Topics
نام: جو ماں باپ نے رکھا: شمس
الدین انصاری
اپنے مرشد کی نسبت سے جو نام تجویز کیا: عظیمی
جس نام سے عوام و خواص پکارتے ہیں: الشیخ عظیمی صاحب
عظیمی
صاحب
جس نام سے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ؓ نے پکارا: خواجہ صاحب
جس نام سے دربارِ رسالت میں پکارا جاتا ہے: احمد
سلسلے کے دوست انہیں پکارتے اور مخاطب ہوتے ہیں: حضور ابا جی
حضور
بابا جی
والدہ محترمہ کا نام: اُمتِ
الرحمان رحمتہ اللہ علیہ
والد محترم کا نام: حاجی
انیس احمد انصاری رحمتہ اللہ علیہ
دادا کا نام: حافظ
نہال احمد انصاری ولد حاجی نظام الدین انصاری
نوٹ: حضرت رشید احمد گنگوہی ؒکے خلیفہ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ نے آپ کے والد جناب انیس احمد انصاری کے بچپن میں یتیم...
ہو جانے کے بعد اُن کی پرورش فرمائی۔ آپ اُن کے پھوپھا تھے۔آپ
مہاجر مکی و مدنی کہلاتے تھے۔ آپ نے سنن ابی داؤد کی بے مثال شرح بعنوان'بذل المجہودفی
حل سُنن ابی داؤد ' عربی زبان میں تحریر فرمائی۔ آپ صاحب کرامت بزرگ تھے۔ حضرت مولانا
محمد زکریا آپ کے خلیفہ تھے۔ آپ کی تحریر کردہ کتب جامعہ الا زہر کے نصاب میں
شامل رہی ہیں۔ آپ نے اپنا روحانی ورثہ اپنے پوتے احمد شمس الدین انصاری کو منتقل کرنے
کی اجازت دربارِ رسالت سے خصوصی طور پر حاصل کی۔ جناب حاجی انیس احمد انصاری حضرت مولانا
خلیل احمد سہارنپوری سے بیعت بھی تھے۔ اس حوالے سے بھی آپ جناب الشیخ عظیمی صاحب کے
دادا ہیں۔
پیدائش: قصبہ
انبیٹھہ پیر زادگان۔ضلع سہانپور۔ یوپی
تاریخِ پیدائش: ۱۷
۔ اکتوبر ۱۹۲۷ ء بروز پیر وقت سحر
سلسلہ نسب میزبانِ رسول حضرت خالد ابو ایوب انصاری رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ ان کے اجداد میں سے ایک صاحب جناب حضرت خواجہ مبارک انصاری
جو صوبہ ہرات، افغانستان کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ عبداللہ انصاری (پیر ہرات) کی اولاد میں سے تھے۔۔۔ ہجرت کر کے حضرت
بو علی شاہ قلندرؒ کی زیارت کو اپنے بیٹوں کے ہمراہ پانی پت تشریف لائے۔ اُن کے دونوں
صاحبزادگان کو حضرت بو علی شاہ قلندر ؒ نے اپنے پاس رکھ لیا۔ مرشد کریم انہی صاحبزادگان
کی اولاد میں سے ہیں۔
بچپن سہانپور میں گزرا۔ ۱۲ سال کی عمر میں قرآن حفظ فرمایا۔ جوانی میں دہلی میں حکیم امتیاز الدین سے حکمت و طبابت سیکھی تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۷ ء میں پاکستان تشریف لائے اور والدین کے ساتھ صادق آباد میں رہائش اختیار کی۔ وہاں سے کراچی منتقل ہو گئے۔
آپ کے چھوٹے بھائی جناب اکبر احمد انصاری صاحب امریکہ میں قیام
پذیر ہیں۔بڑے بھائی مولانا ادریس احمد انصاری صاحب دیو بند کے ممتاز علماء میں سے ہیں۔
مولانا محمد الیاس انصاری نے کئی کتب تحریر فرمائی ہیں۔ کئی مدارس و مساجد تعمیر کروائی
ہیں۔
آپ کُل چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ مولانا محمد ادریس انصاری
، مولانا محمد الیاس انصاری، احمد شمس الدین انصاری ، محمد اکبر انصاری اور محترمہ
آمنہ جبکہ ایک بہن خورشید ہ صغر سنی میں ہی انتقال کر گئی تھیں۔ آپ سب بھائی حافظِ
قرآن ہیں۔
زوجہ کا نام : محترمہ
سیدہ راشدہ عفت
صاحبزادگان: ڈاکٹر وقار
یوسف ، فرخ اعظم، حکیم سلام عارف، حکیم نور عجم اور حکیم شاہ عالم۔
صاحبزادیاں : محترمہ
کنول گلنار بیگم سہیل احمد، محترمہ ناصرہ عدنان بیگم فاروق احمد عثمانی، محترمہ ہما
فاران بیگم شہزاد
بٹ
اور محترمہ نداء افروز (حنا الماس) بیگم طاہر جلیل۔
جن اصحاب و بزرگان سے براہ راست فیض ملا: حضرت حسن اُخریٰ سید
محمد عظیم برخیا المعروف بہ حضور بابا اولیا ؒ ،قطب ارشاد حضرت ابو الفیض قلندر علی
سہروردی ؒ، حضرت حافظ فخر الدینؒ خلیفہ حضرت مولانا خلیل احمد سہانپوری ؒ اور حضرت
چوہدری اقبال سہروردیؒ ۔
حضرت امام موسیٰ رضا کاظم ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ، حضرت
ابوالحسن علی ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی
اجمیری ، حضرت بابا فرید گنج شکر ، حضرت شاہ عبدالطیف امام بری ، حضرت لعل شہباز
قلندر ، حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی ، حضرت بو علی شاہ قلندر ، حضرت شاہ دولہ دریائی
، حضرت بہاؤالدین زکریا سہروردی ، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت مولانا
خلیل احمد سہانپوری اور حضرت مولانا الیاس بانی تبلیغی جماعت و خلیفہ حضرت مولانا
خلیل احمد سہانپوری ۔
آپ خانوادہ سلسلہ عظیمیہ ہیں اور حضور قلندر
بابا اولیا ء ؒ کے بعد آپ ہی سربراہ سلسلہ عظیمیہ ہیں۔ آپ نے سلسلہ عظیمیہ کو علمی
اور سماجی حیثیت سے اتنا مستحکم فرما دیا ہے کہ آئندہ برسوں تک اس سلسلے کو علمی سطح
پر پذیرائی ملتی رہے گی۔ ان شاء اللہ۔
آپ کی تصانیف : ۳۴ کتب اور ۴۶ پمفلٹس
نوٹ: آپ
کی تین کتب کے انگریزی تراجم برطانیہ کی سالفورڈ یونیورسٹی بر منگھم کے Department of Rehabilitation میں
گریجویشن اور ماسٹر ڈگری کے نصاب میں شامل ہیں۔ کتاب احسان و تصوف بہاؤالدین زکریا
یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے ماسٹر ڈگری کے نصاب میں شامل ہے۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: جناب ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کا تصنیف کردہ
مکالمہ ” سلسلہ عظیمیہ اور اُس کی علمی اور سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ' جس پہ انہیں
کراچی یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا ہے۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔