Topics
خطاب:
معزز حضرات و خواتین اور میرے
عزیزفرزند میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب!
آپ سب حضرات بلاشبہ شکریہ کے مستحق
ہیں کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے مشن کی پیش رفت میں جدوجہد اور سعی کرنے کی سعادت
حاصل کی۔
سلسلے آج سے نہیں صدیوں سے قائم ہیں ۔
مشہور سلاسل جو ہندوستان ، پاکستان اور بر صغیر میں پوری آب و تاب کے ساتھ رسول
اللہ ﷺ کے روحانی مشن کو عام کرنے میں مصروف ہیں وہ سلسلۂ چشتیہ ، سلسلۂ نقشبندیہ
، سہروردیہ اور قادریہ ہیں۔ یہ ایسے سلسلے ہیں کہ جن سے ہر آدمی جو ذرا سا بھی روح
سے مانوس ہے ان کو جانتا ہے ، پہچانتا ہے۔
دنیا میں روحانی علوم کو پھیلانے
کیلئے اب تک جو سلسلے تواریخ میں ملتے ہیں ان کی تعداد تقریباًدو سو(۲۰۰) ہے۔
یہ دو سو (۲۰۰) سلاسل مختلف ممالک میں
اپنے اپنے مرکز کے ساتھ قائم رہ کر رسول اللہ ﷺ کے مشن کیلئے کوشش اور جدوجہد کر
رہے ہیں۔
“سوال یہ ہے کہ جب
ہمارے پاس اللہ کی کتاب مَوجود ہے، شریعت کے تمام قوانین ہمارے پاس مَوجود ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین کی ذاتِ اقدس ہمارے پاس مَوجود ہے پھر یہ تمام سلاسل
کیوں وُجود میں آئے ، ان کی کیوں ضرورت پیش آئی؟
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں صحابۂِ
کرام کی زندگی کے اوپر جب غور و فکر کیا جاتا ہے تو ایک بات پورے یقین کے ساتھ
سامنے آتی ہے کہ صحابۂِ کرام کی زندگی رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ سے اس طرح
وابستہ تھی کہ ان کا جینا ، ان کا مرنا، ان کا بیٹھنا، ان کا اٹھنا، ان کا کوئی
بھی کام رسول اللہ ﷺ کی ذات سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہوتا تھا، حضور پاک ﷺ نے
پانی کس طرح پیا ، اخلاق کا مظاہرہ کس طرح فرمایا، مہمانوں کی میزبانی کس طرح کی ،
دوستوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا رہا، دشمنوں نے جب دشمنی کی اور اذیت کا کوئی پہلو
ایسا نہیں چھوڑاکہ جس سے حضور پاک ﷺ دو چار نہ ہوئے ہوں، وہ اذیتیں، وہ تکلیفیں،
وہ پریشانیاں برداشت کر کے دشمنوں کے ساتھ حضور پاک ﷺ کا کیسا سلوک رہا ، کس طرح
حضور پاکﷺ نے لوگوں کو معاف کیا ، لوگوں کو سینے سے لگایا، قتل جیسے جرم کو معاف
فرمایا۔
یہ سب چیزیں صحابۂِ کرام کے سامنے
تھیں ۔ ان کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے
الگ ہو کر کسی گوشے میں بیٹھ کر ریاضت اور مجاہدہ کریں اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات
کو الگ سے سمجھیں۔ ان کی ساری زندگی کا محور اور مرکز رسول پاک ﷺ تھے۔ صحابۂِ
کرام کے بعد تابعین کا دَور آیا۔ تابعین کی زندگی پر جب ہم غور و فکر کرتے ہیں اور
تاریخ پڑھتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ تابعین نے رسول پاک ﷺ کے تربیت یافتہ صحابۂِ
کرام کی زندگی کا تجزیہ کر کے پوری زندگی صحابۂِ کرام کے مطابق گزاردی ۔ تابعین
میں وہ بات نہیں رہی جو بات صحابۂِ کرام میں تھی ۔ صحابۂِ کرام کی زندگی اگر سَو
فیصد رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر کے مطابق تھی تو تابعین کی زندگی میں وہ Percentage کم ہوگیا۔ اس کی بہت ساری
وجوہات بھی ہیں وہ یہ، ایک تو حضور پاک ﷺ کی حیات مبارکہ کا جو زمانہ تھا اس میں
دُوری واقع ہوئی پھر صحابۂِ کرام بہر حال کچھ بھی ہو وہ رسول اللہ ﷺ کے قائم مقام
تو تھے لیکن ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی ان کے اندر اِس طرح تھی
کہ وہ حضور ﷺ ہی تھے۔(نعوذ باللہ)۔
تابعین کے بعد تبع تابعین آئے تو رسول
اللہ ﷺ کی طرزِ فکر میں اور دُوری واقع ہوئی اور اس کے بعد مسلمان اُمّتِ مسلمہ یا
عالَمِ اسلام کے پاس جو مذہب رہا اس مذہب یا اسلام میں تو کوئی فرق نہیں پڑا،
قرآن بھی وہی رہا، قرآن کے الفاظ بھی وہی رہے، نماز بھی وہی رہی جو آج تک ہے،
روزہ، حج، زکوٰۃ کسی بھی چیز میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ لیکن تبع تابعین کے
بعد جب آپ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ بات آپ کو نظر آئے گی کہ مسلمانوں
میں ایسا اِنحطاط پیدا ہو گیا کہ ان کی نظر روحانیت کے مقابلے میں مادّیت میں
زیادہ ہوگئی اور اسلامی ارکان کی جو حکمت تھی ، اسلامی ارکان میں جو روح تھی اس
روح سے دُوری واقع ہوگئی۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلام جو ایک جسم تھا وہ جسم رسول
اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق روح سے دُور ہو گیا اور اس کے اوپر مادّیت
غالب آگئی ، بادشاہتیں آگئیں ، خلفاء کا زمانہ آ گیا، غربت اور امیری کی دیواریں
کھڑی ہوگئیں۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو اسلامی معاشرہ تھا، وہ پوری طرح
قائم نہیں رہا۔ پھر بادشاہوں کا زمانہ آ گیا ۔ بادشاہوں نے اپنی مصلحتوں کے مطابق
اپنی حکومت کو بچانے کیلئے ایسی ایسی اختراعات کیں کہ جس سے اسلام کی روح کے اوپر
ایک پردہ آ گیا….. ایک وقت ایسا آیا کہ انسان سب کچھ کرنے کے باوجود …. مسلمان سب
کچھ کرنے کے باوجود ، جسمانی تقاضے تو اس نے پورے کئے لیکن روح کا تقاضا پورا نہیں
ہوا…. وہ آج بھی ہے۔ مثلاً ہم نماز قائم کرتے ہیں ۔ عشاء کی نماز میں سترہ رکعتیں
ہوتی ہیں اور چونتیس (۳۴) سجدے
ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو توفیق دی ہے نماز قائم کرنے کی وہ چونتیس(۳۴) سجدوں میں سے ایک سجدے
میں بھی ان کا ذہن اللہ کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔ اِس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ
نماز میں کوئی تبدیلی ہوگئی یا نماز میں کوئی فرق واقع ہو گیا ہے۔ نماز تو وہی ہے
لیکن مسلمان روح سے دُور ہو گیا اس لئے اس کی ذہنی مرکزیت غیب کے اندرنہیں ہوتی۔
اس سے ملتی جلتی صورت جب تبع تابعین
کے زمانے میں ہوئی اور بڑے پیر صاحب حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے جب محسوس کیا
کہ اگر انسانوں کے لئے خصوصاً مسلمانوں کیلئے روح سے واقف ہونے کیلئے ، روح سے
متعارف ہونے کیلئے قاعدے اور ضابطے مقرر نہیں کئے گئے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ
مسلمان روح سے بالکل ہی دُور ہو جائیں گے…. لہٰذا انہوں نے اس صورتحال (Situation)کو سمجھتے ہوئے ایسے
اسباق متعیّن کئے ، ایسے قاعدے اور ضابطے بنائے کہ جن قاعدوں اور ضابطوں سے مسلمان
مادّی (جسمانی) عبادت کے ساتھ ساتھ اپنی روحانیت سے بھی قریب ہو سکتا ہے۔ اس قربت
کیلئے جو چیز بڑی اہم تھی، ظاہر ہے کہ قرآن پاک تھا، حضور پاک ﷺ کی زندگی تھی ۔
تو وہاں یہ دیکھا گیا کہ نبوت سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے کون سا ایسا عمل کیا ، کون
سی ایسی مثال چھوڑی اپنی اُمّت کیلئے کہ جس کو بنیاد بنا کر روحانی اسباق تجویز
کئے جائیں۔ تو سامنے یہ بات نظر آئی کہ رسول اللہ ﷺ مکے میں رہتے ہوئے، بیت اللہ
شریف کے ہوتے ہوئے سات آٹھ کلومیٹر دُور پہاڑ…. غارِ حرا میں تشریف لے جاتے تھے
اور وہاں اللہ کے اوپر ، اللہ کی نشانیوں کے اوپر ، کائنات کے اوپر غور و فکر کرتے
تھے۔ یہ تفکر جب بڑے پیر صاحب کے سامنے اور دوسرے بزرگوں کے سامنے پھیلا تو انہوں
نے بنیاد ہی اس بات پر رکھی کہ….
قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ قرآن پڑھنے
کے ساتھ ساتھ غور و فکر کی بھی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
: تَفَکَّرُوْنَ،
تَعْقِلُوْنَ، تَعْلَمُوْنَ، یَعْلَمْوُنْ ، یَا اُولِی الْاَلْبَاب، فَبِایِّ
اَلٓا ءِ رَبِّکُمَاتُکَذِّبٰنِ
غور و فکر کرو، عقل سے کام لو، جو لوگ
عقلمند ہیں وہ اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر کرتے ہیں ، قرآن کو سمجھ کر پڑھو،
موت و حیات کے بارے میں غورو فکر کرو کہ….
جب تم پیدا نہیں ہوئے تھے تو کہاں
تھے؟
کیوں پیدا ہوئے… اس زمین کے اوپر؟….
اور
پیدا ہونے کے بعد تم مرنا نہیں چاہتے
تو مر کیوں جاتے ہو؟
قرآن پاک میں بھی غور و فکر کا حکم
ہے اور سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے غارِ حرا میں جا کر انہی باتوں پر
غور و فکر کیا۔ اسی غور و فکر کا نام مراقبہ ہے۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے اللہ کی نشانیوں
میں تفکر کرنا۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے مادّی جزیات و
احساسات سے نکل کر روح کا کھوج لگانا۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے ظاہری دنیا میں
رہتے ہوئے غیب کی دنیا میں داخل ہونے کی جدوجہد اور کوشش کرنا۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے انسان اس زندگی
سے واقفیت حاصل کرلے جہاں وہ پیدا ہونے سے پہلے تھا۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے انسان اس زندگی
سے واقف ہوجائے کہ جس زندگی میں اس کو مرنے کے بعد دوبارہ جانا ہے اور وہاں زندہ
رہنا ہے۔
حضور پاکؐ کا ارشاد ہے۔‘‘
مُوْتُوا قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا ’’ …. ترجمہ: (مر
جاؤ مرنے سے پہلے)
‘‘مرجاؤ مرنے سے
پہلے’’ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خودکشی کرلیں، خودکشی تو حرام ہے۔ ‘‘مرجاؤ مرنے
سے پہلے ’’ کا مطلب یہ ہے کہ مرنے سے پہلے اس عالَم میں… جہاں مرنے کے بعد آپ کو
رہنا ہے… اُس سے آپ واقفیت حاصل کرلیں۔
ان احادیث کی روشنی میں، قرآن پاک کے
تدبر و فکر کے حکم کی روشنی میں اور سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے غارِ
حرا کے مراقبہ کی روشنی میں ایسے اسباق تجویز کئے گئے کہ انسان بالعموم اور مسلمان
بالخصوص اس دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا تعارف حاصل کرے ، اپنا تعارف حاصل
کرے جو کہ انسان کی پیدائش کا مقصد ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ
وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سورۃ الذّاریات – 56)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے جنات
کو اور انسان کو اس لئے تخلیق کیا تاکہ وہ ہمیں پہچانیں ۔ انسان اور جنات کی تخلیق
کی بنیاد ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو پہچانے۔
حدیث قدسی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں
کُنتُ کَنْزَاً
مَخْفِّیاً فَاَحْبَبْتَ اَنْ اُعْرَفْ فَخَلَقْتُ الْخَلَقَ لِاُعْرَفْ (حدیث
قدسی)
ترجمہ: میں چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میرا
دل چاہا کہ مخلوق مجھ سے واقف ہو، مخلوق مجھے پہچانے ، مخلوق میرے قریب آئے تو میں
نے اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا۔
انسان کی زندگی کا مقصد اگر کھانا
پینا ، سونا جاگنا، بچوں کی پرورش کرنا، کاروبار کرنا ہی ہے تو یہ تو سب جانور بھی
کرتے ہیں حیوانات بھی کرتے ہیں….
کون سا ایسا جانور ہے جو اپنے بچوں کو
پیدا کر کے ان کو غذا فراہم نہیں کرتا؟
ان کی تربیت نہیں کرتا…..
کون سا ایسا حیوان ہے جو سوتا نہیں
ہے؟
کون سا ایسا حیوان ہے جسے بھوک نہیں
لگتی؟
گرمی سردی کا احساس نہیں ہوتا….
کون سا ایسا پرندہ ہے جو اپنا گھر
نہیں بناتا؟
کون سی ایسی گائے ، بھینس، بیل، بکری،
بھیڑ ہے جس کو اپنے گھر کا پتہ نہیں ہوتا؟
بتائیے!
سب کو اپنا گھر کا ٹھکانے کا پتہ ہوتا
ہے۔۔۔۔
صبح کو آپ چھوڑتے ہیں شام کو خود بخود
اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے ہیں۔
تو انسان کی زندگی کا مقصد محض سونا
جاگنا، کھانا پینا نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق انسان کی زندگی کا
مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننا ، بحیثیت مخلوق کے خالق کا تعارف حاصل کرنا ہے۔
جب یہ مقصد فوت ہو گیا تو حضرت شیخ
عبدالقادر جیلانیؒ بڑے پیر صاحب نے سلسلے کی بنیاد رکھی اور لوگوں کیلئے ریاضت کے،
عرفان کے، روحانی علوم سیکھنے کے قاعدے اور ضابطے بنائے اور اسی طرح ہر ملک کے
لحاظ سے ، لوگوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق نئے نئے سلسلے قائم ہوتے رہے۔ لیکن ! اِن
سب سلسلوں کا محور قرآنی تعلیمات کے علاوہ کبھی اور کچھ نہیں رہا اور ان سلسلوں
کا محور رسول اللہ ﷺ کی ذات ِ اقدس سے ہٹ کر بھی کچھ نہیں رہا۔
دو سَو (۲۰۰) سلسلے قائم ہونے کے بعد
ایک وقت پھر ایسا آ گیا کہ اُمّتِ مسلمہ مادّیت کی دوڑ میں داخل ہوگئی۔
کیسے….؟
اب دیکھئے آج کا دَور ہے ۔ آج کا دَور
مادّیت کا دَور کہلاتا ہے۔ ترقی کا مطلب ہی یہ ہے کہ مادّیت کا دَور۔ یعنی مادّے
نے کتنی ترقّی کی جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آج کا دَور ترقی کا دَور ہے تو ہم کہنا یہ
چاہتے ہیں کہ مادّے نے اتنی ترقی کرلی ہے۔ لیکن جیسے جیسے مادّی ترقی ہوئی انسان
اپنی روح سے بھی دور ہوگیا، روحانی علوم سے بھی آشنا نہیں رہا، بے سکون ہوگیا،
پریشان ہوگیا، عَدم تحفّظ اس کے اندر داخل ہوگیا۔
اگر ہم یہ غور کریں کہ انسان اور
حیوان کی زندگی کیا ہے؟ اس کا تجزیہ کریں تو اس مادّی دَور میں یہ بات بالکل واضح
ہو کر سامنے آتی ہے کہ حیوانات کی زندگی آج کے دَور کے انسان کی زندگی سے زیادہ
افضل اور بہتر ہے۔ وہ بھی اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور انسان بھی اپنی ضروریات
پوری کرتے ہیں ۔ لیکن….
آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی بھیڑ
کو کینسر ہوگیا…..
کسی گائے کی آنکھ میں موتیا اتر آیا…..
کسی جانور کو ٹی بی ہوگئی….
کبھی نہیں ایسا ہُوا….
اُن کو آپ پر سکون بھی دیکھتے ہیں۔
کبھی آپ نے اُن کو دیکھا نہیں ہوگا کہ
روزی کمانے کیلئے اتنے پریشان ہیں کہ راتوں کی نیند اُڑ گئی…. دن کا چین ختم ہوگیا….
تو اس ترقی یافتہ دَور میں انسان اس
بری طرح دنیا میں غرق ہو گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ کہیں روحانیت کا وُجود ہی نہیں
رہا ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذہنی ترقی ہوئی عقل و شعور میں اضافہ ہوا۔ آج کے آٹھ
سال کا بچہ پہلے دَور کے اٹھارہ سال کے نوجوانوں سے زیادہ ذہین اور ہوشیار ہے۔ نئی
نئی چیزیں ایجاد ہوئی ہیں اور یہ ذہنی ترقی ہوئی ہے۔
تو بڑے پیر صاحب نے اپنے دَور کے
مطابق رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو ، روحانی تعلیمات کو، اللہ سے قریب ہونے والی
تعلیمات کو اِس طرح مرتّب کیا، اس طرح تَدوین کِیا کہ اس زمانے میں لوگ اللہ کے
عارف ہوئے ۔
اب اس زمانے میں جبکہ ذہن بہت ترقی
یافتہ ہو گیا ہے، پہلے جو چیزیں ہمارے لئے کرامت سمجھی جاتی تھیں، اب عام ہوگئیں
ہیں۔ تو زمانے کے مطابق ، زمانے کی نشونما کے مطابق جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا
ارشاد ہے کہ ‘‘اللہ نے جو ایک نظام مرتّب کردیا ہے ، جو ایک سسٹم بنا دیا ہے اس
سسٹم میں تبدیلی نہیں ہوتی۔’’
تو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا
آنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک سسٹم ہے۔ رسول اللہ ﷺ خاتم النبیّین ہیں تو کیا
یہ سسٹم ختم ہو گیا…. نہیں یہ سسٹم ختم نہیں ہوا۔
رسول اللہ ﷺ کے وارث، عُلماءِ حق آتے
رہے ہیں… اور آتے رہیں گے۔
اس لئے اس مشن کو قائم رکھنے کے لئے
اللہ تعالیٰ نے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کو اس دنیا میں بھیجا اور انہوں نے معاشرے
کی بد ترین حالت کو سامنے رکھ کر مادّی اعتبار سے دنیا کو اسفل السافلین میں گرتے
ہوئے دیکھ کر ، زمانے کے حساب سے، شعور کے اعتبار سے ، ذہانت کے اعتبار سے،عقل و
فہم کے اعتبار سے، جو شعور انسان کو اس وقتِ حاضر میں مل گیا اس کے حساب سے سلسلۂ
ِعظیمیہ کی بنیاد رکھی۔
سلسلہ ٔ عظیمیہ کوئی نیا سلسلہ نہیں
ہے کہ یہ سلسلہ کوئی نئی بات کہتا ہے….. کوئی نئی بات نہیں ہے…. بات وہی کہہ رہا
ہے جو بڑے پیر صاحبؒ نے کہی …. بات وہی کہہ رہا ہے جو شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے
کہی ۔
سلسلہ ٔ عظیمیہ بات وہی کہہ رہا ہے جو
حضرت ممشاد دِینوری ؒ نے کہی …. سلسلۂ عظیمیہ بات وہی دہرا رہا ہے جو دو سَو (۲۰۰) سلسلے اب تک دہراتے چلے
آرہے ہیں…. اور وہ بات یہ ہے کہ…
‘‘انسان کی زندگی کا
مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ غمگین رہے، پریشان رہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد جو ہے سکون
سے رہنا ہے خوش رہنا ہے’’۔
اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ
لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورۃ یونس – 62)
ترجمہ: اللہ کے دوستوں کو غم اور خوف
نہیں ہوتا۔
اللہ کے دوستوں کو غم اور خوف نہیں
ہوتا کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی میرا بندہ ناخوش نہ
رہے ۔ غمگین نہ رہے، پریشان نہ رہے۔
حضور قلندر بابا اولیاؒ نے سائنسی
علوم کو سامنے رکھ کر سلسلۂِ عظیمیہ کی بنیاد رکھی کہ انسان کا ذہن چونکہ سائنسی
علوم سے بہت زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ وقت جو ہے بہت سمٹ گیا ہے، رفتار تیز ہوگئی ہے
اس لئے اسی مناسبت سے سائنسی علوم کو سامنے رکھ کر سلسلہ ٔ عظیمیہ کے اسباق مرتّب
کئے گئے ہیں۔ لیکن اس ترتیب میں بنیادی بات وہی ہے…. غارِ حرا کا مراقبہ۔
ہر سلسلہ میں کسی نہ کسی طرح آپ کو
مراقبہ کا عرص ضرور ملے گا۔ مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیاوی علائق سے ،
دنیاوی معاملات سے ، دنیاوی پریشانیوں سے اپنا ذہن ہٹا کر کچھ عرصہ کیلئے … ۱۰ منٹ کیلئے…. ۱۵ یا ۲۰ منٹ کیلئے…. اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ بات اس میں کوئی
زیادہ گہرائی کی نہیں ہے۔ ہر آدمی یہ جانتا ہے کہ اللہ ہر چیز کو دیکھ رہے ہے،
اللہ حاضر اور ناظر ہے ۔
کیوں بھئی کسی آدمی کا یہ یقین ہے کہ
اللہ ہمیں نہیں دیکھ رہا…..!
ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ
رہا ہے…. بات اتنی سی ہے کہ ہم اللہ کے دیکھنے کو نہیں دیکھ رہے۔ اللہ کے دیکھنے
کو دیکھنے کیلئے جو بہت ہی آسان طریقہ ہے وہ مراقبہ ہے یعنی اللہ کی طرف متوجہ
ہونا ۔
یہ تو ہوئی ایک بات، اب دوسری بات جو
ہے بہت زیادہ غور طلب ہے اور ہم سب کو اس پر بہت ہی زیادہ غورو فکر کرنا چاہیے اور
وہ بات یہ ہے کہ ہمارا ایک جسمانی وُجود ہے۔ اس جسمانی وُجود کی مشینری پر اگر آپ
غور کریں تو اس میں دل بھی ہے ، پھیپھڑے بھی ہیں، گُردے بھی ہیں، آنتیں بھی ہیں،
دماغ بھی ہے، کان بھی ہیں، آنکھ بھی ہے۔ اور آنتیں بھی ہیں جسم میں کوئی حرکت نہیں
رہتی۔
آپ روز دیکھتے ہیں کوئی نہ کوئی تو
مرتا ہی رہتا ہے۔ لاش پڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ پیر ، ناک ، کان اور آنکھ سبھی کچھ
ہے۔
اس کا پوسٹ مارٹم کریں دل بھی اس طرح
مَوجود ہوگا۔
ایسے نہیں ہوگا کہ آدمی مرگیا تو دل
غائب ہوگیا….
آدمی مرے گا تو اس کے اندر سے گردے ہی
نہیں نکلے…!
آدمی مرگیا اس کی چیر پھاڑ کی… پتہ
چلا اس کے اندر تو آنتیں ہی نہیں تھیں….
ہر چیز مَوجود ہے لیکن حرکت نہیں ہے…..!
اس کا مطلب کیا ہوا؟
وہ یہ کہ حرکت تابع ہے روح کے تو اس
کا مطلب یہ ہوا کہ جسم اصل نہیں ہے…. اصل روح ہے۔
جب تک روح جسم کے اندر ہے حرکت ہے۔ جب
تک روح جسم کے اندر ہے آپ کو بھوک بھی لگ رہی ہے…. آپ کو پیاس بھی لگ رہی ہے، آپ
کے بچے بھی ہورہے ہیں، آپ بچوں کو دودھ بھی پلا رہے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے
کہ کسی مُردہ ماں نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا ہو؟ کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ باپ
مر گیا ہو اور اس نے بچے کی انگلی پکڑ کر بازار سے جا کر کوئی چیز دلائی ہو؟ کیا
کبھی کسی مُردہ آدمی کو آپ نے کھانا کھاتے ، پانی پیتے، چائے پیتے، اٹھتے بیٹھتے ،
چلتے پھرتے دیکھا ہے؟
ایک مُردہ جسم ہے، اگر آپ کسی مُردہ
جسم اور زندہ جسم کا موازنہ کرنا چاہیں تو ایک زندہ آدمی کے پَیر کے انگوٹھے میں
سوئی چبھوئیں… کیا ہوگا؟ …. تکلیف ہوگی…. وہ کہے گا بھئی کیوں میرے سوئی چبھوئی؟
اور ایک مُردہ آدمی کی ٹانگ لے کر آپ اس کے گَنڈاسے سے دس ٹکڑے کردیں…. کیا
ہوگا؟…. کچھ بھی نہیں….
تو اصل چیز کیا ہوئی؟…. اصل چیز جسم
ہوا یا روح ہوئی؟ ….. اصل چیز روح ہوئی…
تو اب جو اصل ہے وہ تو ہماری روح ہے
اور ہم جسموں کو ہی سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے زیادہ بیوقوف
، ہم سے زیادہ جاہل، ہم سے زیادہ احمق کوئی نہیں ہے۔ آپ کسی بھی طرح جسم کو الٹ
پلٹ کر دیکھئے اگر روح نے جسم کو سنبھالا ہوا ہے تو جسم کے اندر حرکت ہے اور اگر
روح نے جسم کو نہیں سنبھالا ہوا تو جسم کی کوئی حرکت نہیں ہے۔
ایک آدمی جینیئس ہے۔ نئی نئی اختراعات
کرتا ہے…. لیکن اگر اس کے اندر سے آپ روح نکال لیں۔ تو نہ کوئی اختراعات ہںن نہ
کوئی اس میں ایجاد ہے، نہ کوئی عقل ہے، نہ کوئی شعور ہے۔ ایک شاعر شعر کہتا ہے۔
کیا کبھی کسی مُردہ آدمی سے آپ نے شعر سنا ہے؟ ایک بڑھئی چارپائی بناتا ہے، کُرسی
بناتا ہے، لوہار دروازہ بناتا ہے، کسان کھیتی باڑی کرتا ہے۔ کیا کبھی کسی مُردہ
آدمی کو آپ نے چارپائی بناتے ، دروازہ بناتے یا کھیتی باڑی کرتے دیکھا ہے؟
یعنی جس طرح بھی آپ زندگی کی چھان
پھٹک کریں گے آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ….
‘‘اگر روح ہے تو سب
کچھ ہے اور اگر روح نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔’’
لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آدمی یہ
کہتا ہے کہ جسم ہے تو سب کچھ ہے روح کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہے۔ جوسراسر دھوکا ہے،
فریب ہے، غلطی ہے، جہالت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں…. ‘‘انسان
ظالم، جاہل اور جلد باز ہے’’
جتنے بھی سلاسل ہیں، ان سلاسل کی
تعلیمات کا محور ، ان سلاسل کی تعلیمات کا مرکز، ان تمام سلاسل کی تعلیمات کی
بنیاد صرف یہ ہے کہ:
‘‘انسان روح کے
علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جب تک روح ہے انسان ہے اور جب روح نہیں ہے تو اس کا نام انسان
نہیں ہوتا اس کا نام لاش ہوتا ہے، اس کا نام
(Dead Body) ہوتا ہے…. اس کا نام مُردہ جسم ہوتا ہے۔’’
یہ جو تعلیم ہے کہ انسان روح کے علاوہ
کچھ نہیں ہے یہ انسانوں کیلئے مخصوص ہے۔ حیوانات اس تعریف میں نہیں آتے۔ جب انسان
اور حیوان کا آپ تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بکری کے اندر بھی روح ہے اور جب
تک بکری کے اندر روح ہے بکری بھی کھاتی ہے، پیتی ہے ، سوتی ہے، جاگتی ہے، اس کے
بچے ہوتے ہیں، بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔ لیکن جب بکری کے اندر سے روح نکل جاتی ہے تو
ایک مُردہ انسان اور ایک مُردہ بکری دونوں برابر ہیں۔ اس کے اندر بھی روح کے بغیر
حرکت نہیں ہوتی۔ اب فرق کیا ہوا بکری اور انسان میں؟کھانے پینے میں دونوں مشترک
ہیں، بیماری ،دکھ درد، اولاد کی تربیت کرنےمیں انسان حیوان دونوں مشترک ہیں، سونے
جاگنے میں انسان حیوان دونوںمشترک ہیں اور اس بات میں بھی مشترک ہیں کہ جب تک روح
حیوان کے اندر یا بکری کے اندر مَوجود ہے اس وقت تک اس کے اندر بھی حرکت ہے اور
بکری کے اندر سے جب روح نکل جائے گی تو بکری کے اندر کوئی حرکت نہیں رہے گی…
‘‘انسان اور حیوان
میں فرق یہ ہے کہ اس قانون کو، اس علم کو صرف انسان جانتا ہے کہ “روح ہے تو حرکت
ہے اور روح نہیں ہے تو حرکت نہیں ہے۔’’
اور یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے، یہی وہ
بنیادی نقطہ ہے اور یہی وہ بنیادہ بات ہے کہ جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات
ہے۔ انسان کے تجربے میں یہ بات آتی ہے کہ روح انسان میں بھی ہے اور روح حیوان میں
بھی ہے لیکن انسان اگر اپنی روح سے واقفیت پیدا کرنے میں یہ بات آتی ہے کہ روح
انسان میں بھی ہے اور روح حیوان میں بھی ہے لیکن اگر انسان اپنی روح سے واقفیت
پیدا کرنے کیلئے جدوجہد اور کوشش نہیں کرتا تو انسان اور حیوان دونوں برابر ہیں۔
انسان کا اعزاز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو…. ‘‘وَعَلَّمَ آدَمَ
الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا’’…. کہہ کر علم الاسماء کا علم سکھا کر یہ بتادیا ہے کہ
مادّی جسم ، گوشت پوست کا جسم… ہڈیوں کا ڈھانچہ… یہ ایک عارضی چیز ہے… ایک(Fiction) چیز ہے۔
بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک سال گزرنے کے بعد ہم خوش ہورہے ہیں کہ ہمارا بچہ ایک سال کا ہُوا ہم سالگرہ منا رہے ہیں دس سال کا ہُوا ہم اور زیادہ خوش ہورہے ہیں۔ لیکن آپ غور و فکر کریں کہ جو بچہ آج پیدا ہُوا، اس بچے کی عمر اگر ۷۰ سال ہے…. دس سال جب اس کی عمر کے گزر گئے تو اس کی
خواجہ شمس الدین عظیمی
اِنتساب
اُس جبلِ نور کے نام…..
جہاں
سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما
کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا