Topics

سیشن برائے رُوحانی سوال و جواب

مرشدِ کریم حضور خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے ساتھ سلسلۂِ عظیمیہ کے دوستوں نے مختلف اوقات میں، مختلف مقامات پر لاہور کے اَندر، ذاتی اور اجتماعی نشست و برخاست میں رُوحانیت کے عمیق موضوع پر اپنی فکر کو وسعت دینے کیلئے اور مرشدِ کریم کی طرزِ فکر کو اختیار کرنے کیلئے، سوالات کئے جن کے جوابات مرشدِ کریم نے اپنے مخصوص اندز میں دئیے۔ نوع ِ انسانی کیلئے مرشدِ کریم کے عمل کا یہ ورثہ، اس کی بھلائی کیلئے عام کیا جا رہا ہے۔ قارئین کیلئے یہ سوالات اور جوابات دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ یہ تمام سوالات سلسلے کے بہن بھائیوں نے مراقبہ ہال لاہور کے زیرِ اہتمام مختلف مقامات پر کئے جن میں جامعہ عظیمیہ و مراقبہ ہال کاہنہ نَو لاہور، مراقبہ ہال برائے خواتین سمن آباد، مراقبہ ہال مزنگ اور کچھ نجی تقریبات شامل ہیں۔ یہ سوالات ۱۹۹۵ء  سے لیکر ۲۰۰۲ء تک کے عرصہ پر مشتمل تھے مگر کانٹ چھانٹ کر کے ان میں سے کچھ اہم سوالات اور ان کے جوابات آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین!

سوال: سلسلۂِ عظیمیہؔ کے بنیادی ڈھانچہ کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں؟

جواب:

دنیا میں تقریباًدو سو سلاسل مَوجود ہیں۔ ہر خطے میں ہر ملک میں کوئی نہ کوئی سلسلہ مشہور رہا ہے۔ برِّصغیر پاک و ہند میں چار سلسلے زیادہ مشہور ہیں۔

سلسلے سے مراد یہ ہے کہ:

    ماورائی علوم کو ترتیب و تدوین کے ساتھ بیان کرنا، اور

    بندے کا اللہ سے تعارف حاصل کرنا ہے….

دنیا میں جس طرح اور بے شمار سلاسل مَوجود ہیں اسی طرح ایک سلسلہ، سلسلۂِ عظیمیہ ہے۔

سلسلۂِ عظیمیہ کی جو تعلیمات ہیں وہ ان چاروں سلاسل کے عین مطابق ہیں۔ سلسلۂِ عظیمیہؔ کی تعلیمات کو مَوجودہ سائنس کی توجیہات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ بہت ساری باتیں ہیں کہ جو اگر اب سے پچاس سال پہلے کہہ دی جاتی تھیں تو شعور پر وزن پڑتا تھا۔ سائنس میں نئی نئی ایجادات اور نئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آنے سے اور فاصلے کم سے کم ہونے سے انسانی شعور میں بیداری پیدا ہوئی۔ شعور میں بیداری پیدا ہونے سے ذہنوں میں وسعت آئی ہے۔ جب شروع میں پتہ چلا کہ ٹیلی فون ایجاد ہوگا تو لوگوں نے مذاق اڑایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ پھر ٹیلی فون بن گیا۔ اس کے بعد ریڈیو آیا لوگوں نے اس کا بھی مذاق اڑایا مذاق اڑانے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے شعور میں اتنی سکت ہی نہیں تھی کہ وہ آنے والی ٹیکنالوجی کو قبول کر سکیں۔ پھر پتہ چلا کہ T.Vآئے گا اور وہ فلاں فلاں کام کرے گا۔ جتنی مخالفت ریڈیو اور ٹیلی فون کی ہوئی اتنی ٹی وی کی نہیں ہوئی کیونکہ لوگوں کے شعور میں یہ سکت آگئی تھی کہ وہ ٹی وی کو قبول کر سکیں۔ اس کے بعد کمپیوٹر آ گیا کمپیوٹر نے ڈاک کے نظام کو نہایت آسان کر دیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں جو مادّی تقاضے تھے وہ ختم کر دئیے کیونکہ مَوجودہ سائنسی دور نے انسانی شعور کو ترقی دی ہے۔

سائنس کے مطابق پانچ فیصد سیل دماغ کے کھلے ہیں اور باقی بند پڑے ہیں انسانی شعور کی ترقی اور وسعت کا یہ عالَم ہے کہ اب تو چھوٹا بچہ بھی دلیل کے بغیر کسی بات کو قبول نہیں کرتا۔ ایک بچہ میرے پاس آیا اور مجھ سے پوچھا اللہ میاں کہاں ہیں؟ ہر چیز نظر آرہی ہے، یہ ریڈیو ہے، یہ کرسی میز ہے…. نظر آرہے ہیں…. اللہ کیوں نہیں نظر آتا؟

رُوحانی سلسلوں کا تعلق چونکہ اَندرونی کیفیات اور ماورائی علوم کے ساتھ ہے اس لئے ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ ہر دَور میں انسانی سکت کے مطابق عوام کو، مخلوق کو، اللہ سے متعارف کرائیں۔ اسلئے ایسے سلسلے کی بنیاد رکھی جائے جو سائنسی علوم کے مطابق کام کرے۔ جو پرانے تمام سلسلوں کی تعلیمات کو سائنسی علوم کی روشنی میں لوگوں تک پہنچائے۔ اس طرح عظیمیہ سلسلہ وُجود میں آیا۔

سوال: اس سلسلۂِ عظیمیہ کے بانی کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب:

یہ بات یقینی ہے…. غیر مسلم تو اعتراض کر سکتے ہیں لیکن مسلمان نہیں کہ کوئی بھی سلسلہ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی اجازت اور منظوری کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔

عظیمیہ سلسلے کے بانی کا نام سید محمد عظیم برخیاؔ ہے۔ سید محمد عظیم نام ہے اور برخیاؔ شاعرانہ تخلص ہے۔ آپ خانوادۂِ اہلِ بیت ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری ؓ کی اولاد میں سے ہیں اور حضرت موسیٰ رضاؓ سے براہ راست فیض یافتہ ہیں۔ میں نے تقریباً (۱۶) سال ان کی خدمت میں تربیت حاصل کی اور جو کچھ ان سے سیکھا وہ اللہ کا پیغام، اللہ کی باتیں، لوگوں تک پہنچا رہا ہوں حالانکہ سارے درخت قلم بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائیں تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔

سوال: کیا آپ صرف پاکستان میں ہی رُوحانیت کی تعلیم دے رہے ہیں؟

جواب:

پاکستان کے علاوہ یورپ میں رُوحانیت کی بہت پذیرائی ہوئی۔ ساری دنیا میں ہمارے کل ۷۲ سینٹرز”مراقبہ ہال”ہیں۔ انگلش کے الگ اردو کے الگ۔ امریکہ میں چار سینٹر ہیں جہاں رُوحانی تعلیم دی جاتی ہے۔ امریکہ کے ہسپتالوں میں ہمارا ایک سبجیکٹ ہے “کلر تھراپی”اس پر کام ہو رہا ہے۔ وہاں وہ کلر تھراپی کے ذریعے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ وہاں ریڈیو،  ٹی وی میں ہمارے سلسلے اور کام کو کافی کوریج (Coverage) دی جاتی ہے۔

سوال : کیا رُوحانیت کو بطور Subject سکولوں یا کالجز میں پڑھانا چاہئے ؟

جواب:

سن فورڈ”یونیورسٹی میں انہوں نے ہم سے سلیبس مانگا تھا جو ہم نے انہیں دیا وہ منظور بھی ہو چکاہے اور انشا ء اللہ دسمبر میں کلاسز شروع ہوجائیں گی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے کہ یہاں کلاسز ہونی چاہئیں…؟ تو بھئی ہونی تو چاہئیں…. لیکن نہیں ہو رہیں….. حالانکہ یہاں بھی ضروت ہے۔ بے سکونی یہاں بھی ہے یورپ میں بھی ہے…. لیکن فرق ہے نالج کا…. نالج وہاں زیادہ ہوگا جہاں تعلیم ہوگی…. جہاں تعلیم ہوگی وہاں ہر چیز میں ترقی ہوگی…. جبکہ پاکستان میں ابھی بہت سے مسائل ہیں جو کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ یہاں تو ابھی روٹی کپڑا مکان کے مسائل سے نہیں نکل سکے۔ یہاں تولوگوں کے گھریلو مسائل ہی ختم نہیں ہوتے کہ وہ کسی اور طرف توجّہ دیں۔ پاکستان میں میرے پاس جو لوگ مسائل لے کر آتے ہیں وہ یہ ہوتے ہیں کہ:

    شادی بیاہ نہیں ہورہے….

    بچے نا فرمان ہیں….

    نوکریاں نہیں مل رہیں….

    میاں بیوی کے جھگڑے…. وغیرہ

جہاں پر لوگ ان مسائل سے آزادنہیں تو وہ رُوحانیت پر کیا توجّہ دیں گے نہ ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اب نوجوان طبقہ ہے…. وہ تعلیم یافتہ ہے اور رُوحانیت کو سمجھتا ہے اور اس کی طرف توجّہ دے رہا ہے۔

سوال : کیا رُوحانیت سیکھنے کیلئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ؟

جواب:

جی ہاں گریجویٹ ہونا ہر شعبے کیلئے بہت ضروری ہے اور رُوحانیت کیلئے تو تعلیم یافتہ ہونا بہت اہم ہے۔ کم از کم بی۔ اے ضرور کیا ہو….

شروع شروع میں جب ہم نے کم تعلیم یافتہ افراد کو رُوحانیت کی تعلیم دینا شروع کی تو وہ نہیں چل سکے…. صرف اپنی کم علمی کی وجہ سے کچھ سمجھ ہی نہ سکے۔ سائنس کے طالب عمل ہماری بات زیادہ اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔

بھئی جہاں آپ کی پی ایچ ڈی ختم ہوتی ہے وہاں سے رُوحانیت شروع ہوتی ہے یعنی پی ایچ ڈی کرنے والا رُوحانی اسباق آسانی سے سمجھ جاتا ہے اور اس کے علاوہ رُوحانیت سیکھنے کیلئے ذہنی صلاحیت ہونی چاہئے اور دلچسپی ہونی چاہئے۔ جب تک کسی بھی چیز میں آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی آپ کچھ نہیں سیکھ سکتے اور یہ آپ کی اپنی طرزِ فکر پر منحصر ہے کہ آپ سیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

سوال: کیا ہر شخص رُوحانی علوم سیکھ سکھتا ؟

جواب:

مرد عورت ہر شخص رُوحانی علوم سیکھ سکتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر شخص خواہ ہندو ہو یا مسلم یا کوئی اور مذہب رکھنے والا…. جس طرح میٹرک کر سکتا ہے، بی۔ اے کر سکتا ہے یا پی۔ایچ۔ ڈی کر سکتا ہے اسی طرح رُوحانی علوم بھی سیکھ سکتا ہے۔ لیکن جو شخص اسلامی دائرہ کار میں رُوحانی علوم سیکھے گا س کا تعلق براہِ راست قرآن سے ہوگا۔ دوسرے لوگ یعنی دوسرے مذہب کے لوگ جو علم سیکھیں گے وہ رُوحانی علوم تو ہوں گے لیکن انہیں اسلامی رُوحانی علوم نہیں کہیں گے۔ مثلاً ایک ہندو اور ایک مسلم نے ایک ہی جگہ سے میٹرک کیا ہے دونوں تعلیم یافتہ توکہلائیں گے لیکن ہندو کو مسلم اور مسلم کو ہندو نہیں کہہ سکتے ہیں وہ دونوں اپنی تعلیم کو اپنے مذاہب کے مطابق استعمال کریں گے۔

سوال : سائنس کا علم اور رُوحانیت کا علم یہ کیا ہے ؟

جواب:

    سائنس کا ایک ایسا علم ہے جو انسانی دماغ کو روشن بنا دیتا ہے…. اور

    رُوحانیت ایسا علم ہے جو انسان کے روشن دماغ کو غیب سے متعارف کرواتا ہے…. غیب کی دنیا سے رُوشَناس کردیتا ہے…. اپنی اصل سے واقفیت کردیتا ہے۔

سوال: یہ فرمائیں کہ خود سپردگی کیاہے مرید کیسے اپنے آپ کو مراد کے حوالے کرے ؟

جواب:

جب کوئی طالب علم استاد کی شاگردی میں آتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے:

پڑھو! الف بے ، جیم…. وغیرہ وغیرہ

بچے کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ الف، بے، جیم کیا ہے؟ وہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے وہی کچھ سیکھتا ہے جو کچھ اسے استاد سیکھاتا ہے۔ لیکن یہی طالب علم اگر الف، بے، جیم کو قبول نہ کرے تو وہ عمل نہیں سیکھ سکتا۔

مفہوم یہ ہے کہ بچے کی لا علمی اس کا عمل بن جاتا ہے…. وہ بحیثیت شاگرد استاد کی راہنمائی قبول کر لیتا ہے اور درجہ بدرجہ علم سیکھتا چلا جاتا ہے۔

ایک آدمی جو با شعور ہے اور وہ کسی نہ کسی درجہ میں دوسرے علوم کا حامل بھی ہے۔ جب رُوحانیت کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی پوزیشن بھی ایک بچے کی ہوتی ہے۔

رُوحانیت میں شاگرد کو مُرید اور استاد کو مُراد کہا جاتا ہے۔

مرید کے اَندر اگر بچے کی اُفتادِ طبیعت نہیں ہے تو…. وہ مراد کی بنائی ہوئی کسی بات کو اس طرح قبول نہیں کرے گا جس طرح بچہ الف، بے، جیم کو قبول کرتا ہے…. چونکہ رُوحانی علوم میں اس کی حیثیت ایک بچے سے زیادہ نہیں ہے اس لئے اُسے وہی طرزِ فکر اختیار کرنا پڑے گی جو بچے کو الف، بے، جیم سکھاتی ہے…..مطلب یہ کہ:

خود سپردگی کے بغیر انسان رُوحانیت نہیں سیکھ سکتا ہے….

کسی علم کو سیکھنے میں صرف یہ طرزِ فکر کام کرتی ہے کہ:

    استاد کے حکم کی تعمیل کی جائے …. اور

    استاد کی تعمیلِ حکم یہ ہے کہ لا علمی اس کا شعار بن جائے۔

رُوحانی طالب علم کو کچھ سیکھنے کیلئے ہر حال میں پہلے اپنے علم کی نفی کرنی پڑتی ہے…. اور جیسا مراد مرید سے کہے مرید کو ویسا ہی کرنا پڑتا ہے…. ایک مقولہ ہے کہ…. گرو جو کہے وہ کرو…. گرو جو کرے، وہ نقل نہ کرو….

سوال:  رُوحانی علوم کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی؟

جواب:

رُوحانیت کوئی نیا علم نہیں ہے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ آدم علیہ السّلام سے انسانوں میں منتقل ہوئی ہے۔ نئی چیز یا نئی بات تو کچھ بھی نہیں…. بس ذرا سمجھنے کی بات ہے۔

اب اگر آپ ایک ایک اچھا گلاس یا پیالہ بنا لیتے ہیں تو اس سے پانی کی تسکین ختم تو نہیں ہوجاتی…. بھئی پانی تو ہاتھوں سے بھی پیا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ دنیا کتنی بھی ترقی کرلے…. لیکن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ہمیں اپنی طرزِ فکر کو اللہ کی جانب ہی موڑنا ہے…. اپنی اصل کو اپنے اَندر ہی تلاش کرنا ہے۔ علم کوئی بھی نیا نہیں ہوتا پہلے سے مَوجود ہوتا ہے اور نئی نئی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بات صرف تفکر کرنے کی ہے۔ اب اڑن کھٹولا ہی لے لو…. کتنی پرانی چیز ہے…. لیکن اب اس کی نئی شکل ہوائی جہاز بھی تو ہے اور جو آج کل ہم ٹی وی دیکھ رہے ہیں اور اس میں نئے نئے پروگرام دیکھ رہے ہیں تو یہ بھی بہت پرانی چیز ہے۔ اہرامِ مصر سے جو ایک ڈبہ ملا ہے ٹی وی جیسا وہ کیا ہے ؟ …. بھئی سوچنے کی بات ہے ناں…. نئی تو کوئی بھی چیز نہیں…. کوئی علم نیا نہیں سب پرانے ہیں۔

رُوحانی علوم سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا ورثہ ہیں یہ علوم سینوں میں پلتے رہے۔

اصحاب صُفّہ کو سیدنا حضور ﷺ خود ان علوم کی تربیت دیتے رہے اب ان کے ورثاء کے ذریعے یہ تعلیمات جاری ہیں اور جاری رہیں گی

سوال: “غصہ”آپ کی اکثر تحریریں اس اہم نقطہ کے گرد گھومتی ہیں غصہ کیوں آتا ہے ؟ اور اس کو کنٹرول کیسے کیا جائے؟ جبکہ ایسی صورت حال میں بندہ یہ بھی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی نا پسند فرماتے ہیں اور سیدنا حضور ﷺ بھی نا پسند فرماتے ہیں اور غصے کی حالت بدستور قائم ہے ؟

جواب:

غصے کا تعلق خون میں ارتعاش سے ہوتا ہے۔ کسی بات سے جب نا گواری پیدا ہوتی ہے تو اس کی جو وائبریشن ہے اس نے دماغ کے ان خلیوں کو چھیڑ دیا جو خلئے خون کو اعتدال میں رکھتے ہیں۔ چونکہ اعتدال نہیں رہا، اِس لئے غصے میں دورانِ خون بھی بڑھ جاتا ہے۔

اگر آپ غور کریں گے تو ایک بات آپ کو یہ نظر آئے گی کہ کائنات میں اعتدال ہے۔ ہر چیز میں توازن ہے…. مُعیّن مِقداریں ہیں۔ مثلاً ناک ہے تو انسان کی ناک کی الگ مُعیّن مِقداریں ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کی ناک کی الگ مُعیّن مِقداریں ہیں۔ مطلب یہ کہ نظام قدرت میں توازن ہے۔

غصے کا عمل ایسا ہے کہ سوچ میں جو توازن ہے…. اُس میں گڑ بڑ ہوجاتی ہے۔

خون کا جو کام ہے کہ صحت مند اجزاء یا عناصر کو متوازن رکھنا…. تو غصے کی وجہ سے وہ بیلنس ٹوٹ جاتا ہے۔

انسان اس غصے کی حالت میں جو بات کرتا ہے یا فیصلے کرتا ہے تو وہ غلط ہوجاتے ہیں…. اور پھر انسان ساری عمر پچھتاتا ہے…. اس لئے سیدنا حضور ﷺ نے غصے سے منع فرمایا ہے۔

آپ ؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ جو لوگ غصہ نہیں کرتے اور معاف کردیتے ہیں تو ایسے احسان کرنے والے بندے کو اللہ دوست رکھتا ہے…. (آلِ عمران – 134)

غصہ کرنے والا آدمی اللہ کی محبت سے محروم ہوجاتا ہے۔ غصے میں قربانی اورایثار میں بہت فرق ہے۔

اس کی مثال حضرت علی ؓ  کا وہ واقعہ ہے جس میں آپ ایک یہودی سے لڑ رہے تھے کہ یہودی کو حضرت علی ؓ نے پچھاڑ دیا اور اس کے سینے پر چڑھ گئے۔ اس یہودی نے حضرت علی ؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ حضرت علی ؓ  کو غصہ آ گیا تو آپ نے فرمایا یہودی سے کہ…. جا میں تجھے آزاد کرتا ہوں…. کیونکہ میں اللہ کیلئے لڑ رہا تھا…. تم نے مجھ پر تھوک دیا اور مجھے غصہ آ گیا….. اگر میں ایسی حالت میں تجھے قتل کر دیتا…. تو یہ میرا ذاتی عمل ہوتا…. یہودی حضرت علی کی باتیں سن کر مسلمان ہوگیا۔ عام قدریں یہ رائج ہیں کہ اگر کوئی تھوک دے تو آدمی غصے میں آجاتا ہے۔

یاد رکھئے ! غصہ ہمیشہ وہاں آتا ہے:

    جہاں اقتدار کی خواہش ہو…. اور

    انسان خود کو منوانا چاہتا ہو….

اقتدار اللہ کے علاوہ کسی کو زیب نہیں دیتا۔ بیوی اس لئے غصہ کرتی ہے کہ خاوند اسے مانے، خاوند اس لئے غصہ کرتا ہے کہ یہ بیوی میری کنیز ہے۔

غصہ ختم کرنے کا جو طریقہ رُوحانی لوگ بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے اَندر سے اقتدار کی خواہش ختم کریں…. اور اقتدار اعلیٰ صرف اور صرف اللہ کو مان لیا جائے۔ دل سے مانا جائے کہ ہم تو اللہ کے بندے ہیں…. غلام ہیں۔ بھئی ڈیوٹی کرنے والے…. کام کرنے والے…. ملازم ہی ہوئے ناں…. تو ہم سب اللہ کے ملازم ہیں…. اور ایک ملازم کو آقا کے سامنے غصہ کرنا زیب نہیں دیتا۔ ایک بات یہ کہ غصہ کرنے والے لوگوں کا رنگ جل جاتا ہے کا لا ہوجاتا ہے۔ خوبصورتی ختم ہوجاتی ہے اور کرختگی آجاتی ہے۔ ہنسے، بولنے خوش رہنے والے آدمی کے چہرے پر ملائمت ہوگی…. شگفتگی ہوگی۔ اب ایک آدمی خوب گورا  چِٹّا ہے…. لیکن غصے کی وجہ سے وہ اچھا نہیں لگے گا اور چہرہ بے رونق ہوجائے گا…. بلکہ چہرے پر کرختگی آجائے گی۔ جبکہ ایک آدمی معمولی شکل و صورت کا ہے…. میری طرح…. اور وہ غصہ نہیں کرتا…. خوش رہتا ہے…. تو اس کے چہرہ پَر کشش نظر آئے گی اور اس کا چہرہ اچھا لگے گا۔

تو بھئی…. آپ خوش رہیں اور ماحول کو خوش گوار رکھیں…. اور غصے کو اپنے اَندر سے ختم کریں…..

سوال: سلسلۂِ عظیمیہؔ کی بنیادی تعلیمات کیا ہیں؟

جواب:

بھئی یہ جو سلسلہ ہے…. عظیمیہ…. اِس کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ:

    خدمت خلق…. بغیر کسی صلہ وستائش کے…. بغیر کسی مطلب کے….

    دوسرے یہ کہ سائنسی علوم کو سامنے رکھتے ہوئے، مسلمانوں کو…. پوری نوع کو…. ایسا لٹریچر فراہم کرنا کہ جس کی بنیاد پر پوری سائنس اور رُوحانیت ایک ہو سکے۔

    ہمارا پیغام خدمتِ خلق کرنا…. خوش رہنا….. اور دوسروں کو خوش رکھنا ہے…. تمام نوعِ انسانی کو سکون آشنا زندگی کی ترغیب دینا ہے…..

آپ کسی عظیمی بہن یا بھائی سے ملیئے…. جو عظیمی سلسلے میں کم از کم تین سال گزار چکا ہو…. تو….

    اس کے اَندر آپ کو سب سے پہلے محبت نظر آئے گی…. انسانوں، پرندوں، جانوروں، پھولوں، درختوں ہر چیز سے محبت نظر آئے گی۔

    دوسرا آپ اس کی باتوں سے اندازہ لگا لیں گے کہ اس کو اللہ کی قربت حاصل ہے۔ کیونکہ سلسلے کے جو بنیادی بزرگ ہیں بڑے ہیں…. انہیں حضور ﷺ کی نسبت سے اللہ کا قرب حاصل ہے۔

    دوسری بات یہ کہ اس سلسلے میں آنے کے بعد نشئی لوگ نشہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک نشئی آدمی جب اس سلسلے میں شامل ہواتو اُسے ایسا ماحول یہاں ملا کہ اس کی احساس محرومی ختم ہوگئی۔ احساس محرومی ختم ہوئی تو اس نے نشہ کرنا چھوڑ دیا۔ یہاں آکر اسے رُوحانی سکون ملا۔

    رُوحانیت ایسی چیز ہے کہ اگر اسے قرآن و حدیث کی روشنی میں استعمال کیا جائے تو معاشرے کی برائیاں دُور ہو سکتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ مخالفت بہت کرتے ہیں…. سمجھتے نہیں۔ مخالفت کرنے والوں میں پچاس سال سے اوپر کے لوگ ہیں۔ مخالفت کرنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ انہیں بات سمجھ نہیں آتی۔ لیکن نوجواں طبقہ نے اسے قبول کیا ہے…. اور سمجھا ہے۔

    آپ کسی عظیمی نوجوان سے پوچھیں کہ انہیں رُوحانیت میں یا اس سلسلے میں آکر کیا ملا تو جواب ملے گا سکون ملا…. اعتماد ملا…. شک و شبہ کی زندگی سے نجات ملی….

    سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں ہر چیز کے بارے میں علم ملا…. ایسا علم جو شاید ہمیں اور کہیں سے نہیں مل سکتا تھا….

سوال:  رُوحانیت سیکھنے کیلئے چِلّے، مجاہدے اور ریاضتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اِس کیلئے بعض حضرات جنگلوں کا رخ بھی کرتے ہیں تو یہ سب لوگوں کی معاشی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں؟

جواب:

آپ کوئی بھی علم سیکھنا چاہیں اس میں ریاضت و مجاہدہ کی لازماً ضرورت پڑتی ہے۔

کوئی بچہ جب اسکول جاتا ہے…. صبح سویرے بیدار ہوتا ہے…. تیار ہوتا ہے…. اسکول جاتا ہے…. وہاں دوپہر تک کلاس میں رہتا ہے…. تپتی دھوپ میں گھر آتا ہے…. بعض اوقات گرمی سے نڈھال ہو کر بچے گھر آکر چارپائی پر گر جاتے ہیں اور اگلی صبح پھر یہی عمل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے…. یہ عمل ریاضت و مجاہدہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ہماری ماں، بہن سخت سردی یا شدید گرمی میں بچے کیلئے روٹی پکاتی ہیں…. کپڑے دھوتی ہیں…. گھر صاف کرتی ہیں…. تھک کر بے حال ہوجاتی ہیں…. یہ بھی ریاضت ہے۔

جب ہم کوئی بھی کام ریاضت یا محنت کے ساتھ سیکھتے ہیں یا کرتے ہیں تو اس کیلئے دنیا کے باقی کام چھوڑ تو نہیں دیتے۔

اسلام کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دو گناہ معاف نہیں کرتا:

    ایک شرک…. اور

    دوسرا حقوق العباد….

جو آدمی گھر بار چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل جائے تو یہ اس نے حق تلفی کی اور حق تلفی شرک کے برابر ہے۔

جو شرک کرتا ہے وہ رُوحانیت کبھی نہیں سیکھ سکتا….

یہ اصل میں بہت بڑی سازش ہے۔ سازش کے تحت ایک گروہ نے تصوّف کو بدنام کیا ہے کہ…. یہ دنیا بیزار ہوتے ہیں….. تو ایسی کوئی بات نہیں۔ جن بزرگوں سے تمام سلسلے چلے ہیں، آپ اُن کے بارے میں پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان بزرگوں نے شادیاں بھی کیں اور معاشی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ تصوّف میں یا رُوحانیت میں سیدنا حضور ﷺ سے بڑھ کر تو کوئی نہیں ہے۔ آپ ؐ نے شادیاں بھی کیں، کاروبار بھی کیا بچوں کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں آپؐ کوئی جنگل میں تو نہیں گئے۔ اب میں اپنے بچوں کی ذمہ داریاں نبھا چکا ہوں، سب بچے اپنے اپنے کاروبار سے ہیں۔ میں چاہوں تو جنگل کو نکل جاؤں یا داتا کے مزار پر بیٹھ جاؤں لیکن میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ دنیا بیزاری تو شرک ہے۔

سوال: آپ کا مشن کیا ہے اور اس کے تقاضے بیان فرمادیں؟

جواب:

رُوحانی مشن چلانے کیلئے:

    آپ کے اَندر خدمتِ خلق کا جذبہ ہو….

Topics


Khutbat Lahore

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا