آج ک ی ب ا ت
یہ دنیاکھیل تماشا ہے۔کھیل ذہن میں موجود کہانی اور کرداروں کا مظاہرہ ہے اور مظاہرہ چاہے جس اسکرین پر ہو، عکس ہے۔مطلب یہ ہے کہ دنیا اصل نہیں،عکس ہے۔ اصل کا علم نہ ہوتو مظاہرہ معمہ ّ اور الوژن بن جاتا ہے۔آدمی کرداروں کو
دیکھتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ کیا دیکھ رہا ہے۔ خالق ِ کائنات اللہ کا فرمان ہے،
’’اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور اصل زندگی عالمِ آخرت کی ہے۔ کاش، یہ لوگ جانتے۔ ‘‘
(العنکبوت: ۶۴)
آخرت کی زندگی سے مراد
اِس دنیا کے بعد کی دنیاؤں میں حواس ہیں۔
ان میں ایک دنیا نیند ہے۔نیند کی زندگی
کیا ہے؟ بیداری میں ہم ٹائم اسپیس میں قید
ہیں جب کہ خواب میں اسپیس کا غلبہ تو ہے
لیکن وقت کی توجیہ بیان نہیں کی جاسکتی۔
خواب ایسی زندگی کے شب
و روز ہیں جن میں زندگی عمل بن جاتی ہے
یعنی ہم جو کچھ بیداری میں کرتے ہیں، وہ تمام حرکات و سکنات خواب میں بھی پوری
ہوتی ہیں۔غور کیجئے کہ خواب میں غسل واجب ہوجاتا ہے۔ غسل پاکیزگی کا سمبل ہے یعنی آدمی جسمانی طور
پر متعفن matter
سے تخلیق ہوتا ہے۔ غسل واجب ہونا اس طرف اشارہ ہے کہ خواب اور بیداری دو الگ
الگ زندگی نہیں ہیں۔ خواب میں ذہن کسی حد
تک اسپیس کی نفی کردیتا ہے جب کہ بیداری
میں اسپیس کا غلبہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرلفظ مفہوم ہے
اورمفہوم لفظوں کی کہانی ہے۔بظاہرلفظ بے جان پتلاُ ہے۔ پتلےُمیں مفہوم داخل ہوتا ہے
تو لفظ سنتے، دیکھتے، ہنستے ،بولتے ہیں،آپ بیتی اور جگ بیتی سناتے ہیں۔ لفظوں سے کہانی بنتی ہے۔ مصنف بین
السطورمفہوم کی وضاحت کے لئے اس میں ذیلی
کہانیاں شامل کرتا ہے جو ایک کہانی کے گرد گھومتی ہیں۔ ایسے میں کہانی
کے مرکزی خیال کو نمایاں کرنے والے کردار کیا ہوئے— ؟
وہ خواتین و حضرات جو
اس دنیا میں رہتے ہوئے بعد کی دنیائیں دیکھ لیتے ہیں، کرداروں کو ثانوی جان کر کہانی کے مفہوم کواولیت دیتے ہیں۔ نتیجے میں ذات پات اور
اختلافات نظرانداز ہوجاتے ہیں اور یہ بات ذہن میں رہتی ہے کہ
پلیٹ فارم ایک ہے۔
لفظ اور مفہوم کی مثال
ورق کی ہے۔ ورق ایک مگر صفحے دو ہیں۔آدمی ورق کی بجائے دوصفحات کو دیکھتا ہے — دو دیکھنے کی عادت ایک کی
جانب متوجہ نہیں ہونے دیتی۔ ایک ہی لفظ کی
ضیا پاشیوں کو کبھی بقا کہتے ہیں
اورکبھی فنا کا نام دیتے ہیں۔لفظوں میں الجھا ہوا شخص ہر لفظ کو الگ سمجھنے کی وجہ سے تحریر کے مفہوم
سے بیگانہ ہوتا ہے لیکن مفہوم سے واقف فرد کو تحریر کے ہر لفظ کی فراست حاصل ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر شے
دو رخ پرتخلیق کی ہے۔ ایک ظاہر اور دوسرا
باطن ہے ۔ ظاہر اور باطن غالب مغلوب ہوتے رہتے ہیں جیسے پانی خشکی، دن رات ، خوشی غم، ٹھوس مائع، مائع
گیس، بھوک پیاس اور وہ سب جوتخلیقات کی تعریف میں آتا ہے، دو رخ پرسفر میں ہے۔ ہررخ کشش و گریز کے نظام کے تحت انفرادیت قائم
رکھتے ہوئے دوسرے رخ کو اپنی جانب کھینچتا ہے جس کی بنا پر دونوں کا وجودقائم رہتا ہے۔ ماں اور بچے کی مثال سامنے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی ہر رخ میں حواس کے ذریعے بسرہوتی ہے۔ حواس کی اصل ایک
ہے مگر دماغ، آنکھیں، ناک، ہونٹ، منہ اور دائیں بائیں کانوں کی وجہ سے آدمی حواس کوتقسیم سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ
میں سنوں گا نہیں تو دیکھوں گا کیسے، دیکھوں گا نہیں توسمجھوں گا کیسے اورسمجھے بغیرکیسے بتاؤں گا کہ یہ کیا ہے جب کہ
شے سے آگاہی کا پورا عمل اطلاع میں موجود ہے۔
ایسا نہیں ہوتا — سننے کے لئے الگ ، دیکھنے کے لئے الگ ، محسوس
کرنے اور بولنے کے لئے الگ اطلاع آئے۔
اطلاع مکمل جزئیات کے ساتھ وارد ہوتی ہے۔
مثال : پیاس کا خیال
آتا ہے۔ آدمی خیال کو سنتا ہے، دماغ میں اسکرین پرپانی کا عکس بنتاہے،
ذائقے کو محسوس کرتا ہے اور جسمانی طور پر پانی پینے سے پہلے دیکھتا ہے کہ وہ پانی پی رہا ہے۔ ہر اطلاع
میں سارے حواس اسی طرح موجود ہیں لیکن منقسم
ذہن ٹکڑوں میں دیکھنے کو حواس کی
تقسیم سمجھتا ہے۔
حواس کی یکجائی
کا مشاہدہ نیند ہے جب مٹی کا جسم بستر پر
ہوتا ہے اور اندرموجود ایک اور آدمی کائنات کی سیرکرتا ہے۔ حال یہ ہے کہ آدمی بہروں
کی طرح سوتا ہے اور اندھوں کی طرح جاگتا ہے۔جاگنے کے بعد اور سونے سے پہلے نیند
اور بیداری میں زندگی پرغور نہیں کرتا۔ غور کرنے سے حواس کی رفتار تیز ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر حس کو دوسری حس سے
الگ سمجھنا حواس کی تقسیم ہے ۔ اگر فہم میں یہ امر داخل ہوجائے
کہ آم اور گٹھلی ایک ہیں، ماں بچے سے الگ نہیں، زمین کا دوسرا رخ آسمان
ہے، بیج اور درخت میں یکجائی ہے، کھاد پتوّں کا ہی ایک روپ ہے اور ہر شے ڈائی کے تابع ہے تو معلوم ہوگا کہ زندگی کے
سارے کردارمفہوم کی زبان میں ایک ہیں۔ چوں کہ طرزِ بیاں دیکھنے کی طرز سے متاثر ہے
اور آدمی کا دیکھنا الوژن کے زیر اثر ہے لہٰذا
آدمی روشنی کو دن کانام دیتا ہے
اور رات
کواندھیرا کہتا ہے جب کہ دن رات کو ایک ہی روشنی سے زندگی ملتی ہے ۔ قرآن
کریم میں خالق ِ لیل و نہار اللہ کی صفت بیان ہوئی ہے ،
’’رات کو دن میں داخل
کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ ‘‘ (اٰل ِعمرٰن: ۲۷)
روشنی ایک ہونے سے دن
اور رات ایک دوسرے میں سے گزر کر ظاہر ہوتے ہیں مگر روشنی کے علم سے ناواقفیت کی
وجہ سے فرد دن رات کی کہانی میں الجھ گیا ہے۔ دن کا رات میں سے نکلنا اور رات کا
دن میں سے ظاہر ہونا، سمندروں اور دریاؤں میں کشتیوں کا چلنا، دو رنگ پانیوں کا الگ الگ ساتھ بہنا،آسمان سے
پانی برسنا اور زمین پر رنگوں کا بکھرنا ، یہ اور لاشمار نشانیاں نظام ِ کائنات کی تشریح ہیں۔ قرآن کریم میں غور و فکر کی تاکید ہے کہ غورو فکر آدمی کو کناروں سے آزاد کردیتا ہے،
چاہے وہ زمین کے کنارے ہوں یا محدود سوچ
کے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچی زمین سے پودا نکلتا ہے تو طبیعت تقاضا کرتی
ہے کہ مٹی ہٹا کر اندر میں بیج کھلنے کا منظر دیکھےکہ بیج کے دو پرت جو کہانی کے کردار ہیں، کیسے
کھلے۔ بیج درخت بن جاتا ہے جس میں سینکڑوں
چھوٹی اور درجنوں بڑی شاخیں ہوتی ہیں اور ان شاخوں پر لاکھوں پتےّ استراحت کرتے
ہیں، پھول کھلتےِ ہیں اور ان میں سے پھل ظاہر ہوتے ہیں، پھلوں کے اندر ایک سے
زیادہ بیج ہوتے ہیں جن کے درخت بننے سے ایک بیج کی کہانی خطہ ٔ ارض پر پھیل جاتی
ہے۔ کچھ نہ ہونے میں سے ہونے کا یہ مظاہرہ
سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ بیج میں درخت کہاں سے آتا ہے اور درخت ظاہر ہونے پر
بیج کہاں چلا جاتا ہے؟
بیج سے درخت کی نمود افسانہ ہے، ان لوگوں کے لئے جو اس افسانے میں زندگی کے
مفہوم سے ناواقف ہیں۔ بیج اور درخت کے درمیان فاصلے مٹنے سے دونوں کی ہستی ظاہر
ہوتی ہے اور مشاہدہ ہوتا ہے کہ یہ سب دوئی کے درمیان یکتائی کی صفات کا مظاہرہ ہے اور اس ہستی کی کبریائی ہے جس نے اپنی پہچان
کے لئے اس نظام کو تخلیق کیا ہے۔
قارئین! درخواست ہے کہ
’’آج کی بات ‘‘پڑھ کر جو آپ سمجھے ، لکھ
کر بھیج دیجئے۔
اللہ حافظ