Topics
آخر میں سب کی کاجنے اور چائے کے ساتھ
تواضع کی گئی ۔ مغرب کے وقت تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
میٹنگ کے اختتام پر مرشد ِ کریم نے
خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا!
السّلام و علیکم و رحمتہ اللہ و
برکاتہ
آج یہاں آپ کا اللہ کے نام پر اور
اللہ کے عرفان کی تلاش میں آنا، میرے لئے باعثِ افتخار ہے، باعثِ عزت ہے اور اللہ
کا شکر ہے۔
عزیزانِ گرامی!
سلسلۂِ عظیمیہ کی جب بنیاد رکھی گئی
تو حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے ارشاد فرمایا،
“خواجہ صاحب! سلسلہ
آپ کو چلانا ہے۔”
اس وقت میرے ذہن میں صرف یہ بات تھی
کہ سلسلے کے سربراہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ دستارِ فضیلت اور گوشہ نشینی کے آداب سے
واقف ہو، اونچی جگہ پر لباسِ فاخرہ پہن کر بیٹھنے والا بندہ ہو۔ اس کے آگے پیچھے
بہت سارے لوگ ہوں۔ جو لوگ سامنے ہوں وہ سرنگوں ہوں اور جو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں ان
کی اَندر اتنی جرأت نہ ہو کہ وہ آنکھ اُٹھا کر مرشد کے چہرے کو دیکھ سکیں۔ مقصد یہ
ہے کہ میرے ذہن میں سلسلے کے بڑوں کیلئے ایک ماورائی ہستی کا تصوّر تھا۔ یہ بات
بالکل بھی نہیں تھی کہ مرشد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اَندر بھی کچھ ہوتا ہے
اور یہ بات بھی میرے ذہن میں نہیں تھی کہ زندگی میں کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ انسان
کی اصل زندگی باطنی زندگی ہے اور ظاہرہ زندگی مفروضہ اور فکشن ہے۔
یہ سب کچھ سوچ کر حضور قلندر بابا
اولیاءؒ سے عرض کیا کہ صاحب ! آپ نے ایک ایسی عجیب بات فرمائی ہے کہ جس کا تصوّر
بھی میرے ذہن میں نہیں ابھرتا، اس لئے کہ اگر رُوحانی استاد کیلئے یہ ضروری ہے کہ
وہ اچھا مقرّر ہو تو تقریر مجھے نہیں آتی۔ اگر مرشد کیلئے ضروری ہے کہ اسے کچھ
لکھنا آتا ہو تو لکھنا مجھے نہیں آتا۔ اگر مرشد کے لئے ضروری ہے کہ اس کی معلومات
عام لوگوں کی معلومات سے زیادہ ہوں تو میں نے تو کبھی سکول کے اَندر قدم ہی نہیں
رکھا۔ اگر مرشد کا مطلب یہ ہے کہ اُس کے اَندر رُوح کی بالیدگی ہو، اس کو رُوحانی
پرواز حاصل ہو تو میں نے یہ بات کبھی نہیں سنی ۔ میں نے جس ماحول میں نشونما پائی
وہاں رُوح کا تصوّر مجھے نہیں ملا کہ مادّی جسم کے علاوہ بھی کوئی اور جسم ہے؟
میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں معروضات
پیش کئے تو حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا کہ،
قانون یہ ہے کہ:
“جب اللہ تعالیٰ
کسی کو نوازنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتے کہ:
• آدمی میں کتنی
صلاحیت اور سکّت ہے؟ …. اور
• آدمی کتنا کام کر
سکتا ہے….
اللہ تعالیٰ کا اپنا مزاج، اپنی ایک
عادت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو نوازتے ہیں تو بندے کے اَندر از
خود تمام صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ وہ اگر گونگا ہے تو بولنے لگتا ہے، بہرہ ہے تو
سننے لگتا ہے۔ اُس کے اَندر قوت پرواز نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بال و پَر دے
دیتا ہے ۔ اگر وہ بد صورت ہے تو لوگوں کو وہ خوبصورت نظر آتا ہے ۔ اگر اُس کا تکلم
اچھا نہیں ہے تو اُس تکلم میں ایسی شیرینی اور حلاوت اللہ تعالیٰ داخل کردیتا ہے
کہ سننے والے اُس کے حکم کا انتظار کرتے ہیں۔ زمین پر بسنے والوں اور آسمانوں میں
رہنے والوں کیلئے اس کا لہجہ ایک تاثیر بن جاتا ہے ۔ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے
سنتے ہیں۔ اُس کے چہرے پر اَنوار و تجلیات کی ایسی چادر تَن جاتی ہے کہ لوگ اسے
تکتے رہتے ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ کیا دیکھ رہے ہیں۔
یہ اللہ کے معاملات ہیں۔ سلسلہ تو
اللہ نے چلانا ہے۔ اور جو چیز اللہ نے چلانی ہے اسے چلانے کیلئے اللہ وسائل دے
دیتا ہے۔ آپ کو کچھ نہیں کرنا۔
آپ کو یہ نہیں سوچنا کہ میں یہ نہیں
کرسکتا، میں وہ نہیں کر سکتا ۔ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو ڈیوٹی
لگ گئی ہے راضی بہ رضا ہو کر اللہ کے راستے پر قدم بڑھا دیں۔ اس کے بعد آپ کا کوئی
کام نہیں ہے۔
مرشدِ کریم نے توجّہ سے، تصرّف سے،
علم سے، گفتگو سے اور قربت سے میرے تربیت فرمائی۔ تربیت کا محور یہ ٹھہرا کہ صدیوں
پرانی روایات کو ختم کر کے نئی روایات میں زندگی گزارنی ہے اور وہ روایات یہ ہیں
کہ:
“انسان جو بھی کچھ
کرے…. جو بھی کچھ کہے…. وہ اللہ کیلئے ہو…. جو عمل بھی کرے اس میں اللہ کی مرضی
شامل ہو…. اپنی ذات کا عمل دخل نہ ہو۔”
صدیوں پرانے اس شعور نے اس بات کو
برداشت نہیں کیا۔ صدیوں پرانی روایات نے بغاوت کردی۔ ایک جنگ شروع ہوگئی ۔ ظاہر
اور باطن کی اس لڑائی نے بے جان اور نڈھال کردیا۔ بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔ شعور نے
بہت زیادہ مزاحمت کی۔ جب مزاحمت حد سے بڑھ گئی، تکلیف اتنی زیادہ ہوگئی کہ احساسِ
تکلیف ختم ہو گیا تو مرشد نے ایک دن سامنے بیٹھا کر فرمایا کہ:
“زندگی گزارنے کے
دو طریقے ہیں۔
خوش رہنے کے بھی دو طریقے ہیں۔
کچھ بننے کے بھی دو طریقے ہیں۔
کسی سے کچھ حاصل کرنے کے بھی دو طریقے
ہیں…. اور
کسی کو کچھ دینے کے بھی دو طریقے ہیں….
اور وہ دو طریقے یہ ہیں کہ….
①
انسان کے اَندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسروں سے اپنی
بات منواسکے…. انسان کے اَندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسروں کو اپنا ہم ذہن بنا سکے
…. انسان کے اَندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ صدیوں پرانی منفی روایات کو سینے سے نکال کر
زمین میں دفن کرسکے…. حقیقی اور مثبت روایات کو جاری و ساری رکھنے کیلئے ساری دنیا
کا مقابلہ کرسکے۔ اس طریقے کو دنیا والے(Independent)ہونا
کہتے ہیں، خود مختار زندگی کہتے ہیں۔ یعنی جو آپ چاہتے ہیں وہ دوسروں سے منوالیں ۔
جو آپ خود ہیں وہ دوسروں کو بنا دیں ۔
②
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی نفی کر دیں یعنی Independent زندگی کو داغِ مفارقت دے
کر Dependent ہوجائیں
۔ دوسروں کے اوپر خود کو چھوڑ دیں۔
یاد رکھئے! آپ کی ساخت اور تخلیق کا
قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے…. وہ فطرت Independent نہیں ہے۔ آپ کی ساخت ہی
اس بنیاد پر ہے کہ آپ Dependent ہو
کر زندگی گزار سکتے ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ آپ Independent زندگی سے کنارہ کش
ہوجائیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں۔ آپ کے اَندر یہ صلاحیت نہیں ہے
کہ آپ کسی کو اپنا بنالیں…. آپ کے اَندر یہ صلاحیت بدرجہ اَتمّ مَوجود ہے کہ آپ
دوسرے کے بن جائیں۔”
بات بہت گہری تھی…. جیسے کہ آ پ لوگ
محسوس کررہے ہوں گے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا، یہ کیا بات ہوئی کہ اپنے آپ کو کیسے
دوسروں کے سپرد کردیں۔ اپنی ذات اور انا کو کس طرح ختم کردیا جائے۔ بہرحال میں نے
غور و فکر کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ…. مجھے خودمختار زندگی سے نجات عطا
فرما دے …. یہ بات اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور اس کے بھروسے پر میری سمجھ میں
آگئی کہ:
جب رُوحانی استاد اور مرشد پکڑا ہے….
جب یہ بات تسلیم ہے کہ مرشد نے ہی سب کچھ بنانا ہے…. تو تین سال کے بچے کی طرح خود
کو استاد کے سپرد کردینا چاہئے….
میں نے سوچا کہ….
مجھے تو یہ بھی علم نہیں ہے کہ علم
کیا ہے…!!
یہ بھی پتہ نہیں کہ کہاں سے آیا
ہوں….؟
یہ بھی نہیں معلوم کہ کہاں جانا ہے….؟
اس کا بھی سراغ نہیں ملتا کہ زندگی
کیا ہے….؟
صحیح اور غلط کیا ہے….؟
سانس کہاں سے آرہا ہے اور کہاں جارہا
ہے….؟
فکشن
(Fiction) ہے کیا؟ ․․․․․ مفروضہ کیا ہے؟ ․․․․․ اور
حقیقت کیا ہے؟
بہر حال میں نے یہ بات طے کر لی کہ
مجھے اب Independent زندگی
نہیں گزارنی….
جو کچھ کہا جائے گا اس پر عمل کیا
جائے گا…..
بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے …. تعمیل
ہوگی۔
شعور اور لاشعور کے درمیان اس پر
مزاحمت شروع ہوگئی ۔ اس طرزِ فکر کی تبدیلی میں دس سال لگے ۔ دس سال شعور اور
لاشعور کی محاذ آرائی جاری رہی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سیدنا حضور علیہ
الصّلوٰۃ والسّلام کی خصوصی توجّہ اور نسبت سے شعور نے مزاحمت ختم کر دی۔
دس ساس کے بعد ذہن کی اُفتاد یہ بنی
کہ جو کچھ کہا جاتا تھا بس وہی کچھ تھا…. اور
جو کچھ نہیں کہا جاتا تھا وہ کچھ بھی
نہیں تھا….
ذہن کے اَندر کوئی خیال ہی نہیں آتا
تھا…. ایسا لگتا تھا کہ ذہن ٹھہرے ہوئے سمندر کی طرح ہو گیا ہے۔ جو بات جتنی کی
جاتی…. بس اُتنی سمجھ آجاتی۔ لفظوں کا کوئی مفہوم ذہن میں آتا تھا …. نہ کوئی
معانی سمجھ میں آتے تھے…. نہ اس کے پیچھے کسی حکمت کی سمجھ آتی تھی۔ اُنہوں نے کہا
درخت …. یہ درخت ہے…. کونسا درخت ہے اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے….!
تربیت کا یہ سلسلہ اس تجاوز کر کے 16
سال تک دراز ہوگیا۔ 10 سال اذیّت کے دَور میں گزر گئے اور 6 سال اس اذیّت کو
بھولنے میں صرف ہوگئے ۔ 16 سال کے عرصے میں ذہن کی رفتار میں تیزی آئی۔
اُفتادِ طبیعت میں تبدیلی بھی آئی اور
تبدیلی یہ آئی کہ….
کہیں کچھ نہیں ہے۔ جہاں بھی ہے…. جو
بھی ہے…. اللہ ہے….
اللہ ہی ہر شے پر محیط ہے۔ اللہ چاہتا
ہے تو بندہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اللہ چاہتا ہے تو بندہ جوان ہوجاتا ہے اور جب اللہ
چاہتا ہے بندہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ پیدا ہُوا، جوان ہُوا، بوڑھا ہُوا
مرگیا…. یہی کائنات کی زندگی ہے۔ پیدا ہُوا تو کچھ ساتھ نہیں لایا۔ مَرا تو کچھ
ساتھ نہیں لے گیا۔ محلات بنائے، کارخانے لگائے، دکانیں سجائیں، روزگار کے حصول میں
جدوجہد کی۔ دنیا بھی خراب کی ….. عاقبت بھی خراب کی…. اچھا آیا تھا…. بُرا چلا
گیا…. کومل معصوم بچہ کرخت اور خشک چہرہ بن گیا….!!
یہ بات 16 سال میں سمجھ میں آئی ۔ آپ
سب سمجھدار ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہاں کوئی آدمی نہ کچھ لے کے آتا ہے نہ کچھ لے کے
جاتا ہے ۔ لیکن اس بات کا یقین آدمی کے اَندر پیدا نہیں ہوتا۔ یہ یقین پیدا ہونے
کے لئے کہ…. آدمی یہاں کچھ لے کر نہیں آتا اور کچھ لے کر نہیں جاتا…. مقصدِ حیات
کو سمجھنے اور اس یقین کو مستحکم ہونے کے لئے…. 16 سال کی زندگی صَرف ہوئی وہ بھی
انفرادی زندگی نہیں ہے…. مرشد کی قربت کی زندگی ہے۔ شب و روز مرشدِ کی قربت نے
یقین کا یہ پیٹرن (Pattern) تخلیق
کیا کہ انسان نہ پیدا ہونے پر با اختیار ہے اور نہ اسے زندہ رہنے پر قدرت حاصل ہے۔
با اختیار تو وہ تب ہو جب اُسے علم ہو کہ مجھے پیدا ہونا ہے۔ اُسے اِس بات کا بھی
علم نہیں ہے کہ مجھے پیدا ہونا ہے…. سید کے ہاں پیدا ہونا ہے…. پٹھان کے ہاں پیدا
ہونا ہے…. شیخ کے یہاں پیدا ہونا ہے…. کسی چمار کے گھر پیدا ہونا ہے…. جاپان میں
پیدا ہونا ہے…. امریکہ میں پیدا ہونا ہے…. پاکستان میں پیدا ہونا ہے۔
جب اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ کہاں
پیدا ہونا ہے تو با اختیار ہونا کسی طرح زیر بحث نہیں آتا۔
آپ پیدا ہوگئے…. جہاں اللہ نے چاہا ….
چمار کے ہاں چاہا…. چمار کے ہاں پیدا ہوگئے…. بادشاہ کے ہاں چاہا…. بادشاہ کے ہاں
پیدا ہوگئے…. چپٹی ناک سے پیدا کردیا…. آپ چپٹی ناک سے پیدا ہوگئے …. کھڑی ناک سے
پیدا کردیا…. آپ کھڑی ناک سے پیدا ہوگئے۔ آپ کو اللہ نے کوتاہ قد کردیا تو کوتاہ
قد ہوگئے…. دراز قد کردیا تو دراز قد ہوگئے…. کالا بنا دیا تو آپ کالے پیدا
ہوگئے…. گورا اللہ نے بنا دیا تو آپ گورے پیدا ہوگئے۔
آپ جتنا بھی غور کریں گے آپ کو یہی
جواب ملے گا کہ پیدا ہونے پر کوئی شخص کوئی فرد کسی بھی طرح بااختیار نہیں ہے۔
بےاختیار آدمی پیدا ہوگیا۔ اُسے اِس بات کا بھی اختیار نہیں ہے کہ پیدا ہونے کے
بعد وہ جوان ہوجائے ۔ اگر پیدا ہونے کے بعد سال میں، دو سال میں اس پر موت وارِد
ہوگئی تو جوانی نہیں آتی ۔ آپ نے دیکھا ہوگا…. کیا جوان ہونے سے پہلے لوگ نہیں
مرتے؟ جوان ہونے کے بعد بھی مرجاتے ہیں۔ بڑھاپا آنے سے پہلے بھی مر جاتے ہیں اور
بڑھاپا آنے کے بعد بھی نہیں مرتے ۔ اس کا مطلب یہی نکلا کہ آپ کو جس طرح پیدا ہونے
پر کوئی اختیار نہیں اسی طرح مرنے پر بھی آپ کو کوئی اختیار نہیں ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء ؒ ارشاد
فرمایا کرتے تھے کہ انسان بے وقوف ہے کہ موت سے ڈرتا ہے اور موت ہی انسان کی سب سے
بڑی محافظ ہے۔
وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ
مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ (سورۃ الأعراف – 24)
ترجمہ: اور تم سب کیلئے زمین کے اندر
ایک وقت تک ٹھکانہ اور بندوبست ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر
کردیا ہے اس زمین پر رہنے کیلئے….
موت مرنے نہیں دیتی جب تک وقت کا
تَعیّن پورا نہیں ہوتا۔ مَلک الموت کی جہاں یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ رُوح قبض کرے…. مَلک
الموت کی یہ بھی ڈیوٹی ہے کہ وقت مُعیّنہ سے پہلے کسی بھی آدمی کو اس دنیا سے باہر
نہ جانے دے۔ انسان کی سب سے بڑی محافظ اُس کی موت ہے اور انسان اپنی سب سے بڑی
محافظ سے ہی ڈرتا رہتا ہے۔ موت سے آپ ڈریں یا نہ ڈریں اگر عمر باقی ہے تو مَلکُ
المَوت بھی آپ کی طرح مجبور ہے۔ اور اگر وقت آ گیا ہے تو آپ ایک سیکنڈ بھی دنیا
میں نہیں رہ سکتے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس حقیقت سے دنیا کا کوئی ایک فرد بھی
انکار نہیں کر سکتا۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا ہے
کہ زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں:
1.
Independent زندگی گزارنا…. اور
2.
Dependent زندگی گزارنا….
جب آپ کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ
میری عمر کتنی ہے۔ دو سال ہے…. ۱۰سال
ہے…. ۸۰
سال… ۹۰
سال…. ۱۰۰
سال…. تو حساب کتاب کیا لگانا ۔ اللہ نے جب بھیج دیا آگئے ۔ بلا لیا چکے جائیں گے….
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
Independent زندگی…. Dependentزندگی…. یہ دو ایسے رخ
ہیں کہ اگر آدمی Independent زندگی
گزارے گا تو اس کا تعلق اللہ سے قائم نہیں ہوگا۔ اللہ رسیدہ بندے Dependent زندگی گزارتے ہیں۔ اللہ
تک رسائی اور عرفان حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی رُوح سے واقف ہوں۔مَنْ
عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ ….جس نے اپنی رُوح کو پہچان لیا اس نے اللہ
کو پہچان لیا ۔ اللہ کو تو کسی نے دیکھا نہیں ہے۔ رُوح کو کسی نے نہیں دیکھا تو
اللہ کو بھی نہیں دیکھا۔ اللہ کی صفات کے مظاہراتی خدوخال میں مرشد کی ذات ہے۔ اگر
اللہ تک پہنچنا ہے، اس دنیا کے بعد دوسری دنیاؤں میں داخل ہونا ہے تو اپنے رُوحانی
استاد کی راہنمائی میں راستہ چلیں۔ خود کو مرشد کی ذات سے وابستہ کردیں۔ مرشد پہ
خود کو نثار کر دیں۔
روحانیت کا اصل اصول یہ ہے کہ مرید
مرشد کی ذات میں فنا نہیں ہوگا تو مرشد کی طرزِ فکر اس کے اَندر منتقل نہیں ہوگی۔
اِس لئے کہ مرشد کی طرزِ فکر اگر دودھ
کی اور گلاب کی طرح ہے تو اس کے اَندر دودھ یا گلاب کے سمانے کیلئے ظرف چاہئے….
پیالہ چاہئے ۔
مرشد کی ذات ایک مخصوص Pattern ہے….
مرید کے اَندر پہلے سے ہی ایک پیٹرن
بنا ہوا ہے…. اُس کے اَندر پیالہ پہلے ہی سے بھرا ہُوا ہے….
جس پیالے میں کثافت، گندگی، کیچڑ بھرا
ہوا ہے، اُس مں آپ گلاب کیسے ڈال سکتے ہیں….!!
بغیر منجھے ہوئے پیالے میں آپ دودھ
کیسے انڈیل سکتے ہیں….!!
ضروری ہے کہ پہلے پیالے کو خالی کیا
جائے….
پھر اس پیالے کو مانجھ کر صاف کیا
جائے….
قلعی کیا جائے…. اور ….
اِس کے بعد اس میں دودھ یا گلاب ڈال
سکتے ہیں یا شہد ڈال دیں…. یہ آپ کی مرضی ہے ۔
مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ
نے فرمایا:
روحانیت سیکھنے سکھانے سے نہیں آتی۔
رُوحانی علوم الف۔ ب۔ ت کی طرح قاعدہ میں نہیں پڑھائے جاتے۔ رُوحانی علوم سیکھنے
کیلئے قلم اور تختی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ رُوحانی علوم سیکھنے کیلئے کتابی صورت
میں ابھی تک کوئی قاعدہ مرتّب نہیں ہوا ہے۔ کوئی کتاب نہیں بنی۔ آپ جو کتابیں
پڑھتے ہیں اولیاء اللہ کے واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں، سب کا خلاصہ یہ ہے کہ….
شاگرد اس وقت تک تعلیم حاصل نہیں کرتا
جب تک وہ خود کو رُوحانی استاد کے سپرد نہیں کردیتا….
آپ لوگوں نے کبھی اِس پر سوچا کہ
رُوحانیت ہے کیا؟
روحانیت کا مطلب ہے اللہ کے ساتھ آپ
کا تعلق اس طرح قائم ہوجائے کہ….
آپ کی سوچ اپنی نہ رہے…. آپ کی سوچ
اللہ کی سوچ کے تابع ہوجائے۔
وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ
يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا (آل عمران – ۷)
جن لوگوں کے اَندر الٰہی صفات کی
منتقلی کا پیٹرن بن جاتا ہے اور اللہ کی طرزِ فکر ان کے اَندر مستحکم ہوجاتی ہے
اور اپنی ذات کی نفی کر دیتے ہیں…. وہ کہتے ہیں…. ہم نے اس کا مشاہدہ کرلیا ہے
کہ…. یہاں ربّ کے علاوہ کچھ نہیں ہے…. ہرچیز اُسی کی طرف سے ہے۔
میں نے اپنے مرشدِ کریم حضور قلند
بابا اولیاءؒ کی اس بات پر عمل کیا اور Independent …. خودمختار
زندگی…. سے نجات حاصل کرکے اپنے مرشد کے اوپر….
Dependent ہوگیا۔ نتیجہ کے طور پر اللہ کا عرفان حاصل
ہوگیا۔
میں نے اس بات پر عمل کیا…. آپ کو پتہ
ہے، میں نے اس بات پر کیوں عمل کیا․․․․․؟
اِس لئے کیا کہ میں اپنے مرشد کی،
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی ہر بات کو آخری بات سمجھتا ہوں۔
مرشدِ کریم کے وصال کے بعد میں تنہا
رہ گیا۔ تنہائی دُور کرنے کیلئے ایک ہی بات تھی کہ تصوّر میں اتنا غرق ہوجاؤں کہ
کوئی دوسری بات یاد ہی نہ رہے۔ تصوّر میں بارہا ایسا ہوا کہ میں اپنی ٹانگ خود ہی
دبائے جارہا ہوں اور ذہن میں یہ ہے کہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی ٹانگ دبا رہا
ہوں۔ ایسے بے شمار واقعات اس دوران تصوّر میں مرشدِ کریم کے اَندر غرق ہونے کے پیش
آئے۔
پھر میں دربار پر رہنے لگا اور دربار
پر بھی تصوّر میں غرق رہتا ۔ ایک بے خودی کی کیفیت ہر وقت طاری رہتی ۔ مرشد سے
بچھڑنے کا غم دنیا میں سب سے زیادہ غم محسوس کر کے ہَمہ وقت مرشد میں گم رہتا ۔
تاکہ مرشد سے دُوری محسوس نہ ہو۔
میرے دربار پر رہنے اور تصوّر میں ہمہ
وقت گم رہنے سے میرے زندگی کے باقی تمام امور انتہائی طور پر ڈسٹرب ہوگئے۔
آخر ایک دن مرشدِ کریم حضور قلندر
بابا اولیاءؒ نے فرمایا:
“میرے لئے بیوی اور
بچوں سے محبت کرو۔”
اور میں نے پھر یہ کیا۔
آہستہ آہستہ زندگی بحال ہوئی۔ کچھ غم
کم ہوا… اور زندگی کے عوامل پھر روٹین میں پورے ہونے لگے۔
پھر میں سلسلے کو لے کر چل پڑا۔ میں
جیسے جیسے آگے بڑھتا رہا وسائل بھی بڑھتے رہے۔ پہلی مرتبہ جب مجھے امریکہ بلوایا
گیا تو میں عبید اللہ درانیؒ صاحب سے مشورہ کیلئے پشاور گیا، انہوں نے کہا کہ
“سلسلے کی کامیابی آپ کی پیشانی پر لکھی ہے۔”
پھر ہمیں(KDA)میں جگہ مل گئی ۔ جب تقریر کیلئے مجھے بلوایا گیا تو میں نے سوچا کہ میں کیا بولوں، ذہن میں آیا جو اللہ کہے وہ کہہ دو ۔ پھر میں نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ آئندہ چل کے ہم بچ
خواجہ شمس الدین عظیمی
اِنتساب
اُس جبلِ نور کے نام…..
جہاں
سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما
کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا