کائنات گروہی نظام ہے جس میں فردنوع کا اور نوع
فرد کا تعارف ہے۔ گروہی نظام کی اکائی خاندان
ہے۔ خاندان ایسا گروہ ہے جو طبقات پر قائم ہے۔ کبوتر، چیونٹی، ہاتھی، پہاڑ، پانی وغیرہ مختلف نوعیں ہیں لیکن
ان میں اوصاف وہی ہیں جو آدمی میں
ہیں۔ لاشمار مخلوقات
اجتماعی نظام کے تحت ایک دوسرے کی
پہچان ہیں۔
محترم قارئین! اوپر
لکھی ہوئی چار سطروں پرتفکر سے کائنات
کی عظیم درعظیم بیلٹ پر تقریباً 11ہزار انواع کا ادراک ہوتا ہے ۔ سب کا قیام حواس پر ہے۔ حواس میں قانونی اعتبار
سے ایک دوسرے کے ساتھ ربط، ایک دوسرے کا تعارف،
ایک دوسرے کے اندر کشش و
گریز، غیب و شہود، اشتہا انتہا ، طعام و قیام یعنی موت و حیات مشترک ہیں۔
مساوات : خالق ِ کائنات نے تخلیقات کا ارادہ فرمایاتو کائنات مظاہرہ
بن گئی۔
ہر لفظ معنی و مفہوم کا ذخیرہ ہے۔ ذخیرے کے بنیادی
پہلو پر تفکر کیا جائے تو ہرتخلیق ، تخلیق درتخلیقات کا مخزن اورتعین ہے۔ تعین کے لئے مساوات کو راہ نما بنا کرسمجھیں تو نقشے
کا ادراک ہوتا ہے۔بتائیے، ان لکیروں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کومختلف سمتوں میں ترتیب دینے
سے کیا نقشہ بنتا ہے؟ یہ کائنات کی تخلیق اور تخلیط* کا فارمولا ہے۔
قارئین خواتین وحضرات ! دماغ ایک ہے لیکن دو حصوں
پرمشتمل ہے۔ دماغ کی اندرونی ساخت کو دیکھتے ہیں توبھیجے میں مستقل خلیات کے کئی
کھرب خانے ۔۔۔۔۔ہیں۔ ہر خانہ دوسرے خانے سے مربوط اورریکارڈ ہے۔ راز کوسمجھنے کے
لئے حافظے کو الٹ پلٹ کرکے مشق کیجئے اور بتائیےکہ مذکورہ لکیروں کی ترکیب کس نقشے
کو ظاہر کرتی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات میںگروہی نظام کی وجہ سے
کوئی شے کسی ایک کے لئے مخصوص نہیں — ایک نظر آنے والا
فردبھی تخلیقات کی اکائی ہے۔
پھول پتوّں سے سورج کی شعاعیں اور پھلوں سے چاند کی کرنیں الگ کردی جائیں تو پھول کھلیںِ گے اور نہ پھل ظاہر ہوں گے۔ اسی طرح
کاغذ میں سے لکڑی کے عناصر، لکڑی میں سے پانی اور پانی میں سے تیل نکال دیا
جائے تو زمین پرحرارت کے ذرائع معطل ہونے سے نباتات، جمادات، حیوانات، حشرات،
دھات، معدنیات، جنات اور آدمی ناپید
ہوجائیں گے۔ یہ گروہی نظام کی
تعریف ہے۔
*تخلیط ( آمیزش ۔ خلط ملط کرنا)
*افراد(تخلیقات) |
۱۔ فرد کاغذ، پتےّ ، دیوار، کینوس پر یا غاروں کے اندر مصوری کرے، وہ مصور ہے۔
۲۔ ایک شخص غزل کہتا ہے، دوسرا نظم پڑھتا ہے،
تیسرا قطعات میں مہارت رکھتا ہے اور کوئی
رباعیات کی صنف کو بام ِ عروج پر لے جاتا ہے۔سب کو شاعر کہا جاتا ہے۔
۳۔ موسیقی میں سات سرُوں
سے ناقابلِ شمار راگ بنے ہیں۔ سرُوں
کو مہارت سے نبھانے والے بے شمار ہیں ۔ اگر دوسو زبانیں رائج ہیں تو دو
سو زبانوں میں شاعر موجود ہیں۔
۴۔ ہمارے پاس تقریباً دس
ہزار سال کی تاریخ ہے جس میں دو ہزار سال کے بعد قبل مسیح شروع ہوجاتا ہے جیسے دو
سو قبل مسیح ، پانچ سو قبل مسیح۔ قبل مسیح کا استعمال اس لئے کرتے
ہیں کہ ہمارے پاس دو ہزار سال سے زیادہ تاریخ کا
ریکارڈ نہیں ہے لیکن جب ہم تاریخ کے ادوار پر غور کرتے ہیں تو ہر زمانے میں
تاریخ لکھنے والے موجود رہے ہیں۔
۵۔تکنیکی علوم کے
ماہر جن کو دستکارکہہ سکتے ہیں،
زمین پر زندگی کے آغاز سے ہیں۔ موجودہ دَور کی طرح آگ کی دریافت، پتھراور دھات کے
زمانے میں بھی دستکاری تھی۔
۶۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس
صرف مغرب اور یورپ میں ہے لیکن درست یہ ہے
کہ سائنس دنیا کے ہر خطے میں ہے اور ہر
زمانے میں تسلسل کے ساتھ موجود ہے۔ سائنس دان چھوٹے ہوتے ہیں اور بڑے بھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کچھ
سائنس دان ریسرچ کی شروعات کرتے ہیں اور کچھ ریسرچ کو پروان چڑھاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں ان کو حکیم کہا جاتا تھا، موجودہ زمانے میں سائنس دان کہتے
ہیں کہ حکمت جاننے کے لئے ان کا ذہن تفکر
سے مرکب ہے۔
———————————————————-
قانون : زمین
پر تمام علوم اور علوم کی موجودگی گروہی
نظام ہے۔
کوئی شے ایک
یا محدود نہیں۔ جتنے فنون ِلطیفہ اور فنون ِ مختلفہ ہیں، ان کا تعلق شعور سے
ہے لیکن ان کو پوری طرح شعوری نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ علم چاہے موچی، بڑھئی، درزی، معمار ،
کسان، شاعر، انجینئر یا مشین بنانے والے
کا ہو، شعور پر وارد ہوتا ہے۔جب تک شعور
پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑے اورشعور کی اسکرین پر کوئی تصویر نشر نہ
ہو، شعور بیکار اور کوتاہ عقل ہے ۔ شعور
لاشعوری اطلاعات کو قبول کرکے نشر کرتا ہے۔ یہ جتنا طاقتور اور زیادہ
فریکوئنسی رکھتا ہے، اُسی مناسبت سے لاشعوری کیفیات ذہن میں پرنٹ ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرعلم ایک
کارواں ہے جو کسی ایک کے لئے مخصوص نہیں۔ ایک کارواں
انبیاء کرام علیہم السلاماور خاتم النبیین
حضرت محمدؐ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ کا ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ اولیاء
اللہ دل کی آنکھ سے دیکھتے ہیں، ماورائی
دنیا میں ان کا سفر ہوتا ہے، شعور سے بلند لاشعوری دنیا پرتفکر کرتے
ہیں اور لاشعور کی اطلاعات
کوسمجھتے ہیں۔ جب کیفیات
وارد ہوتی ہیں تو انہیں علم ہوتا
ہے کہ شعور جو کچھ بولتا اورسمجھتا
ہے، وہ
ذاتی صلاحیت نہیں بلکہ لاشعور کا ریکارڈہے۔ لاشعور اور شعور مثبت اور منفی
لہروں کا اجتماع ہیں۔ اللہ کے دوست اللہ
کی ہستی کو مقدم رکھ کر نظام ِ کائنات
میں تفکر کرکے حکمت ِ کائنات کامشاہدہ
کرتے ہیں، جتنا اللہ چاہے۔
موجودہ سائنسی ترقی میں شعور اور لا شعور کا
سمجھنا آسان بن گیا ہے۔ ریڈیو
کی مثال ہے کہ یہ مختلف شارٹ ویوز اور میڈیم ویوز کے
ذریعے بولتا ہے۔ ریڈیو کا بولنا اور سامعین کا سننااس وقت ممکن ہے جب
لاسلکی نظام سے آوازیں اس میں ذخیرہ ہوں اور ان کا مظاہرہ ہو ورنہ ریڈیو کی حیثیت
خالی ڈبےّ کی ہے۔ تحریر، تقریر اور تصویر آواز کی مختلف صورتیں ہیں — ابلاغِ عامہ کے قدیم و جدید ذرائع
آواز کے تابع ہیں۔مخلوق کے شعور کی حیثیت
ریڈیو، ٹی وی، اسمارٹ فون یا کمپیوٹر کی ہے۔ نشر ہونے والی آوازیں اور
تصویریں سیٹلائٹ یاموبائل ٹاور کی مرہون
منت ہیں یعنی آدمی کا شعور ریڈیو، ٹی وی
اور کمپیوٹر کی طرح تاروں سے بھرا ڈبہّ ہے جس کا سورس آف انفارمیشن لاشعور ہے۔
لاشعور سے اطلاع کا نزول
ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ اطلاع کہیں شاعری ، کہیں سائنسی دریافت اور کہیں
دریافت کی لہروں سے واقف تحقیقی ،
مشاہداتی اور ماورائی ذہن بن جاتی ہے۔
’’آج کی بات‘‘پڑھ کر آپ کیا سمجھے— ؟ قرطاسِ ابیض پر سیاہ رنگ سے بنے ہوئے الفاظ کے نقوش کا
مظاہرہ ہوا اور آپ نے یکسو ذہن سے مطالعہ کیا۔
اگر خلاصہ دماغ کے خالی خانوں میں
روشن ہونے والے نکات کے مطابق ہے تو بات
آپ کی سمجھ میں آگئی ہے۔
اب ’’آج کی بات‘‘
کا خلاصہ پڑھئے۔
لاشعور سے اطلاع آتی ہے اور کائنات میں پھیلتی ہے۔
اطلاع میں تخلیق اور تخلیط سے متعلق
انکشافات ہوتے ہیں — یہ انکشافات سب
کے لئے ہیں۔عرض یہ ہے کہ آدمی فطری طور پر
ڈاکٹر، انجینئر،معلمّ، کاتب، درزی، لوہار،
سائنس دان ، روحانی انسان بشمول
کائنات سب کچھ ہے کیوں کہ لاشعور سے آنے
والی اطلاعات اس کے شعور میں ریکارڈ ہیں۔
آدمی پر منحصر ہے کہ وہ شعور کو
کتنا بیدار کرتا ہے اور اندر موجود
ریسرچ کی صلاحیت (لاشعور) کو
کس طرح
استعمال کرتا ہے۔
ہر آدمی اندر میں روحانی انسان ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ دیکھنے
کی صلاحیت ہے۔ زمین پر آدمی ڈیڑھ سو فٹ سے زیادہ نہیں دیکھتا اور آسمان کی طرف
نگاہ کرتا ہے تو اپنے قیاس کے مطابق نوکروڑ
30لاکھ
میل دور سورج اور ڈھائی لاکھ میل کے فاصلے پر چاند کو دیکھ لیتا ہے۔ آدمی کے اندر دیکھنے کی کم سے کم صلاحیت
ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی۔ جب آدمی
ذہن کو زمین کی کشش سے عارضی طور
پرآزاد کرتا ہے تو نگاہ لمحے میں نوکروڑ30 لاکھ
میل دور دیکھتی ہے اور جب خود کو پابند ِ
زمین سمجھ لیتا ہے تو چند فٹ بعد نگاہ پردے میں چھپ جاتی ہے۔آدمی لاکھوں کروڑوں
میل دور دیکھنے والی آنکھیں بند کرکے ذہن کو یکسو کرلے تو
اندر میں مخفی راز کھل سکتا ہے اور کائنات کے رموز اندر کی آنکھ کے لئے
مظاہرہ بن جاتے ہیں۔
دعاگو ،
اللہ حافظ