Topics

کتاب تجلیات کی تقریب رونمائی

، جاگتے ہیں، کھاتے اور دیگر کام کرتے ہیں۔ ۔۔یہ سب تقاضے ہیں۔۔۔ ان تقاضوں کی بابت اطلاع دماغ پر وارد ہوتی ہے۔

          یہ اطلاع کہاں سے وارد ہوتی ہیں۔۔۔یہ اطلاع ہمیں ہماری وہ عرس پہ دوبارہ کراچی آنے کا عہد کرتا ہواپشاور پہنچ گیا۔

          انگلینڈ سے واپس آنے کی اطلاع ملی تو اُس سے رہا نہ گیا اور اُس نے کراچی فون کیا۔ ابا سے بات ہوئی۔ فرمایا کہ وہاں قلندر شعور پہ کئی ورک شاپس ہوئیں۔ نو نو گھنٹے کا سیشن رہا۔ میں نے کہا۔۔۔مقصود صاحب کی روح خوش ہو رہی ہوگی۔۔ بھئی میں خود تو وہیں تھا اور خوش ہی ہو رہا تھا۔

          پھر کاروبار کا پوچھا۔۔۔ غصے کا دریافت کیا۔۔عرض کی اب تو مدت ہی ہوگئی ہے غصہ کئے۔۔ آپ شاہین سے پوچھ لیں۔ فرمایا۔ ان سے تو میں علیحدگی میں پوچھوں گا۔۔۔ا س وقت تو آپ کے سامنے کہہ دیں گی کہ ہاں نہیں کرتے۔

          وہ دیر تک سوچتا رہا کہ یہ غصہ کی مزاج پرسی کیوں۔۔۔؟

          چند روز بعد حضور کی سالگرہ پہ مبارک باد پیش کرنے کے بہانے اُس نے دوبارہ فون کیا۔ تو فرمایا بھئی مبارک تو آپ کو ہو۔ مرید نے کہا۔ جی ہاں اللہ آپ کا سایہ ہم پہ قائم رکھے واقعی یہ خوش بختی تو ہمیں کو مبارک ہو۔

          پھر مرید نے اپنے مراقبے کی ایک کیفیت کی بابت عرض کیا کہ آپ کا دماغ میرے دماغ کی جگہ لگا ہوا ہے۔ مسکراتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ بھئی ضرورت تو مجھے تھی۔۔۔بول بول کر سارا خرچ ہو گیا ہے۔۔۔مرید نے عرض کیا ۔ آپ نے خرچ کیا تو ہمیں مل گیا نا۔۔۔ ہنس کر بولے۔۔ جی ہاں۔

          مرید نے عرض کی آج صبح مجھے یہ خیال گزرا کہ غصہ کرنا اللہ پہ اعتراض کرنے کے مترادف ہے۔ فرمایا۔ جی ہاں۔۔۔انا۔۔۔کبر۔۔۔یہ سب خاندانی روایات ہیں۔۔۔صدیوں پرانی روایات۔۔۔پیغمبروں نے انہی خاندانی روایات پہ ہی تو ضرب لگائی۔۔۔۔پیغمبرانہ طرزِ فکر حاصل ہی تب ہوتی ہے جب آدمی خاندانی روایات کی حدوں سے باہر نکل جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو خاندانی روایات ہی کو توڑا۔۔۔حضور ﷺ کو بھی لوگوں نے یہی تو کہا کہ ہمارے اجداد جو کچھ کرتے رہے وہ ہم کیسے چھوڑ دیں۔

          پھر لکھنے پڑھنے کا پوچھا۔ عرض کی نہ کچھ لکھا جا رہا ہے اور نہ پڑھا۔

          فرمایا۔ جب ایسی کیفیت ہوتی ہے تو دراصل ذخیرہ ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر فارسی کا ایک مصرعہ کچھ اس مفہوم کا پڑھا کہ سمندر کا سکوت طوفان کا پیشِ خیمہ ہوتا ہے۔

          مرید نے اُن سے منسوب ایک جملہ جس کے راوی خالد نیاز تھے عرض کی کہ زیادہ کتابیں لکھنے سے لوگوں کو بد ہضمی ہو جاتی ہے۔

          فرمایا ۔ میں نے یہ بات اُن سے اپنی تقریروں کے حوالے سے کہی تھی کہ اتنی تقریریں کرتا ہوں کہیں لوگوں کو بد ہضمی ہی نہ ہو جائے۔ کہیں کتابوں سے بھی بد ہضمی ہوتی ہے؟ مزید ارشاد ہوا۔ یہاں تو سب ہی کے پیٹ اتنے بھرے ہوئے ہیں کہ اب تو قورمے کی بھی گنجائش نہیں۔ یہاں تو سب ہی قطب اور ابدال بنے ہوئے ہیں۔ کوئی صاحب خدمت ہے تو کسی نے کوئی اور عہدہ لیا ہوا ہے۔ کسی نے کوئی علاقہ سنبھالا ہوا ہے تو کسی کوئی۔ اپنے گلی محلے کی چائے تک نہیں پیتے۔۔۔کہتے ہیں اپنے علاقے میں چل کر چائے پیئں گے۔۔۔ میں کہتا کچھ ہوں تو سمجھتے کچھ ہیں۔۔۔ اور کبھی تو کہہ بھی دیتے ہیں کہ ہم نے سمجھا کہآپ ایسا چاہتے ہوں گے۔

          روحانیت کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ میں نے انگلینڈ میں کہہ دیا۔۔۔ یہاں کا ماحول ایسا ہے۔ آپ کبھی کبھار تاش کھیل لیا کریں۔۔۔ لے کے مذاق بنا دیا۔۔۔ کہنے لگے لو جی تاش بھی روحانی ہو گیا۔

          فرمایا۔ ان میں گہرائی نہیں ہے۔ ان کو وقت سے پہلے علم دینے کی غلطی ہو گئی۔ آپ ان کی باتوں پہ کان نہ دھرا کریں۔۔۔ مجھ سے پوچھ لیا کریں۔۔ یہ نہیں کہ یہ مخلص نہیں۔۔ یہ بہت مخلص ہیں لیکن ابھی گہرائی اور پختگی نہیں ہے۔۔۔۔بچپنا کر جاتے ہیں۔۔ میرے یہاں نہ ہونے سے یہاں پہ بھی جمود ہی طاری رہا۔۔ کرنے کے سبھی کام دھرے کے دھرے ہیں۔

          پھر ہمایوں کے فون کا تذکرہ کیا کہ وہ حیات آباد میں مراقبہ ہال کے لئے زمین لے رہے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ نیاز صاحب کو بتا دیں۔۔۔ وہ مرکزیت کے بارے میں سوچتے ہیں۔ انہوں نے پلٹ کت کہہ دیا ۔۔۔ نہیں ہم تو حیات آباد مراقبہ کے لئے زمین لیں گے۔

          پی ڈی اے کو زمین کے لئے درخواست دینے کی بابت پوچھا تو فرمایا۔ جو کام Through Proper Channel ہو وہی ٹھیک رہتا ہے۔لیکن جو کام بالا بالا کر دیا جائے وہ ٹھیک نہیں رہتا۔ پھر ایک وزیر سے براہ راست دستخط کروا کر کام کروانے کی اپنی ایک کوشش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ نچلے والوں نے پرواہ ہی نہیں کی۔ وہ کام آج تک ویسے کا ویسا پڑا ہے۔

          فون بند ہونے کے بعد وہ کتنی ہی دیر سناٹے کے عالم میں بیٹھا رہا۔ شاید انہوں نے اپنے کچھ دکھ اُسے دکھا کر اُس کی آنکھوں پہ غفلت اور جہالت کی بندھی پٹی کوکچھ ڈھیلا کیا تھا کہ وہ جو سب ہرا ہی ہرا دیکھ رہا ہے وہ اتنا بھی ہرا نہیں ۔ حقیقت کو سامنے رکھ کر خوش رہنا ہی تو فن ہے جو پتہ پانی کرنے اور خون کو برفاب بنانے کے بعد ہی آتا ہے۔ یہ ہنر خیالی دنیا میں رہنے اور احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کی طرح اپنی ذات میں مگن رہنے کی بجائے دوسروں کے لئے جینے اور مرنے کا وہ عملی مظاہرہ ہے جس کو انبیاء کی اصل اور حقیقی سنت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

          ایک دو ماہ کچھ ایسے ہی گزر گئے۔ صبح دفتر شام گھر ہفتے میں پندرہ دن میں ایک بار مراقبہ ہال۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔ اس روز وہ دفتر پہنچ کر کچھ کام کرنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ فون پہ کامران باسط کی طرف سے ایک پیغام ملا کہ عرفان صاحب سے رابطہ کریں۔ اُس نے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ابا حضور ابو ظہبی تشریف لے جا رہے ہیں اور اُس کو بھی ساتھ جانا ہے۔ اُس لئے دو پاسپورٹ کی نقل فیکس کرے تاکہ ویزا کا بندوبست کیا جا سکے۔ اُس نے پوچھا ٹکٹ وغیرہ کتنے کا ہوگا؟ عرفان بھائی نے کہا۔ ابا نے فرمایا تو اگر آپ کے پاس نہیں ہیں تو بھی ہو جائے گا۔۔۔آپ اس کی فکر نہ کریں۔۔ بس پاسپورٹ کی نقل بھجوا دیں۔ اس نے ویسا ہی کیا اور پھر وہ کراچی سے آٹھ دس افراد کے وفد کی صورت دبئی ایئر پورٹ پر اترے۔ دبئی ایئر پورٹ پر جہاز سے باہر آتے ہی اُس کو آزادی اور خوشی کا احساس ہواتھا اور وہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ابا حضور اُن سے ایک روز پیشتر کی فلائٹ سے دبئی جا چکے تھے۔

          دبئی جانے والوں کے اُس وفد کی قیادت ڈاکٹر مسعود طارق کر رہے تھے۔ شمشیر بھائی اور شوکت صاحب ( نگران سانگھڑ مراقبہ ہال) بھی انہی کے وفد میں شامل تھے۔اُن کو دبئی ایئر پورٹ سے بیگ صاحب کے یہاں لے جایا گیا۔ وہاں محبوب بھائی اور جمال صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دوپہر کا کھانا انہوں نے وہیں کھایا۔ پھر وہ رشیدہ جیلانی صاحبہ کے گھر گئے۔ چائے وہاں پی۔ اخلاق مغل،حفیظ صاحب،شاہ صاحب اور دیگر اصحاب اور خواتین انگلینڈ سے سیدھے وہیں پہنچے۔

          ابو ظہبی میں اُن کا قیام ایک ایسی عمارت میں تھا جس کے وہ آخری مکین تھے کیونکہ عمارت کو گرانے اور از سر نو تعمیر کرنے کے لئے خالی کروایا جا چکا تھا۔ حضور مرشد کریم کا قیام محبوب بھائی کے گھر پہ تھا۔ وہاں دو تقریبات ہونا طے تھیں۔ ایک روحانی کانفرنس اور دوسرے حضور مرشد کریم کی کتاب تجلیات کے عربی ایڈیشن کی تقریب رونمائی۔ باقی سب مرشد کریم کے روحانی تصرف اور میز بانوں کی صوابدید پر تھا۔

          ان دونوں تقریبات میں شمولیت کے علاوہ اُن کو ابو ظہبی اور دبئی کی سیر بھی کرنا تھی۔ حضور سے ملاقات اور بات چیت۔۔ان دونوں تقریبات کے علاوہ ابو ظہبی پارک کی سیر اور سمندر کنارے علی الصبح مراقبہ کرنے پہ ہی ہو سکی تھی۔ حضور مرشد کریم کا باقی وقت وہاں کے مراقبہ ہال کے اراکین، اُن کے اہلِ خانہ اور ابو ظہبی کی معروف شخصیات سے ملاقاتوں ہی میں صرف ہوا۔

          ساحل سمندر پر بنے ہوئے تفریحی ہٹ نما چبوترے کے ریتلے فرش پر خشک گھاس کے اوپر بچھی دریوں پہ طلوع آفتاب سے پہلے مراقبہ ہوا۔ مرشد کریم نے اپنے خطاب میں اپنی روحانی اولاد کو مرکزیت اور اجتماعیت کی اہمیت کا احساس دلانے اور انفرادی طرزِ فکر سے دامن بچانے کا درس دیتے ہوئے فرمایا۔

          ہر شے کسی نہ کسی مرکز سے متعلق ہوتی ہے۔ ہر شے کا کوئی نہ کوئی مرکز ہوتا ہے مرکزیت سے ہی اتفاق اور برکت ہوتی ہے۔ الیکٹرون بھی ایک مرکز کے ہی گرد گھومتا ہے اور جب تک وہ مرکزے سے وابستہ رہتا ہے قائم رہتا ہے۔ مرکزیت ٹوٹ جائے تو ہر چیز بکھر کر رہ جاتی ہے۔ فنا ہو جاتی ہے۔

          انسان سے انسان ، بلی سے بلی اور سیب سے سیب اس لئے پیدا ہو رہا ہے کہ ان میں مرکزیت ہے۔ اگر ان سب میں مرکزیت نہ ہو تو انسان کتے بلی کو جنم دے اور کتے بلی سے انسان پیدا ہو نا شروع ہو جائیں اور یہ سب محض اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ ہر چیز اپنی مرکزیت پہ قائم ہے۔

          جب انسان کسی صفت پہ قائم ہو جاتا ہے تو اُس صفت کے حامل افراد خود بخود اُس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نظام گروہی تقسیم پر قائم کیا ہے۔ ایک نشے باز آدمی کہیں بھی جائے تو وہ اپنے جیسے افراد کو فوراً تلاش کر لیتا ہے۔آپ جس صفت پہ بھی قائم ہوجائیں گے۔۔۔اُس صفت کے حامل افراد آپ کو خود ہی تلاش کر لیں گے۔

          میں نے جب سلسلے کا کام شروع کیا تو میں اکیلا تھا۔ آپ سب نے مجھے تلاش کیا۔۔۔میں نے آپ کو تلاش نہیں کیا۔

          آپ میں اگر غصہ ہے تو آپ کے گرد غصے والے لوگ جمع ہو جائیں گے۔ آپ میں سخاوت اور ہمدردی ہے تو آپ کے گرد ہمدرد اور سخی لوگ جمع ہو جائیں گے۔ آپ میں عفو و درگزر ہےتو آپ کے گرد ایسے لوگ جمع ہو جائیں گے جو اس صفت کے حامل ہوں گے۔ آدمی گروہ کو نہیں ڈھونڈتا۔۔۔گروہ آدمی کو ڈھونڈ لیتا ہے۔ آپ چشمہ بنیں گے تو پیاسے خود ہی آپ کو کھوج نکالیں گے۔ مریض ڈاکٹر کو اسی لئے تو تلاش کرتا ہے کہ وہ ڈاکٹر کی صفات سے مستفیض ہونا چاہتا ہے۔ کبھی ڈاکٹر مریضوں کو نہیں تلاش کیا

کرتے۔

          پھر فرمایا کہ اگر آپ کے اندر خوشی نہیں تو خوش رہنے والا شخص بھی آپ کو اچھا نہیں لگے گا۔ ایسے لوگ تو ہنستے بندے کو دیکھ کر اُسے گھرک دیتے ہیں او یہاں تک کہہ دیتے کہ تم کیا ہر وقت دانت نکالتے رہتے ہو۔ دراصل خود اُن کے اندر خوشی نہیں ہوتی۔نا خوشی اُن کے اندر اتنی گہری اتری ہوئی ہوتی ہے کہ وہ کسی خوش بندے کو اپنے قریب برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ آپ کو چاہئے کہ آپ اپنی خوشی پہ قائم رہیں۔۔۔۔

          اُس کو لگا خطاب کا آخری حصہ محض اُس کی دلجوئی اور ڈھارس بندانے کو ارشاد فرمایا گیا تھا۔ گزشتہ روز جب مرشد کریم نے ابو ظہبی کی سیر کرتے دیکھا کہ دو کوچز میں بیٹھے مرد و خواتین اپنی اپنی خوشی پہ ایک دوسرے کے احترام اور تہذیب کے پہرے لگائے ہوئے ہیں تو انہوں نے ایک جگہ کوچز رکوا کر تمام خواتین کو ایک کوچ میں اور تمام مردوں کو دوسری کوچ میں منتقل کرنے کا کہا۔ پھر جب دونوں کوچز کے مسافروں نے اس بات کو فرمائش سے ضد کا روپ دینے کی کوشش کی تو مرشد کریم اُن کی گاڑی میں بیٹھیں انہوں نے اپنی ؤیٹو پاور کو خواتین کے حق میں استعمال کیا اور خواتین والی کوچ میں جا بیٹھے۔

          جب مرشد اور بیویوں کے رعب سے مردوں کو کھلی چھٹی ملی۔۔۔آزادی کا احساس بڑھا۔۔۔تو ہنسی مذاق۔۔۔ جو دبا دبا تھا۔۔۔ کھلتا چلا گیا۔ بات جملے بازی سے مردانہ قسم کے لطائف تک پہنچی۔۔۔ وہ سب ہی اتنا ہنس رہے تھے جیسے انہوں نے لافنگ گیس سونگھ لی ہو۔۔۔ شمشیر بھائی اور نثار صاحب نے جب حفیظ بٹ صاحب جیسے سنجیدہ مزاج انسان کو بھی اپنی جملہ بازی کی زد میں لے لیا تو اب کسی اور کا بچنا کہاں ممکن رہا تھا لیکن ایک دو افراد کو شاید یہ سب بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اُن کے اندر کا زاہد خشک بُرا منا رہا تھا۔

          ایسے میں اُس نے ایک جملہ اچھال کر جب داد طلب نگاہوں سے انہیں دیکھا تو وہ جو بھرے بیٹھے تھے۔۔یک دم پھٹ پڑے۔۔۔اور کہا ۔ تم نے کیا مذاق بنایا ہوا ہے میں کب سے دیکھ رہا ہوں کہ تم دانت نکالے جا رہے ہو۔۔۔ اُس کے کاٹو تو لہو نہیں۔۔۔سبھی پہ اوس پڑ گئی۔۔۔ سبھی نے اُن صاحب کی نا خوشی پہ دکھ محسوس کیا اور باقی سفر ایک گھٹن اور کوفت کی دھند میں کٹا۔ وہ رائل فیملی کے محلات اور ابو ظہبی کے قریب ایک پہاڑی پہ بنے پکنک ریز وٹ بھی گئے لیکن اُس کے ذہن پہ کوفت اپنے پنجے گاڑے رہی۔

          رات بھر وہ خود سے یہ عہد و پیمان کرتا رہا کہ آئندہ وہ سیریس رہا کرے گا۔۔ہنسی مذاق نہیں کیا کرے گا۔ اُس نے خود کو طرح طرح کی قسمیں دیں کہ آئندہ کسی قسم کا ہنسی مذاق نہیں۔۔۔۔لیکن اپنے مراد کی یہ بات سُن کر پہلے تو اُس نے عہد و پیمان کا وہ ٹوکرا سمندر میں اچھال پھینکا اور پھر یہ سوچنے بیٹھ گیا کہ مرکزیت کے حوالے سے کی گئی بات کے مخاطب کون تھے۔۔۔اُس کا جی چاہا کہ اپنے مُراد کے پاؤں پکڑ کر اُن سے اپنے گناہوں اور خطاؤں سے در گزر کی درخواست کرے۔ وہ کھسک کر اُن کے قریب ہوا۔ وہاں عربی قہوہ پیش کیا جا رہا تھا۔ ابا حضور نے قہوے کی پیالی لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا۔ میں یہ نہیں پیوں گا۔۔باقی سب کو دیجیئے۔ تو وہ کہنے کی بات بھول کر یہ پوچھنے لگا کہ آپ یہ قہوہ کیوں نہیں پی رہے۔ اس پہ فرمایا۔ کہ اس میں زعفران وغیرہ ہے۔۔۔یہ گرم ہوتا ہے۔

          یہ کہہ کر وہ سمندر سے اگتے سورج کو دیکھنے اُٹھ کر ساحل کی طرف چل دیئے۔ وہ قہوہ اُس نے پیا۔۔اُس کو اُس میں گلاب اور کافی کے علاوہ الائچی کی مہک محسوس ہوئی۔ پھر ناشتہ بھی وہیں ریت پہ دریاں بچھا کر کیا گیا۔ اتنی صبح پکنک، مراقبہ، ناشتہ، درس اور تفریح۔۔۔قرب مراد میں سب ایک ساتھ ملیں۔۔۔ تو آدمی کسی شیرازی کبوتر کی طرح غٹر غوں نہ کرے تو اور کرنے کو ہے کیا۔

          سہ پہر میں رائل ہسپتال اور تفریحی پارک کی سیر کے دوران اُس اپنے مراد کے قریب ہو کر بات کرنے کا موقع ملا تو اُس نے ابو ظہبی کے ماحول، نظام حکومت ، صفائی، ٹریفک کے انتظام، سڑکوں اور ذہنوں کے کھلے پن کو سراہا تو فرمایا۔ یہ سب ون مین شو ہے۔ اب پیسہ تو سعودیہ کے پاس بھی تھا۔۔اُن سے امریکہ نے چھین لیا۔۔انہوں نے سب کا سب یہیں خرچ کر ڈالا۔ پیسہ ان کے پاس بھی نہ رہا لیکن شہر تو بن گیا نا۔ یوں لگتا ہے کہ جنت کو زمین پہ اتار دیا ہے۔

          وقار بھائی جان نے تقریب رونمائی میں نظامت کے لئے اس کو اسٹیج پہ مدعو کیا۔ جب حضور دیگر مقررین اور میزبان  تقریب کے جلو میں ہال میں داخل ہوئے تو وہ اسٹیج سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ انہیں دور سے بالکل نہ پہچان سکا۔ جب وہ قریب آئے تو اُن کو عربی لباس میں دیکھ کر اُس کو کچھ عجیب سا لگا۔ سپید عربی لباس میں اُن کی چھپ ہی کچھ اور تھی ۔ اس پہ مستزاد یہ کہ سبھی مقررین نے وہاں کی ریت کے مطابق انہیں شیخ اور الشیخ کہہ کر مخاطب کیا تو اُس کو جانے کیوں یہ لگا کہ ابا حضور سے کچھ فاصلے پہ روک دیا گیا ہے۔

          عربی مقررین کا فصاحت و بلاغت سے ایک عجمی کی کتاب کو خراج تحسین پیش کیا جانا کسی کرامت سے کچھ کم نہیں تھا۔ تقریب کے بعد حضور بتا رہے تھے کہ جو سیاہ فام حبشی اُن سے گلے ملے وہ اپنے اظہار  عقیدت کو اُن کے کان کی لو چوستے تھے۔ شاید یہ اُن کی خوش عقیدتی کے اظہار کی کوئی رسم تھی۔

          دوسرے روز کانفرنس کی تقریب ایک عالی شان ہال میں ہوئی۔ اس تقریب کی نظامت کی سعادت پروفیسر اخلاق مغل کے حصے میں آئی۔ سینما ہال کی طرز پر سٹیج کے سامنے درجہ ب درجہ بلند ہوتی نشستوں پہ جگہ نہ ملنے والوں میں دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر کانفرنس کی کاروائی وہ کہیں دور ہی سے سن رہا تھا۔ اُس روز اُس کو ایک ہی احساس تھا کہ اُس کا مراد اپنے مرشد کے آدرش کو اپنا مشن بنائے ، عرب کے صحرا میں اپنی دھن میں بہت آگے جا رہا ہے۔ اتنا آگے کہ اگر وہ اُسے پکارے بھی تو اُس کی آواز اُس تک نہ پہنچ پائے گی۔

          کانفرنس کے اختتام پر وہ مرشد کریم کے ساتھ مسجد سلطان قابوس گئے۔ وہاں نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے نکل کر حضور نے فرمایا۔ پیسہ بولتا ہے اور دولت تماشا دکھاتی ہے۔

          پھر معلوم ہوا کہ حضور اگلے روز پاکستان واپس تشریف لے جائیں گے جبکہ باقی ارکان اگلے روز شام کو دبئی سے کراچی جائیں گے تاکہ وہاں عرس میں شریک ہو سکیں۔

          وہاں سے جمال صاحب اُن کے افسر مہمانداری مقرر ہوئے یا یہ عہد انہوں نے اپنے طور پر مسعود طارق ، شوکت صاحب اور اُس کے لئے خود انتخاب فرمایا۔ وہ انہیں اپنے گھر لے گئے۔ بخور دان میں سلگتے عود کی مہک مشام جان کو معطر کیا اور عربی قہوے اور کھجوروں سے تواضح کرنے کے بعد وہ انہیں ایک ٹریڈ فیئر دکھانے لے گئے۔

          وہاں سے انہیں دبئی کی سیر کروا کر رات کا کھانا ایک انڈین ہوٹل میں کھلا کر وہ انہیں اُن کی رہائش گاہ پہ چھوڑ کر صبح آنے کا کہہ کر چلے گئے۔ اگلے روز صبح وہ انہیں لے کر متحدہ عرب امارات کی چھ کی چھ ریاستیں گھما کر رات کا کھانا شارجہ میں کھلا کر دبئی ایر پورٹ پر خدا حافظ کہہ رہے تھے تو وہ محبوب بھائی اور جمال صاحب سے ڈیڑھ دن کی تمام تر بے تکلفی کے باوجود اُن کو اتنا ہی کہہ سکا کہ اس طوفانی قسم کی میزبانی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اُس کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ جمال صاحب نے کہا کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ گھر جا کر آرام سے ڈکشنری میں سے ڈھونڈ کر رکھیں۔۔۔ جب ہم پشاور آئیں گے تو کہہ دینا۔ البتہ محبوب بھائی نے اتنا ہی کہا۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا۔۔۔ جس کی وجہ سے کیا۔۔ وہ انہی کا شکریہ ادا کرے۔

          کراچی ایر پورٹ پر کسٹم حکام نے انہیں جس طرح خصوصی طور پر بلا کسی تردد اور جامہ تلاشی کے گزرنے دیا۔۔۔ وہ اُن کو

یہ باور کروانے کو کافی تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ کے ایک مشیر کے ہمراہ بیرونِ ملک دورہ کر کے ملک واپس آئے ہیں۔۔۔

          کراچی میں حضور مرشد کریم کی مصروفیات اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے ہی نہیں بیرونِ ملک سے آنے والا ہر ہر فرد اُن سے ملنا اور حال دل کہنا چاہتا ہے اور نہایت حیران کن امر یہ ہے کہ وہ ہر ہر فرد کو اُس کی مرضی کا وقت بھی دیتے ہیں۔۔۔ اُس نے سوچا۔۔۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ تم ملاقات کرو ہو یا کرامات کرہو۔۔ٹائم منیجمنٹ کی اعلیٰ ترین تکنیک جاننے والے بھی وقت پہ ان کی گرفت اور رسائی کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے۔

          عرس کے موقع پر حضور مرشد کریم کے سالانہ خطاب سے پیشتر مختلف مقررین نے مکالمہ جات پیش کئے تو سعیدہ خاتون عظیمی نے تجویز کیا کہ حضور مرشد کریم کو الشیخ عظیمی کہا اور لکھا جائے۔ پر زور تالیوں میں اس تجویز کو سند قبولیت سے نوازا گیا۔

          جب اُس کو اپنا مکالمہ پیش کرنے کو کہا گیا تو اُس نے الشیخ خواجہ سمش الدین عظیمی کی سلسلہ عظیمیہ کے لئے خدمات اور رسول کریم ﷺ کے مشن کی پیش رفت میں اُن کے کردار اور کامیابیاں پہ روشنی ڈالتے ہوئے سادگی سے یہ کہہ دیا کہ وہ تو راستے کی ہر رکاوٹ کو پھلانگتے ہوئے۔۔۔دوڑنے کی بجائے۔۔۔ چھلانگیں لگاتے ہوئے۔۔اپنی منزل مراد کی طرف جا رہے ہیں۔ تو ڈیڑھ دو ہزار افراد کے مجمع کے بُرا منانے سے پہلے مرشد کریم نے ہنستے ہوئے دوہرے ہو کر اُس کو ایسے سراہا کہ وہاں موجود ہر فرد نے تالیاں بجاتے اور ہنستے ہوئے۔۔۔ اُس کی جسارت کو معاف کر دیا۔ سعیدہ باجی نے باقاعدہ اُٹھ کر پیٹھ تھپتھپائی۔

          بعد میں بہت سے محبان مراد نے اس سے وضاحت طلب کی کہ اُس کو مرشد کریم کے حوالے سے چھلانگیں لگانے کی بات کہنے کی کیا سوجھی تھی۔۔۔اُس نے سادگی سے کہا۔۔۔ دراصل میں انگریزی میں سوچتا ہوں تو leap کے لئے اردو میں دستیاب لفظ چھلانگ ہی بنتا ہے اس سبب یہ لطیفہ ہوگیا ہے۔

         


 

عر س کی تقریبات کا اختتام نظریہ رنگ و نور کے عنوان سے ایک روز ورکشاپ پہ ہوا۔

          اس سے اگلے روز جب زیادہ تر زائر اور مہمان رخصت ہو رہے تھےمرکزی مراقبہ ہال کے برآمدے میں تمام نگران مراقبہ ہال مرشد کریم کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے۔ مرشد کریم نے اُن سے اپنی توقعات کا اظہار کرنے اور سلسلے کے کام میں اُن کو در پیش مشکلات کا حل بتانے کے لئے بلایا تھا۔ اُس کو اس میٹنگ میں بطور مبصر شریک ہونے کی اجازت نیاز بھائی نے دلوائی۔ میٹنگ کا آغاز ہوا اور تین چار نگران مصر ہو گئے کہ مرشد کریم کو چاہئے کہ وہ اپنا نائب نامزد کریں۔۔۔۔ وہ اس کی اہمیت اور ضرورت پہ دلائل دے رہے تھے اور مرشد کریم کے منہ پر بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ اُن کے بعد اُن کی جگہ کون بیٹھے گا؟ سلسلہ کون چلائے گا؟ مرید اک عالم حیرت میں یہ سب سُن اور دیکھ رہا تھا۔ کل جن کو لفظ چھلانگ بُرا لگا تھا وہ مرشد ہی سے اُن کے بعد کی بات کس جرات اور دلیری سے کہہ رہے تھے۔ وہ سن ہو کر کڑھتا رہا۔

          مرشد کریم نے کوئی تاثر ظاہر کئے بغیر کہا۔ بھئی آپ سب ہی میرے نائب ہیں۔

          شاید کسی کے پلے نہیں پڑا کہ انہوں نے کیا فرمایا ہے تو مرشد کریم نے فرمایا۔ دیکھیں یورپ کے لئے میں نے سعیدہ خاتون کا کہا ہے اور وہ وہاں میری نائب ہیں۔ یہاں آپ سب ہی اپنے اپنے مراقبہ ہال میں میری ہی تو نمائندگی کر رہے ہیں۔۔۔ پھر بھی جب مجھے جانا ہوگا میں اس کا انتظام کر جاؤں گا۔۔۔آپ فکر نہ کریں۔۔۔اللہ نے سلسلہ چلانا ہے۔۔۔ وہ جس سے جو کام لینا چاہے گا لے لے گا۔

          پھر فرمایا کہ امام سلسلہ جس کو چاہے اپنا ذہن منتقل کر سکتا ہے۔۔۔جس کو امام سلسلہ کا ذہن منتقل ہوتا ہے وہ خانوادہ کہلاتا ہے۔ خانوادہ اپنا نائب یا خلیفہ تو بنا سکتا ہے لیکن کسی کو خانوادہ نہیں بنا سکتا۔۔خانوادگی تو صرف امام سلسلہ ہی عطا کرتا ہے۔

          اُس کے بعد ہر نگران نے اپنے اپنے مراقبہ ہال کےحوالے سے رپورٹ پیش کی اور مسائل بتائے۔

          اُس روز شام تک مراقبہ ہال خالی ہو گیا۔ چند ایک مہمان یہ سوچ کر وہاں رہ گئے کہ اب انہیں اب حضور کے پاس بیٹھنے اور اُن کی باتوں کے گوہر آبدار چننے کا موقع ملے گا۔

          شام کو محفل سجی۔ حضور چارپائی پہ تکیے سے کمر ٹکائے۔۔۔نیم دراز۔۔۔۔بائیں بازو کو سر کے پیچھے رکھے اُسے دائیں ہاتھ سے تھامے رنگ برنگی روشنیوں والے قمقموں کو دیکھ رہے تھے۔

          فرمایا۔ یہاں تو ماورائی ماحول لگتا ہے۔

          مرید کھسک کر آگے ہوا اور لطائف کی بابت دریافت کیا کہ ان کے بارے میں اتنا کچھ پڑھ کر بھی تصور واضح نہیں ہو پا رہا۔

          فرمایا۔ دراصل کسی اطلاع کی نزولی اور صعودی حرکات ہی لطائف ہیں۔ لطائف کی رنگینی سے مراد ہے کہ لاشعوری تحریکات کو کس درجہ پر کس قدر وضاحت سے وصول کیا جاتا ہے۔پیر و مرشد شعور سے بعد کے تصور کو لطائف سے اور اُس میں گہرائی کو رنگینی سے واضح کرتا ہے۔ پیر و مرشد اصل میں صرف مرید کے لطیفہ نفسی کو رنگین کرتا ہے۔۔۔اُس کی اتنی صفائی کرتا ہے کہ وہ صیقل ہو جائے۔۔۔ ورنہ جو کچھ سامنے آئے گا اُس میں آمیزش ہوگی۔جب لطیفہ نفسی کے رنگین ہونے یعنی اُس کی صفائی مکمل ہونے سے پہلے لطیفہ قلبی رنگین ہو جائے یعنی کام کرنا شروع کر دے اور اُس کی تحریکات شروع ہو جائیں ۔۔۔تو آدمی شیطان کو فرشتہ دیکھتا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔۔۔ایک مثال غلام احمد قادیانی بھی ہے۔۔۔ وہ شیطان کو فرشتہ ہی سمجھتا رہا۔

          فرمایا ۔ نزولی کیفیت میں ذات کا عرفان ہوتا ہے جب کہ صعودی میں صفات کا۔ پھر اس بات کی وضاحت پھول کی مثال دے کر فرمائی کہ پھول کا ادراک ہونا کہ یہ گلاب ہے۔۔۔یہ پھول کی ذات کا عرفان ہوا اور یہ سُرخ رنگ ہے۔۔ایسی خوشبو ہے۔۔۔اس میں کانٹے ہیں وغیرہ یہ سب اُس کی صفات کا عرفان ہوا۔

          فرمایا۔ بچہ دنیا میں آتا ہے تو اس کے لاشعور پردے میں چلا جاتا ہے۔۔۔بیس سال کی عمر تک دھول پڑتی رہتی ہے۔۔۔ یہاں تک کہ پردہ پوری طرح لاشعور کو اپنی اوٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی دھول کی صفائی کرنا مرشد کا کام ہوتا ہے۔ اگر یہ صفائی یکدم کر دی جائے تو انسان یک دم بچے کی حالت میں واپس چلا جاتا ہے۔ یہ صورت جذب کہلاتی ہے اور جب آہستہ آہستہ یعنی بتدریج اس پردے کو باریک جالی کی مانند کر دیا جاتا ہے تو اُس میں سے لاشعور بھی جھلکتا رہتا ہے اور شعور بھی کام کرتا رہتا ہے۔ اس پردے کو بالکل ختم کرنا مقصود نہیں ہوتا۔۔۔۔بلکہ اس کو لاشعور سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔

          کسی نے مراقبہ کی سند قرآن کے حوالے سے مانگی تو فرمایا۔ یومنون بالغیب سے مراقبہ ہی کا مفہوم تو نکلتا ہے۔

          مرید نے نجم و شجر کے سجدہ کرنے کی بابت دریافت کیا کہ اس کی اصل صورت کیا ہوتی ہے؟

          فرمایا۔ اللہ کی حاکمیت کو مان لینا ہی سجدہ ہے۔

          کسی نے اخاف ربہ کے حوالے سے خوف کی وضاحت مانگی تو فرمایا۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ کیا لاخوف علیھم کی موجودگی میں اخاف ربہ قرآن میں اختلاف اور تضاد ہے؟

          اللہ میاں کو کبھی کسی ولی، نبی یا رسول نے غصے یا جلال کی حالت میں نہیں دیکھا۔۔۔باپ کی، پیار کرنے والے کی یا مرشد کی صورت میں ہی دیکھا۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اللہ میاں غصے میں تھے۔ پھر نہ جانے یہ اسلام میں اللہ سے ڈرنے کا چکر کہاں سے چل گیا۔

          کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر کسی نے بچوں کے حوالے سے کچھ دریافت کیا تو فرمایا۔ والدین کو بچوں کے سامنے جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔ اُن سے جھوٹا وعدہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ اُن سے اتنا وعدہ کریں جتنا نبھاہ سکیں۔ ایسی باتیں بچوں پہ دور رس اثرات ڈالتی ہیں۔

          فرمایا۔ خود میرے والد نے مجھ سے جھوٹ بول کر قرآن حفظ کرایا کہ تم قرآن حفظ کر لو گے تو میں تمہیں پہاڑ پہ لے جاؤں گا۔۔۔پھر جب میں نے قرآن حفظ کر لیا تو انہیں یاد ہی نہیں تھا کہ انہوں نے مجھ سے کبھی کوئی ایسا وعدہ بھی کیا تھا۔

          فرمایا۔ انسانی آنکھ سورج کو دیکھتی ہے۔۔۔ اس کا مطلب ہوا کہ یہ آنکھ نو کروڑ میل تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔ چاند چوبیس لاکھ میل کے فاصلے پر ہے۔ انسان اُسے بھی دیکھتا ہے مگر انسان نے خود کو چوبیس فٹ تک دیکھنے پر محدود کیا ہوا ہے۔

          سائنسدانوں نے ستارے تو دیکھ لئے مگر کوئی ایسی دوربین نہ بنا سکے جس سے فرشتہ یا جنات نظر آ سکیں۔

          دراصل انسان کے دیکھنے کی حد بہت ہی زیادہ ہے۔

          مرید نے عرض کی۔ حضور یہ ' میں' کیونکر ختم کی جا سکتی ہے؟

          فرمایا۔ بھئی میں نہیں ہوگی تو کام کیسے چلے گا۔۔۔کھانا آپ نے کھایا۔۔۔اب آپ یہی کہیں گے نا کہ کھانا میں نے کھایا۔۔۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ کھانا شاہین نے کھایا۔۔ہاں البتہ انانیت نہیں ہونی چاہئے۔ کام کر کے خوشی ہوتی ہے اور ہونا بھی چاہئے کہ میں نے یہ کام کیا البتہ ا س پہ غرور نہیں کرنا چاہئے۔

          پھر کہا۔ خوش رہنے والے دنیا چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ ابراہیم بن ادھمؒ اور بدھا نے یہی تو کیا۔ جب انہیں پتہ چل گیا کہ خوشی کیا ہے تو وہ بادشاہت چھوڑ گئے۔ ادھم ؒ نے بادشاہت چھوڑی اور دریا کنارے جھونپڑی ڈال کر بیٹھ گئے۔

          بدھا کے بارے میں پیشگوئی تھی کہ اگر اُس نے ناخوشی دیکھی تو وہ دنیا چھوڑ جائے گا۔ اُس کے باپ نے یہ انتظام کیا کہ وہ نا خوشی کا کوئی منظر نہ دیکھ سکے۔۔۔لیکن جب اُس نے دیکھ لیا تو وہ سچی خوشی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ناخوشی جنت سے دوری ہے اور جنت سے دوری اُس کو ختم کرنا تھی۔

          اللہ نے بھی کیا انتظامات کئے۔۔۔پہلے اُسے ناخوشی سے دور رکھا۔۔۔اگر دور نہ رکھتے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس کا عادی ہی ہو جاتا۔ بھئی اللہ تعالیٰ بہت ہی بڑے ہیں۔ اب دیکھیں موسیٰؒ کو فرعون کے ہاں پرورش کروادیا۔ تاکہ فرعون کا رعب اُن کے ذہن سے نکل جائے۔

          فرمایا۔ انسان صبر نہیں کرتا۔ ان اللہ مع الصابرین۔۔۔یعنی اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور صبر نہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہے۔ یعنی جب آپ جلد بازی کرتے ہیں تو اللہ آپ سے دور ہٹ جاتا ہے۔

          ہر کام ایک سسٹم کے تحت ہوتا ہے۔۔۔بندہ خود اٹھارہ سال میں جوان ہوتا ہے اور جوان ہو کر کہتا ہے میرا کام ابھی ہو جائے۔۔ بھئی کیسے ہو جائے۔۔۔ یا تو تم خود اٹھارہ کی بجائے دو سال میں جوان ہو جاتے تو جو کام سال میں ہونا چاہئے وہ ایک مہینے میں ہو جائے۔ انسان ظالم ہے جاہل ہے اور جلد باز ہے اور اس کا نقصان بھی خود اُسی کو ہے۔ آپ غصہ کرتے ہیں۔۔آپ کی عمر کم ہو جاتی ہے۔۔۔کس کا نقصان ہوا۔۔۔یہ خود پہ ظلم ہی ہوا نا۔

          پھر چند ایک لطیفے سُنا کر محفل برخاست کر دی اور اُٹھ کر عرفان صاحب کے ہمراہ گھر چلے گئے۔

          اگلے روز صبح اُٹھ کر اُس نے آستانے میں بیٹھ کر مراقبہ کیا۔ آج مرشد کریم مراقبہ ہال نہیں آئے تھے۔ مراقبہ سے فارغ ہو کر وہ مراقبہ ہال کے اندر ٹہلتا رہا۔ گیٹ کی ڈیوٹی پت متعین صاحب نے اُسے کہا کہ وہ چائے کا کچھ انتظام کرتے ہیں اتنی دیر وہ وہیں گیٹ کے قریب رہے تا کہ اگر کوئی آ کر گھنٹی بجائے تو گیٹ کھولنے میں تاخیر نہ ہو۔

          اتنی دیر میں گاڑی رکنے کی آواز ائی۔ وہ گیٹ کی طرف چل دیا۔ گھنٹی بجی۔۔اُس نے گیٹ کھولا تو عرفان صاحب نے اُسے دیکھتے ہی پوچھا۔ ابا تو بہیں آئے ؟ اُس نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ بنا کچھ کہے۔۔کچھ سوچتے ہوئے۔۔پلٹے اور گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ اُس نے گیٹ بند کیا اور کچن کی طرف چل دیا۔ وہاں جا کر چائے پی۔۔اُس وقت وہاں دو تین اصحاب ہی تھے۔

          کچھ دیر بعد کسی نے آکر بتایا کہ حضور تشریف لا چکے ہیں۔۔۔اپنے کمرے میں ہیں اور سب کو بلا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ انداز میں دیکھا کہ وہ کب آئے ؟ ابا کے کمرے میں پہنچے۔ تو فرمایا۔ میں تو بہت دیر کا آیا ہوا ہوں۔ خالہ کئی روز سے فرمائش کر رہی تھیں کہ آپ اپنی آواز میں کچھ ٹیپ کر کے دے دیں۔آج آیا تو تلاوت اور کچھ باتیں ریکارڈ کی ہیں ۔۔آئیں سنیں۔

          مرید نے کمرے کے اندر اتاری گئی جوتیوں کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ حضور نے کبھی کمرے کے اندر جا کر جوتے نہیں

اتارے اور پھر جب وہ صبح ٹہلتے ہوئے حضور کے کمرے کے پاس سے دو تین بار گزرا تھا تواُس وقت کمرے میں اُن کی موجودگی کا کوئی احساس کیوں نہیں ہو سکا تھا اور اگر وہاں کوئی گاڑی آئی تھی تو وہ خود کہاں سوئے ہوئے تھے کہ انہیں خبر تک نہ ہو سکی۔۔۔ پیشتر اس کے وہ کچھ کہتا ٹیپ ریکارڈر سے مرشد کریم کی مخصوص وجد آفرین آواز میں تلاوت کی آواز ابھرنا شروع ہو گئی اور پھر کسی کو یہ خیال ہی نہ رہا کہ وہ ابا حضور کی وہاں اس طرح اچانک امد اور اپنی بے خبری کی وجوہات کھوج سکے۔

          تلاوت کے بعد وقت اور تاریخ بتا کر لاہور، پشاور ، اٹک اور فیصل آباد سے آئے مہمانوں کا تذکرہ کرنے کے بعد مرکزی مراقبہ ہال کی مستانہ وار وجد آفرین کیفیات، آستانہ میں روشنیوں کے جھماکے ہونے اور اُس کو فرشتوں کی آمدو رفت کی علامت ہونے۔۔قلندر بابا اولیا ﷭ کے دربار کے لگنے۔۔وہاں سے احکامات صادر ہونے کا حال بتانے کے بعد۔۔۔حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ کی تصویر اور تصویر میں بابا صاحب ﷭ کی آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے نور کے سمندر کا تذکرہ فرمانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان فرمایا کہ اُن آنکھوں کے اندر جھانکنے سے نظر مقام ابراہیم پر جا ٹکتی ہے۔ حاملانِ عرش سے لے کر مقربین اور ملائے اعلیٰ کے فرشتوں تک کے نظر آنے کی بات کرنے کے بعد بیان کیا گیا:

          ہر عظیمی کے اندر ایک ہی روح رواں دواں ہے۔ جسم و بدن جدا ہونے کے باوجود یہ سب ایک ہی جاں ہیں۔ جب کوئی عظیمی بچہ مراقبہ ہال کے کسی گلاب کے سامنے رُکتا ہے تو گلاب کا چہرہ کھل اُٹھتا ہے اور اُس میں رونق دوڑ جاتی ہے۔۔۔اور وہ مست ہو کر فضا میں اپنی خوشبو گھول دیتا ہے۔

          ٹیپ ختم ہوئی تو سب نے بہت تعریف کی تو بھولپن سے فرمایا۔۔ وہ جو چاہتے ہیں کہلوا دیتے ہیں ہم تو لوڈ سپیکر کے بھونپو ہیں۔

          مرید نے دیکھا کہ اتنے میں حضور کے جوتے کمرے سے غائب ہو چکے تھے۔ اُس نے کسی کو وہ جوتا اُٹھا کر باہر لے جاتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔ شاید وہ کچھ زیادہ ہی منہک ہو کر ٹیپ شدہ باتیں سُن رہا تھا اور اس دوران کسی نے ہاتھ بڑھا کر انہیں دروازے سے باہر کر دیا تھا۔

          پھر حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ کا رات رات بھر تکوینی امور کی انجام دہی میں مصروف رہنے اور صبح صبح اپنے چائے بنا کر انہیں پلانے کی بات بتا کر کہا۔ وہ چائے کے عادی تھے مگر جب وہ چودہ سال کی رفاقت کے بعد ہمارے یہاں سے اپنے گھر گئے تو چائے چھوڑ دی۔

          پھر اپنے سیگریٹ پینے اور حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے حکم پر انہیں چھوڑنے کا تذکرہ کیا ۔ سگریٹ چھوڑنے کے بعد شروع شروع میں تو اتنا لپکا تھا کہ جب کوئی سگریٹ پیتا تو میں اُس کے قریب ہو کر بیٹھ جاتا کہ کچھ دھواں سانس کے ساتھ اندر چلا جائے۔ پھر بعد میں جب دانتوں میں تکلیف ہوئی تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ نے سگریٹ چھوڑے ہیں مگر دانتوں میں نکوٹین جم گئی ہے اگر آپ نے سگریٹ دوبارہ شروع کئے تو سارے دانت جھڑ جائیں گے۔

          میں نے سوچا کہ دانت تو یوں بھی ایک نہ ایک دن گرنا تو ہیں۔۔۔ میں مرشد کریم کے ھکم کی سرتابی کیوں کروں۔۔لہذا دانتوں کو گرنے دیا۔ کھانا کھا رہا ہوتا تو دانت ہاتھ میں آجات۔۔ سو کر اُٹھتا تو دانت گرے ہوئے ملتے۔

          پھر فرمایا کہ جو دوسروں سے اپنی بات منواتے ہیں وہ انڈیپنڈنٹ ہوتے ہیں اور جو دوسروں کی بات مانتے ہیں وہ ڈیپنڈنٹ ہوتے ہیں۔انڈ یپنڈنٹ آدمی جب چاہے کسی کو چھوڑ سکتا ہے۔

          پھر ارشاد ہوا کہ لباس درحقیقت جنت میں آدم کی نا فرمانی کی یاد ہے۔اگر آپ نے جنت میں جانا ہے تو کپڑے اتار دیں۔ کچھ توقف بعد دوبارہ کہا۔ ہاں۔۔ ہاں اتار دیں۔ مرید کے ساتھ ساتھ ساتھ باقی افراد نے بھی چشمِ تصور سے خود کو لباس سے آزاد کرتے دیکھا لیکن اُس کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت نہ کر سکے۔

          فرمایا۔ آپ لباس اتار ہی نہیں سکتے۔۔ آپ لباس میں قید ہیں۔۔۔ یہ لباس ہی شعور ہے۔ لباس اتارنا لاشعور میں داخل ہونا ہے۔ لباس نہیں تو شعور نہیں۔۔۔ شعور نہیں تو جنت ہی جنت ہوئی نا۔

          محفل برخاست ہوئی تو اُس کو ایک بار پھر سے حضور کے مراقبہ ہال آنے اور خود گیٹ کے قریب رہنے کے باوجود ان کی امد کی خبر نہ ہوسکنے کا اچنبھا شروع ہو گیا۔اُس نے اقبال بھائی سے بات کی تو وہ مسکرا کر طرح دے گئے۔ اُس نے اُن سے پوچھا کہ ابا کے جوتے کمرے میں پڑے تھے۔ کیا وہ آپ نے اُٹھا کر باہر رکھے تھے؟ انہوں نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔ وہ وہاں باہر ہی تھے ابا نے کبھی جوتے کمرے میں نہیں اتارے۔ وہ ٹہلتا ہوا کمرے کی دوسری جانب کھڑکی کے قریب گیا۔ اس کو حضور کی کمرے میں موجودگی محسوس کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ تو صبح وہاں سے کئی بار گزرنے کے باوجود وہ اس بات کو نوٹ کیوں نہیں کر سکا تھا۔ وہ الجھ ہی رہا تھا کہ اُس کو خیال گزرا۔ جو بندہ زمان و مکاں کے مفرضہ ہونے کا سبق اپنے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ سے پڑھ چکا ہو۔۔

کیا وہ اس کو آزماتا اور برتتا نہ ہوگا۔۔۔ اور اس دلیل پہ اُس کا ذہن شانت ہوتا چلا گیا۔

          اُس کے بعد جب وہ قلندر شعور کی کلاس میں بیٹھا۔۔۔۔اپنے مراد کو۔۔۔ اُس کلاس کے طلبا کو اختتامی لیکچر سے نوازتے سُن رہا تھا۔۔تو وہ ہر بات کو سُن بھی رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا۔

          آپ نے فرمایا۔ اللہ نے ہمیں توفیق دی۔ ہم نے قلندر شعور اسکول کا افتتاح کیا اور کتاب قلندر شعور کو سبقاً سبقاً پڑھا۔ ہم نے جو کچھ پڑھا۔۔وہ مختصراً کچھ یوں ہے کہ ہر انسان کو اللہ نے اسی طرح پیدا کیا جس طرح دوسری مخلوق پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کے تمام اعمال اور حرکات میں انسان کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ہم عمر کے تعین کے لحاظ سے بھی انسان کو ممتاز قرار نہیں دے سکتے۔ اگر ہم ماں باپ کی شفقت کے حوالے سے دیکھیں تو سب ہی جانور اپنی اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں۔

          انسان کو اگر کوئی فضیلت حاصل ہے تو وہ صرف شعوری ارتقا کے حوالے سے ہے۔ انسان کے علاوہ کسی اور جانور میں ہمیں شعوری ارتقا نظر نہیں آتا۔ بکری آج سے لاکھوں سال پہلے بھی پتے کھاتی تھی۔۔۔وہ آج بھی پتے ہی کھاتی ہے۔ اُسے گھر کی ضرورت تب بھی نہ تھی اور آج بھی اُسے گھر کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

          انسان اور دوسری مخلوقات میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ انسان میں بار بار تبدیلی آتی ہے۔ کسی کیڑے، کسی پرندے، کسی جانور کی زندگی میں کوئی تغیر نہیں۔ جانوروں بلکہ انسان کے علاوہ جتنی مخلوقات ہیں اُن کے شعور منجمد ہیں۔ اُن کے شعور کا دائرہ معین ہے۔ وہ آپس میں لڑتے ہیں۔۔۔ کھاتے پیتے شادی بیاہ کرتے، اولاد کی خواہش اور اُس کی پرورش کرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اُن کے اندر شعوری ارتقا نہیں ہے۔

          پھر ارتقا کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ خیالات کی ایک رو دماغ پر مسلسل اور متواتر پڑ رہی ہے۔ آدمی چاہے یا نہ چاہے۔۔۔یہ خیالات نازل ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ خیالات زندگی کو چلانے کے لئے ہوتے ہیں اور کچھ خیالات زندگی کو آگے بڑھانے اور سدھارنے کے لئے ہوتے ہیں۔۔۔اسی کو ارتقا کہتے ہیں۔

          خیالات کو قبول کرنا یا انہیں رد کرنا۔۔۔۔۔یہ دو صلاحیتیں ہیں۔انسان کے علاوہ دوسری مخلوق میں خیالات کو رد کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔۔یعنی انسان کے دماغ میں ایک ایسا ریسیونگ سیٹ لگا ہوا ہے کہ وہ موصولہ اطلاعات میں الگ سے ہٹ کر بھی معنی پہنا سکتا ہے۔ معنی پہنانا۔۔علم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی انسان انفارمیشن کو قبول کر کے اُن میں معنی پہناتا ہے ۔ اب اگر اطلاع

میں پہنانے والی ایجنسی محدود ہے تو محدود دائرے میں سفر کرے گا اور اگر وہ انفارمیشن کو قبول کر کے گہرائی میں داخل ہوگا تو لامحدودیت میں سفر کرے گا۔

          آسمانی مخلوق میں فرشتوں کی حیثیت ایک روبوٹ سے زیادہ نہیں ہے۔اُن کی اپنی کوئی مرضی ، اپنی کوئی رائے یا کوئی اختیار نہیں۔ جب انسان زمینی شعور سے نکل کر آسمانی شعور میں داخل ہو جاتا ہے تو اُسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اطلاع میں معنی پہنانے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس لئے شعوری ارتقا کی بنا پر فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل ہے۔ آدم کی اسی علمی حیثیت کی بنا پر فرشتوں سے آدم کو سجدہ کروایا گیا تھا۔

          انسان کو معنی پہنانے کا علم یعنی اسما کی صفات میں معنی پہنانے کا علم دیا گیا تھا۔ اللہ ایک ایسی ہستی جو قادر مطلق ہے۔۔۔ پوری کائنات پر کنٹرول رکھنے والی ذات۔۔۔ہر مخلوق کے لئے ایک دائرہ ہے۔۔۔ایک ایسا دائرہ جو ہر طرف سے محیط ہے ۔ مخلوق اس دائرے سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔۔ اس بات علم رکھنا۔۔یہ بات علم میں ہونا ہی آدم کی فضیلت ہے یعنی آدمی میں اللہ نے ایک ایسا شعور رکھ دیا ہے جو گہرائی میں جا کر نئی نئی باتیں معلوم کر سکتا ہے۔۔۔ ایجادات کر سکتا ہے۔    

          اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان میں۔۔۔ اُس کو زمینی اور آسمانی مخلوقات سے ممتاز کرنے والی ایک صفت رکھ دی گئی ہے اور یہ بھی ہے کہ وہ انفارمیشن کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کو رد کرنے والی ایجنسی بھی رکھتا ہے۔

          قلندر کا مطلب ہے ایک ایسا شعور جو دنیاوی شعور میں رہتے ہوئے تمام شعوروں کا احاطہ کر سکے۔ میں یہ کتاب قلندرانہ ذہن سے لکھی۔۔یعنی ایسا ذہن جو کائنات کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کر سکتا ہے۔۔۔ جو خود سے بھی آگاہ ہے اور اپنے خالق سے بھی واقف ہے۔ جو خود مسجود کو بھی جانتا ہے اور سجدہ کرنے والے کو بھی اور سجدہ نہ کرنے والے کو بھی۔۔۔وہ صرف سجدہ کرنے والا ساجد ہی نہیں ہے۔

          وہ جانتا ہے کہ آدم کی اولاد بھی آدم ہے۔ آدم کی موجود پیدائش نسلی اعتبار سے زمینی شعور کے تابع پیدا ہے یعنی محدودیت میں رہ کر وسائل استعمال کرتی ہے۔ دنیاوی معاملات اُس کی تمام تر توجہ جذب کئے رہتے ہیں۔ ہر آدمی جنت میں نافرمانی کا مرتکب ہو دنیا میں پیدا ہوتا ہے۔۔۔ یعنی ہر آدمی آدم ہے اور ہر لڑکی حوا۔۔۔۔ جو شعور ہمیں یہ بتاتا ہے۔۔۔اُس کا رابطہ براہ راست اللہ سے قائم ہو تا ہے۔

          وہ دنیا کے محدود شعور سے نکل کر آسمانی لامحدود شعور میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہ آزاد بندہ جس کے اندر لامحدود وسعتیں سمٹ آتی ہیں۔۔ وہ کپڑوں کے پہننے اور کھانے پینے سے آزاد ہو جاتا ہے کیونکہ وہ خود کو جنت میں دیکھنا شروع کر دیتا ہے اور جنت میں یہ پابندیاں نہیں ہوتیں۔ وہ بیٹھا دنیا میں ہوتا ہے لیکن دیکھتا جنت میں ہے۔ وہ بار بار حضور ﷺ کے بیان کردہ ماحول میں داخل ہوتا ہے قلندر شعور حاصل ہونے والے بندے کو ٹائم اسپیس سے آزادی مل جاتی ہے۔

          اگر ہماری مادی نظر ایک طرف نو کروڑ میل دور سورج کو دیکھ سکتی ہے تو دوسری طرف ہم چند سو فٹ پر بھی دیکھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔۔۔یعنی جب ہم زمین کو دیکھتے ہیں تو ہم جانوروں کے برابر شعور میں مقید ہو جاتے ہیں۔۔۔اگر ہم حیوانات سے ممتاز ہونا چاہتے ہیں تو ہمارے اندر ہر وہ صلحیت موجود ہونا چاہئے جو زمینی اور آسمانی مخلوقات کے اندر موجود نہیں۔۔اور صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم قلندر شعور سے آراستہ ہو اپنی تخلیق کے مقصد کو پا لیں۔

          لیکچر کے بعد اُس کو اپنے اندر اپنے مراد کا رعب اور اُن پہ فخر کا احساس پہلے سے کئی گنا بڑھا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اُس نے محسوس کیا کہ جس قدر وہ اُن کی باتوں کو سمجھتا ہے اسی قدر وہ اُس کو پہلے سے زیادہ قد آور، توانا اور جسیم محسوس ہوتے ہیں۔

          بعد میں مرید نے جب وہ اپنے مراد کے ہمراہ اُن کے کمرے میں موجود تھا۔۔۔استدعا کی۔ جب یہاں سب ہی کچھ علم ہے تو روح بھی تو ایک طرح سے علم ہی ہوئی۔۔۔تو پھر قلندر شعور کے مطابق علم الاسما عطا کئے جانے اور اپنی روح میں سے پھونکنے میں کیا فرق ہے؟

          اُس کا مراد گویا ہوا۔ سورج ہر روز طلوع ہوتا ہے۔۔۔۔۔ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ مانا سورج کے طلوع ہونے میں ہمارے لئے بے شمار فائدے ہیں لیکن سورج کے ہر روز طلوع ہونےاور غروب ہونے میں کیا حکمت ہے؟ ہم نے غورو فکر کو چھوڑا ہوا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں صاف صاف ارشاد فرمایا ہے۔ میری نشانیوں پہ غور کر کے اُن میں پوشیدہ حکمتوں اور صلاحیتوں کو تلاش کرو۔ جب بھی کوئی صلاحیت وسائل میں استعمال ہوتی ہے تو ایک نئی چیز وجود میں آتی ہے۔ یعنی کوئی بھی ایجاد دراصل صلاحیت اور وسائل کی یکجائی ہے۔

          پھر فرمایا۔ ہر چیز دو رخوں سے مرکب ہے۔ ایک اُس کا ظاہر اور دوسرے اُس کا باطن۔ ہر باطن کا بھی ایک باطن ہے جو اللہ ہے۔ یعنی ہر مظہرکسی باطن پر قائم ہے اور باطن کا قیام اللہ پر ہے۔ جب تک انسان اپنے باطن سے روشناس نہیں ہوتا وہ اللہ سے واقف نہیں ہو سکتا۔ غورو فکر اور ریسرچ وہ صلاحیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو عطا کی ہے اور اسی کے سبب وہ ارتقائی منازل طے کرتا ہے۔ ایک بکری آج سے لاکھوں سال پہلے جو کچھ تھی وہ آج بھی وہی ہے۔ چونکہ اُس میں غوروفکر اور ریسرچ کی صلاحیت نہیں ہے لہذا وہ ارتقا سے محروم ہے ۔ انسان میں یہی وہ صلاحیت ہے جس کی بنیاد پر اُس کو شرف اور خلافت دی گئی ہے۔

          جب اللہ تعالیٰ نے مٹی میں۔۔۔۔۔ جس کی اصل خلا ہے۔۔۔۔۔یہ صلاحیت بھر دی تو وہ کائنات میں ممتاز ہو گیا۔ علم الاسما عطا ہونے اور 'اپنی روح میں سے پھونکے' کا یہی مفہوم ہے۔

          بات ختم کر کے وہ خاموش ہو گئے اور آنکھیں موند لیں۔ مرید کو لگا اُس کے دماغ میں ہزار واٹ کا بلب روشن ہو گیا ہے جس کی روشنی اُس کو اپنے وجود کے تاریک گوشوں کو تابناک کرتی محسوس ہوئی۔ علم الاسما اور روح پھونکنے کا یہ مفہوم اُس کے فہم و ادراک کو کچھ ایسا منور کر رہا تھا کہ اُس کو ہر بات نکھری کھری ، اجلی اور روشن سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اُٹھ کر کمرے سے باہر آگیا۔

          اگلے روز وہ اُس روشنی کی جوت کو سنبھالے پشاور پہنچ گیا۔ پشاور میں پہلے تو کئی روز وہ خود کو سنبھالنے میں لگا رہا۔ اُس کی ذہنی کیفیات میں کچھ ایسی بات در آئی تھی کہ لوگوں سے اپنے مرشد کریم سے سُنی ہوئی اُن سے سیکھی ہوئی باتیں کرنے میں تو بہت لطف محسوس کرتا لیکن دنیا داری، کاروبار اور روزگار کی بات وہ ایک دو جملوں میں نپٹا دیتا اور جب مخاطب ایک ہی بات کی تکرار کرتا اور اُس کو کئی کئی بار دہراتا تو وہ الجھن اور کوفت محسوس کرتا۔


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔