۱۷ ستمبر ۱۹۹۶ء کو مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے ۵۵۔ سلمان اسٹریٹ، اسلامیہ پارک سمن آباد، لاہور میں مراقبہ ہال برائے خواتین کا افتتاح کیا۔ افتتاح کے اس موقع پر خواتین و حضرات کی ایک کثیر تعداد مَوجود تھی۔
پروگرام میں الشیخ عظیمی صاحب کے ہمراہ میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب بھی تھے۔ شروع میں نگران مراقبہ ہال برائے خواتین ڈاکٹر شگفتہ فیروز کو بنایا گیا لیکن اب مَوجودہ نگران مراقبہ ہال برائے خواتین سلمیٰ مشتاق عظیمی صاحبہ ہیں اور اب مراقبہ ہال برائے خواتین سمن آباد سے A۔۱۵۸، مین بازار مزنگ لاہور میں شفٹ ہو گیا ہے۔ اور بعد میں بیڈن روڈ پر منتقل کردیا۔
مرشدِ کریم نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا!
آج یہاں مراقبہ ہال برائے خواتین کے افتتاح سے رُوحانی علوم کے پھیلاوَ میں ایک نیا باب رقم کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں آپ سب خواتین اور نگران مراقبہ ہال لاہور میں مشتاق احمد عظیمیؔ صاحب بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
روحانی علوم کے سلسلے میں سلسلۂِ عظیمیہؔ کی تعلیمات ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ جن کے بارے میں حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے اپنی کتاب “لوح و قلم”میں لکھا ہے کہ:
“نوعِ انسانی میں زندگی کی سرگرمیوں کے پیش نظر طبائع کی مختلف ساخت ہوتی ہیں۔ مثلاً ساخت الف، بے، پے، چے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں زیر بحث وہ ساخت ہے جو قدم قدم چلا کر عرفان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔”
یعنی سلسلۂِ عظیمیہؔ کی تعلیمات وہ ہیں جن کی روشنی میں، عمل پَیرا ہو کر ہمیں اپنی ذات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور سیڑھی بہ سیڑھی حضور پاک ؐ تک اور اس کے بعد حسبِ استطاعت و سکت اللہ کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔
آپ بتاسکتے ہیں یہ سب کچھ کب ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے….؟
یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم رُوحانی علوم سے واقفیت حاصل کرلیں۔ لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ رُوحانی علوم کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ انسان صرف مادّی علوم کی طرف ہی توجّہ دیتا ہے وہ بھی شعور کی داغ بیل سے لے کر جب تک جسم کی مشینری ساتھ دے تب تک۔
آپ بتائیں….
کیا مادّی علوم سیکھ کر آپ اپنی رُوح کو دیکھ سکتے ہیں؟
کیا مادّی علوم سیکھ کر فرشتوں کا دیدار کیا جا سکتا ہے؟
کیا مادّی علوم سیکھ کر آپ دربارِ رسالت مآبؐ میں حاضری کی سعادت سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں؟
کیا مادّی علوم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا جاسکتا ہے ؟
کوئی جواب ان سوالوں کا آپ لوگوں کے پاس اگر ہے تو بتائیں․․․․!
اگر ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر میری بزرگوں، بچّو، معزز خواتین اور بیٹیو!
پھر ہم اپنی ساری زندگی میں کیا کر رہے ہیں…..!!
سوائے جانوروں کی طرح پیٹ بھرنے کے اور جانوروں ہی کی طرح زندگی گزارنے کے….!!
اور جانور تو عالِم نہیں ہوتے…. پھر ہم کیا علم والے ہوئے یا جاہل….؟
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں۔” (سورۃ الزّمر – 9)
جہالت اور علم میں بہت فرق ہے۔ سو (۱۰۰) جاہلوں میں ایک پڑھے لکھے کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس کی (Approach) زیادہ ہے۔
یہ دنیاوی علوم کی بات ہے۔ جبکہ رُوحانی علوم میں بندہ اپنی رُوح سے واقف ہوتا ہے اور رُوح کے تحت جتنی بھی صلاحیتیں ہمارے اَندر کام کر رہی ہیں ان سب صلاحیتوں سے واقف ہوتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ دنیا کے ہر شعبے میں آدمی کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ اس شعبے میں اپنی خدمات سر انجام دیتا ہے۔
روحانی علوم کے تحت بھی بندہ اپنی صلاحیتوں سے واقف ہو کر رُوحانی علوم کے شعبے میں اپنی خدمات سر انجام دیتا ہے۔
پھر رُوحانی علوم حاصل کرنے کا کیا فائدہ؟
روحانی علوم دراصل ہمارے لئے بہت کارآمد، فائدہ مند اور نتیجہ خیز ہیں۔ رُوحانی علوم کا مادّی علوم کی نسبت بنیادی فائدہ یہ ہے کہ اصل اور نقل میں فرق واضح ہوجاتا ہے۔
آپ بتائیں…. اصل کیا ہے اور نقل کیا ہے؟ کیا یہ زندگی جو ہم گزار رہے ہیں یہ اصل زندگی ہے؟ کیا ہمارا یہ جسم اصل ہے؟ کیا جو اعمال سر انجام دے رہے ہیں وہ حقیقت کے دائرے میں سر انجام دے رہے ہیں؟ کیا ہم جو دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں یہ سب کیا ہم حقیقت میں دیکھ رہے ہیں، سماعت کر رہے ہیں اور شعور سے، تدبر سے یا تفکر سے کام لے رہے ہیں؟
آپ سوچیں!․․․․․․․․․․ تفکر کریں!․․․․․․․․․․ جتنا بھی آپ سوچیں گے، غور و فکر اور تدبر و تفہیم سے کام لیں گے ایک ہی بات آپ کو نظر آئے گی کہ سب نقل ہی نقل ہے، جھوٹ ہی جھوٹ ہے، سب دھوکہ اور سراب ہے۔
ہم جھوٹ اور نقل کی زندگی میں پیدا ہوتے ہیں، زندگی گزارتے ہیں اور بالآخر فنا ہوجاتے ہیں۔
ایسے میں بھلا ہم خوش کیسے رہ سکتے ہیں؟ سکون کیسے ہماری زندگیوں میں آسکتا ہے؟ ہم اپنا اشرف المخواقات کا تشخص کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟
ہم پھر بیمار کیوں نہ ہوں؟، فتنہ فساد ہر جگہ کیوں نہ نظر آئے…. جب ہم نے سب کچھ نقل ہی کو سمجھ لیا ہے….
یہی اس دنیا کی بے ثَباتی ہے۔ اسی بے ثَباتی کے فرق سے متعارف کرانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی لڑی بنائی۔ اور پیغمبروں کے بعد ان کے علوم کے حامل افراد (جنہیں اولیاءِ کرام کہا گیا) نے اس مشن کا بیڑہ اٹھایا اور نوعِ انسانی کو دنیا کی بے ثَباتی کے فرق کے ساتھ حقیقت اور اصل زندگی سے متعارف کرایا۔ اور اسی مشن کے تحت سلسلۂِ عظیمیہؔ وُجود میں آیا جس کے نتیجے میں آج ہم یہاں اکھٹے ہوئے ہیں۔
دنیا کی بے ثَباتی سے منہ موڑ کر اصل سے…. حقیقت سے…. واقف ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بندہ اچھا کھانانہ کھائے، اچھے کپڑے نہ پہنے، شادی نہ کی جائے، دنیاوی کام نہ کئے جائیں…. یہ کرنا رہبانیت ہے اور رہبانیت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کا ارشادِ پاک ہے۔
“دنیا میں رہتے ہوئے دنیاوی تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی اَنا، رُوح سے واقفیت حاصل کریں۔”
خود آگاہی سے جب واقفیت ہوتی ہے تو سکون حاصل ہوجاتا ہے، بندہ پر سکون رہتا ہے اور قرآن کی اس آیت کی تفسیر بن جاتا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ:
“اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی وہ غم آشنا زندگی سے واقف ہوتے ہیں۔”
(سورۃ یونس – 62)
یعنی بندہ اللہ کا دوست بن جاتا ہے اور تمام تفکّرات سے اس کا ذہن آزاد ہوجاتا ہے وہ کُلُّھُمْ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیتا ہے اور یہی سپردگی استغناء، توکل، بھروسہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
اگر آپ انسانی صلاحیتوں کا، فطرت کا تجزیہ کریں اور کائناتی سسٹم پر غور کریں تو آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ ساری کائنات علم کا ہونا ہے۔
ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کس مَسلک کے ہاں پیدا ہوا ہے۔ مسلمانوں میں بچے کے کان میں اذان دی جاتی ہے۔ ہندوؤں کے گھنٹی بجائی جاتی ہے، یہودی کے دمدمہ بجایا جاتا ہے اسی طرح عیسائی بھی کچھ کرتے ہیں۔
اذان دینا…. اس سے مراد بچہ کے شعور میں مسلمان کے بارے میں علم منتقل کرنا ہے۔ اسی طرح ہندو کا شعور منتقل ہوتا ہے۔ اس کے بعد بچے کا نام رکھا جاتا ہے اور یہی نام ساری زندگی کیلئے بچے کی شناخت بن جاتا ہے۔
آپ دیکھیں یہاں جو کچھ مَوجود ہے، یہ امرِ لازم ہے کہ اس کا نام ہو۔ انسانوں میں نام انفرادی طور پر لئے جاتے ہیں۔ جبکہ اشجار میں یہ نام اجتماعی طور پر رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً بادام کا درخت یہ کہیں بھی ہو اس کا نام بادام ہی ہوگا۔ اسی طرح تمام درخت ہیں۔
انسانی شعور میں سب سے پہلے یہ منتقل ہوتا ہے کہ مسلمان ہے یا عیسائی ہے پھر نام رکھا جاتا ہے۔ جب تک تم زندہ رہو گے تمہاری پہچان نام کے علاوہ نہیں ہوگی۔ ہر بچہ کو شناخت کا علم منتقل ہوتا ہے۔ یہ نقوش اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ جسم میں تبدیلی آجاتی ہے مگر شناخت میں تبدیلی نہیں آتی مثلاً ایک نوجوان کو ۱۰ سال کی تصویر دکھائیں وہ نہیں پہچانے گا۔
بچپن کی تصویر اگر بوڑھے کو دکھائی جائے تو وہ نہیں پہچانے گا۔ لا علمی، علم سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ ایسے ہی لا علمی بھی علم ہے۔ ہم لاعلمی کو علم سے پہچانتے ہیں اور علم کو لا علمی سے پہچانتے ہیں۔
جب آپ پیدا ہوئے، بڑے ہوئے، والدین کہتے ہیں پانی پی لو، مم پی لو۔ یہ پانی ہے۔ کیا اس کا علم منتقل نہیں ہو رہا ہے۔ صحت کو بحال رکھنے کیلئے دودھ توانائی ہے۔ دودھ سے بھوک میں اضافہ اور قد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بیٹے کو کہنا…. دودھ پی لو، یہ کہنا…. دودھ کی خصوصیات منتقل ہونا ہیں۔ یہ کہنا…. پانی اور دودھ کا علم منتقل ہونا ہے۔ اس کے بعد روٹی ہے، کپڑوں کا استعمال ہے، قمیض شلوار، پہنانا، چڈی پہنانا، سفر پوشی کا علم منتقل کرنا ہے۔ اس کے بعد جب بچہ بڑا ہوجاتا ہے تو سکول جانے لگتا ہے۔ تصویریں، کھلونے، کتابیں وغیرہ بچے کی شعوری سطح کو علم کے ذریعے بلند کر رہے ہیں۔
ا، ب، ت اور تختی وغیرہ لکھنے پڑھنے کے علم کا منتقل کرنا ہے۔ پھر جب اور بڑا ہوجاتا ہے تو کاروبار میں مصروف ہوجاتا ہے۔ وہاں بھی کاروبار کے متعلق علم جانتا ہے۔ ان سب باتوں میں علم کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں ہے۔
فرشتے کائناتی سسٹم میں کارکن کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ یعنی کائناتی سسٹم جس بنیاد پر چل رہا ہے فرشتہ اسے جانتا ہے۔ یہ قانون ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مرنے کے بعد بھی علم ہے۔ یہ مسلسل اورو متواتر ہے۔ اس علم میں کہیں رخنہ نہیں ہے۔ اگر رخنہ ہوجائے تو اسے پاگل یا مخبوط الحواس کہتے ہیں۔ یہ بھی ہم اس وقت تک نہیں کہہ سکتے جب تک علم نہ ہو۔
قرآن پاک کی تعلیمات کے مطابق انسان کی مادّی تخلیق میں فساد ہے اور کائنات پر آدمؑ کی حکمرانی صرف اور صرف علم کی بنیاد پر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب کائنات تخلیق کرنے کا ارادہ کیا تو’’ کُن ‘‘ کہا…. یعنی ’‘ہو جا’ ‘۔ پس کائنات ‘‘فیکون’’ ہو کر معرض وُجود میں آگئی۔
اللہ نے جب ’’کُن ‘‘کہا تو یہ کس لئے کہا ؟
وہ اُس علم کے بارے میں…. جو کائنات کے بارے میں تھا… اُس کے بارے میں کہا…
اور وہ علم ظاہر ہوگیا۔
یعنی کائنات میں جو سسٹم ہے…. جو اللہ کے ذہن میں تھا اس کا مظاہرہ ہو گیا۔ اِس سے ثابت ہو گیا کہ ’’ کائنات دراصل اللہ کے ذہن میں مَوجود علم کا مظاہرہ ہے۔‘‘
پھر غور سے سنیں…..
’’کائنات اللہ کے ذہن میں مَوجود علم کا مظاہرہ ہے ‘‘
جب کائنات تخلیق ہوگئی تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت کا علم منتقل کیا۔ اِس میں بولنا، قبول کرنا، ہاتھ سے پکڑنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
آواز دینے والے کو جب انسان نے دیکھا تو بصارت کا علم منتقل ہوا۔ مشاہدہ کر کے اقرار کِیا تو بولنے کا علم منتقل ہوا۔ مخلوق نے مخلوق کو جب دیکھنے اور افہام و تفہیم کا علم حاصل کر لیا تو مخلوق کی اجتماعیت میں انفرادیت پیدا ہوگئی۔ پھر قوتِ احساس پیدا ہوئی، اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر پہچانا یعنی شعوری علم منتقل ہو گیا اور شعور بن گیا۔
جب اللہ نے کہا کہ”ہم نے اپنی امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، زمین کے اَندر جو کچھ ہے۔ پہاڑوں میں جو کچھ مَوجود ہے اُن سب کو دی تو انہوں نے کہا کہ ہم میں یہ طاقت نہیں کہ ہم اس امانت کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھا سکیں مگر انسان نے اُٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل ہے اور جلد باز ہے۔”
زمین، آسمان، پہاڑ سب میں عقل و شعور ہے۔ زمین کے فرد کو شعور ہے۔ زمین میں اشجار کو شعور ہے۔ آسمان میں فرشتوں کو شعور ہے۔ چاہے ردّ کریں یا قبول کریں۔ ان سب کی بنیاد علم پر ہے۔ انسان کو یہ فضیلت حاصل ہے مگر تلاش نہیں کرتا اس لئے وہ ظالم اور جاہل ہے۔ اور اگر انسان اللہ کی دی ہوئی اس امانت سے واقف ہو جاتا ہے تو علم کی اس امانت کے تحت اشرف المخلوقات، خلیفۃ الارض اور اللہ کا نائب بن کر کائنات پر حکومت کرتا ہے۔
انسان علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کائنات علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہاں سے علم کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ رُوحانی علم ہی دراصل ایک حقیقی علم جس کی بنیاد پر ہی انسان اور یہ کائنات تخلیق ہوئے ہیں اور تخلیق ہونے کے بعد نشوونما کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں۔
روحانی علم کی اہمیت اس لئے بھی کم ہے کہ رُوحانی علم سے نوکری نہیں ملتی۔ انسان رُوحانی علم کو مادّی تناظر میں جب دیکھتا ہے تو وہ اُس کا انکار کردیتا ہے اور آج اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے…. ہم ایک مُردہ قوم بن چکے ہیں، شرف و منزلت کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ مصائب اور پریشانیوں نے ہمیں اس طرح گھیر لیا ہے کہ ان سے رستگاری کو کوئی حل نہیں مل رہا۔
جبکہ ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس قوم سے ایسے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے کائنات کو مسخر کیا، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب کو مسخر کیا۔ رُوحانی علم سے جب واقفیت ہوجاتی ہے تو انسان کائناتی سسٹم سے واقف ہو جاتا ہے۔ کائنات کا یہ سسٹم وہ لوگ چلا رہے ہیں جو علم اور کائناتی سسٹم سے واقف ہیں۔ علم سیکھنے کے بعد گہرائی اور تفکر پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ رُوحانی علم سے واقف ہوجاتے ہیں تو کائناتی سسٹم سے بھی واقف ہوجاتے ہیں۔ اور جب کائناتی سسٹم سے واقف ہوجاتے ہیں تو اللہ سے واقف ہوجاتے ہیں۔ اور جو بندہ اللہ سے واقف ہوجاتا ہے وہ اللہ کا دوست بن جاتا ہے۔ بندہ جب اللہ کا دوست بن جاتا ہے تو وہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ میرا دوست ہے اس پر حد بندی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ وقت اور اسپیس سے آزاد ہوجاتا ہے۔ زمین پر خلیفۃ الارض بن جاتا ہے۔ اشرف المخلوقات کا شرف حاصل کرلیتا ہے۔ فرشتے اس کے آگے سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ پوری کائنات اس کے لئے مسخر ہو جاتی ہے اور وہ اپنے ارادے سے کائنات میں جہاں چاہے تبدیلی پیدا کر سکتا ہے اس سے زیادہ رُوحانی علم کی اہمیت آپ کو کیا بتائیں….!!
آپ دنیامیں کچھ بھی کر لیں یہاں سب کچھ عارضی ہے۔ ایک نہ ایک دن آپ نے یہ دنیا چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ تب آپ کو پتہ چلے گا۔ لیکن اس وقت سب بے سود ہوگا۔
روحانی علم تو وہ لوگ سیکھتے ہیں جو اپنے باپ آدمؑ کا علم سیکھنا چاہتے ہیں۔ رُوحانی علم اب تھیوری میں بھی تبدیل ہو یا ہے اس لئے رُوحانی علم تھیوری میں بھی سیکھیں اور پریکٹیکل میں بھی سیکھیں۔ کسی چیز کی تھیوری معلوم ہو تو پریکٹیکل آسان ہوجاتا ہے۔ پہلے پریکٹیکل تھا تھیوری ظاہر نہیں کرتے تھے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے رُوحانی علم کو تھیوری میں منتقل کردیا ہے اس کو سمجھنا اس وقت ممکن ہے جب تھیوری لکھنے والا سمجھائے۔ پڑھنے کے بعد تبدیلی، تڑپ اور طلب پیدا ہوتی ہے۔ بندہ کتاب پڑھنے کے بعد استاد تلاش کرتا ہے۔ استاد اب ملتا ہی نہیں۔ اگر خوش قسمتی سے مل جائے تو چند لوگوں کو ملتا ہے آپ لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ کو ایک ایسا استاد ملا ہے جس نے تھیوری میں رُوحانی علم کو تبدیل کرنے والے استاد حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے سب کچھ سیکھا ہُوا ہے۔ آپ بہت خوش قسمت لوگ ہو مگر پھر بھی اللہ کی دی ہوئی ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے۔ آپ لوگ رُوحانی علوم کو سیکھنے کیلئے پندرہ بیس منٹ کا وقت دینا بھی پسند نہیں کرتے تو ایسے میں آپ لوگ کیا حاصل کریں گے….!! اسی طرح تہی دامن رہ کر دنیا سے چلے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے بے پرواہ ہے۔
بات ہو رہی تھی تھیوری کی، تبدیلی اور تڑپ کی۔ حضور داتا گنج بخشؒ نے بھی اسی تڑپ، طلب کیلئے بہت کام کیا۔ انہوں نے کتاب”کشفُ المحجوب“لکھی۔ کتاب پڑھے کے بعد ہمارے اَندر تجسس کی صلاحیت ابھری کہ یہ علوم سیکھیں۔ جب لوگوں نے اس تجسس کی بنیاد پر ان علوم کو سیکھنے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیاب بھی کیا۔ لیکن ان کامیاب ہونے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
حضور پاک ﷺ کی نسبت سے حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے رُوحانی علم کو تھیوری میں تبدیل کردیا ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ کے ذریعے علم کی تھیوری ہوئی۔ اس کے دو فائدے ہوئے…
ایک تڑپ…. دوسرے طلب …اور ان کے نتیجے میں پریکٹکل ہے۔
تھیوری کے علم سے یہ ہے کہ اس کے اَندر لاشعور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور جب وہ لاشعور کی اس کیفیت کے ساتھ پریکٹیکل کرتا ہے تو اس کی و ہ نظر جو مظاہر میں دیکھتی رہتی ہے۔ غیب میں بھی دیکھنے لگتی ہے۔
غیب میں کیا ہے؟ زمین اور زمین کے اَندر کے حقائق۔ آسمان اور آسمان کے اَندر جو کچھ ہے۔ آسمانوں میں کیا ہے؟ آسمانوں میں کہکشانی نظام ہیں، مختلف اور بے شمار سیاروں کے اوپر مخلوق آباد ہے، ان سیاروں کے احوال و آثار، فرشتے ہیں ان سب کو ڈھونڈیں۔ فرشتوں کو ڈھونڈیں۔
سات سو جگہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ غور و فکر کرو…. تدبّر کرو…. تفکر کرو…. کیا تم شعور نہیں رکھتے؟ کیا تمہیں عقل نہیں ہے؟ یا اُولُو الألبَاب…. کیا تفکر نہیں کرتے؟
آپ لوگ بتائیں، خواب میں کون سی آنکھ دیکھتی ہے؟ بتائیں بھئی․․․․․․․․․․
ہاں دوسری آنکھ دیکھتی ہے جسے رُوح کی آنکھ یا جسمِ مثالی کی آنکھ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنکھ تو اَندر دیکھ رہی ہے تو آپ کو بس اس کیفیت سے واقف ہونا ہے جو اَندر دیکھتی ہے۔
اس کیلئے چوبیس گھنٹوں میں روزانہ ۸، ۱۰ گھنٹے یہ پریکٹس کریں تاکہ آپ اَندر کی آنکھ سے واقف ہوں۔
بندہ جسمانی وُجود کے بغیر آسمانوں میں پرواز کرسکتا ہے، جسمانی وُجود کے بغیر ہر خواہش پوری کر سکتا ہے۔ اس کی واضح مثال خواب ہے جسےُ خواب میں، اَندر کی آنکھ کے تحت، جسمانی وُجود کے بغیر خواب میں ڈرنا، چیخنا، دہشت زدہ ہونا، یہ سب جسمانی طور پر نہیں ہے۔ آپ مافوق الفطرت خواب دیکھنے سے مسرور ہوتے ہیں۔
انسان مادّی وُجود کے ساتھ بھی رہ سکتا ہے اور مادّی وُجود کے بغیر بھی رہ سکتا ہے یہ کون سی حقیقت ہے؟
یہ امر ہے، رُوح ہے، باطنی علم ہے۔ مادّی علم کے ساتھ ساتھ اپنی اصل اپنی رُوح کے علم کو سیکھیں۔ اور یہ علم آپ کو اپنے اَندر جھانکنے سے حاصل ہوگا۔
آپ بتاسکتے ہیں کہ کیا کسی پیغمبرؑ نے کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہو یہ بات کہیں سے ثابت نہیں ہوتی۔ ہمارے لئے سب سے بڑی ذات حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی ہے۔ آپ ؐ باعثِ تخلیق کائنات، رحمت اللعالَمین ؐ ہیں۔ ساری کائنات آپ ؐ کی تابع فرمان ہے، آپؐ نے یہ علوم کیسے حاصل کئے؟
آپ ؐ نے یہ علوم غارِ حرا میں، تنہائی میں بیٹھ کر اپنے اَندر جھانکنے سے حاصل کئے۔ یہی بات تمام انبیاءؑ کیلئے ہے۔
روحانی آدمی مادّی علوم حاصل کئے بغیر دنیاوی عالِم فاضل سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ علم کے نئے نئے فلسفے سامنے آتے ہیں۔ پیغمبر تو بن نہیں سکتا کیونکہ پیغمبری تو ختم ہوچکی ہے۔ انبیاءؑ کے علوم ہمیں منتقل ہوچکے ہیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان علوم کو سیکھنے کیلئے کتنی تڑپ اور طلب دکھاتے ہیں۔
مادی علوم سے سیکھنے کا پیٹرن پیدا ہوتا ہے، رُوحانی علوم سے دماغ بڑا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹا دماغ ہے اور ایک بڑا دماغ۔ ایک چھوٹے دماغ والا ہےاور ایک بڑے دماغ والا۔۔ قرآن کو سمجھتے ہیں تو بتائیں۔ زیادہ کون سمجھے گا؟ چھوٹے دماغ والا یا بڑے دماغ والا۔ بالکل ٹھیک۔ بڑے دماغ والا زیادہ سمجھے گا۔ اللہ کی صناعی بڑے دماغ سے ہو تو بات بنتی ہے۔
مادی اور رُوحانی دونوں علوم سیکھیں۔ یہ مت سوچیں کہ روٹی ملے گی یا نہیں۔ بلکہ دماغ بڑا ہوگا۔ علم زیادہ ہو تو ہر شعبے میں کامیابی ہوتی ہے۔ رُوحانی علوم کے حصول سے آپ اس طرح خودآگاہی سے واقف ہوجائیں گے۔ اور یہی سلسلۂ عظیمیہؔ کا مشن ہے۔ اسی مشن کی خاطر ہر شہر میں سینٹر بنائے گئے ہیں جس کی ایک کڑی یہ مراقبہ ہال برائے خواتین ہے۔ انسان سے مراد مرد نہیں ہے بلکہ مرد اور عورت دونوں ہیں، آپ سب خواتین بھی اس بات کیلئے مبارکباد کی مستحق ہیں کہ آپ نے حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے مشن کیلئے، خود آگاہی کیلئے قدم اُٹھایا۔ بالخصوص خواتین سے میری گزارش ہے کہ خود آگاہی اور رُوحانی علوم سے بہرہ مند ہو کر بہترین مائیں بن کر اولاد کی بہترین تربیت کریں تاکہ معا شرہ میں زندہ افراد پیدا ہوسکیں اور اللہ کی طرزِ فکر معاشرے میں عام ہوسکتے۔ (آمین)
السّلام علیکم!