زمین و آسمان کے کناروں کی طرح سمندربھی شش جہت کنارا ہے۔ آدمی مادی جسم کے ساتھ زمین کے کناروں سے نہیں نکل سکتا۔ موجیں بھی کناروں سے نکلنے کے لئے حالت (state) کی تبدیلی کی پابند ہیں۔ کنارا محض ساحل نہیں، اس سے مراد حد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر اور فضا سمیت تمام تخلیقات کو لاشمار پرتوں* سے مرکب کیا ہے۔ ہر پرت کی وسعت جس مقام تک ہے، وہ مقام اس پرت کا کنارا ہے۔
سمندر کی موجیں مائع حالت میں اوپر جاتی ہیں تو غائب نہیں ہوتیں، زمین پرواپس آتی ہیں لیکن جب بخارات کی شکل میں اٹھتی ہیں تو سمندر کی کشش سے آزاد ہوکر فضا میں پھیل جاتی ہیں ۔ ایک دنیا سے دوسری دنیا اورفضا کے ایک طبقے سے دوسرے طبقے میں داخل ہونے کاقانون ہے کہ اگر موج فضا کے مطابق قالب اختیار نہ کرے تو چاہے دوسو فٹ بلند کیوں نہ ہو، زمین و آسمان کے درمیان دنیائیں اس کوقبول نہیں کرتیں ، واپس بھیج دیتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاؤں کی سیر اور دوسرے سیاروں میں جانے کی جدوجہد کرنے والی نوع ِ آدم کے لئے سمندر کی دنیا آفاقی پیغام ہے کہ زمین کے کناروں سے نکل کر چاند، ستاروں اور سیاروں میں داخل ہونے کا دار ومدارحالت کی تبدیلی پر ہے۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مادی جسم کے ساتھ خلا کی سیرکا دعویٰ کرنے والے زمین کے خلا میں ہی سفر کرتے ہیں۔ ان کی حد وہاں تک ہے جہاں تک فضا مادی جسم (مٹی کا جسم)کو قبول کرتی ہے۔
اونچی پروازخلائی گاڑی (اسپیس کرافٹ) کی بھی ہے لیکن یہ ایک حد کے بعد آگے نہیں جاسکتی کیوں کہ جن دھاتوں سے بنی ہے، وہ ایک حدتک فضا کا دباؤ برداشت کرتی ہیں ۔ خلائی گاڑی جہاں تک جاتی ہے، وہ راستہ کسی طور زمین کے کناروں سے باہرنہیں بلکہ زمینی فضا کے زیر اثر ہے ۔ خلائی گاڑی کی ساخت جن عناصر اور دھاتوں سے مرکب ہے، ان دھاتوں اور عناصر کو کشش ِثقل کے تحت یکجا کرکے خلائی گاڑی کی شکل دی گئی ہے لہٰذاخلا میں جہاں تک زمین کی کشش ِ ثقل کام کرتی ہے، خلائی گاڑیاں وہاں تک جاتی ہیں۔
قابل ِ احترام دوستو! دوسری دنیاؤں میں داخل ہونے کا تعلق اگر بلندی سے ہوتا تو ہزاروں فٹ اوپر خلائی گاڑی میں بیٹھے خلانورد، جنگی جہازوں کے پائلٹ اور مسافر بردار طیاروں میں مسافروں کوفضا مخلوقات سے آبادنظر آتی۔ وہ فضائی گاڑی کے ذریعے خلا میں پہنچے ہیں، اپنی حالت(state) تبدیل کرکے خلا میں نہیں پہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفاظ کے پردے میں لکھی گئی تحریر کو دوبارہ پڑھئے— صرف پڑھئے نہیں، سمجھئے۔
فضا لطیف دنیا ہےجب کہ پانی کی مائع اور ٹھوس حالت کثیف ہے۔ موجیں مائع حالت میں کناروں سے نکلنے کی تگ و دو کرتی ہیں تو سمندر کی زمین انہیں کھینچ لیتی ہے ۔ جب یہ بخارات (گیسوں) کا پرت اختیار کرتی ہیں تو سمندر کے کنارے ان کے لئے کھل جاتے ہیں اور یہ اس کی کشش سے آزاد ہوجاتی ہیں۔ بخارات بھی فضا میں ایک حد پہ جاکر رک جاتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے لئے ان کو نئے پرت کی ضرورت ہے۔جہاں یہ رکتے ہیں، وہاں پہاڑوں کی طرح جمے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان پہاڑوں کو ہم بادل کہتے ہیں جب کہ بادل جمے ہوئے نہیں۔ پہاڑبھی جمے ہوئے نہیں ہیں ۔ یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں اور بادل فضا میں پہاڑوں کی طرح تیررہے ہیں۔ رب العالمین اللہ نے فرمایا ہے،
’’تم قیاس کرتے ہو کہ پہاڑ جمے ہوئے ہیں۔ یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔ ‘‘
حالت کی تبدیلی کا مطلب دوسری نوع کی صورت اختیار کرنا نہیں ۔ اللہ نے ہر شے معین مقداروں سے تخلیق کی ہے۔چڑیا سے چڑیا پیدا ہوتی ہے اور آدمی سے آدمی۔ پہاڑسے پہاڑ تخلیق ہوتا ہے اور بخارات سے بخارات بنتے ہیں ۔
ہر شے پانی سے تخلیق ہوئی ہے۔ پانی کی کئی حالتوں میں سے چند یہ ہیں،
۱۔ ٹھوس ۲۔ مائع ۳۔ گیس ۴۔ ہیولا ۵۔ روشنی
ٹھوس شے کا مائع میں ظاہرہونا ، مائع کا گیس میں تبدیل ہونا، گیس کا ہیولے کی شکل اختیار کرنا اور ہیولے کا روشنی میں ظاہر ہونا، حالتوں (پرتوں)میں ردّوبدل ہے۔ردّو بدل سے کسی حالت یا پرت کی ساخت تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ختم ہوتی ہے۔ ہر حالت اور پرت اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اصل میں غالب اور مغلوب کا نظام حرکت میں ہے۔ اگرشے کی ساخت بدلتی تو ٹھوس شے مائع اور گیس میں ردّو بدل ہوکر واپس ٹھوس نہ بنتی۔
مثال : برف پگھلنے سے پانی کی ٹھوس حالت مغلوب اور مائع غالب ہوتا ہے۔ مائع ڈیپ فریزر میں رکھنے سے پھر برف بن جاتا ہے۔ اگر برف پگھلنے سے پانی کی ٹھوس حالت ختم ہوتی تو دنیا کا کوئی پانی دوبارہ برف نہ بنتا ۔
اس مثال کو اتنی مرتبہ پڑھئے کہ ذہنی استطاعت میں اضافہ ہو۔
عرض یہ ہے کہ ہر تخلیق لاشمار پرتوں کا مجموعہ ہے۔ تخلیقات کا ٹھوس، مائع ، گیس اور روشنی میں ظاہر ہونا ساخت میں موجود حالتوں یا پرتوں کا غالب اورمغلوب ہونا ہے۔
قانون: جب کوئی پرت یا حالت مغلوب ہوتی ہے تو اس کے ساتھ کشش کا نظام بھی مغلوب ہوتا ہے جس سے وہ پرت منسلک ہے۔ اسی طرح جب کوئی حالت غالب ہوتی ہے تو اس حالت سے منسلک کشش کا نظام غالب ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے پڑھا کہ آدمی خیالات کا سمندر ہے۔سمندر کی موجیں زمین کے کناروں سے نکلنا چاہتی ہیں مگر چاہت کا تقاضا پورا نہیں ہوتا — زمین انہیں کھینچ لیتی ہے۔ آدمی کو بادلوں کی طرح اڑنے والے پہاڑ اور پہاڑوں کی طرح تیرنے والے بادل اس لئے جمے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کشش (واقفیت)کی جس ڈور سے بادل اور پہاڑ بندھے ہوئے ہیں، آدمی اس سے ناواقف ہے۔ واقفیت اُس کشش سے ہے جس میں ثقل ہے اور جوتخلیقات کو جامد (جما ہوا) دکھاتی ہے۔آدمی کو اپنے مقام سے اوپر مقام میں داخل ہونے کے لئے اندر میں مطلوبہ مقام کے پرت کو غالب کرنا ہے یعنی کشش ِ ثقل کے پرت کو مغلوب کرکے کشش ِ لطیف کے پرت کو اختیار کرنا ہے۔ خالق ِ ارض و سما اللہ کا ارشاد ہے،
’’ اے گروہ ِ جن و انس! تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے ۔ ‘‘ (الرحمٰن: ۳۳)
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
*پرت (Layer ) کو سمجھنے کے لئے پیاز لیجئے۔ اس کا ایک ایک پرت الگ کیجئے۔ اس تجربے کی بنا پر پرت در پرت تخلیقی نظام کافی حد تک سمجھ میں آتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہر پرت پیاز کی ایک صفت ہے اور پیاز کی صفات ڈنٹھل کے گرد گھوم رہی ہیں۔ |