مرشدِ کریم کی لاہور میں پہلی آمد
یہ مضمون میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب کی ان یادوں پر مشتمل ہے جو مرشدِ کریم الشیخ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لاہور میں پہلی آمد پر مسلسل دل اور روح کو کیف و نشاط ڈبوئے ہوئے تھیں۔
مرشدِ کریم لاہور میں پہلی مرتبہ ۲۳ نومبر ۱۹۸۱ع رات ۱۰ بجے لاہور کی سرزمین پر جلوۂ افروز ہوئے ۔ میاں مشتاق احمد صاحب کی یہ دلچسپ تحریر”دل مرشد کے قرب کیلئے کس طرح بے قرار ہوتا ہے”۔ کی بھر پور عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس ملاقات اور آمد کا احوال بیان کرتے ہوئے میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب بتاتے ہیں کہ :
۲۱ نومبر ۱۹۸۱ء کی شام تھی جب مجھے ایک خط جناب فرخ اعظم صاحب کی طرف سے موصول ہوا کہ قبلہ محترم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بذریعہ شالیمار ایکسپریس لاہور تشریف لارہے ہیں۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ میں باربار اپنے گھر میں بچوں سے مرشدِ کریم کے بارے میں تذکرہ کرتا اور اپنی کیفیات سے خود ہی لطف اندوز ہوتا رہا ۔ میری ساری توجہ مرشدِ کریم کی آمد پر تھی۔ میں سلسلۂِ عظیمیہ میں جنوری ۱۹۸۰ء سے وابستہ تھا مگر مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ العالیٰ سے ملاقات نہ ہوئی تھی۔ یہ خبر میرے لئے بہت بڑی خوشی کا باعث تھی۔ میں ۲۳ نومبر کے دن کا انتظار کرنے لگا۔ یہ دو دن میرے لئے پہاڑ تھے اور میری توجہ کا مرکز مرشدِ کریم تھے۔ جب انسان کی خود سے توجہ ہٹتی ہے تو وہ دوسروں کو دیکھنا اور محسوس کرنا شروع کردیتا ہے اور جب انسان اپنی ذات کے محدود حصار سے باہر نکل آتا ہے تب اس کو یہ دنیا ایک مختلف رنگ ایک بدلے ہوئے ڈھنگ اور ایک نئے زاوئیے سے نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ خط کے اندر ایک شخص کے گھر کا ٹیلی فون نمبر تھا۔ میں نے صبح دفتر جا کر سب سے پہلے کام یہ کیا کہ ان صاحب کے گھر فون کیا۔ وہاں پر ایک شخص نے بتایا کہ آپ ۲۳ نومبر کو رات ۱۰ بجے لاہور اسٹیشن پر پہنچ جائیں۔ میں آپ کو وہاں ملوں گا۔ میں نے ان سے دریافت کیا میں آپ کو کس طرح پہچانوں گا۔ انہوں نے فرمایا میرے ہاتھ میں ہار ہوں گے۔ چناچہ ۲۳ نومبر کا دن تیاری کا دن تھا۔ شام کا کھانا کھا کر میں اپنے اسکوٹر پر لاہور اسٹیشن پہنچا تو وہاں کا گھڑیال رات آٹھ بجے کا اشارہ دے رہا تھا۔ چناچہ اسکوٹر کو پارک کیا اور ریلوے اسٹیشن کی بتیوں کو دیکھتا ہوا اندر چلاگیا ۔ چونکہ میرا تعلق لاہور سے تھا اور میرا خاندان ہزاروں سال سے لاہور میں قیام پذیر تھا لیکن اس شہر کا باسی ہونے کے باوجود میں ایک دیہاتی کی طرح بتیوں کو بڑے غور سے دیکھ کر خود ہی مسکرا رہا تھا۔ یہ مسکراہٹ آج اتنی گہری ، پُر زور اور جاندار تھی کہ میں بے خود ہوگیاتھا اور اپنے آپ کو بھول گیا تھا۔ میرا دھیان میرے مرشدِ کریم کے انتظار میں تھا اور آج مجھے کوئی پریشانی ، کوئی فکر، کوئی تھکن اور کوئی دفتری الجھن یاد نہیں تھی اور میری یہ مسکراہٹ ہونٹوں سے اتر کر ارد گرد پھیلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ میں اسٹیشن کے اندر اور باہر لوگوں کو آتا جاتا دیکھ رہا تھا۔ اور ان کے چہروں سے معلوم ہورہا تھاکہ وہ کسی کی آمد پر خوش ہیں اور کسی کے باہر جانے پر افسردہ ہیں۔ میں اسٹیشن پر گھوم رہا تھا اور پھر ایک کتابوں کے اسٹال پر کھڑا ہوگیا اور دیر تک کتابوں کی ورق گردانی کرتا رہا۔ آخر کار دوکاندار نے کہا کہ صاحب آپ نے کتاب تو خریدنی نہیں ، اس لئے بہتر ہوگا آپ پلیٹ فارم نمبر ۴ یا نمبر ۲ پر چلے جائیں۔ مجھے ایسا لگا کوئی مجھے اپنی منزل کی یاد دہانی کرا رہا ہے اور میری منزل مرشدِ کریم سے ملاقات تھی اس وقت رات کے دس بج چکے تھے اور میں اس شخص کو تلاش کر رہا تھا جس کو میرے مراد کا پتہ تھا۔ مجھے اسٹیشن پر ایک آدمی نظر آیا جس کے ہاتھ میں چند ہار تھے۔ میں نے ان کو مؤدبانہ سلام کیا اور مرشدِ کریم کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ میں چوہدری صاحب کا ڈرائیور ہوں۔ یہ چوہدری صاحب ہیں۔ میں نے قبلہ محترم چوہدری جلال الدین عظیمی صاحب کو سلام عرض کیا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آپ نے ٹیلی فون کیا تھا۔ میں نے اثبات میں سر کو ہلا دیا۔ بس ابھی گاڑی آنے والی ہے۔ انتظار کا ایک لمحہ بھی اس عاشق سے پوچھیں جو اپنے محبوب کے انتظار میں ہر لمحہ اپنے اندر سہانی سہانی یادوں کے سپنے سجا رہا ہوتا ہے۔ ہر بار گھڑی کی طرف نظر جاتی پھر آخر کار وہ لمحہ بھی آگیا کہ اسپیکر پر ٹرین کی آمد کا مژدہ سنایا گیا۔ آخر کار گاڑی فراواں فراواں پلیٹ فارم میں داخل ہوئی۔ اور ہم چند لوگ جو گنتی میں صرف تین یا چار ہوں گے چوہدری صاحب کے پیچھے پیچھے ایک Air Condition ڈبہ میں داخل ہوگئے ۔ چوہدری صاحب مرشدِ کریم کے گلے ملے اور وہ ان کو لے کر پلیٹ فارم سے باہر آگئے اور اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگے ۔ میں لپک کر مرشدِ کریم کے پاس گیا اور ان کو سلام عرض کیا۔ جواب میں مرشدِ کریم نے احوال پوچھا کہ چوہدری صاحب کے شوفر نے گاڑی چلادی اور میں وہاں کھڑا رہ گیا اور گاڑی کو جاتا دیکھتا رہا۔ میری نگاہیں اس طرف جمی تھیں جس طرف گاڑی جا رہی تھی اور ذہن مرشدِ کریم کے نقوشِ پا کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ ذہن میں باربار ایک ہی سوال پیدا ہورہا تھا کہ مرشدِ کریم کا دیدار مکمل نہیں ہوا اور یہ کیسے لوگ ہیں کہ پیاسے کو پانی کی ایک بوند بھی سمندر سے نہیں لینے دیتے ۔ میں نے اسی کشمکش میں پارک والی جگہ سے اسکوٹر لیا اور گھر آگیا۔ آتے ہی گھر والوں نے سوالوں کی بوچھاڑ شروع کردی۔ مگر میں کیا جواب دیتا۔ آ کر ان لوگوں کو برا بھلا کہتا رہا جنہوں نے مرشدِ کریم سے بات تک نہ کرنے دی ۔ میں اس حالت میں گھر سے نکلا اور مرشدِ کریم کی تلاش میں ماڈل ٹاؤن کی سڑکوں پر گھومنا شروع کردیا۔ قبلہ محترم چوہدری صاحب نے ہمدرد کی فیکٹری کے پاس اپنے گھر کا پتہ بتایا تھا۔ اسی کو اپنی منزل سمجھ کر چلنا شروع کردیا۔ رات کے دھائی بج چکے تھے اور کتے مجھے دیکھ کر بھونکنے شروع ہوگئے تھے ۔ آخر کار میں نے چوہدری صاحب کا گھر پالیا اور گھنٹی بجا دی کافی دیر کے بعد ایک آدمی آیا اور کہا کہ حضور مرشدِ کریم سو چکے ہیں ، آپ صبح تشریف لائیں آپ میری کیفیت کا اندازہ لگا چکے ہوں گے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں۔
دوسرے دن صبح گیارہ بجے دوبارہ چوہدری صاحب کے گھر گئے۔ بہت لوگ وہاں مرشدِ کریم سے ملنے آئے تھے ، میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوگیا۔ مرشدِ کریم تشریف لائے، ہم سب کو دیکھا اور مسکرا دئیے۔ اس مسکراہٹ میں دو جہانوں کی خوشیاں تھیں۔ بے خودی اور کیف کا ایک جذبہ تھا۔ اور میں خود ہی ان کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ پھر مرشدِ کریم نے نام پوچھا اور کام کی نوعیت پوچھی اور گھر کا پتہ پوچھا ۔ میں نے عرض کیا حضور اگر مناسب سمجھیں تو میرے غریب خانہ جو مزنگ میں ہے ، تشریف لائیں۔ آپ نے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا اور قبلہ محترم چوہدری صاحب نے حکم دیا کہ بڑی گاڑی لانا اور کل پانچ بجے شام ہم آپ کے گھر آئیں گے۔
دوسرے دن میں نے دفتر سے بڑی گاڑی لی اور چوہدری صاحب کے گھر آگیا۔ ملاقات کرنے والوں کا ابھی تک رش تھا۔ ایک گھنٹے کے بعد مرشدِ کریم بمعہ اپنے چند رفقاء کے گاڑی میں بیٹھے اور مزنگ کی طرف چل دیئے میں مرشدِ کریم کو دیکھ رہا تھا اور دل میں بہت خوش ہورہا تھا کہ آج اس قطرے کو سمندر مل گیا جو اس کو تلاش کر رہا تھا۔ گھر آگیا اور مرشدِ کریم اور ان کے رفقاء کو لے کر ڈرائینگ روم میں بٹھاکر میں چائے وغیرہ لینے اوپر چلا گیا۔ جلد چائے آگئی۔ مرشدِ کریم نے چائے نوش فرمائی میں نے عرض کیا حضور کھانا تیار ہے اگر حکم دیں تو لے آئیں ۔ چوہدری صاحب فوراً بول اٹھے کہ نہیں ہم نے کھانا کہیں اور کھانا ہے۔ میں چوہدری صاحب کے جواب پر پُرنم آنکھوں سے مرشدِ کریم کودیکھ رہا تھا کہ حضور نے فرما دیا کہ نہیں چوہدری صاحب میاں صاحب کے گھر تھوڑا سا کھا لیتے ہیں۔ میری خوشی کا کوئی کنارہ نہیں تھا کہ میرے مراد نے میری آرزو قبول کرلی ہے۔ میں نے کھانا پیش کیا اور حضور نے کھانے کی تعریف کی اور سلمیٰ(میری بیوی) بھی بہت خوش ہوئی۔ کھانے کے بعد حضور نے گھر کا ایک ایک حصہ دیکھا اور حکم دیا کہ آئندہ کے بعد سے اس گھر میں محفل مراقبہ ہُوا کرے گی ۔ چناچہ اگلی ہی اتوار کو لاہور کے اس بڑے شہر میں میرا گھر سلسلۂ عظیمیہ کا پہلا مراقبہ ہال بن گیا جہاں پر محفل مراقبہ ہر اتوار کو شام کے وقت ہوتی رہی اور یہ سلسلہ ۱۵ سال پر محیط رہا۔
(ماخوز از”میں اور میرا مرشد”)