زندگی کیا ہے

زندگی کیا ہے

Aaj ki bat | December 2024

 

زندگی کیا ہے ؟ زندگی عمر کی  اکائی ہے لیکن اکائی،  اکائی نہیں رہتی   اکائیوں پر مشتمل ہو کر سو  لاکھ بن جاتی ہے ۔ اس  کا تعلق  خاندانی روایات  سے ہے ۔ خاندانی روایات کے دو رخ ہیں ۔ ایک رخ یقین اور دوسرا  رخ  شک ہے ۔ یقین کا مطلب  ہے کہ اللہ  تعالیٰ کی ربوبیت کا دل سے اقرار کریں ،   وسائل اور  رزق  کو  اللہ کی رضا کے مطابق  استعمال کریں۔

اللہ کی رضا یہ ہے کہ اللہ کا چاہنا، مخلوق کا چاہنا بن جائے۔  

اللہ خالق ہے، اپنی پہچان کے لئے کائنات تخلیق کی، مخلوقات کو ظاہر کیا اور  زندگی  جاری رکھنے کے لئے وسائل پیدا کئے۔ وسائل کے استعمال کی  ایک قدر   چاندی  سونے کو حیات سمجھنا ہے ۔ دوسری قدر یہ ہے کہ   سونا چاندی زندگی گزارنے  کا وسیلہ ہیں یعنی مٹی کی مقداریں ہیں۔ وسیلہ بھی  دو رخ پر قائم  ہے ۔ وسائل  کو ازلی قانون  کے تحت استعمال  کیا جائے۔  دوسرا رخ یہ ہے  کہ وسائل کی گردش کو نظر انداز  کر کے   وسائل پر  بھروسا  کرتے ہوئے  مال و زر جمع کیا جائے تا کہ مستقبل  روشن رہے۔سوال یہ ہے کہ مستقبل کیا ہے؟

مستقبل کا ایک  زاویہ آنے والے حالات کا ادراک ہے۔ دوسرا  زاویہ اس کے برخلاف  ہے یعنی اس بات سے انحراف  کہ آدمی خالی ہاتھ آیا ہے، خالی ہاتھ واپس جانا ہے۔ پہلے زاویے پرعمل کرنے والے کو ادراک ہوجاتا ہے کہ زرپرستی  زندگی کو  بندگی سے دور کرتی ہے  جب کہ بندگی،  زندگی ہے ۔ زندگی  یہ ہے  کہ ایک ذات اﷲکے اوپر یقین اور بھروسا  ہو ۔ جب وسائل  زندگی کا مقصد بن جاتے ہیں تو وسائل تخلیق کرنے والی ہستی سے توجہ ہٹ جاتی ہے جب کہ  آدمی یا مخلوقات کی تعریف کی جائے تو مخلوق ہمہ وقت محتاج ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی کا مقصداندر میں سکون سے واقف ہونا  ہے کیوں کہ سکون کی حالت میں داخل ہوئے بغیرمعرفت کا دروازہ نہیں کھلتا۔  سکون یہ ہے    آدمی کو ادراک  ہو کہ  ایک ذات  اللہ  نے ہمیں تخلیق کیا ہم  بے وجود تھے ، ہمیں وجودبخشا  ۔ ہم نہیں جانتے  تھے کہ بھوک پیاس کیا ہے، بھوک پیاس کے تقاضے پورے کرنے کے لئے   وسائل تخلیق  کئے۔  وسائل مکمل ،تخلیق  مکمل، عمل مکمل یہ زندگی  کی  احتیاج ہے۔  بھوک لگتی ہے،  بھوک کا  مداوا اس وقت تک نہیں ہوتا  جب تک ذیلی وسائل نہ ہوں۔ ذیلی تخلیقات رزق، ہوا، آکسیجن، بارش،    معدنیات اور دوسرے وسائل    نہ ہوں  تو  زندگی استفہامیہ نشان *ہے۔

تخلیق  کی بنیاد  زمین  ہے۔ زمین ماں ہے ۔ہم سب  زمین  ماں کی اولاد ہیں ۔ زمین ماں قانون ِقدرت کے مطابق اپنے اندر وسائل کی نشوونما کرتی ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں ، موسم، بارش ، برف باری،  پہاڑ، نباتات، جمادات  اور ہر وہ  شے جو زندگی ہے اور زندگی   کے کام آتی ہے ، زمین پر پیدائش سے پہلے موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 زندگی کیا ہے ؟  ایک  ہستی کی پیروی ہے جو خالق ، مالک ،  رحمٰن ، رحیم اور مخلوقات  کا مسببّ الاسباب*ہے۔   خالق  بے احتیاج ہے، مخلوق  خالق کی  محتاج  ہے۔  آکسیجن،  کاربن،  نائٹروجن، ہائیڈروجن،کاربن ڈائی آکسائیڈ، بارش، معدنیات، دھات، ہوا، جڑی بوٹی، پودے اور موسم   نہ ہوں تو مخلوق سوالیہ نشان ہے۔ زمین  اور فضا میں جتنے اجزا  ہیں، سب مختلف لیکن معین مقداروں کے ساتھ مرکب ہوکرجسم بنتے ہیں۔ مثلا ً آگ میں فاسفورس کا عنصر غالب ہے تو فاسفورس متفرق مقدار کے ساتھ ہرمخلوق میں موجود ہے۔ مقداروں کی وجہ سے مخلوق فاسفورس سے پیدا ہونے والی چیزوں کو پہچانتی ہے۔

 چاند کی کرنیں  سمندر میں مدوجزر پیدا کرنے کے  ساتھ پھلوں اور اجناس میں مٹھاس منتقل کرتی ہیں۔ چاند کی کرنوں میں مٹھاس نہ رہے تو زمین پرمخلوقات میں مٹھاس کی مقداریں منفی ہونے سے نمک کی زیادتی ہوجائے گی۔ نتیجے میں کشش اورگریز  کا  نظام الٹ جائے گا۔آگ اور مٹھاس کی طرح ہوا، بادل،  لوہا، تانبا، پارا، سونا بھی کم و بیش مقداروں کے ساتھ ہر مخلوق میں موجود ہیں۔ کائنات میں کوئی جز ایسا نہیں  جس کی معین مقداریں تخلیقات کے اندر نہ ہوں ورنہ کائنات کا تعارف ممکن نہیں۔ اصل یہ  ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی مخلوق اپنے قیام کے لئے  تمام تخلیقات  کی مقداروں کی پابند ہے اور مقداروں میں ربط کو ترتیب وتنظیم کے ساتھ خالق ِ کائنات  اللہ نے قائم رکھا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

* استفہامیہ نشان  (؟)*  مسببّ الاسباب   (وسائل کا خالق )

 

 

 مخلوق کی دوسری پہچان   ظاہر سے باطن اور باطن سے ظاہر میں مستقل ردّوبدل ہوتے ہوئے ابتدا سے انتہا کی طرف سفر ہے۔  ہر انتہا ابتدا ہے اور ابتدا،  انتہا ہے۔ مخلوق پیدا ہوتی ہے۔ پیدا ہونے کا مفہوم  ہے کہ  مخلوق مرتی ہے۔ مرنے کے لئے غیب سے ظاہر ہوتی ہے اور ظاہر سے غیب میں جاتی ہے، عمر کی اسپیس پوری  ہونے تک غیب  ظاہر اور ظاہرغیب  میں الٹ پلٹ ہوتی ہے پھرمستقل غیب ہوجاتی ہے لیکن غائب نہیں ہوتی۔ غیب سے آتی ہے، غیب میں چھپ جاتی ہے۔

ماں کے بطن میں بچے کے نقوش کی طرح فرد کا ریکارڈ زمین  کی اسکرین پر موجود رہتا ہے۔ دنیا  میں ظاہر ہونے کے لئے ماں کے رحم میں بچے کی ڈائی موجود ہے۔ ڈائی کا ریکارڈ ماں اور بچے میں کشش  ہے ۔  جوتعلق ماں اور بچے  کا ہے، وہی فرد کا  زمین سے ہے۔ یہ تعلق ریکارڈ بن کر فرد کے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی اسے زمین سے منسلک رکھتا ہے۔

پہلے دن کا بچہ جب دوسرے دن میں داخل ہوتا ہے تو پہلا دن چھپ جاتا ہے ۔ اس طرح چھپتا ہے کہ بنیاد بن کر دوسرے دن میں  رہتا  ہے۔ دوسرا دن غائب ہوتا ہے تو پہلے دو دن ، تیسرے دن کی بنیادبنتے ہیں۔ اس طرز پر دن،  ماہ و سال  میں چھپتے ہیں اور ماہ و سال  فردکو اسپیس کی طوالت کے فریب (illusion) میں مبتلا رکھتے  ہیں۔   60سال کی عمر میں سے پہلا دن نکال دیا جائے تو    59سال  اور تین سو  64دن  کی عمارت  کی نفی ہوجائے گی۔

یہ مخلوق کا مختصر تعارف ہے۔

قارئین !  کاغذقلم اٹھائیے اور زندگی کے شب و روز شمار کیجئے۔

غیب سے ظاہر ہونے والے دن کو ایک (1) لکھئے۔

غیب میں جانے والے دن کو صفر(0) لکھئے۔

ایک کو صفر سے ضرب دیجئے اور بتائیے، آپ کی عمر کتنی ہے؟

کچھ نہ ہونے  میں ہونے کا یہ قانون تغیر ہے۔تغیر اپنے قیام کے لئے احتیاج کا پابند ہے اور مخلوق کی پہچان ہے۔ خالق ِ کائنات اللہ تغیر سے پاک  ہے۔

 قارئین خواتین و حضرات ! ’’آج کی بات‘‘پڑھنے سے پہلے سورۃ الاخلاص  ترجمے کے ساتھ پڑھئے  اور اس تحریر کوسمجھئے۔

      اللہ حافظ دستخط

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


More in Aaj ki bat