Topics

روحانی سیمینار سے خطاب


۱۹ مارچ ۱۹۹۹؁ء بروز جمعۃ المبارک مراقبہ ہال برائے خواتین لاہور میں ایک رُوحانی سیمینار کا انعقاد ہوا۔ جس کی صدارت ممتاز رُوحانی اسکالر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کی۔ T.I.Aکے چیئر مین اور چیف ایڈیٹر پاکستان میڈیا انٹرنیشنل ڈاکٹر ابراہیم غزنوی اور پاکستاب بوائز اسکاؤٹ ایسو سی ایشن کے کمشنر، ریٹائرڈ جنرل مینیجر پاکستان ریلوے، اور ڈائریکٹر چلڈرن انسٹی ٹیوٹ فاؤنڈیشن ہاؤس مرزا محمد اکرم نے بطور مہمانانِ گرامی شرکت فرمائی۔مرشدِ کریم الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمیؔ صاحب نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:

یہاں پر تین موضوعات پر مقالات پیش کئے گئے۔ ان سب کا لَبِّ لُباب اللہ تعالیٰ سے دوستی کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دوستی کرنے والوں کو بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ۝ (سورۃ یونس – 62)

اللہ کے دوستوں کی تعریف یہ ہے کہ ان کی زندگی میں نہ خوف ہوتا ہے اور نہ حزن و ملال ہوتا ہے اور نہ غم ہوتا ہے۔

اور جن لوگوں کے اَندر غم ہوتا ہے اور خوف ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے دوست نہیں ہو سکتے اور جو اللہ کے دوست نہیں ہوتے، جنّت کی فضا انہیں قبول نہیں کرتی۔ وہ دوزخ کا ایندھن ہوتے ہیں۔ اگر کسی کے اَندر غم اور خوف ہے تو اللہ کے بیان کردہ قانون کے مطابق وہ جنّتی نہیں ہے۔ رُوحانی قدروں میں کسی شاگرد یا راہِ سلوک پر چلنے والے مسافر کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس کے دل سے خوف اور غم نکل جائے۔ خوف اور غم اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک آدمی کے اَندر قناعت اور إستغناء مَوجود نہ ہو۔

قناعت اور إستغناء کوئی لفظی معمّہ نہیں ہے یا کوئی حساب کا ہیر پھیر نہیں ہے۔ إستغناء فی العمل ایک کیفیت ہے، ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جو حقیقتِ مطلق سے متّصل ہے۔ جب تک کوئی بندہ حقیقت سے متعارف نہیں ہوتا، مشاہدہ نہیں کر لیتا اس وقت تک اس کے اَندر إستغناء پیدا نہیں ہوتا اور اگر إستغناء ہوتا ہے تو وہ اتنا ہوتا ہے کہ محض اس کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ جس آدمی کے اَندر جس مناسبت سے قناعت اور إستغناء مَوجود ہے اس آدمی کے اَندر اسی مناسبت سے ڈر، خوف اور غم بھی کم ہوتا ہے۔ اسی طرح موت ہے۔ موت کا بھی خوف ہوتا ہے۔ موت یا مرنا آخر ہے کیا؟

مرنے کی حالت کو عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ ․․․․․ رُوح نکل گئی مرنے کے بعد جس عالَم میں آدمی منتقل ہوتا ہے اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ مرنے والا اپنے دوستوں اور عزیزوں کی رُوحوں کے پاس عالَمِ اَعراف میں چلاگیا۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اَعراف میں آدمی کھانا بھی کھاتا ہے، پانی بھی پیتا ہے، سوتا جاگتا بھی ہے، وہاں اپنے رشتہ داروں سے ملتا بھی ہے، دکھ درد، سکون راحت اور اطمینان سے آشنا بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مرنے والے آدمی کی رُوح نکل گئی ہے تو رُوح نکلنے سے مراد یہ ہوگی کہ اب آدمی نہ سن سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے نہ محسوس کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم جس کو مرنا کہتے ہیں دراصل وہ ایسی حالت ہے جس کو ہم روشنی کے ہالے کا مٹّی کے ’’ جسم سے رشتہ منقطع کر لینے ‘‘کا نام دے سکتے ہیں۔

عام حالات میں جب إستغناء کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی آدمی کو اللہ تعالیٰ کے اوپر کتنا توکّل اور بھروسہ ہے۔ توکّل اور بھروسہ کم و بیش ہر آدمی کی زندگی میں داخل ہے۔ لیکن جب ہم توکّل اور بھروسہ کی تعریف بیان کرتے ہیں تو ہمیں بجز اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہماری دوسری عبادات کی طرح بھروسہ اور توکّل بھی دراصل لفظوں کا ایک خوش نما جال ہے۔ توکّل اور بھروسہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے لیکن جب ہم فی العمل زندگی کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ بات محض نعرہ اور غیر یقینی لگتی ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں اس کا عمل دخل جاری و ساری ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی فرم میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ بات رہتی ہے کہ فرم کا مالک یا سیٹھ ساہُوکار اگر مجھ سے ناراض ہو گیا تو ملازمت سے برخاست کردیا جاؤں گا یا میری ترقی نہیں ہوگی یا ترقی تنزلی میں بدل جائے گی۔ ظاہر ہے یہ بات بھروسہ اور توکّل کے سراسر خلاف ہے۔ اس کے بر عکس ہم زندگی میں یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ اگر کوئی کام نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے۔ یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب کسی کام کا نتیجہ اچھا مرتّب ہوتا ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ نتیجہ ہماری عقل اور ہماری فراست و فہم سے مرتّب ہوا ہے۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ کے اوپر توکّل اور بھروسہ محض مفروضہ ہے۔ جس بندے کے اَندرتوکّل اور بھروسہ پیدا نہیں ہوتا اور اس کے اَندر إستغناء بھی نہیں ہوتا۔ إستغناء سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی گزارنے میں بندے کا اپنا ذاتی ارادہ یا اختیار شامل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اگر مرغی کھلاتے ہیں… اُس میں خوش رہتا ہے…. اللہ تعالیٰ اگر چٹنی سے روٹی دیتے ہیں…. اُس میں بھی خوش رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کھدّر کے کپڑے پہناتا ہے بندہ اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے ہر عمل اور حرکت کو اللہ کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ پہلے بندے کے اَندر توکّل اور بھروسہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ إستغناء کے دائرے میں قدم رکھتا ہے۔ توکّل اور بھروسہ دراصل ایک خاص تعلق ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان براہ راست قائم ہے اور جس بندے کا اللہ کے ساتھ یہ رابطہ قائم ہو جاتا ہے اس بندے کے اَندر سے دنیا کا تمام لالچ نکل جاتا ہے۔ ایسا بندہ دوسرے تمام بندوں کی امداد اور تعاون سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور اس بندے کی حیثیت ایسی ہوجاتی ہے کہ جس حیثیت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اخلاص کی پانچ آیتوں میں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اخلاص میں اپنی ذات پر سے پردہ اٹھا دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ جو صفات اللہ تعالیٰ کے اَندر مَوجود ہیں یا جو صفات اللہ تعالیٰ کی ہیں وہ صفات مخلوق کے اَندر مَوجود نہیں ہیں۔ سورۃ اخلاص کی پانچ آیتیں ہمیں خالق اور مخلوق کا امتیاز سکھاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔”اے پیغمبرؐ! آپ ؐ فرما دیجئے اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، کسی سے احتیاج نہیں رکھتا۔ اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اللہ کسی کا باپ ہے، اللہ تعالیٰ کوئی خاندان بھی نہیں رکھتا۔ “

ان صفات کی روشنی میں جب ہم مخلوق کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مخلوق کبھی ایک نہیں ہوتی۔ مخلوق ہمیشہ بکثرت ہوتی ہے۔ مخلوق زندگی کے اعمال و حرکات پورے کرنے پر کسی نہ کسی احتیاج کی پابندہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا کوئی خاندان ہو۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ ان پانچ صفات میں جب لاشعوری تفکر سے کام لیا جاتا ہے تو ہمیں ایک بات ایسی ملتی ہے کہ ہم ان صفات کو….. جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں….. ان میں سے ایک صفت اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اوپر وارِد کر سکتے ہیں۔ مخلوق کیلئے ہر گز ممکن نہیں ہے کہ وہ کثرت سے بے نیاز ہو۔ مخلوق اس بات پر بھی مجبور ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ اسی طرح مخلوق کا خاندان ہونا بھی ضروری ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ پانچ صفات میں سے چار صفات میں مخلوق اپنا اختیار استعمال کرنے کیلئے بے بس اور مجبور ہے۔ صرف ایک ایجنسی ایسی ہے کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی صفت کو اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اوپر وارِد کرسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ…. اللہ احتیاج سے ماوراء ہے۔ مخلوق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دنیاوی تمام وسائل سے اپنی ضروریات اور احتیاج کو توڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ کر لے۔ یہی وابستگی توکّل اور بھروسہ ہے۔ اگر بندے کے اَندر مخلوق کے ساتھ امتیازی عوامل کام کر رہے ہیں تو وہ توکّل اور بھروسہ کے اعمال سے دُور ہے۔ راہ سلوک کے مسافر کو سب سے پہلے اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ زندگی کے تمام تقاضے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات جب سالک پِیر و مُرشد کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل بن جاتا ہے، بالکل اس طرح جس طرح ایک دودھ پیتے بچے کے کفیل اس کے والدین ہوتے ہیں۔ ان بچوں کی کفالت زیر بحث آتی ہے جنہوں نے ابھی تک شعور کے دائرے میں قدم نہیں رکھا ہے۔ جب تک بچہ شعور کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا والدین چوبیس گھنٹے اس کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔

مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے پیدا کرتے ہیں، چاہتے ہیں تو آدمی صحت مند پیدا ہوتا ہے…. نہیں چاہتے تو آدمی کی نشوونما میں ایسا سقم واقع ہوجاتا ہے کہ اس کے نہ اعضاء صحیح ہوتے ہیں نہ اس کا دماغ صحیح ہوتا ہے۔ اس کی نظر صحیح کام نہیں کرتی۔ ہاتھ پیروں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی چیز کو نہیں پکڑ سکتا، اپنی مرضی سے چل پھر نہیں سکتا۔ سائنس کتنی بھی ترقی کر لے پیدائشی اپاہج اور معذور بچوں کا علاج اس کے پاس نہیں ہے اور اس قسم کے معذور بچوں کو یہ کہہ کر ردّ کیا جاتا ہے کہ یہ پیدائشی معذور مریض ہیں۔ یہاں بھی انسان کی بے بسی اور بے اختیاری اظہر من الشمس ہے، سورج کی طرح عیاں ہے۔ قدرت جب بچوں کو پیدا کرتی ہے تو مختلف صورتوں میں پیدا کرتی ہے۔ قد کاٹھ مختلف ہوتا ہے، یہ نہیں دیکھا گیا کہ کوئی بنیادی طور پر کو تاہ قد آدمی ۷ فٹ کا بن گیا ہو۔ ایسی بھی دنیا میں کوئی مثال نظر نہیں آتی کہ ۷ فٹ کا آدمی گھٹ کر دو ڈھائی فٹ کا ہو گیا ہو۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ قد و قامت کے معاملے میں بھی آدمی بے اختیار ہے۔

اب مسئلہ ذہنی صلاحیت اور عقل و شعور کا آتا ہے…. لوگوں میں جب ہم عقل و شعور کا موازنہ کرتے ہیں تو کوئی آدمی ہمیں زیادہ باصلاحیت ملتا ہے کوئی آدمی ہمیں کم صلاحیت والا ملتا ہے اور کوئی آدمی بالکل بے عقل ملتا ہے۔ سائنس خلاء میں چہل قدمی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ بے عقل آدمی کو عقل مند کردیا گیاہو۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی مرضی سے عقل و شعور بخشتے ہیں۔ آدمی کے اَندر اللہ تعالیٰ فکر و گہرائی عطا کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے اَندر اللہ تعالیٰ فکر اور گہرائی پیدا کر دیتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی چیز ہے… لیکن جب وہی فکر و شعور اور گہرائی اُن سے چھین لی جاتی ہے…. اس وقت وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔

زندگی کے تمام اجزائے ترکیبی کسی ایک طاقت کے پابند ہیں․․․․․ وہ طاقت جس طرح چاہے چلاتی ہے اور جب چاہے ساکت کر دیتی ہے۔

مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ :

لوگ نادان ہیں…. کہتے ہیں کہ ہماری گرفت حالات کے اوپر ہے…. انسان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق حالات میں ردّ و بدل کر سکتا ہے…. لیکن ایسانہیں ہے۔ انسان ایک کھلونا ہے۔ حالات جس قسم کی چابی اس کھلونے میں بھر دیتے ہیں…. اُسی طرح یہ کودتا ہے ناچتا ہے آوازیں نکالتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع حالات پر انسان کو دسترس حاصل ہوتی تو کوئی آدمی غریب نہ ہوتا…. اپنی مرضی سے نہ مرتا۔

دنیا میں غرور و تکبر اور خود پرستی کے کردار، شدّاد، نمرود اور فرعون …. جو سمجھتے تھے کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے…. ان کی بھی موت کے پنجے نے گردن مروڑ دی اور دنیا پر ان کا نام و نشان نہیں رہا۔ یہ شدّاد و نمرود اور فرعون کی مثالیں ایسی نہیں ہیں کہ جن کو ہم تاریخی باتیں کہہ کر گزر جائیں۔ تاریخ ہر زمانے میں خود کو دہراتی ہے۔ البتہ رنگ، روپ، نام اور شکل بدل جاتی ہے۔ ہمارے زمانے میں شہنشاہِ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ منائی، موت کے پنجے نے اس کو اس قدر بے بس اور ذلیل کر دیا کہ اس کیلئے اس کی سلطنت کی زمین بھی تنگ ہو گئی وہ دیارِِ غیر میں مرگیا اور کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں تھا۔ اگر حالات انسان کے بس میں ہیں تو اتنا بڑا بادشاہ غریبُ الدَّیار نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ…. اور اس قسم کی بے شمار باتیں ہمارے ساتھ ہر روز پیش آتی رہتی ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم ان باتوں پر غور نہیں کرتے اور ان سب باتوں کو اتفاق کہہ کر گزر جاتے ہیں جبکہ کائنات میں اتفاق اور حادثہ کو ہر گز کوئی دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے جو مربوط ہے۔ ہر نظام کی دوسرے نظام کے ساتھ وابستگی ہے۔ اس نظام میں نہ کہیں اتفاق ہے، نہ کہیں حادثہ ہے، نہ کوئی قدرتی مجبوری ہے۔ اللہ کا ایک نظام ہے اور اس نظام کو چلانے والے کارندے اللہ کے حکم اور اللہ کی مشیت کے مطابق اسے چلا رہے ہیں۔

آدمی کیا ہے؟ کٹھ پتلی ہے․․․․․ جس طرح کائنات کا نظام چلانے والے کارکن ڈوریوں کو حرکت دیتے ہیں آدمی چلتا رہتا ہے۔ ڈوریاں ہلنا بند ہوجاتی ہیں…. آدمی مر جاتا ہے۔

یہ باتیں اس لئے عرض کی گئی ہیں کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ إستغناء اُس وقت تک کسی شخص کے اَندر پیدا نہیں ہوسکتا جب تک اس کے یقین میں یہ بات راسخ نہ ہوجائے کہ ہر چیز من جانب اللہ ہے۔ جب کسی بندے کے اَندر یہ بات یقین بن جاتی ہے کہ نظام میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت اور بڑی سے بڑی شے اللہ کے بنائے ہوئے ایک مربوط نظام کے تحت قائم ہے تو اس کے اَندر ایک ایسا پیٹرن (Pattern) بن جاتا ہے جس  کا اصطلاحی نام إستغناء ہے۔ اس پیٹرن (Pattern) کو جب تحریکات ملتی ہیں اور زندگی میں مختلف واقعات پیش آتے ہیں تو ان واقعات کی کڑیاں اس قدر مضبوط، مستحکم اور مربوط ہوتی ہیں کہ آدمی کی عقل یہ سوچنے اور ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں۔

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کسی چیز کے اوپر یقین کا کامل ہوجانا اسی وقت ممکن ہے۔ جب وہ چیز یا عمل جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ یہ کس طرح واقع ہوگی بغیر کسی ارادے اور اختیار اور وسائل کے پوری ہوتی رہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں کمرے میں بیٹھا ہُوا لَوح و قلم کے صفحات دوبارہ لکھ رہا تھا۔ عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا۔ لاہور سے کچھ مہمان آگئے۔ عام حالات میں چونکہ تھوڑی دیر کے بعد کھانے کا وقت تھا اس لئے ذہن میں یہ بات آئی کہ ان مہمانوں کو کھانا کھلانا چاہئے۔ یہ اس دَور کا واقعہ ہے جب میں حیرت کے مقام پر سفر کر رہا تھا اور نہ صرف یہ کہ کوئی کھانے پینے کا انتظام نہیں تھا…. لباس بھی مختصر ہو کر ایک لنگی اور ایک بنیان رہ گیا تھا۔ یہ ایک الگ داستان ہے کہ اس لباس میں گرمی سردی اور برسات کس طرح گزری۔ جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں…. ہمت اور توفیق عطا کر دیتے ہیں تو بڑی سے بڑی مشکلات اور پریشانیاں پلک جھپکتے گزر جاتی ہیں۔ قصہ کوتاہ یہ کہ ذہن میں یہ بات آئی کہ پڑوس میں سے ۵ روپے ادھار مانگ لئے جائیں اور ان روپوں سے خورد و نوش کا انتظام کیا جائے۔ خیال آیا کہ اگر۵ روپے دینے سے انکار کر دیا گیا تو بڑی شرمندی ہوگی پھر خیال آیا کہ جھونپڑی والے ہوٹل سے کھانا ادھار لے لیا جائے۔ طبیعت نے اس بات کو بھی پسند نہیں کیا۔ یہ سوچ کر خاموش ہو رہا کہ اللہ چاہے گا تو کھانے کا انتظام ہوجائے گا اور میں کمرے سے باہر آیا جیسے ہی دروازے سے قدم باہر نکالا چھت میں سے ۵ روپے کا ایک نوٹ گرا۔ نوٹ اس قدر نیا تھا کہ زمین پر گرنے کی آواز آئی۔ فرش پر جب ایک نیا نوٹ پڑا ہوا دیکھا تو نہ معلوم طریقے سے میرے اوپر دہشت طاری ہوگئی لیکن یکا یک ذہن میں ایک آواز گونجی یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وہ نوٹ اٹھالیا گیا اور کھانے پینے کا بہ فراغت انتظام ہوگیا۔

اب آپ لوگ بتائیے کہ انسان اپنی ضروریات کا کفیل ہے یا اللہ ؟

اگر انسان اپنی ضروریات کا خود کفیل ہے تو اس کے پاس ایسی کون سی طاقت ہے ایسا کون سا علم ہے کہ وہ دھوپ کو حاصل کرسکے پانی کو حاصل کر سکے۔ زمین کے اَندر اگر پانی کے سَوتے خشک ہوجائیں تو انسان کے پاس ایسا کون سا علم ہے، طاقت ہے، عقل ہے کہ وہ زمین کے اَندر پانی کی نہریں جاری کردے۔ یہی حال ہَوا کا ہے۔ ہَوا اگر بند ہوجائے…. اللہ تعالیٰ کا نظام، وہ نظام جو ہَوا کو تخلیق کرتا ہے اور ہَوا کو گردش میں رکھتا ہے اس بات سے انکار کر دے کہ ہَوا کو گردش نہیں دینا…. تو زمین پر مَوجود اربوں کھربوں مخلوق ایک منٹ میں تباہ ہوجائے گی۔ یہ کیسی بے عقلی اور ستم ظریفی ہے کہ بنیادی ضروریات کا جب تذکرہ آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارا اس پر کوئی اختیار نہیں ہے اور جب روٹی، کپڑے اور مکان کا تذکرہ آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر اپنا اختیار استعمال نہ کریں تو یہ چیزیں ہمیں کیسے فراہم ہوں گی؟ ان معروضات سے منشاء یہ ہرگِز نہیں ہے کہ انسان یہ سمجھ کر کہ میں بے اختیار ہوں ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہے، اس کے اعضاء منجمد ہوجائیں منشاء صرف یہ ہے کہ زندگی میں ہر عمل اور ہر حرکت کو مِن جانب اللہ سمجھا جائے۔ جدوجہد اور کوشش اس لئے ضروری ہے کہ اعضاء منجمد نہ ہوجائیں آدمی اپاہج نہ ہوجائے۔ آدمی جس مناسبت سے جدوجہد کرتا ہے جس مناسبت سے عملی اقدام کرتا ہے بے شک اسے وسائل بھی اسی مناسبت سے نصیب ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ قانون قدرت پر اسے دسترس حاصل ہوگئی۔ قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے زمین آسمان اور زمین آسمان کے اَندر جو کچھ ہے سب کا سب مسخر کردیا ہے:

1. ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس تسخیر کو صرف اور صرف مادّی حدود میں استعمال کیا جائے اور

2. دوسرا… اَحسن طریقہ یہ ہے کہ وسائل کو اس لئے استعمال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام وسائل انسان کیلئے پیدا کئے ہیں۔

رزق کی فراہمی کا بندوبست در و بست اللہ کے ذمّہ ہے۔ اب اللہ تعالیٰ رزق پہنچانے کا کوئی بھی طریقہ ختیار کریں۔ ماں کے پیٹ میں بچے کی پرورش، بچے کی زندگی اور بچے کو مستقل طور پر غذا پہنچانے کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ غور طلب بات یہ کہ ماں کے پیٹ میں بچہ غذا حاصل کرتا ہے اور اس غذا سے مسلسل اور متواتر اعتدال کے ساتھ، توازن کے ساتھ پرورش پاتا رہتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی عجیب ہے کہ بچے کو غذا پہنچانے کا جو ذریعہ ہے یعنی ماں، اس ذریعے کو بھی غذا پہنچانے میں کوئی ذاتی اختیار حاصل نہیں ہے۔ ایک ماں غذاکھاتی ہے۔ اس غذا سے بالکل غیر اختیاری اور غیر ارادی طور پر خون بنتا ہے اور یہ خون شَریانوں اور رگوں میں دوڑنے کے بجائے بچے کی غذا بنتا رہتا ہے۔ شَریانوں اور رگوں کو خون کی جتنی ضرورت ہوتی ہے، اُس مِقدار میں شَریانوں اور وریدوں کو بھی خون فراہم ہوتا رہتا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی پرورش کس ارادے اور کس اختیار کے ساتھ ہو رہی ہے؟ بندے کا اس میں ذرا سا بھی  عمل دخل نہیں ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعدبچے کو غذا فراہم ہونے کا طریقہ یکسر بدل جاتا ہے۔ وہی خون جو بچے کو ماں کے پیٹ میں براہ راست منتقل ہو رہا تھا، اب دوسرا صاف شفاف طریقہ اختیار کرتا ہے اور یہی خون ماں کے سینے میں بہترین غذا…. دودھ بن جاتا ہے۔ یہ بات پھر اپنی جگہ اہم ہے کہ خون دودھ کیسے بنا، کس نے بنایا؟ اس میں آدمی کا کون سا اختیار کام کر رہا ہے؟ اور یہ بات کیا عجیب نہیں ہے کہ بچے کی پرورش جب مقصود نہیں ہوتی تو ماں کے سینے میں دودھ نہیں اترتا۔ اس کے بعد بچہ دودھ کی منزل سے ذرا آگے بڑھتا ہے تو اسے دودھ کی مناسبت سے کچھ بھاری غذاؤں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان بھاری غذاؤں کو چبانے اور پینے کے لئے قدرت دانت فراہم کرتی ہے۔ دنیا میں کون سا ایسا علم ہے؟ ایسی کون سی سائنس؟ ایسا کون سا بندہ ہے؟جو ارادے اور اختیار کے ساتھ ایسا کر سکے۔ جیسے جیسے بچے کی نشوونما ہوتی ہے اور بچے کے جسمانی نظام کو بھاری اور قوت بخش غذاؤں کی ضرورت پیش آتی ہے اس کی آنتیں، معدہ اور دوسرے اعضاء اسی مناسبت سے کام کرناشروع کردیتے ہیں۔ عقل و شعور کے پاس ایسا کون سا علم ہے جس علم کی بنیاد پر وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مشین کی نقّالی کر سکے…. یعنی وہ آنتیں بنا دے، معدہ بنادے، دل پھیپڑے تخلیق کردے۔ چونکہ غذاؤں میں کثافت ہے اور یہ غذائیں وہ غذائیں نہیں ہیں جن غذاؤں کو اللہ تعالیٰ نے لطیف کہا ہے…. لہٰذا اِن غذاؤں سے نکلی ہوئی کثافت کے اخراج کا بھی اہتمام ہے۔

ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ توکّل اور إستغناء کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اس وقت کامل ہوتا ہے جب آدمی کی اَندر وہ قوّت متحرک ہوجائے جس قوت کا نام تصوّف نے شہود رکھا ہے۔

شہود کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) علم الیقین (۲) عین الیقین (۳)حق الیقین۔

علم الیقین کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد انسان پر پہلی بات جو منکشف ہوتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارا خالق اللہ ہے ایسا اللہ جس نے ہماری تمام ترضروریات کی کفالت اپنے ذمہ لے لی ہے۔ ضروریات پورا ہونا اور مسلسل پورا ہونا اور بغیر کسی مادّی قانون کے پورا ہونا آدمی کو بالآخر یہ سوچنے پر اور یقین کرنے پر مجبور کردیتا ہے کہ:

فی الواقع رازق اللہ ہے

فی الواقع ربّ اللہ ہے

فی الواقع زندگی دینے اور زندگی لینے والا اللہ ہے

اللہ ہی عزت دیتا ہے…. اللہ ہی ذِلّت دیتا ہے

اللہ ہی ابتداء ہے…. اللہ ہی انتہا ہے

اللہ ہی ظاہر ہے…. اللہ ہی باطن ہے… اور

اللہ ہی ہر شے کو محیط ہے….

اس منزل میں داخل ہوئے بغیر آدمی کے اَندر کبھی إستغناء پیدا نہیں ہوتا اور جس بندے کے اَندر إستغناء پیدا نہیں ہوتا ہو راہ سلوک کا بھٹکا ہوا مسافر ہوتا ہے اس کی کوئی منزل نہیں ہوتی…..

دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے اپنی باطنی قوتوں کو بیدار اور متحرک کر کے ایسے کمالات اور خرقِ عادات کا اظہار کیا ہے کہ لوگ حیران ہیں، پریشان ہیں۔ بعض باتیں ان سے اس قسم کی بھی سر زد ہوتی ہیں کہ بڑے بڑے صاحب ِ علم لوگ ان کی اس رُوحانی قوت پر ایمان لے آتے ہیں اور راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ آدمی اپنی اِستطاعت اپنی صلاحیت اپنی اِستعداد اپنے ارادے سے خرقِ عادت تو پیدا کر سکتا ہے…. لیکن ایسے بندے کے اَندر ستغناء پیدا نہیں ہوتا۔ کیا آپ نے ایسے لوگ نہیں دیکھے کہ جو جادوٹونے کا کام کرتے ہیں، لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اور لوگوں کے بنے ہوئے کاموں کو خراب کردیتے ہیں لیکن فِیس لیتے ہیں…. کیا آپ نے ایسے عامل نہیں دیکھے کہ پیر کی گدّی پر بیٹھے ہوئے…. صورت شکل فرشتوں جیسی بنائی ہوئی ہے قال اللہ اور قال الرسول ؐ کا چرچا ہے لباس بھی عین اسلام کے مطابق ہے…. جبے قبے میں ڈھکے ہوئے ہیں لیکن لوگوں سے پیسے وصول کر رہے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میرے پاس ایک خاتون تشریف لائیں انہوں نے جو عامل صاحب کا نقشہ کھینچا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ کوئی بہت ہی عابد، زاہد، زندہ بیدار ہے۔ مسائل اور مشکلات کا حل یہ بتایا کہ صدقہ کردو۔ خاتون نے پوچھا کس چیز کا صدقہ کروں؟ پیر صاحب نے بتایا کہ اونٹ کا صدقہ کردو اور تین ہزار روپے لے لئے۔ میرے مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک سائل کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ پیر اور فقیر میں فرق ہے:

فقیر کی تعریف یہ ہے کہ اس کے اَندر إستغناء ملے گا…. اس کے اَندر دنیاوی لالچ نہیں ہوگا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا کفیل صرف اور صرف اللہ ہے۔ اللہ اس کو اَطلس و کمخواب پہنا دیتا ہے…. وہ خوش ہو کرپہن لیتا ہے۔ اللہ اس کو کھدّر پہنا دیتا ہے…. اُس میں بھی وہ خوش رہتا ہے۔ اللہ اس کو لنگوٹی پہنا دیتا ہے…. وہ خوش ہو کر پہن لیتا ہے۔ اللہ اُس سے لنگوٹی چھین لیتا ہے…. وہ اس میں بھی خوش رہتا ہے۔ اور دوسری پہچان یہ فرمائی کہ جب تک بندہ فی الواقع کسی فقیر کی صحبت میں رہتا ہے اس کا ذہن صرف اللہ کی طرف مُتوجّہ رہتا ہے شاذو نادر ہی اسے دنیا کے کام کا خیال آتا ہے۔

خرقِ عادات کے ضمن میں آج کل سائنسی نقطۂ نظر سے جو کوششیں کی جارہی ہیں ان سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان اپنی ذاتی کوششوں سے اور متعیّنہ مشقوں سے اپنے اَندر ماورائی صلاحیتوں کو بیدار کر لیتا ہے۔ ٹیلی پیتھی اور ہپناٹزم کے سلسلے میں یورپ اور بالخصوص روس میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے انسان اس بات کا یقین کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر ہم عبادت و ریاضت کو ماورائی علوم کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیں تو یہ بات بظاہر کمزور نظرآتی ہے کیونکہ روس جس کا مذہب پر کوئی عقیدہ نہیں ہے…. ماورائی علوم کے حصول میں قابل تذکرہ حد تک ترقی کر چکا ہے۔ تصوّف میں ایک تذکرہ آتا ہے تصرّف کرنا…. یعنی شیخ اپنے مرید پر توجّہ کرکے اس کے اَندر کچھ تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ یہ تصرف آج کی دنیا میں ایک سائنس دان بھی کر لیتا ہے اور وہ ٹیلی پیتھی کے ذریعے اپنے حسبِ منشاء دوسرے آدمی کو متأثر کر کے اس کو وہ کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جو اس کے ذہن میں ہوتا ہے۔ تصوّف میں دوسری بڑی اور اہم چیز اَندر دیکھنا ہے یعنی آدمی کے اَندر ایسی باطنی نظر کام کرنے لگتی ہے جس نظر سے وہ اِس سیّارے سے باہر کی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آج کے دَور میں یہ بات بھی ہمارے سامنے آچکی ہے کہ مراقبہ بھی ایک سائنس بن چا ہے۔ یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جو مراقبہ اور مراقبے کی کیفیات پر سیر حاصل بحث کرتی ہیں۔ تیسری چیز جو رُوحانیت، تصوّف اور مذہب میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے اَندر ایسی صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں…. جن صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ ایسے علوم کا اظہار کرتا ہے جو علوم بظاہر کتابوں میں نہیں ملتے۔ سائنس نے اس سلسلے میں بھی کافی پیش رفت کی ہے اور ایسے علوم کا اظہار ہوچکا ہے کہ جن  پر شعور انسانی نے یقین بھی نہیں کیا اور بالآخر وہ چیزیں وُجود میں آئیں اور انسان ان پر یقین کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ان حالات میں تصوّف کی اصطلاحیں…. توجہ، تصرّف، باطنی نگاہ کا کھلنا،(Time and Space)یا زمان و مکان سے آزادی ایک معمّہ بن گئی ہے۔ اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ ماورائی نظر کا متحرک ہونا صرف ذکر و فکر اور اشغال سے ممکن ہے۔ ان حالات میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ جب ایسے لوگ جو مذہب پر عقیدہ نہیں رکھتے تصرف کر سکتے ہیں، ان کے اَندر باطنی نگاہ بیدار ہوسکتی ہے، وہ نئے نئے علوم کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں…. پھر یہ تصوّف کیا ہے؟

تصوّف کے ساتھ ساتھ مذہب کا تذکرہ بھی آتا ہے۔ مذہب کی بنیادیں بھی انہی اصولوں پر رکھی گئی ہیں کہ آدمی مذہبی فرائض پورے کرنے کے بعد اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی یا دوسروں کی زندگی میں تصرف کر سکے۔ اس کی باطنی نگاہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنے لگے لیکن جب ہم مذہب کے پیروکاروں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہزاروں لاکھوں میں ہمیں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ملتا جس کی تصرف کی طاقت بحال ہوگئی ہو اور جس کے اَندر باطنی نگاہ کام کرتی ہو۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ مذہبی لوگ ان علوم سے بے خبر ہیں جن علوم کی نشان دہی ایسے لوگوں نے کی ہے جو مذہب پر عقیدہ نہیں رکھتے یا مذہب کو ایک مجبوری سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں ہر سنجیدہ آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے تو پھر تصوّف اور مذہب کیا ہے؟ اس بات کو ہم یہاں مختصر کر کے پھر اپنے اصل موضوع إستغناء کی طرف لوٹتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے تذکرہ میں وضاحت کے ساتھ فرعون اور جادوگروں کا تذکرہ کیا ہے۔ فرعون نے جب یہ دیکھا کہ اس کی خدائی پر حرف آرہا ہے اور حضرت موسیٰ اس کی تباہی اور بربادی کا ذریعہ بن رہے ہیں تو اس نے اپنی مملکت کے تمام جادوگروں کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور حضرت موسیٰ سے مقابلہ کریں۔ اس دعوت میں جادوگروں کیلئے جو مُتوجّہ کرنے کی سب سے بڑی چیز تھی وہ یہ تھی کہ اگر تم نے موسیٰ کو شکست دے دی تو تمہیں انعام و کرام سے مالا مال کر دیا جائے گا۔

ایک میدان اور تاریخ مقرر ہوئی۔ جادوگر جمع ہوگئے۔ موسیٰ بھی تشریف لائے۔ جادوگروں نے لاٹھیاں، بانس اور رسّیاں میدان میں پھینکیں وہ سانپ بن گئے، اژدھے بن گئے۔ لگتا تھا کہ میدان بڑے بڑے سانپوں اور اژدھوں سے بھرا ہُوا ہے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور سانپوں کی پھنکار تھی۔ صورت حال جب بہت نازک ہوگئی اتنی نازک کہ حضرت موسیٰ بھی گھبراگئے۔ حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ کی طرف مُتوجّہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے موسیٰ ڈر مت! اپنی عصا پھینک۔ (سورۃ طٰہٰ – 69، 68)

موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر پھینک دیا۔ وہ عصا ایک بہت بڑا اژدھا بن کر میدان میں دوڑتے ہوئے تمام سانپوں اور اژدھوں کو نگل گیا اور اس طرح فرعون جس کو اپنی دنیاوی دولت اور مال و اسباب پر گھمنڈ تھا ذلیل و خوار ہوا اور وہ جادوگر جو دولت اور انعام و کرام کے لالچ میں دُور دراز سے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو شکست دینے آئے تھے وہ بھی نا مراد لَوٹ گئے۔اس واقعہ میں اگر تفکر کیا جائے تو بہت سادہ بات یہ ہے کہ:

جادوگروں نے جب بانس پھینکے تو ان سے خرقِ عادت کا ظہور ہوا وار وہ سانپ بن گئے۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے جب عصا پھینکا وہ بھی اژدھا بن گیا اور تمام سانپوں کو نگل گیا۔

ابھی ہم نے عرض کیا ہے کہ آدمی اپنی کوششوں اور متعیّن طریقوں پر مشقیں کرنے کے بعد اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے خرقِ عادت کا اظہار کر سکے…. جیسا کہ جادوگروں نے اپنے ارادے اور اختیار سے خرقِ عادت کو ظاہر کیا کہ ایک مخلوق نے اس کا مشاہدہ کیا…. لیکن اس میں ایک بنیادی فرق ہے:

جادوگر لاتعداد ہیں…. بانس اور رسّیاں جو اژدھے اور سانپ بنے وہ بے شمار ہیں۔ جادوگروں کو ایک بہت بڑے بادشاہ کا تعاون بھی حاصل ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام تنہا ہیں۔ ان کا تکیہ، ان کا بھروسہ اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔

اس بات کو اس طرح سمجھا جائے کہ جادوگروں کے دلوں میں چونکہ مال و دولت کی خواہش مَوجود ہے اس لئے ان میں إستغناء نہیں تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اَندر چونکہ إستغناء تھا اس لئے إستغناء کی قوت اور یقین نے جادوگروں کے تمام جادو کو بر باد اور ختم کردیا۔

یہی صورت حال تصوّف میں توجہ، تصرف اور باطنی نگاہ کی بھی ہے۔ اگر کسی بندے میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلّقِ خاطرپیدا نہیں ہُوا اور اس کے اَندر إستغناء کی قوتیں نہیں ابھریں تو اس سے جو کچھ خرقِ عادت صادر ہوگی وہ اِستدراج ہے…. جادو ہے۔

مذہبی عبادت کا بھی یہی قانون ہے۔

مذہب نے جو عبادتیں فرض کر دی ہیں ان فرائض کی ادائیگی میں اگر بندے کا ذہن اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہے تو یہ عبادت ہے ورنہ یہ عبادت نہیں ہے۔ کلمہ، نماز، روزہ، حج، زکوۃ یہ سب ارکان اس بنیاد پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس طرح چاہتے ہیں…. اس لئے ہم پر لازم ہے کہ…. ان فرائض کی ادائیگی میں ہم کوتاہی نہ کریں لیکن اگر فرض کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ یقین قائم نہ ہو تو یہ فرض کی ادائیگی نہ ہوگی اور بندہ بالآخر نقصان اور خسارے میں ہوگا۔

زندگی میں دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ عید کا چاند دیکھنے کے بعد بچوں کی عیدی کے سلسلے میں فکر لاحق ہوئی اور میں اپنے ایک دوست کے پاس کچھ روپے ادھار لینے کیلئے چلا گیا۔ دوست نے مجھ سے کہا۔ یہ روپے تو میرے پاس مَوجود ہیں لیکن کسی کی امانت ہیں۔ طبیعت نے اس بات کو گوارہ نہ کیا کہ دوست کو امانت میں خیانت کرنے کا مجرم قرار دیا جائے۔ وہاں سے چلتا ہوا میں بازار میں آ گیا۔ وہاں مجھے ایک دوست ملے۔ بہت اچھی طرح پیش آئے اور انہوں نے پیش کش کی کہ آپ کو عید کے سلسلے میں کچھ روپے پیسے کی ضرورت ہو تو لے لیں میرے پاس کافی رقم مَوجود ہے۔ نہ معلوم طریقے پر میں نے ان کی اس پیشکش کو نامنظور کردیا۔ انہوں نے کہا، صاحب میں نے آپ سے کسی زمانے میں کچھ روپے ادھار لئے تھے وہ میں ادا کرنا چاہتا ہوں اور انہوں نے میری جیب میں ساٹھ روپے ڈال دئیے۔ میں گھر چلا آیا اور ان ساٹھ روپوں سے عید کی تمام ضروریات پوری ہوگئیں۔ اس واقعہ پر بہت زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ دوست سے میں ۳۰ روپے ادھار لینے گیا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنے پیسے دلوادئیے جو میری ضروریات کیلئے پورے تھے۔ ظاہر ہے کہ اگر ۳۰ روپے قرض مل جاتے تو ضرورت پوری نہ ہوتی۔ یہ پیسے اور روپے کے سلسلے میں دو واقعات میں نے گوش گزار کئے ہیں اس قسم کے بے شمار واقعات زندگی میں پیش آئے۔ ان بے شمار واقعات پیش آنے کے نتیجہ میں یہ یقین مستحکم اور پختہ ہو گیا کہ ضروریات کے واحد کفیل اللہ تعالیٰ ہیں، اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم رزّاق ہیں تو وہ بہر حال رزق پہنچاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وہ کارندے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ‘‘في الارض خلیفہ’’ کہا ہے…. اِس بات پر کار بند ہیں کہ وہ مخلوق کو زندہ رکھنے کیلئے وسائل فراہم کریں۔

بہت عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے پیدا کرتے ہیں….

جب تک وہ چاہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے…. اور

جب وہ نہیں چاہتے تو آدمی سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں بھی زندہ نہیں رہ سکتا…. لیکن

آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ…. میں اپنے اختیار سے زندہ ہوں…. معاشی سلسلہ میرے اپنے اختیار سے قائم ہے….

اسی سلسلے میں ایک مرتبہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا:

کسان جب کھیتی کاٹتا ہے تو جھاڑو سے ایک ایک دانہ سمیٹ لیتا ہے اور جو دانے خراب ہوتے ہیں یا گھن کھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی اکھٹا کر کے جانوروں کے آگے ڈال دیتا ہے۔ جس زمین پر گیہوں بالیوں سے علیحدہ کرکے صاف کیا جاتا ہے وہاں اگر آپ تلاش کریں تو مشکل سے چند دانے نظر آئیں گے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق…. پرندے اربوں اور کھربوں کی تعداد میں دانہ چگتے ہیں…. ان کی غذا ہی دانہ ہے…. تو یہ معمہ حل نہیں ہوتا کہ کسان تو ایک دانہ نہیں چھوڑتا…. ان پرندوں کیلئے کوئی مخصوص کاشت نہیں ہوتی…. پھر یہ پرندے کہاں سے کھاتے ہیں؟

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا کہ قانون یہ ہے کہ پرندوں کا غول جب زمین پر اس ارادے سے اترتا ہے کہ ہمیں یہاں دانہ چگنا ہے…. اس سے پہلے کہ ان کے پنجے زمین پر لگیں…. قدرت وہاں دانہ پیدا کردیتی۔ اگر پرندوں کی غذا کا دارو مدار حضرتِ انسان…. یعنی کسان پر ہوتا تو سارے پرندے بھوک سے مرجاتے۔

دوسری مثال حضور بابا صاحبؒ نے یہ ارشاد فرمائی کہ چوپائے بہر حال انسانوں سے بہت بڑی تعداد میں زمین پر مَوجود ہیں۔ بظاہر وہ زمین پر اُگی ہوئی گھاس کھاتے ہیں۔ درختوں کے پتے چَرتے ہیں۔ لیکن جس مِقدار میں گھاس اور درختوں کے پتے کھائے جاتے ہیں۔ زمین پر کوئی درخت نہیں رہنا چاہئے۔ قدرت ان کی غذا کی کفالت پوری کرنے کیلئے اتنی بھاری تعداد میں درخت اور گھاس پیدا کرتی ہے کہ چرندے سَیر ہو کر کھاتے رہتے ہیں۔ گھاس اور پتوں میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ ان درختوں اور گھاس کا تذکرہ ہے جس میں انسان کا کوئی تصرف نہیں ہے۔ قدرت اپنی مرضی سے پیداکرتی ہے، اپنی مرضی سے درختوں کی پرورش کرتی ہے، اور اپنی مرضی سے انہیں سرسبز و شاداب رکھتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جو زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔

آپ لوگ دیکھیں کہ جتنی بھی دنیاوی ترقی ہوئی ہے اس ترقی کا ماحصل صرف اور صرف دنیاوی لالچ ہے۔ جتنی بھی سائنس نے ترقی کی اس ترقی سے نوعِ انسانی مستفیض ہوئی لیکن جن لوگوں نے یہ ایجادات کیں ان کے پیشِ نظر مالی اور دنیاوی مُنفِعَت رہی۔ ہم طرزِ فکر کے بارے میں بہت واضح طور پر یہ بیان کر چکے ہیں کہ….

دنیا میں جو کچھ مَوجود ہے اس کا تعلق براہ راست طرزِ فکر سے ہے….

ایک طرزِ فکر وہ ہے جس کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے…. اور

ایک طرزِ فکر وہ ہے جس طرزِ فکر کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے قائم نہیں ہے….

اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر کا مشاہدہ ہر آن اور ہر گھڑی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی قرآن پاک میں ارشاد فرمایاہے۔‘‘ہماری نشانیوں پر غوکرو…. تفکر کرو…. اور عاقل، بالغ، باشعور، سمجھ دار اور فہیم لوگ وہ ہیں جو ہماری نشانیوں پر غور کرتے ہیں’’

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں ظاہری، حواس سے دیکھی جانے والی نشانیاں جن سے ہم ہر وقت مُستفیض ہوتے رہتے ہیں وہ ہوا، پانی، دھوپ اور رنگ ہیں۔ زمین میں نشوونما اور نئی نئی چیزیں تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی کوکھ سے ایسی ایسی چیزیں پیدا کیں جن چیزوں پر نہ صرف یہ کہ نوعِ انسانی بلکہ زمین کے اوپر جتنی بھی مخلوق مَوجود ہے اس کی زندگی کا دار و مدار ہے۔

ہَوا…. ایک ایسی نشانی ہے کہ جس سے زمین پر رہنے والا ایک متنفّس بھی محروم نہیں ہے۔

پانی ایک ایسی نشانی ہے جو انسان کی زندگی کو فیڈ(Feed)نہ کرے تو زندگی ختم ہوجائے گی۔ نہ صرف یہ کہ انسانی زندگی ختم ہو جائے گی…. پورا سیّارہ زندگی سے محروم ہوجائے گا۔

یہی حال دھوپ کا ہے….

یہی حال چاندنی کا ہے….

یہی حال درختوں کے سر سبز و شاداب ہونے کا ہے…. اور

یہی حال رنگ برنگے پھولوں کا ہے….

یہ ساری چیزیں براہ راست اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہیں۔

ان تخلیقات پر جب تفکر کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ…. ان تمام تخلیقات سے اللہ تعالیٰ کا منشاء اور مقصد یہ ہے کہ نوعِ انسانی کو فائدہ پہنچے…. ایسا فائدہ کہ جس فائدہ کے پیچھے کوئی غرض، کوئی صلہ، کوئی مقصد، کوئی لین دین اور کوئی کاروبار نہیں ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام چیزیں اس لئے پیدا کی ہیں کہ بندے اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں تو پھر ہم یہ کیسے تسلیم کریں گے کہ جو لوگ اللہ کی ذات و صفات کا انکار کرتے ہیں اور برملا کفر کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ہَوا ان کو بھی زندگی دے رہی ہے، پانی سے وہ بھی سیراب ہورہے ہیں…. دھوپ میں جو حیاتین اور توانائی مَوجود ہے ان سے بھی انہیں فائدہ پہنچ رہا ہے۔ نوعِ انسانی سے ہٹ کر سانپ، بچھو، کنکھجورے اور بے شمار حشراتُ الارض بھی اللہ تعالیٰ کے اس مفت انعام سے مالا مال ہیں۔ اس مختصر سی تمہید سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر یہ ہے کہ وہ جو جب انعام فرماتے ہیں تو مخلوق کو بلاتخصیص اُس سے فائدہ پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی طرف سے کسی صلہ یا ستائش کی غرض نہیں ہوتی۔ بس یہ ان کی شان کریمی ہے کہ انہوں نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق کو زندہ رکھنے کیلئے اتنے وسائل فراہم کردئیے کہ فی الواقع مخلوق اس کا شمار بھی نہیں کر سکتی۔

اس کے بر عکس جب ہم سائنسی ترقیات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں سائنس کی ہر ترقی میں ذاتی منفعت اور دنیاوی لالچ ملتا ہے۔ یہ وہ طرزِ فکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر کے متضاد ہے۔ ظاہر ہے جو چیز اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر کے مطابق نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ نہیں ہے۔ جتنا قرب اللہ تعالیٰ سے بندے کو ہوتا ہے اسی مناسبت سے بندے میں اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر منتقل ہوتی رہتی ہے اور اس سے ایسے اعمال سرزد ہوتے رہتے ہیں جن سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن اس بندے کا اپنا ذاتی فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ تمام اولیاء کرام کی زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے نوعِ انسانی کی جو بھی خدمت کی اس خدمت کے پیچھے ان کا اپنا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا اور اگر کسی بندے کا ذاتی فائدہ ہے تو وہ ہر گز اولیاء اللہ کی صف کا بندہ نہیں ہے۔ کوئی آدمی اپنی کوشش اپنی ریاضت سے اپنے اَندر رُوحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے یقیناً خرقِ عادات کا اظہار کر سکتا ہے لیکن اگر اس کی طرزِ فکر اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے تو یہ تصوّف نہیں ہے۔

ایک سائنس ہے…. ایسی سائنس جو لامذہب لوگ بھی اختیار کر سکتے ہیں اور جیسا کہ اس زمانے میں ہو رہا ہے۔ انبیائے کرامؑ کی تعلیمات پر رُوحانی نقطہ نظر سے اور قلبی مشاہدے کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیاؑء کی ساری تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ بندے کی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی طرف موڑ دیا جائے…. یعنی اگر بندہ انفرادی طور پر زندہ رہتا ہے تو اس لئے زندہ نہ رہے کہ اس کو اس کی مرضی کے بغیر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ وہ زندہ رہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے اَندر صلاحیتوں کا ذخیرہ جمع کردیا ہے تو جب اللہ تعالیٰ اسے توفیق دیں اور وہ ان صلاحیتوں کو استعمال کرے تو اس کے ذہن میں یہ بات رہے کہ میری صلاحیتوں کا اظہار اس لئے ہورہا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے۔

یہ کہنا کہ إستغناء کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہشات کو ختم کردے، ہر گز، صحیح نہیں ہے۔ سراسر کوتاہ عقلی کی دلیل ہے اس لئے کہ زندگی بجائے خود خواہشات کا نام ہے۔ زندگی سے خواہشات کو نکال دیا جائے تو زندگی روشنیوں میں تحلیل ہوجائے گی کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ کیا پانی پینا، بھوک لگنا، سونے اور جاگنے کا تقاضا بچوں کی خواہش پیدا ہونا، بچوں کی تربیت کرنا، اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کا تقاضا پیدا ہونا خواہشات نہیں ہیں۔ یہ سب خواہشات ہیں…. مراد یہ ہے کہ تمام خواہشات پوری کی جائیں لیکن خواہشات کو پورا کرنے میں انسان کا ذہن یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ چونکہ یہ چاہتے ہیں لہٰذا ہم یہ کررہے ہیں۔ إستغناء سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ آدمی ساری زندگی روزے رکھتا رہے۔ إستغناء سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ وسائل عطا فرمائیں اور آدمی سوکھی روٹی کھاتا رہے۔ إستغناء سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ کرے اللہ کیلئے کرے…. اللہ تعالیٰ اگر اطلس و کمخواب کے کپڑے پہناتا ہے تو وہ کپڑے اس لئے پہنے کہ اللہ تعالیٰ نے پہنائے ہیں، اللہ تعالیٰ اگر ٹاٹ کے کپڑے پہنائے تو آدمی اس سے بھی اتنا ہی خوش رہے جتنا وہ اطلس و کمخواب کے کپڑے پہن کر خوش ہوتا۔ آدمی کو اللہ تعالیٰ مرغی کھلائے تو وہ مرغی کھائے۔ لیکن اگر حالات کے تقاضے کے تحت آدمی کو چٹنی سے روٹی ملے یا ایک وقت روٹی ملے تو اس میں بھی اتنا ہی خوش رہے جتنا وہ مرغی کھا کر خوش ہوا تھا اور یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ ہماری زندگی کی ہر حرکت، ہر عمل، ہمای گفتار کی بنیاد…. اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بولنے کی صلاحیت دی ہم بولتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں سننے کی صلاحیت عطا کی ہم سنتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور تفکر کرنے کی صلاحیت دی ہے ہم سوچتے ہیں تفکر کرتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ایسا کیا جائے۔

اسی قسم اور اسی قبیل کے لوگوں کیلئے ارشاد خداوندی ہے۔

"وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ” (آلِ عمران – 7)

اور وہ لوگ جو راسخ فی العلم ہیں…. کہتے ہیں کہ یہ بات یقین اور مشاہدے میں ہے کہ ہر بات ہر چیز من جانب اللہ ہے۔ اس آیت کے مفہوم پر غور کیا جائے تو سوچنے اور سمجھنے کے کئے رخ متعیّن ہوتے ہیں۔ تفصیل میں جانے کے بجائے ہم دو رخوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے…. ‘‘وہ لوگ علمی اعتبار سے مستحکم ذہن رکھتے ہیں’’…. یعنی ایسا ذہن جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ایسا ذہن جو شیطانی وسوسوں سے پاک ہے، ایسا ذہن جس کے اَندر کثافت اور علمی آلودگیاں نہیں ہیں۔ علمی کثافت اور علمی آلودگی سے مراد یہ ہے کہ اس علم سے بندوں کو تکلیف پہنچے۔ جس کو عرف عام میں تخریب کا عمل کہا جاتا ہے اور وہ لوگ جو علمی اعتبار سے ایسی مسند پر قیام فرما ہیں جس پر شکوک و شبہات کی چھاپ نہیں ہے…. وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ ہر چیز…. اُس کی دنیا میں کوئی بھی حیثیت ہو…. چھوٹی ہو، بڑی ہو، راحت ہو، تکلیف ہو…. ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں مختصراً دو رخوں کا ذکر اس طرح ہے کہ….

کچھ لوگ ہیں جو راسخ فی العلم ہیں اور ان لوگوں کا کہنایہ ہے یا ان لوگوں کی پہچان یہ ہے یا ان لوگوں کی طرزِ فکر یہ ہے کہ یہ بات اُن کے مشاہدے میں ہوتی ہے کہ کائنات میں جو کچھ مَوجود ہے، جو ہو چکا ہے، ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے، اس کا براہ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے…. یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ہے اسی طرح اس چیز کایا اس عمل کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ یا فلسفیانہ طرزِ فکر کو نظر انداز کرتے ہوئے عام سطح پر ہم اس بات کو چند مثالوں میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

طرزِ فکر کے بارے میں یہ بات واضح طور پر سامنے آچکی ہے کہ زندگی کا ہر عمل اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے، اس حیثیت میں معانی پہنانا دراصل طرزِ فکر میں تبدیلی ہے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہر چیز جس کا وُجود اس دنیا میں ہے یا آئندہ ہوگا، وہ لوحِ محفوظ پر لکھی ہوئی۔ یعنی دنیا میں کوئی چیز اس وقت تک مَوجود نہیں ہو سکتی جب تک کہ پہلے سے لوحِ محفوظ پر مَوجود نہ ہو۔ کوئی آدمی اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے لوحِ محفوظ پر مَوجود ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے اس لئے گزرتا ہے کہ زندگی کے نشیب و فراز دن اور ماہ و سال کے وقفے لوحِ محفوظ پر مَوجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان وقفوں میں ٹائم کی حیثیت کیا ہے؟ ایک آدمی جب عاقل بالغ اور باشعور ہوتا ہے تو اس کو زندگی گزارنے کیلئے وسائل کو حاصل کرنے کیلئے روپیہ پیسہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ بات کچھ اس طرح ہے کہ ایک آدمی کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ روپے متعیّن کئے اور وہ ایک لاکھ روپے لوحِ محفوظ پر لکھے گئے۔ جس طرح ایک لاکھ روپیہ کسی بینک میں جمع کر دیا جاتا ہے اسی طرح ایک لاکھ روپیہ پہلے سے لوحِ محفوظ پر جمع ہے۔ وسائل کو استعمال کرنے کیلئے آدمی کوشش اور جدوجہد کرتا ہے۔ جیسے جیسے کوشش اور جدو جہد کے مراحل طے کرتا ہے اس کو روپیہ ملتا رہتا ہے اور ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ اگر لوحِ محفوظ پر اس کے حصہ کا زرِمبادلہ متعیّن نہ ہو تو اسے اس دنیا میں کچھ نہیں مل سکتا۔ ایک طرزِ فکر یہ ہے کہ آدمی باوجود اس کے کہ ضمیر ملامت کرتا ہے اپنی روزی کو حرام طریقے سے حاصل کرتا ہے۔ دوسرا آدمی اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ روزی حلال ہو۔ رزق حلال سے بھی وہ دو روٹی کھاتا ہے اور رزق حرام سے بھی وہ شکم سیری کرتا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ پر مُملّ ہے کہ اس دنیا میں اسے جو کچھ مل رہا ہے وہ لوحِ محفوظ سے مل رہا ہے اور لوحِ محفوظ میں وسائل اس کیلئے پہلے سے متعیّن ہیں۔ ایک آدمی محنت مزدوری کر کے ضمیر کی روشنی میں روپیہ حاصل کرتا ہے۔ دوسرا ضمیر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے روپیہ حاصل کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے اتنا ہی روپیہ مل رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے اس کیلئے جمع کردیا ہے، اس لئے کہ جب تک لوحِ محفوظ پر کوئی چیز نقش نہیں ہوتی دنیا میں اس کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے اور انتہائی درجہ نادانی اور بے وقوفی ہے کہ آدمی اپنی ہی چیز کو حرام کردیتا ہے اور اپنی ہی چیز کو حلال کردیتا ہے۔ قانون یہ ہے کہ جو چیز لوحِ محفوظ پر نش ہوگئی اس کا مظاہرہ لازم بن جاتا ہے۔ راسخ فی العلم لوگ اس بات کا مشاہدہ کرلیتے ہیں کہ ہر مظہر کا تعلق، ہر عمل کا تعلق، ہر حرکت کا تعلق لوحِ محفوظ سے ہے۔ اس لئے وہ بر ملا اس کا اعلان کرتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اس اعلان کے ساتھ ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے لیے جو کچھ متعیّن کردیا، وہ ضرور ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظروں کے سامنے یہ بات بھی آجاتی ہے کہ ہمارے لےھ لوحِ محفوظ پر اتنا سرمایہ یا اتنے وسائل مخصوص کردیئے گئے ہیں…. بالکل اس طرح جیسے کسی آدمی کو یہ معلوم ہو کہ بینک میں میرے نام سے ایک کروڑ روپیہ جمع ہے۔ چونکہ مظاہراتی طور پر یہ بات اس کے یقین میں ہے کہ میرے نام سے ایک کروڑ روپیہ جمع ہے وہ اس بات سے مطمئن رہتا ہے۔ راسخ فی العلم لوگ چونکہ لوحِ محفوظ کے نقوش کا مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ اس لئے وہ کسی تکلیف کو یا کسی آرام کو عارضی تکلیف یا عارضی آرام سمجھتے ہیں اور اس مشاہدے کے بعد ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں مخصوص کر دی ہیں وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین ان میں إستغناء کی طاقت پیدا کردیتا ہے۔

مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ سے فرمایا کہ إستغناء بغیر یقین کے پیدا نہیں ہوتا…. اور

یقین بغیر مشاہدے کے تکمیل نہیں پاتا…. اور

جس آدمی میں إستغناء نہیں ہے اس آدمی کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کم اور مادّیت سے زیادہ رہتا ہے۔

تصوّف اور رُوحانیت دراصل ایسے اسباق کی دستاویز ہے جن اسباق میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ سکون کیلئے ضروری ہے کہ آدمی کے اَندر إستغناء ہو۔ إستغناء کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل ہو۔ توکّل کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آدمی کے اَندر ایمان ہو اور ایمان کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اَندر وہ نظر کام کرتی ہو جو نظر غیب میں دیکھتی ہے۔ بصورت دیگر کسی بندے کو کبھی سکون میسر نہیں آسکتا۔

آج کی دنیا میں عجیب صورت حال ہے کہ ہر آدمی دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے، ہر آدمی دولت کے انبار اپنے گرد جمع کرنا چاہتے ہے اور یہ شکایت کرتا ہے کہ سکون نہیں ہے، سکون نہیں ہے۔ سکون ہر گز کوئی عارضی چیز نہیں ہے۔ سکون ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور جس کے اوپر کبھی موت واقع نہیں ہوتی۔ ایسی چیزوں سے جو چیزیں عارضی ہیں، فانی ہیں اور جن پر ہماری ظاہری آنکھوں کے سامنے بھی موت وارِد ہوتی رہتی ہے ان سے ہرگز سکون حاصل نہیں ہوسکتا۔ مراقبہ اس سلسلے میں ایک ایسی کوشش ہے جس کوشش پر یہ طرزیں متعیّن ہیں کہ آدمی فانی اور مادّی چیزوں سے اپنے ذہن کو ہٹا کر حقیقی اور لافانی چیزوں میں تفکر کرے۔ یہ تفکر جب قدم قدم چلا کر غیب کی دنیا میں کسی بندے کو پہنچاتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اَندر یقین پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یقین کی کرن دماغ میں پھوٹتی ہے وہ نظر کام کرنے لگتی ہے جو نظر غیب کا مشاہدہ کرتی ہے۔ غیب میں مشاہدے کے بعد کسی بندے پر جب یہ راز منکشف ہوجاتا ہے کہ ساری کائنات کی باگ ڈور ایک واحد ہستی کے ہاتھ میں ہے تو اس کا تمام تر ذہنی رجحان اس ذات پرمرکوز ہوجاتا ہے۔ اور اس مرکزیت کے بعد إستغناء کا درخت آدمی کے اَندر شاخ در شاخ پھیلتا رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ السّلام و علیکم!


 

Topics


Khutbat Lahore

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا