Topics
وقت کو جیسے پر لگ گئے ہوں۔۔۔ حضور مرشد کریم نے کئی بار فرمایا
تھا کہ خوشی میں وقت کی رفتار تیز ہو جاتی ہے جبکہ غم اور پریشانی میں وقت کاٹے نہیں
کٹتا۔ اُسے لگتا تھا کہ چند روز پہلے ہی تو اُن سے بات ہوئی اور پھر معلوم ہوا کہ انہیں
عرس میں شرکت کرنے کراچی جانا ہے۔ وہ عرس سے چند روز پیشتر ہی کراچی پہنچ گیا۔ سٹیشن
سے سیدھا مراقبہ ہال آیا ۔
کراچی مراقبہ
ہال پہنچ کر اُسےایک عجیب سا احساس یہ ہوا جیسے وہ وہاں سے کچھ ہی دیر پہلے گیا تھا
حالانکہ چھ سات ماہ گزر چکے تھے جب ابا حضور انگلینڈ جا رہے تھے اور وہ اُن سے ملنے
آیا تھا۔ کیاریوں میں پھول پہلے سے بہت زیادہ اور خوب بڑے ہو چکے تھے۔ گملوں کو رنگ
کیا جا رہا تھا۔ کیوریوں کے حاشیے بن رہے تھے ۔ آستانے کی سجاوٹ ہو رہی تھی۔ وہ ٹیکسی
سے اتر کر ابھی سامان اتار ہی رہے تھے کہ مراقبہ ہال سے حضور باہر تشریف لے آئے ۔ حامد
صاحب، کامران باسط اور غفار صاحب اُن کے ہمراہ تھے۔ بہت تپاک سے اُسے سینے سے لگایا۔
چاہین کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ بچوں سے مل کر کہا۔ آپ لوگ چل کر پہلے ناشتہ کر لیں پھر
ملتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے۔ اہ انہیں عرس کے انتظامات کی بابت ہدایات دیتے۔۔۔جاتے
دیکھتے رہے۔ اُن کی تو جیسے عید ہوگئی۔ پہنچتے ہی ملاقات ہوگئی۔ دو رات ایک دن کے ٹرین
کے سفر کی ساری تھکن ہوا ہوگئی۔
سامان استقبالیہ
کمرے کے پاس برآمدے میں چھوڑ کر وہ سیدھا کچن پہنچے۔ کچن کے انداز پہلے کی نسبت کافی
بہتر محسوس ہوئے۔ سب سے ملتا ملاتا۔۔ناشتہ کر کے کامران صاحب سے ملا۔ انہوں نے خیر
و عافیت دریافت کرنے کے بعد اُن کو رہائش کے لئے کمرے کا بتایا۔ جب مہمان آئیں گے تو
مردوں کو مسجد جانا ہو گا۔ خواتین کا قیام وہیں مراقبہ ہال ہی میں رہے گا۔ فی الحال
وہ بچوں کے ہمراہ مراقبہ ہال ہی میں قیام کر سکتا ہے۔
شام کو شاہین
نے بتایا کہ امی حضور تشریف لائی تھیں اور انہوں نے انہیں گھر پہ مدعو کیا ہے اور آج
رات کھانا وہیں کھائیں گے۔ شام کو مراقبہ کر کے اب حضور بھی گھر جائیں گے شاید کچھ
اور مہمان بھی ہوں گے۔
شام کو وہ حضور
مرشد کریم کے گھر پہنچ گئے۔ وہاں نجمہ صاحبہ بھی موجود تھیں۔ اُن میں حضور کے لئے عقیدات
و وارفتگی کا عجب امتزاج تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ اُن کی موجودگی میں مرشد کریم اُن کے
علاوہ کسی اور کو توجہ نہ دیں۔۔۔باقاعدہ جز بز ہو کر پاؤں پٹخ کر ابا پہ اپنا ادھیکار
جماتیں۔ مرشد کریم کبھی اُن کا مان بڑھاتے اور کبھی طرح دے جاتے۔
حضور مرشد کریم
جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی اُن کی محبت کا دم بھرتا ہے تو وہ اُس کے اس جذبے کو تعمیری
انداز میں استعمال کرنے پر راغب کرتے ہیں۔ اُس سے سلسلے کاکوئی کام کرنے کی ترغیب دیتے
ہیں اور اُس کی حوصلہ افزائی اس انداز میں فرماتے کہ وہ خود کو اہم بھی گردانتا ہے
اور کار آمد بھی۔ اپنی روحانی اولاد کی تربیت کو اُن میں روحانی تشخص ابھارنے سے پہلے
اُن کے اندر پڑی نفسیاتی گرہوں کو سلجھاتے ہیں۔ انہیں اخلاقی قدروں سے آشنا کرنے کے
ساتھ مختلف موقع پر جسم کردار اور ذہانت کے استعمال کا طریقہ بھی تعلیم فرماتے ہیں۔
اُس وقت اپنے
گھر کی اوپری منزل کے فرش پہ دیوار کے ساتھ رکھے تکیہ سے کمر لگائے فرما رہے تھے۔ اس
بار میں انگلینڈ جن کے یہاں ٹھہرا وہ مجھے ایک دعوت پہ اپنے ساتھ لے گئے۔ جن کے گھر
گئے وہ صاحب مجھے اپنے عالی شان ڈرائنگ روم میں بٹھا کر خود اپنے شغل میں مصروف ہو
گئے۔ مجھے کچھ اچھا نہیں لگا تو میں کرسی گھما کر۔۔۔۔ اُن کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گیا۔
شاید انہیں کچھ احساس ہوا۔۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا۔ میں نے آپ کو اتنے قیمتی قالین
پہ بٹھایا اس کی قیمت اتنی ہے۔۔۔یہ صوفہ اتنے کا ہے۔۔۔ یہ کرسی اتنے کی ہے۔۔۔میں نے
اُن کو کہا۔۔یہ قالین کتنا بھی قیمتی ہو بہرحال پیروں کے نیچے رہتا ہے اور جس چیز کا
مقام پیروں کے نیچے ہو وہ بہش قیمت ہو کر بھی قیمتی نہیں رہتی ۔
اسی طرح ایک
بار میں ایک محفل میں گیا۔ لوگ میرا مذاق اُڑانے کے موڈ میں تھے۔میں خاموش ہو کر بیٹھ
گیا۔ وہ سب اصرار کرتے رہے کہ میں کچھ بولوں لیکن میں خاموش ہی رہا۔ جب اُن کا اصرار
بڑھا تو میں نے شرط رکھی کہ اگر آپ میری بات خاموشی سے سنیں گے تو میں کچھ کہوں گا
ورنہ مجھے کچھ نہیں کہنا۔ جب سب نے ہامی بھر لی تو میں نے اپنی بات کہہ دی۔
فرمایا۔ گھبراہٹ
میں خاموش ہو جانا چاہئے۔ یہ بھی ہے کہ خاموشی جہالت کا پردہ ہے۔آدمی خاموش رہے تو
اُس کی لاعلمی پردے میں رہتی ہے۔
مرید نے سوچا
انہوں نے یہ سب باتیں فرما کر کس قدر غیر محسوس انداز میں اُس کی اُن تمام الجھنوں
کا حل تجویز فرما دیا جن کی بابت خود اس کا اپنا شعور اندھیروں میں تھا۔ گھبراہٹ پہ
قابو پانے کی تگ و دو کرنے کا کیا مجرب اور تیز بہدف حل فرمایا ۔ ایک چپ سو کو ہرائے۔
یہ بات بھی
بتائی کہ لوگوں کا مزاج اُن شہروں کے مزاج کے تابع ہوتا ہے ۔ یعنی ہر شہر کا اپنا ایک
مزاج ہوتا ہے۔ کسی شہر
کے لوگوں کا مزاج اُس کے شہر کے مزاج کے تابع ہوگا۔ ہاں البتہ
کسی جگہ کا موسم وہاں کے لوگوں کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہے۔ اگر کسی علاقے کے لوگوں
کے مزاج میں شدت پسندی ہو تو وہاں کا موسم بھی شدید ہوتا ہے۔ آپ دیکھ لیں ایک ہی ملک
کے مختلف حصوں میں ایک سا موسم نہیں ہوتا۔ موسم گرما میں کہیں گرمی کم اور کہیں زیادہ
تو اسی طرح سرما میں کہیں سردی زیادہ ہوتی ہے تو کہیں کم۔
پھر یورپی ممالک
کے لوگوں کے یقین کے پیٹرن کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ اگر بیوی کسی مرد کے ساتھ بیٹھی
گفتگو کر رہی ہو تو شوہر کمرے سے باہر جاتے ہوئے خود ہی دروازہ بند کر دیتا ہے اور
یہ بات وہاں کے آداب میں شامل ہے۔ اصل میں وہاں وسوسے بھی تو نہیں آتے۔
شاہین نے اچانک
کہا۔۔ابا۔۔ مقصود ڈبل روٹی نہیں کھاتے۔۔۔کہتے ہیں اس میں خمیر ہوتا ہے۔۔۔جس سے گیس
پیدا ہوتی ہے۔
فرمایا۔ آپ
چپاتی بنا کر دیا کریں۔۔۔زیتون کا تیل لگا کر۔۔۔لہسن کی چٹنی کے ساتھ کھلایا کریں۔
پھر اُسے مخاطب
ہو کر فرمایا۔ چند ہی روز میں آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔۔ بلڈ پریشر وغیرہ سب ٹھیک
ہو جائے گا۔ ساتھ میں خون کی حدت کم کرنے کے لئے لوکی کا جوس آدھا گلاس روزانہ نہار
منہ چالیس روز تک پینا بھی مفید بتایا۔
شاہین نے کہا۔۔۔جی
ابا۔۔۔لہسن کی چٹنی تو بہت مزے کی ہوتی ہے۔ میں نے کئی بار بنائی ہے۔
عجیب سے لہجے
میں فرمایا۔ آپ میرے پاس رہیں تو میں آپ کو پانی سے روٹی کھانا سکھا دوں۔
مرید جو آلتی
پالتی مارےبیٹھا تھا۔۔اُن کا انداز تکلم اور لہجہ سُن کر سہم گیا۔ سیدھا ہو کر دو زانو
ہو گیا اور سر جھکا کر عرض کی۔ کیا پانی میں ڈبو کر کھاتے ہیں؟
فرمایا ۔ نہیں۔۔ٹھنڈے
پانی کا گلاس پاس رکھیں۔۔۔نوالہ توڑ کر چبائیں اور اوپر سے ٹھنڈا پانی پی لیں۔۔۔پھر
یکدم لہجے اور انداز میں نرمی اور حلاوت در آئی۔۔ فرمایا۔۔۔میں نے کتنا عرصہ بھوسی
والے سے سوکھی روٹیاں خریس کر کھائی ہیں۔۔۔ٹکر ٹکر چبا لیا کرتا تھا اور اوپر سے پانی
پی لیتا تھا۔
مرید کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔ اُس نے اُس
رات مرشد کریم کے دستر خوان پہ کھانے کے دوران روٹی کے کئی نوالے سالن کے بغیر چبا
کر پانی سے کھا کر دیکھا۔ وہ اندازہ کر رہا تھا کہ اگر روٹی سوکھی بھی ہوتی تو طبیعت
میں کتنی منکسرالمزاجی پیدا ہوتی۔
عبید اللہ درانی
بابا ؒ کی بابت بتایا کہ جب انہوں نے فقیری میں گھر بار چھوڑا اور کئی سال بعد واپس
لوٹے تو بتایا کرتے تھے کہ جب میں گھر آیا تو بچوں کے حالات بہتر تھے اور اُن کے چہروں
پہ سُرخی کی جھلک تھی۔۔۔یعنی اُن کی غیر موجودگی میں گھر کا نظام رُک نہیں گیا تھا۔
پھر فرمایا
کہ جب حضرت عمر ؓ ، حضرت اویس قرنی ؓ سے ملے تو انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کے فرمان
کہ ملک شام کی طرف سے۔۔۔۔بوئے دوست آتی ہے اور اُن کا اپنے دانت توڑ دینے کے پسِ نظر
کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت اویس قرنی ؓ سے دریافت کیا کہ آپ نے حضور ﷺ کو دیکھا تک نہیں
تو اتنا گہرا تعلق کیونکر ممکن ہو سکا۔
حضرت اویس قرنی
ؓ نے اُن سے دریافت کیا۔ آپ تو حضور ﷺ کی قربت سے سرفراز رہے ہیں۔۔ آپ مجھے بتائیں
کہ آپ ﷺ کی بھنویں آپس میں ملی ہوئی تھیں یا نہیں۔۔۔ حضرت عمر ؓ اس بات کا جواب نہ
دے سکے تو دریافت کیا۔ آپ ﷺ کا کون سا دندانِ مبارک شہید ہوا تھا۔۔۔ حضرت عمر ؓ اس
بات کا بھی جواب نہ دے سکے۔ یہاں پہ سلسلہ کلام توڑ کر فرمایا۔ آپ یہ دیکھیں کہ کس
قدر احترام تھا کہ کبھی نظر بھر کے نہ دیکھا تھا۔ رعب نبوت ہی تو تھا کہ اُن کی نظر ﷺ کے رُخِ انور کا
نظارہ کرنے کی تاب نہ لا سکی تھی۔
پھر بات کو
وہیں سے آغاز کرتے ہوئے فرمایا۔ اس پہ جب حضرت عمر ؓ نے حضرت اویس قرنی ؓ سے نصیحت
کی درخواست کی تو انہوں نے حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا۔ اللہ کو جانتے ہو؟
حضرت عمر ؓ
نے جواب دیا۔۔ جی ہاں۔۔ میں اللہ کو جانتا ہوں۔
پھر دریافت
کیا۔ کیا اللہ بھی آپ کو جانتا ہے؟
اور جب حضرت
عمر ؓ نے اس پہ بھی اثبات میں جواب دیا تو فرمایا۔ پھر تمہیں کسی نصیحت کی کوئی ضرورت
نہیں۔ اس پہ حضرت عمر ؓ رونے لگے اور کہا۔ کاش کوئی مجھ سے یہ ساری سلطنت دو پیسے کے
عوض لے لے۔ اس پہ حضرت اویس قرنی ؓنے فرمایا۔ عمرؓ! جو چیز ناگوار ہو اُسے پھینک دینا
چاہئے۔۔ اُ س کی قیمت نہیں لگاتے۔
فرمایا۔ حضرت
عمرؓ اور امام حسین ؓ ممثل تھے۔۔۔ دونوں اتنے غیر جانبدار ذہن کے مالک تھے کہ اپنی
شہادت کی تمثیلیں خود ہی بنا دیں۔
کھانے کے بعد
وہیں دستر خوان پہ بیٹھے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ایک آدمی جوتے گانٹھتا ہے۔ ۔۔۔پھر وہی
آدمی خود نیا جوتا بناتا ہے۔۔۔پھر وہی آدمی مشین پہ جوتے بناتا ہے اور دن بھر میں دس
بارہ جوڑے بنا لیتا ہے۔ اُس نے یہ سب کیسے کیا؟ اُتنے ہی وقت میں۔۔۔اُسی توانائی اور
انہی صلاحیتوں کے ساتھ وہ چند ایک جوتے مرمت کر کے گزارا کرتا ہے۔۔۔تب بھی اور اگر
دس بارہ جوڑے جوتے نئے بنا کر بیچتا ہے تب بھی۔۔۔اور اگر فیکٹری لگا کر سینکڑوں جوتے
روزانہ بناتا ہے تب بھی۔۔۔وہ ایسا کر سکتا ہے۔ فرمایا۔ گھر میں تھری فیز وائرنگ کی
طرح کی بات ہے۔۔ بجلی کی مقدار تو ایک ہی ہے۔ آپ اُس سے دودو اے سی چلائیں اور چاہے
محض پندرہ واٹ کا بلب جلا کر گزارا کرتے رہیں۔
فرمایا۔ مساوات
مادی وسائل نہیں بلکہ صلاحیتوں کی یکساں تقسیم کا نام ہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک مساوات
کا مفہوم انسان کو توانائی کا ذخیرہ مساوی مقدار میں فراہم کیا جاتا ہے۔اس توانائی
کو بروئے کار لانے کا پورا ختیار انسان کو دیا گیا ہے۔ آپ چاہے تو اُس توانائی کو استعمال
کر کے بھکاری بن جائیں اور چاہے تو سائنسدان اور چاہے تو قارون۔۔آپ کو روکا کس نے ہے
کہ ریسرچ نہ کریں۔۔بھکاری بننے میں کیا توانائی نہیں صرف کرنا پڑتی۔۔۔ آپ دیکھیں بھکاری
دب بھر کتنی محنت کرتے ہیں۔
اللہ نے انسان
کو انرجی دے دی۔۔اُس انرجی کو استعمال کا اختیار دے دیا۔ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ
اُس توانائی کو۔۔ اُس انرجی کو کیسے اور کیونکر استعمال کرنا ہے۔۔۔۔ کرنا بھی ہے یا
نہیں۔
فرمایا۔ یونانیوں
کا ماننا تھا کہ آقا اور غلام قدرت پیدا کرتی ہے۔ سقراط نے جب حقیقت کا اندازہ کر لیا
تو کہہ دیا کہ قدرت سب کو یکساں پیدا کرتی ہے۔۔۔انسان ایک دوسرے کو غلام بنا لیتا ہے۔
اپنے اجداد کی اس بات کی تردید میں وہ اتنا ڈٹ گیا کہ بالآخر اُسے زہر پینا پڑا اور
وہ پی گیا۔
فرمایا۔تنہائی
بھی ایک تقاضا ہے اور یہ تقاضا تو جانوروں میں بھی پایا جاتا ۔ آپ دیکھیں کہ بعض اوقات
جانور گلے یا ریوڑ سے ہٹ کر الگ ہو کر بیٹھتے ملتے ہیں۔ سقراط لوگوں سے بچنے کے لئے
ایک ٹوکرے میں بیٹھ کر چھت سے لٹکا رہتا تھا۔
پھر حضور قلندر
بابا اولیا ء ؒ کا تذکرہ فرمایا کہ وہ لوگوں
سے صرف عصر تا مغرب ہی ملا کرتے تھے۔ وہ تخت پوش پہ چڑھ کر بیٹھے رہا کرتے تھے۔ اگر
اُن کا کوئی رشتے دار بھی آتا تو اُن کی کوشش ہوتی کہ جلد فارغ ہو کر چلا جائے۔ ایک
بار حضورؒ کے بھائی اُن سے ملنے آئے ۔ حضورؒ نے حسب عادت کہا ۔ تمہاری بھابھی اندر ہیں یعنی آپ اندر
جائیں لیکن وہ بھی خوب پکے تھے۔ اکڑ گئے کہنے لگے بھائی صاحب میں تو آپ سے ملنے آیا
ہوں۔۔۔وہ ایک دن ایک رات وہیں رہے، وہیں سوئے ، وہیں اُٹھے، وہیں بیٹھے۔۔اندر زنان
خانے نہیں گئے۔ وہیں مراد نے میں اُن کے پاس رہے۔
فرمایا۔ میں
نے ایک بار حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ سے پوچھا کہ بدر صاحب کی ترقی ہو رہی ہے میری
کیوں نہیں ہو رہی۔۔۔تو انہوں نے فرمایا ۔ بدر صاحب شراب پیتے ہیں اور آپ شراب پینے
کو بُرا سمجھتے ہیں۔ یعنی کسی کو بُرا سمجھنا اتنا بُرا ہے کہ آدمی کی روحانی ترقی
رک جاتی ہے۔
بدر صاحب ہی
کے حوالے سے بتایا کہ انگلینڈ میں ایک خاتون جو ابا حضور کی بہت معتقد تھیں اور سلسلے
میں ابا حضور سے بیعت تھیں۔ اُن کے شوہر بدر صاحب سے ملے۔ انہوں نے حضور قلندر باباؒ
کی نسبت کی وجہ سے ان کی بہت پزیرائی کی۔ یہاں تک کہ انہیں اپنے گھر رہنے پہ آمادہ
کر کے اپنے ساتھ لے آئے ۔ بدر صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ کے بچے ہیں۔ اُن کی اولاد
نہیں تھی۔۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے کہا۔ آپ کی خدمت کے عوض میں آپ کے
لئے ایک بیٹا Sanctionکرتا ہوں۔ وہ دونوں اور بھی مرعوب ہو گئے۔
ایک روز اُس
خاتون نے نے ابا حضور کو فون پہ اس تمام کی بابت مطلع کیا اور کسی قدر گلہ مندی سے
بتایا کہ وہ بہت خدمت لیتے ہیں۔ ابا حضور نے انہیں کہا کہ اگر آپ کے پیر و مرشد ہیں
تو پھر آپ کو گلہ نہیں کرنا چاہئے۔
اس بات کا اُس
خاتون نے اثر لیا اور خدمت میں کچھ کمی کر دی۔ بدر صاحب اُن کے رویے کو بھانپ گئے اور
وہاں سے چلے گئے۔کچھ عرصہ بعد اُن کے گھر آئے اور دروازے پہ کھڑے کھڑے کہا۔ میں نے
آپ لوگوں کو بہت تکلیف دی۔۔۔ وقت بے وقت کی خدمت لی۔۔ میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں۔
انہوں نے کہا آپ اندر تو آئیں انہوں نے کہا ۔ میں آپ سے شرمندہ ہوں۔۔جب تک آپ مجھے
معاف نہیں کریں گے میں یہیں کھڑا رہوں گا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ ہم اس معافی کی کوئی
بات نہیں دیکھتے۔۔لیکن اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو ہم نے آپ کو معاف کیا۔ بدر صاحب نے
کہا۔ دراصل میں نے جو بیٹا آپ کے لئے Sanction کیا تھا اُسے میں نے کینسل کر دیا ہے اور میں آپ کو
یہی اطلاع دینے آیا تھا۔
اُس خاتون نے
یہ بات بھی ابا حضور سے فون پہ عرض کی تو آپ نے انہیں کہا۔ اب یہ معاملہ حضور قلندر
بابا اولیا ء ؒ ہی طے فرمائیں گے۔
اس کے بعد وہ
میاں بیوی انگلینڈ سے کراچی آئے ۔ حضور انہیں لے کر حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے مزار
پہ گئے۔ وہاں مراقبہ کے بعد انہیں بتایا کہ حضور قلندر بابا اولیا ؒ نے معاملہ حل کر
دیا ہے۔ وہ واپس چلے گئے اور ایک سال بعد انہوں نے اطلاع دی کہ اللہ تعالی نے انہیں
بیٹے سے نوازا ہے۔
باتوں باتوں
میں رات آدھی سے زیادہ گزر گئی۔ محفل برخاست فرماتے ہوئے کہا۔ اس وقت آپ مراقبہ ہال
کیسے جائیں گے۔۔ یہیں سو جائیں۔ اُس کے پاس ۔۔ جی ۔۔بہتر کہنے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔مرشد
کریم کے گھر اُن کے ساتھ بسرام ہونا ایک ایسا اعزاز تھا جس پہ وہ ناز ہی کر سکتا تھا۔
صبح ڈرائنگ
روم میں ہی مراقبہ کر کے وہ مرشد کریم کے ساتھ اُن کی خواب گاہ میں چلا آیا ۔شاہین
چائے بنا کر وہیں لے آئی۔ اُس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ صبح صبح چائے پلاتی ہیں۔
چائے پیتے ہوئے
مرید کی نظر حضور کے تخت پوش پہ دھری کچھ ڈائریوں پہ پڑی۔ فرمایا۔ مرشد کی باتوں کو
ڈائری میں لکھنا میری عادت تھی۔۔۔ ایسی کئی ڈائریاں میرے پاس بھری پڑی ہیں۔
اتنے میں شاہ
عالم نے آ کر ناشتے کی بابت پوچھا۔ تکیے کے نیچے ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے اور انڈے ڈبل
روٹی لانے کو کہا۔ اس اثناء میں مرید نے ایک ڈائری اُٹھا کر دیکھی۔۔ نہایت خوشخط تحریر
دیکھ کر اُس نے سوچا۔ یہ حضور کی جوانی کی تحریر ہے۔۔یعنی انسان کا خط بھی وقت کے ساتھ
ساتھ ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ چند ایک باتیں پڑھ کر اُس نے یہ سوچ کر اُسے بند کر دیا کہ
یہ میرے مراد کی پرائیویٹ ڈائری ہے مجھے زیب نہیں دیتا کہ میں اسے پڑھوں۔
مرید نے اعراف
اور برزخ کا فرق سمجھانے کی درخواست کی تو فرمایا۔ خیالات لوحِ محفوظ سے نشر ہوتے ہیں۔
اُس وقت وہ بے رنگ ہوتے ہیں۔ انسان انہیں موصول کر کے اُن میں معنی پہناتا ہے۔ اب ان
میں ایک رنگ اور خدوخال پیدا ہو جاتے ہیں۔ اب برزخ میں بیٹھا ہوا عامل اُن کی منظوری
دیتا ہے۔۔یہ عامل عموماً مجذوب ہوتے ہیں اور اُن کا ذہن ہمہ وقت برزخ میں کام کرتا
ہے۔ اگر منظوری نہ دے تو خیال عملی جامہ پہن ہی نہیں سکتا۔ یہ سب اتنی تیزی اور تسلسل
کے ساتھ ہوتا ہے کہ انسان اس کو سمجھ ہی نہیں پاتا۔
مثلاً ایک تقاضا
نشر ہوا کچھ کھانا چاہئے یعنی آپ نے بھوک محسوس کی۔۔۔ کیا کھانا چاہئے؟ آپ نے معنی
پہنائے۔۔۔روٹی کھانی چاہئے۔۔۔ اب یہ خیال برزخ میں عامل کے ذہن سے گزرا۔۔اگر اُس نے
اسے رد کر دیا تو آپ روٹی نہیں کھا سکتے۔ کچھ اور کھائیں۔۔یعنی آپ وہی کر سکتے ہیں
جس کی وہ منظوری دیتا ہے۔
شاہ عالم واپس
آئے ۔ اباحضور نے اُن کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ناشتہ لے
آئے ہیں اور کہا آپ کھانے کی میز پر تشریف لے ائین۔ ابا حضور نے پوچھا کیا لائے؟ انہوں
نے کہا حلوہ پوری لایا ہوں۔
فرمایا۔ دیکھ
لیں ہم نے انڈے روٹی کی بات سوچی۔۔یہاں کسی کے ذہن میں حلوہ پوری نہ تھی۔۔پھر بھی حلوہ
پوری ہی آئی۔ ہم انڈہ ڈبل روٹی کھا ہی نہیں سکتے تھے۔۔ کھا لیتے تو حلق سے نیچے نہ
اترتی۔۔ حلق میں پھنس جاتی۔۔۔ اعراف میں تو ہم یہاں سے جانے کے بعد رہیں گے اور کھانے
کے کمرے کی طرف بڑھے۔
مرید نے سوچا
۔ یہ برزخ اور اعراف کا حال جاننے کی خواہش پیدا ہونے سے پہلے اُس کے عملی مظاہرے کی
تیاری ہوئی۔۔بالکل اُسی طرح جس طرح ایک ٹیچر جانتا ہے کہ آج اُس کو کلاس میں کیا پڑھانا
ہے اور وہ اُس کے لئے ومعی اور بصری مواد تیار کرتا ہے۔پہلے شاہ عالم بھائی کو انڈہ
ڈبل روٹی کا کہا۔ پھر اعراف اور برزخ کی بات سمجھائی اور عملی مشاہدے کے لیے حلوہ پوری
سے توضح کروا دی۔
ناشتے کے دوران
زیادہ تر خاموشی رہی۔ خاموش رہنے کی ایک مشق چپ رہنا بھی ہے۔ بعض لوگ اسے چپ کا روزہ
رکھنا بھی کہتے ہیں۔ ویسے صوم کا مادہ صم ہی تو ہے یعنی گونگا ہونا۔ فقیروں کے یہاں
کم کھانا، کم سونا اور کم بولنا علاماتِ فقر کے طور پر بتائی جاتی ہیں۔ حضرت زکریا
علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تین روز شب کسی سے بات نہ کرنا ایک نشان راہ کے طور پر فرمایا تھا۔ اس کی حکمت بھلا کیا
ہو سکتی ہے؟ مرید نے سوال اپنے مراد کے حضور پیش کیا تو انہوں نے اتنا ہی کہا۔ اس سے
خرچ ہونے والی توانائی ذخیرہ ہوتی ہے۔۔۔ اور مرید اتنے پہ ہی قناعت کر گیا۔
ناشتے کے دوران
کسی نے پوچھا آج کیا دن ہے۔ فرمایا انسان نے محض نام ہی مختلف رکھے ہیں ورنہ دن تو
سب ہی دن ہوتے ہیں۔۔ ایک دن کا دوسرے دن سے کیا فرق ہے؟ یہ نام رکھ کر دراصل انسان
نے خود کو محدودیت میں قید کر رکھا ہے۔
پھر فرمایا۔
تاریخ انسانی میں کتنے انبیاء آئے ۔ اوسطاً چھ سو سال ایک نبی کا لگائیں تو ایک لاکھ
چوبیس ہزار انبیاء کتنے عرصے میں آئے ہوں گے۔ لگ بھگ ساڑے سات کروڑ سال میں۔ پھر قرآن
اور دیگر الہامی کتب میں دی گئی تاریخ کا تذکرہ فرمایا تو مرید نے دریافت کیا۔ کیا
قرآن میں متذکرہ تاریخ صرف موجودہ دس ہزار سال کی تاریخ ہے؟
فرمایا۔ قرآن
تو وقت کا تذکرہ ہی نہیں کرتا۔ وہاں کا ایکدن آپ کے ہزاروں سال کے برابر ہے۔۔۔یعنی
آپ اتنے سست ہیں کہ جتنا کام آپ کو ایک دن میں کرنا چاہئے اتنا کام آپ نے ہزار دنوں
میں بھی نہیں کر پاتے۔
مرید کو اپنی
سست روی کا خیال آیا اور اُس نےدریافت کیا کہ رفتار کار کیسے بڑھائی جائے؟
فرمایا۔ ذہن
ہلکا ہو تو رفتار بڑھتی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ خلفشار نہ ہو۔ خلفشار ہو تو ذہن
بوجھل رہتا ہے۔ پھر فرمایا۔ ایکسیڈنٹ ہمیشہ اس لئے ہوتا ہے کہ آدمی کے ذہن میں کوئی
پیچیدگی ہوتی ہے۔ ویسے تو بیماریاں بھی ذہنی پیچیدگی ہی کے سبب ہوتی ہیں۔
بیماریوں کا
تذکرہ ہوا تو مرید نے ناف ٹلنے کے روحانی علاج کے بابت کہا کہ وہ کچھ زیادہ موثر نہیں
۔ فرمایا ۔ وہ علاج وقتی اثر کرتا ہے۔ اس کا مستقل علاج تو ورزش ہی ہے۔
یہ بات بھی
بتائی کہ کھانے کے اوقات کا تعین سب سے پہلے حکیم جالینوس نے کیا تھا۔۔۔ اُس نے کھانے
کے تین اوقات مقرر کئے تھے۔ اس سے پیشتر لوگ ہر وقت کھاتے رہتے تھے۔۔ اُس نے کہا تھا
کہ انسان کو تین وقت سے زیادہ نہیں کھانا چاہئے اور ہر کھانے کے دوران کم از کم چھ
گھنٹے کا وقفہ ضروری بتایا۔
ابھی یہ باتیں
ہو ہی رہی تھیں کہ مسعود طارق اور فاروق صاحب آن پہنچے۔ حیدر اباد کا پروگرام تھا۔
حضور نے اُسے مدعو کیا تو وہ کھل اُٹھا۔
حیدر آباد جاتے
ہوئے راستے میں فرمایا۔ ایک بار مجھے ایک صاحب نے کہا میں آپ کو ایک کام کی بات بتاؤں۔
میں نے اشتیاق ظاہر کیا تو کہا کل بتاؤں گا۔ خیر وہ کئی دن بلاتے رہے اور میرا اشتیاق
بڑھاتے رہے، آخر ایک دن کہنے لگے۔ آپ دیکھیں گاہک آئے ۔۔وہ کچھ بھی نہ لے تو اپنے پاؤں
کی مٹی تو چھوڑ ہی جاتا ہے نا۔۔۔پھر اس کی وضاحت فرماتے ہوئے کہا۔ گاہک دکان سے کچھ
بھی نہ خریدے۔۔ وہ چند ایک چیزیں دیکھے گا۔۔۔۔ تو اُن چیزوں کی جھاڑ پونچھ تو ہو جائے
گی اور پھر دیکھنے والے کو پتہ چلے گا کہ
گاہک کھڑا ہے اور دکانداری ہو رہی ہے۔
پھر ایک اور
صاحب کا بتایا کہ اُس نے کسی تھوک فروش سے سامان اس وعدے پر لیا کہ جب بکے گا تو ادائیگی
کریں گے۔ وہ جب بھی وصولی کے لئے آتا اور تقاضا کرتا تو کہہ دیتے کہ بھئی سامان ابھی
فروخت نہیں ہوا لہذا پیسے نہیں ہیں۔
وہ خاموش ہو
کر چلا گیا۔ پھر اُس نے ملازم کو بھجوایا۔ ملازم کو انہوں نے جانے کیا کہہ کر بھیجا
۔ وہ سر ہو گیا۔ انہوں نے اُس کی بات سُنی اور سامان اُٹھوا دیا کہ زیادہ بات نہیں
کرو اپنا سامان لے جاؤ۔
کچھ عرصے بعد
مالک ادھر سے گزرا ۔ اُس نے کہا آپ ہم سے سامان نہیں لے رہے۔ کہا فی الحال پڑا ہے جب
ہوگا تو منگوا لیں گے۔ کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ آیا ۔ انہوں نے وہی بات کہی۔ وہ دکان
میں داخل ہوا اور دیکھ کر کہا۔۔۔ صاحب آپ کمال کرتے ہیں۔۔ مال تو نہیں ہے اور آپ کہہ
رہے ہیں کہ ہے۔ انہوں نے کہا۔۔ ایسے مال کیا لینا۔۔۔ نہ مال ہوگا نہ کوئی تقاضا کرے
گا۔
ایک بات یہ
سُنائی کہ ایک پیر صاحب کے خلیفہ اُن کے وصال کے بعد گدی پر بیٹھے ۔ جب مریض آئے تو
پوچھا کرتے۔۔۔پھوکا ماراں یا تویز( تعویز) دیاں۔
فرمایا۔ ایک
بار مراقبہ ہال کے لئے پودے لینے چلا گیا۔ نرسری والے نے کچھ ایسی قیمتیں بتائیں کہ
مجھے عجیب سا لگا۔ میں نے اُس سے پوچھا ملک الموت آئے گا تو کیا کرو گے؟ تم نے مرنا
نہیں ہے؟ اتنا کہا اور ہم چل دیئے۔ اُس کے دل پہ کچھ ایسی لگی کہ واپس بلوا کر پودے
بھی دیئے اور پیسے بھی نہ لیئے۔
پھر بری معصومیت
سے کہا۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ سچ مچ ملک الموت آہی گیا ہو۔ اب جب بھی کبھی جاتا تو شاید
یہی سمجھتے ہوں گے کہ کہیں ملک الموت آ ہی نہ جائے۔ اس لئے جتنےپودے لیتا ہوں دے دیتا
ہے اور پیسے بھی طلب نہیںکرتا۔۔خود ہی کچھ دے دوں تو لے لیتا ہے۔۔ورنہ نہیں۔
فرمایا۔ عام
طور پر جب مرید پیر صاحب کو روشن ضمیر کہتے ہیں تو وہ تردید نہیں کرتے۔۔۔چپکے بیٹھے
رہتے ہیں۔۔۔حتیٰ کہ مرید تنگ آ کر خود ہی کہنا شروع کر دیتا ہے کہ آپ تو روشن ضمیر
ہیں آپ کو تو معلوم ہی ہے کوئی میری بھینس کھول کر لے گیا ہے۔ میری بیوی بیمار ہے یا
میری زمین کا یہ مسئلہ ہو گیا ہے اور پھر باہر جا کر اپنے پیر صاحب کی روشن ضمیری کے
تذکرے کرتا پھرتا ہے ۔ فرمایا در اصل پیر کو اُس کے مرید ہی پیر بناتے ہیں۔
ایک اور بات
یہ تعلیم فرمائی کہ طرزِ فکر یہ ہونی چاہئے کہ ٹھندی ہوا کا جھونکا بھی آئے تو آپ کہیں
اور سمجھیں کہ یہ اللہ نے کیا۔ اگر آپ سب کچھ کیر آف اللہ کریں گے تو یہ رحمانیت ہے
اور اگر یہ سب اپنی معرفت سمجھیں گے تو یہ شیطنت ہے۔ اگر آپ کیر آف اللہ سوچیں گے تو
یہ پیغمبرانہ طرزِ فکر ہو گا ورنہ یہ شیطانی طرزِ فکر ہوگا۔
فرمایا۔ سوچیں
گے تو یاد آئے گا۔۔ سوچیں گے تو سمجھیں گے۔۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں اتفاق
نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر کام جو ہو رہا ہے ایک قانون اور ضابطے کے مطابق ہو رہا
ہے۔۔۔
حیدر آباد میں
گھومتے ہوئے جب گاڑی فاروق صاحب کے والد کے بنائے ہوئے ہسپتال کے سامنے سے گزر رہی
تھی تو فاروق صاحب نے اُس ہسپتال کی بابت اپنے والد کی کوششوں کا ذکر کرکے کہا۔ ابا
دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی کوئی ایسا کام کرنے کی توفیق دے دے۔
فرمایا۔ ہاں
بھئی اللہ ہی توفیق دیتا ہے۔
مرید نے رنگ
و روشنی سے علاج کے لئے ایک ہسپتال ہونے کی ضرورت اور ایک ہسپتال بنانے کی خواہش کا
ذکر کیا تو فرمایا۔ اُ میں رنگین شیشے لگا کر مریضوں کو رکھیں۔ رنگین بلب استعمال کرنے
سے یہ کہیں زیادہ بہتر اور کار آمد ہے۔
شاہین نے دریافت
کیا کہ وہ سلسلے کی خدمے کے لئے کیا کر سکتی ہے تو فرمایا۔ شوہر کی خدمت، اولاد کی
تربیت اور خوش رہنا ہی وہ خدمت ہے جو آپ سلسلے کے لئے کر سکتی ہیں۔ شاہین نے اپنا خواب
سُنایا کہ اُس نے دیکھا ہے کہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے عاطف( چھوٹے بیٹے) کو قلم
دیا ہے تو فرمایا آپ کے مزے آ رہے ہیں۔
پھر کہا چلیں
اسی بہانے شاہین نے حیدر آباد دیکھ لیا۔
فاروق صاحب
کے گھر گئے۔ ممتاز علی وہاں پہلے سے موجود تھے۔ ابا اندر تشریف لے گئے۔ اندر خواتین
سے مل کر باہر آئے ۔ پھر فیروزہ بہن کے گھر سے ہوتے گلشن شہباز حیدر آباد مراقبہ ہال
پہنچے کئی لوگ وہاں پہ اُن کی آمد کے منتظر تھے۔ ملتے ملاتے شام کی اور واپس کراچی
کو روانہ ہوئے۔
اگلے روز سے
عرس میں شرکت کے لئے مہمان آنا شروع ہو گئے۔
عرس کی تقریبات
کی گہما گہمی شروع ہوئی تو ابا حضور کی مصروفیات بامِ عروج پہ جا پہنچیں۔ زائرین کا
اجتماع پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ اُن سب کے رہنے ، کھانے پینے اور انہیں تربیت کے مختلف
مراحل سے گزارنے کے لئے ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مزار پہ چادریں چڑھانے کے لئے
ایک گروہ نعیم قادری صاحب کی سربراہی میں حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے مزار پہ گیا۔
خواتین کے دو گروہ فیروزہ بہن اور سعیدہ خاتون کی قیادت میں چادریں چڑھانے گئے۔ پھر
سہ پہر میں حضور خود گئے۔ مغرب کی نماز کے بعد لنگر کی تقسیم شروع ہوئی۔ پھر رات گئے
حضو کا سالانہ خطاب ہوا۔
اگلے روز وفود
سے ملاقاتیں جو صبح سویرے سے شروع ہوئیں تو رات گئے تک جاری رہیں۔ اگلے روز غیر ملکی
وفود سے ملاقاتوں کی باری تھی۔اکثر لوگ جو دیار غیر سے آتے ہیں وہ کراچی رک کر حضور
قلندر بابا اولیا ء ؒ کے عرس میں شرکت اور اپنے مرشد کریم سے ملنے کے بعد اپنے آبائی
گھروں کو جاتے ہیں۔ اس طرح ایک پنتھ اور کئی کاج کے مصداق ایک ہی سفر سے ہم خرما د
و ثواب کے مزے لوٹتے ہیں۔
شام کو محفل
سجی۔ حلقہ ارادت مندوں میں بیٹھے مردانے دورہ انگلینڈ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا
کہ اس بار انگلینڈ میں کچھ زیادہ پروگرام نہیں کئے کیونکہ اس سے رجوع خلائق بڑھ جاتا
ہے اور سلسلے کے لوگوں کی تربیت کا کام رہ جاتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ اب سلسے میں نئے
لوگوں کے داخلے پر پابندی لگنی چاہئے اور جو آ چکے ہیں اُن کی تربیت کا اہتمام زیادہ
ہونا چاہئے۔ فرمایا کم لوگوں میں انتخاب بھی آسان ہو جاتا ہے۔
فرمایا۔ فقیر
کے پاس خالی ہاتھ نہیں جانا چاہیے۔ اس بات کی حکمت یہ بتائی کہ فقیر قرب الٰہی کے کسی
نہ کسی مقام پر ہوتا ہے ۔ جب لوگ ملنے جاتے ہیں تو وہ اُن کی خاطر تواضح کرنا چاہتا
ہے۔ اب جب وہ ادھر نیچے متوجہ ہوتا ہے تو اُس کا دھیان بٹتا ہے۔ اُس کو دنیا داری سے
محفوظ رکھنے کے لئے کم از کم اتنا سا اہتمام کرنے میں کیاہرج ہے اور اس کی دوسری وجہ
یہ بتائی کہ جب کوئی کسی فقیر کے لئے کچھ کرتا ہے تو فقیر بھی لامحالہ اُس کے لئے کچھ
نہ کچھ ضرور کرنا چاہتا ہے۔ اب فقیر کچھ اور تو کر نہیں سکتا تو وہ دعا کرتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ بھی یہ دیکھتے ہیں کہ اس بندے نے اُن کے بندے کی خاطر کی ہے تو اللہ اُس بندے
کو خود نوازتے ہیں۔
پھر نظام الدین
اولیا کے لنگر کی مثال دی کہ انہوں نے ناند یعنی بڑے بڑے مٹکے رکھوا دہیئے تھے۔ لوگ
آتے۔۔۔کوئی چاول لایا تو اُس نے وہ چاولوں کے مٹکے میں ڈال دیا۔۔گھی لایا تو اُس نے
وہ گھی کے مٹکے میں ڈال دیا۔۔ گندم لایا اور گندم کے مٹکے میں ڈال دی۔ اللہ نے اُن
مٹکوں میں کچھ ایسی برکت ڈال دی تھی کہ وہ خالی نہیں ہوتے جب وفات پائی تو سب مٹکے
خالی کروا کر لنگر بنا کر تقسیم کر دیئے گئے۔
فرمایا۔ داتا صاحب کا لنگر تاریخ میں سب سے بڑھ کر
ہے۔ اس سے پہلے نظام الدین اولیا کا تھا۔ پھر داتا صاحب کے مزار پہ لنگر کی تقسیم
کے انداز کو سراہا کہ لوگ آتے ہیں وہیں پہ پکی پکائی دیگ خریتے ہیں اور وہیںکھرے کھرے
بانٹ دیتے ہیں،۔ اس طرح ہزار ہا دیگیں روزانہ تقسیم ہو جاتی ہیں۔
فرمایا کہ انگلینڈ
میں کیرلین فوٹو گرافی اب اتنی عام ہو گئی ہے کہ آپ کو اکثر دکانوں پہ اس کی سہولت
مل جاتی ہے۔ آپ جائیں وہ آپ کی اورا کی تصویر بنا کر آپ کو دے دیں گے۔ ساتھ میں یہ
بھی بتا دیتے ہیں کہ آپ میں غصہ ہے ، آپ جذباتی ہیں، آپ فلاں بیامری ہو سکتی ۔ وہاں
سب نے اپنی اپنی تصویر بنوائی۔ طاہرہ کی تصویر میں اُن کے گرد آنے والے ہیولے میں ایک
بیم سی سیدھی نظر ائی۔ اس کی تشریح میں وہاں کی انچارج خاتون نے بتایا کہ آپ ایک روحانی
خاتون ہیں۔ طاہرہ نے گایا کہ انہوں نے تصورِ شیخ کیا تھا۔ پھر فرمایا۔ یہ تو انہوں
نے کیا۔۔آپ نے کیا کیا؟
بتایا کہ طارق
محمود نے ایک مشین بنائی ہے جس پر آپ ہاتھ رکھیں تو آپ کے ہاتھ کے گرد روشنیوں کے ہالے
کی تصویر اتار لیتی ہے۔
مرید نے سوال
کیا۔ حضور ہم جب تلاوت میں قل کہتے ہیں تو ہم کس کو مخاطب ہوتے ہیں۔ یعنی اللہ نے قل
کہا تو جبرائیل علیہ السلام نے جا کر حضور ﷺ سے کہا۔ جب جبرائیل نے حضورؐسے کہا قل۔۔
تو انہوں نے اپنی امت کے جن و انس کو کہا۔۔ اب جب امت کے افراد باآواز بلند قل کہتے
ہیں تو اُن کے مخاطب دیگر افراد ہوتے ہیں لیکن جب حالت نماز میں دل ہی دل میں قل کہتے
ہیں تو ہم کس کو کہتے ہیں۔۔ قل۔۔۔یعنی آپ کہہ دیں۔
فرمایا۔ ہم
تو نقل کرتے ہیں حضور ﷺ کی۔۔قرآن میں جو کچھ پڑھتے ہیں۔۔ وہ ان کی پیروی میں ہی تو
پڑھتے ہیں۔
فرمایا یہ سب انسانی شعور کی مجبوری ہی کہ وہ مرکزیت
کے لئے ایک نقطہ چاہتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کیوں بنایا۔۔ ورنہ اُس عمارت
میں کہیں اللہ آ سکتا ہے۔۔اوپر سے آپ اُس پہ تالا بھی دیکھتے ہیں۔۔حجر اسود بھی تو
ایک پتھر ہے۔۔حضور ﷺ نے نہ جانے کس مصلحت کے تحت اُسے بوسہ دیا تھا۔۔ ہم نے کبھی ایسی
باتوں پہ غور تو کیا نہیں۔۔بس پیروی ہی میں لگے ہوئے ہیں۔
مرید نے سوال
کیا۔ حضور ٹھہراؤ میں کیونکر اضافہ ہو سکتا ہے؟
ایک جھٹکے سے کہا۔۔ ٹھہراؤ تو موت ہے۔۔حرکت ہی تو
زندگی ہے۔۔حرکت میں رہنا ہی حیات ہے۔۔ ٹھہر گئے تو سب ختم۔
فرمایا یہ لمبی
بحر میں ہے۔
ہر
خوشی اک وقفہ ، تیاری ، سامان غم ہر
سکوں مہلت برائے اضطراب و امتحان
یعنی ہر خوشی
کے بعد غم اور ہر غم کے بعد خوشی آتی ہے یعنی یہ دونوں کیفیتیں ادل بدل ہوتی رہتی ہیں
۔ بعض لگ زیادہ حساس ہونے کے سبب ۵۰ ٪ کی بجائے ۸۰ ٪ غمگین ہوتے ہیں۔
فرمایا یہاں
سب کچھ ایک دھوکہ ہی ہے۔ آدمی کہتا ہے میں نہی ہوں گا تو میری اولادکو کون پڑھائے گا
لیکن جو ماں باپ اپنی اولاد کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں تو ان کی اولاد چور ڈاکو
کیوں بنتی ہے؟
اگر بیج کو
اصل مان لیں تو درخت فکشن ہوا۔۔ درخت میں دعبارہ گٹھلی کا کیا مطلب ہوا؟ یعنی نہ درخت
اسل ہے اور نہ گٹھلی۔۔۔اب سوچیں کہ اصل کیا ہے؟
دعوت تفکر دے
کر ایک نکتہ مزید یہ بتایا کہ آدمی کے مرنے کے بعد جب اُس کا اعمال نامہ سیل کر دیا
جاتا ہے تو پھر یہ ختم اور ایصال ثواب وغیرہ کا کیا مطلب ہے؟ کیا ہماری دعائیں اعمال
نامہ پہ لگی اللہ کی مہر سے گزر سکتی ہیں؟
اگلے روز وہ
واپس جانے کے لئے تیار ہو کر اس تاک میں تھا کہ حضور سے الوداعی ملاقات ہو جائے۔ مراقبہ
ہال میں آستانے کے باہر ٹہلتے ہوئے سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے۔۔کسی سے کہلوائے۔۔خود
جا کر دستک دے۔۔ کہ حضور نے کمرے کی چق اُٹھا کر ہاتھ کے اشارے سے اُسے اندر بلایا۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو فرمایا۔ آئیے مقصود صاحب۔۔ بیٹھیں۔ پھر عود کی لکڑی نکالی۔۔سلگتے
کوئلے پہ رکھی اورکہا۔۔ یہ آپ کی خاطر کی جا رہی ہے۔ عود کی مدھر مہک کمرے میں پھیلی،،مشام
جان معطر ہونے لگے۔۔فرمایا۔۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عود کی خوشبو بہت پسند تھی۔۔۔اسی
کا عطر لگاتے تھے۔۔آج بھی خانہ کعبہ میں اس ی لکڑی کو لوبان کی طرح سلگایا جاتا ہے
وہاں کے لوگ بھی اس کی خوشبو کو سنتِ رسول ﷺ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
پھر کچھ توقف
کے بعد دریافت کیا۔ آپ کا کالج کیسا چل رہا ہے؟ مرید نے انہی دنوں پشاور میں ایک کالج
قائم کرنے کی سعی کی تھی۔ حضور اُن دنوں امریکہ گئے ہوئے تھے۔ اُس نے انہیں فون پہ
اس امر کی اطلاع دی تھی۔۔ مرید نے عرض کی۔ ٹھیک ہے۔۔ابھی آغاز ہے کچھ دشواریاں تو ہیں
لیکن اُمید ہے رفتہ رفتہ سب تھیک ہو جائے گا۔
فرمایا۔ میں
چاہتا ہوںکہ آپ کالج اور کاروبار میں کسی ایک کا انتخاب کریں۔
مرید نے عرض
کی۔ حضور آپ ہی فیسلہ فرما دیں کہ مجھے کالج چلانا چاہئے یا اپنے کارو بار کو۔
فرمایا ۔ نہیں
بھئی۔۔یہ فیصلہ تو آپ ہی کوکرنا ہے۔
مرید نے عرض
کی۔ حضور درس و تدریس تو ایک مشن ہے اور میں نے کالج اسی جذبے سے شروع کیا ہے لیکن
روزگار کے طور پر اپنا کاروبار ہی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ تعلیم سے روزگار کو وابستہ
کرنا مجھے کچھ مناسب نہیں لگتا۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں علم بیچ رہا ہوں۔ اس
لئے میری سوچ یہ تھی کہ میں کالج کو خود اپنی کمائی سے چلاؤں نہ کہ اُسے کمائی کا ذریعہ
بناؤں۔
بہت خوش ہوئے
اور فرمایا۔ آپ نے بہت اچھی بات کہی۔ پھر فرمایا۔ آپ کو اس کام کے لئے کوئی ایسا آدمی
تالاش کرنا چاہئے جس کو آپ کالج میں بٹھا سکیں۔ اُس کی یکسوئی کالج میں ہو۔ کالج کے
علاوہ اُس کو کوئی اور کام نہ کرنا ہو۔ جب آپ دونوں کے ذہن ایک نقطے پر مرکوز ہو جائیں
گے تب آپ کا کالج خوب پھلے پھولے گا۔
پھر بتایا کہ
ایک سیٹھ نے ایک مینجر رکھا۔ اُس کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ماہانہ مقرر کی۔ ایک روز
وہ مینجر اُن کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ یہ مسئلہ ہے۔۔سیٹھ صاحب بھپرگئےاور کہا ۔
ہم نے تمہیں اس لئے نہیں رکھا کہ تم ہمیں آ کر یہ بتاؤ کہ یہ مسئلہ ہے یا وہ مسئلہ
ہے۔ ہم تمہیں مسئلے کو حل کرنے کی تنخواہ دیتے ہیں اگر تم اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے
تو گھر جاؤ ہم اس کو خود حل کر لیں گے۔ تمہیں تنخواہ پھوکٹ میں کیوں دیں۔ خبردار جو
کوئی مسئلہ لے کر آئندہ میرے پاس آئے ۔
بعد میں مرید
نے جب فون پر برخیا ایجوکیشن فاؤنڈیشن بنانے کی اطلاع دی تو فرمایا۔ اب آپ واقعی خدمت
کرنا چاہتے ہیں۔۔یہ لوگ اس قابل ہیں تو نہیں کہ ان کی خدمت کی جائے لیکن بھئی ہمیں
تو یہی کرنا ہے۔ ہمیں لوگوں سے کیا لینا دینا۔ آپ کو اللہ کی خوشنودی چاہئے تو مخلوق
کی خدمت کرنا ہی ہوگی۔
ٹیکسی میں سامان
رکھ رہے تھے کہ حضور مراقبہ ہال سے باہر آگئے۔ تپاک سے رخصت کرتے ہوئے مرید کو گلے
لگایا اور کہا۔ آپ اتنی دور سے تشریف لائے۔ آپ کا شکریہ
مرید نے عرض
کی حضور شکریہ تو آپ کاکہ آپ نے ہمیں مدعو کیا۔ اپنی صحبت سے نوازا اور قربت سے سر
فراز کیا۔
فرمایا۔ آپ
سب کے آنے سے مجھے خوشی ہوئی۔ ایک بندہ آکر مجھے ملا تو اُسے بھی خوشی ہوئی اور مجھے
بھی۔ اس طرح جب مجھے ہزار لوگ ملے تو مجھے اتنی خوشی ملی جو ایک ہزار افراد کی خوشیوں
کے برابر تھی۔
پھر خدا حافظ
کہہ کر انہیں رخصت کیا اور جب تک ٹیکسی روانہ نہیں ہوئی وہیں کھڑے رہے۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔