Topics
اُن کے بات کہنے میں کچھ ایسی کیفیت بن گئی کہ وہ دیر تک گم سم بیٹھا اپنے مراد کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر جانے کیسے اُس نے ہمت مجتمع کی اور کہا۔ حضور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حوالے سے یہ بات عام طور پر کہی اور سنی جاتی ہے کہ ان کو ایک تیر لگا اور وہ کسی طور جسم سے نکالا نہیں جا رہا تھا۔ اُس پہ آپ نے کہا کہ رہنے دو۔
جب میں نماز قائم
کروں اُس وقت نکال دینا اب جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ نماز سے انسان پہ خواب کے حواس
مسلط ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حالتِ نماز میں اُن پہ خواب کے حواس غالب
آگئے تھے تو ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی آدمی خواہ وہ کتنی گہری نیند کیوں نہ سویا
ہوا اگر اُس کو سوئی چبھو دی جائے تو وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ جاتا ہے۔ جب کہ وہاں تو ایک
تیر تھا جو جسم میں ترازو ہو چکا تھا اور جب وہ تیر نکالا گیا ہوگا تو جسم کو مزید
چیرا نہ بھی دیا گیا ہو اور تیر کو کاٹ کر نکالا گیا ہو تب بھی۔۔۔۔ جسم کو تکلیف تو
ضرور ہوئی ہوگی۔ یعنی زخم کی تکلیف تو خواب کے حواس میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس لئے
یہ خواب حواس کی بات کچھ سمجھ میں نہیں آرہی۔ آپ مہربانی فرما کر اس کی کچھ وضاحت فرما
دیں کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
اُس نے اپنے مراد کے چہرے پہ اپنے اس سوال
کے پوچھنے کی ستائش محسوس کی۔ وہ قدرے سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا۔” اجی یہ خواب
کے نہیں موت کے حواس کی بات ہے۔ وہ حضور ﷺ کے تربیت یافتہ تھے۔ انہوں نے ' موتو قبل
انتم موتا' کا سبق خوب سمجھ لیا تھا۔ وہ خواب کے حواس سے گزر کر موت کے حواس سے آشنا
ہو چکے تھے اور وہ اُن کو خود پہ اسی طرح طاری کر سکتے تھے جس طرح جب آپ سونا چاہتے
ہیں تو خود پہ خواب کے حواس طاری کر لیتے ہیں۔
پھر بتایا کہ حضور قلندر بابا اولیا پہ استغراق کی یہ کیفیت اس قدر طاری رہتی تھی اور آخر میں تو یہ حال ہو گیا تھا کہ بیٹھے ہیں اور چیونٹیاں اُن کے پیروں سے گوشت نوچتی رہتی تھیں اور انہیں خبر ہی نہ ہوتی تھی۔ ہم آتے اور دیکھتے اور گھبرا کر چیونٹیاں جھاڑتے۔ کیا ہے؟ کیا ہے بھئی؟ وہ ہماری گھبراہٹ سے چونک جاتے۔ ہم کہتے حضور چیونٹیاں ہیں۔ آپ کے پیر زخمی کر دیئے ہیں۔ تو فرماتے اچھا۔ خیر ویسے بھی یہ جسم انہی کی خوراک ہے۔ جانے اس وقت وہ کہاں چلے جاتے تھے؟
قدرے توقف کے بعد
فرمایا۔ یہ کیفیت بے کیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ بے کیف ہونا ہی اصل زندگی ہے۔ آپ چوبیس
گھنٹے میں چوبیس منٹ بے کیف ہوگئے تو یہ چوبیس منٹ آپ کی اصل زندگی ہے باقی سب ضائع
ہو گیا۔ بے کیفی درحقیقت رنج و خوشی سے بے نیاز ہو جانا ہے۔ حضرت علی کی کیفیت نیند
کے حواس سے گزر کر موت کے حواس کا طاری ہونا تھا۔ یہ بڑی صلاحیت ہے۔ آدمی اپنی مرضی
سے مر جائے۔ بھئی یہ تو کمال ہے اور اس سے بڑھ کر کمال یہ ہے کہ آدمی اس زندگی میں
محض اس لئے پلٹ آئے کیونکہ اللہ چاہتا ہے کہ یہاں آپ زندہ رہیں۔ یہ ایک وہبی (Gifted) صلاحیت
ہوتی ہے۔ جس کو نصیب ہو جائے۔ پھر دھیمے سے لہجے میں کہا۔ چہ نسبت ایں خاک رابا آں
عالم پاک طینت را
فرمایا کہ ایک بار حضور قلندر بابا اولیا
ء ؒ نے مجھ سے کہا۔ دیکھنا بھئی میرے کرتے میں کوئی مکھی یا کھٹمل تو نہیں گھس آیا
۔ میں نے کرتا اُٹھا کر دیکھا تو وہاں ایک چھپکلی جانے کب سے گری ہوئی تھی اُس نے باہر
نکلنے کی راہ نہ پا کر پنجے مار مار کر انہیں کھرچ کے رکھ دیا تھا۔ مرید کو اپنی ریڑھ
کی ہڈی میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی۔ اُس نے کہا کیا یہ بے حسی نہ تھی؟
فرمایا ۔ جی نہیں ۔ یہ بے حسی نہیں بلکہ کمال کی انتہا ہے۔ مر جاؤ مرنے سے پہلے کی عملی تفسیر ہے۔ اگر آپ ہر وقت بے کیفی کے عالم میں رہیں گے تو یہ جذب کی حالت ہوئی۔ جذب اور بے کیفی کی مزید وضاحت کو ارشاد فرمایا۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کو جب اُن کی بیگم کھانے پر بلاتیں تو وہ کھانے کے لئے آکر بیٹھ جاتے اور دس منٹ بعد اگر کھانا نہ بھی آیا ہوتا تو اُٹھ جاتے اور یوں ہاتھ دھوتے گویا انہوں نے کھانا کھا لیا ہو۔ جب اماں جی کھانا لاتیں اور اصرار کرتیں کہ آکر کھانا کھائیں تو ناراض ہوتے۔ میرا پیٹ خراب کر دو گی۔ دو دو بار کھلاتی ہو۔ بھئی وہ کھانا تو صرف اس لئے کھاتے تھے کہ مادی جسم کو اتنی خوراک مل جائے کہ اُس کا کام ہوتا رہے۔
بے کیفی کے کیف کے ضمن میں بتایا کہ دنیا کی سب سے بڑی خوشی
اور راحت جنسی تلذذ کو سمجھا جاتا ہے۔ بے کیفی میں تو اس میں بھی گھن آنے لگتی ہے۔
حالات و واقعات سے انسان کا جی اس خوشی سے بھی اس حد تک بھر جاتا ہے کہ سیکس کا خیال
آنے سے بھی گھن محسوس ہوتی ہے۔ کھانوں میں گوشت کی نسبت سبزی اور دال بھلی لگتی ہیں۔
گوشت میں تو ویسے بھی سڑاند اور تعفن زیادہ ہوتا ہے ۔ آپ آزما کر دیکھ لیں۔ آپ کہیں
گوشت رکھ دیں اور وہیں سبزی یا کوئی ترکاری وغیرہ رکھ دیں۔ گوشت کی سڑاند دور دور تک
پھیلے گی اور جلد پھیلے گی۔ ترکاری اور سبزی وغیرہ کی بدبو پاس جانے پہ ہی محسوس ہوگی
اور دیر میں پیدا ہوگی۔
خواب کی کیفیات
سے بڑھے ہوئے موت کے اعلیٰ ترین حواس کی بابت بات سنتے ہوئے اُس کے فکر کی اُڑان ایک
لامحدود اور بے کنار وسیع عالم کو اپنے سامنے محسوس کر رہی تھی۔ وہ نیند سے تو وہ خوب
واقف تھا کہ جب انسان کو نیند آتی ہے تو لاکھوں کروڑوں کی دولت بھی ہیچ لگتی ہے۔۔۔انسان
اپنی جان سے گزر جانا گوارا کر لیتا ہے لیکن نیند سے باز نہیں آسکتا۔ سڑکوں پہ حادثات
کی ایک اچھی خاصی شرح کا اصل سبب نیند آنا ہی ہے۔ خود وہ کئی بار نیند کی جھونک میں
گاڑی پہ قابو کھو چکا تھا۔ اُس نے چاہا کہ وہ اُن سے دریافت کرے کہ خواب کے حواس میں
داخل ہونے کے لئے مراقبہ کیا جاتا ہے تو موت کے حواس سے واقف اور آگاہ ہونے کے لئے
کیا کرنا چاہئے؟ یہ بے کیف ہونے کے لوازم کیا ہیں؟ ان کی شروعات کیسے کی جائے؟ ابھی
وہ سوال کے الفاظ کو ذہن میں ترتیب دے ہی رہا تھا کہ وہاں بیٹھے ایک صاحب نے صبح کی
نماز کے حوالے سے دریافت کیا کہ باجماعت نماز کا کیا وقت مقرر کیا جائے؟
امام صاحب سے نماز شروع کرنے کو کہا۔ محمد خان کی ایک رکعت چھوٹ
گئی۔ بعد میں انہوں نے امام صاحب سے کہا۔ مولوی صاحب آج آپ نے جلدی ٹھوک دی۔ احمد خان
نے کہا تھا کہ محمد خان کو رہنے دو۔ انہوں نے کہا۔ اب سے یہاں احمد خان ہی نماز پڑھا
کرے گا۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور اُس کے بعد کبھی مسجد جا کر نہ دیا۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔