Topics
جب مرشد کریم
کا دوبارہ پشاور آنا ہوا تو ایرپورٹ پر استقبال کرنے والوں میں شامل شاہین نے امی حضور
کی خیریت دریافت کرنے کے بعد بات کو طول دینے اور دیر تک مخاطب رہنے کو جب ایک ایک
بیٹے اور بہو بیٹیوں کا نام لے لے کر اُن کی خیر و عافیت کا پوچھا تو سب ٹھیک ہے کہتے
کہتے فرمایا۔ سب خوش ہیں۔ بھئی سب خوش ہیں تو اپنے حال میں ہیں۔ اسی لئے تو جو جس حال
میں ہے وہ اُس حال میں اس لئے ہیں کیونکہ وہ اُس حال میں خوش ہیں اگر وہ اُس حال میں
خوش نہ ہوں تو وہ اس کو چھوڑے نہ دے۔ہر انسان اپنی جگہ خوش ہی ہے۔ کوئی کسی کے بارے
میں کیا کہہ سکتا ہے۔ اپنے بارے میں کہے تو کوئی بات بھی ہے۔
اب کچھ لوگ
ہیں جو خوش ہوتے ہیں جب انہیں دولت ملے۔ کچھ لوگ دوسروں کو اذیت دے کر خوش ہوتے ہیں۔
کچھ کود مار کھا کر اذیت برداشت کر کے خوش ہوتے ہیں۔۔ یہ فطرت کے باعث ہوتا ہے۔ اب
بچھو کو ہی دیکھ لیں۔۔اُسے لکڑی پہ رکھ دیں ، لوہے پہ رکھ دیں۔۔وہ ہر جگہ ڈنک مارتا
ہے۔ اُسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ دنک ہاتھ پہ پڑ بھی رہا ہے یا نہیں۔ پھر فارسی
کا مصرعہ پڑھا۔۔ بتقاضائے طبیعت نیش عقرب تسکین خواہی۔
کار پارکنگ
کی طرف چلتے ہوئے فرمایا۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد ہے کہ انسان خوشی سے
واقف ہی نہیں۔ جب انسان خوشی سے واقف ہی نہیں تو وہ خوش کیسے ہو سکتا ہے؟ جب آپ گاڑی
میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو پیچھے رہ جانے والے مرید نے سوچا۔ یہ خوش ہونا اور خوشی
سے واقف بھی نہ ہونا۔۔۔یہ کیا بات ہوئی؟ کیا ہم لوگ خوشی سے واقف ہوئے بغیر ہی خوش
ہوتے ہیں؟ پیشتر اس کے وہ کسی نتیجے پر پہنچتا۔۔سب کے روانہ ہونے پر وہ بھی گاڑی میں
بیٹھ کر یہ سوچتے ہوئے چل پڑا کہ یہ بات وہ حضور سے دریافت کرے گا۔
شام کو جب وہ
مراقبہ ہال پہنچا تو حضور مراقبہ ہال کے کمرے میں ارادت مندوں میں گھرے بیٹھے تھے۔
سب اُن کے گرد نیم دائرہ بنائے بیٹھے اُن کی باتیں سُن رہے تھے۔جب وہ کمرے میں داخل
ہوا تو آپ فرما رہے تھے ۔ کیسی عجیب بات ہے ۔ مختلف علاقوں کے لوگ مختلف زبانیں بولتے
ہیں۔ ہر دو سو میل کے بعد زبان بدل جاتی ہے۔ ہر زبان میں ہر چیز کا نام ہوتا ہے ۔ کوئی
جڑی بوٹی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اُس کا کوئی نہ کوئی نام ضرور ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ
ہمیں معلوم نہ ہو مگر اُس علاقے کے لوگ اُس کو کسی نہ کسی نام سے ضرور پکارتے ہیں۔پہاڑوں
کے بھی نام ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر علاقے کا بھی ایک نام ہوتا ہے۔ اب یہ ایک عجیب بات
ہے کہ یہ نام کہاں سے آئے ۔ بعض لوگ علم الاسما کی تفسیر کرتے ہوئے انسان کی اس صلاحیت
کو زیرِ بحث لےآتے ہیں۔ یہ بھی ایک پہلو ہے اس علم کا۔ پھر آپ یہ دیکھیں کہ ہر دور
میں ہر عہد میں لوگ نئے نئے نام رکھتے ہیں۔۔۔ یہ سب کہاں سے آتے ہیں؟
آپ خاموش ہوئے
تو کسی نے دریافت کیا۔ عالمِ برزخ و اعراف میں کونسی زبان بولی جاتی ہے؟
فرمایا۔ وہاں
کوئی زبان نہیں بولی جاتی۔ خیالات براہ راست منتقل ہوتے ہیں۔ ہم جو بھی زبان بولتے
ہیں اُن میں آواز کی لہروں کو مخصوص معانی کی ادائیگی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اب
آپ نے پانی کہنا ہے۔۔آپ اسے آب کہہ لیں۔۔۔اُب کہہ لیں۔۔۔ واٹر کہہ دیں۔۔ما کہہ لیں۔۔مفہوم
ایک ہی ہے۔ پانی کا تصور کہیں واٹر کہلایا تو کہیں ما، کہیں آب او کہیں ابو۔ دراصل
ایک جھماکا سا ہوتا ہے۔ خیال آتا ہے اور الفاظ کے قلب میں ڈھل جاتا ہے۔۔۔ اُن الفاظ
کے قالب میں جو فرد کی مادری زبان کے الفاظ ہوتے ہیں۔ انسا کسی دوسری زبان کو کتنا
ہی سیکھ جائے۔۔سوچتا اور خواب اپنی مادری زبان ہی میں دیکھتا ہے۔
پھر ایک لطیفہ
سنایا کہ ایک لڑکا اپنے ماں باپ کے ساتھ بنارس گیا۔ گنگا جمنا کے سنگم پر کوئی میلہ
یا کوئی تہوار تھا۔ وہ وہاں سو گیا۔ نیند سے بیدار ہوا تو اُس نے ارد گرد موجود لوگوں
کو اشاروں سے کچھ بتانا چاہا۔۔ لوگ سمجھے وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے کسی نے مارا ہے۔ سننے
والے اور وہ لڑکا مسلمان تھے۔ انہوں نے سوچا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے ہندوؤں نے مارا
ہے ۔ ہندوؤں سے پوچھا انہوں نے کہا ہم اسے کیوں ماریں گے؟ اس نے ہمارا کیا بگاڑا ہے؟
ادھر وہ لڑکا زورو شور سے اشاروں میں مسلسل کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں
اُس کی ماں وہاں آگئی۔ ماں نے اس کے اشاروں کو دیکھا تو وہ ہنس پڑی اور بتایا۔ یہ کہہ
رہا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں دولہا بنا ہوا گھوڑے پر بیٹھا ہوں اور زور
زور سے ڈھول بج رہا ہے۔ اس پر وہ خوشی سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔
فرمایا۔ اللہ
تعالیٰ ستار العیوب اور غفار الذنوب ہیں۔۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے پردہ داری ہی کا ایک
انتظام ہے کہ خیال الفاظ کے جامے میں سامنے آتے ہیں۔ خیال اپنی جگہ انتہائی Pureہوتا
ہے۔ الفاظ فریب دیتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو لوگ ایک دوسرے کے سامنے اپنے عیب اور نفرت
و حسد وغیرہ چھپانے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکتے۔
سب کے ذہن سے
جانے کیا گزراکہ آپ نے فرمایا۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒنے مجھ سے فرمایا تھا کہ جب
اللہ تعالیٰ رحم و کرم فرمائے اور آپ براہ راست دیکھنا شروع کر دیں تو وعدہ فرمائیں
کہ آپ کسی کے اندر نہیں جھانکیں گے۔
لوگ آپ کی باتیں
سنتے سنتے کہیں کھو جاتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ جو
کچھ بھی ارشاد فرماتے ہیں خلوص اور اپنے متعلقین اور مخلوقِ خدا کی بھلائی کے جذبے
سے ارشاد فرماتے ہیں۔ لوگوں کو کھویا دیکھ کر آپ نے مرید سے فرمایا۔ میں تو ایک داستان
گو ہوں۔۔۔ لوگ اس لئے بھی میری بات سنتے ہیں کہ انہیں مزہ آتا ہے۔ فلم نہ دیکھی۔۔داستان
سن لی۔ فقیر کے پاس آپ جب بھی ائیں گے۔۔وہ آپ کو کوئی نئی بات ہی سنائے گا۔
مرید نے کڑھ
کر سوچا تو کیا لوگ آپ سے کچھ سیکھنے نہیں آتے محض تفریح طبع کے لئے آتے ہیں؟ فلم نہ
دیکھی داستان سن لی۔۔۔ واہ یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی۔ پیشتر اس کے وہ کچھ کہتا ۔ آپ
نے یہ کہہ کر محفل برخاست کر دی کہ رات کھانے کے لئے کسی کے گھر جانا ہے۔۔میں ذرا تیار
ہو لوں۔
اگلے روز جمشید
علی کے ولیمے میں شرکت کے لئے اُن کے گاؤں گئے۔ وہاں گاؤں کے حجرے میں بیٹھنے کا انتظام
کیا گیا تھا۔ وہاں موجود سبھی لوگ آپ کو دولہا کے پیر صاحب جان کر عزت و احترام بھی
کر رہے تھے اور متجسس ہو کر۔۔۔کوشش میں تھے کہ اُن سے بات ہو۔۔حضور نے سیاہ چشمہ پہن
کر مخصوص انداز میں ایک طرح کا فاصلہ پیدا کر لیا تھا۔ آپ نے خاموشی کو توڑنے کو پوچھا۔
اس گاؤں کی آبادی کتنی ہوگی؟ کسی نے کہا پانچ ہزار۔۔کسی نے بیس ہزار،۔۔۔ ایک صاحب نے
ڈیڑھ لاکھ تعداد بتائی۔ سُن کر خاموش ہو رہے۔ کچھ دیر بعد اس پر تبصرہ کیا۔ ہم اپنے
ارد گرد سے اس قدر غافل رہتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے آس پاس کون
کون رہتا ہے۔ کسی کو یہ تک تو پتہ نہیں کہ ہمارے شہر، قصبے یا گاؤں کی آبادی کتنی ہے؟
حضور ابھی یہ
بات کر ہی رہے تھے کہ ایک صاحب نے جو اُسی گاؤں کے معلوم ہو رہے تھے سوال کیا کہ شریعت
کو By Pass کیا
جا سکتا ہے یا ایسا کرنے کی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے؟ اب نہ جانے اُن کے ذہن میں کیا
تھا۔۔وہاں بیٹھے عقیدت مندوں ہی نے نہیں بلکہ سب نے قدرے حیران ہو کر سوال کرنے والے
کی طرف دیکھا۔۔ نہ جانے وہ ایسا سوال کیوں پوچھ رہےتھے جس کا جواب نفی کے علاوہ کچھ
اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
جب وہ خاموش
ہوئے تو حضور نے فرمایا۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا کسی عیب جوئی کرنے، غلط بیانی یا
برائی کرنے کی شریعت میں کوئی اجازت ہے؟ جب انہوں نے جواب نفی میں دے دیا تو آپ نے
فرمایا۔ آپ دوسروں میں غلطیاں ڈھونڈتے ہیں جبکہ شریعت تو اس سے بھی منع کرتی ہے۔ اب
کئی لوگ میری ڈاڑھی کی بابت کہتے ہیں کہ یہ غیر شرعی ہے۔ اب ڈاڑھی نہ ہوتی تو ایک بات
تھی اب ڈاڑھی ہے تو شرعی اور غیر شرعی کیسی ہو سکتی ہے؟ اور پھر یہ کہاں کا انصاف ہے
کہ آپ ایک ڈاکٹر کے پاس علاج
کروانے جائیں اور اُسے کہیں تمہاری ڈاڑھی نہیں ہے ، لہذا میں
تم سے علاج نہیں کراؤں گا۔
اسی طرح ایک
بار ایک صاحب آئے ۔۔اپنے بیٹے کا علاج کروانے۔۔۔مجھے دیکھ کر کہنے لگے ہم جا رہے ہیں۔۔
ہم نے دیکھ لیا۔ میں نے کہا بھئی کیا دیکھ لیا ۔۔ کہا آپ نے آستانے میں ننگی تصویر
لگائی ہوئی ہے یہ غیر شرعی ہے۔
فرمایا۔ ٹی
وی پر جو تصویریں آتی ہیں وہ انتہائی عریاں بھی ہوتی ہیں پھر بھی ہر گھر میں ٹی وی
ہے۔ گھروں ، بیٹھکوں، حجروں اور دکانوں میں ایکٹریسوں کی تصاویر لگی ہوں تو جائز۔۔۔
تصویروں والے نوٹ جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا جائز۔۔۔ تصویر کے بارے میں صرف ایک ضعیف
حدیث ملتی ہے اور بھی بتوں کے حوالے سے ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ لوگ کسی اللہ والے کی تصویر
تک برداشت نہیں سکتے۔ کم بولنا ، جھوٹ بولنا، کسی کا حق مارنا تو سب ہو رہا ہے۔۔۔لوگ
رشوت بھی لے رہے ہیں۔۔۔آپ کو اُس وقت تو شریعت کی یاد نہیں آتی جب کوئی راشی افسر آپ
کا کام کرنے کے پیسے مانگ رہا ہوتا ہے۔۔شریعت کا سارا زور۔۔۔ یوں لگتا ہے کہ ٹخنوں
سے نیچی شلوار پہ ہی چلتا ہے۔ اُس وقت امارت اور تکبر کے اظہار کو ایسا لباس پہنتے
تھے جو زمین پہ گھسٹتا تھا۔۔ شریعت نے اس اصراف سے منع کیا ہے۔
فرمایا۔ لوگ
کہتے ہیں کہ میں نماز سے منع کرتا ہوں۔۔میں کیوں منع کروں گا۔۔ میں خدانخواستہ کوئی
شیطان ہوں۔۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ نماز کو ٹھیک طرح سے ادا کریں۔۔آپ نے کوٹ الٹا پہنا
ہوا ہے۔۔ میں نے کہہ دیا کہ کوٹ کو سیدھا کر کے پہن لو۔۔ تو کیا میں نے کوٹ پہننے سے
ہی منع کر دیا۔ میں تو کہتا ہوں کہ فویل المصلین والی نماز مت پڑھو بلکہ معراج المومنین
والی نماز پڑھو۔ اب اس پہ کوئی یہ کہے کہ میں نماز سے منع کرتا ہوں تو کیا یہ انصاف
ہوگا؟ اسی طرح اب شریعت میں تفرقے کی کتنی اجازت ہے؟ لیکن چار چار مسجدیں ایک ہی محلے
میں ہونا اور اوپر سے لاؤڈ سپیکر پہ لوگوں کو پریشان کرنا۔۔۔کیا شریعت اس کی اجازت
دیتی ہے؟ کاروبار کے لئے بنکوں سے پیسے لیتے وقت لوگوں کو تو یہ بھی یاد نہیں رہتا
کہ اللہ تعالیٰ سود کو واشگاف منع کرتے ہیں۔ وہاں کیا شریعت آپ کو اس کی اجازت دیتی
ہے کہ آپ مجبوری کی آڑ لے کر سود پہ پیسے لے لیں؟
آپ کی بات پوری
ہونے تک سوال پوچھنے والے صاحب کے چہرے پر تڑخنے کے آثار نمایاں تھے۔
نیاز صاحب نے
مزاج شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے ماحول کے تناؤ کو کم کرنے کے لئے سوال کیا۔ جب بندہ اللہ
سے ملنا چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی بندے سے ملنا چاہتا ہے تو پھر ملاپ کیوں نہیں
ہوتا۔۔اس میں اتنی دشواری کیوں محسوس ہوتی ہے؟
اس پہ آپ نے
سوال پوچھا۔ ایک محبوب ہے۔۔۔اور ایک محب ہے۔۔۔۔یہ دونوں آپس میں ملنا چاہتے ہیں۔۔ وہ
کون سی ایسی بات ہے جو اُن کے آڑے آتی ہے اور اُن کا ملن ہونے نہیں دیتی؟
سب سوچ میں
پڑ گئے۔
فرمایا ۔ رقیب
رو سیاہ! جب بندہ اللہ سے ملنا چاہتا ہو او ر دنیا رقیب سے روسیا بن کر آڑے آئے تو
وصل کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر بندے کے لئے جنت رقیب بن جائے تو اللہ سے وصل کیسے ہوگا؟
دنیا ہو۔۔دولت ہو۔۔اولاد ہو۔۔بیوی ہو۔۔۔بیوی کے لئے خاوند ہو۔۔گاڑی ہو۔۔یہ سب چیزیں
جو آپ کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔۔۔ آپ کو اللہ سے دور کرتی ہیں۔۔اس کا یہ مطلب
ہرگز نہیں کہ آپ ان اشیا سے بالکل قطع تعلق کر لیں۔۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں آپ کے
استعمال کے لئے بنائی ہیں۔۔آپ انہیں استعمال کریں اور خوش دلی سے استعمال کریں۔۔لیکن
ان میں دل نہ لگائیں۔
پھر فرمایا۔
بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کی باتیں کسی کو بتانے کی نہیں ہوتین۔ سب جانتے ہیں کہ
میاں بیوی کے درمیان کیا ہوتا ہے لیکن کبھی کوئی اس کا ذکر نہیں کرتا کہ وہ اپنی بیوی
کے ساتھ کیسے تعلق رکھتا ہے۔
پشاور واپسی
پر راستے میں فرمایا۔ ایک بار ایک صاحب مجھ سے ملنے آئے اور کہا کہ انہوں نے خواب میں
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کو دیکھا ہے کہ وہ اُن سے کہہ رہے ہیں کہ خواجہ صاحب جھوٹ
بولتے ہیں۔ میں نے بہت دماغ لڑایا کہ بھلا اس کا کیا مطلب ہوا؟ آخر یہ بات سمجھ میں
آئی کہ میں کہتا ہوں کہ روحانی ڈائجسٹ خسارے میں جا رہا ہے۔ میں نے چار پانچ سال ہر
ماہ پانچ سے سات ہزار روپے نقصان کیا۔۔۔ اب تو اشتہار بھی نہیں ملتے۔۔لوگ کہتے ہوں
گے کہ مذہبی سا رسالہ ہے۔۔ اسے کون پڑھتا ہوگا۔
جب میں نے غور
کیا کہ آخر یہ نقصان کہاں سے پورا ہو رہا ہے۔۔کتابیں بک رہی ہیں ۔۔دوا خانہ چل رہا
ہے۔ نقصان وہاں سے پورا ہو ہی جاتا ہے تو اس طرح میرا یہ کہنا کہ روحانی ڈائجسٹ خسارے
میں جا رہا ہے غلط ہی ہوا نا۔۔۔ اس کے بعد سے میں نے یہ بات کبھی نہیں کہی۔
کس خوبصورتی
سے انہوں نے باتوں باتوں میں یہ امر تعلیم فرما دیا کہ نقصان کو دیکھنے کی بجائے۔۔۔اللہ
کے اس انتظام کو بھی دیکھنا چاہئے جس کے تحت نقصان پورے ہوتے ہیں۔
ایک اور بات
یہ سنائی کہ ایک بار اُن کے پڑوسی کا بچہ اُن کے پاس آیا اور بتایا کہ اس کا ابو اُس
کی امی کو مار رہا ہے۔ فرمایا۔ میں چھڑایا تو وہ الٹا میرے سر ہو گئے کہ آپ نے مداخلت
کیوں کی۔ میں نے کہا آپ اپنی بیوی کو کیوں مار رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے ۔ مجھے قرآن اجازت
دیتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو مار سکتا ہوں۔ اس پر میں نے کہا۔ آپ یہ بھی تو دیکھیں
کہ قرآن نے یہ اجازت کس بات پر دی ہے۔۔مگر وہ اپنی کہتے رہے۔
اتنی دیر میں
اُن کے بڑے بھائی بھی وہاں پہنچ گئے۔ متشرع قسم کی ڈاڑھی والے تھے۔ کہنے لگے۔ مارنے
کی کیا ضرورت ہے نباہ نہیں ہو رہا تو تم طلاق دے دو۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ ٹاؤ۔۔اور
کھڑے کھڑے ایک دو تین طلاق کہہ کر فارغ کر دیا۔
میں نے کہا
طلاق یوں نہیں ہو سکتی۔ میں بخاری شریف لے کر بیٹھ گیا۔ اللہ میاں اس طرح مجھے بخاری
شریف پڑھوانا چاہتے ہوں گے۔میں نے انہیں احادیث کے ذریعے سمجھانا چاہا۔ انہوں نے مولانا
مودودی اور مفتی شفیع اوکاڑوی کو خط لکھے۔ دونوں نے کہہ دیا کہ طلاق ہو گئی ہے۔ لیکن
میں نے اپنی بات پہ اصرار جاری رکھا۔ اس پر اننہوں نے کہا اگر ان میں سے ایک بھی صاحب
لکھ کر دے دیں کہ طلاق نہیں ہوئی تو میں مانوں گا۔
میں نے مفتی
صاحب سے وقت لیا ۔ وہاں گیا۔ انہوں نے صبح بلایا تھا۔ بٹھا کر کہلوایا کہ وہ میٹنگ
میں ہیں فارغ ہو کر بلائیں گے۔ پھر بارہ بجے کہلوا دیا کہ وہ تو اُٹھ کر چلے گئے ہیں۔
میں نے اصرار کیا کہ یہ کیا بات ہوئی؟ جب انہوں نے بلایا تھا تو انہیں ملنا بھی چاہئے
تھا۔ وہ خود کہہ دیتے کہ آپ کسی اور وقت آجائیں۔۔ آج میں فارغ نہیں۔ اسی دوران اس مدرسے
کے شیخ الحدیث بھی وہاں آگئے۔ انہوں نے آ کر بات سنبھالنے کی بجائے تو تو میں میں شروع
کر دی۔ اس پہ میرا ہاتھ اُٹھ گیا۔ انہوں نے کہا۔اسے مارو۔ میں نے کہا۔ ہاں مارو۔۔بات
بہت بڑھ گئی۔ اس پر مفتی صاحب وہاں خود آگئے۔ انہوں نے بزرگوں کی طرح بات سُنی۔ میں
نے کہا متعلقہ احادیث کے حوالے دیئے۔اُن صاحب کے حالتِ جنوں میں طلاق دینے کے بارے
میں اپنی بات کہی۔ میرے ساتھ اُن صاحب کا بیٹا بھی تھا جنہوں نے طلاق دی تھی۔ اُس نے
میری بات کی تائید کی۔ انہوں نے کہا۔ آپ کی بات درست ہے مگر گواہی معتبر نہیں۔ شاید
انہوں نے بھی میری ڈاڑھی کی وجہ سے ایسا کہا تھا۔ اس پر میں نے اپنا تعارف کروایا۔
وہ میرے پورے گھرانے سے واقف تھے۔
خیر قصہ مختصر
انہوں نے لکھ کر دے دیا کہ طلاق نہیں ہوئی گواہی معتبر ہے۔ اگر میں اتنا زور نہ لگاتا
تو شاید کام بھی نہ ہوتا۔ وہ گھرانہ آج بھی ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا ہے۔
شام کو مراقبہ
ہال میں خواتین و حضرات کے اجتماع سے خطاب کو اِن اولیا اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا۔کسی چیز کے چھن جانے کا ڈر خوف ہوا کسی چیز کا سچ مچ چھن
جانا حزن یعنی غم ہوا۔ پھر اس کی مختلف مثالیں دے کر وضاحت فرمائی کہ انسان پہلے کسی
چیز کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے اس دوران اُس کو وسوسے گھیرے رہتے ہیں کہ وہ کامیاب
ہوگا بھی یا نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فضل و کرم کرتے ہیں اور وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے۔
جب وہ حاصل ہو جاتی ہے تو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ کہیں یہ چھن نہ جائے۔ اس ڈر اور
خوف سے زندگی آلودہ تر ہوتے ہوتے جب ایک دن وہ چیز سچ مچ چھن جاتی ہے تو غم لاحق ہو
جاتا ہے۔
اللہ کے دوستوں
کو ایسی طرزِ فکر حاصل ہوتی ہے کہ جب وہ کسی چیز کے حصول کے لئے تگ ودو کرتے ہیں تو
وسوسے اور خدشات اُن کو پریشان نہیں کر سکتےاور جب وہ اس کو حاصل کر لیتے ہیں تو اُن
کو اس کے چھن جانے کا ڈر اور خوف پریشان نہیں کرتا اور جب وہ چیز اسباب و علل کے قانون
کے تحت استعمال کر لیتے ہیں یا وہ اُن کے پاس مزید نہیں رہتی تو وہ غمگین نہیں ہوتے۔
اُس کے ہجر میں دبلے نہیں ہوتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دروبست
اللہ کی طرف سے ہورہا ہے اور اسی کی طرف پلٹ رہا ہے۔ اگر ہم قرآنِ حکیم کے ارشاد کے
مطابق ان باتوں کو سمجھ لیں اور ایسی طرزِ فکر حاصل کر لیں جس میں اندیشے وسوسے، ڈر
اور خوف نہیں ہوتا تو ہم لامحالہ غم اور حزن سے بھی محفوظ ہو جائیں گے اور ہم اللہ
کے دوست بن سکیں گے۔
فرمایا۔ اس
آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی دوستی کی شرائط ہی تو بیان فرمائی ہیں۔
محفل کے اختتام
پر ادھر لنگر تقسیم ہو رہا تھا اور ادھر نیاز صاحب نے چند دوستوں کو مرشد کریم کے قریب
بیٹھنے کا موقع فراہم کرنے کو الگ کمرے میں نشست کا اہتمام کر دیا۔
ایک خاتون کی
بابت بتایا کہ انہوں نے ٹڈے پر ریسرچ کی اور کوئی ڈھائی ہزار اقسام بیان کیں۔
فرمایا۔ اب
انہوں نے ہر قسم کا کوئی نام بھی رکھا ہوگا۔
ہمارے اپنائے
ہوئے نظریات پہ چوٹ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب انسان کوئی برائی کرتا ہے تو تنہائی میں
کرتا ہے۔ باتھ روم جاتا ہے تو اندر سے کنڈی لگالیتا ہے گویا پیشاپ پاخانہ کرنا بھی
کوئی غلط اور بُری بات ہی ہوئی۔
کھانے کے بعد
ٹہلنے کے دوران ارشاد فرمایا۔ دنیا میں کل سو کہانیا ں ہیں اور اُن میں سے بھی صرف
پانچ کہانیاں بنیادی ہیں۔باقی تمام انہی کی آمیزش سے بنی ہیں۔ اس پر نیاز صاحب نے بتایا
کہ عجیب بات ہے کہ راگ بھی کل پانچ ہیں اور اُن سے دو سو راگنیاں بنی ہیں۔ اس پر ابا
حضور مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ لیکن سر تو سات ہوتے ہیں۔
پھر لباس کے
حوالے سے بات کرتے ہوئے فرمایا۔ جنت میں تو یہ لباس ہوگا نہیں۔ مولوی حضرات بتاتے ہیں
کہ حوروں نے ریشم و حریر کے ستر ستر چولے پہنے ہوں گے اور اُن میں سے بھی اُن کی پنڈلی
نظر آئے گی۔ یہ پنڈلی انہیں بہت پسند ہے۔ ملکہ سبا کے قصے میں بھی حضرت سلیمان نے پنڈلی
ہی تو دیکھنے کےلئے ایسا فرش بچھوایا تھا کہ محسوس ہو کہ پانی بہہ رہا ہے۔ اُن کے انجینئرنگ
کے کمالات اور ترقی پہ تو ہماری نظر جاتی ہی نہیں البتہ پنڈلی کو ضرور واضح کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ حوروں کی پنڈلی میں ہدی اور پھر ہڈی کے گودے کا رنگ تک نظر آئے گا۔۔لاحول
ولا قوۃ۔۔۔ مجھے تو قے ہوجائے ایسی پندلی دیکھ کر۔
فرمایا۔ جنت
میں جب آدم سے نافرمانی ہوئی اور انہیں پیشمانی کے ساتھ برہنگی کا احساس ہوا تو کیلے
کے درخت نے اپنی خدمات پیش کیں اور انہوں نے اس کے پتے لے کر ستر پوشی کی۔ یوں لباس
وجود میں آیا ورنہ اس سے پیشتر لباس کہاں تھا۔ جونہی لباس وجود میں آیا۔۔۔جنت نے آدم
کو رد کر دیا ہے۔ اب بھی دیکھ لیں کہ ہم باتھ روم میں جا کر لباس اتار کر خوش ہوتے
ہیں۔ میں تو صاف کہہ دیتا ہوں کہ میں جنتی ہونے جا رہا ہوں۔۔کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ انسان
وہاں جا کر یکسو ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں مجھے باتھ روم میں یہ خیال آیا۔۔۔وہ
خیال آیا۔
مرید نے عرض
کی۔ یہ انسانی عقائد کے بننے اور انہیں اپنانے کے عمل کو لباس کہا گیا ہے؟
اس پر ارشاد
فرمایا۔ نافرمانی سے اندیشے نے وجود پایا اور خوف محسوس ہوا۔۔ اس خوف سے کہ اب جنت
چھن جائے گی۔۔معافی تلافی کا خیال ہی نہ آسکا۔ جب جنت چھن گئی تو غم نے انہیں اپنی
لپیٹ میں لے لیا۔ اس غم میں انہیں معافی تلافی کا دھیان آگیا ورنہ یہ کام وہ وہاں پہ
بھی تو کر سکتے تھے لیکن خوف نے انہیں اس قابل ہی نہ چھوڑا۔ جب انہوں نے معافی مانگ
لی تو اللہ نے کہا۔ اب تو تم اتر آئے ہو اب اگر میرے بتائے ہوئے راستے پر چلو گے تو
واپسی ہو سکے گی ورنہ نہیں۔
اگلے دن ڈاکٹر
میاں مختار الحق صاحب کے گھر پہ سلسلے کے بہن بھائیوں کے ساتھ نشست تھی۔ لوگ ملنے آرہے
تھے کوئی کچھ پوچھ رہا تھا تو کوئی کچھ۔ سب سے ملتے ملاتے ایک صاحب نے اپنے کسی دوست
کا تعارف کروایا۔ یہ فخر ہیں۔
مسکراتے ہوئے
پوچھا۔ کس کے فخر ہیں یہ؟
جواب میں کہا
گیا جی ان کا نام فخرِ عالم ہے۔
اُن کو غور
سے دیکھا اور کہا۔۔ آپ میرے لئے دُعا کیا کریں۔
فخر عالم نے
اپنی طرف سے حاضری جوابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ حضور میں تو آپ کی دعاؤںکا طالب
ہوں۔
فرمایا۔ بڑے
تو چھوٹو ں کے لئے دعاگو ہوتے ہی ہیں۔ چھوٹوں کو چاہئے کہ وہ بڑوں کے لئے دعا کریں
اور رب اغفرلی ولوالدی والی آیت کے حوالے سے کہا اللہ تعالیٰ بھی اس بات کا حکم دیتا
ہے کہ آپ اپنے والدین اور بزرگوں کے لئے دعا کریں۔
اگلے روز ورسک
ڈیم پہ پکنک کا پروگرام تھا۔
پکنک پہ کھانے
کا انتظام وہاں کے ریسٹ ہاؤس میں کیا گیا تھا۔ سلسلے کے سبھی بہن بھائی موجود تھے۔
قریشی صاحب نوجوانوں کی ٹیم کی سربراہی کرتے ہوئے کھانا پکانے کی نگرانی کر رہے تھے۔
رونق اور چہل پہل دیکھ کر فرمایا۔ یہ سب بڑوں کی برکت ہوتی ہے۔ کوئی بڑا نہ بھی ہو
لیکن آپ نے مان لیا تو اُن کے دم قدم سے رونق ہو جاتی ہے۔ سب اکٹھے ہوتے ہیں۔ ۔۔مل
جل کر بیٹھتے ہیں۔
نیاز صاحب جو
واپڈا میں سپرنٹنڈنٹ انجینئرنگ ہو چکے ہیں ابا حضور کو پاور ہاؤس کے اندورنی حصے کا
معائنہ کروا رہے تھے۔ یہ ڈیم کب بنا؟ کس نے بنایا؟ اسکی بلندی کتنی ہے؟ ٹنل کتنی بڑی
ہے؟ اگر یہ ٹربائن ہے تو وہ کیا ہے؟ جنریٹر کے کوائل کتنے ہیں؟ یہاں کتنی بجلی پیدا
ہوتی ہے؟ اس کی پیدا واری لاگت کیا ہے؟ جب بتایا گیا کہ صرف چار پانچ پیسے فی یونٹ
تو کہا۔۔ لو دیکھ لو کتنا فرق ہے۔ پھر فرمایا ۔ اس میں گھر گھر بجلی پہنچانے۔۔تاروںاور
ٹرانسفارمرز کا خرچ اور دیکھ بھال کرنے والے عملے کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں۔
پاور ہاؤس سے
نکل کر ڈیم کی دوسری طرف جھیل کنارے کھڑے ہو کر سامنے کے پہاڑ کے اوپر بنی پکٹ کو دیکھ
رہے تھے تو تسنیم بھابھی نے بتایا کہ اُن کا لڑکپن اور نوجوانی کا دور وزیرستان میں
اسی طرح کے ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پر گزرا ہے۔ پانی بھرنے انہیں وہاں اوپر چوٹی سے
نیچے آنا پڑتا تھا۔ دوڑ کر واپس جانا اور ایک ہی سانس میں اوپر پہنچنے کی شرط لگا کرتی
تھی۔ ہنستے ہوئے بتا رہی تھیں کہ وہ ہمیشہ جیتا کرتی تھیں۔ حضور نے زیرِ تبسم لہجے
میں کہا۔ آپ کو وہ زندگی یاد تو بہت آتی ہوگی؟ انہوں نے کہا۔ حالانکہ وہ بہت سخت زندگی
تھی لیکن حقیقت ہے اس وقت ایسا ویسا کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا۔
کسی نے پہاڑوں
کی بابت کہا ۔ کیا ان میں بھی زندگی ہے؟
فرمایا۔ پہاڑ
بھی باقاعدہ سانس لیتے ہیں۔ اور پندرہ منٹ میں ایک سانس لیتے ہیں جبکہ انسان ایک منٹ
میں اٹھارہ تا بیس سانس لیتا ہے۔ یہ تقریباً تین سو گنا زیادہ مدت ہوئی۔ اسی نسبت سے
ان کی عمریں بھی ہوتی ہیں۔
ریسٹ ہاؤسآ
کر نیچے دریا کی طرف اتر گئے۔ وہاں سیر کرتے ہوئے دریافت کیا۔ یہ کالا باغ ڈیم کا کیا
قصہ ہے؟ مرید نے اپنی معلومات کی روشنی میں اظہار خیال کیا تو دریافت کیا کہ سندھ کیوں
مخالفت کر رہا ہے اور یہ پنجاب کیوں اتنی دلچسپی لے رہا ہے؟ سب اپنی اپنی بساط کے مطابق
اندازوں پر مبنی بات کہتے رہے۔ اس دوران راست میں جہاں پتھر آتے یا پانی آجاتا وہاں
مرید کا ہاتھ تھام لیتے۔ ناہموار راستے پہ کسی کا ہاتھ تھام لینے سے راستہ ہموار تو
نہیں ہو جاتا لیکن ناہمواری کو برداشت کرنے اور اُسے طے کرنے کی سکت میں ضرور اضافہ
ہو جاتا ہے۔ شاید یہی سبق دینے کو اُسے وہاں کی اونچی نیچی راہیں طے کروا رہے تھے۔
ریسٹ ہاؤس کی
طرف واپسی پہ ڈھلوان راستہ چڑھتے ہوئے انہوں نے مرید کا ہاتھ تھاما تو شاہین نے اپنی
خدمت پیش کرتے ہوئے کہا۔ اب میں آپ کا ہاتھ تھام لوں؟ تو وہیں رُک کر فرمایا۔ جی نہیں۔
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے فرمایا تھا۔ اگر آپ گاڑی چلا رہے ہوں راستے میں سامنے
بھینس آجائے تو گاڑی روک لو اور اگر کوئی عورت سامنے آجائے تو بھی گاڑی روک لو کہ ان
کا کچھ پتہ نہیں کہ یہ آگے بڑھیں گی، رک جائیں گی یا واپس پلٹیں گی۔
بات کو جاری
رکھتے ہوئے فرمایا۔ عجیب بات ہے۔ ہم بیوی کو خرید کر لاتے ہیں۔ بھئی حق مہر دینا خریدنا
ہی ہوا نا۔ پھر ساری زندگی اُس کو کما ر لا کر بھی دیتے ہیں۔ پھر اُس سے ڈرتے بھی ہیں
اور اُس کی غلامی بھی کرتے ہیں۔ جبکہ انا اولیا اللہ لا خوف۔۔۔کا سبق پڑھنے کے بعد
بیوی سے ڈرنا تو بہت ہی عجیب بات ہے۔
پھر مرید کو
مخاطب ہو کر پوچھا۔ آپ نے دیا تھا حق مہر؟ اور اثبات میں جواب سُن کر مسکرا دیئے۔
دریا کنارے
سے ریسٹ ہاؤس کی طرف بڑھتے ہوئے زمین پہ پرانے خزاں رسیدہ پتوں پہ چلتے ہوئے آپ نے
اوپر دیکھا اور درختوں پہ نئی پھوٹتی کونپلوں اور شگوفوں کو دیکھ کر فرمایا۔ پتوں کا
چھپ جانا خزاں کہلاتا ہے اور ظاہر ہو جانا بہار کہلاتا ہے۔ خزاں آنے سے یہ سب کچھ ختم
تھوڑے ہی ہو جاتا ہے۔
چند قدم آگے
بڑھے اور فرمایا۔ یہ پتے دراصل آکسیجن بنانے کی فیکٹریاں ہیں۔ یہ گرمی در اصل آکسیجن
کی زیادتی کے باعث ہوتی ہے اور سردی آکسیجن کی کمی کا نام ہے۔ جب فضا میں آکسیجن بڑھ
جاتی ہے تو پتے اس گرمی سے جل جاتے ہیں اور جب آکسیجن کم ہو جاتی ہے تو آکسیجن سازی
کا عمل آغاز کرنے کو درختوں پہ پتے دوبارہ نمو دار ہو جاتے ہیں۔
ریسٹ ہاؤس پہنچ
کر کمرے میں فرشی نشست کا اہتمام دیکھ کر مرید نے انتظام والوں کی دور اندیشی کی دل
ہی دل میں داد دی۔ اتنی دیر گھومنے پھرنے کے بعد تو لیٹنے کو جی چاہ رہا تھا۔ جب سب
اپنے مرشد کے گرد نیم دائرہ بنا کر بیٹھ گئے تو نیاز صاحب نے اسلم ناز کو اپنے کلام
میں منقبت سنانے کو کہا۔ اسلم ناز نے کچھ اشعار حمد کے پیش کئے۔ پھر کچھ نعت کے اشعار
پیش کر کے ایک منقبت بحضور قلندر بابا اولیا ء ؒ سنا کر اپنے مرشد سے داد لی اور حوصلہ
پا کر اپنے مرشد کی شان میں کہے گئے اشعار پیش کرنے کی اجازت لی۔ ان کے خلوص اور عقیدت
میں ڈھلے ہوئے اشعار پہ سب نے اُن کو بہت داد دی۔ پھر قریشی صاحب نے اپنی بھانجی انیلا
درانی سے نعت سنانے کی فرمائش کی۔ اُن کی آواز کا ترنم اور گداز سب کو بہا لے گیا۔
پھر انہوں نے ایک ہندی گیت سنایا۔ اکھیوں کے جھروکوں سے ۔۔۔میں
نے دیکھا جو سانورے
اس لمحے سے پیشتر یہ گیت سب کے لئے ایک عام
سا عشقیہ گیت رہا ہوگا۔ لیکن اُس لمحے وہ گیت وہاں موجود ہر شخص کی اپنے مرشد سے محبت
کی باز گشت بن گیا۔پیار بھرے گیت کا ایک ایک لفظ مرشد کریم کے حضور نذرانہ عقیدت کا
احساس بن کر گونجتا رہا۔ سب کو لگا یہ اُن کے اپنے دل کی صدا ہے جو انیلا کی آواز میں
اُن کے محبوب کی سماعت تک پہنچ رہی ہے۔۔۔ نیاز صاحب اور کئی لوگوں کے آنسو اُن کے چہروں
کو دھوتے رہے۔ حضور کمر کے پیچھے رکھے تکیے پر ٹیک لگائے آنکھیں کسی غیر مرئی نکتے
پہ مرتکز کئے سنتے رہے۔
گیت ختم ہوا
تو کچھ دیر سناٹا رہا پھر جب مرشد کریم نے تالی بجا کر داد دی تو سب کو جیسے ہوش آگیا
اور سبھی نے بھر پور داد دی۔ فضا میں اک عجب سا گداز اک کومل سی لطافت گھل چکی تھی۔
مرید نے اک بار اپنے مراد سے لتا کے حوالے سے کسی کی کہی گئی بات کہ لتا کے گلے میں
بھگوان بولتا ہے کہ بابت پوچھا تو انہوں نے رسانیت سے کہا۔ جی ہاں۔۔۔ بھگوان ہی تو
بولتا ہے۔ اُس روز مرید کو یہ مشاہدہ ہوا کہ پیار میں جہاں ہر لفظ کچھ زیادہ ہی با
معنی ہو جاتا ہے وہاں اس کی اثر پذیری میں بھی کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
حیرت یہ ہوئی
کہ کسی نے مزید کچھ اور سنانے کی فرمائش نہ کی کہ سب اسی گیت اور نغمے کے افسوں میں
کھوئے ہوئے تھے۔ قریشی صاحب نے کھانے پہ مدعو کر کے سب کو اس عالم بے خودی سے باہر
نکالا۔
شام کو مراقبہ
ہال میں الوداعی نشست میں فرمایا۔ لوح محفوظ میں کسی بندے کا ڈاکٹر بننا نہیں لکھا
ہوتا۔ فزکس کیمسٹری وغیرہ سب علم کی درجہ بندی ہے۔ اگر یہ لکھا ہوتا کہ فلاں شخص ڈاکٹر
ہی بنے گا تو وہ فزکس نہیں سیکھ سکتا یعنی اس طرح اس کی صلاحیتیں محدود ہو جاتیں۔
نیاز صاحب کے ایک کزن نور حسن جان صاحب نے سوال کیا کہ کیا اوپر
جا کر سب لوگ جوان ہو جاتے ہیں؟
فرمایا۔ بچے اوپر جا کر بڑے ہوتے ہیں۔ اُن
کی تربیت وہاں ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو یہاں اولاد نہیں ملتی انہیں اُن کے حوالے کر دیا
جاتا ہے ۔ اولاد کو یہاں کس نے کھلایا اور کیا پلایا۔۔ وہاں یہ نہیں دیکھا جاتا بلکہ
اُن کی تربیت میں کن کن باتوں کا خیال رکھا گیا۔۔۔۔یہ بات دیکھی جاتی ہے۔۔بوڑھوں کے
فیچر وہاں بھی بوڑھوں جیسے ہی رہتے ہیں لیکن وہ لوگ جنہوں نے یہاں زندگی اچھی طرح بسر
کی ہوتی ہے۔۔اُن کے خدوخال جوانوں جیسے ہی رہتے ہیں۔ یہ بات تو ہم یہاں بھی دیکھتے
ہیں کئی لوگ بڑھاپے میں بھی جوان ہی نظر آتے ہیں۔
ہمایوں خان
جو ایک پٹواری ہیں انہوں نے قرب الٰہی اور اپنے اجداد کا سراغ ملنے کی دعا کی درخواست
کی تو فرمایا۔ آپ کی پہلی بات کی بابت تو میں دعا کردوں گا لیکن اس دوسری بات کا کیا
مطلب ہوا؟ بھئی آئے ہوں گے کہیں سے۔۔۔اس بات کا پتہ چل بھی گیا تو کیا فائدہ ہوگا؟
ان باتوں میں کیا رکھا ہے کہ میں فلاں ہوں۔۔آپ کچھ بن گئے تو لوگ آپ پر فخر کریں گے
ورنہ جیسے آپ انہیں ( اپنے اجداد کو) بھولے ہوئے ہیں ، لوگ آپ کو بھول جائیں گے۔ پھر
کئی لوگوں کے نام لے کر کہا۔ لوگ انہیں جانتے ہیں لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم کہ آباؤاجداد
کون تھے۔
مرید کو گزشتہ
روز کی کہانیوں کے بارے میں کہی گئی بات کے حوالے سے خیال آیا تو اُس نے عالمی ڈائجسٹ
میں قسط وار شائع ہونے والی اقا بلا نامی ایک کہانی کی بابت دریافت کیا کہ کیا وہ کہانی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے کسی قلمی نام سے لکھی تھی تو فرمایا۔ انہوں نے شیطان
کی ڈائری کے نام سے نقاد میں قسط وار لکھا تھا۔ یہ تو شکیل عادل زادہ نے رائٹرز کا
ایک پینل بنایا تھا اور انہوں نے مل کر اس قسم کی کہانیاں لکھی تھیں جن میں ایڈونچر،
جنسی چٹخارہ اور ماورائی ماحول دکھایا گیا تھا۔ یہ اقا بلا وغیرہ سب اسی قبیل کی کہانیاں
ہیں۔
محفل اختتام
پذیر ہوئی۔ اگلے روز آپ راول پنڈی تشریف لے گئے۔ اُن کے چلے جانے کے بعد کتنے ہی روز
تک مرید کے اندر اک سناٹا سا چھایا رہا۔ کرنے کا کام کرتا لیکن کسی اور بات کا دھیان
تک نہ آتا۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔