Topics
ایک دو روز بعد اُس نے اخبار میں تھیو سو
فیکل ہال میں عظیمی صاحب کے خطاب کی بابت پڑھا اور وہاں پہنچ گیا۔ خطاب کے دوران وہ
انہیں دیکھتا رہا۔ ایک دو دفعہ تو اُسے لگا وہ صرف اُسی سے مخاطب ہیں۔ اِس سے اُسے
طمانیت اور مسرت کے ساتھ ساتھ اپنائیت کا ایک احساس ہوا۔ ۔۔۔خطاب شروع ہو کر ختم ہو
گیا۔ روح اور اُس کو جاننے کے حوالے سے خطاب کے بعد افطاری ہوئی۔ وہ انہیں افطاری کا
انتظام کرتے، لوگوں سے ملتے، اُن کے سوالوں کے جواب دیتے۔۔۔ دور دور دیکھتا رہا۔ وہ
اُن سے بہت سی باتیں پوچھنا چاہتا تھا، بہت سی باتیں کہنا چاہتا تھا، اُن سے بہت کچھ
سننا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن لوگوں کے سامنے نہیں۔۔۔ کہیں تنہائی میں۔۔۔ اکیلے میں۔۔۔ اُس
کا جی چاہا کہ اُن کے پاس جا کر اُن سے اپنی آرزو کا اظہار تو کر دے۔۔۔ اور اگر انہوں
نے منع کر دیا۔۔۔ تو۔۔۔ اس تو کے بعد کی صورت اُسے کسی طور قبول نہ تھی۔ اس بارے میں
کچھ سوچنا بھی اُسے گوارا نہ تھا۔ لیکن وہ تو روح سے واقف ہیں وہ اُس کے دل کی بات
کیوں نہیں سُن رہے۔ وہ تو صاحبِ کشف ہیں۔اُن سے تو کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ وہ اُس کی
مدد پہ کیوں آمادہ نہیں ہو جاتے۔ وہ تو جانتے ہیں کہ وہ اندر سے کتنے چھوٹے دل کا مالک
ہے اُس میں ٹوٹنے اور دھتکارے جانے کے صدمے کو سہنے کی تاب نہیں۔ وہ کرے تو کیا کرے؟
ایک دفعہ جب وہ اُس کے پاس سے گزرے۔ اُس نے چاہا کہ وہ اُن سے مصافحہ کرے لیکن جب تک
وہ اس ارادے پہ عمل کرنے کی ہمت مجتمع کرتا۔۔ وہ دور جا چکے تھے۔ لوگوں کے جلو میں
وہ ہال سے باہر نکلے اور وہاں سے چلے گئے۔
وہاں سے گھر جاتے ہوئے اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ خط لکھ کر اُن سے حالِ دل کہے گا۔اُ س رات وہ دیر گئے تک خط لکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پہلے تو القاب و آداب کا مسئلہ ہی طے نہیں ہو سکا۔ پھر یہ لکھنا کہ میں آپ سے مل کر باتیں کرنا چاہتا ہوں اُ
س کو کوئی مناسب
بات نہ لگی۔ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ کیا پوچھنا اور کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔۔
اُس نے اُن کی طرف سے خود سے پوچھا۔ اس کے اُس نے بہت سے جواب سوچے لیکن ایک بھی بات
اُس کو نہ بھائی۔ وہ الجھتے الجھتے سو گیا۔ اگلے روز بھی وہ کوشش کرتا رہا کہ کوئی
مناسب سی بات لکھنے میں کامیاب ہو جائے لیکن وہ جو بھی بات طے کرتا کچھ لمحوں بعد وہ
اُس بات کو خود ہی رد کر دیتا۔ اُس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر وہ اُن سے چاہتا کیا
ہے؟ ملنا؟ مگر کیوں؟ بس دل چاہے چلا جا رہا تھا اور وہ اُس کو بہلانے کی کوشش میں لگا
ہوا تھا۔
عید پہ وہ عصر کے بعد بیوی بچوں کے ہمراہ
پراچہ صاحب کے گھر گیا۔ وہاں اُس نے پراچہ صاحب سے پوچھا۔' آپ خواجہ صاحب سے عید ملنے
گئے؟' اُس کو توقع تھی کہ وہ کہیں گے کہ ہاں۔۔ وہ تو میں اُن سے صبح عید گاہ میں ہی
مل لیا تھا۔ لیکن انہوں نے کہا۔' بھئی آپ نے اچھا کیا مجھے یاد دلا دیا۔ ایسا کرتے
ہیں ابھی چلتے ہیں اور مل آتے ہیں۔'
کچھ ہی ساعتوں کے بعد وہ پراچہ صاحب کے ہمراہ اُن کے گھر میں ڈرائنگ روم سے ملحق کھانے کی میز پر بیٹھا ۔۔۔ پراچہ صاحب کو اُن سے باتیں کرتے دیکھ رہا تھا۔ پراچہ صاحب سے بات کرتے کرتے کبھی کبھار وہ اُس کی طرف بھی دیکھ لیتے۔ دونوں کی گفتگو میں وقفہ آیا تو میز پر آگے کو جھکا اور ایک جھٹکے سے بولا۔ مجھے آپ کی سرپرستی چاہئے۔ دونوں نے اُسے دیکھا۔ پراچہ صاحب نے حیرت سے اُسے اور انہوں نے بلا کسی تاثر کے اور کہا۔ ابھی تو ہمیں خود بھی سرپرستی چاہئے۔ اُس نے اُن کی بات سُنی اور تیزی سے کہا۔ بلا شبہ آپ کو اپنے بڑوں کی سرپرستی درکار ہوگی لیکن میرے لئے تو آپ بڑے ہیں۔۔۔ میں تو آپ ہی سے درخواست کر سکتا ہوں۔' اُس کی اس بات کو سُن کر وہ بڑی رسانیت سے مسکرائے۔ پھر قدرے توقف کے بعد کہا۔ آپ رات کو سونے سے پہلے نیلی روشنی کا مراقبہ کیا کریں اور یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ اُن کی بات مکمل ہونے سے پیشتر پراچہ صاحب نے کرسی چھوڑ دی اور کہا۔ ہم چلتے ہیں۔
حضور اجازت دیں اور
یہ کہنے کے ساتھ باہر کو چل دیئے۔ انہیں الوداع کہنے وہ اُن کی گاڑی تک اُن کے ساتھ
آئے ۔
وہ بہت سی باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اُ س نے
بلا تمہید اچانک بول کر اچھا نہیں کیا تھا پراچہ صاحب نے اچانک اُٹھ کر کوئی زیادتی
کی تھی۔۔۔ وہ کڑھ کر رہ گیا۔ وہ اُن سے پوچھنا چاہتا تھا یہ نیلی ہی روشنی کا مراقبہ
کیوں۔۔۔۔۔ گلابی یا جامنی روشنی کاکیوں نہیں۔۔۔ یا حی یا قیوم کا ورد کرنے سے کیا ہوگا؟
کب ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ محض ورد کرنے سے اللہ کیسے مل سکتا ہے؟ اور اُس کی سرپرستی کی
درخواست کا کیا ہوا؟ پراچہ صاحب کو اس بات کا جواب آنے سے پیشتر نہیں اُٹھنا چاہئے
تھا۔۔۔۔۔دوبارہ ملاقات کا وقت بھی تو طے نہیں ہوا تھا۔ اُسے چاہئے تھا کہ وہ پراچہ
صاحب کے ساتھ جانے کی بجائے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ جاتا۔کم از کم وہ اس طرح اچانک
اُٹھ کے تو نہ چلتے۔ ۔۔اُس کو بات کرنے سے تو نہ روکتے۔ اگر پراچہ صاحب اُٹھ بھی گئے
تھے تو خود اُس نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ ذرا ٹھہریں ۔۔۔۔مجھے بات کرنا ہے یا ٹھیک
ہے آپ چلیں میں بات کر کے آتا ہوں۔۔۔وہ انہی سوچوں میں غلطاں الجھتا اور کڑھتا رہا۔
آخر وہ وقت پہ کیوں نہیں کہہ پاتا اور وقت اُس کے ہاتھ سے کیوں نکل جاتا ہے۔
اُس نے مراقبہ کرنا شروع کیا۔ یَاحَیُ یَا
قَیُوْم کا ورد کرتا۔۔ راتوں کو اُٹھ کر بستر پہ بیٹھ جاتا۔۔۔یا بستر چھوڑ کر باہر
گلی میں ٹہلنےنکل جاتا۔ اُسے چاند میں کبھی حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ رحمتہ اللہ علیہ
کی شبیہہ نظر آتی تو کبھی اُسے عظیمی صاحب نظر آتے ۔راہ چلتے ٹھٹھک جاتا۔ اسے محسوس
ہوتا کہ وہ سامنے سے آرہے ہیں۔ جب چلنے والا پاس آتا اور وہ دیکھتا کہ اُسے اشتباہ
ہوا ہے۔
اُسے کراچی آئے اب دو ڈھائی سال ہو گئے تھے۔اس دوران اُس نے دو تین مرتبہ خواجہ صاحب سے ملنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی ایک مرتبہ جب وہ روحانی ڈائجسٹ کے دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ تو ابھی ابھی اُٹھ گئے ہیں۔ جب وہ اُن
کے گھر گیا تو معلوم
ہواکہ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ ایک روز وہ اپنے ایک دوست حنیف شاہ صاحب سے ملنے نوائے وقت
کے دفتر گیا۔ شاہ صاحب اکثر اُس کو سراہتے اور اُس کی دلجوئی کرتے۔ وہ اُس کے مداح
تھے اور وہ اُن کا۔ باتوں باتوں میں حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کاذکر ہوا۔ اُس دفتر
میں کام کرنے والے ایک صاحب نے کہا۔ آج تو اُن کا عرس مبارک ہے اور پروگرام کی خاص
بات عظیمی صاحب کا وہاں موجود ہونا اور قوالی جیسے پروگراموں کا نہ ہونا بتایا۔ شاہ
صاحب نے جیسے اُس کے من کی بات پڑھ لی اور وہ بھی شادمان ٹاؤن میں حضور قلندر بابا
اولیا ء ؒ کے عرس کی تقریب میں شرکت کے لئے اُس کے ہمراہ چل دیئے۔
وہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ساتواں
یا آٹھواں عرس تھا۔ اس سے پیشتر اُس نے لڑکپن میں ایک دو مرتبہ۔۔۔ جن دنوں وہ لاہور
رہتا تھا۔۔۔ اُس نے داتا صاحب کے عرس میں شرکت کی تھی۔ اُس کو اُس وقت اس قسم کی
کسی تقریب میں شرکت کے آداب کا کوئی قرینہ تھا اور نہ کوئی خاص لگاؤ۔وہ تو کسی دیہاتی
کی طرح شہر کی روشنیاں دیکھنے چلا گیا تھا اور وہی دیکھ کر پلٹ آیا تھا۔ روشنیوں کے
علاوہ اُس کو جو بات یاد تھی وہ وہاں روٹی دال رکھ کر تقسیم کیا جانا تھا۔ اُس کو بتایا
گیا ۔۔۔ یہ لنگر ہے۔ اُس وقت سے اب تک وہ روٹی پہ دال رکھ کے کھانے کو ہی لنگر سمجھتا
رہا تھا۔
لیکن آج وہ صاحب لوح و قلم کو ہدیہ ء عقیدت اور خراج پیش کرنے اور اُن کے علوم کے وارث اُس بندے کو دیکھنے وہاں چلا آیا تھا جنہیں انہوں نے سولہ برس سے زاہد شب و روز کی قربت اور تربیت سے نوازا تھا۔ وہ ہر چیز کو اشتیاق اور تجسس سے دیکھ رہا تھا۔ وہاں لوگوں کا اتنا جم غفیر تو نہ تھا جس قدر اُس کو توقع تھی مگر پھر بھی کافی لوگ تھے۔ مزار کی مختصر سے عمارت بھری ہوئی تھی۔ صحنِ مزار میں بھی کافی لوگ تھے۔ عصر کی اذان ہو رہی تھی کہ چہل پہل میں ایک تیزی سی ابھر آئی۔لوگوں نے داخلی راستے کی طرف ہجوم کیا۔ وہاں سے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ایک جمگھٹے کے جلو میں آ رہے تھے۔ سب اُسی کی طرف دوڑ پڑے۔ جو اپنی
جگہ کھڑے تھے وہ
بھی اسی سمت دیکھ رہے تھے۔ اُس لمحے وہاں موجود بیشتر افراد کے لئے مرکز نگاہ وہی تھے۔
اُس کے قریب کھڑے ایک صاحب اپنے ہمراہی کو بتا رہے تھے۔ یہ شمسی صاحب ہیں۔ بہت پہنچے
ہوئے بزرگ ہیں۔ ان کی دعا میں اثر بہت ہے۔
یہاں زیادہ تر لوگ
اسی لئے آئے ہیں کہ ان سے دُعا لیں۔ اُس کا جی چاہا کہ اُن صاحب کی اصلاح کو انہیں
بتائے کہ یہ شمسی صاحب نہیں ہیں۔ یہ بہت عظیم سکالر اور عالم ہی نہیں بلکہ ایک روحانی
شخصیت ہیں اور عظیمی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن وہ خاموش ہی رہا۔ ہر ایک کو حق ہے
وہ جس قدر چاہے اپنے علم کو بڑھائے یا محدود رکھے۔
داخلی دروازے کے قریب بنے دو ایک کمروں کے
صحن میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر عظیمی صاحب بیٹھ گئے۔ کچھ لوگ بدستور گھیرا ڈالے
وہاں موجود تھے۔ کچھ دیر توقف کے بعد وہ وہاں سے اُٹھے تو ہجوم میں ایک بار پھر ہلچل
مچ گئی۔لوگ لپکے۔ کسی نے کہا۔۔۔ نماز کے بعد۔۔۔ نماز کے بعد۔ اُس کو خیال ہوا کہ شاید
وہ وہاں کچھ بانٹیں گے اس لئے لوگ گڑ کی مکھیوں کی طرح اُن کی طرف کھینچ رہے ہیں۔
نماز کے دوران اُس نے محسوس کیا کہ بیشتر
افراد اُن کے قریب کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے گرد مقناطیسی ہالے کو
وہ خود بھی محسوس کر رہا تھا لیکن وہ اُس کو اُن کی کتب اور تحریروں سے لیا گیا تاثر
قرار دے رہا تھا۔ کیا اُن سب افراد نے بھی۔۔۔۔ جو وہاں موجود تھے ، اُن کی تحریروں
سے ویسا ہی تاثر لیا تھا جیسا کہ خود اُس کو تجربہ ہوا تھا یا اُس کی وجہ کچھ اور تھی
۔ وہ کچھ طے نہیں کر پا رہا تھا اور محض ایک تماشائی بنا ہوا سب کچھ دیکھ اور محسوس
کر رہا تھا۔ نماز کے بعد کچھ لوگوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور وہ اندر مزار
کی طرف چل دیئے۔
جوں جوں وہ مزار کے قریب ہورہے تھے دھکم پیل میں اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ دھکم پیل اُس کو بہت ناگوار گزر رہی تھی۔اُس کو اس کی کوئی تک بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
اس ہجوم میں وہ یہی
سوچ سکا کہ ماحول کے ہجوم سے نجات پانے کی ضرورت کا پرچار کرنے والوں کو ہی ہجوم کچلنے
پہ تلا ہوا ہے۔ اُس نے شاہ صاحب سے اپنی ناگواری کا اظہار کیا تو انہوں نے عجیب سا
تبصرہ کیا۔ اس ہجوم اور دھکم پیل میں نہ جانے کتنے لگوں کی جیب کٹے گی۔
اُن کے سرِ مزار پہنچنے کے بعد تلاوت ہوئی
اور ختم پڑھا جانے لگا تو قدرے خاموشی ہو گئی۔ ختم کے بعد درود و سلام کے ساتھ ہی مزار
پہ چادریں چڑھائی جانے لگیں۔ لوگ پھولوں کی چادریں، کشیدہ کی ہوئی، رنگ برنگی ریشمی
چادریں چڑھا رہے تھے۔ مزار پہ اتنے پھول اور چادریں چڑھائی گئیں کہ مزار اپنی سطح سے
دو فٹ اونچا ہو گیا۔ پھر دُعا ہوئی۔ دُعا کے ختم ہوتے ہی اب جو دھکم پیل شروع ہوئی
وہ پہلے کی نسبت زیادہ زور دار اور بے محابا تھی۔ وہ چند لوگ جو عظیمی صاحب کو اپنے
حصار میں لئے ہوئے تھے انہیں دھکا لگنے سے بچانے کی تگ و دو میں پسینہ پسینہ ہو رہے
تھے۔
صحن مزار میں پہنچ کر انہوں نے ہاتھ بلند
کیا اور کہا۔ باری باری آئیں۔ اُن کے یہ کہتے ہی لوگ بے طرح لپکے۔ سب اُن سے گلے ملنا
چاہتے تھے۔ خواتین اُن کے قریب ہوتیں اور وہ اُن کے سر پر ہاتھ رکھتے۔ باری باری آئیں۔۔۔
قطار بنائیں۔۔۔ بار بار کہا جا رہا تھا اور لوگ قطار بنا بنا کر انہیں گلے مل رہے تھے۔
اُس نے دیکھا جو بھی اُن سے گلے مل کر ہٹتا اُس کا چہرہ تمتما رہا ہوتا۔ کامیاب ہونے
پر۔۔۔ کچھ پا لینے پہ جو خوشی ہوتی ہے کچھ ویسی ہی خوشی کی لو اُن کے بشرے سے پھوٹنے
لگتی۔
اُ س نے دیکھا کہ ایک بوڑھی سی خاتون اُن کے قریب گئیں۔ کچھ کہا اور اُن کے پاؤں پکڑنے جھکیں۔ انہوں نے متانت سے انہیں منع کرتے ہوئے کہا۔ ' نہیں ماں جی۔۔ نہیں! منع کرنے میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ وہ ٹھٹھک سی گئیں اور بے اختیاری سے اپنے دونوں ہاتھ اُن کی واسکٹ پہ پھیر کے اپنے چہرے پہ پھیر لئے۔ وہ ایک ٹک انہیں
دیکھے جا رہا تھا
۔ اُس کی نگاہیں اُن کے چہرے کا طواف کئے جا رہی تھیں۔ اُس نے سوچا اگر سکون ۔ ٹھہراؤ
اور علم مجسم ہو کر متانت اور مسکراہٹ اوڑھ لے اور عاجزی کے سنگھاسن پہ بیٹھ جائے تو
شاید کچھ ایسی ہی صورت بنے۔
شاہ صاحب نے اُس کی طرف دیکھا گویا پوچھ
رہے ہوں کیا ارادے ہیں؟ اُس نے کندھے اچکائے اور اپنی جگہ کھڑا گلے ملنے والوں کی ختم
ہوتی قطار کو دیکھتا رہا۔ وہ گلے ملنے والوں کو۔۔۔ گلے ملنے سے پہلے اور بعد میں۔۔۔۔
کے عنوان سے دیکھ رہا تھا۔ گلے ملنے سے پہلے تذبذب، درماندگی اور بے یقینی کی سی کیفیت
اور گلے ملنے کے بعد خوشی اور طمانیت کا کیف۔۔۔ یہ سب اتنا واضح تھا کہ اُس کو اس فرق
کو محسوس کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو رہی تھی۔ وہ اتنا کھویا ہوا تھا کہ اُسے خبر
ہی نہ ہوئی کہ کب شاہ صاحب اس کے پہلو سے نکل کر قطار میں جا کھڑے ہوئے۔ وہ اُس وقت
چونکا جب وہ قطار میں گلے ملنے والوں میں تیسرے چوتھے نمبر پہ پہنچ چکے تھے۔ اُس سے
نگاہیں چار ہوتے ہی وہ مسکرائے اور اُسے بھی اشارہ کیا کہ وہ بھی اُس بہتی گنگا میں
ہاتھ دھو لے۔ اُس کی خود پسندی اس طرح سے اُن سے گلے ملنے میں مزاحم تھی۔ وہ تو اس
طرح گلے ملنا چاہتا تھا کہ کم از کم وہ جانتے تو ہوں کہ اُن کے سینے سے لگنے والا کون
ہے؟ اور پھر قطار میں لگ کر گلے ملنے اور خود اُن کا اپنی بانہیں پھیلا کر اپنے سینے
سے لگانے میں جو فرق تھا وہ فرق بھی اُس کی ہچکچاہٹ کا سبب تھا۔
شاہ صاحب اُن سے گلے مل کر اُس کے پاس آئے اور کچھ اس تفاخر سے اسے دیکھا گویا اُس کی محرومی پہ تاسف کر رہے ہوں۔ جب آخری آدمی مل کر ہٹ رہا تھا تو اُس نے بے اختیار ہو کر قدم بڑھائے اور اُن سے گلے ملا۔ گلے ملنے سے پہلے اُس کی نگاہوں نے اُن کے چہرے کو اس امید سے دیکھا کہ شاید وہاں شناسائی کی کوئی لہر ابھرے۔ لیکن وہاں صرف ایک دھیمی سی مسکان ہی دیکھ سکا۔گلے مل کر ہٹتے ہوئے اُس نے سنا۔۔۔ بس بھئی۔۔۔ یا اور کوئی بھی ہے؟ اُس کا جی چاہا وہ پلٹ کر پھر اُن کے
سینے سے لگ جائے۔
لیکن اپنے اس ندیدے پن کا اظہار کرنے کو درکار ہمت کہاں سے لاتا۔
اُس روز وہ دیر تک سونے کی کوشش کرتا رہا۔
اُس کو بظاہر کوئی پریشانی بھی نہ تھی لیکن وہ سو نہیں پا رہا تھا۔ اُن کی کتابوں میں
سے پڑھے ہوئے جملے اور باتیں اُس کےذہن میں دور کرتی رہیں۔پھر وہ اُٹھ بیٹھا اور کتاب
لوح وقلم از سرِ نو پڑھنے لگا۔ اذان فجر کے وقت اُس نے کتاب بند کی۔ کچھ دیر مراقبہ
کرنے کے بعد سونے کے لئے لیٹ گیا۔ نیم غنودگی میں دیکھا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے رو برو دو زانو بیٹھا ہے۔ آپ ﷺ نے کسی کو طلب کیا۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ
وجہہ تشریف لاتے ہیں تو آپ ﷺ اُن ؓ کو مسافر کی مدارت کا حکم دیتے ہیں۔ حضرت علیؓ ۔۔۔
جی اچھا ۔۔۔ کہہ کر چلے جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو اُن ؓ کے ہاتھ میں لکڑی کا
ایک کاسہ نما پیالہ ہے۔۔۔۔دستہ لگا ہوا۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ بڑھا کر پیالہ اُن ؓ کے ہاتھ
سے لے لیتا ہے۔ دیکھتا ہے کہ پیالہ دودھ سے لبریز ہے۔ وہ اُس پیالے کو منہ لگا کر دودھ
پیتا ہے اور ہنستے ہوئے کہتا ہے۔۔۔ واہ یہ تو اونٹنی کا دودھ ہے۔۔۔ اور اُس کے ساتھ
ہی اُس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اُس نے بہت غور کیا۔ اُس کو اس خواب کی کچھ سمجھ نہ آئی۔
اُس نے سوچا کہ جب بھی موقع ملا وہ عظیمی صاحب سے اس کی تعبیر لے گا۔
اُس نے کئی بار کوشش کی کہ اُن سے ملاقات ہو جائے لیکن ہر بار
ناکام ہی رہا۔ ایک روز وہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے مزار پہ گیا۔ وہاں کوئی نہیں
تھا۔ اُس کو وہاں سکون اور طمانیت کا احساس ہوتا تھا۔ اُس روز بھی اُسے ایسا ہی محسوس
ہوا گویا وہ کسی ٹھہرے ہوئے پرسکون پانی میں اتر گیا ہو۔ اس نے مراقبہ کے بعد دُعا
کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور سوچنے لگا کیا دُعا مانگے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے طے
کیا کہ اُس کو اپنے کئے گئے وعدے نبھانے میں دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ اس بات کو ذہن
میں رکھتے ہوئے اُس نے دعا کی۔ بار الہٰہ میں جس سے جو وعدہ کیا کروں وہ پورا ہو جایا
کرے۔ دُعا ختم ہوتے ہی اُس کو لگا ۔ کسی نے اُس سے دریافت کیا۔ کیا وہ جھوٹے وعدے
کرتا ہے؟ اُس نے
جواباً کہا۔ نہیں اپنی طرف سے تو وہ سچا وعدہ ہی کرتا ہے لیکن حالات و واقعات اُس کو
جھوٹا کر دیتے ہیں۔ اس پہ وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔ تو اس کا مطلب ہوا کوئی تمہیں
جھوٹا کر دیتا ہے۔ بھئی جب کوئی اور جھوٹا کرتا ہے تو تمہیں چاہئے کہ تم جھوٹے ہو جایا
کرو۔
اُس نے اس قسم کی منطق اس پیشتر اپنے اندر
کبھی ابھرتے محسوس نہیں کی تھی۔ وہ ڈر گیا۔ اُس نے اپنی دُعا تبدیل کر دی اور کہا ۔
یا اللہ تو مجھے اتنا علم اتنی سوجھ بوجھ اور توفیق دے کہ میں تیرے کاموں کو اُس طرح
سمجھ سکوں۔۔۔ جس طرح وہ ہوتے ہیں۔ اس دُعا کے بعد وہ اُٹھ کر وہاں سے چلنے کو تھا کہ
اُسے خیال آیا کہ اُسے یہ دُعا کرنا چاہئے تھی کہ لوح و قلم اُسے سمجھ آجائے۔ ابھی
وہ اس خیال کو الفاظ میں ادا کرنے کی بات سوچ ہی رہا تھا کہ اُس کو اپنے اندر ایک اور
عجیب سا خیال ابھرتا محسوس ہوا۔ دراصل یہ کتاب روحانی سائنس کی کتاب ہے اور وہ سائنس
کو انگریزی زبان میں پڑھنے کا عادی ہے اس لئے اگر وہ کتاب کو انگریزی میں پڑھے گا تو
یہ کتاب اُسے سمجھ آجائے گی۔ اُس نے سوچا کہ بات تو درست ہے لیکن جہاں تک اُسے معلوم
ہے یہ کتاب انگریزی زبان میں دستیاب نہیں ہے تو وہ اسے انگریزی میں کیسے پڑھے؟
ترجمہ کر کے۔۔۔ کوئی اُس کے اندر بولا۔
اُس کے بعد چار ساڑھے چار سال کب اور کیسے گزرے اسے کچھ ہوش نہیں۔ دن بھر سکول میں اور سکول کے بعد ٹیوشن سنٹر جا کر بچوں کو پڑھاتا۔۔ وہاں سے رات کو گھر آتا۔ کھانا کھا کر جب بیوی بچے سو جاتے تو وہ بیٹھ کر ترجمہ کرتا۔اُس کو اتنی انگریزی کہاں آتی تھی کہ وہ لوح وقلم جیسی معرکہ الآرا کتاب کے ترجمہ کا حق ادا کر سکتا۔ مناسب الفاظ اور اصطلاحات کی تلاش میں کتنے ہی دروازے اُس کی دستک کی زد میں آئے اور جب اُس کو اور کچھ نہ سوجھا تو اُس نے ڈکشنری کا ایک ایک لفظ پڑھا۔ بعض اصطلاحات کے لئے نئے الفاظ تراشے۔ ترجمہ مکمل ہو گیا تو اُس کو ٹائپ کیا۔ اُس
میں غلطیوں کی نشاندہی
کرتا اور پورا مسودہ دوبارہ ٹائپ کرتا۔ چار بار ایسا کرنے کے بعد اُس کو کچھ اطمینان
ہوا تو اُس نے اُسے کسی ایسے بندے کو دکھانے کا سوچا جو اردو اور انگریزی پہ یکساں
عبور رکھتا ہو۔
انہی دنوں اُس کی دوستی ماجد علی سید سے
ہوگئی۔ انگریزی انشا پروازی میں وہ بہت ماہر تھے۔ اُن کی کئی کہانیوں کو عالمی مقابلوں
میں انعام بھی ملا۔ انہیں جنرل نالج سے بہت شغف تھا۔ عسکری حقائق کے عنوان سے ایک انسائیکلو
پیڈیا بھی مرتب کیا تھا۔ اُن کے انگریزی فکاہیہ کالم کئی روزناموں اور ہفت روزوں میں
شائع ہوتے تھے۔ اُس نے اُن سے درخواست کی کہ وہ اُس کے کئے ہوئے ترجمے کا مسودہ پڑھ
کر اگر کوئی غلطیاں ہوں تو اُن کی نشاندہی کر دیں۔پہلے تو انہوں نے کوئی توجہ نہ کی
لیکن اُس کے اصرار کے سامنے بالآخر گھٹنے ٹیک دیئے اور یہ طے ہوا کہ وہ ایک وقت میں
انہیں دس اوراق دے جایا کرے اور جب وہ دس اوراق پڑھ لئے جائیں گے تو وہ مزید دس اوراق
انہیں دے دے گا۔
رفتہ رفتہ مسودہ تمام ہوا۔ ایک روز باتوں
باتوں میں کہا۔ آپ نے اتنا اچھا ترجمہ کیا ہے کہ قلندر بابا اولیا کا لب و لہجہ تک
انگریزی میں منتقل کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ انگریزی میں
بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا یہ لوح و قلم اتنی بڑی کتاب ہے کہ اس سے دو سو
کتابیں مزید جنم لیں گی۔
ماجد سید کی اس بات نے اُس کو حوصلہ دیا۔ اُس کی ہمت بندھی تو اُس کو خواہش ہوئی کہ کسی طرح وہ اس مسودے کو عظیمی صاحب تک پہنچا دے۔ اُس کی بیوی نے ایک ایسی بات کہی کہ اُس کے حوصلے پست ہو گئے۔ اُس نے کہا۔ آپ نے اتنی محنت کی اگر انہوں نے اسے ناپسند کیا تو کیا آپ سہہ سکیں گے؟ ناپسند کیا؟ کیوں ناپسند کریں گے؟ اُس نے خالصتاً اپنی طالب علمانہ تشنگی کی خاطر یہ کنواں کھودا تھا اور اب اگر وہ اس علم کی ترویج چاہتا تھا تو اُن کو کیوں ناپسند ہوگا؟ وہ الجھ کر رہ گیا۔ اُس نے
مسودے کو ڈاک کے
ذریعے بھیجنے کا سوچا لیکن پھر فیصلہ کیا کہ خود روحانی ڈائجسٹ کے دفتر جائے گا اور
یہ مسودہ وہاں چھوڑ آئے گا۔ پھر بعد میں جو بھی فیصلہ کریں۔۔ کریں۔
روحانی ڈائجسٹ کے دفتر پہنچا تو استقبالیہ
ڈیسک پہ ایک صاحب بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔انہوں نے کچھ توقف کے بعد توجہ کی اور پوچھا۔
جی فرمایئے؟ کیسے آنا ہوا؟ اُس نے کہا۔ خواجہ صاحب سے ملنے۔
وہ تو انڈیا گئے ہوئے ہیں اگر آپ کا کوئی
مسئلہ ہے تو لکھ کر دے جائیں وہ آئیں گے تو آپ کو جواب دے دیں گے۔
اُس نے کہا الحمد اللہ میرا کوئی مسئلہ نہیں۔
میں نے کتاب لوح و قلم کا ترجمہ کیا ہے اور میں اس مسودہ اُن کو پیش کرنا چاہتا ہوں
۔وہ کب تک آئیں گے؟
دو ماہ بعد۔ جواب ملا
اُن کی جگہ کوئی اور صاحب ہوں تو اُن کے
حوالے کر دوں؟
بغیر کوئی تاثر لئے انہوں نے کہا۔ ' نہیں۔
جب وہ انڈیا سے آجائیں تو آپ یہ خود انہی کو دیں۔'
اُس نے سوچا۔ کتاب لوح و قلم یقیناً ان صاحب
کے مطالعے سے نہیں گزری ہے ورنہ وہ اتنے سپاٹ نہ رہتے اور اُن سے بات کرنے کی خاطر
کہا۔ میں نے یہ کام بہت ڈرتے ڈرتے کیا ہے کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے۔۔۔
انہوں نے اسی سپاٹ سے لہجے میں کہا۔۔ ڈرتے ڈرتے کیا ہے تو پھر اچھا ہی ہوا ہوگا اور واپس اپنے سامنے رکھے کاغذوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔
وہاں سے واپس آکر اُس نے مسودے کو الماری
کے اوپر رکھا اور اُس طرف سے دھیان ہٹانے کی طرف لگ گیا۔ وہ خود سے بحث کرتا۔ تم نے
یہ کام لوح و قلم کو سمجھنے کے لئے کیا اب اس کو انہیں دکھا کر کیا ثابت کرنا چاہتے
ہو؟ اس بہانے اُن سے ربط استوار کرنا چاہتا ہوں۔ بالآخر اس نے خود اپنے سامنے اعتراف
کر ہی لیا۔
چند دن بعد اُس نے ڈائجسٹ کے دفتر فون کیا۔
فون پہ وہی صاحب بات کر رہے تھے جن سے وہ اُس روز ملا تھا۔ اُس نے اپنا نام بتا کر
تعارف کے طور پر کہا۔۔۔ وہی جس نے لوح و قلم کا ترجمہ کیا ہے اور ۔۔۔۔ پیشتر اس کے
وہ کچھ اور کہتا انہوں نے اُس کی بات کاٹ کر قدرے تیزی سے کہا۔ عظیمی صاحب انڈیا سے
واپس آگئے ہیں اور انہوں نے آپ کے لئے پیغام دیا ہے کہ آپ مراقبہ ہال آجائیں وہ آپ
کو وہیں ملیں گے۔ اس نے اپنے لئے اُن کا پیغام پہ اک گونہ سر بلندی سی محسوس کی۔ پھر
اُن سے مراقبہ ہال کا پتہ لیا ۔ الماری کے اوپر سے مسودے کا خاکی لفافہ اتارا اور اسی
وقت مراقبہ ہال کی طرف روانہ ہو گیا۔
سرجانی ٹاؤن جاتے ہوئے راستے میں وہ چکی
کے دوپاٹوں کے بیچ پستا رہا۔ اس کے اندر کا کمزور رُخ اُس کو غلطیوں کا سامنا ہونے
والی شرمندگی سے بچانے کے نام پر اس راہ کی سمت جانے سے روک رہا تھا اور دوسرا رُخ
اُس کو اپنی غلطیوں کا دفاع کرنے اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کرنے کو اُس کے
اندر نقارے بجا رہا تھا اور اسے ابھار رہا تھا کہ وہ بڑھتا ہی چلا جائے۔ اسی کشمکش
میں الجھا وہ مراقبہ ہال کے مین گیٹ سے سر اندر ڈالے دیکھ رہا تھا۔
اُس نے کہا ۔ مسئلہ
یہ ہے کہ میں لوح وقلم کتاب ترجمہ کر بیٹھا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے خواجہ صاحب کی
خدمت میں پیش کر کے دیکھوں وہ اس مسئلے کا کیا حل بتاتے ہیں۔ رشید صاحب نے یہ سُن کر
اسے گیٹ کے ساتھ بنے چھوٹے سے کمرے کے صحن میں بیٹھنے کی دعوت دی، اُسے پانی پلایا
اور چائے کو پوچھا۔ کچھ دیر گپ شپ ہوئی۔ پھر انہوں نے اُسے صلاح دی ۔ آپ صبح طلوع آفتاب
کے وقت یہاں آئیں۔ اس وقت یہاں مراقبہ ختم ہوتا ہے۔ ابا حضور ناشتے سے پہلے آپ سے مل
سکیں گے۔
اگلے روز وہ صبح کی اذان کے ساتھ ہی گھر
سے نکل کھڑا ہوا۔ آج اس کے اندر ہونے والی کشمکش اس قدر بے طرح اور شدید نہ تھی جیسی
کل محسوس ہو رہی تھی۔ وسوسوں کا زور ٹوٹا ٹوٹا سا تھا۔ اندیشوں کی دھار کچھ کند سی
لگ رہی تھی۔ شاید وہ کچھ عادی سا ہوگیا تھا اور یا پھر امید اور سحر کی کیفیات غالب
تھیں۔ جب وہ مراقبہ ہال کے دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا تو آفتاب اُس کے داہنے کندھے
کی سیدھ میں افق پر طلوع ہو چکا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی اُس کی نگاہ اسم بامسمٰی شمس
پہ پڑی۔ وہ سامنے مشرقی دیوار کے ساتھ بنی کیاری کے پاس کھڑے ہو کر پودوں کو دیکھ رہے
تھے۔ اُن کے دیکھنے میں اتنا انہماک تھا گویا وہ اُن پودوں سے محو گفتگو تھے۔
مخل ہونے کے خیال سے وہ وہیں رک گیا۔ پھر
اُس نے رشید صاحب کو دیکھا۔ انہوں نے پاس آکر مصافحہ کیا اور ہاتھ کے اشارے سے انہیں
وہیں رکنے کا کہہ کر خود آہستہ خرامی سے اُن کی طرف بڑھ گئے۔
گئے۔ چند ساعت بعد
ایک اور صاحب ایک کرسی لائے اور میز کے ساتھ رکھ کر چلے گئے۔
اب خواجہ صاحب آئیں گے۔ اس کرسی پر بیٹھیں
گے پھر اُس کو اذنِ باریابی ہوگا۔ وہ فوجی انداز میں جا کر سلوٹ مارے گا اور بغل سے
مسودے کا لفافہ نکال کر انہیں پیش کرے گا۔ وہ بیک جنبش سر اُس کو ڈس مس کر دیں گے اور
وہ اباؤٹ ٹرن لے کر لیفٹ رائٹ کرتا ہوا گیٹ سے باہر نکل کر گھر چلا جائے گا۔۔۔ اُ س
کی سوچ یہیں تک پہنچی تھی کہ رشید صاحب ایک مزید کرسی لئے وہاں آئے اور میز پہ پہلی
کرسی کے مقابل دوسری طرف رکھ دی ۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے پودوں سے مذاکرات ختم
کئے اور آکر کرسی پر بیٹھ گئے۔
رشید صاحب اُن کے پیچھے کھڑے اُسے دیکھ رہے
تھے انہوں نے اُسے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ وہ میز کے پاس پہنچ کر ایک جھٹکے سے رکا
۔ سلام کیا اور کھڑا رہا۔ سلام کا جواب دے کر انہوں نے کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
آئیں بیٹھیں۔
وہ جھٹ سے کرسی پہ بیٹھ گیا۔ لفافہ بغل سے
نکل کر اُس کی گود میں آگیا۔ اس کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ کہے کیا کہے ، کیسے
کہے۔ وہاں اُن کے سامنے پہنچ کر وہ پھر سے صفر پر آگیا تھا۔ اُس نے یہاں تک پہنچنے
کے خواب دیکھے تھے۔ اب یہ خواب تو پورے ہوئے۔ تنہائی بھی تھی وہ ایک دوسرے کے روبرو
بھی۔ اب آگے کیا ہوگا ، کیا ہونا چاہئے، کیا کرنا چاہئے۔ یہ سب تو اُس نے سوچا ہی نہ
تھا۔ وہ تو بس انہیں تکے جا رہا تھا۔ اُس کو صرف یہ احساس تھا کہ وہ ہے۔ یہ کیاہے۔
کہاں ہے اور کیوں ہے۔ یہ سب اُس کے شعور سے باہر چھلک گیا تھا۔
آپ کیسے ہیں؟ اُس کی محویت کو توڑتی اُس مدھر سی آواز کے جواب میں خود کو۔۔۔ اللہ کا شکر ہے۔۔۔ کہتے سنا اور پھر وہی پرسکون سکوت۔ ۔خیال کی کوئی لہر آہی نہ رہی ہو تو کوئی کر ہی کیا سکتا ہے۔
کچھ توقف کے بعد
انہوں نے اُس کی گود میں دھرے لفافے کی طرف اشارہ کر کے دریافت کیا۔ یہ کیا ہے؟
'جی یہ؟'۔۔۔ وہ گڑ بڑا گیا۔۔۔' وہ مسودہ
ہے۔' اُس نے لفافے سے ٹائپ شدہ مسودہ نکال کر اُن کی طرف بڑھا دیا۔
انہوں نے مسودہ لے کر دیکھنا شروع کیا۔ ایک
صفحہ پھر دوسرا صفحہ۔۔۔ ایک ورق پھر اگلا ورق۔ جب انہوں نے تیسرا ورق پلٹا تو اُن کے
چہرے پہ کسی تاثر کو تلاش کرتی نظروں نے ناکام ہو کر سوچا کیا انہیں انگریزی آتی ہے؟؟
انہیں لوح و قلم آتی ہے اُس نے عقیدت سے سوچا۔
چند صفحات دیکھنے کے بعد ارشاد ہوا۔ ۔۔۔آپ
نے بہت محنت کی ہے۔۔۔۔اُس کی آنکھیں چھلک اُٹھیں۔۔۔۔محنت کی ہے۔۔۔۔ وہ بھی عجیب دل
رکھتا تھا۔۔۔جہاں ہنسنا ہوتا وہ رو پڑتا اور جہاں رونا ہوتا ۔۔۔ وہاں بھی وہ کم ہی
ہنسا تھا۔۔ اُس کے گالوں پہ پھیلتی نمی کے آگے بند باندھنے کو انہوں نے دریافت کی۔
آپ نے اصطلاحات کا کیا کیا؟
اُس نے جلدی سے اپنے لہجے پہ قابو پاتے ہوئے
انگلیوں کی پوروں سے آنکھوں سے باہر چھلکتے پانی کو پونچھا اور عرض کی۔ ” وہ ایسے ہے
کہ جن اصطلاحات کی سمجھ آگئی اور اُن کے لئے کوئی متبادل اصطلاح انگریزی میں دستیاب
تھی اُن کو تو بے کھٹکے ترجمہ کر دیا لیکن جن اصطلاحات کا متبادل دستیاب نہیں تھا یا
جن کی بابت میرا اپنا تصور واضح نہیں تھا اُن کو قریب ترین مفہوم کے مطابق ڈھال دیا
ہے اور ان کو رومن طرز میں بھی لکھ دیا ہے۔ اب فیصلہ آپ پہ ہے کہ ان کا کیا کرنا ہے۔
” ایسے ہی تو ہوتا ہے۔“۔۔۔۔۔ انہوں نے سراہا اور کہا۔
” اسے کچھ لوگوں کو دکھاؤں گاپھر دیکھیں
اس کا کیا کرنا ہے۔“
اُس کے بعد انہوں نے اُسے اپنے ساتھ ناشتہ
کرنے کی دعوت دی۔ گیٹ ک ساتھ بنے چھوٹے سے کمرے میں ، زمین پہ بچھے دستر خوان پہ اللہ
کے اُس بندے کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرتے۔۔۔ جسے خلق خدا کی خدمت نے اللہ کا ولی اور
قلندر بابا اولیا کی تربیت اور فیضانِ نظر نے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ بنا دیا تھا۔۔۔ اُس کے احساسات انشراح
اور بالیدگی کی نئی حدوں کو چھوتے رہے۔ناشتہ کے دوران معلوم ہوا کہ مراقبہ ہال کا آغاز
چند ہی ماہ پیشتر ہوا ہے اور اس کے لئے انہوں نے کافی بھاگ دوڑ کی ہے۔ دفتروں کے چکر
لگاتے رہے۔ لوگوں سے ملے ۔ دعائیں کیں تب جا کر بقول اُن فقیر کو ایک کٹیا بنانے کی
اجازت اور جگہ ملی۔ اب اُس کی تعمیر کا مرحلہ درپیش ہے۔
ناشتے کے بعد وہ اُٹھ کر نالی دار چادروں
کی چھت سے بنے اپنے دفتر کی طرف چل دیئے۔ وہ ساتھ ساتھ چلتا اُن کے دفتر میں داخل ہوا۔
انہوں نے اپنی میز پر بیٹھ کر اپنے سامنے دھرے خطوں کے انبار کی طرف توجہ کی تو اُس
نے رخصت ہونے کی اجازت لینے کا سوچا اور پوچھا۔ حضور اب میرے لیے کیا حکم ہے؟
' آپ قلندر شعور کا ترجمہ کر دیں۔۔۔۔ اور
پھر تبسم اور مسکراہٹ کی لو کو مزید تیز کرتے ہوئے فرمایا۔' یہ تو آپ جلد ہی کر لیں
گے۔۔۔ اور کہا ۔۔ جمعے کو محفل مراقبہ اور سوال و جواب کی نشست ہوتی ہے آیا کریں۔
تھی۔ دھیمی دھیمی
آنچ دیتی۔ اندر ہی اندر ابالتی اور کاڑھتی ہوئی۔۔۔ پوری طرح دہکے ہوئے کوئلوں پہ رکھے
کڑھتے دودھ کی طرح۔۔۔۔ گرم اتنا کہ منہ جلا دے لیکن ابال کا جوش کہیں دکھائی نہ دے۔
اس سے پہلے جب بھی وہ خوش ہوتا تو اسے محسوس ہوتا تھا گویا خوشی اُس کو اندر سے ٹھوکریں
مار رہی ہو۔ وہ خوش ہو کر اچھلتا کودتا، ہنستا گاتا اور گنگناتا۔۔۔لیکن آج کی خوشی
بے طرح خوشی نہ تھی بس خوشی تھی اور اک نہایت طرح دار خوشی۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔