Topics

ایوانِ اقبال میں پہلی سیرت کانفرنس سے خطاب

ایوانِ اقبال لاہور میں مارچ ۲۰۰۴ء کو مراقبہ ہال لاہور کے زیرِ اہتمام ایک سیرت کانفرنس بعنوان “اُسوۂِ حسَنہ سے معاشرہ میں راہنمائی ” کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیرت کانفرنس میں مجیبُ الرحمن شامی صاحب، چیف ایڈیٹر خبریں اخبار و چینل فائیو اور نُور الدین جامی صاحب ڈین فیکلٹی شعبہ اسلامیات بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی صاحبان نے خصوصی طور پر شرکت فرمائی۔ اس کے علاوہ کراچی اور ملک کے دیگر شہروں سے مہمانانِ گرامی اور سلسلۂِ عظیمیہؔ کے اراکین کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی جس کی تعداد تقریباًہزار افراد سے زائد تھی۔ پروگرام کی مینیجمنٹ بہت خوبصورت انداز سے کی گئی تھی۔ نگران مراقبہ ہال لاہور جناب میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے آغاز میں مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا خصوصی تعارف پیش کیا اور آپ کی سلسلہ کیلئے اور نوعِ انسانی کیلئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مہمانانِ گرامی نے پروگرام کو بہت پسند کیا اور آئندہ ایسے پروگرام کرنے کیلئے درخواست بھی کی۔ پروگرام کے آخر میں مہمانوں کی گرم گرم بریانی سے تواضع کی گئی۔

مرشدِ کریم نے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:

أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ۝

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۝

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۝ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۝ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ۝ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۝ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۝ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۝

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

(سورۃ الأحزاب – 56)

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ۝ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ۝

(سورۃ الصّافات – 181 – 180)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰیٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیت عَلٰی اِبرَاھِیم وَعَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیم اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ۝

اَللّٰھُمَّ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰل ِمُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اِبرَاھِیم وَعَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیم اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ۝

آئیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے وہ کچھ کہنے کی توفیق عطا فرمائے جو آپ کے دلوں میں اتر جائے۔

رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے میرے الفاظ میں اللہ وہ نُور بھر دے جس نُور سے ظلمتیں دُور ہو جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ جو کچھ میں عرض کروں مجھے اور آپ سب کو اس عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

السّلام علیکم!

آج کی اس رُوحانی، نورانی اور ماورائی مجلس میں آپ لوگوں نے مقررین کی تقریریں سنیں۔ بہت کچھ آپ نے سیکھا۔ بہت زیادہ معلومات کا اضافہ ہوا۔ کافی حد تک عمل کی تشنگی دور ہوئی۔ لیکن․․․․․ یہ جو عنوان ہے ،”اسوۂ حسنہ سے معاشرے میں اصلاح”کا…. یہ اتنا بڑا عنوان ہے کہ اس پر اب تک لاکھوں کتابیں، کروڑیں صفحات لکھے جاچکے ہیں۔ لیکن علم کی پیاس بجھنے کی بجائے اور بھڑک رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ “یہاں جو کچھ ہے وہ اللہ ہے۔” کائنات میں․․․․․ اگر ہم، کائنات کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں تو ایک ہی بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ مخلوقات کے مجموعے کا نام کائنات ہے۔ اور ․․․․․

مخلوقات کتنی ہیں؟

اس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا

(سورۃ الکھف – 109)

تمہارے سارے سمندر روشنائی بن جائیں، سارے درخت قلم بن جائیں۔ درخت بھی ختم ہوجائیں گے، سمندر بھی سوکھ جائیں گے لیکن اللہ کی باتیں پھر بھی باقی رہیں گی۔

رسول اللہ ﷺ

اللہ کے محبوب ہیں

باعثِ تخلیق کائنات ہیں

کائنات کا پہلا نُور ہیں، جیسے ارشاد پاک ہے: أوَّلْ مَا خَلَقَ اللهُ نُورِي

یعنی ایسی ہستی کا تذکرہ جو…. بعد اَز خدا بزرگ توئی…. قصّہ مختصر…. ہے۔

یعنی اللہ کے بعد․․․․․ اگر کوئی ہستی ہے تو وہ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام ہیں۔

تو اُنؐ کا جتنا بھی تذکرہ کیا جائے، دفاتر لکھ دئیے جائیں، علم کی پیاس نہیں بجھتی۔ بلکہ اور تشنگی بڑھے گی۔

پندرہ سو سال سے رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ ہورہا ہے۔ لیکن جب ہم رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد:

أوَّلْ مَا خَلَقَ اللهُ نُورِي

پر غور کرتے ہیں تو بھائی ․․․․․ یہ تو تذکرہ کائنات سے پہلے حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا ہو رہا ہے۔

ابھی کائنات تخلیق بھی نہیں ہوئی۔ اللہ ہی اللہ ہے۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے نُور کو تخلیق کیا۔ اس نُور سے پھر ساری کائنات بنی۔ اسی لئے باعثِ تخلیق کائنات․․․․․ رسول اللہ ﷺ کو کہاجاتا ہے۔

سب نے ایک ہی بات کہی ہے جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ “اسوۂحسنہ ہے کیا؟”․․․․․․ عمل تو بعد میں ہوگا۔ پہلے یہ تو علم ہونا چاہئے کہ اسوۂ حسنہ کیا ہے اور جب اس کا علم ہوجائے تو پھر عمل کرنے میں آسانی ہوگی۔

حضور پاک ﷺ کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ کے حوالے سے بھی آپ نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ تاریخ ساز شخصیت ہیں بلکہ مکمل ایک تاریخ ہیں۔ انبیاءِ کرامؑ علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے علوم بھی ایک تاریخ ہیں۔ آسمانی صحیفے اور آسمانی کتابیں بھی تاریخ ہیں۔ آپ علیہ الصّلوٰۃ و السّلام قرآن پاکِ کا عملی نمونہ ہیں۔ تو یہ سب کچھ آپ نے سن لیا ہے۔

مختصر یہی ہے کہ:

جو کچھ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے کیا، اس پر عمل کیا جائے اور جو کچھ حضور پاک ﷺ نے نہیں کیا، کوشش کر کے ان باتوں کو ترک کردیاجائے۔

یہی بات ہے جو آپ کے سمجھنے کی ہے۔ اسوۂ حسنہ سے معاشرے میں رہنمائی کب ہوگی؟ دو باتیں اس میں میرے خیال میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں:

1. ایک تو یہ کہ معاشرہ ہے …. اور

2. ایک یہ کہ معاشرے کو روشنی دکھانے والا کوئی ہو….

پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ:

معاشرے کی تشکیل کب ہوئی؟

یہ معاشرہ بنا کب؟

معاشرے کی بنیاد کو اگر دیکھاجائے تو․․․․․ ہمیں معاشرے کی بنیاد کا علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السّلام کو تخلیق کیا اور اس لئے تخلیق کیا کہ، زمین میں ایک معاشرہ قائم کر کے، اس معاشرے کو چلانے کیلئے، انتظامی امور قائم کرنے کیلئے، مقصدِ حیات کا تَعیّن کرنے کیلئے، کوئی ہستی پیدا ہو․․․․․ تو ․․․․․ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو پیدا کیا اور علم الأسماء سکھایا۔

فرشتوں نے کہا کہ صاحب یہ تو بہت خون خرابا کرے گا۔ فساد برپا کرے گا۔ اللہ نے ان کو کہا کہ بھےء جو ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر آدم ؑ کو عمل الأسماء سکھایا اور سکھا کر آدمؑ سے فرمایا کہ ہم نے جو علم تمہیں سکھادیا ہے اسے فرشتوں کے سامنے بیان کرو۔ فرشتوں کے سامنے جب آدم ؑ نے ان علوم کو بیان کیا تو فرشتوں نے اس بات کا اعتراف کیا۔

قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (سورۃ البقرۃ – 32)

کہ باری تعالیٰ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں علم سکا دیا۔

مسجودِ ملائکہ کے بعد دوسرا حصہ یہ بنا کہ:

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ …. (سورۃ البقرۃ – 35)

اے آدم تو اور تیری بیوی جنّت میں رہو….

لیکن ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے دو شرطیں رکھ دیں:

1. جنّت میں رہنے کی ایک شرط تو یہ ہے کہ تم نے وہاں خوش ہو کر رہنا ہے…. اور

2. دوسری شرط یہ ہے کہ…. یعنی تم نے اس درخت کے قریب نہیں جانا۔

آدم علیہ السّلام جنّت میں رہتے رہے۔ کتنے سال رہے…. کتنے قرَن رہے…. کتنی صدیاں وہاں گذاریں․․․․ اس کے بارے میں ہمیں کچھ پتہ نہیں…. لیکن وہاں وہ رہتے رہے۔

آپ کو پتہ ہے کہ شیطان نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ شیطان نے آدم علیہ السّلام اور اماں حوّا کو بہکا دیا اور نتیجے میں انہیں جنّت سے باہر نکلنا پڑا۔

پہلی صورت اس کی یہ ہوئی کہ جنّت میں جب آدم ؑ ․․․․․ اس درخت کے قریب گئے ․․․․․ شیطان کے بہکانے سے تو انہوں نے اپنے آپ کو ننگا محسوس کیا․․․․․ بغیر کپڑوں کے محسوس کیا․․․․․ ستر پوشی کی ضرورت پیش آئی۔

ایک بات میں عرض کروں کہ میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں اس کو یاد رکھئیے گا۔ اس لئے کہ یہ پھر ایک دوسرے کے، ایک دوسرے سے ایسے ڈانڈے ملیں گے جیسے چٹائی بُنتی ہے ناں ایسے بُنائی ہوگی…. تو

پہلی بات تو یہ کہ آدم ؑ سے غلطی ہوئی۔ وہ غلطی سہوا ہوئی تو آدم ؑ نے خود کو عریاں محسوس کیا اور ستر پوشی کی ضرورت پیش آئی اور کیلے کے پتے جو ہیں ان کا لباس بنا۔

دوسری بات یہ ہوئی کہ آدم ؑ کو حکم دیا گیا کہ اب تم جنّت سے نکل جاؤ۔

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا – سورۃ البقرۃ – 38

اب تم سب کے سب اتر جاؤ…. اب تم جنّت میں نہیں رہ سکتے۔

آدم ؑ حسرت و یاس سے، روتے دھوتے، پریشان حال، اس دنیا میں آگئے۔ یہاں کھانے پینے کی پریشانی لاحق ہوئی۔ جنّت میں تو یہ تھا کہ جس چیز کو دل چاہا وہ مَوجود ہوگئی․․․․․ اچھا وہاں کوئی ٹائم اسپیس کا بھی مسئلہ نہیں تھا۔ قرآن کہتا ہے:

رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا (البقرۃ – 35)

آسمانی اسپیس کی پابندی کے بغیر․․․․․ جنّت میں سے جہاں سے دل چاہے کھاؤ…. یعنی اسپیس ہی نہیں ہے۔ جہاں سے دل چاہے ․․․․․․․․․ اب جنّت کوئی ایک ہزار، دو ہزار میل کا رقبہ تھوڑی ہوگا۔ وہ تو لاکھوں کروڑوں میل کا رقبہ ہوگا۔ اس کی تو ہمارے پاس کوئی(Figure) بھی نہیں ہوگی۔

جب آدم ؑ جنّت سے زمین پر آئے تو سب سے پہلے یہ مجبوری لاحق ہوئی کہ اسپیس کی پابندی انہوں نے محسوس کی۔ دوسری ․․․․․․ صورت کھانے پینے کی محتاجی ہوگئی۔ اب بھوک لگی۔ بھوک میں راہنمائی کی اللہ نے تو انہوں نے جڑیں کھانی شروع کردیں۔ پتے کھانے شروع کردئیے، پھل کھانے شروع کردئیے۔

اماں حوّا اور ابّا آدم دونوں ․․․․․ ایک عجیب پریشانی کے حال میں اس دنیا میں رہتے رہے۔

پھر ان کی اولاد کا سلسلہ شروع ہوا۔ دو سے چار ہوئے، چار سے آٹھ ہوئے آٹھ سے سولہ ہوئے اور اضافہ ہوتا رہا۔ ہابیل قابیل بھی پیدا ہوئے پھر ان کی اولادیں بھی پیدا ہوئیں۔

جیسے جیسے حضرت آدم ؑ کی اولاد میں اضافہ ہوا تو اولاد کیلئے گھر کی ضرورت پیش آئی۔ اولاد کیلئے محنت مزدوری کی بھی ضرورت پیش آئی۔ تو پھر ․․․․․ قانون وضع ہوا۔ “کہ رہن سہن کس طرح ہوا؟

یہ معاشرے کی پہلی بنیاد پڑی۔ یعنی معاشرے کی ابتداء کرنے والی ہستی حضرت آدم ؑ پیغمرن ہیں۔ اور اس کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔

ارتقاء عمل میں آیا۔ پھلوں اور پتوں سے نکل کر کاشت کی طرف رجحان پیدا ہوا۔

حضرت جبرائیل علیہ السّلام تشریف لائے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں جنّت میں تمہیں حاصل تھیں، ان نعمتوں کی نقل تو تمہیں یہاں ملے گی۔ جیسے انگور وہاں تھا یہاں بھی ملے گا۔ کیلا وہاں تھا کیلا یہاں بھی ہوگا۔ لیکن․․․․․․ وہاں یعنی جنّت میں ارادے کے ساتھ انگور پلیٹ میں رکھ کر آپ کے سامنے آجاتے تھے یہاں ارادے سے کام نہیں چلے گا…. یہاں پہلے زمین میں انگور کی بیل کاشت کرنی ہوگی․․․․․ انتظار کرنا ہوگا․․․․․ اس کی خدمت کرنی ہوگی․․․․․ پھر انگور لگے گا․․․․․․ پھر کھالو۔ گندم آپ کو بونی ہوگی۔

بولے ! بھائی کس طرح گندم بوئیں؟․․․․․ کیا کریں گندم؟ تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ساتھ لیا اور کھیت بنایا۔ پیچھے پیچھے حضرت آدم ؑ تھے آگے آگے حضرت جبرائیل ؑ تھے۔ سَو قدم اِدھر…. سَو قدم اُدھر ایک کھیت بنایا۔

جب کھیت بن گیا تو آدم ؑ نے دو قدم آگے بڑھ کے یہ کہا کہ یہاں حد بنا دو۔ جب دو قدم حضرت آدم ؑ آگے بڑھے تو حضرت جبرائیل ؑ نے افسوس کا اظہار کیا اور یہ کہا ․․․․․․ کہ آپ نے اپنی اولاد میں لالچ کا بیج بو دیا ہے نا دانستہ طور پر۔ آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اس زمین میں تو آپ کے علاوہ کوئی ہے ہی نہیں۔ ساری زمین ہی اپنی ہے۔ بہرحال ․․․․․ وہ کھیتی باڑی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

اب مسئلہ یہ ہوا کہ کتنے کھیت ہوں، پانی کہاں سے آئے، نہر کس طرح سے بنے کہ یہ ایک دوسرے کی کھیتی میں، ایک دوسرے کا تصرف نہ ہو، دوسرے کا حق نہ مارا جائے۔ آہستہ آہستہ یہ قوانین بن گئے۔

اللہ تعالیٰ نے بھی نوعِ انسانی کے معاشرے کیلئے شریعت کی شکل میں قوانین عطا کر دئیے…. کہ:

کوئی کسی کا مال ناحق نہیں کھائے گا

کوئی کسی کی چوری نہیں کرے گا

کوئی کسی کے حق پر غاصبانہ قبضہ نہیں کرے گا

آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہیں کرے گا، وغیرہ وغیرہ ․․․․․

یہ معاشرے کی تشکیل شروع ہوگئی۔

پھر حضرت آدم ؑ کے بعد مسلسل ․․․․․ نوعِ انسانی میں سے پیغمبر مبعوث ہوتے رہے۔ اور ان پیغمبروں نے بھی اصلاحِ معاشرہ کیلئے قوانین وضع کئے۔ جب ان قوانین میں ․․․․․ کوئی سقم پیدا ہوگیا، کوئی خرابی پیدا ہوگئی، لوگوں نے مصلحتیں شامل کردیں تو نئے پیغمبر آئے اور انہوں نے اس میں جو نقص واقع ہو گیا تا، اس دور کیا۔ یہ بتاتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس معاشرے کی تشکیل میں مصروف رہے۔

بالآخر سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام تشریف لے آئے۔

لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی آپ ذہن میں رکھیئے گا کہ جتنے بھی پیغمبران علیہم السلام تشریف لائے…. سب نے رسول اللہ ﷺ کے آنے کی پیش گوئی کی۔ کہ ایک نجات دھندہ آئے گا…. ایک نجات دھندہ آئے گا….

جس وقت حضور پاک ﷺ تشریف لائے، اس وقت یہودی شریعت اور عیسائی شریعت نافذ تھی اور اس میں بہت ساری برائیاں داخل ہوگئیں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سارے قواعد و ضوابط کو دیکھتے ہوئے اس میں اصلاح فرمائی اور اللہ کے حکم سے ہمیں ایک نظام دیا کہ ․․․․․

ہمیں کس طرح رہنا ہے، کس طرح زندگی گزارنی ہے، اس کا نام شریعت ہوگا

لیکن․․․․․ ساتھ ساتھ پیغمبروں کی تعلیمات میں ہمیں یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ ہم پیغمبر ؑ نے دو دنیاؤں کا تزکرہ کیا۔ ایک دنیا کا ․․․․․ مو جودہ دنیا کا اور ایک آخرت کا۔

کہ جو کچھ تم اس دنیا میں کرو گے، ان اعمال کے نتیجے میں تمہیں جزا ملے گی اور ان اعمال ہی کی وجہ سے تم سزا کے بھی مستحق ٹھہرائے جاؤ گے․․․․․

ساتھ ساتھ ․․․․․ ہر پیغمبر ؑ نے موت و حیات کا تذکرہ کیا۔ کہ….

اللہ وہ ذاتِ اقدس ہے جو موت سے زندگی نکالتا اور زندگی کو موت میں داخل کردیتا ہے (سورۃ الرّوم – 19)

یعنی یہ بتایا گیا کہ یہ واحد دنیا نہیں ہے جو تم یہاں آگئے اور وہاں ختم ہوگئے۔ ابھی ․․․․․ سفر جاری ہے۔ دنیا ایک مسافرخانہ ہے اور اس مسافر خانہ میں رہنے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔ ان قواعد و ضوابط پر عمل ہوگا تو تمہاری یہ دنیا بھی صحیح رہے گی اور تمہیں ․․․․․ آخرت میں بھی اس کی جزا ملے گی اور تمہاری آخرت کی زندگی بھی صحیح ہوجائے گی۔

ساتھ ساتھ ․․․․․ تمام پیغمبران علیہم السّلام نے یہ درس دیا کہ ․․․․․

انسان ایک نہیں …. دو ہیں….

انسان کسی ایک رخ کا نام نہیں ہے…. انسان دو رخوں کا نام ہے….

انسانی زندگی کا ایک رُخ جسمانی وُجود ہے…. اور انسانی زندگی کا دوسرا رُخ روح ہے….

روح جب تک اس جسم کو اپنے لئے سنبھال کر رکھتی ہے، جسم میں حرکت رہتی ہے۔ اور رُوح جب․․․․․ اس زندگی سے رشتہ توڑ لیتی ہے توجسمانی وُجود مٹّی بن جاتا ہے ․․․․․ خاک کے ذرّات میں تبدیل ہوجاتا ہے ․․․․․ کوئی حیثیت اس کی ․․․․․ باقی نہیں رہتی….

اللہ تعالیٰ نے ․․․․․ قرآن پاک میں جنّت کی زندگی اور دنیا کی زندگی کو بھی بیان کیا ہے۔ جنّت میں لوگ خوش رہیں گے، پر سکون رہیں گے۔ جنّت میں لوگوں کو․․․․․ کوئی غم پریشانی نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ، “جب کوئی انسان بھی غم اور پریشانی میں مبتلا ہوگا․․․․ تو جتّک سے اس کا رشتہ ․․․․․ ٹوٹ جائے گا۔

وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (سورۃ الأعراف – 19)

اور جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ، اور اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم ظالمین میں سے ہو جاؤ گے۔

تو، ظلم کرنے والا آدمی کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔

قرآن نے ․․․․․ رسول اللہ ﷺ کی زبانی ہمیں ․․․․․ انسانی شخصیت کے ․․․․․ دو روپ․․․․․ دو رخ سے متعارف کرایا۔ ایک رخ․․․․․ رُوح ہے اور ․․․․․ ایک رخ ․․․․․مادی جسم۔

جسم کب حرکت کرتا ہے ؟․․․․․ جب رُوح ․․․․․ حرکت کرتی ہے۔

اگرروح جسم کو چھوڑ دے ․․․․․ تو جسم حرکت کرسکتا ہے ؟

اگر کسی ماں کے اَندر سے ․․․․․ رُوح نکل جائے ․․․․․ تو وہ بچہ پیدا کر سکتی ہے ؟

اگر کسی مرد کے اَندر سے ․․․․․ رُوح نکل جائے ․․․․․تو کیا وہ شادی کر سکتا ہے ؟

اگر کسی تندرست پہلوان کے اَندر سے ․․․․․ رُوح نکل جائے ․․․․․تو وہ کشتی لڑسکتا ہے ؟

اگر کسی ٹیچر کے اَندر سے رُوح نکل جائے ․․․․ تو ہو ․․․․․ طلباء کو پڑھا سکتا ہے؟

اگر کسی سائینٹسٹ کے اَندر سے ․․․․․روح نکل جائے ․․․․․تو وہ ایٹم بم بناسکتا ہے ؟ میزائل بنا سکتا ہے ؟

اگر کسی مملکت کے صدر کی ․․․․․ رُوح نکل جائے ․․․․․ تو وہ ملک سنبھال سکتا ہے ؟

اگر کسی فوجی کے اَندر سے ․․․․․روح نکل جائے ․․․․․تو وہ بندوق چلا سکتا ہے ؟

اگر کسی بھوکے آدمی کے اَندر سے ․․․․․روح نکل جائے ․․․․․تو وہ روٹی کھا سکتا ہے ؟

ایک پیاسا آدمی مرگیا․․․․․ رُوح نکل گئی ․․․․ آپ اس کے حلق کے اَندر ․․․․․ کسی بھی صورت سے ․․․․․ پانی کے دس قطرے انڈیل سکتے ہیں؟ آپ کسی مُردہ آدمی کے منہ میں پانی ڈالئے ․․․․․ پانی باہر نکل جائے گا۔

کسی مُردہ آدمی کو چلتے پھرتے ․․․․․ دیکھا ہے کبھی ؟

تو کیا مطلب ہُوا اِس کا؟

یہ جو پیغمبران علیہم السّلام نے جسمانی دو رخ متعارف کروائے ہیں․․․․․ بھئی ․․․․․ ان دو رخوں میں ․․․․․ اصلی رخ کون سا ہے ؟

اصلی رخ ․․․․․ رُوح ہے ؟

اگر اصلی رخ رُوح ہے…. تو پھر ․․․․․ جسم کیا ہوا؟

حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے، اپنی کتاب، “لوح و قلم”میں اس کی مثال اس طرح بیان فرمائی ہے کہ تم جسم پر ایک لباس پہنتے ہو، قمیض شلوار، کوٹ پتلون، کوئی بھی ․․․․․ اس کا نام رکھ لیں۔ اگر آپ اس جسم کو ہلائیں گے تو․․․․․ لباس ہلے گا۔ لیکن اگر اس جسم کے اوپر سے ․․․․․ لباس اتار کر ․․․․․ آپ کھونٹی پر لٹکادیں، چارپائی پر لٹا دیں، فرش پر رکھ دیں․․․․․ اس میں حرکت ہوگی؟․․․․․ کیوں نہیں ہوگی حرکت ؟․․․․․

حرکت اسلئے نہیں ہوگی کہ اس لباس کی حرکت ․․․

Topics


Khutbat Lahore

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا