Topics
صبح اذان فجر کےساتھ ہی اُس کی آنکھ کھل گئی۔ بیدار ہوتے ہی اُس کے شعور میں پہلی بات یہی آئی کہ وہ مراقبہ ہال میں ہے۔ وضو کرنے سے لے کر نماز پڑھنے اور پھر آستانے میں اپنے مراد کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھنے سے لے کر مراقبہ ختم ہونے تک وہ ایک بے خیالی کی کیفیت میں رہا۔ مراقبے کے بعد انہوں نے جھوٹ بولنے کی بابت خطاب میں کہا کہ جھوٹ اللہ کو اس لئے ناپسند ہے کہ اس سے انسان اللہ سے دور ہو جاتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں فرمائی کہ جھوٹ بولنے سے انسان کے اندر ایک کمزوری در آتی ہے اور وہ حقائق کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اللہ جو سب سے بڑی اور اصل حقیقت ہے وہ اُس کا سامنا کرنے کی سکت کھو دیتا ہے۔حضور ﷺ کا لقب صادق اور امین تھا۔ اور یہ لقب انہیں بعثت نبوی سے پہلے آپ ﷺ کو بہت قریب سے
جاننے والوں نے دیا تھا۔ جھوٹ کی بابت آپ نے یہ بھی فرمایا کہ
یہ ناپائیدار اور عارضی ہوتا ہے۔ کاٹھ کی ہنڈیا کی مانند ہوتا ہے جو بار
بار نہیں چڑھتی۔
درس کے بعد
چہل قدمی کے دوران وہ ایک ایک پودے کو دیکھتے بڑھ رہے تھے۔ رشید صاحب ان کے ہمراہ تھے۔
اس پودے کو تراش دیں، یہاں بادام کے پودے لگائیں، یہاں سرس ٹھیک رہے گا، یہاں نیم کا
درخت بھلا لگے گا۔ پھر اُس کو مخاطب کر کے بتانے لگے کہ یہ دیوار عارضی ہے اس کو سڑک
کے کنارے لگائے گئے پودوں کے تحفظ کے لئے فٹ پاتھ کی جگہ بنایا ہے جب پودے بڑے ہو جائیں
گے تو یہ دیوار ان پودوں کی آڑ میں چلی جائے گی۔ وہ اس دور اندیشی کو سراہنے کی بجائے
یہ سوچنے لگا کبھی دیوار پودوں کو تحفظ دیتی ہے اور کبھی پودے دیوار کی شان بڑھاتے
ہیں، کبھی ماں باپ اپنے بچوں کے تحفظ کے لئے سینہ سپر اور کبھی بچے اپنے والدین کے
نگہباں۔ کبھی بچے اپنے والدین کو سدِ راہ سمجھتے ہیں اور کبھی والدین بچوں کی ناقدری
سے نالاں۔ مرید کو ایک سوال سوجھا۔ عرضکی حضور بعض اوقات انسان کے اندر ایک طویل بحث
چلتی ہے اور اس دوران کئی منفی خیالات بھی آتے ہیں۔ ایسے خیالات مواخذے کا سبب تو نہیں
بنتے؟ انہوں نے ” جی نہیں“ کہہ کر گیٹ پر لٹکی گھنٹی کی طرف اشارہ کر کے تبسم ریز لہجے
میں کہا۔ یہ کیا عدل جہانگیری والی گھنٹی ہے؟ اور ناشتے کے لئے دستر خوان کی طرف بڑھ
گئے۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔