتے ہیں۔

اب ہمارے لئے کیا Syllabusبنا جس کو ہم آسانی سے Followکر سکیں۔ سب سے پہلے ہمیں رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کو پڑھنا ہو گا۔ اتنا پڑھنا ہو گا، اتنا پڑھنا ہو گا کہ حضور کا اسوۂ حسنہ ہمارے اوپر جاری و ساری ہو جائے اور ہم اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“میرے نبی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے، ہم جو کہتے ہیں وہی کہتے ہیں۔”

جب رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ پڑھ کر ہم اس کو اپنے اوپر نافذ کر لیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بھی وہی کریں گے جو اللہ چاہتا ہے۔ یہ کوئی مشکل راستہ نہیں ہے۔ اس سے زیادہ دنیاوی علوم سیکھنا مشکل ہے۔ میٹرک کرنے میں 35,600گھنٹے لگتے ہیں۔

آپ روزانہ مراقبہ کریں، پندرہ منٹ صبح، پندرہ منٹ شام۔ مراقبہ میں اپنی Realityتلاش کریں، اپنی حقیقت تلاش کریں، اپنے نفس کو دیکھیں۔ آپ ضرور نفس سے واقف ہو جائیں گے۔ جو اپنے آپ کو جان لے گا وہ خدا کو پہچان لے گا۔ اللہ تعالیٰ سب کا حامی و ناصر ہو۔

میں اساتذہ کرام، ڈاکٹر ظفر اللہ صاحب، سعید صاحب، V.Cصاحب اور ڈاکٹر نورالدین جامی صاحب اور تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے یہاں بلایا اور میری باتیں سنیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق دے۔

یہاں ملتان میں مراقبہ ہال قائم ہے اور اس کے نگران جناب کنور طارق عظیمی صاحب ہیں۔ مراقبے کے سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے یا مراقبہ سیکھنے کے لئے Centreموجود ہے اور سلسلہ عظیمیہ کے تحت اس وقت ساری دنیا میں 73سینٹرز کام کر رہے ہیں۔

آپ سے مؤدبانہ التماس ے کہ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، اللہ کی دی ہوئی توفیق سے ہم نے جو رسول اللہﷺ کا روحانی اور تبلیغی مشن شروع کیا ہے، اللہ تعالیٰ اس میں ہمیں کامیابی عطا فرمائیں۔

(آمین یا رب العالمین)

آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔!

*****



Khutbat Multan

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔ 

ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی  کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔

عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "