Topics
اس خوشی میں اُسے خبر ہی نہ ہوئی اور قلندر
شعور ترجمہ ہوگئی۔ دیباچہ لکھنا باقی تھا کہ وہ حنیف شاہ صاحب سے ملنے جا نکلا۔ وہ
لوح و قلم کے مسودے کو خواجہ صاحب کو دینے کے بعد کا پوچھ رہے تھے اور جب اُس نے انہیں
بتایا کہ اُس روز کے بعد سے وہ آج تک اُن سے ملنے نہیں گیا ہے تو انہوں نے حیرت سے
کہا۔۔ چھوڑیں جی۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی؟ کوئی اور ہوتا تو اب تک اُس نے چوکھٹ گھسا دی
ہوتی۔ آپ کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔۔۔ اُس نے کوئی جواب دینے اور تبصرہ کرنے کی بجائے
جھینپ کر سر نیچے کر لیا۔ اتنے میں شاہ صاحب کے شریک کار محمود صاحب کمرے میں داخل
ہوئے ۔ اسے دیکھ کر وہ اُس کے قریب آکر بیٹھ گئے اور کہا۔ آپ کو عظیمی صاحب نے بلایا
ہے۔
حیرت سے وہ گنگ ہو کر رہ گیا۔ عظیمی صاحب نے؟ کب بلایا؟ کیسے بلایا؟ آپ ہی سے کہنا تھا کہ اُسے بلا لائیں؟ وہ کیسے جانتے تھے کہ آپ مجھے جانتے ہیں اور میں یہاں اس دفتر آتا ہوں؟ میں نے تو اُن کے سامنے کبھی کوئی ایسا تذکرہ نہیں کیا پھر
انہوں نے پیغام یہاں
کیسے بھجوا دیا؟ ان تمام سوالوں کا جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ جمعے مرکزی
مراقبہ ہال گئے تھے۔۔۔ کوئی مسئلہ دریافت کرنے۔۔۔ پھر وہاں درس میں بھی شامل ہوئے اور
سوال جواب میں وقفےکے دوران اُس کا حوالہ دیا اور بتایا کہ وہ اُسے جانتے ہیں ۔ اس
پہ انہوں نے پوچھا وہ کون صاحب ہیں اور جب انہوں نے بتایا کہ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں
نے لوح وقلم کا ترجمہ کیا ہے انہوں نے فرمایا۔ ” بھئی وہ کہاں ہیں؟ میں اُن کا انتظار
کر رہا ہوں۔ اُن سے کہیئے گا۔۔۔ آکے ملیں تو سہی۔“
اُس نے شاہ صاحب کی طرف دیکھا۔ شاہ صاحب
نے اس تبصرے کو اپنے تکیہ کلام کا سہارا لیا اور کئی بار لہجہ بد ل بدل کے کہا۔ بڑی
بات ہے۔۔۔ اور پھر اسی خوشی میں چائے لانے کا فرمان جاری کیا۔چائے کے دوران وہ حیرت
سے باہر نکلنے کو ہزار جتن کرتے رہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہہ کر انہوں نے بات ٹالنے کی
کوشش کی مگر وہ اڑ گیا۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے ایک شہر بے ہنگام میں ایک بندہ
دوسرے بندے کو اپنے انتظار کی اطلاع دیتا ہے۔ ۔۔۔ اس اطلاع کی ترسیل کا انتظام ہوتا
ہے اور کیا خوب ہوتا ہے۔ یہ ہر گز کوئی اتفاق نہیں ہے۔ یہ نپا تلا اور جچا ہوا نظام
ہے جس کو۔۔۔ تو نمی دانی وہرگز نمی دانی۔
اُس رات اُس نے ترجمے کا باقی ماندہ کام
مکمل کیا اور مسودہ لفافے میں بند کر کے صبح کے انتظار میں سو گیا۔اگلے روز جب ساکنانِ
مرکزی مراقبہ ہال ناشتہ کرنے دستر خوان پہ بیٹھے ہی تھے کہ وہ جا پہنچا ۔ اُس نے سلام
کیا تو انہوں نے اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
” آپ نے قلندر شعور کا ترجمہ کرنے کا حکم دیا تھا۔“ اتنا کہہ کر اُس نے مسودے کا لفافہ حضور خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ مسودہ نکال کر انہوں نے وہاں بیٹھے ایک دبلے پتلے صاحب کی طرف بڑھا تے ہوئے کہا۔ میاں صاحب۔۔۔ یہ دیکھیں۔
میاں صاحب مسودہ
دیکھنے لگے تو انہوں نے لفافہ اُس کو دیتے ہوئے کہا۔ اس پہ اپنا نام اور پتہ لکھیں۔
آپ سے اگر رابطہ کرنا ہو تو کیا جا سکے۔ ”زہے نصیب“ کہہ کر اُس نے اپنا نام اور پتہ
لکھا۔ وہ پتہ لکھ رہا تھا کہ انہوں نے میاں صاحب سے اُس مسودے میں سے کچھ با آواز بلند
پڑھنے کو کہا۔ میاں صاحب نے پڑھنا شروع کیا۔ میاں صاحب نے پنجابی لب و لہجے میں انگریزی
پڑھنا شروع کی تو اُس سے رہا نہ گیا اور اُس نے خود پڑھنے کی اجازت مانگی۔ دو ایک صفحات
پڑھ کر اُس نے اُن کی طرف دیکھا۔ انہوں نے سر کی جنبش سے بس کافی کا اشارہ کیا تو وہ
خاموش ہو گیا۔
کیوں نیاز صاحب؟۔۔۔ انہوں نے ایک گورے چٹے
پٹھان کو رائے دینے کو کہا۔ نیاز صاحب نے ۔۔۔۔”ماشاء اللہ۔۔ بہت خوب“ ۔۔۔ کہہ کر اور
میاں صاحب نے سر کو تائیدی انداز میں ہلا کر اُس کو امتحان میں پاس کر دیا۔ ٹھیک اسی
جگہ تین چار ماہ قبل وہ حواس باختہ سا بیٹھا تھا آج وہ ایک تفاخر محسوس کر رہا تھا۔
امید و بیم سے لے کر قربت کی اُس منزل تک کی مسافت۔۔۔ کتنے ماہ و سال لگے تھے اور وہ
کیسی کیسی کیفیتوں سے دو چار رہا تھا۔ ناشتے کے دوران کسی شادی کا تذکرہ ہوا تو انہوں
نے اُسے بھی مدعو کرتے ہوئے بتایا کہ سعیدہ خاتون کے بیٹے کی شادی ہے۔ آپ بھی آیئے
گا۔
ناشتہ ختم کر کے وہ دستر خوان سے اُٹھ کر
دفتر کی طرف بڑھے۔ میاں صاحب ، شہابی صاحب اور نیاز صاحب کو اُن کے ساتھ جاتا دیکھ
کر اُسے حوصلہ ہوا وہ بھی اُن کے ہمراہ ہو لیا۔ جب وہ کرسی پہ بیٹھ گئے تو وہ آگے بڑھا
اور قلندر شعور کتاب اُن کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ میرے پاس نہ تو آپ کی کوئی تصویر
ہے اور نہ ہی کوئی قلمی تحریر۔۔۔ اس پہ میرے لئے کچھ لکھ دیں۔ انہوں نے قلم پکڑا۔ پوچھا
کیا نام ہے؟ اُس نے نام بتایا ۔ انہوں نے لکھا ۔ میرے عزیز۔۔۔۔
اُس کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔ حضور اس
کے ساتھ عظیمی بھی لکھ دیں۔
پوچھا۔” آپ نے فارم بھرا ہے؟“
اُس نے سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا ۔ فارم۔۔۔
کیسا فارم۔۔۔ کون سا فارم؟
” میاں صاحب ان سے فارم بھروائیں!۔“ کہہ
کر وہ کتاب پہ لکھنے لگ گئے۔ میاں صاحب اُٹھے۔ الماری سے فارم نکال کر اُسے دیا۔ جتنی
دیر میں اُس نے سلسلے میں داخلے کافارم بھرا۔ اتنی دیر میں انہوں نے لکھ کر کتاب میاں
صاحب کو دے دی۔ میاں صاحب نے کتاب پہ لکھی تحریر کو پڑھا اور کتاب نیاز صاحب کی طرف
بڑھا دی۔ نیاز صاحب نے تحریر کو پہلے چوما پھر پڑھ کر ماتھے سے لگایا اور کتاب شہابی
صاحب کی طرف بڑھا دی۔ اُس نے فارم میز کے دوسری جانب بڑھایا۔ انہوں نے فارم پڑھ کر
کے اُس کے دائیں کونے میں” اجازت“ لکھا اور اپنے دستخط کر دیئے۔شہابی صاحب نے مبارک
ہو کہہ کر اُس سے مصافحہ کیا پھر میاں صاحب اور نیاز صاحب نے بھی اُس کو مبارک باد
دی۔ وہ اُن سے مصافحہ کر کے اپنے مراد کی طرف بڑھا۔ اُس وقت اُس کو اُن کے سینے سے
لگ جانے کی ہڑک سی اُٹھی لیکن جب انہوں نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اُس نے اُن
کا ہاتھ تھام لیا۔ اپنے مراد کا ہاتھ تھماتے ہی اُس کی ٹانگیں کپکپائیں، وہ زمین پہ
گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا۔ اُس نے اپنا سر اُن کی گود میں رکھ دیا۔ اُس کے ایک ایک
مسام سے پسینہ پھوٹ نکلا۔ ایک ہچکی سی نکلی اور وہ پھوٹ کے رو دیا۔ ضبط کے سارے بندھن
اُن کی ممتا بھری شفقت کے ریلے میں بہہ گئے۔
اُس کو لگا کڑی دھوپ میں کسی بے آب و گیاہ، سنگلاخ، پتھریلی اور کانٹوں بھری راہ کا مسافر اچانک ہی کسی چشمے کنارے ایک سر سبز و شاداب، چھتنا ر سایہ دار درخت کے نیچے پہنچ گیا ہو۔ پانی اور سایہ دیکھ کر اُس کے قویٰ نے جواب دے دیا تھا۔ سکون و شانتی کے ساتھ ساتھ تحفظ و عافیت کے احساس کو پختہ کرنے کو اُس کے مراد کا تشفی آمیز ہاتھ اُس کے سر کو سہلا اور کندھوں کو تھپک رہا تھا۔ اُس کے مراد کی زیرِ لب دی گئی دعا۔ ۔۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔۔۔۔ اُس کی اندر کی خشک زمین پہ بہار کی پھوار بن کر برس رہی تھی۔
اُس نے آنسوؤں کی
چلمن کے عقب سے انہیں دیکھا۔ اُن کے چہرے پہ اُس کو ممتا کے نور کے علاوہ اور کچھ نہیں
دکھائی دیا۔ اللہ تعالیٰ بھی تو اپنی مخلوق کے لئے اپنی محبت کو ستر ماؤں کی محبت سے
زیادہ بتاتا ہے۔ اُس کے مُراد نے اُسے خود کو ابّا کہنے کا جو ادھیکار دیا تھا وہ اس
کی زندگی کا حاصل اور توشہ آخرت تھا۔ اُس نے خود کو بمشکل سنبھالا۔ اپنی ٹانگوں کو
اپنا بوجھ اُٹھانے پر آمادہ کیا اور پرے ہٹ کر کرسی پہ بیٹھ کر پسینہ اور آنسو پونچھنے
لگ گیا۔
سلسلے میں داخلہ ملنے کا احساس اتنا جانفزا
تھا کہ اُس کو مراقبہ ہال اور وہاں کی ہر چیز اپنی اپنی سی لگنے لگی۔ اُ س روز وہ دوپہر
تک وہیں رہا۔ اپنے مراد کی باتیں سنتا رہا۔ مراقبہ ہال کے انتظامی امور سے متعلق باتیں،
شاگردوں کی فکری راہنمائی سے متعلق باتیں، اُن کی عام سی ادھر اُدھر کی باتوں میں بھی
اُس کو لوح و قلم کے حوالے محسوس ہوتے رہے۔ مرید نے سوال پوچھا۔ حضور یہ علم الاسما
کیا ہے؟
مراد نے کہا۔” آج تو آپ کو نرسری جماعت میں
داخلہ ملا ہے اور آپ کا سوال پی ایچ ڈی کے لیول کا ہے۔“ مرید نے دل ہی دل میں شکر کیا۔
داخلہ تو ملا اب پی ایچ دی بھی ہو ہی جائے گی۔ مراد نے قدرے توقف کے بعد دھیمے سے اضافہ
کیا۔” علم الاسما ایک صندوق ہے علوم کا جو مراقبے کی چابی سے کھلتا ہے۔“ آج کے لئے
اتنا ہی کافی ہے۔ مرید نے سوچا۔
رہا ہے اور کوئی
اُدھر بیٹھا اپنا برتن چمکا رہا ہے۔“ انہوں نے خانقاہی طرزِ تربیت سے روشناس کرانے
کو کہا۔
گھر جا کر وہ چار پائی پہ لیٹا چھت کو دیکھتا
رہا۔ شام کو اُٹھا۔ تیار ہو کر شادی ہال پہنچ گیا۔ نیاز صاحب نے مرید کو اُس کے مراد
کے ہمراہ کھڑا کر کے اُن کی کئی تصویریں بنائیں۔ صبح کی گئی فرمائش رات ہونے سے پہلے
پہلے پوری کر دی جائے تو بچوں پہ شکر کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ آج صبح ہی تو اُس نے تصویر
اور تحریر والی بات کہی تھی۔ مراد نے غیر محسوس طریقے سے بغیر جتائے مرید کی خواہش
پوری کر کے اُس کو طمانیت آشنا کر دیا۔سنتے ہیں مرشد کامل کچھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں
کیوں کہ وہی ایسا کر سکتے ہیں۔
بارات کے آنے میں ابھی وقت تھا۔ وہاں کسی
سے اُس کی شناسائی نہ تھی سوائے اپنے مراد کے۔ جن اصحا ب سے وہ اُن دنوں روشناس ہوا
تھا اُن میں سے صرف نیاز صاحب ہی وہاں نظر آئے جو کیمرہ لئے تصویریں اتار رہے تھے۔
اُسے لگا وہ اسی بہانے اپنے مراد کا طواف کر رہے ہیں جو اُس وقت شادی ہال کے گیٹ کے
قریب کھڑے تھے۔چند ایک افراد اُن کے ساتھ پہلو بہ پہلو کھڑے نیم دائرہ سا بنائے ہوئے
تھے۔ وہ سب ہی اُن کے مرید تھے۔ سب ہی انہیں ابّا کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔ ابّا حضور
بھی اپنے روحانی شاگردوں کو شاگرد یا مرید سمجھنے کی بجائے انہیں اپنی اولاد مان کر
اُن کی ذہنی ، فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت میں جتے ہوئے تھے۔ ایک ہاتھ اپنے پہلو
میں کھڑے صاحب کے کندھے پہ رکھ کے باتیں کرتے وہ اپنائیت کا احساس نشر کر رہے تھے۔
تو ایک خصوصی صلاحیت
تھی۔ اُس لمحے تک مرید کے ذہن میں موجود اخباری، صحافتی اور ادبی حلقوں میں پایا جانے
والا عام تاثر کہ ترجمہ کرنا کوئی اتنے بھی اعزاز کی بات نہیں مٹ گیا۔ اُس کو احساس
کمتری سے نجات دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سب کی توجہ یہ کہہ کر اللہ کی طرف موڑ دی۔”
ہر خصوصی صلاحیت اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے۔“
مہمان آتے رہے۔ آ کر سجے ہوئے پنڈال میں
بیٹھتے رہے۔ پھر بارات آئی۔ کھانے کا اعلان ہوا۔ سب نے کھانا کھایا۔ کھانے میں وہ ہڑبونگ
اور افراتفری دیکھنے میں نہ آئی جو ایسی تقریبات کا خاصہ ہوتی ہے۔ اُس نے سوچا یہ کراچی
کے لوگ ہیں جو پشاور اور لاہور کے لوگوں سے زیادہ تہذیب یافتہ ہیں۔وہ اپنے مراد کو
لوگوں سے ملتے، اُن کے تہنیتی کلمات اور مزاج پرسی کے رسمی جملوں کو بھی اسی دلجمعی
اور توجہ سے سنتے اور جواباً اُن کی مزاج پرسی کرتے دیکھتا رہا جیسے وہ لوگوں کے مسائل
سن کر اُن کا حل بتاتے تھے۔
مرید نے عرس پہ لوگوں کے ہجوم کو اپنے کشادہ
اور وسیع سینے میں سمیٹنے کا منظر کا اس رکھ رکھاؤ سے لوگوں کے اُن سے ملنے کا موازنہ
کیا۔ آج لوگوں کو اُن میں کشش کی وہ لہریں کیوں محسوس نہیں ہورہیں جن کا مشاہدہ اُس
کو چارسال پیشتر عرس پہ ہوا تھا۔ ایک مرید کہہ رہا تھا۔ ” یہ سب کچھ خود ہی کرتے ہیں۔۔۔
اگر ہمہ وقت لہروں کی کشش کا وہی عالم قائم رہے تو دنیا کے کام کیسے ہوں گے۔“ کشش کی
لہریں وہاں نہ ہوتیں تو وہ اُس بیگانی شادی میں آتا ہی کیوں۔
اضطراب ہی کا اظہار
تو ہیں۔۔۔ انسانی زندگی کی یہ پریشانیاں، کشائش اور ادبارمیزبان اپنے بھارتی دورے کی
بابت بتا رہا تھا۔” میرا دو ماہ کا پروگرام تھا کہ اوپر والوں نے اچانک ہی واپس جانے
کا حکم صادر کر دیا۔ وہاں لوگوں کے شعور نے اُن کی نیلم جڑی سونے کی انگوٹھی اور ڈاڑھی
پن کو بہانہ بنا کر اُن کی بات کو توجہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ وہ اُس انگوٹھی
کا نیلم اپنے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کی عنایتوں کی ایک یاد کے طور
پر پہنے ہوئے تھے۔ اُن کے لہجے میں اُس لمحے دکھ در آیا جب انہوں نے کہا۔ ” اگر میں
سائیکالوجی یا اسی قبیل کا کوئی اور علم سیکھنے سکھانے کا ادارہ بناتا اور اُس کا پرنسپل
ہوتا تو کیا پھر بھی آپ میرے علم کو میرے ڈاڑھی سے ناپتے؟ ہرگز نہیں۔ انہوں نے بتایا۔
وہاں ایک دو مندروں میں بھی گئے۔ ایک مندر کی بابت بتایا۔” وہاں آنے والے یاتری خیرات
کرتے ہیں اور بعض لوگ صرف خیرات ہی کھاتے ہیں اور خصوصی طور پر خیرات کے کھانے کھانے
پر معمور ہیں۔ ہزاروں سینکڑوں لڈو انہیں روزانہ کھانے پڑتے ہیں۔ اُن میں سے ایک آدمی
کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ لحیم شحیم اور تن ومند آدمی۔ بندہ دیکھے تو حیرت زدہ رہ
جائے۔“فرمایا۔” اُس کی جسامت دیکھ کر میں نے اُن لوگوں سے پوچھا کہ بندے کے ہاتھ تو
اُس کے پیٹ کے پھیلاؤ کے سبب جسم کے نچلے حصے تک پہنچتے نہیں ہیں پھر آخر یہ رفع حاجت
کے بعد طہارت کیوں کرتا ہے؟ اس پر مجھے بتایا گیا کہ جب یہ فارغ ہوجاتا ہے تو ماشکی
مشک سے پانی ڈالتا ہے۔ ایک آدمی آگے کھڑا ہوتا ہے اور ایک پیچھے اور وہ دونوں ایک لمبا
تولیا لے کر اُس کے جسم کے نچلے حصے کی صفائی کر دیتے ہیں۔ ہنس کہا ۔ یہ سوال پوچھنے
کا خیال شاید ہی کسی کو آیا ہو۔
باقاعدہ اُس مورتی
کے گرد تولیہ لپیٹ کر اُس کی ستر پوشی کی۔ پھر اُس کے دھوتی کھولی۔ اسے اتار کر اُس
تولیے کے اوپر نئی دھوتی باندھی اور پھر تولیہ کھول کر نیچے سے کھینچ لیا۔ معلوم ہوا
کہ اُس عورت کا بچہ کھو گیا تھا۔ فرمایا۔ ماں کی ممتا کے قرار کے لئے ہم نے بھی دعا
کی کہ اللہ اُس کا بیٹا اُس سے ملوا دے۔
مرید نے سوچا ایک طرف لوگوں کے شعور کی مزاحمت
کا یہ عالم اور دوسری طرف اُن کے اخلاص کی یہ حد۔ فقیر ہی نہیں وہ قلندر دوراں بھی تو ہیں۔ لوگوں نے اپنے ظرف کے مطابق بات
کی اور انہوں نے اپنی عالی ظرفی کے مطابق۔ یہ سب قرآن کی تعلیمات کو درست انداز سے
سمجھنے اور قلندر بابا اولیا ہی کی وجہ سے ہے۔ اس کی ذہنی رو ایک مرتبہ پھر لوح و
قلم کی طرف مُڑ گئی۔لوح وقلم پڑھنے کے بعد اُسے اس بات کا ذاتی تجربہ ہو رہا تھا کہ
قرآن حکیم کی فہم بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ قرآن پڑھتا تو اُس کو اُس کے مفاہیم کچھ زیادہ
بہتر اور موثر انداز میں سمجھ آتے تھے۔ اُس نے اپنے مراد سے کہا۔ قرآن پاک کے جتنے
بھی تراجم اور جتنی بھی تفاسیر اُس نے دیکھی ہیں اُن سب میں کوئی نہ کوئی مخصوص زاویہ
زیادہ ابھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن کسی نے قرآن حکیم کی روحانی حوالے سے ترجمہ یا
تفسیر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
”لوگ قتل کر دیتے ہیں۔شاہ ولی اللہ نے ترجمہ
کیا تو اُن کے ہاتھوں کے جوڑ کھنچوا کر انہیں لُجا کر دیا گیا تھا۔ اب ایسے میں کس
کو پڑی ہے کہ بلا وجہ قتل ہوتا پھرے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانیت علم سینہ ہی بنی رہی۔“
انہوں نے لوگوں کی بے بصیرتی کو اُن کی جہالت کی وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا۔
” اچھا یہ فرمائیں کہ فقیروں اور بادشاہوں
میں کبھی کیوں نہیں بنی؟“ اُس نے اپنے اندر ایک بہت پرانے سوال کی پھانس اُن کے سامنے
رکھ دی۔
ساتھ ساتھ اُس کے
ذہن کو درست راہ پر ڈالنے کو سوال پوچھا۔ اور جب دیکھا کہ ابھی اُس کو ان باتوں کا
شعور ہی نہیں تو فرمایا۔” اجی کبھی کسی فقیر نے بادشاہ بننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ وہ
خواہشِ اقتدار ہی نہیں رکھتا تو وہ کسی بادشاہ سے بھلا کیوں پرخاش رکھے گا۔ ہاں جب
بھی کسی بادشاہ نے فقیر سے مدد مانگی اُس نے کی۔ بادشاہوں نے فقیر کے در پہ ماتھا ٹیکا۔
وہ اپنی غرض کو ننگے پاؤں چل کر فقیروں کے پاس گئے۔ ہمایوں گیا تھا اولاد کی بھیک مانگنے
سلیم چشتی کے پاس۔ بھئی بادشاہوں کو فقیر سے ڈر لگتا ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر عوام
نے اس کی بات سُن لی تو وہ اُس چکر میں نہیں آئیں گے۔ فقیر تو خود بادشاہ ہوتا ہے۔
وہ بادشاہ کیوں بننے لگا۔“
بھئی یہی وجہ ہے کہ بادشاہوں نے تخت و تاج
چھوڑ کر فقیری اختیار کی۔ بدھا سے لے کر ابراہیم بن ادھم تک کتنوں نے بادشاہت کو
لات ماری۔ آپ دیکھیں دنیاوی وسائل بادشاہ کے پاس ہوتے ہیں یا فقیر کے پاس؟
سب نے ایک آواز سے جواب دیا۔ ” بادشاہ کے پاس۔“
فرمایا۔” کسی بادشاہ نے کبھی لنگر کیوں نہیں
چلایا؟ فقیر چلاتا ہے لنگر۔ آپ لاہور میں جہانگیر کا مقبرہ دیکھیں۔۔۔۔ اُسی لاہور میں
داتا صاحب کا مزار بھی ہے۔ دونوں کا فرق واضح ہے۔ ایک جگہ لوگ تفریح کے لئے جاتے
ہیں اور دوسری جگہ عقیدت و احترام سے منتیں اور مرادیں مانگنے۔ ایک جگہ دن میں چار
لوگ جائیں تو جائیں ، رات میں کتنے کتے لوٹتے ہیں اور دوسری جگہ دن ہو یا رات مانگنے
والوں کا رش لگا رہتا ہے۔“
پھر اُس کو حقیقت سے روشناس کرنے کو فرمایا۔” اہلِ بیت پہ اتنے مظالم ہوئے، انہیں چن چن کر قتل کیا گیا۔ انہوں نے
علم کو اپنے سینوں
میں چھپالیا اور خود خانقاہوں میں جا چھپے ۔ کہا یہ دنیا تم ہی کو مبارک ہو۔ اسے تم
ساتھ لے کر تو جا نہیں سکتے۔ جو وہ ساتھ لے جا سکتے تھے اس کی دیکھ بھال میں لگے رہے۔“
پھر ایک قصہ سُنایا۔ شیر شاہ سوری ایک فقیر
سے ملنے چلا گیا۔ فقیر نے اُس کی خوب آؤ بھگت کی۔ تواضح میں لگا رہا۔ جب شیر شاہ سوری
رخصت ہونے لگا تو اُس نے فقیر سے کہا۔ میں تو سمجھا تھا کہ آپ مجھے اتنی توجہ نہیں
دیں گے لیکن آپ تو بالکل دنیا داروں کی طرح میری خاطر داری میں ہی لگے رہے۔فقیر نے
پوچھا۔” آپ نے میرے بارے ایسا گمان کیوں رکھا کہ میں آپ پہ التفات نہیں کروں گا؟ اُس
نے کہا۔ آپ نے دنیا چھوڑی۔۔۔ یہاں ویرانے میں پڑے ہیں۔۔۔ آپ کو دنیا داروں سے کوئی
توقع نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے میری تواضع کی تو اس میں آپ کا ضرور کوئی مقصد ہوگا۔ فقیر
نے کہا۔” میں نے آپ کی تواضع اور خاطر مدارت اس لئے نہیں کی کہ مجھے آپ سے کوئی غرض
ہے بلکہ یہ سب اس لئے کیا ہے کیوں کہ آپ مجھ سے بڑے فقیر ہیں۔ اب شیر شاہ سوری چونکا۔
اُس نے کہا ۔ ” میں کہاں سے فقیر ہوں۔؟“ فقیر نے کہا۔” آپ نے مجھے فقیر جانا کیوں کہ
میں نے دُنیا کو چھوڑا۔ میں آپ کو اس لئے بڑا فقیر مانتا ہوں کیوں کہ آپ نے آخرت کو
چھوڑا۔ اب آپ ہی بتائیں کہ بڑا فقیر کون ہے؟ فرمایا۔ اُس فقیر کی بات کا اُس پہ اتنا
اثر ہوا کہ وہ دنیا چھوڑ کر فقیری اختیار کرنے پہ تیار ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ خواب میں
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اُسے سمجھایا کہ ”تم دنیا میں اچھے کام کرو۔۔۔ یہ دنیا چھوڑنے
سے کہیں بہتر ہے اور فقیروں کے چکر میں مت پڑو۔“
کچھ توقف کے بعد اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔” فقیر کے قریب زیادہ نہیں رہنا چاہئے۔ آدمی دنیا کے کام کا نہیں رہتا۔ آپ کمرے میں ہزار واٹ کا بلب لگا لیں دیکھیں کتنی دیر برداشت کرتے ہیں۔ آپ کو پسینہ آجائے گا۔ آپ کا سر چکرا جائے گا۔ آپ فقیر سے کتنی باتیں نئی سُنیں گے۔ ایک بات سُنیں اُس پہ غور کریں۔ پھر دوسری سُنیں
اُس پہ غور کریں
پھر تیسری سُنیں۔ یہ نہیں کہ ایک ساتھ ہی کئی باتیں سُنیں۔ اس سے ذہن سُن ہو جاتا ہے۔“
اُس کو لگا یہ بات انہوں نے خاص اُس کی خواہشوں
کو لگام دینے کو کہی ہے۔اُس نے بہت دھیان سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ آدمی دنیا
کے کام کا نہیں رہتا تو پھر وہ کس کام کا رہ جاتا ہے؟ جو لوگ دنیا کے کام کے نہیں ہوتے
لوگ انہیں ناکارہ اور بے کار قرار دیتے ہیں۔ تو کیا فقیر کی باتیں سننے سے لوگ ناکارہ
اور بے کار ہو جاتے ہیں؟ اُس کا جی چاہا کہ وہ یہ سوال اُ ن سے دریافت کرے۔اُس کے اس
سوال کا الفاظ کا جامہ پہنانے سے پیشتر انہوں نے فرمایا۔” نہ جانے لوگ روحانیت کے چکر
میں پڑتے ہی کیوں ہیں؟ اس سے نہ تو نوکری ملتی ہے اور نہ ہی کسی تنخواہ میں کبھی اضافہ
ہوتا ہے۔“
اُس کی سوچ فکر کی راہ کے اس موڑ کے لئے
بالکل تیار نہ تھی۔ وہ گھوم کر رہ گیا۔ وہ طنز فرما رہے تھے یا اک ایسی تلخ حقیقت بیان
کر رہے تھے جس کی طرف اس سے پیشتر کبھی دھیان گیا ہی نہ تھا۔ اُس نے جلدی سے بات بنانے
کو کہہ دیا۔ لوگ فقیر کے پاس فقیری سیکھنے بھی تو آتے ہیں۔
انہوں نے ایک اچٹتی سی نگاہ اُس کی طرف کی
اور فرمایا۔” مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے مجھے کہا تھا۔ خواجہ صاحب!
فقیر ذات کا چمار ہوتا ہے اُس پہ اوپر سے بیگار نازل ہوتی ہے۔۔۔ اب کون ہوگا جو بیگار
کے لئے تیار رہنا چاہے گا۔ یہاں تو جس کو دیکھو اسی چکر میں ہوتا ہے کہ فقیر اُس کے
لئے دُعا کرے اور اُس کے بگڑے کام بنتے رہیں۔ اب اگر فقیر دنیا داروں کی طرح سوچنے
لگے تو وہ کر چکا دُعا۔“
پیشتر اس کے وہ کچھ اور کہتا۔۔۔ ایک صاحب نے آگے بڑھ کر کہا۔۔۔ اُن کے ایک عزیز کو ایک عجیب سی پریشانی لاحق ہے اور وہ یہ ہے کہ انہیں کئی ہفتوں سے بالکل کوئی اجابت نہیں ہو رہی ہے۔ اُن کو کوئی خاص تکلیف بھی نہیں سوائے اس کے کہ اُن
کے سر میں ہلکا ہلکا
درد رہتا ہے وہ کئی حکیموں اور طبیبوں کو بھی دکھا چکے ہیں لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔
وہ اس کی وجہ جاننے کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی دریافت کرنا چاہ رہے تھے۔ اُس پہ انہوں
نے فرمایا۔ ” کسی وجہ سے اُن کا نسمہ متحرک ہو گیا ہے اور وہ اُن کے فضلے کو اِدھر
اُدھر کر دیتا ہے اور علاج یہ فرمایا کہ مریض کو میٹھا زیادہ کھلائیں ، زیادہ سلائیں
اور وہ زیادہ وقت اندھیرے میں گزارے۔ اس کے ساتھ ہی وہ آگے کو جھکے۔ دونوں ہاتھ زمین
پہ ٹیک کر اُٹھے اور چل پڑے۔
محفل کے اس طرح یک دم بلا کسی اعلان کے اختتام
پذیر ہونے کا جھٹکا برداشت کرنے کو سب ہی کو اُن کے ساتھ ہی اُٹھنا پڑا۔ اُن سب کو
وہیں رُکنے کا اشارہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر کہ۔۔۔۔ میں ذرا ہاتھ دھو لوں۔۔۔ اور پھر ہاتھ
دھو کر۔۔۔۔ وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔ ایک دبلے پتلے صاحب نے جو پاسبانی کے فرائض
سنبھالے ہوئے تھے ، احترام سے دروازے کی چِق اُٹھائی اور وہ اندر داخل ہو گئے۔ چِق
چھوڑ کے وہ ایک طرف ہٹ کر مودب اور منتظر کھڑے ہوگئے۔ سب کی نگاہیں اُن کے تعاقب میں
اُن کے ساتھ ساتھ تھیں۔ چِق گرنے کے بعد جیسے سب اپنے آپ میں واپس آگئے۔ کسی کو دفتر
یاد آگیا، کسی کو اپنے ذمے لگے کام کی فکر ہوئی۔ دو ایک نے جھاڑو پکڑا اور ایک دو افراد
پودوں کو پانی دینے اور دیگر انتظامات میں مصروف ہوگئے۔ کچھ ایک دوسرے سے باتوں میں
لگ گئے۔
اُس نے موقع غنیمت جانا اور مراقبہ ہال کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ ٹہلنے لگا۔ گیٹ کے ساتھ بنا کمرہ استقبالیہ اور طعام گاہ دونوں ہی کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کا صحن ایک طرح کی عام چوپال تھی۔ اس صحن کی حدِ بندی۔۔۔۔داخلہ کا راستہ چھوڑ کر۔۔۔۔۔ دو فٹ اونچی منڈیر سے کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ شمال کی طرف کبوتروں کے کابک ، ایک کمرہ ، دو تین باتھ روم۔ اس کے بالکل مقابل مغربی سمت میں ایک چوکور سا کمرہ جس کے اوپر آستانہ لکھا ہوا تھا۔ آستانے کی سیدھ میں شمال کی طرف دو کمرے ایک پہ ” حضور ابا جی کا کمرہ“ اور دوسرے پہ ” دفتر“ کی تختی لگی ہوئی
تھی۔دفتر کے پہلو
میں ایک دالان نما برآمدہ تھا۔ دالان اور اُس کے سامنے لان کی حد بندی کو ایک ڈیڑھ
فٹ کی منڈیر تھی۔ لان کی طرف منڈیر کے ساتھ ساتھ پختہ روش کے دونوں جانب سُرخ رنگ کا
حاشیہ سلیقے اور جمالیاتی ذوق کا پتہ دیتا تھا۔ لان کے مغربی اور جنوبی جانب مہندی
کی باڑ لگی ہوئی تھی۔ مغربی باڑ کے پیچھے گلاب کے پھولوں کی کیاری تھی۔
اُس کیاری کے بعد مغربی دیوار کے ساتھ شمال
کی طرف ایک قد آدم گہرے چوکور گڑھےکے کنارے نیلے رنگ کی تختی پہ ”حرا“ لکھا دیکھ کر
قریب چلا گیا۔ تالاب نما خشک گڑھے کے اندر لوہے کا بنا ہوا اہرامی ڈھانچہ دیکھ کر وہ
حرا اور اہرام میں قدر مشترک کی بابت سوچنے لگا۔ اُس کے اندر ذہن میں دو باتیں آئیں۔
اہرام اور حرا کا تعلق انبیائے کرام سے تھا۔ دوسرے یہ کہ دونوں ہی ایک مخصوص زاویے
کے حامل تھے۔ ایک میں اشیاء کو محفوظ کرنے کی صلاحیت تھی تو دوسرے میں فکر کو لافانی
بنانے کا اعجاز۔
لان کی جنوبی باڑ کے عقب میں ایک چبوترہ جس پر لکڑی کے چار ستون کھڑے کر کے کھپرل کی چھت ڈالی ہوئی تھی۔ ایک ستون پہ لگی تختی پہ ” صفہ“ لکھا دیکھ کر اُسے ایک مسرت آمیز احساس نے اپنے حصار میں لے لیا۔ وہ جوتے اتار کر چبوترے میں بچھی دری پہ بیٹھ گیا۔ پورے مراقبہ ہال کی زمین کے گرد اگرد سیمنٹ کے بلاک اوپر تلے رکھ کر بنائی ہوئی دیوار کو دیکھتے ہوئے جانے کیوں اُس کو اپنے لڑکپن کی یاد آگئی۔ جب وہ ایک گاؤں میں رہٹ کنارے کھپریل کی چھت والے چبوترے پہ گڑے لکڑی کے ستون سے ٹیک لگائے بیٹھ کر اصحاب صفہ کا تذکرہ پڑھتے ہوئے سوچا کرتا تھا۔ وہ کھجور کی ڑہنیوں سے بنی چھت سے کھجور کے کچے خوشے لٹکا دیتے تھے ۔ جب کھجوریں پک کر گرتی تھیں تو اُن کو کھاتے تھے۔
اُس وقت وہ یہ سوچ
سوچ کر ہلکان ہوا کرتا تھا کہ کھجوریں کتنے دنوں میں جا کر اتنی پکتی ہوں گی کہ ٹپک
سکیں اور اتنے دن کیا وہ اور کچھ نہیں کھاتے تھے۔ آج اُس کو اپنی حیرت یاد آئی اور
آج ہی اُس کو یہ بھی سمجھ آگئی کہ فقیری کے تین بنیادی اصولوں۔۔۔ کم کھانا، کم سونا
اور کم بولنا۔۔۔ کی اصل اور جڑ کتنی گہری ہے۔ وہ اس لئے کم کھاتے تھے کہ اُن کے پاس
اس کام پہ صرف کرنے کا وقت نہیں ہوتا تھا نہ کہ اس لئے کہ کھانے کو کچھ دستیاب نہ ہوتا
تھا۔ اب ہم جو چاہیں سمجھتے رہیں۔ وہ اُس وقت بھی حیران ہوا تھا جب اُس نے لڑکپن میں
یہ بات پڑھی تھی اور حیرت آج بھی تھی۔۔۔لیکن اُس وقت کی حیرت یہ تھی کہ جب کھانے کو
دستیاب نہ ہو تو گزران کیسے کی جائے اور آج اسے حیرانی اس بات پہ تھی کہ آخر وہ مصروفیت
کیا تھی جس کے سبب اصحابِ صفہ کے پاس کھانے کا انتظام کرنے کا وقت نہ تھا۔ ابھی وہ
اُن کی مصروفیات کا تعین نہ کر پایا تھا کہ اُس کو خیال آیا کہ گزران اور مصروفیت میں
تمیز کرنے کرنے میں وہ اپنی جوانی کا دور عبور کرنے کو ہے۔ اس سالگرہ پہ وہ چالیسویں
سال میں جا لگے گا اور اُس میں بھی اب کم دن ہی رہ گئے تھے۔
اچانک اس نے دیکھا کہ اُس کا مراد زمین سے کانٹے پتھر اور سنگریزے اُٹھا رہا ہے۔ اُن کے ساتھ دوسرے افراد بھی مراقبہ ہال کے احاطے سے کنکر چن رہے ہیں۔ چند لمحے تو وہ انہیں دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے جوتی پہنی اور خود اس کام میں جت گیا۔ اب دھوپ میں تمازت آ چکی تھی۔ کنکر، پتھر چنتے ہوئے اُس کو پسینہ آگیا۔ انگلی سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے اُس نے سوچا۔۔۔میں مراقبہ ہال کی زمین سے کانٹے پتھر نہیں بلکہ اپنے نصیب میں گڑی پھانسیں اور زندگی کی راہ میں اٹکے روڑے نکال رہا ہوں۔۔ یہ سوچتے ہوئے اُس نے اپنے مراد کی طرف نظر کی۔ عین اُسی لمحے انہوں نے بھی اُس کی طرف دیکھا۔ ہاں شاید کچھ ایسا ہی ہے۔۔ اُس کو محسوس ہوا کہ اُن کا اس کو دیکھنے میں یہ پیغام تھا۔۔۔ اُس نے نگاہیں جھکالیں اور دلجمعی سے کنکر، پتھر اور کانٹے چننے لگا۔
اب وہ اکثر مراقبہ
ہال آجایا کرتا۔ کبھی صبح سویرے تو کبھی شام ڈھلے۔ صبح نماز فجر کے بعد آستانے میں
اپنے مراد کو مچھروں سے بچنے کو چادر اوڑھے مراقبہ کرتے دیکھتا رہتا۔ اُن کے ساتھ مراقبہ
کرنے والے آنکھیں بند کئے تصور شیخ کا مراقبہ
کرتے۔ وہ مراقبے کے آغاز میں آنکھیں بند کرتا اور پھر آنکھیں کھول کر انہیں دیکھنے
لگ جاتا۔وہ حسبِ ہدایت تصور کرنے کی کوشش کرتا لیکن اُس کے اندر اتھل پتھل شروع ہو
جاتی۔ مرید کو سمجھ نہ آتی کہ جب اُس کا مراد بنفس نفیس اُس کے سامنے ہے تو وہ آنکھیں
بند کر کے اُن کا تصور کیوں کرے؟ براہ راست اُن کو دیکھ سکتا ہو تو پھر آنکھیں بند
کرنا کفرانِ نعمت نہیں تو اور کیا ہے؟ وہ انہیں دیکھتا رہتا اور سوچتا کہ وہ کیا سوچ
رہے ہوں گے؟ وہ اپنے پیر و مرشد حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا تصور کئے بیٹھے ہیں
یا کہیں کچھ تکوینی امور چل رہے ہیں۔ سوچتے سوچتے وہ اُن کے پیچھے لگی قلندر بابا اولیا
کی تصویر کو دیکھنے لگ جاتا۔لوح و قلم میں لکھی کوئی بات حافظے میں دور کرتی اور
وہ جانے کہاں سے کہاں نکل جاتا۔ کبھی وہ آستانے کے اندر بیٹھا دیواروں میں بنے روزنوں
کو دیکھتا۔ اُن روزنوں کی وجہ سے اُسے لگتا کہ آستانے کے باہر کی فضا آستانے میں داخل
ہے۔
ایک دو بار جب اُسے وہاں پہنچنے میں تاخیر
ہوگئی اور اندر مزید افراد کی گنجائش نہ دیکھی تو وہاں آستانے کے باہر دروازے کے سامنے
بیٹھے لوگوں کے ساتھ مراقبہ کرنے لگا۔ اُسے محسوس ہوا کہ اندر کی فضا کا پھیلاؤ باہر
پورے مراقبہ ہال کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ مراقبہ ختم ہونے کا اعلان درود شریف
کی مدھر اور میٹھی آواز سے ہوتا۔ کبھی کبھی تو اُسے لگتا وہ اُس آواز کے انتظار میں
ہی مراقبہ کرتا رہا تھا۔
مراقبہ کے بعد وہ دُعا کرتے۔ دُعا کے بعد کسی موضوع پہ اظہارِ خیال کرتے۔ اس درس میں خانقائی نظام کے آداب سے لے کر باطنی اسرار اور رموز سبھی کچھ ساتھ ساتھ ہوتا۔ کبھی وہ کسی ایک موضوع کے کسی ایک جزو کو مرکز توجہ بنا دیتے اور اس کو مثالوں سے سجاتے چلے جاتے، کبھی مختلف موضوعات کا ایک گلدستہ بنا کر
اپنے بچوں کی طرزِ
فکر کو آرستہ فرماتے۔ کبھی اُسے محسوس ہوتا کہ وہ صرف اسی سے مخاطب ہیں اور اُس کے
ذہن میں موجود سوالیہ نشانوں کو کھرچ رہے ہیں۔
درس کے بعد اگلی قطار میں سے ایک دو افراد۔۔۔۔
سر جھکائے۔۔۔ بیٹھے بیٹھے۔۔۔آگے بڑھتے ۔ وہ ہاتھ بڑھا کر اُن کے سر پہ رکھ دیتے اور
انہیں دم کرتے۔ دم کر کے اُن پہ ایک دو بار پھونک مارتے۔ وہ انہیں لوگوں کو دم کرتے
دیکھ کر سوچتا کہ کوئی کچھ منہ سے کہتا نہیں ہے اور وہ دم کر دیتے ہیں۔ کیا انہیں پہلے
سے معلوم ہوتا ہے کہ دم کروانے والا کیا چاہتا ہے؟
ایک دن اوروں کی دیکھا دیکھی وہ بھی آگے
بڑھا۔ انہوں نے اُس کے سر پہ ہاتھ رکھا اور اُسے اپنا دایاں ہاتھ دل کے مقام پہ رکھنے
کو کہا۔ وہ زیرِ لب کچھ پڑھ رہے تھے ۔ پھر انہوں نے اُس کے ماتھے پہ پھونک ماری۔ سر
پہ رکھے ہاتھ کی انگلیوں میں جنبش سی ہوئی ، گویا کچھ لکھ رہے ہوں۔ اُس کے دل کی دھڑکن
تیز ہونے لگی۔ وقت تھم سا گیا تھا۔ اُس نے ہٹنے کا سوچا لیکن اُن کے ہاتھ کا ہلکا سا
دباؤ برقرار رہا۔ وہ بیٹھا رہا۔ انہوں نے دوبار مزید پھونکا اور ہاتھ ہٹا کر اپنی انگلیوں
کو جھاڑنے کے انداز میں جھٹک دیا۔ وہاں سے ہٹ کر وہ واپس اپنی جگہ بیٹھا تو اُس نے
محسوس کیا کہ وہ پسینہ پسینہ ہو چکا تھا۔
اس کے بعد وہ اُٹھ جاتے اور مراقبہ ہال کا چکر لگاتے۔ ایک دو افراد ہمراہ ہو جاتے۔ تعمیر و تزئین کے حوالے سے ہدایات دیتے۔ پھر گھنٹی بجتی اور سب دستر خوان پہ اکٹھے مل کر بیٹھ کر ناشتہ کرتے۔ ناشتہ کے دوران کبھی کوئی سوال پوچھا جاتا تو وہ اُس کی وضاحت فرماتے۔ کبھی کوئی لطیفہ سنا دیتے۔ اُس نے محسوس کیا کہ اُن کی حس مزاح نہایت اعلیٰ درجے کی ہے۔ لطافت اور شگفتگی کے علاوہ کوئی نہ کوئی سبق اپنے اندر سمیٹے ہوئے۔ اندازِ بیان ایسا کہ ذہن کی اسکرین پہ مناظر ابھر کر حواس کو اپنی گرفت میں لیتے چلے جاتے۔ ایک بار فرمایا۔” بھئی میں تو ایک داستان گو ہوں“ کچھ لوگ
کہانی سنا ہی نہیں
سکتے۔ لیکن کچھ افراد میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ بات شروع کر دیں تو سماں باندھ دیں۔
کئی بار ایسا ہوا کہ ناشتہ ختم ہونے کے بعد بھی محفل جمی رہتی۔ سوال پوچھے جاتے، جواب
ملتے اور انشراح کی کیفیت دو آتشہ ہوتی چلی جاتی۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔