Topics

قانون: دنیا بندے کے پیچھے پیچھےآنے کی پابند ہے

وہ اُن کے پاس رُکے اور کہا۔ انسان ایک قانون کے تحت دنیا سے بندھا ہوا ہے۔ جب انسان دنیا کی طرف رخ کرتا ہے تو دنیا آگے ہی آگے کھسکتی ہے۔ پھر اپنی بات کی وضاحت کو پیروں کے بل نیچے بیٹھتے ہوئے، زمین سے دو پتھروں کو اُٹھا کر آپس میں جوڑ کر دکھاتے ہوئے فرمایا۔ یہ دنیا اور بندے کی مثال ہیں۔یہ دونوں ایک دوسرے سے چپکے ہوئے ہیں۔ اب یہ ایک دوسرے میں گھس تو نہیں سکتے۔ جب بندہ دنیا کی طرف رجوع کرتا ہے اور اُسی کی طرف زور کرتا ہے تو یہ دنیا یوں آگے ہی آگے ہٹتی رہتی ہے۔ لیکن جب بندہ اپنا رخ دنیا کی طرف سے پھیر کر چلتا ہے تو یہ دونوں آپس میں جڑے ہونے کے سبب الگ تو ہو نہیں سکتے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ دنیا بندے کے پیچھے پیچھے آتی ہے۔

          وہ تینوں اُن کے گرد کھڑے۔۔۔ انہیں زمین پہ پنجوں کے بل بیٹھے۔۔۔اپنی بات کی وضاحت کرتے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی بات مکمل کی اور گردن اوپر کر کے اُن کی طرف دیکھا۔ بھئی دنیا بندے کے پیچھے پیچھےآنے کی پابند ہے۔۔۔ کہتے ہوئے۔۔۔ دونوں پتھر ہاتھ میں لئے۔۔۔ اُٹھ کھڑے ہوئے اور باتھ روم کے قریب جا کر اُن پتھروں ۔۔۔ بندے اور دنیا دونوں کو ۔۔۔ دیوار سے باہر اچھال کر ۔۔۔ ٹھکانے لگا کر۔۔۔ ہاتھ جھاڑے اور باتھ روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئے۔

          وہ وہیں کھڑے بتائی گئی بات کو سمجھنے اور اُس کو اپنے ذہن میں اتارنے کی تگ و دو کرتے رہے۔ وہ دنیا سے ہٹنے کو فنا ہونے کے مترادف مانتا تھا۔ تبھی تو دنیا سے خود ہٹ جانے اور دنیا سے رخ ہٹانے کا فرق اُس پہ واضح نہ تھا۔ انہوں نے اُس کی


  توجہ اس کے سامنے کی غلطی پر مبذول کرا دی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا سے ہٹنے کے بعد جب بندے کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ سوچوں کے ان بنتے بگڑتے دائروں کو کھڑا دیکھتا رہا۔

          نہا کر نکلے، تولیہ کاندھے پہ لٹکائے اُن کے قریب سے گزرتے ہوئے دوبارہ رُک گئے اور فرمایا۔ اسلام میں ہر موقع کے لئے دُعا ہے، کھانے سے پہلے، کھانے کے بعد، پانی پینے سے پہلے، پانی پینے کے بعد ، مسجد میں داخل ہونے ، مسجد سے نکلتے وقت، بیت الخلا میں داخل ہوتے وقت، بیت الخلا سے باہر آتے وقت کی دُعا۔۔ اور تو اور میاں بیوی کے مابین بھی دعائیں ہیں۔۔ تینوں نے اثبات میں سر ہلایا تو معصومیت سے پوچھا۔۔ کیوں جی۔۔ اُس وقت بھلا کوئی دُعا یاد آتی ہے؟ بیگم کفیل اپنی مسکراہٹ چھپانے کو دو قدم ہٹ کر وہاں لگے پھول دیکھنے لگیں۔۔۔ وہ دونوں ہننے لگے۔۔۔ اور وہ مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔



 


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔