Topics
جب آپ آرام کرنے چلے گئے تو وہ کچھ دیر ڈیوٹی والے بھائیوں کے
ساتھ بیٹھا اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا۔کچھ ہنسی مذاق بھی ہوا، چائے کا دور بھی
چلا، پھر سب سونے چلے گئے۔ اُس نے سونے کی کوشش کی۔ جب دیکھا کہ نیند نہیں آرہی تو
چادر لے کر حرا میں جا کر مراقبہ کرنے بیٹھ گیا۔ اتنے میں آہٹ ہوئی ۔ سر اُٹھا کر دیکھا
۔ تاروں بھرے آسمان کے پیشِ منظر میں اُس کا مراد کھڑا اُسے دیکھ رہا ہے۔ وہ سمجھا
اُس کی موجودگی کا شبہ ہو رہا ہے کہ انہوں نے آواز دے کر پوچھا۔ کون ہے بھئی؟
مرید نے کھڑے
ہو کر عرض کی۔۔۔ حضور میں ہوں۔
سیڑھیاں اترتے
ہوئے پوچھا۔ مراقبہ کر رہے تھے؟
مرید نے کہنا
چاہا۔ جی ہاں میں مراقبہ کر رہا تھا لیکن کہنے میں بات بدل گئی اور بولا نیند نہیں
آرہی تھی سوچا حرا میں بیٹھ جاؤں۔
اُس کے مراد
نے سہارا لینے کو ہاتھ بڑھایا تو اُس نے اُن کا ہاتھ تھام لیا۔ انہوں نے حرا کے فرش
پر اہرامی ڈھانچےکے نیچے بیٹھتے ہوئے اُسے بھی اپنے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دیتے ہوئے
فرمایا۔ آپ بھی بیٹھ جائیں۔ وہ اُن کو اپنے اتنے قریب پا کر اپنے حواس میں کہاں تھا
آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اُس وقت وہ سانس بھی آہستہ لے رہا تھا کہ اُن کے لئے باعثِ
زحمت نہ ہو۔ کافی دیر خاموش بیٹھ کر وہ اُس کی طرف جھکے اور اُس کے بائیں زانو پہ سر
رکھ کر دائیں کروٹ لیٹ گئے اور مچھروں سے بچنے کو اپنے منہ پہ چادر ڈال لی۔
اُس وقت وہ صرف یہ چاہ رہا تھا کہ یہ لمحے یہیں تھم جائیں۔ ارد گرد کوئی حرکت نہ ہو۔ اُس کا مراد اُس کو کبھی اتنی قربت سے نوازے گا ، یہ تو اُس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ بے شک وہ جس کو چاہیں جتنا نوازیں۔۔۔ اگلے کی توقع سے بڑھ کر نوازیں۔
شب کے اُس پہر اک مرید ملگجے اندھیرے میں، روشن ستاروں بھرے
آسمان تلے بنے ایک اہرامی ڈھانچے میں شمال رُخ بیٹھا اپنے زانو پہ سر رکھ کے لیٹے مراد
کی پر سکون نیند پہ حیران بھی تھا اور مچھروں کی بھنبھناہٹ کے سبب متفکر بھی۔ کراچی
سے باہر مراقبہ ہال کی اُس کھلی فضا میں عموماً ہوا کم ہی تھمتی ہے لیکن اُس وقت اُس
نے ہوا کو ساکت پایا۔ وہاں صرف دو ہی آوازیں اُس کی سماعت تک راہ پا رہی تھیں۔۔۔۔ گہری
نیند میں سوئے مراد کے سانس کی آواز اور مچھروں کی بھنبھناہٹ۔ ایک باعثِ راحت اور دوسری
باعث کوفت۔
اک خیال نے
اُس کی توجہ اس راحت و کوفت سے ہٹا دی۔ جانے وہ عالم خواب میں کیا کر رہے ہوں گے؟ کہاں ہوں گے؟ ایک بے
خودی اور بے کیفی کے عالم میں۔۔۔ اُس نے سوچا۔۔۔جب کوئی بندہ کیف و خودی سے گزر جاتا
ہے تو مخلوق خدا اُسکے قرب میں کیف و انبساط
کیوں محسوس کرتی ہے؟ کاش یہ ہوا چلے کہ مچھر بھاگ جائیں۔ لیکن وہاں اتنا نیچے ہوا کیسے
آئے گی وہ تو اوپر سے ہی گزر جائے گی۔۔۔ کچھ ایسی ہی باتیں اُس کے ذہن سے گزر رہی تھیں۔
پانچ دس منٹ
بعد اُن کے سر میں جنبش ہوئی۔ انہوں نے چادر ہٹاتے ہوئے سر کو اُس کے زانو سے اُٹھاتے
ہوئے کہا۔ آرام مل رہا تھا لیکن مچھر بہت ہیں۔ چلنا چاہئے۔ پھر وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔
اُس کے کندھے کا سہارا لے کر سیڑھی بہ سیڑھی چڑھ کر حرا سے باہر نکل کر وہ اپنے کمرے
کی طرف چل دیئے۔ وہ بت بنا انہیں جاتے دیکھتا رہا۔ گلاب کے پھولوں کے پاس سے ہو کر۔۔۔لان
اور برآمدے کے درمیان بنی روش پہ اپنے مخصوص انداز میں جھومتے ہوئے وہ اپنے کمرے تک
پہنچے۔۔چق اُٹھائی اور کمرے کے اندر داخل ہو گئے۔
ہونے لگی تھیں۔اُس کو لگ رہا تھا کہ اُس کی پوری زندگی کی محرومیوں
کو انہوں نے اُن دس پندرہ منٹوں میں دھواں بنا کر اڑا دیا ہو۔ اُس نے خود کو اتنا شانت
اور پرسکون کبھی نہیں پایا تھا۔ ہر شے بے حقیقت اور ٹھہری ہوئی لگ رہی تھی۔ ایک پرانے
ہندی گیت کے بول رہ رہ کر اُس کے اندر ابھرنا شروع ہو گئے۔۔
تو
پیار کا ساگر ہے۔۔۔تری اک بوند کے پیاسے ہم۔۔۔۔
اُس نے خود
سے کہا انہوں نے تُمہیں اپنے پیار کے سمندر میں غوطہ دے دیا اور کہنے والا اک بوند
کو ترستا رہا۔
وہ چار پانچ
روز وہاں مزید رہا۔ اس دوران وہ جب بھی اپنے ہمراہ مراد کو دیکھتا اُس کے اندر یہی
اشلوک ابھرنا شروع ہو جاتا۔ اور اس ابھرتی لہر کے دوش پہ تیرتا اُن کے قریب جانے کی
بجائے اُن کے ارد گرد پروانہ وار منڈلاتا رہا۔
اُس کا با خبر
مراد شام کے جھٹپٹے میں اپنے مریدوں کے حلقے میں بیٹھا بتا رہا تھا ۔۔ تاج الدین بابا
اولیا ناگپوری ؒایک بار ایک کھنڈر میں گئے۔ کسی نے کہا۔ وہاں سانپ ہے ادھر مت جائیں۔
تو انہوں نے فرمایا۔ اجی بہت انتظار کیا اُس نے۔ اب اُس سے ملنے کا وقت آیا ۔ تین سو
سال کم نہ ہوتے۔ فرمایا روحانی بندے کے انتظار میں لوگوں کو صدیوں انتظار کرنا پڑتا
ہے۔ تب جا کر کہیں موقع ملتا ہے۔۔۔وہ بھی اگر نصیب یاوری کریں تو۔
فرمایا کسی
روحانی بندے سے ایک بار گلے مل لو تو بار بار ملنے کو جی چاہتا ہے، آدمی ساری زندگی
اُس کیف کو نہیں بھول سکتا۔ لوگ اس کے اندر دور کرتے کرنٹ کو سہہ بھی نہیں سکتے اور
اُس کی طرف کھنچتے بھی ہیں۔۔۔پروانوں کی طرح۔
بیڑی پیتے تھے ایک روز بیڑی پیتے ہوئے انہوں
نے بیڑی عبدالصمد کی طرف بڑھا دی اور کہا۔ یہ لو کشف۔ اُس نے اُس بیڑی کا ایک ہی کش
لیا تھا کہ اُس کی آنکھیں کھل گئیں۔ اُس کو کہا۔ جا اپنے علاقے میں جا۔۔۔ اور لوگوں
کی خدمت کر۔
ایک دن ایک
عورت جس کا بچہ گم ہو گیا تھا۔۔۔ روتی پیٹتی عبدالصمد کے پاس گئی۔ انہوں نے اُس کی
مدد کرنے کی بجائے اس کو ناپاکی کی حالت میں دیکھ کر ڈانٹ دیا کہ اُس حالت میں اُس
کو اُن کے سامنے آنے کی ہمت کیسے ہوئی اور اُس کو وہاں سے ہٹا دیا۔ کسی نے اُس کی ممتا
کی ماری کو کہہ دیا کہ ناگپور میں تاج الدین بابا اولیاؒ کے پاس جاؤ وہ تمہارا گمشدہ
بچہ تمہیں ملوا دیں گے۔ وہ ناگپور پہنچی تو بابا صاحبؒ کے سامنے جانے کی ہمت نہ کر
سکی اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر رونے لگی۔
بابا صاحب
نے آدمی بھیج کر اُسے بلایا اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔ عبدالصمد ایک لوٹا پانی ہوتا۔
ہم تاج الدین سمندر ہیں۔ اور پھر اُس طرف منہ کر کے جس سمت عبدالصمد رہتے تھے کہا۔
عبدالصمد You are suspended اور اُس کے ساتھ ہی عبدالصمد صاحب کی ساری کیفیت سلب
ہو گئی۔
فرمایا تاج
الدین بابا اولیا ؒ کی والدہ انگریز تھیں۔ انگریزی اُن کی مادری زبان تھی۔ جن کو یہ
بات معلوم نہیں وہ انہیں انگریزی بولتے سُن کر سمجھتے تھے کہ یہ بھی کرامت ہے۔
فرمایا۔ بھئی
تاج الدین اولیاؒ جیسا ذہن قدرت تین ہزار سال میں ایک دفعہ ہی بناتی ہے۔ ویسے فضل الرحمان
گنج مراد آبادی ، عبد الرحیم ، شرڈی کے سائیں بابا اور وارث شاہ۔۔۔۔یہ سب عظیم
روحانی لوگ ایک ہی دور میں آئے تھے۔
پھر ایک صاحب کی بابت اپنے والد حاجی انیس احمد انصاری صاحب سے سُنی ہوئی ایک بات یہ فرمائی کہ وہ صاحب
ایک پیسے کی مولیاں خرید لاتے۔ اور کھا کر پڑ رہتے۔ اُن کا کہنا
تھا کہ پیٹ میں پڑی رہتی ہیں۔ جب مرے تو ان کے سرہانے تلے دو ہزار آٹھ سو روپے دھرے
تھے۔ آج کے حساب سے آپ اٹھائیس لاکھ سمجھیں۔
اپنے والد صاحب
کی بابت یہ بات فرمائی۔ جب میں نے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ سے تعلق جوڑا تو یوں لگتا
تھا کہ سب ہی مخالف ہوگئے ہیں۔ میرے والد نماز روزے کی پابندی میں بہت سختی فرماتے
تھے۔ اس لئے سبھی سمجھتے تھے کہ وہ بہت زیادہ مخالفت کریں گے لیکن انہوں نے اگر حمایت
نہیں کی تو مخالفت بھی نہیں فرمائی بلکہ انہیں پاس بٹھا کر ایک دو ذاتی واقعات سُنا
کر سمجھایا کہ اب جب تم نے اس راہ پہ چلنے کا قصد کر ہی لیا ہے تو پھر دو باتوں کو
پلے باندھ لو۔ اس راہ میں جو بھی مشکلات آئیں اُن سے گھبرانا نہیں اور دل ہارنا نہیں
ورنہ ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ اور دوسری بات یہ فرمائی کہ کامیابی کے لئے ضروری
ہے کہ اپنے مرشد کی بات کبھی نہیں ٹالنا۔ جو وہ کہیں جس قدر بھی ممکن ہو اُس پہ بلا
چوں و چراں عمل کرنا۔
فرمایا میرے
والد صاحب حضرت مولانا خلیل احمد سہار نپوری ؒ سے بیعت تھے۔ جب اُن کے مرشد کریم نے
شفقت فرمائی تو اُن کی کیفیات بننے لگیں لیکن ساتھ میں یہ ہوا کہ اُن کو غصہ بہت آنے
لگا۔ وہ بات بے بات اکھڑ جاتے۔ باہر بس نہ چلتا تو گھر میں تندودرشت لہجے میں بات کرتے۔
ہماری والدہ نے ابا کی شکایت کر دی۔ دادا جان انہیں دو ایک بار تنبیہ فرمائی۔ اُنہوں
نے کوشش کی لیکن قابو کھو دیتے نتیجتاً والدہ نے شکایت جاری رکھی تو ایک روز پاس بٹھا
کر اُن کی پشت پہ ہاتھ پھیرا اور سب کیفیت سلب کر لی۔
والد صاحب کی اس بات سے سچی بات ہے مجھے حوصلہ ہوا اور تقویت ملی۔ ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی منوائیں لیکن جب دیکھیں کہ بچہ اب اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ اپنے بُرے بھلے کو سمجھنے لگا ہے تو پھر اُس کو سپورٹ کریں تو اس طرز عمل سے
اولاد باغی نہیں ہوتی۔ ماں باپ سمجھدار ہوں تو وہ اپنے بچوں
کو خود اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے میں مدد دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔
فرمایا۔ ہماری
والدہ بہت سمجھدار تھیں۔ اگر کبھی کوئی بچہ دستر خوان پہ بیٹھ کر کہتا کہ میں یہ نہیں
کھاؤں گا۔۔ میں تو فلاں چیز ہی کھاؤں گا۔ تو وہ اُس کو دستر خوان سے اُٹھا دیتی تھیں۔
تمہیں بھوک نہیں جب بھوک لگے گی تو کھا لینا۔ ہاں بعد میں دوسرے تیسرے وقت اُس کی فرمائش
پوری کرنے کو وہی چیز بنا دیتی تھیں۔ ضد نہیں مانتی تھیں۔ کرنے ہی نہیں دیتی تھیں۔۔۔۔
ماننا تو دور کی بات ہے۔
مرید نے سوچا
یہ ضد اور فرمائش میں جو باریک سا فرق ہے اگر کسی ماں کو سمجھ آجائے تو اُس کی اولاد
کا حق ہے کہ وہ کامیاب و بامراد ہو۔ یہاں سب کا حال اتنا بُرا ہو چکا ہے کہ وہ اللہ
سے بھی اپنی ہی منوانے کی ضد کرتے ، عمر کو ضائع اور زندگی کو روگی بنانے پہ تو آمادہ
و تیار ہیں لیکن اس فرق کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کرنا گوارا نہیں کرتے۔ اس میں
کوئی شک نہیں کہ فرمائش کرنا بچے اور بندے کا حق ہے لیکن ضد کرنے والے بچے اور بندے
اپنا خون جلانے، اپنا منہ نوچنے، اپنے کپڑے پھاڑنے کے سوا کر ہی کیا سکتے ہیں؟ فرمائش
کر کے فرمائش پورا کرنے والے پہ چھوڑ دینے کا رویہ اپنائے رکھنے والے ضد کرنے والوں
کی نسبت کس قدر اچھے لگتے ہیں اگر مائیں اپنے بچوں کو صرف یہی ایک بات سمجھا لیں تو
مزید اور انقلاب کی ضرورت ہی نہ رہے۔
مُراد کی چھوٹی سے چھوٹی بات میں کتنی گہرائی اور وزن ہوتا ہے۔ ۔۔وہ اُس کے ذہن کے اُن سب تاریک گوشوں کو منور کر دیتے ۔۔۔۔ جن کی بابت مرید خود بھی نہیں جانتا تھا بلکہ اکثر تو اُسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہاں کوئی ایسا خالی اور تاریک گوشہ بھی موجود ہے جہاں روشنی ہونا ضروری ہے ورنہ تو وہ ٹھوکریں ہی کھاتا رہ جاتا۔مرید حیرتوں سے دوچار ہوتا۔۔۔مزید۔۔۔اور کچھ اور۔۔۔ہل من مزید ۔۔کا تاثر نشر کرتا
اور وہ اُس کی پیاس دور کرنے۔۔۔اُس کی تشنگی مٹانے کو۔۔۔نڈھال
ہونے کی حد تک کوشاں رہتے اور جب تھکن غالب آجاتی تو۔۔۔اچھا بھئی اب آپ آرام کریں۔۔۔کہہ
کر اُٹھ جاتے۔
وہ سوچتا کہ
انہوں نے یہ کیوں نہیں فرمایا کہ میں نے جو کچھ کہا اُس کو یاد رکھیں۔ میں نے آپ کی
خاطر اتنا سر دُکھایا اب آپ یہ سب ضائع مت کر دینا۔۔۔ کبھی کبھی تو وہ سوچتا کہ آخر
وہ اپنے مریدوں سے کیا چاہتے ہیں؟ اُن کو اتنی محنت کر کے کیا ملا؟ اگر اب تک کچھ نہی
تو پھر وہ کیا لالچ ہے جس کی خاطر وہ اُن پہ اتنی محنت کرتے ہیں؟ اب اتنی باتیں انہوں
نے فرمائیں دانش و حکمت کے کتنے موتی اُن پہ وارے۔۔۔۔ مگر کیا وہ اُن کی توقع کے موافق
کسی قابل ہو گئے ؟ کبھی وہ ایسی باتوں کا جواب یہ دیتا کہ اللہ نے اُن کی ڈیوٹی لگائی
ہوئی ہے۔۔۔ اور اس کا اجر انہیں اللہ خود ہی دے گا۔
کبھی وہ سوچتا اللہ کا یہ کیسا عجیب نظام ہے کہ پہلے
ایک بندہ روحانی علوم سیکھنے کی خاطر اتنے جتن کرے، اتنے کشٹ اُٹھائے، اتنی جان مارے
کہ پتہ پانی ہو جائے اور اگر نصیب یاوری کریں اور وہ کچھ سیکھ لے تو پھر اُن علوم کو
برتنے اور استعمال کرنے میں ہلکان ہو۔ مریضوں کو دیکھنے، اُن کے دکھوں ، تکلیفوں اور
کرچی کرچی وجود کو سمیٹنے میں حضور جس قدر محنت کرتے ہیں ابھی اُس محنت کی تھکن اترتی
نہیں کہ اپنے مریدوں کی ترقی اور بھلائی کی خاطر اُن کی تربیت سے نڈھال ہوتے ہیں اور
اک وہ ہیں کہ وہی لٹھ کے لٹھ۔۔۔ کندہ ناتراش۔۔۔ کبھی اُسے اُن کی ہمت اور سکت سے حوصلہ
اور توانائی ملتی اور کبھی وہ دکھی اور افسردہ ہو جاتا۔
اپنے شہر واپس آ کر اُسے لگا کہ وہ اپنے وجود کا کچھ حصہ وہیں کراچی بھول آیا ہے۔ کبھی اُسے لگے کہ وہ ابھی تک پرواز میں ہے اور ابھی تک اُس کے پہیوں نے زمین کو نہیں چھوا۔ ایک عجیب سی بے خیالی، خالی پن اور لاتعلقی کی کیفیت رہی۔ رفتہ
رفتہ ہفتہ دس دن میں وہ اپنی دنیا میں واپس آیا ۔ اپنے ارد گرد
کے لوگوں ، کاروباری تعلق داروں اور واقف لوگوں سے ملنا جلنا شروع کیا۔ سب نے ایک مشترکہ
طور پہ یہ محسوس کی کہ وہ کچھ ٹھہراؤ اور سکون کا انداز اپنائے ہوئے ہے۔ اُس کی بیوی
نے کئی بار برملا یہ تک کہا۔ ابا حضور نے آپ کو خوب سیدھا کر کے بھیجا ہے۔ وہ مُسکرا
دیتا اور اتنا ہی کہتا۔ ہاں مجھے اور کوئی کہاں سیدھا کر سکتا تھا۔ چلیں آپ خوش تو
ہوئیں اور وہ کہتی لو میں بھلا کب خوش نہیں ہوتی۔
دن ، ہفتے اور
مہینوں کو جیسے پر لگ گئے۔ وہ صبح اُٹھ کر کبھی نماز پڑھتا اور کبھی سستی ہو جاتی،
جب نماز پڑھتا تو مراقبہ بھی کرتا۔جب نماز میں سستی ہوتی تو کبھی مراقبہ کر لیتا اور
کبھی اس میں بھی ناغہ کرتا۔ کالم نگاری بھی جاری تھی ۔ ایک کالم لکھ لیتا تہ اگلے چھ
روز نئے کالم کے لئے موضوع اور مضمون کے انتخاب اور اُس کی ذہنی تیاری میں لگا رہتا۔
اس سلسلے میں وہ اپنے مراد کی کسی نہ کسی تحریر کو پڑھتا۔ روحانی ڈائجسٹ آتا تو اُس
کو لگتا کہ ایک فیڈر ہاتھ آ لگا ہے۔ یوں تو وہ اُسے پورا پڑھتا مگر اپنے مراد کی تحریروں
کو پڑھنے میں اُس کو زیادہ مزہ آتا۔
مراقبہ ہال جاتا۔ وہاں نیاز بھائی کوئی نہ کوئی بات ایسی بتاتے جس سے اُس کو اپنے مراد کے حوالے سے کچھ نہ کچھ معلوم ہوتا رہتا۔ نیاز صاحب بابا جی کو اکثر فون کرتے تھے اس لئے ہر جمعے اُن کے پاس بابا جی کے حوالے سے سنانے کو کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا۔ نیاز صاحب کئی پیروں فقیروں سے ملنے کے بعد بابا جی ملے تھے اور کافی گہرے تقابلی موازنے کے بعد انہوں نے اُن کا دامن تھاما تھا اس لئے وہ اپنے مرشد کے کچھ بے طرح کا عشق کرتے تھے۔ اُن کو اپنے مرشد کریم کی تصاویر اتارنے کا بہت شوق تھا اور اُن کے پاس اُن کی تصویروں کا اچھا بڑا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا۔ کبھی کبھی وہ اُسے ابھی اپنی اتاری ہوئی تصاویر دکھاتے اور وہ اپنے مراد کے ان گنت روپ دیکھ کر سوچتا کہ اللہ نے اُن کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت کے کیسے کیسے رنگ پیدا کئے ہیں۔
ایک روز اُس نے خالد نیاز سے فون پہ بات کی۔ اِدھر اُدھر کی
باتوں کے بعد جیسے خالد نیاز کو اچانک کچھ یاد آیا اور اُس نے اُس سے دریافت کیا۔ آپ
کو ابا کا خط ملا؟ اُس نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے بتایا کہ ابا نے اُن سے کہا
تھا کہ وہ اُسے خط لکھیں گے۔ اب وہ انتظار کرنے لگا۔میرا مراد مجھے خط لکھے گا۔ اُنہوں
نے یونہی کہہ دیا ہوگا۔پھر اس بات کو بھی کئی روز گزر گئے۔ ایک روز اُس نے خالد نیاز
کو پھر فون کیا اور کہا کہ بھئی ابھی تک تو مجھے ابا حضور کا کوئی خط نہیں ملا۔ انہوں
نے آپ سے کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کچھ
انہوں نے کچھ بھی بتانے سے صاف انکار کرتے ہوئے اتنا ہی کہا
کہ جب انہوں نے کہا ہے تو وہ ضرور لکھیں گے۔ پھر کہا کہ اُن سے غلطی ہو گئی کہ انہوں
نے اس بات کا تذکرہ اُس سے کر دیا۔ پھر وہ منت کرنے لگے کہ وہ کسی کو بات نہ بتائے۔
اُن کی باتیں
سُن کر اُس کو کچھ عجیب سا لگا۔ اُس نے یہ بات ذہن سے جھٹک دی۔ کئی روز بعد ایک دن
ڈاک میں اُسے اپنے مُراد کا وہ خط ملا جس کا انتظار وہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے کر رہا
تھا۔ اُس نے خط کھولا۔ لکھا تھا۔
عزیز گرامی
قدر۔۔۔۔۔
السلام علیکم
ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی!
الحمد اللہ
میں بمع متعلقین خیریت سے ہوں۔ آپ، بچوں اور شاہین کے لئے دعاگو ہو۔
میرے اندر روح نہیں ہے ۔ میں کھانا نہیں کھا سکتا۔ میرے اندر
روح نہیں ہے تو بیوی کا کوئی تصور نہیں ابھرتا۔ مردہ جسم کو کبھی دفتر جاتے نہیں دیکھا
پھر مطلب یہی ہوا نا کہ میں نہیں بلکہ روح کھاتی ہے۔ روح پیتی ہے۔ روح سوتی اور جاگتی
ہے۔ روح دفتر جاتی ہے اور وہاں سے گھر آتی ہے۔اگر روح نہیں کھاتی۔ روح پیاس نہیں بجھاتی
تو کوئی مردہ جسم لاش کیوں کچھ نہیں کھاتی، پیتی اور حرکت کرتی ہے؟
روحانی فرزند!
آپ مجھے بتائیں
کہ میں پریشان کیوں ہوتا ہوں۔ جب میرا وجود فکشن ہے ، وہ نہ کھاتا پیتا ہے۔۔۔نہ اُس
کے بچے ہوتے ہیں۔۔نہ شوہر ہوتا ہے۔۔نہ بیوی ہوتی ہے۔۔تو مادی وجود کا واویلا کچھ معنی
رکھتا ہے یا یہ صرف دھوکہ اور فریب ہے۔جب مادی وجود کچھ نہیں کرتا۔۔ سب کچھ روح کرتی
ہے تو ہم مادی وجود، مادی وسائل اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے پیچھے کیوں جاتے ہیں؟
روح کی ذمہ داری کو اپنے ناتواں کندھوں پر کیوں اُٹھاتے ہیں۔یہ تو روح کا کام ہے کہ
اگر اُسے ہمارے وجود کی ضرورت ہے تو وہ اس وجود کی ضروریات کو پورا کرے۔ ہم اس مخمصے
میں خود کو برباد کیوں کریں؟میری دُعا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سدا خوش رکھے۔ اور میری
زندگی آپ سے گلے مل جائے۔ میں خوش ہوں اس لئے کہ میں نے مادی وجود کی بے بسی اور مجبوری
کو سمجھ لیا ہے۔ مجھے زندہ رہنے کی خواہش کیوں ہو۔۔۔ جب مادی وجود پر ہر ان ہر لمحہ
فنا ہے۔ میں ایک طفیلی سہارے پر کیوں آس لگاؤں؟
تمام عمر سہاروں
پہ آس رہتی ہے تمام عمر سہارے فریب
دیتے ہیں
اللہ نگہبان
آپ کا روحانی باپ
خواجہ شمس الدین عظیمی
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔