Topics

رفیق اعلیٰ اور شجر ممنوعہ

ایک بار کوئٹہ سے آئی ہوئی ایک خاتون نے کوئی بات دریافت کی تو فرمایا کہ اگر آپ کو مجھ سے محبت ہوتی تو جو میں کہتا ہوں آپ وہ ضرور کرتیں۔ آپ ایک طرف تو مجھ سے اتنا پیار کرتی ہیں کہ کوئٹہ سے چل کر آتی ہیں اور دوسری طرف جو میں کہتا اور کر کے دکھاتا ہوں وہی آپ سے ہو نہیں پاتا تو پھر میں کیا سمجھوں؟ میں نے آپ سے کہا کہ غصہ نہ کیاکریں لیکن آپ سے اتنا سا کام نہیں ہو پا رہا کہ آپ میری خاطر ہی اس سے باز آجائیں۔

          بات سُنتےہوئے اُس کو لگا کہ کہہ تو خاتون کو رہے ہیں لیکن اُن کا اصل مخاطب ہر وہ بندہ ہے جس کے کان تک اُن کی آواز پہنچ رہی ہے اور اُس وقت وہاں اس کے سوا شاید ہی کوئی اور اُن کی طرف متوجہ تھا۔ اب کوئی اس سے زیادہ کیا کرے ؟ خدا کا واسطہ لوگ مانتے نہیں ، ماں باپ کو اس قابل نہیں جانتے کہ اُن کی بات پہ عمل کریں۔ اساتذہ کرام کی بات پہ اس لئے توجہ نہیں دیتے کہ وہ خود کون سا اُس پہ عمل پیرا اور کاربند ہیں۔۔۔ تو انہوں نے اپنا واسطہ اور مثال دے کر اُسے غصہ سے منع فرمایا ہے۔


اُن کے اندازِ تربیت کی ایک خاص ادا جو اُس بہت توجہ سے نوٹ کی وہ یہ ہے کہ وہ پہلے اشاروں کنایوں میں بندے کو اُس کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اگر اُس کو اتنی طاقت کا احساس ہی نہ ہو تو پھر صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ بھئی ا س خامی کو دور کر لو۔ اور یہ کام وہ بار بار کرتے ہیں اور اگر پھر بھی کوئی اس پہ آمادہ نہ ہو یا اپنی خامی کو دور کرنے کی کوشش ہی نہ کرے تو پھر اُن کا لہجہ دو ٹوک ہوتا چلا جاتا ہے۔

          باتوں باتوں میں وہ یہ بھی جتاتے رہتے ہیں کہ اگر آپ کو روحانی علوم یا روحانیت سے کوئی دلچسپی ہے تو پہلے برتن صاف کریں تا کہ اُس میں دودھ ڈالا جا سکے۔ یعنی اگر اخلاقی ، اور علمی طور پر آپ اس قابل نہیں کہ اللہ کی مخلوق سے اپنے روابط درست اور استوار رکھ سکیں تو آپ اس قابل کیسے اور کیوں کر ہو سکتے ہیں کہ آپ کو روحانی علوم جیسی بیش بہا دولت سے سرفراز کر دیا جائے۔ جایئے پہلے خود کو درست کریں جب آپ مخلوق خدا کے قابل ہو جائیں گے تو اللہ بھی مل ہی جائے گا۔

          ایک صاحب نے دُعا کے لئے درخواست کی تو فرمایا۔ آپ کو اپنی والدہ سے دعا لینی چاہئے۔ ساتھ میں دلجوئی اور پردہ داری کو یہ بھی کہا۔ اللہ تعالیٰ اولاد کے حق میں ماں کی دُعا کو بہت سُنتے ہیں۔ پیر و مرشد کی دُعا سے بھی زیادہ۔ اب اگر پھر بھی کوئی جا کر اپنی والدہ کا کندھا دبا کر یہ نہ کہہ سکے کہ امی مجھ سے غلطی ہوگئی، مجھے معاف کر دیں تو اُ س کا کوئی کیا کر سکتا ہے۔

          اسی طرح جس نے جو بات پوچھی اور جتنی پوچھی اتنی ہی بات کا جواب دیں گے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے پوچھا کہ اس بیماری کا کیا علاج ہے اور آپ نے وجوہات اور اسباب گنوا کر علاج بتایا ہو۔یا یہ کہ کسی نے کسی بیماری کا تذکرہ کر کے اُس کے اسباب و علل پوچھے ہوں اور وہ علاج بتانے بیٹھ گئے ہوں۔ فالتو بات نہ خود کہیں گے اور نہ ہی کبھی کسی اور کو یہ جرات ہوتی ہے کہ وہ فالتو بات اُن کے سامنے کہہ سکے۔ ہاں سیکھنے سکھانے کے لئے آپ کچھ بھی دریافت کریں کتنی ہی لایعنی بات



دریافت کریں۔۔ اگر اُس میں ایک فیصد بھی آپ کے بھلے کی کوئی بات ہوگی تو ضرور راہنمائی فرما دیں گے ورنہ خوبصورتی سے ٹال دیں گے کہ آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بات آپ کے بھلے کی نہیں ۔

          ایک بار مرید نے دریافت کیا کہ وہ روحانی اصطلاحات کی ڈکشنری مرتب کرے تو کیسا رہے گا۔ پوچھا۔ اس سے ہوگا کیا؟ مرید نے کافی اندازے لگانے کے بعد خود ہی کہہ دیا۔۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ نے اُس سے یہ نہیں کہا۔ تو پھر ایسا کرنے کا کیا فائدہ بلکہ فرمایا۔ بھئی جب وقت آئے گا تو اللہ یہ بھی کروا دے گا۔

          دستر خوان سے اُٹھنے سے پیشتر حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ کا بتایا ہوا ایک تمثیلی واقعہ سُنایا۔

          ایک بار ایک بوڑھا بندر شہر آیا ۔انسانوں کی اتنی بستی اُس نے اس سے بیشتر کبھی نہ دیکھی۔ وہ کئی روز اِدھر اُدھر گھوما پھرا۔جب وہ واپس جنگل پہنچا تو چھوٹے بڑے سب اُس کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے اور پوچھا کہ تم نے شہر میں کیا کیا دیکھا۔وہ بتاتا رہا کہ اُس نے ایسی ایسی عمارتیں دیکھیں۔۔رنگ برنگی روشنیاں دیکھیں۔ گاڑیاں دیکھیں شاپنگ مال دیکھے۔ ایک بندر نے اُس سے پوچھا۔ یہ بتاؤ کہ تم نے وہاں سب سے عجیب بات کیا دیکھی؟ اُس نے کہا۔ مجھے ایک بات پہ بہت حیرت ہے۔ انسان گھروں میں رہتے ہیں۔ جب صبح ہوتی ہے تو مادہ اور اس کے بچے نر سے خوب لڑتے خو خو کرتے ہیں۔۔۔ اُسے نوچتے کھسوٹتے ہیں۔ وہ تنگ آکر گھر سے باہر چلا جاتا ہے۔ لیکن جب شام ہوتی ہے تو گھر واپس آجاتا ہے۔ جونہی گھر میں داخل ہوتا ہے مادہ اور بچے اُس کے گرد ہو جاتے اور پھر خو خو۔ اس سوال پوچھنے والے بندر نے کہا۔ اُس کے پیر میں ضرور رسی بندھی ہوگی۔ بوڑھا بندر بولا۔ یہی تو مجھے بھی حیرت ہے۔ میں نے کوئی رسی وسی بھی نہیں دیکھی لیکن وہ پھر بھی واپس آجاتا ہے اور روزانہ یہی ہوتا ہے۔


          سبھی سننے والے ہنس پڑے تو فرمایا۔ یہ واقعہ انہوں نے کبھی کسی کتاب میں تو نہیں پڑھا یہ ضرور حضور قلندر بابا اولیا ء ؒکا طبع زاد ہوگا۔ اتنا کہہ کر وہ اُٹھ گئے۔ سبھی کھلکھلاتے ہوئے ادب سے کھڑے ہو گئے ۔ کمرے سے باہر نکلے تو اُس نے ایک چہل پہل سی دیکھی۔ معلوم ہوا آج قلندر شعور کی کلاس ہوگی اور حضور مرشدِ کریم خود لیکچر دیں گے۔

          اب وہ اس چکر میں چکرانا شروع ہوا کہ کسی طرح اُسے اس کلاس میں بیٹھنے کی اجازت مل جائے۔ اُس نے منصور الحسن سے بات کی۔ منصور کا تعلق پشاور ہی سے تھا اور وہ اُس سے پشاور ہی میں متعارف ہوا تھا۔ وہ نہایت مخلص اور عقیدت مند کارکنان میں سے ہیں۔ انہوں نے صاف ہی کہہ دیا جو حضور فرمائیں گے ۔ ہم کون ہوتے ہیں آپ کو منع کرنے والے یا اجازت دینے والے۔ اُس نے جا کر مرشدِ کریم سے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے فرمایا۔ ہاں ہاں۔۔ کیوں نہیں۔۔۔آپ منصور بھائی سے کہہ دیں۔

          کلاس میں داخل ہوا تو پینتیس چالیس طلبا دو رویہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے حضور کا انتظار کر رہے تھے۔ منصور صاحب کلاس کے مانیٹر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ ہلکی پھلکی باتیں بھی ہو رہی تھیں۔ منصور وائٹ بورڈ پہ تاریخ اور سبق کا عنوان لکھ رہے تھے کہ ایک طالب علم نے۔۔۔ حضور آرہے ہیں۔۔۔ کہا تو پوری جماعت کا ماحول یک دم ہی تبدیل ہو گیا۔ اُس کو تقدیس کا لفظ دھیان میں آیا ۔ مرشدِ کریم آ کر کرسی  مدرس پہ تشریف فرما ہوئے۔ منصور نے کتاب کھول کر اُن کے سامنے میز پہ رکھی۔ آپ نے اُن سے کچھ دریافت کیا۔ اُنہوں نے بتایا اور ٹھیک ہے کا اشارہ پا کر وہ اپنی نشست پہ جا کر بیٹھ گئے۔

          کچھ دیر سکوت کے بعد لیکچر کا آغاز ہوا۔ آپ نے بتایا کہ انسان خوشی کے بارے میں ان نابیناؤں جیسا وطیرہ رکھتا ہے جو ہاتھی سے واقف نہ تھے اور اُسے ٹٹول کر اُس


کے بارے میں اندازے لگا رہے تھے۔ خوشی کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان خوشی سے واقف ہی نہیں۔ خوشی تو جنت کی ایک کیفیت ہے جو بدلتی نہیں۔ متغیر نہیں۔۔۔ لا متغیر ولا متبدل ہے۔ تغیر میں خوشی نہیں ہوتی۔ زندگی ایک کیفیت ہے اور کیفیت کے سوا کچھ نہیں جس میں ہر لحظہ تغیر واقع ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں وہ عنصر جس میں تغیر واقع نہیں ہوتا۔۔ خوشی ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ کا فرمان ہے۔ انسان اگر شعوری کیفیات و واردات سے آزاد ہو کر بے کیف ہو جائے تو یہ اصل خوشی ہے۔

          اب یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ اس طرح ممکن ہے کہ ہمارے لئے ہمارا جسم اہم ہے۔ ہم زندگی کو جسم سے منسلک سمجھتے ہیں۔ لاشعور ہمیں ہمارے جسم کے بارے میں اطلاع فراہم کرتا ہے اور یہی اطلاع شعور ہے۔۔خوشی اور غم۔۔۔کسی چیز سے ہماری Attachment کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ آپ کسی کو اپنی مرضی سے ۵ ہزار روپے دے دیں۔۔ آپ کو دُکھ نہیں ہوتا۔۔ بلکہ بعض اوقات خوشی ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ سے ۵۰۰ روپے کھو جائیں۔۔۔ تو وہ آپ کو بھول کر نہیں دیتے یعنی آپ نے ۵۰۰ روپے سے اپنا تعلق شعوری طور پر ختم نہیں کیا۔۔ اس لئے دُکھ ہوا۔

          ایک آدمی جس کی عمر ۲۰ سال ہے اُس کی زندگی کا ہر لمحہ انسانی جسم سے تعلق اور دلچسپی کی داستان ہے۔۔۔ جسم بیمار ہوتا ہے تو یہ محض ایک کیفیت کا اظہار ہے۔ جسم تو محض ایک ذریعہ ہے کسی وجود کے اظہار کا۔۔۔ جیسے کوئی تقریر کرے اور آواز لاؤڈ سپیکر سے آ رہی ہو تو لاؤڈ سپیکر نے تو تقریر نہیں کی نا۔

          جسم انسانی بے اختیار ہے۔ شعور اگر اطلاع فراہم نہ کرے تو جسم اس لاؤڈ سپیکر کی طرح ہے جس پر کوئی تقریر نہ کی جا رہی ہو۔ جسم کی بنیاد شعور ہے اور شعور کی بنیاد کہیں سے موصول ہونے والی اطلاع ہے۔ جسم بعض اوقات اطلاعات سے بلند ہو جاتا ہے جیسے سونے کی حالت۔



 

 
اس جیتی جاگتی تصویر یعنی اس جسم کی اپنی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے۔ اس جیتی جاگتی تصویر یعنی اس جسم کو کوئی ایجنسی متحرک رکھے ہوئے ہے اور اس ایجنسی کا نام شعور ہے۔ محض شعور ہی کی بنیاد پر زندگی کا تسلسل جاری ہے۔

          جب شعور عالم ناسوت کی زندگی سے عارضی طور پر رشتہ منقطع کر لیتا ہے اور دوسرے عالم میں منتقل ہو جاتا ہے۔۔ تو وہ اس مصدر اطلاعات کے قریب ہو جاتا ہے جو انسان کی اصل ہے اور اس عالم میں چونکہ کوئی تغیر نہیں ہے۔۔ا س لئے وہ جو اطلاعات موصول کرتا ہے وہ براہ راست موصول کرتا ہے۔

          لیکچر کے بعد شام تک مرشد کریم نظر نہ آئے ۔ اُسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں تو وہ اُن سے ملنے اُن کے کمرے میں جا پہنچا۔ یہ وہ کمرہ نہ تھا جہاں وہ پہلے آ چکا تھا۔ یہ پہلے کمرے کی مشرقی سمت درمیان میں ایک برآمدہ چھوڑ کر بنایا گیا تھا۔ اس پہ کوئی تختی نہ تھی۔ اس کمرے کے ساتھ ملحق ایک چھوٹا سا کچن بھی تھا جسے ابا حضور اور اُن کے مہمانوں کے لئے چائے بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ کچن کا چارج خالہ صدیقہ کو دیا گیا تھا۔ وہ کچن کے علاوہ مراقبہ ہال سٹور کی دیکھ بھال کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہیں۔ اُس نے دروازہ کھولا۔ اجازت طلب کی اور اندر داخل ہوا۔

          کمرہ سادگی اور نفاست کا آئینہ دار تھا۔ کہیں کوئی چیز بے ترتیب نہ تھی۔ کمرے میں واحد فرنیچر ایک تخت پوش تھا۔ جس پہ فرش پہ بچھائے گئے قالین اور دیوار پہ آویزاں پردوں سے میچ کرتی چادر بچھی ہوئی تھی۔ اُس نے کہیں کوئی شکن نہ دیکھی۔ نہ کمرے میں بچھی چادر پہ، نہ تکیے پہ اور نہ ہی صاحب کمرہ کے ماتھے پر۔

          آپ سامنے کھڑکی کے نیچے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ اردگرد کوئی کاغذ یا کتاب نہ تھی۔ وہ سلام کر کے اُن کے

سامنے دروازے کی طرف پشت کر کے زمین پہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔


          انہوں نے دریافت کیا۔ آپ کو ہمارا لیکچر کیسا لگا؟ مرید کیا عرض کرتا۔۔اُس کو تعریف کا ہر لفظ چھوٹا، بے معنی اور نامناسب لگا۔۔۔۔اُس نے چاہا کہہ دے کہ ندرت اور حقیقت کا اک خوبصورت امتزاج۔۔۔علم و معرفت۔۔۔آگہی اور وجدان کی آبیاری۔۔۔۔کرنا تو کوئی آپ سے سیکھے۔۔۔لیکن یہ سب اُن کے سامنے کہنے میں جانے کیا امر مانع ہوا ،اور اپنی بے بضاعتی پہ اُس نے سر جھکاتے ہو ئے اتنا ہی کہا۔ لاجواب!

          فرمایا ایک ان پڑھ پڑھے لکھے باشعور افراد کو پڑھانے بیٹھ جاتا ہے۔ مرید کو ایک جھٹکا سا لگا۔ اُس نے لجاجت سے عرض کی۔۔۔حضور ایسا تو نہ کہیں۔۔۔۔ یہ تو ہماری خوش بختی اور سعادت ہے۔ فرمایا یہی تو میں کہتا ہوں کہ یہ میری خوش بختی ہے کہ مجھے آپ جیسے شعور والے تعلیم یافتہ لوگ مل گئے ہیں۔

          اُس نے تغیر کے حوالے سے ایک سوال پوچھنے کی اجازت طلب کی اور کہا۔" کل یوم ھو فی شان "کا کیا مطلب ہوا؟

          فرمایا۔ ایک بچہ ہے۔ آپ نے اُس کا نام شمس الدین رکھا۔ تو کیا یہ نام میرا ہوگیا؟

          مرید نے کہنا چاہا تو اور کس کا ہوا آپ ہی کا تو ہوا۔ لیکن جانے وہ کون سا زاویہ نظر عطا کرنے والے ہیں۔ اس لئے وہ خاموشی سے اُن کو تکتا رہا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ پہلے سے بنے ہوئے سانچے میں اُن کی بات نہیں بیٹھ رہی تو فرمایا۔ بھئی نام ایک پرائی چیز ہے۔ انسان کا اپنا تو کچھ بھی نہیں۔ حتیٰ کہ اُس کا نام تک اُس کا اپنا نہیں۔ ماں باپ نے نام رکھا۔۔۔بچے کے ساتھ لکھا ہوا تو نہیں آیا نا۔۔۔اب بچپن گزرا۔۔جوانی آئی۔۔۔جوانی گئی۔۔سب کچھ بدل گیا۔۔۔نام وہی کا وہی رہا۔۔۔ جب بچہ کا سب کا سب بدل گیا اور نام وہی کا وہی رہا تو یہ کیا ہوا؟

          مرید کیا کہتا۔ اُسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی۔ اُس نے چاہا کہہ دے کہ نام تو قائم رہا نا ۔۔۔لیکن وہ اب اتنا تو سمجھنے لگ گیا تھا کہ جب مرشد بات کرتا ہے اور۔۔۔۔ اگر



وہ بات جو وہ کہہ رہا ہو۔۔۔ فہم میں جگہ نہ بنا رہی ہو تو۔۔۔ یہ مرید کی اپنی کج فہمی کے سبب ہی ہوتا ہے۔ شعور ایسی بات کو سمجھنے میں ہی تو مزاحمت کرتا ہے جو اُس کو درست کرنے والی ہو۔ وہ ٹک ٹک دیدم کی تصویر بنا انہیں دیکھ رہا تھا۔

          بھئی یہ سب فکشن ہوا۔۔۔ مفروضہ ہوا۔ ۔۔ یاد رکھیں حقیقت بدلتی نہیں۔۔۔ اُس میں تغیر نہیں ہوتا اور جس میں تغیر

ہے وہ سب فکشن ہے۔۔۔ فکشن کے سوا کچھ نہیں۔ اصل میں نام رکھنا ہی ساری گڑ بڑ کا سبب ہے۔

          فرمایا۔ انما امرہ، اذا ارادہ شیاً۔۔۔یعنی جب اُس کا امر کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس کو حکم دیتا ہے، ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ یعنی اللہ کُن نہیں کہتا۔۔۔اُس کاامر کُن کہتا ہے۔۔۔ یہاں اللہ نے خود کو الگ کر لیا ہے۔یعنی تغیر ذات میں نہیں ہوتا۔صفات میں ہوتا ہے۔ صفات کا تغیر ہی رنگینی کائنات کا سبب اور یہ سب فکشن ہی تو ہے۔

          اس کے ساتھ ہی ہر بات صاف ہوتی چلی گئی کہ اپنا نا م کیوں اپنا نہیں ہوتا اور نام تو محض ایک علامت ہے۔۔ایک لیبل ہے ڈبے پہ لگا ہوا۔۔۔ جس میں فطرت کبھی کچھ کبھی کچھ ڈالتی چلی جاتی ہے۔۔ا س نام کے حامل بندے میں کتنا تغیر ہو چکا ہے۔۔۔ ہو رہا ہے۔۔۔۔یا آئندہ کبھی ہوگا۔ اس لئے سب فکشن ہے اور بے حقیقتی ہے۔ حقیقی تو یہاں کچھ بھی نہیں۔ اُس نے محسوس کیا کہ بے ثباتی کے درست ادراک کے لئے اگر یہ بنیادی بات وہ نہ سمجھتا تو وہ کبھی کچھ بھی نہ سمجھ سکتا۔ اُسے لگا وہ ابھی ابھی پیدا ہوا ہے اور وہ کچھ جانتا ہی نہیں۔ اس کو یقین ہو چلا کہ اب وہ غیر حقیقی کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرے گا۔



اُس کا مراد اُس کی کیفیات کو سمجھنے میں مستعد اور اُس کی مدد کو تیار۔۔۔۔کہہ رہا تھا۔ یہ یقین بھی ایک کیفیت ہے۔۔۔بے یقینی بھی ایک کیفیت ہے اور کیفیت اطلاع میں معنی پہنانے کو کہتے ہیں۔

          پھر مزید وضاحت کو ارشاد فرمایا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غورو فکر سے بتوں کی بے چارگی کا سراغ لگایا۔ بتوں کی بے چارگی دیکھ کر انہوں نے اپنے رب کی تلاش میں غورو فکر کرنا شروع کر دیا۔ ستارہ دیکھ کر کہا۔ یہ میرا رب ہے مگر جب وہ غروب ہو گیا تو کہا۔ نہیں۔۔۔ غروب ہونے والی چیز میرا رب نہیں ہوسکتی۔ چاند دیکھا تو کہا۔ گھٹتی بڑھتی شے میرا رب نہیں ہو سکتی۔ پھر سورج دیکھ کر فرمایا۔ ڈوب جانے والا میرا رب کیونکر ہو سکتا ہے۔۔۔یعنی اب اُن کو لامتغیر کی تلاش ہوئی۔ اُس ذات سے دوری ہونا جو گھٹتی بڑھتی نہیں۔۔ ۔۔۔بے یقینی ہے اور اُس کا قرب ہی یقین ہے۔

          تقرب الٰہیہ یہ یقین عطا کرتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ انسان کی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہے۔ جب انسان کو یہ بات سمجھ آجاتی ہے تو وہ پُر یقین ہو جاتا ہے۔

          وسوسوں کا تعلق بے یقینی سے ہے اور وسوسہ سے بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔ بے یقینی نفرت کو جنم دیتی ہے اور نفرت انتقام پیدا کرتی ہے۔ انتقام غصہ پیدا کرتا ہے اور غصہ کرنے سے جسمانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ ہونا لازم ہوتا ہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور انسان کا ہر قدم اندھیروں کی طرف اُٹھتا ہے۔ وسوسہ شیطان کا عمل دخل ہے۔ ذہن میں یقین ہے تو اندیشہ نہیں ہوگا۔ اندیشہ نہیں ہوگا تو بے یقینی اور اس سے جڑے لازمی نتائج بھی نہیں ہوں گے۔

          اُس سے دریافت کیا۔ آپ کی عمر اب کتنی ہے۔۔۔ اور پیشتر اس کے وہ لب کشائی کرتا فرمایا۔۔۔ چالیس تو ہوگی۔۔۔اُس نے اثبات میں سر ہلایا تو فرمایا جس اللہ نے چالیس


سال تک آپ کی حفاظت کی وہ اب نہیں کرے گا۔۔یقین کا پیٹرن جتنا ارفع ہوگا خوف اور غم سے اسی قدر نجات ہو گی۔ آپ جتنا اللہ کے قریب ہوں گے اُتنا ہی آپ پُر یقین ہوں گے۔

          اور پھر یہ کہہ کر موضوع کو لپیٹ دیا کہ انسان ساٹھ کا ہو کر بھی آئندہ پانچ سال کے لئے متفکر رہتا ہے۔ یہ نہیں سوچتا کہ جس نے اُسے ساٹھ سال تک کھلایا وہ اُس کو مزید پانچ دس سال اور بھی کھلا ہی دے گا۔اگر اللہ نے اُسے فاقے ہی مارنا ہوتا تو اُسے ساٹھ سال تک کیوں کھلایا۔۔۔پہلے ہی کیوں نہ مار دیا۔ انسان کے پیچھے تو دیکھتا ہی نہیں۔۔۔ یہ دولت اور اولاد تو خود اپنے وجود کے لئے کسی کی محتاج ہیں۔ ان سے کیسی توقعات۔ یقین روحانیت ہے۔ شیطنت شک اور بے یقینی کے سوا اور کچھ نہیں۔

          پھر بات کو ایک دوسرے زاویے سے سمجھانے کو فرمایا۔ کسی کا نام رکھنا ہی تو غلط ہے۔ نام رکھنے سے ہی تو ساری گڑ بڑ ہوتی ہے۔ نام رکھ کر ہم اُسے محدود کر دیتے ہیں۔ اُس کو مخصوص نظریات کی حدود میں قید کر دیتے ہیں۔ اس لئے تو حضور ﷺ نے اللہ سے دُعا کی تھی کہ مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے یعنی اللہ اور ہے اور رفیق اعلیٰ اور۔۔۔۔بھئی اللہ نام ہے لہذا اس کی حدود ہوئیں جبکہ رفیق اعلیٰ صفت ہے نام نہیں۔ یعنی حضورؐ اللہ کو حدود سے ماوراء عالم میں ملنا چاہتے تھے۔

          مرید نے بات سن کر خود کو اُن سے اتنا قریب محسوس کیا کہ پہلی ملاقات پہ جو خلش رہ گئی تھی وہ سامنے لانے میں اب کوئی امر مانع نہ ہو سکتا تھا۔ اُس نے پوچھا۔ حضور یہ شجر ممنوعہ کیا ہے؟

          فرمایا۔نافرمانی کا درخت ہے۔پھر اپنی بات کی وضاحت کو کہا۔ ایک نافرمانی کے بعد دوسری نافرمانی اور پھر تیسری نافرمانی کا ہونا۔۔۔یعنی نافرمانی کا شاخ در شاخ پھیل کر درخت بن جاتی ہے۔


جیسے سدرۃ المنتہٰی ۔۔۔۔بیری کا وہ درخت جو بہت ہی گھنا اور بڑا ہو۔ دراصل یہ سب مثالیں ہیں بات کو بیان کرنے کے لئے۔ جیسے سمندر کو بیان کرنا ہو تو کہتے ہیں۔۔۔پانی ہے۔۔۔۔پانی میں بڑی بڑی لہریں اُٹھتی ہیں۔ ساحل سے ٹکرا کر واپس پلٹ جاتی ہیں۔۔یعنی ایک بڑی چیز کو بیان کرنے کے لئے اُس کو چھوٹی چھوٹی اشیا سے واضح کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سدرۃ المنتہیٰ انتہائی گھنا، بڑا

اور وسیع درخت لامحدودیت کا سمبل ہے لیکن اپنی تمام تر لا محدودیت کے باوجود محدود ہی ہے۔ اس سے آگے قاب قوسین ہے۔۔۔یعنی فاصلہ نہیں رہا۔جب فاصلہ نہیں رہا۔۔تو خدوخال اور ڈائمینشن (ابعاد) بھی نہ رہے۔۔اسپیس بھی نہیں رہا۔

          فرمایا تصوف میں بیان کردہ مختلف لطائف بھی خلا کے مختلف نام ہیں۔ خلا میں کوئی درجہ بندی نہیں ہوتی یعنی گریڈیشن نہیں ہوتی یہ سب اصطلاحی نام یعنی Technical Term ہیں۔

          تصوف کی کتابوں میں اکثر لطائف کا نام ہی بتایا گیا ہے۔ امداد اللہ مہاجر مکی کی لکھی ہوئی کتاب بہت عمدہ کتاب ہے لیکن اُس میں لطائف کے رنگ مختلف بتائے گئے ہیں۔ پھر فرمایا دراصل لطائف اُس طرح نہیں ہیں جس طرح بتایا جاتا ہے۔ یہ سب لوگوں کو بات سمجھنے اور سمجھانے کے طریقے ہیں۔

          مرید نے نظریہ رنگ و نور کے حوالے سے بات کی تو فرمایا۔ روحانی علوم کے تین شعبے ہوتے ہیں۔۔۔اجمال، تفصیل اور اسرار۔ اجمال خلاصہ کو کہتے ہیں۔ آپ اسے کتاب کے دیباچے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔۔تفصیل۔۔یہ کتاب کا پورا متن ہوا اور اسرار۔۔۔کتاب کا مفہوم ہوا۔



اجمال کے معلمین گروہِ جبرائیل جیسے مقرب فرشتے ہیں، تفصیل حضور ﷺ خود پڑھاتے ہیں اور اسرار اللہ تعالیٰ۔ اجمال خلاصہ ہے اور تفصیل اور اسرار تعلیمات ہیں۔ علم لدنی میں اللہ تعالیٰ جس بندے کو خود ہی منتخب کر کے اُسے جو چاہیں تعلیم کر دیں۔

          نظریہ رنگ و نور روحانی علوم کا خلاصہ نہیں ہے۔ یہ خلاصے اور تفصیل کے بین بین ہے۔

          قلندر بابا اولیاؒ نے اسرار کو مغیباتِ اکوان کا نام دیا ہے ۔ یعنی غیب کے سسٹم کا Analysis خلاصہ۔۔۔سمری ہوا، تفصیل Detail کو کہہ لیں تو اسرار کسی سسٹم کے پیچھے کام کرنے والی مقصدیت ہی قرار پاتی ہے۔

          حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ کی تعلیمات ساٹھ سال کی عمر سے شروع ہوں گی۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ کی اپنی تعلیمات ساڑھے تین سال میں مکمل ہو گئی تھیں۔

          مرید سے رہا نہ گیا اور اُس نے پوچھا ۔”اور آپ کی۔“

          نہایت معصومیت سے کہا۔۔ ابھی تک تو شروع نہیں ہو سکیں۔

          وہ کیوں؟۔۔۔ اُس نے استعجاب سے کہا۔

          بھئی سلسلے کے کاموں سے فرصت ہوگی تو اوپر والے پڑھائیں گے۔۔۔ پھر عجب سے لہجے میں کہا۔۔”حضور قلندر بابا اولیاؒہیں نا۔۔۔ ان معاملات کو وہ خود ہی دیکھ لیں گے۔

          مرید نے اسمائے الہٰیہ اور تدلیٰ کے بارے میں حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ  کی اس تعریف کی بابت کہ تدلیٰ اسمائے الہٰیہ کی تشکیل کا نام ہے۔۔۔ پوچھا تو فرمایا۔ دراصل


حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے بات کو سمجھانے کے لئے لوح و قلم میں مشاہداتی طرزوں سے ہٹ کر لکھا ہے۔ ورنہ تو تدلیٰ ہی خدا ہے۔ اللہ تعالی کو ہی تدلیٰ کہیں گے۔

          مرید نے رال ٹپکاتے ہوئے مشاہداتی طرزِ فکر کے حصول کا طریقہ دریافت کیا تو فرمایا۔

          ” آپ لگے رہیں۔۔۔ اپنے وقت پہ ہو جائے گا۔۔پھر کہا کہ بھئی اپنا شکار خود ہی مار کر کھانا چاہئے۔ ہتھیار دوسرے کا ہو اور شکار اپنا مارا ہوا ہو تو اُس کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔پھر کچھ سوچ کر فرمایا۔۔ ویسے دوسرے کا ہتھیار ہو تو آدمی احتیاط کرتا ہے۔

          پھر اچانک دریافت کیا۔۔۔آپ نے ایم اے کتنے سالوں میں کیا۔ عرض کی۔ سولہ سال میں ۔ فرمایا ۔ یوں سمجھیں کہ ابھی تو آپ کو اس راستے پہ آئے سولہ ماہ ہی ہوئے ہیں۔ روحانیت تو لامحدودیت کا سفر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ روح کو قلیل علم دیا گیا ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اللہ کا علم لا محدود ہے تو لامحدود کا جزو بھی لامحدود ہی ہوگا۔

          اپنے مرشد کریم کے سامنے سے ہٹ کر اُس نے اپنے ذہن کو ٹٹولا تو اُس کو کسی قدر مزید اجلا اور نکھرا پایا۔ الجھے ہوئے پُر پیچ سوال کچھ ایسے مدہم اور دھندلے ہو چکے تھے گویا کسی نے پنسل کی تحریر کو ربڑ سے مٹا دیا ہو۔ اب وہ پڑھنے میں تو نہیں آرہے تھے لیکن نشانات  قلم کی صورت اُن کی یاد باقی تھی۔

          اس ملاقات کے بعد مرشد کریم کے قریب جانا اور باتیں سننے کی سعی کرتا۔ اکثر وہ اُسے مریضوں میں گھرے ہوئے ملتے۔ یا لوگ اُن سے اپنے مسئلے مسائل دریافت کرے ہوتے۔ وہ اخلاقاً دور رُک جاتا۔ کبھی کبھار وہ دیکھتا کہ کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں جن کو حضور باقاعدہ الگ وقت دیتے۔ بعد میں ایک بار فرمایا یہ کسی نہ کسی کی سفارش کروا کر وقت لینے والے افراد ہیں۔ کبھی بڑے صاحبزادے بھائی جان وقار یوسف یا ان کے اہلِ خانہ، سلام عارف اور امی حضور اُن کے پاس ہوتے۔ ایک بار دفتر میں



دیکھا کہ سب سے چھوٹے برخودار شاہ عالم اپنی درسی کتاب کا سبق ابا سے پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کاپی پہ کچھ لکھ کر دکھایا تو فرمایا۔ یار اپنی رائٹنگ

تو ٹھیک کرو۔ شاہ عالم اُس وقت آٹھویں کا امتحان دینے کی تیاری کر رہے تھے۔

          باقی سب روٹین ویسا ہی چلتا۔۔۔ علیٰ الصبح نماز۔۔۔۔ نماز کے بعد مراقبہ۔۔۔مراقبہ کے بعد درس۔۔درس کے بعد سیر کو روانہ ہوتے اور باقی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔ وہ کبھی اِدھر اُدھر ٹہلتا رہتا اور کبھی وہاں آئے لوگوں سے ملنا ملانا ہوتا۔ پھر ناشتہ ہوتا۔ کبھی ابا اُن کے ساتھ ناشتہ کرتے اور کبھی خالہ صدیقہ ابا حضور کا ناشتہ اُن کے کمرے میں لے جاتیں۔ ناشتے پہ منصور بھائی سے چہلیں ہو جاتیں۔ وہ بھی مزہ لیتے اور سننے والے بھی لطف اندوز ہوتے۔ کبھی کبھار وہ اُن سے مرشد کریم کے حوالے سے کوئی بات سنتا۔۔۔وہ اپنے ذاتی واقعات بتاتے۔۔۔سلسلے میں کیسے آنا ہوا۔۔۔۔ کیوں آئے یا پھر مرشد کریم سے سنی ہوئی کوئی بات بتاتے۔

          کامران باسط کو حضور نے دفتری امور اور مراقبہ ہال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دے رکھی ہے۔ وہ انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ کبھی وہ اُن کے پاس جا بیٹھتا۔ وہ اُس سے ابا حضور سے سنی تازہ بات کی بابت پوچھتے۔۔اُن کو بات سُنا کر اُسے بھی اچھا لگتا۔ وہ خالد نیاز کے بہت اچھے دوست ہیں اس حوالے سے بھی اکثر دونوں میں بات ہوتی رہتی۔ وہاں عادل اسماعیل سے بھی بات چیت ہوتی رہتی۔ وہ سب اُس کو اس لئے وقعت دیتے کہ مرشد کریم نے اُس کی غیر حاضری میں چند ایک بار اُس کو اچھے الفاظ میں یاد کیا تھا۔

          اُس روز منصور بھائی نے اُس کو بتایا کہ آج پھر قلندر شعور کی کلاس ہے اگر آپ آنا چاہیں ۔ اُسے حیرت ہوئی۔ یہ پورا ایک ہفتہ اتنی جلد کیسے گزرا کہ اُسے احساس تک نہ ہوا۔ نہ بیوی بچے یاد آئے نہ کاروبار کا دھیان آیا ۔ اُس نے حیرت کے اظہار کی بجائے چہل کے انداز میں کہا۔ تم پھر کہو گے ابا حضور سے پوچھ کر آئیں۔ رہنے دو


بھائی۔ اُسے مزید حیرت ہوئی جب منصور نے یہ کہا۔ ابا نے آپ کے لئے خصوصی اجازت دی تھی۔۔۔سو وہ اجازت اُس وقت تک Valid ہے۔ جب تک وہ اسے خود کینسل نہ کر دیں۔ پھر شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔اور اس خصوصی رعایت کو کینسل کروانے کے لئے آپ کو کوئی خصوصی غلطی کرنا ہوگی اور اگر آپ سے ہو چکی ہے اور ہمیں معلوم نہیں تو آپ ہمیں بتا دیں۔ ہم حضور کو بتا دیں گے۔

          اُسے یاد آیا کہ ایک بار عرس پہ پشاور کے دوستوں کا قافلہ مراقبہ ہال پہنچا اور وہ سب ابا حضور سے مل رہے تھے تو ابا نے منصور صاحب کو گلے لگاتے ہوئے فرمایا تھا۔۔ چھوٹے سے بڑے آدمی ہیں۔ قدوقامت میں وہ بھلے ہی مختصر سہی اپنے مرشد کی عقیدت کے حوالے سے وہ واقعی بہت بڑے ہیں۔ سٹیٹ بنک میں اُن کی ملازمت اور کراچی پوسٹنگ میں اُن کی اصل غایت ہی یہ تھی کہ وہ اپنے مرشد کریم کے قریب رہ سکیں۔ اُن کی اس خواہش کو مرشد کریم نے پورا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ انہوں نے اپنی رہائش پہلے تو مراقبہ ہال میں ہی رکھی اور پھر ازدواجی زندگی کا آغاز کرنے سے پہلے مراقبہ ہال کے سامنے ہی گھر لے لیا۔

          کلاس روم میں داخل ہو کر وہ ایک کرسی پہ بیٹھ گیا۔ حضور تشریف لائے اور لیکچر ارشاد فرمایا کہ اس دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے حواس سے واقف ہوتا ہے۔ اُس کی سماعت الست  بربکم کی آواز سے متحرک ہونے والی سماعت ہوتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ چند روز کے بچے کے قریب آپ اخبار کھولیں اس کی سرسراہٹ سے بھی بچہ بدک جاتا ہے۔ لیکن اُس کی نظر ایک جگہ ٹکی رہتی ہے۔ یعنی پہلے سماعت متحرک ہوتی ہے اُس کے بعد کہیں جا کر بصارت کام کرتی ہے۔

          زندگی ایک طرف ارتقا کرتی ہے اور دوسری طرف ریکارڈ ہوتی ہے۔ جوں جوں شعور آگے بڑھتا ہے اس کا ایک ریکارڈ بنتا چلا جاتا ہے۔


پھر آپ نے بتایا کہ سب مظاہر کے پس پردہ ایک ہی روح کام کرتی ہے۔ روح ہر نوع کے لئے معین کی گئی مقداروں کے مطابق اُس کو بناتی اور چلاتی ہے۔

          اس کے بعد آپ نے بتایا کہ خوشی اور غم دو کیفیتوں کے نام ہیں ۔ ایک بات جو آپ کے لئے بہت ہی بڑی خوشی کی بات ہے وہی کسی اور کے لئے ناخوشی اور دکھ کی بات ہو سکتی ہے۔

          خوشی اور غم کو روحانی آنکھ سے دیکھنے والے کو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سب معنی پہنانے کا کھیل ہے اور معنی پہنانے والی ایجنسی ہمارا ذہن ہے اگر وہ وصول ہونے والی اطلاع میں درست معنی پہناتی ہے تو اُس کے نتیجے میں خوشی کی کیفیت مرتب ہوتی ہے اور غلط اور تخریبی معنی پہنائے جاتے ہیں تو ناخوشی اور تکلیف مقدر بن جاتی ہے۔

          لیکچر وقت پہ شروع کر کے وقت مقررہ پہ ختم کرتے ہوئے آپ کلاس روم سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف بڑھے تو مرید بھی آپ کے ساتھ ہو لیا۔ آپ جا کر اپنے کمرے کے برآمدے میں بچھے تخت پوش پہ بیٹھ گئے تو وہ اجازت لے کر تخت پوش کے قریب ہو کر فرش پہ بیٹھ گیا۔ پیشتر اس کے کہ وہ اپنے مراد سے کچھ کہتا۔۔۔اُن سے قلب و نظر کی صفائی کے مجرب اور آزمودہ طریقے دریافت کرتا چند ایک اصحاب اور بھی آکر بیٹھ گئے۔ سب انہیں دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے پہلے ٹوپی اتاری۔ وہ ایک طرف رکھی۔ وہاں رکھے کاغذات پہ سر سری نظر ڈالی۔ پھر پیر سمیٹتے ہوئے اوپر ہو کر بیٹھ گئے اور دیوار سے لگے تکیے سے ٹیک لگالی۔

          ایک صاحب آگے بڑھے انہوں نے کوئی ذاتی سا مسئلہ دریافت کیا۔ آپ نے انہیں اُس کا کوئی حل بتایا۔پھر سب کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ ایک بار ایک مینڈک جو دریا کنارے رہتا تھا۔ سیلاب میں بہہ کر کسی گاؤں کے کنویں میں گر گیا۔ وہاں کنویں کے مینڈک اُس کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ اُن کو کنویں سے باہر کی دنیا کی کھلی فضاؤں کے


بارے میں بتانے لگا۔ اُس نے کہا کہ وہاں ہم دریا میں میلو میل تیرتے پھرتے ،طرح طرح کے مناظر دیکھتے اور اُن سے لطف لیتے تھے۔ کنوئیں کے مینڈکوں نے اُس سے پوچھا یہ دریا کیا ہوتا ہے، یہ طرح طرح مناظر سے کیا مراد ہے اور یہ میلوں میل کسے کہتے ہیں۔ اُس نے انہیں سمجھانے اور اپنی بات کی وضاحت کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ کنوئیں کا مینڈک بولا کتنی دور؟ اور پھر اُس نے چھلانگ لگائی اور پوچھا۔۔۔ کیا اتنی دور؟ وہ دریائی مینڈک بولا۔۔۔ارے نہیں بھئی۔۔۔اس سے کہیں زیادہ دور تک۔۔۔ کنوئیں کے مینڈک نے دوبارہ کوشش کی اور پہلے کی نسبت لمبی زقند لگا کر پوچھا ۔ کیا اس سے بھی زیادہ دور۔۔۔ تو اُس دریائی مینڈک نے کہا۔۔ رہنے دو بھائی۔۔۔تم نہیں سمجھو گے۔۔۔یعنی جس نے کھلی فضا دیکھی ہی نہ ہو وہ اُس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔

          مرید کو اُس دریائی مینڈک پہ بہت ترس آیا ۔ اُس نے سوچا ایک تو بے چارہ دریا سے دور کنوئیں میں گرا اور اوپر سے کوئی اُس کی بات سمجھ کے نہیں دے رہا تو اُس پہ تو دوہری قیامت ہی گزرے گی۔ اگر وہ خود کو کنوئیں کا مینڈک مان لیتا تو باہر کی دنیا سے کیسے واقف اور روشناس ہو سکتا ہے۔ کیا محض باہر کی دنیا کی کھلی فضاؤں کا تذکرہ سنتے رہنے سے ہی وہ باہر کی دنیا کو دیکھ بھی لے گا۔ اُس کے ذہن میں ایک خیال ابھرنا شروع ہوا اور پھر وہ خیال ایک جھکڑ کی مانند اُس کے اندر تلاطم مچاتا چلا گیا۔

          مرشد کریم اُن کو یہ سمجھانے کی تگ ودو کر رہے ہیں کہ محض باتیں سنتے رہنے سے کبھی کسی کی رسائی کھلی اور آزاد فضاؤں تک نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔۔۔۔ اس کے لئے قدم بہ قدم انچ انچ کر کے کشش ثقل کے خلاف کنوئیں کی منڈیر کی طرف سفر کرنے کی کوشش اور جدو جہد کرنا لازم ہے۔ ان باتوں سے نشان منزل تو لیا جا سکتا ہے۔ ان باتوں سے اشتیاق اور تجسس کو درکار مہمیز تو لگائی جا سکتی ہے لیکن پہلے کسی میں یہ صفات ہوں تو سہی۔ مرید کے اندر اُٹھتی آندھی کے بگولوں کو سبک سر بنانے کو مراد کہہ رہا تھا۔



ایک بار ایک صاحب نے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ سے کہا کہ آپ خواجہ صاحب پہ اتنے مہربان اور مشفق کیوں ہیں؟ اس پہ حضور نے انہیں کہا۔ آپ مسجد قدسیہ۔۔۔جو وہاں سے قریب ہی ہے۔۔۔۔کے باہر کھڑے ہو کر بھیک مانگ کر دکھا دیں۔۔۔ وہ صاحب تو یہ کہہ کر کہ ہم سمجھ گئے۔۔۔ خاموش ہو گئے۔ مگر مجھے اس بات کا علم ہوا تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر کبھی حضور نے مجھ سے کہہ ہی دیا تو کیا میں یہ کام کر بھی پاؤں گا؟ چنانچہ میں جا کر مسجد کے باہر کھڑا ہو گیا اور بھیک مانگنے لگا۔ اگلے روز وہ پیسے جو

اس طرح اکٹھے ہوئے اُن میں کچھ اور پیسے شامل کر کے دیگ پکائی اور لوگوں میں تقسیم کر دی۔

          مرید کے ذہن میں آئی کہ انانیت اور کم ہمتی دونوں سے پیچھا چھڑائے بغیر کنوئیں کی عمودی دیوار پہ پیر جمانا ناممکن ہی ہوگا تبھی تو انہوں نے پہلے اسی بوجھ کو ختم کرنے کی فرمائش کنایتاً کی۔ براہ راست تو وہ کہتے ہی رہتے ہیں لیکن شعور اُس کی راہ میں مزاحم ہوتا ہے۔۔۔ اب وہ اس طرح فرما رہے ہیں کہ شاید بات شعور کو اسی طرح کچھ قائل کر لے کہ وہ کمر ہمت باندھ ہی لے۔

          مذہب کے حوالے سے وہ کبھی کبھار کچھ اس انداز سے تبصرہ کرتے کہ اُس کے حوالے سے لوگوں کے سطحی زاویہ نظر کی قلعی کھل جائے۔ اُس وقت بتایا کہ مذہب کو بھی دکانداری ہی بنا دیا گیا ہے۔ یہ دکانداری ہی تو ہے کہ مندر ہو، چرچ ہو یا مسجد تعمیر کرتے ہیں۔۔اُس کو خوب بناتے اور سنوارتے ہیں۔ خود سادہ رہ لیں گے مگر اُس کی سجاوٹ اور بناوٹ میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ دکان جو ہوئی کہ کہیں گاہک نہ بھاگ جائے۔

          ایک دوسرے کی مسجد میں پڑھی گئی نماز کو بھلے ہی فاسد قرار دے دیں ایک دوسرے کا پڑھایا ہوا نکاح کبھی باطل نہیں قرار دیں گے۔ اپنے سسٹم کو بچانے کے لئے



بھر پور قربانی دیں گے۔ کتنی ہی سردی کیوں نہ ہو صبح عین وقت پر اذان دے رہے ہوتے ہیں۔

          ایک پندٹ نے جب دیکھا کہ قربانی کا وقت نکلا جا رہا ہے اور بلی چڑھانے کو کچھ دستیاب نہیں تو اُس نے خود اپنے ہی گلے پہ چھری پھیر لی کہ اُس کا سسٹم بچ جائے۔

          ہندو کا مطلب ہے بے وفا محبوب، ظالم، دغاباز۔۔۔یہ نام محمود غزنوی نے بھارت کے باسیوں کو اُن سے اپنی نفرت کے سبب دیا تھا۔ اُس نے سندھ کے دوسری طرف کے علاقے کو ہند کہا اور یہی رائج ہو گیا۔

          فرمایا شیخ اکبر ابن عربی ﷭ ابدال تھے۔ اپنی کتاب فتوحات مکیہ انہوں نے ملاؤں کو ستانے کے لئے لکھی تھی کہ اگر ہمت ہے تو اسے سمجھ کر دکھاؤ۔ میں نے ایک بار حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ سے پوچھا کہ حضور آپ کو اس کتاب کی سمجھ آتی ہے۔ توانہوں نے فرمایا ہمیں تو سمجھ آتی ہی ہے لیکن جو صرف خواص ہی کو سمجھ آئے تو اُسے لکھنے کا کیا فائدہ؟

          ایک صاحب کی بابت بتایا کہ انہوں نے ایک گھوڑا خریدا۔ اُس کا نام دَلدَل رکھا۔ وہ اُسے خوب بنا سنوار اور سجا کر محرم کے جلوسوں میں لے جایا کرتے۔ لوگ عقیدت میں اُسے چومتے چاٹتے اور پیسے ڈالتے۔ اُس نے ایک سیزن میں پینتیس چالیس ہزار

روپے کمائے بعد میں اُس نے کراچی میں کئی دکانیں خرید لیں۔

          فرمایا۔ انسان میں بھی زمین ہی کی مانند تین حصے پانی ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کو یہ صلاحیت ودیعت کر دی گئی ہے کہ وہ ہر حال میں ایڈجسٹ کر سکتا ہے۔ پانی میں فطرتاً جلال نہیں ہوتا لہذا انسان میں بھی نہیں ہونا چاہئے۔ اگر انسان کی ساخت میں جلال شامل ہوتا تو اُس میں آگ زیادہ ہوتی۔ مائع کی یہ خصوصیت



ہوتی ہے کہ وہ ہر سانچے میں ڈھل جاتے ہیں ۔ جیسے پلاسٹک کو پگھلا کر مختلف سانچوں میں ڈھالتے ہیں۔

          دنیا میں سب سے زیادہ رنگ۔۔۔ہرا رنگ ہے۔ یہ ہرا رنگ ہی زندگی اور جمال ہے۔ جمال ہی اللہ ہے اور اللہ ہی جمال ہے ۔ اللہ میں غصہ یا جلال نہیں اگر ہوتا تو ہر طرف سُرخ رنگ کی زیادتی ہوتی۔ آسمان کو دیکھ لیں، سمندر کو دیکھ لیں۔۔۔ جلال کی سُرخی کہیں نہیں۔۔ پھولوں کو دیکھیں۔۔۔اُن میں ترتیب اور رنگ آفرینی جمال نہیں تو اور کیا ہے؟ جمال ہی جمال کا پھیلاؤ ہے ہر سو۔۔ہر سمت۔

          اور پھر یہ کہہ کر محفل برخاست کر دی کہ اب میں کچھ تھکن محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ کچھ آرام کر لوں۔۔ اور پھر دونوں پاؤں تخت پوش سے نیچے لٹکا کر زمین پہ رکھے اور دونوں ہاتھوں سے تخت پوش کے کناروں کو پکڑ کر ان سب کے وہاں سے چلے جانے کا انتظار کرنے لگے۔ جب دیکھا کہ لوگ وہاں سے جانے کی بجائے اُٹھ کر قدرے پیچھے ہٹ کر وہیں کھڑے ہو گئے ہیں تو اُٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ شاید وہ وہیں لیٹ کر آرام کرنا چاہ رہے تھے لیکن لوگوں نے اُن کی بات سمجھنے میں کوتاہی کی تو وہ وہاں سے ہٹ گئے تاکہ حکم عدولی پہ ہونے والی پکڑ سے انہیں بچایا جا سکے۔

          اگلے روز درس میں علم اور اُس کی اہمیت کی بابت ارشاد فرما کر کہا کہ اولاد باپ کی قدر نہ کرے اور باپ کی دولت کی قدر کرے۔۔۔۔ کس قدر عجیب بات ہے۔ بھئی دولت تو آپ کو ہی ملے گی آپ باپ کی قدر کریں۔

          مرید کو لگا کہ اصل مخاطب وہ ہے۔کیوں کہ اُس نے کل ہی کسی سے باتوں کے دوران یہ کہا تھا کہ مرید کو اپنے مرشد کے علوم سے دلچسپی رکھنی چاہئے۔ اُس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے کہ مرشد کیا کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے۔ ان سب باتوں سے اُن کو کیا لینا دینا۔ انہوں نے کس خوبصورتی سے اُس کو جتائے بغیر اس


کی سوچ کی اصلاح فرمائی کہ جب وہ اُن کو ابا کہتا ہے تو اُن کے علوم تو اس کو ملیں گے ہی لیکن اُس کو اُن کی قدر کرنے میں کسی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہونا چاہئے۔۔۔باپ کی دولت کی قدر باپ سے زیادہ کی جائے تو طرزِ فکر میں کجی، خامی اور ناپختگی ہی کی علامت ہوئی۔

          پھر فرمایا کہ پوری کائنات طبقاتی تقسیم ہے۔ اس میں زون ہیں۔ لوگ گروہوں میں رہتے ہیں۔ گروہ بندی کے بغیر گزارا بھی نہیں۔

          پھر حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے حوالے سے فرمایا کہ قیامت اور روزِ حشر میں بھی لوگ اپنے اپنے گروہوں میں اکٹھے ہوں گے۔ حساب کتاب کے بعد جب لوگوں میں آہ و فغاں مچے گی تو اللہ تعالیٰ دریافت کریں گے کہ یہ کیسا شور ہے؟ مقرب بار گاہ اولیا اور فرشتے عرض کریں گے۔ حضور آپ کے بندے۔۔۔آپ کی مخلوق۔۔۔۔ تکلیف میں ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ دریافت کریں گے ہم نے ان کو صحیح بات سے آگاہ نہیں کر دی تھا۔ عرض کی جائے گی۔ بس جی غلطی ہو گئی ہے۔۔نادانی میں۔

          فرمایاحضور قلندر بابا اولیا ءؒ نے یہ بڑی عجیب بات فرمائی کہ اللہ کسی کو دوزخ میں نہیں ڈالیں گے۔۔کہیں گے۔ اچھا جاؤ ۔۔۔ہٹو یہاں سے۔۔۔اور جتنی لوگ خود ہی جنت کی طرف چل دیں گے اور دوزخی دوزخ کی طرف۔۔اللہ تعالیٰ کسی کو دوزخ میں نہیں ڈالے گا۔۔لوگ خود ہی دوزخ کا انتخاب کریں گے اور پھر دوزخ میں جا کر لوگ چیخ و پکار کریں گے اور واویلا مچائیں گے تو اللہ تعالی ٰ کی رحمت جوش میں آئے گی اور دریافت کیا جائے گا۔ اب کیا ہے؟

          عرض کیا جائے گا کہ آپ کی مخلوق تکلیف میں ہے۔

          فرمایا ۔ یہ سُن کر اللہ جہنم کو ٹھنڈا ہونے کا حکم دیں گے اور جہنم کی آگ سرد پڑ جائے گی۔


ناشتے کے بعد دستر خوان سے اُٹھتے ہوئے۔ مرشد کریم نے اُس سے دریافت کیا۔ آپ کا کیا پروگرام ہے؟ اُس نے عرض کیا اگر اجازت ہو تو آج پشاور کے لئے روانہ ہو جاؤں۔ کچھ ساعت توقف کے بعد ارشاد ہوا۔ ہاں ٹھیک ہے۔

          وہ نہا دھو کر تیار ہو کر الوداعی ملاقات کے لئے حضور کے کمرے کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ حضور اپنے پہلے والے کمرے میں ہیں۔ اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ڈاکٹر ممتاز اختر اور اُن کے ساتھ ایک دو افراد اور بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بھی اسی روز واپس جانے سے پہلے ابا سے ملنے آئے تھے۔ سلام کر کے وہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ حضور صدری اور دھوتی پہنے بیٹھے تھے جو کہ اس بات کی علامت تھی کہ اب وہ نہانے کی تیاری میں کوئی بات بیان فرما رہے تھے۔ بات کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ جی ہاں۔ یہ بھی ایک بات ہے۔

          حضور نے کاٹ دار لہجے میں فرمایا۔ یہاں پر کوئی بات بھی محض ایک بات نہیں ہوتی۔ پھر قدرے نرم لہجے میں کہا۔ یہ تو مقصود صاحب کو پشاور جا کر پتہ چلے گا کہ انہوں نے جو باتیں سُنیں اُن کی وجہ سے اُن کے علم میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔

          پھر فرمایا۔ ٹھیک ہے تو پھر آپ کو ہم یہیں پہ خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔۔ اور اُٹھ کر پہلے ڈاکٹر صاحب اور اُن کے ہمراہی سے الوداعی معانقہ کیا۔ وہ احترام سے گلے مل کر پیچھے ہٹے۔ حضور نے اُسے کھڑا دیکھ کر بانہیں پھیلاتے ہوئے فرمایا۔۔ آئیں۔۔آئیں۔۔آپ بھی آئیں۔۔ وہ معانقہ کر کے پیچھے ہٹا تو دوبارہ بازو کھول کر مسکراتے ہوئے فرمایا۔۔ چلیں دوبارہ مل لیں۔ وہ دوبار گلے مل کر پیچھے ہٹا تو آپ نے پھر بانہیں پھیلا دیں۔ مسکراتے ہوئے پوچھا اور ملنا ہے؟ اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور انہوں نے اُسے بانوں میں بھر لیا۔ وہ جتنی دیر اُن کے سینے سے لگا رہا اُسے بے خودی، بے کیفی اور بے وزنی کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوا۔ جب انہوں نے اُسے پیچھے ہٹایا تو اُس کے پورے وجود پہ ایک فروتنی، عاجزی اور انکساری طاری تھی۔ آنکھیں عطا کے خمار سے




بوجھل ہو کر جھکی ہوئی تھیں۔ جسم میں جیسے ہر ہڈی تحلیل ہو چکی تھی۔ وجود کو سیدھا رکھنے کی جدو جہد کرتے اُسے یوں لگ رہا تھا گویا وہ گیلی مٹی کا اک پتلا ہے جو اب گرا کہ تب گرا اور وہ کسی بھی لمحے وہیں زمین پہ ڈھیر ہو جائے گا۔ کمرے سے باہر آکر ڈاکٹر صاحب نے اُس سے رخصت ہونے سے پہلے تبصرہ کرنے کے انداز میں اُسے مطلع کیا۔ اب حضور آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اُس وقت ذہنی طور پہ وہ کچھ ایسی حالت میں تھا کہ اُس نے ڈاکٹر ممتاز اختر کی بات سنی لیکن کچھ محسوس نہ کیا۔ جی ہاں اُن کا کرم ہے۔۔۔کہہ کر وہ انہیں خدا حافظ کہنے کچھ دور اُن کے ہمراہ چلا اور جب وہ چلے گئے تو وہ بھی پشاور ہو لیا۔



 

 

 

 

 

 


 


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔