Topics
دوبارہ ملنے کی آس لئے پشاور واپسی ہوئی۔ ابھی اپنے مراد سے
ملاقاتوں کا سرد سرور کم نہ ہوا تھا اسے معلوم ہو کہ حضور لاہور سمن آباد میں خواتین
مراقبہ ہال اور حکیم نور عجم کے کلینک کا افتتاح کرنے لاہور آرہے ہیں وہ اور شاہین
لاہور پہنچ گئے۔ چوبرجی کے راستے سمن اباد داخل ہوئے تو پہلے ہی چوک پر بائیں طرف مڑنے
کے بعد عظیمی مطب زیرِسر پرستی خواجہ شمس الدین عظیمی کا بورڈ دیکھ کر انہوں نے جانا
کہ وہ منزل مراد پہ پہنچ گئےہیں۔
خواتین مراقبہ
ہال کے لئے بطور نگران ڈاکٹر شگفتہ فیروز کا تقرر کیا گیا تھا۔ وہ سلسلے کے لئے کچھ
کرنے کا عزم رکھتی تھیں۔\ہال کمرے میں مراقبہ ہال قائم کیا گیا تھا اور گیراج اور اس
کے ساتھ کا کمرہ مطب اور انتظار گاہ مریضان تھا جبکہ دو کمرے ابا حضور کی رہائش کے
لیے مختص کئے گئے تھے۔ کچن میں خواتین کی ڈیوٹیاں لاگئی جا رہی تھیں۔
شاہین نے ہال
کمرے میں دری پہ ایک چادر بچھا کر دیواروں کے ساتھ چند تکیے اور کھڑکیوں میں پھول دان
رکھ کر نشست گاہ کا تاثر ابھارا تو اُس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ مقصود صاحب ! اللہ
نے آپ کو اتنی سلیقہ مند بیوی دی ہے۔ آپ بہت خوش قسمت ہیں۔ آپ ان کی قدر کیا کریں۔
شاہین تھی کہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
شام کو مطب کا افتتاح ہوا۔ بیگم میاں مشتاق احمد
، بیگم اکرام شہابی، ڈاکٹر شگفتہ فیروز، بیگم اسلم اور لاہور کے علاوہ دیگر شہروں سے
آنے والی بہت سی خواتین نے ھکیم نور عجم سے نسخے تجویز کروائے۔ شام کو حضور گھر کے
صحن میں بچھی چارپائی پہ آ کے بیٹھے۔ کچھ دیر دونوں ہاتھ چارپائی کے کنارے پہ رکھے
سر کو آگے جھکائے بیٹھے۔ پھر کسی نے تکیہ لا کر دیا تو پاؤں سمیٹ کر اوپر اُٹھا لئے
اور تکیے کا سہارا لے کر نیم دراز ہو گئے۔
مرید نے موقع
دیکھ کر قریب ہو کر خراٹوں کا علاج دریافت کیا۔
فرمایا۔ اس
کا کوئی علاج نہیں۔ اس کا تعلق پیٹ کے ابھار سے ہوتا ہے۔ جتنی بڑی توند ہوگی اتنے ہی
زیادہ خراٹے ہوں گے۔ در اصل آدمی نیند کے دوران گہرائی میں سانس لیتا ہے۔ اُس سے آواز
پیدا ہوتی ہے۔ آواز تو بیداری میں سانس لینے سے بھی پیدا ہوتی ہے لیکن اس وقت سانس
میں گہرائی نہ ہونے کے سبب سنائی نہیں دیتی۔
مرید نے سندر
سنگھ کی بابت بتایا کہ جب وہ سوات مراقبہ ہال کے لئے زمین دیکھنے سوات گئے تو وہاں
زبیر اور جمشید بھائی بھی ہمراہ تھے۔ اس سے پیشتر جب سندر سنگھ کہیں پشاور آئے تھے
تو جمشید بھائی نے اُن سے کہا تھا کہ سیدھے ہو جاؤ ورنہ میں تمہارے لئے مولوی بلاتا
ہوں۔ اس بات کے پس منظر میں سندر سنگھ نے جمشید کو دیکھتے ہی کہا۔ وہاں تم میرے لئے
مولویوں کو لا رہے تھے اب دیکھو میں تمہارے لئے سکھ لاتا ہوں۔ اس پہ حضور نے تبسم فرمایا
اور کہا ۔ سندر بہت پیارا بچہ ہے۔
نشست جمی تو
جمتی ہی چلی گئی۔
مرید نے عرض
کی اس سے پیشتر جب زبیر بھائی زمین دیکھنے سوات گئے تھے تو ایک صاحب نے انہیں وہاں
پورا پہاڑ خریدنے کی دعوت دی تھی۔ مراد نے ایک نظر اُٹھا کر مرید کو دیکھا۔ اُسے محسوس
ہوا گویا کہہ رہے ہوں آپ ایک کنال زمین تو لے نہیں سکتے پورا پہاڑ کیا خرید کر دیں
گے۔ مگر انہوں نے فرمایا۔ جب کبھی بندوبست اراضی ہوا ہوگا۔۔تو اُس آدمی کے بزرگوں میں
سے کسی نے اپنی زمین کی جو حدود بتائی ہوگی وہ پہاڑ بھی اُس میں آگیا ہوگا ورنہ انہوں
نے بھلا اللہ کو اُس زمین اور پہاڑ کے عوض کیا دیا ہوگا؟
کچھ دیر سکوت
رہا پھر ارشاد فرمایا۔ جب کوئی مجھے زندگی کی دُعا دیتا ہے تو مجھے عجیب سا لگتا ہے۔یوں
محسوس ہوتا ہے گویا مجھے قید میں اضافے کی سزا دی جا رہی ہو۔ اوپر عالم اعراف کی زندگی
اچھے اور بُرے دونوں ہی کے لئے یہاں کی زندگی سے بہرحال بہت بہتر ہے۔ وہ اچھوں کے لئے
تو خیر بہت ہی اچھی ہے لیکن بُروں کے لئے بھی بہت ہی بہتر ہے۔ وقت پہ کھانا ملتا ہے
۔ گھنٹی بجتی ہے سب آکر اپنا اپنا کھانا لے کر کھا لیتے ہیں۔ نہ پکانے کا جھنجھٹ۔۔نہ
برتن صاف کرنے کا مسئلہ۔۔۔کپڑے بھی تیار مل جاتے ہیں۔۔۔ عورتوں کے لئے بھی اور مردوں
کے لئے بھی۔ رہنے کی جگہ مل ہی جاتی ہے۔ یہاں جو بچے فوت ہوتے ہیں جب وہاں جوان ہوتے
ہیں تو اُن کی شادیاں ہوتی ہیں۔۔۔یہ شادیاں وہاں رہنے والوں کے لئے اجتماعی خوشی بن
جاتی ہے۔۔ سب اُ س میں شریک ہوتے ہیں۔۔۔ وہاں کوئی اور مصروفیت بھی تو نہیں۔۔۔ اِدھر
چلے گئے ۔۔اُُدھر چلے گئے۔۔۔ اس سے مل لیا۔۔اُس سے مل لیا۔۔۔ بعض سیارے ایسے ہیں جہاں
انسان جا سکتا ہے۔۔وہاں چلے گئے۔۔۔یہ اُن کی پکنک ہوگئی۔۔۔ البتہ تکوین کا کام کرنے
والوں کو وہاں بہت کام کرنا ہوتا ہے۔۔۔سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی۔
وہاں سب کام
ایک قاعدے اور ضابطے کے تحت ہوتا ہے اُن سے مفر نہیں۔ یہاں کی طرح نہیں کہ قانون کو
چکمہ دیا اور صاف بچ نکلے۔ شریر لوگ فوراً پکڑ میں آجاتے ہیں اور سزا پاتے ہیں۔ زیادہ
بُرے لوگ بھٹکتے ہی رہتے ہیں۔ اُن کی زندگی عذاب ہی کی ہوتی ہے نہ کوئی ٹھکانہ تو نہ
کوئی پرسان حال۔۔ اللہ معاف کرے۔
پھر کسی نے
معجزے اور کرامت کی بابت پوچھا تو فرمایا۔ معجزے اور کرامتیں دیکھ کر کوئی ایمان نہیں
لاتا۔ حضور نے شق القمر کا معجزہ دکھایا تو کتنے لوگ مسلمان ہوئے؟ جو دیکھنے گئے تھے
سب بھا گ گئے۔
فرمایا۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ جب کوئی
کام کہتے تھے تو ساتھ میں تصرف بھی فرماتے تھے ۔ کیونکہ میں نے دیکھا کہ جب انہوں نے
کہا کہ روزہ رکھو تو بھوک ہونے کے باوجود کھانے پینے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ بھوک میں
جو کیفیت ہوتی ہے وہ سب ہونے کے باوجود کھانے کی طلب نہیں ہوتی تھی۔ آپ تجربہ کر کے
دیکھ لیں۔۔۔بھوک کی اپنی ایک لذت ہوتی ہے ۔ روزوں کے بعد یہ لذت باقاعدہ یاد آتی ہے۔
اُن دنوں مجھے یہ دیواریں پتلے کاغذ کی مانند نظر آتی تھیں۔ چھت بھی ایسی ہی نظر آتی
تھی جیسے کاغذ کی بنی ہوئی ہو اور باہر کے عکس اُس پر پڑتے ہوں۔
جب روزہ مکمل ہو گیا تو آنتیں خشک ہو گئیں
تھیں۔ پہلے مجھے روغن بادام دودھ میں ڈال کر گرم کر کے دیا گیا ۔ پھر دودھ۔۔۔پھر نرم
غذائیں دی گئیں پھر رفتہ رفتہ واپس نارمل خوراک پہ لایا گیا۔
پھر حضور نے مجھے اس ذہنی کیفیت سے گزارا
کہ میں دیکھتا کہ ایک کمرے میں بند ہوں اُس میں الماریاں ہیں جن میں سونا بھرا ہوا
ہے۔ بھوک میں آواز آتی۔۔۔سونا کھاؤ۔۔ پھر دیکھتا کہ ایک کمرہ ہے جس کی الماریوں میں
چاندی بھری ہوئی ہے۔ بھوک لگتی تو آواز آتی کہ چاندی کھاؤ۔۔ اسی طرح دکھایا گیا کہ
ایک کمرہ ہے جس کی الماریوں میں نوٹ ہی نوٹ بھرے ہوئے ہیں۔
بھوک
لگتی تو آواز آتی ہ نوٹ کھاؤ۔ میری یہ حالت ہو گئی کہ نوٹ دیکھتا تو گھن آتی۔
فرمایا حضور قلندر بابا اولیا ء ؒنے میری
بڑی کڑی نگرانی فرمائی۔ میری تربیت کے مراحل میں میرے ساتھ خود بھی سختی جھیلی۔ حضور
نے میری تربیت لاشعوری طور پہ کی یعنی میرے لاشعور کی تربیت کی یہ لاشعوری تربیت ہوئی۔
اب سلسلے میں شعور پہ ضرب لگا کر اُسے لاشعور سے جوڑا جاتا ہے۔
نیاز بھائی
نے بیٹے کو اسکول میں داخل کروانے کی بابت پوچھا کہ اسکول والے اتنے پیسے مانگتے ہیں
تو انہیں کیا کرنا چاہئے۔ فرمایا۔ آپ ارادہ کریں۔۔اگر خیال آگیا کہ کیسے ہوگا تو پھر
نہ ہوا۔
پھر فرمایا
کہ کچھ لے دے کر اگر داخلہ ہو جائے تو کروا لیں۔ اب تعلیمی اداروں میں داخلے ڈونیشن
دیئے بغیر کہاں ملتے ہیں؟ رشوت تو ناجائز کام کی ہوتی ہے۔۔آپ تو جائز کام کروا رہے
ہیں۔ بھئی اب تو وہی لوگ شریف ہیں جو کچھ کر نہیں سکتے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کی
ملازمت جائز ہے۔ حکومت سود کے پیسوں سے آپ کو تنخواہ دیتی ہے۔
فرمایا۔ وہاں
انگلینڈ میں لوگ شراب پی کر حلال گوشت کے کباب ڈھونڈنے میلوں جاتے ہیں۔
بھئی آپ کے
تمام پڑھے لکھے لوگوں نے امریکی ویزا لاٹری میں حصہ لے کر ایک طرح کے ریفرنڈم میں فیصلہ
دے دیا ہے کہ ہمیں یہاں نہیں رہنا۔ اب ظاہر ہے کہ امریکہ سب کو تو وہاں نہیں بلا سکتا
لہذا خود آرہا ہے۔
صبح مراقبے
کے بعد ارشاد فرمایا۔ انسان تکرار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک ہی بات کو بار بار کر
رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں آج نیا دن ہے۔آج نیا کھانا پکا ہے۔ کھانے میں کیا نیا ہوتا ہے؟
ہر روز وہی روٹی تو کھا رہے ہیں جو شروع سے کھاتے آرہے ہیں۔۔۔ہر روز وہی کروڑوں سال
پرانا سورج ہی تو طلوع ہوتا ہے۔ وہی پانہ تو پی رہے ہیں جو اس وقت سے ہے جب سے زمین
بنی ہے۔ تبدیلی تو تب ہوتی کہ آج سے پہلے کے انسان کے کان کی جگہ ناک لگ جاتی۔۔۔ تو
ہم کہتے کہ ناک اس جگہ لگ گئی ۔۔۔۔ پہلے دور کا انسان کچھ یوں تھا اب یوں ہو گیا ہے۔
دراصل یہاں
کچھ بھی نیا نہیں ہے ۔ انسان ایک کام کے دوران وقفہ چاہتا ہے۔۔۔ جیسے ہم نے ابھی کھانا
کھایا۔ اب مزید نہیں کھا سکتے۔۔ کچھ دیر بعد دوبارہ کھائیں گے۔ وہی صدیوں پرانی گندم۔۔وہی
ایک بات۔۔انسان بھی وہی پرانا ہے۔ انسان سے انسان پیدا ہو رہا ہے۔۔۔بکری سے بکری۔۔کہیں
کبھی بکری سے انسان۔۔۔کہیں کبوتر سے مرغی پیدا ہوتی تو ہم کہہ سکتے ہیں تھے کہ یہ ایک
نئی بات ہے۔ فرعون پہلے بھی ہوا کرتے تھے اب بھی ہوتے ہیں ۔۔۔صرف ان کے نام آج کل کے
ناموں جیسے ہوتے ہیں۔
ناشتے پہ توس
اس وقت دسترخوان پہ آئے جب سب ناشتہ کر چکے تھے۔ فرمایا۔ یہ باورچی خانے میں چار چار
عورتوں کے عمل دخل کا نتیجہ ہے۔
فرمایا۔ حضور
قلندر بابا اولیا ء ؒ کی بیوہ اب کہیں جا کر
یہ بات تسلیم کرنے لگی ہیں کہ میں حضور کاروحانی فرزند ہوں۔ اس بار ملنے گیا تو شکوہ
فرما رہی تھیں کہ تم آتے نہیں ۔۔ میں نے کہہ دیا کہ آپ نے بھی تو کبھی بیٹا نہیں سمجھا۔
کبھی آئیں ہمارے یہاں۔۔۔ کبھی بچوں کا پوچھا ۔۔آپ نے بھی تو کبھی بزرگ بن کر نہ دکھایا۔
اس پر انہوں نے مجھے گستاخ اور بے تمیز کہا۔۔۔ میں چپ ہو رہا کہ ٹھیک ہے ۔ بھئی سیدھی
بات سنتا کون ہے۔
مرید نے نمازیوں
کے ماتھے پہ بننے والی محراب کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا ۔ یہ سر کی ساخت کی
وجہ سے بنتی ہے۔ جب سجدے میں پیشانی کی ہڈی کا زور کھال پہ پڑتا ہے اور روشنیاں زیادہ
رفتار سے ارتھ ہوتی ہیں تو اس جگہ کی کھال جھلس سی جاتی ہے۔ کئی لوگوں کے سر کی ساخت
ایسی ہوتی ہے کہ ساری عمر کوئی نماز بھی قضا نہ کریں تو بھی یہ محراب نہیں بنتی۔
فرمایا حیرت
کی بات ہے سب کے اندر ایک ہی روح ہے۔ کہیں یہ روح پیغمبر بن جاتی ہے کہیں یہ مرشد اور
کہیں مرید۔
مرید نے عرض
کی جب سب کے اندر ایک ہی روح ہے۔۔۔ سب ایک ہی مسالے کے بنے ہوئے ہیں تو پھر یہ افراتفری،
اختلاف، افتراق اور فساد کیسا اور کیوں؟
فرمایا ۔ یہ
اسی بات سے لاعلمی کے سبب ہے۔ پھر کہا ۔ آج آپ نے پندرہ سال بعد یہ سوال کیا آج سے
پہلے کیوں نہیں۔۔ یعنی اب آپ کا ذہن اس طرف آرہا ہے۔
طاہر رشید نے
دریافت کیا۔ کیا یہی آواگون ہے؟اس پر آپ نے آواگون کے نظریے کی وضاحت فرماتے ہوئے کہا۔
اسی بات کو یعنی سب میں ایک ہی روح ہونے کی بات کو انہوں نے کچھ اور ہی طرح سے سمجھا
کہ ایک ہی روح ہے جو بار بار عود کرتی ہے اور مختلف رویوں میں سامنے آتی ہے۔ حا لانکہ
ایک ہی روح کا سب کا مظاہر میں کار فرما ہونا اور ایک ہی روح کا بار بار روپ بدلنا
دو مختلف باتیں ہیں۔ روح تو ایک کرنٹ کی مانند ہے جو سب مظاہر میں زندگی کا باعث ہے
تو وہ بار بار روپ کیوں بدلے گی۔
پھر ایک لطیفہ
سنایا۔ لالہ جی کے فوت ہونے کے بعد ایک کتے نے لالہ جی کے گھر آنا شروع کر دیا۔ لا
لائن اُس کو روٹی وغیرہ ڈال دیا کرتیں۔ بچوں نے کتے کو دیکھا تو دھتکارنا چاہا۔ اب
اُن کے عقیدے کے مطابق اگر انسان اچھے کام کرتا ہے تو اُس کی روح اگلے جنم میں موریا
بندر یعنی ہنومان بن جاتی ہے اور اگر بُرے کام کرتا ہے تو کتا، بلی یا سانپ وغیرہ بن
جاتی ہے ۔جب بچوں نے کتے کو بھگانے کی کوشش کی اور اس کو مارنا چاہا تو لالائن بولی۔
بیٹے اسے کیوں مارتے ہو۔۔۔ تمہارے پتا کے کرم ہی کچھ ایسے تھے۔
ایک لطیفہ یہ
سنایا کہ ایک مولوی صاحب کہیں ختم پہ گئے اور اتنا کھا لیا کہ نڈھال ہو گئے۔ کسی نے
چورن پیش کیا تو کہا۔ اگر چورن کی گنجائش رہتی تو ایک رس گلہ اور نہ کھا لیتا۔
بیگم اسلم کچھ
سیب لا کر سامنے رکھے کہ فلاں صاحب لائے تھے کہ ابا کے لئے ہیں۔
فرمایا ۔ لوگ
آتے ہیں تو کوئی سیب اُٹھا ئے چلا آرہا ہے کوئی سردا لئے آرہا کہ ابا کو کھلانا ہے۔
مرید نے عرض
کیا۔ پیار میں وہ یہی تو کر سکتے ہیں۔
فرمایا۔ جی
ہاں کھلا دیا یا پہنا دیا۔۔انسان اور کر بھی کیا سکتا ہے۔۔۔اُس کے پاس ہے ہی کیا؟
سیب بہت بڑے
بڑے تھے ۔مرید نے اُن کے سائز پہ تبصرہ کیا تو فرمایا۔۔ یہ اتنے خوبصورت نہیں۔ کھاد
کی پیداوار ہیں نا۔
مرید نے کہا۔
یہ کھاد کا استعمال بھی تو لالچ ہی ہوا نا۔
فرمایا۔ اور
کیا۔۔۔۔زمین سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا لالچ ہی تو ہے۔ کھادوں کے استعمال سے زمین
خراب ہو جاتی ہے اور جب تک اُس کو کھاد نہ ملے فصل نہیں دیتی۔
پھر یہ کہتے
ہوئے محفل سے اُٹھ گئے کہ آخر انسان کتنا بولے۔۔ بھئی کوئی لوہے کا بنا ہوا تو ہے نہیں۔۔اور
پھر لوگ یاد بھی کب رکھتے ہیں۔
شام کو طاہر
رشید اور مجید صاحب ابا کو سیر پہ لے جانے آئے تو آپ نے مرید کو بھی ساتھ آنے کی اجازت
دیتے ہوئے کہا۔ آئیں آپ کو لاہور دکھائیں۔ مرید نے دیکھا کہ حضور نے سرمہ لگایا ہوا
ہے۔ مرید نے چاہا کہہ دے سرمہ آپ پہ بہت جچ رہا ہے۔ ابھی وہ کچھ کہہ نہ پایا تھا کہ
آپ نے کہا۔آج کچھ کام کر رہا تھا کہ ایک صاحب آئے ۔۔ بوڑھے سے تھے۔ کہنے لگے میں آپ
سے عمر میں چھوٹا ہوں لیکن عینک کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتا۔۔ آپ کیسے کر لیتے ہیں؟
مجھے لگا کہیں نظر ہی نہ لگ جائے۔۔ میں نے جا کر فوراً سرمہ ڈال لیا۔
فرمایا۔ نہ
جانے میں انہیں بڑا کیوں لگا۔۔۔ شاید اس لئے کہ میرے دانت نہیں ہیں۔
طاہر صاحب ڈرائیونگ
سیٹ پر تھے۔ مجید صاحب اور مرید پچھلی سیٹ پر۔ گاڑی روانہ ہوئی تو فرمایا ۔ میں نے
سفر بہت کئے۔ سلسلے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔
ایک بار ہم
کہیں گئے تو وہاں لوگوں نے پوچھا کہ قرآن میں مراقبے کا تذکرہ کہاں ہے؟ تو میں نے کہا۔
یوں تو فیرج اور ٹی وی کا تذکرہ بھی نہیں ہے۔ آپ اُن کو استعمال کرتے ہیں تو قرآن میں
اُن کا تذکرہ کیوں تلاش نہیں کرتے۔
فورٹرس سٹیڈیم
میں نت نئی گاڑیاں دیکھ کر تبصرہ فرمایا۔ یہ مقروض ملک کے غریب عوام کی شان ہے۔۔۔ باہر
سے جو لوگ آتے ہیں اور اس ملک کو قرض دیتے ہیں۔۔ انہیں یہ سب نظر نہیں آتا ہوگا۔
حکمرانوں کی
بابت فرمایا۔ یہ ایک ایسا طبقہ ہے جسے سزا ہوتی ہے اُس کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے ۔۔وہ
قید میں پڑا لوگوں سے ڈرتا رہتا ہے۔
مرتضےٰ بھٹو
کے قتل پہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔۔ یہ سب بہت برے دماغوں کا کھیل ہے۔
مجید صاحب نے
کہا۔ آپ کے قریب رہتے ہوئے منفی خیالات نہیں آتے۔
فرمایا۔ اسی
لئے تو مرشد کا قرب ضروری ہوتا ہے۔
پھر کہا ۔ مجھے
خیال نہیں آتے۔۔۔میں یکسو رہتا ہوں۔۔ جب آپ کسی ایسے بندے کے قریب جاتے ہیں تو آپ اُس
کی ٹرانس میں آجاتے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ وہ جان بوجھ کر آپ کو اپنی ٹرانس میں لیتا ہے
بلکہ آپ خود بخود اُس کی ٹرانس میں آجاتے ہیں اور منفی خیالات کی رو ختم ہو جاتی ہے۔
ریس کورس گراؤنڈ
میں سیر کرتے ہوئے فرمایا۔ دنیا میں ہر چیز کا نام رکھا جاتا ہے۔ ہر چیز خواہ وہ پہلے
سے موجود ہو یا انسان نے اُسے بنایا ہو۔۔ اُس کا ایک نام ہوتا ہے۔ اب درختوں کو ہی
لیجیئے۔ کتنی قسموں کے درخت ہیں ہر قسم کے درختوں کا ایک نام ہے۔
پھر پودوں سے لیکر گھاس پھونس ۔۔۔ہر پودے کا ایک نام ہے۔آپ ایک
سائیکل بناتے ہیں۔۔۔اس سائیکل کے ہر ہر پرزے کا ایک نام ہے۔ آپ دیکھیں یہ کیسی عجیب
صلاحیت ہے۔ انسان ہر چیز کو نام سے جانتا ہے۔ صلاحیت اُس کے علم الاسما ہی کے ضمن میں
عطا ہوئی ہے۔
طاہر رشید صاحب
نے سوال کیا۔ کیا ایک جگہ کے جانوروں کی زبان دوسرے مقام کے جانوروں کی زبان میں کوئی
فرق ہوتا ہے ؟
فرمایا ۔ یہ
تو وہی بتا سکتا ہے جس کو پرندوں کی زبان آتی ہو۔ پھر قدرے توقف کے بعد کہا۔ البتہ
یہ بات میرے مشاہدے میں ہے کہ اگر ایک جگہ کا طوطا ٹیں کر کے بولتا ہے تو دوسری جگہ
طوطا ٹین کرتا ہے اور تیسری جگہ تو بالکل ہی کین کے قریب کی آواز نکالتا ہے۔ جس طرح
مختلف علاقوں کے لوگوں کی زبان ہر دو سو میل کے بعد بدل جاتی ہے اسی طرح پرندوں کی
بولیوں میں بھی فرق آجاتا ہے۔
ایک جگہ کے
درخت کسی دوسری جگہ کے اسی قسم کے درختوں سے مختلف ہوتے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے ایک
مقام کے لوگ کسی دوسرے مقام سے مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں کے لوگ میدانی علاقوں
سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ سب اختلاف ماحول ، فضا اور زمین کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس کے بعد گفتگو
کا رخ نقاشی، خطاطی، کندہ کرنے، پچی کاری، مرصع کرنے ، شیشہ گری کی تشریح اور فرق واضح
کرتے کرتے خواجہ سراؤں کی طرف مُڑ گیا۔ تو فرمایا۔ اُن میں بہت بڑے بڑے اللہ والے ہوئے
ہیں۔ ہر علاقے اور خطے کے ہجڑوں کا ایک سربراہ ہوتا ہے ۔ اس کا نام اپنی اپنی زبان
کے اعتبار سے پھوپھی عبدالکریم ہوتا ہے۔ وہ ہر کام اُس کے مشورے سے کرتے ہیں۔
پھر واجد علی
شاہ حاکم لکھنو کی بابت فرمایا کہ وہ بھی تیسری جنس سے تھا۔ اُس کو شوق تھا کہ اُس
کا بچہ ہو۔ محل کے خواجہ سرا اُس کی خواہش کو پورا کرنے کو اُس کو باور کراتے کہ وہ
اُمید سے ہے۔۔پھر وقت آنے پر کوئی گڑیا وغیرہ دکھا کر کہتے آپ کا بچہ ہے۔ اس پر باقاعدہ
جشن ہوتا کہ بادشاہ سلامت کے یہاں بچہ ہوا ہے۔
انہوں نے فوج
بھی انہی ہجڑوں کی بنائی ہوئی تھی۔ جب انگریزوں نے حملہ کیا اور اس فوج پہ گولی چلائی
تو انہوں نے کہا۔ گورے سپاہیو۔۔دیکھ کر بھائی۔۔ذرا آنکھ منہ بچا کر ماریو۔۔۔ آج کل
یہ لوگ بہت کم نظر آتے ہیں۔۔لوگ انہیں گھروں میں گھسنے بھی تو نہیں دیتے۔ گاؤں دیہات
وغیرہ میں شاید اب بھی ہوں۔۔شہروں میں تو بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔
سیر سے واپسی
پر رئیس امروہوی کا تذکرہ ہوا تو فرمایا کہ انہوں نے اپنے کالموں سے لوگوں کو مابعد
الطبعیات کی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا مطالعہ کے زور پر لکھا۔ وہ خود
بھی کہا کرتے تھے کہ میں ذاتی تجربہ نہیں رکھتا یہ سب میرا مطالعہ ہے۔ وہ فقیروں کو
بابا اور بابے کہا کرتے تھے۔ انہوں نے روحانی صائجسٹ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا
تھا کہ یہ ایک ایسا رسالہ ہے جس کی اردو ٹھیک ہے۔ انہوں نے اتنے بڑے اخبار کا کالم
نویس ہونے کے باوجود کبھی کسی کے خلاف نہیں لکھا۔ یہ بہت بری بات ہے۔
فرمایا۔ میں
کسی موضوع پہ کتاب پڑھ کر نہیں لکھ سکتا۔ اس سے میرا ذہن بند ہو جاتا ہے۔ کسی کو کہہ
دیتا ہوں کہ اس کتاب کو پڑھ کر مجھے بتا دو کہ اس میں کیا کہا گیا ہے۔
اردو کیا کسی
بھی زبان میں مہارت پیدا نہیں ہو سکتی۔ خواہ وہ مادری زبان ہی کیوں نہ ہو۔ ایکانگریز
نے بہت زور لگایا اور ایک بار سر سید سے کہا۔ میں نے آپ کی زبان پہ مکمل عبور حاصل
کر لیا ہے۔ اس پر سر سید نے انہیں کہا۔ چل بے ڈیوٹ کے۔۔انہوں نے بہت زور دیا لیکن کچھ
نہ سمجھے۔ ڈیوٹ چراغ کی لو کو اونچا کرنے والی دندا نے دار لکڑی کو کہتے ہیں۔
فرمایا۔ میرے
بھائی اکبر صاحب امریکہ سے مجھے ملنے لندن آئے ۔ وہاں لوگوں کا پیار اور عقیدت دیکھ
کر رو پڑے اور کہا۔ بھائی تم اچھے رہے۔
فرمایا کسی
جگہ کوئی پروگرام ہو تو تقریر سے پہلے اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ میرے دل میں کوئی
ایسی بات ڈال دے جس کے سننے سے لوگوں کا بھلا ہو جائے۔
پھر انگلینڈ میں اپنے ایک پروگرام کے بارے میں بتایا
کہ وہاں ایک پروگرام میں ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ دیو بندی اور بریلوی حضرات کافی
تعداد میں آئے تھے۔ میں نے کہا۔۔۔آپ دونوں ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے
سر فراز ہیں تو پھر آپ اپنا نام مدنی اور مکی کیوں نہیں رکھ لیتے۔ یہ سننا تھا کہ پورا
ہال ایک دم ہی خالی ہونا شروع ہو گیا۔ ایک ایک کر کے سب ہی کھسک گئے۔
اگلی صبح مراقبے
کے بعد مراقبہ کرنے میں سستی ہونے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس سے کیسے نجات پائی
جائے کہ اُس کا مراد گویا ہوا۔ صبح بستر سے اتر کر کسی مصلے پہ بیٹھ کر مراقبہ کرنے
سے سستی غالب نہیں اتی۔ یعنی مراقبے کے لئے بستر سے باہر آکر ہی سستی سے نجات پائی
جا سکتی ہے۔ بستر میں ہی بیٹھ کر مراقبہ کرنے سے سستی غالب ہی رہتی ہے۔
یہ بھی فرمایا
کہ لوگ فقیر کو بے وقوف بناتے ہیں ۔۔وہ بے وقوف بنتا رہتا ہے ۔۔۔اس میں اس کا بھی بھلا
ہوتا رہتا ہے اور لوگ بھی خوش رہتے ہیں۔ بھئی کوئی آتا ہے تو کچھ لے کر آتا ہے ۔۔۔کوئی
آتا ہے تو کچھ لے کر جاتا ہے۔
مرید نے بکری
اور دیگر چوپایوں کے بچپن کی نسبت انسان کے بچپن کی طولت کے زیادہ ہونے کے سبب کا پوچھا
تو فرمایا ۔ کون کہتا ہے کہ انسان کا بچپن جانوروں کے بچپن کی نسبت زیادہ طویل ہوتا
ہے ۔ یہ اصل میں عمر کی نسبت سے ہوتا ہے انسان کی عمر بھی تو ان جانوروں سے لمبی ہوتی
ہے جن جانوروں کی عمریں زیادہ نہیں ہوتیں اُن کا بچپن بھی مختصر ہی ہوتا ہے۔ مرغی،
گھوڑے اور بکری کی مثال دے کر بات کی وضاحت فرما کر کہا کہ بچپن کل عمر کی نسبت سے
ہوتا ہے۔
ایک خاتون نے اپنے بچے کی شکایت کی تو فرمایا۔
بچوں کو مارنا
نہیں چاہئے۔ اس سے بچہ دھیٹ ہو جاتا ہے۔ اُس کو مار کھانے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ مار
کھانے کی عادت جسم دبوانے جیسی ہی ہوتی ہے۔ آپ جسم یوں دبائیں یا زور سے چوٹ لگائیں۔۔ایک
ہی بات ہوئی۔۔۔بچہ اس عادت کو پورا کرنے کے لیے ایسی حرکتیں کرتا کہ اُسے مار پڑے۔
مرید نے اس
عجب قانون کی بابت غور کرتے ہوئے سوچا کہ قدیم مصریوں نے بنی اسرائیل کو مار کھانے
کا اتنا عادی بنا دیا تھا کہ انہیں غلامی سے تو نجات مل گئی لیکن مار کھانے کی عادت
کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیک سلائیڈ یعنی پیچھے کو پھسلنے کی حرکت سے نجات کا سفر آج
بھی جاری ہے۔
فرمایا ۔ ایک
پروگرام کے بعد مجھ سے پوچھا گیا کہ نابینا آدمی مراقبے میں نیلی پیلی روشنیوں کا تصور
کیوں کر کرے۔میں نے کہا آپ خود تو کر کے دیکھیں۔۔۔ جب کوئی نابینا پوچھے گا تو اُس
کو بھی بتا دیں گے۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اب اُس وقت ہال میں
کتنے نابینا لوگ تھے۔۔ایک بھی نہیں اور سوال ایسے پوچھ رہے تھے جیسے خدا نخواستہ نابیناؤں
ہی سے تو خطاب کر رہا تھا۔
'انی جاعل فی
الارض خلیفہ' کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ دراصل زمین ایک بیلٹ پر گردش کر رہی ہے اور
فی الارض کا مطلب ہے۔۔زمین میں۔۔نہ کہ زمین پر۔۔۔انسان کو زمین میں خلیفہ بنایا گیا
ہے نہ کہ زمین پر۔۔آپ اسے زمین پر خلیفہ سمجھیں گے تو بات نہیں بنے گی۔
مرید نے بگ
بینگ Big Bang اور
بگ کرنچ Big Crunch کے نظریات کے حوالے سے سوال پوچھا کہ یہ تھیوریاں حقیقت
کے کس قدر قریب ہے؟
فرمایا۔ آپ
اس بات کو چھوڑیں اور یہ دیکھیں کہ آپ نے کیا کہا ہے اور کیا کیا ہے؟ آپ نے اب تک کوئی
نظریہ کوئی تھیوری پیش کی ہو تو بتائیں۔ اُس کی بابت بات کریں۔۔۔ آپ تو کچھ بھی نہیں۔۔اُن
لوگوں نے کچھ نہ کچھ سوچا تو سہی۔۔چلیں مادی فوائد کے لالچ میں سہی ۔۔بھئی سوچا تو
۔۔آپ نے کیا کیا؟
پھر بتایا کہ
امریکہ میں ایک شخص نے زمین سے بجلی پیدا کی۔ سب نے استعجاب کا اظہار کیا تو فرمایا۔
ہر چیز میں بجلی ہوتی ہے۔ ہر شے میں ایک بہاؤ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح پانی میں
ہوتا ہے۔ آپ پانی کے ذرات کی حرکت اور بہاؤ کو بجلی کے بہاؤ میں بدل لیتے ہیں۔ ۔۔اُس
شخص نے زمین کے ذرات کے اندر دور کرنے والے بہاؤ کو استعمال کرتے ہوئے بجلی پیدا کی
لیکج۔۔اس سے پیشتر کہ بات سامنے آتی اُسے مروا دیا۔۔شاید اس لئے کہ اس سے لوگوں کو
گھر بیٹھے مفت بجلی ملنے لگتی۔۔بھئی مادی طرزوں میں کوئی کسی کا بھلا دیکھ ہی کہاں
سکتا ہے۔
یہ باتیں ہو
رہی تھیں تو کراچی سے عرفان بھائی کا فون آگیا۔ فون پہ عرفان بھائی کی بات سُن کر فرمایا۔
میں کراچی آکر تمہیں بہت پیار کروں گا۔
فون بند کیا
تو بتایا کہ بینک کی ملازمت کے دوران عرفان بھائی کو بینک نے نو لاکھ کا مقروض بنا
لیا تھا۔ اُس کا سود رعائتی نرخوں پہ چھتیس لاکھ بنتا ہے۔ میں نے اُن سے کہا۔ تم ایک
طرف اللہ سے دوستی کرنا چاہتے ہو اور دوسری جانب اللہ سے دشمنی مول رہے ہو۔ تمہیں فیصلہ
کرنا ہوگا کہ تمہیں اللہ سے دوستی کرنا ہے یا دشمنی۔
فرمایا اب انہوں
نے بینک کے قرض کی واپسی شروع کر دی ہے اُسی کی بابت انتظام کے حوالے سے اطلاع دے رہے
تھے۔ پھر عرفان بھائی کی تعریف کی کہ انہوں نے سود سے پیچھا چھڑانے کی ٹھان لی ہے۔
پھر منصور بھائی
کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ کتابوں کی تدوین میں میرا
بہت ہاتھ بٹایا اور آج کل تو کالم بھی انہی کے ذمے ہے۔ میں بولتا ہوں وہ لکھ دیتے ہیں۔
مراقبہ ہال
کی طرف سے بچوں کا ایک پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ بچوں میں جا کر وہ بالکل بچے لگ
رہے تھے۔ مسکراہٹ کی لو روشن تر کئے اپنے بچپن کا ایک قصہ سنایا۔۔ جن مولوی صاحب وہ
قرآن پڑھنے جایا کرتے تھے۔ بچوں کو مارتے بہت تھے۔ فرمایا۔ ایک روز میں نے سوئیوں کا
ایک پتہ خریدا اور لا کر سوئیاں اُ ن کی گدی میں لگا دیں جس پر بیٹھ کر وہ پڑھاتے تھے۔
جب وہ آکر اس گدی پہ بیٹھے تو اُن کی چیخ نکل گئی۔ سب کلاس سہم گئی لیکن میری ہنسی
نکل گئی۔ انہوں نے میرا سر اپنے گھٹنوں میں پکڑ کر اپنی کہنیوں سے میری کمر پہ بہت
مارا۔
اگلے روز سے
میں سکول سے اور پھر گھر سے ہی بھاگ گیا اور ایسا بھاگا کہ آج تک واپس نہیں گیا۔
بچوں سے کہا
گیا کہ حضور سے جو سوال پوچھنا ہو تو پوچھیں۔ ایک بچے نے کہا ۔ آپ ہمیں بہت اچھے لگتے
ہیں اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گئ۔۔۔تو فرمایا۔ جب میں لوگوں کو صبح سات بجے سے
رات بارہ بجے تک اچھا لگتا ہوں تو یہ مجھے بہت بُرا لگتا ہے۔
ایک بچے نے
سلسے میں داخلے کی عمر کا پوچھا تو فرمایا ۔ بھئی سلسلے میں داخلے کا عمر سے کیا تعلق۔۔۔
یہ تو اسباق کے لئے ہوتی ہے۔۔آپ سب بچے ماشاء اللہ پیدائشی عظیمی ہیں۔
پروگرام کے
بعد مرید نے کتاب نظریہ رنگ و نور کے انگریزی ترجمے کا پیش لفظ لکھنے کی بابت را نمائی
کی درخواست کی تو دریافت کیا۔۔آپ کیا لکھنا چاہتے ہیں۔۔مرید نے اجمالی سا خاکہ بیان
کیا کہ اب تک پیش کردہ سائنسی نظریات کا تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے اُن کی خامیوں اور
کمزوریوں کو اجاگر کیا جائے تو کیسا رہے گا؟۔
فرمایا ۔ کوئی
ضرورت نہیں۔ آپ اپنی کتاب میں اُن سائنسدانوں کو لا کر یہ کریں گے کہ کوئی آپ کی بات
سنن۔۔آپ کا نقطہ نظر جاننے کے لئے کتاب خریدے اور آپ اُسے آگے کسی اور کے حوالے کر
دیں۔۔۔ پھر فرمایا۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا حکم ہے کہ آپ کسی سلسلے کو بُرا
نہ کہیں۔۔لہذا آپ بھی کسی نظریے کو رد کرنے کے چکر میں نہ پڑیں۔
مرید کے وہم
و گمان میں بھی نہ تھا کہ جس طرح سے وہ سوچ رہا تھا وہ اس قدر غلط تھا کہ سلسلے کے
ایک حکم سے براہ راست ٹکرا بھی رہا تھا اور اُس کی سوچ کی منفیت کا بھی آئینہ دار تھا۔
انہوں نے اُس کی سوچ میں کجی کو کس مہارت اور ہنر مندی ست سیدھا فرما دیا تھا۔۔ وہ
اُس پہ عش عش کر اُٹھا اور اللہ کا شکر کیا کہ اُس نے اپنے مراد سے اس کی بابت بات
کی۔
اُس روز شام
کو سیر کرنے گئے تو نیاز صاحب اور میاں مشتاق احمد صاحب بھی ہمراہ تھے۔آج گفتگو کا
رنگ علمی سے زیادہ تربیتی رنگ لئے ہوئے تھا۔ اُن سب کے اندر کہیں بہت کچھ درست ہونے
کا تھا۔ پشاورکے پیر صاحب کا تذکرہ ہوا۔ اُن کی بابت یہ مشہور تھا کہ اگر اُن کا کوئی
مرید انہیں ایک لاکھ روپے کا نوٹوں کا ہار پہنائے تو اُس کے سارے کام ہو جاتے ہیں۔نیاز
صاحب نے یہ بت کہی تو فرمایا۔
بعض مرید پیرو
مرشد کو نذر دے کر حصول دنیا کی آرزو کرتے
ہیں۔۔۔درحقیقت اس میں مرید کا اپنا یقین کام کرتا ہے۔ پھر یک دم بات بدل کر فرمایا۔ اگر کوئی شخص جو مجھ سے مل کر جاتا ہے۔۔اب
اگر وہ کسی مراقبہ ہال کے انچارج سے جا کر ملتا ہے۔۔۔تو وہ کیا تاثر لے گا۔ اُن کی
شخصیت میں میرا کتنا پرتو ہے۔۔۔ وہ لوگوں کو اپنی باتوں سے اپنے افکار اور خیالات سے
کیسا تاثر دیتے ہیں؟
ایک بار لندن
میں ایک صاحب نے ٹی وی کے لئے میرا پروگرام کرنے کی خواہش کی۔ میں نے اُن سے کہا۔ سعیدہ
کو لے جائیں۔ وہ صاحب چپ کر گئے اور پھر اُٹھ کر چلے گئے۔ ٹھیک ہے سعیدہ نے بہت کچھ
دیکھا ہے۔۔۔وہ یہاں آگئیں۔۔۔وہ وہاں گئیں لیکن بات کو سائنسی انداز میں واضح کرنا اور
اُس کو لوگوں کی فہم کے مطابق بیان کرنا اور ہی بات ہے۔
پھر آداب محفل پہ بات کرتے ہوئے فرمایا۔ آدابِ محفل کا بہت
زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ کوئی صاحب آئے اور آپ نے جماہی لی تو وہ بھاگ جائے گا کہ جس
بندے میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اپنی جمائی روک سکے اُس کی بات کیا سننا۔
فرمایا ایک
بار زرداری صاحب نے سعودی رائل فیملی کے افراد کے ساتھ ملاقات کے دوران اپنی ٹانگ پہ
ٹانگ رکھ دی۔ انہوں نے بہت مائنڈ کیا کہ اس شخص کو بالکل تمیز ہی نہیں۔ یہاں تک کہ
آئندہ کے لئے بلیک لسٹ کر دیا۔
اسی طرح ایک
بار آپ کی امی حضور ایک بار انگلینڈ میں ایک پروگرام کے دوران آ کر سب سے اگلی صف میں
بیٹھ گیئں۔۔ہوتا ہے۔۔ یہ شوق بھی ہوتا ہے۔۔اُن کے کپڑوں پہ ڈھنگ سے استری تک نہیں تھی۔
کچھ دیر تو انہوں نے سیدھے بیٹھ کر گزار لی پھر وہیں کرسی پہ بیٹھے بیٹھے سو گئیں۔
انگریزوں نے کہا۔ اگر آپ اتنی ہی Tired تھیں تو آپ کو بھلا محفل میں آنے اور سب سے آگے بیٹھنے
کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وہ شرمندہ سی ہوگئیں لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔
فرمایا ۔ آپ
کو لباس پہننے کا سلیقہ ہونا چاہئے۔ جس سے ملنے جا رہے ہیں اُس کو کم از کم آپ کا لباس
ناگوار تو نہیں گزرنا چاہئے۔ ٹھیک ہے آپ فقیر بنتے ہیں تو پھر اپنی جگہ پر بیٹھیں۔۔۔پھر
آپ جیسا بھی لباس پہنیں گے۔۔جس کو آنا ہوگا خود آئے گا لیکن اگر آپ ایک پیغام لے کر
اُس کو پھیلانے کے مشن پر ہیں تو پھر آپ کو لوگوں کے مطابق لباس پہننا ہی ہوگا۔
اب مزید نئے
مرید بنانے کی بجائے جو آگئے ہیں اُن کی تربیت کریں۔
فرمایا۔ نگران
مراقبہ ہال کے ذہن اور دل دونوں بڑے ہونے چاہیئں۔۔۔ اُن میں مسائل کو حل کرنے کے لئے
جراتمندانہ اقدام کرنے کا حوصلہ اور سلیقہ ہونا چاہئے۔
پھر اپنی مثال
دیتے ہوئے بتایا کہ ایک بار کراچی میں کسی نے عرس پہ شرارت کی اور اعلان کروا دیا کہ
عورتوں کا کھانا لگ گیا ہے۔ اب عورتوں کا غول کھانے کی طرف لپکا۔ ادھر لطیف بھائی پریشان
ہوگئے کہ یہ کیا ہو گیا۔ میں نے اعلان کروایا کہ عورتیں مسجد میں تشریف لے جائیں۔ ابا
حضور اُن سے خطاب کریں گے۔ سب خواتین نے بات مانی اور مسجد میں آگئیں۔ دراصل ہم نے
میٹنگ میں یہ طے کیا تھا کہ جب لطیف صاحب کہیں گے کہ کھانا تیار ہے اُس وقت خواتین
کو کھانے پہ بلانے کا اعلان کیا جائے گا۔ چناچہ یہ طے ہوا کہ جب تک لطیف صاحب خود آ
کر نہیں کہیں گے اُس وقت تک کھانے کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔
میں صورت حال
کا جائزہ لینے خود ادھر چلا گیا۔ دیکھا تو حلیم کی صرف سولہ دیگیں آئی تھیں۔ میں نے
اندازہ لگایا کہ یہ تو کم پڑ جائیں گی۔ میں نے ایک دو دیگیں چیک کیں تو دیکھا کہ خوب
گاڑھی حلیم تھی۔ میں نے پانی گرم کروایا اور دو دیگوں سے تین دیگیں بنوا دیں۔ اس طرح
سولہ دیگوں سے چوبیس دیگیں بن گئیں۔۔لیکن ہجوم
خلقت۔۔۔ میں نے کہا کہ دو من آٹے کی روٹیاں لے کر آئیں۔۔۔لیکن جب دیکھا کہ ہجوم
زیادہ ہے تو میں نے ہال کے قریب جا کر کہا کہ کراچی کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔۔آپ
سب کراچی والے بعد میں کھایئے گا۔۔۔ یہ سنتے ہی ساڑھے تین سو افراد ہٹ کر ایک طرف کھڑے
ہو گئے اور جب سب مہمان کھا چکے تب انہوں نے کھایا۔
مرید کے ذہن
میں دیکھے ہوئے واقعہ کی پوری جزئیات تازہ ہوگئیں۔ اُس نے اُس بات کو کرامت ہی جانا
تھا۔ ۔۔آج اتنے عرصے بعد انہوں نے اپنی کرامت کی شرح کرتے ہوئے اُس کو قوانین فطرت سے مطابقت کی وجہ قرار دیا تھا لیکن اتنی ہڑبونگ
میں خواتین کافی الفور بات ماننا اور ساڑھے تین سو افراد کا محض اپنے مہمان نواز ہونے
کا چبوت دینے کو کھانا کھانے سے احتراز کرنا۔۔۔
کیا یہ کھانا پورا کرنے سے کم درجے کی کوئی کرامت تھی یا آج
اُس کے مراد نے اپنی اُس کرامت کو مزید گہرائی میں دیکھنے اور سمجھنے کو یہ بات سنائی
تھی۔ ویسے بظاہر تو اُس بات کو سنانے کی وجہ یہ تھی کہ انچارج مراقبہ ہال کو کس دل
گردے سے ہنگامی معاملات سے نبٹنا چاہئے۔
بات کو جاری
رکھتے ہوئے فرمایا۔ آپ حیلہ تو کریں۔۔اُس میں برکت ڈالنا اللہ کا کام ہے۔ پھر ایک اور
واقعہ سنایا۔ میں نے ایک بار لطیف صاحب سے کہا۔ مہمانوں کو کھانے کے بعد حلوہ کھلائیں
گے۔ فرمایا اُن کا ذہن ابھی تک اتنا بڑا نہیں ہوا۔ میں نے کامران اور لطیف صاحب پر
بہت محنت کی ہے۔ بہرحال وہ کہنے لگے پانچ کلو سوجی کا حلوہ کافی رہے گا۔ میں نے باورچی
بابا سے بات کی کہ ایک کلو سوجی میں کتنی چینی اور کتنا پانی ڈالیں گے۔۔اُس سے کتنا
حلوہ تیار ہوگا اور اُسے کتنے افراد کھائیں گے۔ پھر میں نے لطیف صاحب کو بلایا اور
انہیں کہا کہ دو من سوجی اور دو من چینی کا حلوہ تیار کروائیں۔
اگلے روز صبح
ناشتے کے بعد شربت آب شفا کی تیاری شروع فرمائی۔ جب شربت ابلنا شروع ہوا تو مرید سے
کہا کہ اب یہ پکتا رہے گا اور آپ اس کے اوپر سے میل اکٹھا کر کے اتارتے جائیں۔ مرید
نے کرچھا تھاما اور شربت پہ آنے والا میل اتارنے لگا۔ میل اتارتے اتارتے اُس نے اپنے
مراد کو اپنی طرف تکتے محسوس کیا۔ تو بات کہنے کو پوچھا یہ میل اتارنا بھی تو 'صفائی'
کا عمل ہی ہے۔
فرمایا۔ جی
ہاں۔۔ دیکھ لیں بظاہر چینی میں کوئی میل نہیں ہوتا۔۔ لیکن جب اُسے پکاتے ہیں تو صاف
شفاف رنگ چینی میں سے بھی میل نکلتا ہے تب جا کر شربت بنتا ہے۔
پھر بتایا کہ
ایک تار اور دو تار کے شربت اور چاشنی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ پھر چمچ سے ایک دو قطرے
زمین پر گرا کر دکھائے کہ اگر یہ موتی جیسے دکھیں تو سمجھیں شربت تیار ہو گیا۔ اب اسے
اتار لیں اور اُس میں خوشبو شامل کر لیں۔
پھر بتایا کہ
پھل اور سبزیاں ابالنے سے بھی اُن کا عرق پانی میں آجات ہے۔۔۔ میں چاہتا تو ہوں کہ
یہ عرق عمل کشید کے ذریعے نکالوں لیکن اب یہاں 'کردار بختی' یعنی عمل کشید والا برتن
نہیں ہے تو یوں ہی سہی۔
مرید نے عرض
کی کہ اُس نے سوچا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نوکریاں کروانے کی بجائے اپنے کاروبار میں
اپنے ساتھ لگا لے۔۔اس طرح اُن میں اتفاق اور اتحاد بڑھے گا اور پھر اُن کی بیویاں بھی
انہیں ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکیں گی۔
فرمایا۔ نہیں
ایک کاروبار بھی اولاد کو ایک نہیں رکھ سکتا۔ بچوں کو اپنی زندگی میں ہی الگ الگ بنیادوں
پر استوار کر دینا
چاہئے۔
پھر اپنے بچوں
کی بابت بتایا کہ کس طرح انہوں نے ہر بچے کے لئے الگ کاروبار اور الگ پلاٹ کا بندوبست
کیا۔ اب میرے پانچ بیٹے ہیں اور پانچ ہی کاروبار ہیں۔ مکتبہ روحانی ڈائجسٹ اور پرنٹرز،
مکتبہ تاج الدین ، عظیمیہ دوا خانہ، الکتاب پبلشرز۔۔ہر ادارہ ایک ایک بچے کو دیا جا
چکا ہے۔ وقار بھائی جان ، فرخ اعظم اور سلام عارف کو میں نے پلاٹ لے کر دیئے اب انہوں
نے مل کر نورِ عجم کو لے دیا ہے۔ اب شاہ عالم رہتے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو اُن کا بھی
بندوبست ہو جائے گا۔
شاہین نے کہا۔
آپ نے ہمیں بھی تو پلاٹ دلوایا ہے۔ خوش ہو کر فرمایا۔ ماشاء اللہ اس وقت تک وہاں انیس
عظیمیوں کے پاس پلاٹس ہیں۔ عرفان اور حامد نے تو اپنے اپنے پلاٹوں پہ گھر بھی بنا لیئے
ہیں۔ اب تو لوگ استقبالیہ پہ آکر کہتے ہیں کہ ہمیں پلاٹ چاہئے۔ یہاں کوئی پلاٹ مل جائے
گا۔
پھر فرمایا
کہ لوگ معاش اور روزگار کے چکر میں صبح سے شام تک لگے رہتے ہیں اور میں صرف چار گھنٹے
کاروبار کو دیتا ہوں اللہ اُسی میں میری پوری کر دیتے ہیں۔ کسی نے سوال پوچھا کہ کیا
ایمر جنسی کے لئے بھی کچھ نہیں رکھنا چاہئے تو فرمایا۔ دس بیس ہزار روپے رکھنا کافی
ہوتا اس سے زیادہ کیا کرنے ہیں۔
پھر ایک صاحب
کا تذکرہ فرمایا ۔ جو کسی بنک کے سربراہ تھے۔ بتایا کہ وہ انیس ہزار سے زیادہ افراد
کے سربراہ تھے۔ اُن کی اصل خوبی یہ تھی کہ اُن کے اندر معافی کا خانہ بہت بڑا تھا۔
اتنے میں قاضی
مقصود صاحب بھی آگئے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے دریافت کیا۔ حضور فلاں کتاب میں ایک تعویذ
کو جلا دینے کا لکھا ہے اس سے کہیں لوگ ہمارے خلاف ہی نہ جائیں آج کل یوں بھی قرآن
کو جلانے کے خلاف مہم کچھ زیادہ ہی زوروں پر ہے۔
قاضی صاحب کی
تعویذ کو قرآن کے برابر قرار دینے کی حرکت سے صرف نظر کرتے ہوئے فرمایا۔ آپ کہہ دیا
کریں کہ تعویذ کو پانی میں بہا دیں یا اُسے زمین میں دفن کرنے کا کہہ دیا کریں۔۔ قاضی
صاحب جانے کیا سوچ کر آئے تھے انہوں نے مرشد کی بات سنی تو ضرور لیکن اپنی بات پہ اصرار
جاری رکھا۔ اس پہ حضور نے کسی بھی قسم کا تبصرہ نہیں کیا اور وہاں سے اُٹھ کر چل دیئے۔
شام کو سیر
کے لئے جاتے ہوئے عثمان صاحب کی بابت بتایا کہ ونہاں نے ایک عجیب بات کہی کہ جب بھی
کوئی پروگرام
ہوتا ہے تو اُس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ کتنے فیصد افراد میری
بات سُنیں گے۔ فرمایا۔ میں نے اُن سے کہا مجھے پینتیس سال ہوگئے یہ کام کرتے۔۔ مجھے
تو آج تک اس بات کا خیال ہی نہیں آیا ۔ میں تو بس اپنا کام کئے چلا جا رہا ہوں ۔۔پھر
کہا شاید وہ کاروباری آدمی ہیں۔۔۔ اس لئے نفع نقصان کا حساب کرتے رہتے ہیں۔۔ شاید ٹھیکیدار
ہیں جو سپلائی کا کام کرتے ہیں۔
مجید صاحب نے
گاڑی ایک چائنیز ریسٹورنٹ کے قریب روکتے ہوئے دریافت کیا۔ ابا حضور۔۔سوپ پینا پسند
کریں گے؟
فرمایا۔ سوپ
پی کر بتائیں گے کہ پسند آیا یا نہیں۔
کھانے کے بعد
نیاز صاحب اور میاں صاحب بل دینے میں سبقت لے جانا چاہ رہے تھے۔ نیاز صاحب نے میاں
صاحب سے کہا۔ آپ مجھے موقع دیں کہ میں بل ادا کردوں۔۔ اس پر فرمایا۔
آپ دونوں مجھے
اجازت دیں۔ ورنہ میری جیب میں پڑے پیسے احتجاج کرنا شروع کر دیں گے کہ ہمیں خرچ کرو۔
مجید صاحب نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ بل تو وہ ادا کر چکے ہیں۔
اگلے روز وہ
پشاور واپس جا رہے تھے۔۔جانے سے پہلے نیاز بھائی نے مرشدِ کریم سے پشاور آنے کا وعدہ
لیا تو فرمایا۔ میں سوات جانا چاہتا ہوں۔۔۔ سوات کی خاطر آنا پڑے گا۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔