زمین ٹھہری ہوئی نظر آتی ہے لیکن لٹوّ کی طرح
ترچھے زاویے پرمخصوص رفتار سے محوری اور
طولانی گردش میں چل رہی ہے۔ یہ اپنے مدار میں رہتی ہے کہ یہی مدار اس کا دائرہ ہے۔ دائرہ قدرت کی جانب سے حصار ہے جس نے زمین کو قائم رکھا ہے۔
’’سن
رکھو، بے شک
اللہ ہر شے پر محیط ہے۔ ‘‘
(حٰم ٓ السجدّۃ : ۵۴)
زمین کا سفرمحوری ہے لیکن یہ
اسپائرل کی طرح آگے بڑھتی ہے اور طولانی
حرکت کو قائم رکھتے ہوئے اپنے محور کے گرد گھومتی ہے۔ اس مظہرکونظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ محوری حرکت کا تعلق
کائنات کے لامحدود نظام سے ہے جب کہ طولانی حرکت محدود نظام کو ظاہر
کرتی ہے۔ لامحدود نظام کی خصوصیت ہے کہ رفتار
ہزاروں گنا تیز ہونے سے اسپیس حذف نظر آتی ہے اور فاصلہ (اسپیس)محسوس نہیں ہوتا جب کہ محدود نظام میں فاصلہ
شے کی انفرادیت کو برقرار رکھتا ہے۔ عرض
یہ ہے کہ دائروی حرکت میں رفتار اتنی تیز
ہوتی ہے کہ شے کی اسپیس مغلوب ہوجاتی ہے۔اس کے برخلاف طولانی حرکت
دائرے میں رہتے ہوئے شے کی ہیئت کو
قائم رکھتی ہے جب کہ ہر دائرہ دوسرے دائرے
سے ملا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
زمین ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ہوتی
ہے تو درمیان میں اسپیس ہے۔ اسپیس زمین کے قیام کی ضامن ہے۔ یہ ختم ہوجائے تو زمین
نظرنہیں آئے گی۔ دائروں کے درمیان اسپیس
انفرادیت کو اور
دائرہ اس پورے نظام کو قائم رکھتا
ہے۔
زمین قرار ِ مکین* ہے —یہ بساط ہے جس پر عمارت اِستادہ* ہے۔ اس اعتبار سے ہر شے
کی حیثیت زمین کی ہے اور اس پر وہی قانون نافذ ہوتا ہے جس کی تفصیل آپ نے پڑھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محوری و طولانی حرکت
مثالوں سے سمجھئے اور مزید مثالیں تلاش کیجئے۔
۱۔ زندگی کی مرکزیت غیب ہے۔ یہ غیب سے
آتی ہے، مسلسل غیب ظاہر ہوتی ہے اور
غیب میں لوٹ جاتی ہے۔ زندگی
کا ظاہر ہونا طولانی حرکت ہے جب کہ غیب میں آنا جانامحوری حرکت ہے۔ طولانی حرکت ظاہر نہ ہو توتخلیق کا مظاہرہ نہیں
ہوتا۔
۲۔لٹوّ کی شکل تکونی ہے۔ اس کے چوُڑی
نما*
حصے پر ڈوری لپیٹی جاتی ہے تو ٹرائی اینگل سے آزاد ہوکر دائرہ بنتا
ہے۔چوُڑی دراصل منسلک دائروں کی تکرار
یعنی اسپائرل ہے۔ ہاتھ کو محوری انداز
میں گھماکر ترچھے زاویے سے جھٹکا دیتے ہوئے لٹوّ پھینکا جاتا ہے تو یہ
ڈوری سے آزاد ہوکر زمین پر گھومتا ہے — گھومتے ہوئے ایک مرکز پرنہیں
رہتا نہ سیدھ میں ہوتا ہے بلکہ
جھکاؤ اختیار کرکے دائرہ در
دائرہ آگے بڑھتا ہے۔آگے بڑھنے کی وجہ ترچھاپن
ہے جس سے طولانی حرکت ظاہر ہوتی ہے۔ لٹوّ آگے نہ بڑھے اور جس جگہ گرا ہے،
اسی مرکز پر گھومتا رہے تو اس عمل سے پیدا
ہونے والی قوت سے زمین میں سوراخ ہوگا اور
لٹوّ کسی
اور زون میں داخل ہوجائے گا۔ قارئین، تجربہ کیجئے۔
۳۔ لٹوّ کے برعکس
پنکھا ایک ہی مرکز پر گھومتا ہے — غائب نہیں ہوتا۔ اس کے پروں * کے درمیانمعینّ فاصلہ (اسپیس) ہےجوپروں کے
محوری سفر کے باوجود برقرار ہے۔ پروں
کے مابین خلا سے
ہوا کٹتی ہے اور دائرے میں پنکھے کا طولانی نظام قائم رہتاہے۔
۴۔ پہاڑ
ساکن اور جمے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن قرآن کریم کے مطابق یہ بادلوں کی
طرح اڑ رہے ہیں۔اڑنا ، چلنا یا تیرنا محوری اور طولانی گردش کے تحت ہے۔ بادل فضا میں معلقّ گیسوں اور بخارات کا
مجموعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو بادلوں سے تشبیہہ دی ہے۔ بادلوں کے آئینے
میں پہاڑوں کو دیکھنے سے علم ہوتا ہے کہ پہاڑ بھی پیدا ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں
اور عمر گزار کر انتقال کرتے ہیں۔ مرشد کریم ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیاؒ کا
ارشاد ہے کہ ’’پہاڑ بھی سانس لیتے ہیں
لیکن ایک سانس 15منٹ کا ہوتا ہے‘‘۔ میڈیکل سائنس کے مطابق
آدمی ایک منٹ میں 12سے 20 مرتبہ سانس لیتا ہے۔
پہاڑوں کو جامد دیکھنے کی وجہ نگاہ کا دو طرزوں میں کام کرنا ہے۔
* ایک طرز میں شے کو اسپیس میں بند ہو کر دیکھتی ہے۔
* دوسری طرز میں بند اسپیس سے آزاد ہوتی ہے۔
ہم گمان کرتے ہیں کہ پہاڑ جمے ہوئے ہیں اس
لئے پہاڑ ہمیں جمے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
* قرار ِ مکین
(کسی بساط پر قائم ہونا) *استادہ (کھڑا، ٹھہرا ہوا
) * چوُڑی نما (بل دار)
*پروں (blades) |
قانون :
ذہن زمین کی محوری گردش( لاشعور)
کے تابع ہو تو اسپیس سمٹ جاتی ہے۔
توجیہہ : زندگی دو رخ
پر قائم ہے۔ ایک سونا اور دوسرا جاگنا۔ بیداری میں زندگی مادی وجود کے
تابع اور خواب میں مادی وجود سے آزاد ہے۔ آزاد زندگی میں ہر وہ کام ہوتا ہے جو
محدود زندگی میں سرزد ہوتا ہے، انتہا یہ ہے کہ غسل واجب ہوجاتا ہے۔ خواب میں ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں، جاگنے پر انگلیوں سے
پلاؤ کی خوش بو آتی ہے۔ خواب میں ہر وہ کام ہوتا ہے جو بیداری میں ہے
پھردونوں میں کیا فرق ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محوری و طولانی نظام کے بغیر کوئی حرکت، احساس اورعمل
نہیں بنتا۔
خالق
ِ کائنات اللہ کا ارشاد ہے،
’’سن
رکھو، بے شک اللہ
ہر
شے پر محیط ہے۔ ‘‘
(حٰم ٓ السجدّۃ : ۵۴)
تمام اشیا محوری حرکت کے حصار میں ظاہر اور
غائب ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ محیط نے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ محیط ہونےکا عمل محوری
نظام کوتخلیق کرتا ہے جب کہ
شے کی ظاہری شکل طولانی نظام کے تحت بنتی ہے۔جب طولانی حرکت پرمحوری نظام
غالب آتا ہے،ظاہری خدوخال اوجھل ہوجاتے
ہیں۔واضح رہے کہ باطنی علوم میں طولانی نظام کو شے یا triangle کہا
جاتا ہے۔
محوری نظام کیا ہے —؟ خالق ِ کائنات
اللہ ہمہ وقت تخلیق سے ربط میں ہے۔تخلیق
اپنے وجود کے لئے خالق کی محتاج ہے۔
وہ غیب سے توانائی لے کر آتی ہے، توانائی کا مظاہرہ کرتی ہے اورمزید
توانائی کے حصول کے لئے غیب میں لوٹ جاتی
ہے۔ جب تک زندگی کی مقداریں باقی ہیں، اس عمل کا
اعادہ ہے یہاں تک کہ شے غیب
ہوجاتی ہے۔
اللہ حافظ
ماہنامہ قلندر شعور (مئی ۲۰۲۴ء)
آج کی بات
(ماہرین ِ امراض ِ چشم سے التماس ہے کہ
بتائیے ، اندر باہر دیکھنے کا میکانزم کیا
ہے ؟ )
کائنات کو دیکھنے کے
لاشمار زاویے ہیں۔ ہر زاویہ ایک نظام ہے۔
نظام میں وسعت ہے کہ جس زاویے کو اختیارکیا جاتا ہے— کائنات اس کا بہروپ بن جاتی ہے۔ زاویوں کی درجہ بندی کی جائے تو
بنیادی طور پر دیکھنے کی دو پرتیں ہیں۔ ایک پرت وہ ہے جس پر کائنات تخلیق کی گئی
ہے اور دوسری پرت شاخ در شاخ درخت کی مانند ہے جو پہلی پرت سے لاعلمی کی
بنا پر مظہر بنتی ہے۔ لاعلمی کے خلا نے رنگ و نور سے معمور کائنات کو
نگاہوں سے اوجھل کردیا ہے۔ ایسے میں جونظر آتا ہے، اس کا
دیکھنا — اصل کو
نہ دیکھنا ہے۔
فردسمجھتا ہے کہ وہ باہر دیکھتا ہے۔ یہ سمجھ بوجھ زمین و آسمان، چاند، سورج ، ستاروں، زندگی سے
آباد خلا،قریب دور مقامات اور تمام تخلیقات کو باہر دکھانے کا زاویہ بناتی ہے۔ خیال نہیں جاتا کہ باہرنظرآنے
والی شے کو وہ کہاں دیکھ رہا ہے۔ پردہ
آجاتا ہے جو دیکھنے کے حقیقی رخ سے توجہ ہٹا کرتصویر کا وہ
رخ دکھاتا ہے جس کو illusionکہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابلِ قدر دوستو! آنکھ باہرنہیں دیکھ رہی، اندر میں دیکھنے*
کو دیکھ رہی ہے — دیکھنے کے میکانزم کوسمجھنے کے لئے
کیمرا راہ نمائی کرتا ہے۔ شے کا عکس پہلے
کیمرے کے لینس پر نمودار ہوتا ہے پھر
شٹر کا بٹن دبتے ہی اسکرین
پر نقش بنتا ہے۔ باہر دیکھنے کا
زاویہ غالب ہونے کی وجہ سے ہم
کیمرے کی اسکرین کو آنکھ سمجھتے ہیں جب کہ آنکھ
اندر میں لینس ہے جس نے عکس کو جذب
کرکے کیمرے کی اسکرین پر منعکس کیاہے۔
بصارت کے نظام میں شٹرکے کھل بند ہونے کا
اہم کردار ہے۔اگر شٹر نہ کھلے تو مناظر
کا عکس لینس پر ظاہر نہیں ہوتا اور کھلنے کے بعد شٹر بند نہ ہو تو لینس عکس کومحفوظ نہیں کرتا یعنی لینس نے جو دیکھا، اس کا مظاہرہ
کیمرے کی اسکرین پرنہیں ہوتا۔آدمی نے آنکھ
کے نظام کی مثل پر کیمرا بنایا ہے اور یہی زمین کی اسکرین پر
نظر آنے والے مناظر کا نظام ہے۔
*اندر میں دیکھنا (عکس) |
بہت ذہین،
فہیم اور دانا بینا خواتین و حضرات! مشق کیجئے۔
۱۔ پیاس لگی تاکہ
خشکی کی جگہ سیرابی کا ظہور ہو ۔
یکسو ہوکر دماغ کے اندر میں دیکھئے۔ سیرابی کی ضرورت کا ادراک
گہرا ہوتا ہے تو دماغ
کے اندر اسکرین پر پانی کے نقوش ابھرتے ہیں —نقوش اتنے
نمایاں ہوجاتے ہیں کہ زمین کے پردے میں
چھپے ہوئے چشمے سیرابی کے لئے اپنے ہونے کی خبر دیتے ہیں۔ دماغ کے لاشمار تصویر خانوں میں ایک خانہ کھلتا
ہے جس میں آپ کو، مجھے ، آسمان کو ، زمین
کو ، درختوں کو، پرندوں کو، حشرات
الارض، ہر شے کو پانی کی تصویرنظرآتی ہے۔ اگر دماغ کی اسکرین پرتصویر کا مظاہرہ نہ
ہوتو فرد پانی نہیں پئے گا۔ عرض یہ ہے کہ جب تک پیاس کا تقاضا
نہیں ابھرتا اورتسکین کے لئے پانی کی تصویر نہیں بنتی، پانی کی طرف ذہن نہیں
جاتا۔ پہلے پیاس کا خیال آتا ہے پھر سیرابی کے لئے اندرمیں پانی پینے کی تصویر
بنتی ہے۔
۲۔ تین منٹ کے لئے پلکوں کو یک جان* کیجئے۔ پلکوں میں حرکت نہ ہونے کی وجہ
سے بظاہر کچھ نظرنہیں آتا ہے لیکن آنکھ کے
پیچھے گہرائی میں دماغ کے ایک یونٹ پرعکس
نمودار ہوتا ہے۔ پانی کی مثال پرغور کیجئے — زید کو
پیاس لگی۔ پیاس کے نقوش نہ
بنیں توتشنگی دور نہیں ہوتی۔آنکھ میں تل پرعکس
نمودار ہوتا ہے ۔ نہ صرف نمودار ہوتا ہے،
اس میں آئینے کی طرح ہر
شے کی تصویر نظر آتی ہے۔ پلک جھپک جائے
تو اندر میں بنی ہوئی تصویر
دھندلی ہوجاتی ہے اور اس کو ہم
نہ دیکھنے کا عمل سمجھتے ہیں
جب کہ ایسا نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کی خوب صورتی میں اہم جز اوپر
نیچے کناروں پر پلکیں ہیں ۔کیا آنکھ پر پڑنے والاعکس پلکوں کا ردِّعمل نہیں
— ؟ پلکوں
کا کھلنا
اور بند ہونا اسپیس کی تقسیم ہے۔آدمی اسپیس کوتقسیم کرکے دیکھتا ہے۔ پلکوں
کا ایک مرتبہ جھپکنا کسی منظر کے ایک لمحے
کومحفوظ کرنا ہے ۔ یہ لمحہ وقت کا ہزارواں حصہ
ہوسکتا ہے۔
* یک جان (آنکھیں بند کرلیجئے۔ اتنی
زور سے نہیں کہ پپوٹوں پر وزن پڑے۔ ) |
ہم
اندر میں دیکھتے ہیں لیکن الوژن طرزفکر قبول کرنے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ باہر دیکھ رہے ہیں ۔ جو
دیکھتے ہیں، اس کا نقش دماغ کی
اسکرین پر منتقل ہوتا ہے۔ ہم دماغ کی اسکرین پر دیکھتے ہیں مگر لاعلمی کی
بنا پر اسے آنکھوں سے دیکھنا گمان کرتے ہیں۔
اسکرین پرتصویر نمایاں نہ ہو تو
نہیں دیکھتے۔سمجھنا یہ ہے کہ اگر بند
آنکھوں سے دیکھنے کی مشق نہ ہوتو کھلی
آنکھوں سے بھی نظر نہیں آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھنے کی کئی طرزیں ہیں جیسے بیداری میں
دیکھنا، دماغ
میں دیکھنا، تصور کرنا، خواب میں دیکھنا، چھٹی حسِ کا محسوس
ہونا، مرنے کے بعد اعراف کی دنیا میں دیکھنا
اور دل میں دیکھنا۔ سب کا طریقِ کار ایک ہے اور وہ یہ کہ آدمی اندر میں
دیکھنے کو دیکھتا ہے لیکن اس بات سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے دیکھنے کے عمل کو
مختلف طرزوں میں بیان کرتا ہے۔ جب واقف
ہوجاتا ہے تو حواس پر سے الوژن کا پردہ اٹھتا ہے
اور دل آنکھ بن جاتا ہے۔ یہ دیکھنے کی
وہ طرز ہے جو مخلوقات میں مشترک ہے
اور اسی کی بنا پر روز ِ ازل*کا شعور حاصل
ہوا۔
ایک منٹ کے لئے پلک جھپکے بغیر اندر میں دیکھئے۔ اندر میں دیکھنے سے راز کھلتا ہے
کہ ہر شے انفرادی ہے لیکن شعور
اجتماعی ہے۔ اجتماعی شعور یہ ہے کہ کائنات کوتخلیق کرنے والی ہستی ایک ہے جس
نے کُن — فیکون کا
مظاہرہ کیا۔
مظاہرے سے پہلے تخلیقات جس بساط
پر موجود تھیں— اسی بساط پر ظاہر ہیں۔ یہ بساط
اللہ کا ارادہ ہے اور یہی مخلوقات کا اجتماعی شعور ہے۔ احکم الحاکمین اللہ تعالیٰ
کا ارشاد ہے،
’’اس
کا امر یہ ہے کہ جب وہ شے کو ظاہر کرنے کا ارادہ کرتا ہے توکہتا ہے کہ ہو،
وہ ہوجاتی ہے۔ ‘‘ (یسٰ ٓ: ۸۲)
نوٹ: خصوصاً ماہرین ِ امراض
ِچشم اور آنکھ کے میکانزم کو سمجھنے والوں
سے درخواست ہے کہ اس تحریر پرتبصرہ فرمائیں۔ دیکھنے کی طرزوں کا تعلق آنکھ کے
اندرونی و بیرونی میکانزم سے ہے۔ ہم جو
دیکھتے ہیں، وہ شے کے دیکھنے کو دیکھتے
ہیں۔ ہر شے دوسری شے کو دیکھتی ہے
اورسمجھتی ہے کہ میں دیکھ رہی ہوں۔
اللہ حافظ
ماہنامہ قلندر شعور (جون ۲۰۲۴ء)
* روز ِ
ازل (اللہ تعالیٰ نے جب چاہا
کہ کائنات اس کا تعارف حاصل کرے تو
فرمایا— الست بربکم) وضاحت کے لئے سورۃ الاعراف ، آیت 172
پڑھئے۔ |