Topics
مورخہ فروری ۲۰۰۰ء میں خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے لاہور بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد ایوانِ عدل میں کیا گیا تھا۔ جب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بار روم میں آئے تو لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈووکیٹ شاہد مقبول شیخ، نائب صدر چوہدری لیاقت علی، میاں محمد سعید اور عابد حسین جعفری ایڈوکیٹ نے آپ کا نہایت گرم جوشی اور عقیدت سے استقبال کیا۔ اس موقع پر لاہور مراقبہ ہال کے نگران میاں مشتاق احمد عظیمی اور عبدالمجید عظیمی صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ آخر میں بار کی طرف سے ریفریشمنٹ کا اہتمام کیا گیا تھا۔
الشیخ عظیمی صاحب نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:
بِسم ِاللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ صِراطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ (آمین)
السلام علیکم!
آپ حضرات نے میری عزت افزائی فرمائی یہ بلاشبہ اللہ کا انعام ہے۔ میں جو آپ حضرات کے سامنے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ:
1. مادّی جسم اور رُوحانی جسم کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟
2. مادّی جسم کیا ہے؟ اور
3. رُوحانی جسم کیا ہے؟
4. اصل مادّی جسم ہے یا رُوحانی جسم؟
5. اگر اصل مادّی جسم ہے تو انسان مر کیوں جاتا ہے؟
6. مرنے کے بعد مادّی جسم فنا کیوں ہوجاتا ہے؟
7. رُوح جسم سے نکلنے کے بعد کہاں جاتی ہے؟
8. رُوح سے واقف ہوا جا سکتا ہے یا نہیں؟
انسان کا یہ جو مادّی وُجود ہے یہ کسی طور پر بھی(Independent)نہیں ہے اس کی مثال یہ ہے کہ…. پیدائش پر ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخصوص نظامِ پیدائش بنایا ہے۔ اس نظام کے تحت کوئی بچہ کسی بادشاہ کے گھر پیدا ہو یا فقیر کے گھر پیدا ہوجائے، اس میں اس کی اپنی خواہش اور چوائس کا عمل دخل نہیں ہے۔
روح کیا ہے؟ اس بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے۔
”یہ لوگ آپ سے رُوح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے رُوح میرے ربّ کے امر سے ہے۔ “
چونکہ رُوح امر ہے…. اللہ کا…. اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے بندے مجھے یاد کرتے ہیں تو میں ان کا ہاتھ، کان، زبان اور آنکھیں بن جاتا ہوں۔ میرے سچے بندے جب میرے بھروسے پر میری قسم اٹھالیتے ہیں تو میں اسے پورا کریا ہوں۔ لیکن یہ مقام اور قربت کا احساس اجاگر کرنے کیلئے ہمیں کلامِ ربُّ العالَمین پر عمل پَیرا ہونا پڑتا ہے۔ اللہ نے ہماری رہنمائی کیلئے اور اس احساس اور پہچان کیلئے ایک لاکھ چابیس ہزار پیغمبر بھیجے جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ:
ہماری اصل رُوح ہے۔ رُوح کے بغیر ہمارا جسم محض ایک لباس ہے۔ جسم کے تمام حرکات و اعمال رُوح کے محتاج ہیں۔ ہماری تمام جسمانی طاقت، ہمارا اختیار محض رُوح ہے۔ رُوح کے نکلتے ہی جسم ایک بے حرکت لباس رہ جاتا ہے۔ جب انسان اس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ یہ دنیا مسافر خانہ ہے تو اس کا ذہن اس ذات کی طرف مُتوجّہ ہوجاتا ہے جس نے اسے مسافر بنا کر یہاں بھیجا ہوا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ”مرجاؤ مرنے سے پہلے“اس کے معنی اور مفہوم پر غور کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس زندگی میں ہی آخرت کی زندگی سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ گہرائی سے غور و فکر کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقفیت دراصل رُوح سے واقفیت ہی ہے۔ رُوح سے واقف ہو کر ہی اللہ کو پہچانا جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آواز سن کر رُوح کا ذہن اللہ کی طرف مُتوجّہ ہوچکا ہے۔ رُوح کی آنکھ اللہ تعالیٰ کا دیدار کر چکی ہے اور رُوح کی زبان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہے۔ اگر ہم اپنی اسی اصل یعنی رُوح سے واقف ہو جائیں تو اللہ کو دیکھ سکتے ہیں۔ رُوحانیت کو سمجھنا ہر گز مشکل کام نہیں بات صرف سمجھنے کی ہے۔ اللہ نے راہنمائی فرمادی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
”ہم نے قرآن کو سمجھنا آسان کر دیا تو ہے کوئی جو اسے سوچے سمجھے۔ “ (سورۃ القمر – 22)
اس حقیقت کو سمجھیں۔ قرآن پاک کو غور و فکر کے ساتھ پڑھیں اور سمجھیں اور اس پر عمل پَیرا ہوں، یہ بات…. یہ حقیقت قابل تفکر ہے کہ رُوح فنا نہیں ہوتی۔ جسمِ انسانی فناہوتا ہے۔ جو چیز فنانہیں ہوتی اسے ہم کیوں تلاش نہیں کرتے۔ دراصل رُوح کی پہچان ہی اللہ کی قربت کا ذریعہ ہے۔
میں آپ لوگوں کی توجّہ ایک اور نقطے کی طرف کرنا چاہتا ہوں کہ انسان کا اصل جسم اس کی رُوح ہے اور یہ رُوح جسم کو سنبھالنے کیلئے ایک اور جسم تخلیق کرتی ہے جسے سائنسدان (Aura)اور رُوحانی لوگ جسمِ مثالی کہتے ہیں۔ جسم مثالی گوشت پوست کے جسم سے تقریباً۹ انچ اوپر ہمہ وقت مَوجود رہتا ہے۔
انسانی گوشت پوست کے جسم کا دار و مدار اسی (Aura)کے اوپر ہے۔ (Aura)کے اَندر صحت مندی مَوجود ہے تو گوشت پوست کا جسم بھی صحت مند ہے۔ یوں کہئے کہ جس طرح گوشت پوست کے جسم کے اوپر اللہ تعالیٰ نے دو لینز فٹ کردئیے ہیں جن کے ذریعے مادّی دنیا میں مَوجود تمام چیزوں کا عکس دماغ کی اسکرین پر منتقل ہو کر ڈسپلے ہوتا ہے اسی طرح جسم مثالی کے اَندر جو کچھ مَوجود ہے اس کا پورا پورا اثر گوشت پوست کے جسم پر مرتّب ہوتا ہے۔ روشنیوں کا بنا ہوا یہ جسم صرف انسان کیلئے مخصوص نہیں ہے۔ زمین کے اوپر جتنی مخلوق مَوجود ہے، روشنیوں کے جسم سے (Feed)ہوتی ہے۔ اس بات کو ذرا تفصیل سے اگر بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ انسانی زندگی کے اَندر جتنے تقاضے مَوجود ہیں وہ تقاضے گوشت پوست کے جسم میں پیدا نہیں ہوتے۔ جسمِ مثالی میں پید ا ہوتے ہیں اور وہاں سے منتقل ہو کر گوشت پوست کے جسم کے اوپر ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی اس بات کی خواہش کرتا ہے کہ اس کو روٹی کھانی ہے تو بظاہر ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ گوشت پوست کا بنا ہوا جسم روٹی کھارہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے جسمِ مثالی کے اَندر بھوک کا تقاضا پیدا نہیں ہوگا اور جسم مثالی یا(Aura)گوشت پوست کے جسم کو بھوک یا پیاس کا عکس منتقل نہیں کرے گا، آدمی کھانا نہیں کھا سکتا۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے اور کوئی ایسی بات بھی نہیں ہے جو اچھنبے کی ہو۔ یہ کوئی ایسا دقیق مسئلہ بھی نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آسکے۔ ہم جو خواب کی حالت میں دنیا بھر کی سیر کرتے ہیں اور تمام وہی اعمال و حرکات ہم سے سر زد ہوتی ہیں جو ہم گوشت پوست کے جسم کے ساتھ کرتے ہیں وہ دراصل جسمِ مثالی کی ایک ایسی حرکت ہے جو وہ گوشت پوست کے جسم کو میڈیم بنائے بغیر کرتا ہے۔ یاد رکھئیے! خواب کوئی خیالی بات نہیں ہے۔ اسی طرح حقیقت ہے جس طرح ہم مفروضہ حواس میں رہتے ہوئے بیداری کی زندگی کو حقیقی قرار دیتے ہیں۔ مثلاً خواب کے دوران آدمی کے اوپر ایک ایسی کیفیت یا حالت طاری ہوتی ہے کہ اسے صبح بیدار ہونے کے بعد غسل کرنے کی حاجت ہوتی ہے۔ جس طرح بیداری میں اس عمل کے تاثرات قائم ہوتے ہیں اور وہ نہانے دھونے اور کپڑوں کی پاکی اور صفائی کی طرف مُتوجّہ ہوتا ہے اسی طرح خواب میں کئے ہوئے اس عمل کے بعد بھی وہ پاکی، صفائی اور نہانے دھونے پر مجبور ہے جس طرح وہ بیداری میں اس عمل کو کرنے کے بعد بھی نہانے دھونے اور پاک صاف ہوئے بغیر نماز قائم نہیں کر سکتا۔ اسی طرح خواب میں کئے ہوئے اس عمل کے بعد بھی وہ نماز قائم نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائے۔ یہ ایک ایسی بنیادی مثال ہے جس سے دنیا کا ایک فرد بھی منکر نہیں ہوسکتا۔ ہر وہ شخص جو صحت مند ہے اور جوانی کو پہنچا ہے وہ ایک دو چار دس بیس مرتبہ اس عمل سے ضرور گزرتا ہے یہ کہنا کہ (Aura)یا جسمِ مثالی کی حرکات و سکنات محض واہمہ ہیں، اس لئے صحیح نہیں ہے کہ عمل کے بعد تاثرات ایک جیسے قائم ہوتے ہیں۔ یہ ہماری روزمرّہ زندگی میں پیش آنے والی ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ تمام آسمانی صحائف میں خوابوں کا ایک سلسلہ مَوجود ہے اور تمام آسمانی صحائف نے خوابوں کو مستقبل بینی کا ایک روشن ذریعہ قرار دیا ہے۔ مستقبل سے مراد زمان و مکان سے ماوراء اس عالَم میں دیکھ لینا ہے جو عالَم ظاہری آنکھ نہیں دیکھتی۔
اس گفتگو کا خلاصہ ہ ہوا کہ انسان دراصل گوشت پوست کا بنا ہوا نہیں ہے، اس کے اجزائے ترکیبی میں جہاں مٹّی کے ذرّات کام کر رہے ہیں وہاں مٹّی کے ذرّات کے اوپر روشنی کا ایک ہالہ مستقل اور مسلسل اس کو قائم رکھے ہوئے ہے روشنی کا ہالہ جسمِ مثالی(Aura)اگر مٹّی کے ذرّات سے اپنا رشتہ منقطع کر لے تو یہ ذرّات فنا ہوجاتے ہیں۔ اس بات کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ آدمی جب مرتا ہے تو جسمِ مثالی یا(Aura) اس سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتا ہے، یہ مرنا یا فنا ہونے کا طریقہ انسان کیلئے ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ ہر چیز ایک وقت مُعیّن پر مر جاتی ہے۔ ایک وقت آئے گا، اس زمین کے اوپر محیط روشنیوں کا ہالہ بھی زمین کے گلوب سے اپنا رشتہ منقطع کر لے گا۔
مرنے کے بعد یہ بات کہنا کہ آدمی کے اَندر سے رُوح نکل گئی، صحیح نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ مرا ہوا آدمی اپنے عزیزوں اور اقربا کی اَرواح سے جا ملا، یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ رُوحانی نقطۂ نظر سے اس بات کی تشریح کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جسمِ مثالی نے مٹّی کے ذرّات سے بنائے ہوئے جسم کو نظر انداز کر کے اور قطع تعلق کر کے اپنا رشتہ اس سے منقطع کر لیا اور دوسرے عالَم میں وہاں کی فضا کے مطابق ذرّات یکجا کر کے اپنا نیا جسم اپنے لئے تخلیق کر لیا۔
یہ جو عالَم اعراف میں ایک وسیع دنیا آباد ہے آدم سے لے کر اب تک اور قیامت تک اس دنیا کی آبادی میں برابر لوگ منتقل ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے دراصل یہ اِس عالَم سے اُس عالَم میں آدمی کا منتقل ہونا یعنی جسم مثالی کی منتقلی ہے۔ عربی زبان میں اس لئے اُس عالَم میں جانے کا نام انتقال کر نا ہے یعنی اِس عالَم میں سے اُس عالَم میں آدمی منتقل ہوگیا۔
جسمِ مثالی زندگی میں ہمہ وقت متحرک اور سرگرم رہتا ہے۔ اس کی اپنی صفات میں سے ایک مخصوص صفت یہ ہے کہ جب تک یہ اپنے لباس سے کلّی طور پر قطع تعلق نہیں کر لیتا اس کی بھر پور حفاظت کرتا ہے۔ اس کی مثال ہمیں خواب میں ملتی رہتی ہے ایک آدمی سویا ہوا ہے نیند بہت گہری ہے۔ نیند میں وہ امریکہ کی سیر کر رہا ہے اور جسم یہاں پڑا ہے۔ اس کے پیر میں سوئی چبھوئی جاتی ہے تو کراچی میں سویا ہوا آدمی امریکہ سے چل کر فوراپنے لباس کی پاسبانی کیلئے آ مَوجود ہوتا ہے۔ سوئی چبھونا، امریکہ سے جسم مثالی کا کراچی میں آجانا اتنا قلیل وقفہ ہے کہ جس کی پیمائش کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے اس پیمائش کو آپ لمحے کا کھربواں حصہ کہہ سکتے ہیں اور لمحے کا کھربواں حصہ کہنا پیمائش کے دائرے میں نہیں آتا۔ مقصد یہ ہے کہ جسم ِ مثالی کیلئے(Time and Space)کوئی چیز نہیں ہے لیکن (Time and Space)میں بند ذرّات سے جب یہ اپنے لئے ایک جسم اختراع کرتا ہے تو اس کو(Time and Space)کی حدبندیوں میں بند رکھنے کیلئے پوری پوری حفاظت کرتا ہے۔ اِس عالَم سے اُس عالَم میں منتقل ہونے کے بعد اُس عالَم کے اَندر ہَوا اور مٹّی کے جن ذرّات سے لباس بنتا ہے اُن ذرّات میں مٹّی کے ذرّات پر روشنیوں کا جو ہالہ مَوجود ہے وہ اِس عالَم میں ذرّات پر مَوجود روشنیوں کے ہالے سے زیادہ طاقتور ہے۔ زیادہ طاقوہر ہونا ہی دراصل کم کششِ ثَقل ہے۔
مرنے کے بعد جو عالَم ہے اس کو عالَمِ اَعراف کہتے ہیں۔ عالَمِ اَعراف کے بعد ایک اور عالَم ہے۔ اس عالَم کا قانون بھی یہی ہے کہ جس طرح جسمِ مثالی عالَمِ ناسوت سے اپنا رشتہ منقطع کر کے اور یہاں کا بنایا ہوا لباس چھوڑ کر عالَمِ اَعراف میں ایک نیا لباس بناتا ہے اسی طرح عالَمِ اَعراف سے نکل کر عالَم حشر و نشر میں ایک نیا لباس بناتا ہے۔
عالَم حشر و نشر کی جو فضا ہے وہ عالَمِ ناسوت اور عالَمِ اَعراف سے یکسر مختلف ہے وہاں روشنیوں کا ہالہ اور زیادہ طاقتور ہے۔ عالَم حشرو نشر میں ذہنی رفتار اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ جسم مثالی کی ریکارڈ کی ہوئی زندگی سامنے آجاتی ہے۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ہر آدمی کے ہاتھ میں اس کا نامہ اعمال ہوگا اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔
عالَم حشر و نشر کے بعد یومُ المیزان ہے۔ یومُ المیزان میں اس روشنیوں کے بنے ہوئے جسم کے اوپر نُور کا ایک ہالہ آجاتا ہے، یہی وہ نُور ہے جس نُور سے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
کوئی آنکھ اللہ کا اِدراک نہیں کر سکتی اللہ اِدراک بن جاتا ہے (سورۃ الأنعام – 103)
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر یہ ہے کہ جب کوئی بندہ الم کے اِدراک سے دیکھتا ہے تو اس کی پہلی نظر یومُ المیزان پر پڑتی ہے۔ یومُ المیزان کے بعد جنّت یا دوزخ کے عالَم ہیں۔
زندگی عالَمِ ناسوت کی ہو، عالَمِ اَعراف کی ہو، عالَمِ حشر و نشر کی ہو یا جنّت اور دوزخ کی ہو….. اس زندگی کا دارومدار تقاضوں کے اوپر ہے۔
یہ بات قانون ہے کہ:
تقاضوں کے اجزائے ترکیبی یا عناصر علم ہیں…. جب تک کسی تقاضے کی تکمیل کیلئے علم مَوجود نہیں ہوگا…. تقاضہ زیر بحث نہیں آئے گا۔
زندگی کا ایک بنیادی تقاضا بھوک اور پیاس ہے اگر بھوک کے بارے میں ہمیں یہ علم حاصل نہ ہو کہ بھوک زندگی گزارنے اور زندگی کو قائم رکھنے اور زندگی کو متحرک رکھنے کیلئے ایک علم ہے تو ہم بھوک سے نا آشنا ہوں گے۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اور جسمانی نشوونما کیلئے کچھ کھانا ضروری ہے۔ کچھ کھانا دراصل ایک علم ہے اور اس علم کے اَندر یہ بات مَوجود ہے کہ کن چیزوں کے کھانے سے جسمانی صحت بحال رہتی ہے اور کن چیزوں کے استعمال سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس علم کا مجموعی نام تقاضا ہے۔
یہی صورت حال پیاس کی ہے، غیض و غضب کی ہے، رحمت و محبت کی ہے، نیند اور خواب کی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ کہنا درست ہے کہ جب تک کسی چیز کا علم ہمیں حاصل نہیں ہوتا ہم اس چیز سے واقف نہیں ہوتے۔
علم کیلئے ضروری ہے کہ:
1. اس کا کوئی سورس ہو….
2. اور یہ بھی ضروری ہے کہ اُس سورس سے حاصل شدہ علوم کیلئے کوئی ایسی ایجنسی مَوجود ہو جہاں علم آکر ذخیرہ ہو….
3. اِس کے بعد یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسی ایجنسی مَوجود ہو جو اس علم کے اَندر معانی پہنا سکے…. اور
4. آخری حد میں ایسی ایجنسی کا مَوجود ہونا لازم ہے جس پر علم کا مظاہرہ ہو سکے۔
آدمی کو بھوک لگی یعنی اس کو یہ اطلاع ملی ہے کہ اب جسم کو کچھ کھانے کی ضرورت ہے۔ جس ایجنسی نے یہ اطلاع قبول کی اس نے اس علم کے اَندر معانی پہنائے۔ وہ یہ ہے کہ روٹی کھانی چاہئے، پھل کھانے چاہئیں اور اس اطلاع کو جسمِ مثالی نے قبول کر کے مظاہرہ کیا اور آدمی نے یہ محسوس کیا کہ اس نے روٹی کھالی ہے۔
جہاں تک جسمانی تقاضے پورا کرنے کا تعلق ہے وہ عالَمِ ناسوت ہو یا عالَمِ اَعراف ہو یا عالَم دوزخ یا عالَم جنّت ہو ایک ہی صورت واقع ہو رہی ہے۔
• جنّت اس لئے جنّت ہے کہ وہاں دودھ اور شہد کی نہریں ہیں۔ جنّت میں پھل ہیں اور آدمی کی آسائش اور آرام کیلئے بے شمار وسائل ہیں۔
• دوزخ اس لئے دوزخ ہے کہ وہاں ایسے وسائل میں آدمی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جو تکلیف دہ ہیں۔
بات وہی علم کی ہے کہ علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو وہ اتنا پابند اور مجبور ہے کہ وہ ایک گھنٹہ میں تین میل کا سفر طے کرتا ہے اور اگر کوئی آدمی چاہے تو وہ اتنا آزاد اور خودمختار ہے کہ وہ ایک قدم اٹھا کر جب دوسرا قدم رکھتا ہے تو یہ سفر ساتوں آسمانوں پر محیط ہوتا ہے یعنی آدمی نے بیٹھے ہوئے یہ ارادہ کیا کہ عرشِ معلیٰ پر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوں اور ارادے کے ساتھ ہی اس کے سامنے یہ بات مشاہدہ بن جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفاتِ حمیدہ کے ساتھ عرش پر مَوجود ہیں اور بندہ ان کے سامنے سر بسجود ہے۔
یہ کہنا کہ انسان رُوحانی طور پر آسمانوں کی سیر نہیں کر سکتا یا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہو سکتا یا کہنا کہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا اتنی بڑی جہالت اور اتنا بڑا ظلم ہے کہ جس کے سامنے کوئی بڑی جہالت اور کوئی بڑا ظلم نہیں آسکتا۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک انسان روشنیوں کے دوش پر امریکہ سے کراچی منتقل ہوجاتا ہے…. بلا کسی فاصلہ کے بلا کسی وقفہ کے وہ بات امریکہ میں کرتا ہے ہم ٹی وی پر اسے یہاں پاکستان میں دیکھتے ہیں، سنتے ہیں۔ یہ تذکرہ ہے وسائل میں محدود رہتے ہوئے ترقی کا۔
کوئی بندہ اگر اپنے اَندر اس صلاحیت سے واقف ہوجائے جس صلاحیت نے ٹی وی ایجاد کر دیا تو اس کیلئے یہ کس طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ دنیا کے اس کونے سے اس کونے میں یا اس عالَم سے اس عالَم میں اپنے ارادہ اور اختیار سے منتقل ہوجائے؟
پہلے جو باتیں جادو اور طلسمات کے نام سے مشہور تھیں اور جن کو ہم مضحکہ خیز کہانی قراردیتے تھے آج وہی سب چیزیں ہماری آنکھوں کے سامنے مَوجود ہیں۔ آدمی کس قدر عجیب ہے…. ایک طرف اتنا بے بس اور مجبور ہے کہ سو قدم کی آواز نہیں سن سکتا اور دوسری طرف اتنا آزاد ہے کہ اپنی ہی ایجادات کے ذریعے ہزاروں میل کی آواز سن لیتا ہے۔
قرآن پاک میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کھانا جنّت میں میسر ہے اور کھانا دوزخ میں بھی میسر ہے۔ جنّت کا کھانا دودھ، شہد، پھل فروٹ ہے اور دوزخ کا کھانا زقوم، تھوک اور ایسی غذائیں ہیں جن سے آدمی کے اَندر کراہت پیدا ہوتی ہے۔ بتانا یہ ہے کہ کھانے کا علم دونوں جگہ مَوجود ہے کھانے کے اسباب اور سامان بھی دونوں جگہ مَوجود ہیں۔ لیکن دونوں کی مَعنویّت الگ الگ ہے۔ جنّت کا کھانا اس لئے اچھا ہے کہ اس میں مَعنویّت اچھی ہے بھوک کا جو علم ہے اس علم کے اَندر جو مفہوم ہے وہ آرام و آسائش کا ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس، دوزخ کے اَندر بھوک کا جو علم ہے اس کے اَندر کراہت پشیمانی، تکلیف اور آہ و بکا ہے۔
مختصر طور پر اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ یہ ساری کائنات دراصل ایک علم ہے۔ علم کی طرزیں یہ ہیں کہ اس میں معانی پہنائے جاتے ہیں۔ جسم مثالی ایک ایسی ایجنسی ہے جو علم میں معانی پہناتی ہے۔ جب آدمی عالَم اَرواح سے نزول کر کے اِس دنیا میں وارِد ہوتا ہے تو جسمِ مثالی اِس عالَم کے اَندر ایسے معانی اور مفہوم اخذ کرتا ہے جس میں آدمی قید ہے بند ہے گرفتار ہے ہر ہر قدم قید و بند میں بندھا ہوا ہے جسمِ مثالی جب عالَمِ ناسوت سے بالفاظ دیگر اس گوشت پوست کے جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر کے دوسرے عالَم میں جاتا ہے اور وہاں کی فضا اور ماحول سے اپنے لیے ایک نیا لباس بناتا ہے تو اس کے معانی اور مفہوم بدل جاتے ہیں۔
پیدائش سے موت تک اور موت کے بعد کی زندگی میں اعراف، حشر و نشر، حساب و کتاب، جنّت و دوزخ اور اللہ تعالیٰ کی تجلی کا دیدار سب کا سب یقین کے اوپر قائم ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آدمی کو سب سے پہلے اس بات کا یقین پیدا ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہے وہ مَوجود ہے اس کے اَندر عقل و شعور کام کرتا ہے وہ ایک حد تک با اختیار ہے اور بڑی حد تک اس کے اوپر غیر اختیاری کیفیات نازل ہوتی رہتی ہیں۔
علیٰ ہٰذا القیاس زندگی کے بنیادی عوامل اور وہ تمام محرکات جن پر زندگی رواں دواں ہے انسان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ اگر ہم بنیاد پر نظر ڈالیں تو زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب آدمی پیدا ہوتا ہے اور پیدائش پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ لاکھوں سال کے طویل عرصے میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ہوا جو اپنے ارادے اور اختیار سے پیدا ہو گیا ہو۔ پیدا ہونے والی ہر چیز، پیدا ہونے والا ہر فرد ایک وقت متعیّنہ کیلئے اس دنیا میں آتا ہے اور جب وہ وقت پورا ہوجاتا ہے تو آدمی ایک سیکنڈ کیلئے بھی اس دنیا میں ٹھہر نہیں سکتا، مر جاتا ہے۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں سوچ بچار تفکر یا ذہنی گہرائی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر لمحہ، ہر آن، ہر منٹ، ہر سیکنڈ یہ صورت حال واقع ہورہی ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے پیدا کرتے ہیں، چاہتے ہیں تو آدمی صحت مند پیدا ہوتا ہے نہیں چاہتے تو آدمی کی نشوونما میں ایسا سقم واقع ہوجاتا ہے کہ اس کے اعضاء صحیح ہوتے ہیں نہ اس کا دماغ صحیح ہوتا ہے۔ اس کی نظر بھی صحیح کام نہیں کرتی۔ ہاتھ پیروں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی چیز کو پکڑ نہیں سکتا، اپنی مرضی سے چل پھر نہیں سکتا۔ سائنس کتنی بھی ترقی کرلے پیدائشی اپاہج اور معذور بچوں کا علاج اس کے پاس نہیں ہے اور اس قسم کے معذور بچوں کو یہ کہہ کر ردّ کیا جاتا ہے کہ یہ پیدائشی معذور ہیں…. یہاں بھی انسان کی بے بسی اور بے اختیاری اظہر من الشمس ہے۔
انسان کے اصل جسم سے واقفیت کیلئے سلسلۂِ عظیمیہؔ کا قیام عمل میں آیا۔ سلسلۂِ عظیمیہ ایک مشن ہے جو ہمارے مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے حکم سے شروع ہوا۔ اور ہمارا مشن یہ ہے کہ آج کا انسان بے سکون ہے، اسے سکون سے آشنا کیا جائے۔ ہم لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ غم، غصہ، نفرت، تفرقہ اور غیبت سے بچو۔ اپنی رُوح، جسم مثالی سے واقف ہو، تاکہ اشرف المخلوقات اور انسانیت کا شرف جو ذاتِ باری تعالیٰ کے اِدراک و عرفان سے بخشا گیا ہے اس سے مشرف ہُوا جاسکے۔
اس مقصد کیلئے ہم نے سب سے پہلے کراچی میں ایک سینٹر قائم کیا اور اسے مراقبہ ہال کا نام دیا۔ اس کے بعد بتدریج پورے ملک حتیٰ کہ پوری دنیامیں ایسے مراکز یعنی مراقبہ ہالز قائم کئے گئے جہاں پر لوگوں کو جسمانی اور رُوحانی تعلیم دی جاتی ہے اور یہ سب فی سبیل اللہ ہے۔ میری آپ سب لوگوں سے درخواست ہے بلکہ تاکید ہے کہ آپ لوگ” متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مظبوطی کے ساتھ پکڑ لو “ کی تفسیر بن جائیں۔
السّلام علیکم!
خواجہ شمس الدین عظیمی
اِنتساب
اُس جبلِ نور کے نام…..
جہاں
سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما
کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا