ارض

ارض

Aaj ki bat | May 2024

 

زمین ٹھہری ہوئی نظر آتی ہے لیکن لٹوّ کی طرح ترچھے زاویے پرمخصوص رفتار سے محوری اور طولانی گردش میں چل رہی ہے۔ یہ اپنے مدار میں رہتی ہے کہ یہی مدار اس  کا دائرہ ہے۔ دائرہ  قدرت کی جانب سے  حصار ہے جس نے زمین کو قائم رکھا ہے۔

’’سن        رکھو،          بے      شک         اللہ             ہر           شے           پر          محیط         ہے۔ ‘‘  (حٰم ٓ السجدّۃ    : ۵۴)

  زمین کا سفرمحوری ہے لیکن یہ  اسپائرل کی طرح آگے بڑھتی ہے اور طولانی حرکت کو قائم رکھتے ہوئے اپنے محور کے گرد گھومتی ہے۔ اس مظہرکونظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ محوری حرکت کا تعلق   کائنات کے لامحدود نظام سے ہے جب کہ طولانی حرکت محدود نظام کو ظاہر کرتی  ہے۔ لامحدود نظام  کی خصوصیت ہے کہ  رفتار  ہزاروں گنا تیز ہونے سے اسپیس حذف نظر آتی ہے اور فاصلہ (اسپیس)محسوس نہیں ہوتا جب کہ محدود نظام میں فاصلہ شے کی انفرادیت کو برقرار رکھتا  ہے۔ عرض یہ ہے کہ دائروی حرکت  میں رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ شے کی اسپیس مغلوب ہوجاتی ہے۔اس کے برخلاف  طولانی حرکت   دائرے میں رہتے ہوئے  شے کی ہیئت کو قائم  رکھتی ہے جب کہ ہر دائرہ دوسرے دائرے سے ملا ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

زمین ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ہوتی ہے تو درمیان میں اسپیس ہے۔ اسپیس زمین کے قیام کی ضامن ہے۔ یہ ختم ہوجائے تو زمین نظرنہیں آئے گی۔  دائروں کے درمیان اسپیس انفرادیت  کو    اور     دائرہ  اس پورے نظام کو قائم رکھتا ہے۔

زمین قرار ِ مکین* ہے یہ   بساط ہے جس پر عمارت اِستادہ* ہے۔ اس اعتبار سے  ہر شے  کی حیثیت زمین کی ہے اور اس پر وہی قانون نافذ ہوتا ہے  جس کی تفصیل آپ نے پڑھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محوری و طولانی حرکت مثالوں سے سمجھئے اور مزید مثالیں تلاش کیجئے۔

۱۔ زندگی کی مرکزیت غیب ہے۔ یہ  غیب سے   آتی ہے، مسلسل غیب ظاہر ہوتی ہے اور  غیب میں لوٹ  جاتی ہے۔   زندگی  کا ظاہر ہونا طولانی حرکت ہے جب کہ غیب میں آنا جانامحوری حرکت ہے۔  طولانی حرکت ظاہر نہ ہو توتخلیق کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔

۲۔لٹوّ کی شکل تکونی ہے۔ اس کے چوُڑی نما*   حصے پر ڈوری لپیٹی جاتی ہے تو ٹرائی اینگل سے آزاد ہوکر دائرہ بنتا ہے۔چوُڑی دراصل  منسلک دائروں کی تکرار یعنی اسپائرل ہے۔    ہاتھ کو محوری انداز میں گھماکر ترچھے زاویے سے جھٹکا دیتے ہوئے لٹوّ پھینکا جاتا ہے تو یہ   ڈوری سے آزاد ہوکر زمین پر گھومتا ہے   گھومتے ہوئے ایک مرکز  پرنہیں  رہتا  نہ سیدھ میں ہوتا ہے بلکہ جھکاؤ اختیار کرکے  دائرہ  در  دائرہ  آگے بڑھتا ہے۔آگے بڑھنے کی وجہ ترچھاپن  ہے جس سے طولانی حرکت ظاہر ہوتی ہے۔ لٹوّ آگے نہ بڑھے اور جس جگہ گرا ہے، اسی  مرکز پر گھومتا رہے تو اس عمل سے پیدا ہونے والی قوت  سے زمین میں سوراخ ہوگا اور لٹوّ   کسی اور زون میں داخل ہوجائے گا۔ قارئین، تجربہ کیجئے۔

۳۔  لٹوّ کے برعکس پنکھا  ایک ہی مرکز پر گھومتا ہے غائب نہیں ہوتا۔  اس کے پروں *  کے درمیانمعینّ فاصلہ (اسپیس)   ہےجوپروں کے محوری سفر کے باوجود برقرار ہے۔ پروں کے مابین  خلا    سے   ہوا کٹتی ہے اور دائرے میں  پنکھے کا طولانی نظام قائم رہتاہے۔  

۴۔  پہاڑ ساکن  اور جمے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن  قرآن کریم کے مطابق یہ  بادلوں                                            کی طرح اڑ رہے ہیں۔اڑنا ، چلنا یا تیرنا محوری اور طولانی گردش کے تحت ہے۔ بادل  فضا                  میں معلقّ گیسوں اور بخارات کا مجموعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو بادلوں سے تشبیہہ دی ہے۔ بادلوں کے آئینے میں پہاڑوں کو دیکھنے سے علم ہوتا ہے کہ پہاڑ بھی پیدا ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں اور عمر گزار کر انتقال کرتے ہیں۔ مرشد کریم ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیاؒ کا ارشاد ہے کہ  ’’پہاڑ بھی سانس لیتے ہیں لیکن ایک سانس 15منٹ کا ہوتا ہے‘‘۔ میڈیکل سائنس کے مطابق آدمی ایک منٹ میں 12سے 20 مرتبہ سانس لیتا ہے۔

 پہاڑوں کو جامد دیکھنے کی وجہ نگاہ   کا دو طرزوں میں کام کرنا ہے۔

*   ایک  طرز میں شے کو اسپیس میں بند ہو کر دیکھتی ہے۔

*    دوسری طرز میں بند اسپیس سے آزاد ہوتی ہے۔

ہم گمان کرتے ہیں کہ پہاڑ جمے ہوئے ہیں اس لئے پہاڑ ہمیں جمے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

* قرار ِ مکین  (کسی بساط  پر قائم  ہونا) *استادہ (کھڑا، ٹھہرا ہوا ) * چوُڑی نما  (بل دار)   *پروں (blades)

 ۵۔آدمی چلتا ہے تو زمین قدموں سے لپٹتی ہے۔حضورقلندر بابا اولیاؒ نے اسپیڈ کا فارمولا بتایا تھا۔ ان کے صاحب زادے آفتاب میاں کو  مزاروں پر حاضری  کا شوق تھا۔ ہمیں بھی ساتھ لے جایا کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت صابر کلیریؒ کے مزار پر حاضری                                                                     کے لئے حیدرآباد سے روانہ  ہوئے۔ مرشد کریم کے بتائے ہوئے فارمولے پرعمل کیا  تو دیکھا ……زمین صف کی طرح  لپٹنا شروع ہوگئی۔ زمین لپٹتی رہی،  ہم چلتے رہے یہاں تک                                    کہ منزل پرپہنچ گئے  وقت کا پتہ نہ چلا۔

قانون :  ذہن  زمین کی محوری گردش( لاشعور) کے تابع ہو  تو اسپیس سمٹ جاتی ہے۔

توجیہہ :  زندگی دو رخ پر قائم ہے۔ ایک سونا   اور   دوسرا جاگنا۔ بیداری میں زندگی مادی وجود کے تابع اور خواب میں مادی وجود سے آزاد ہے۔ آزاد زندگی میں ہر وہ کام ہوتا ہے جو محدود زندگی میں سرزد ہوتا ہے، انتہا یہ ہے کہ غسل واجب ہوجاتا ہے۔ خواب میں   ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں، جاگنے پر انگلیوں سے  پلاؤ کی خوش بو آتی ہے۔ خواب میں ہر وہ کام ہوتا ہے جو بیداری میں ہے پھردونوں میں کیا فرق  ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محوری و طولانی نظام کے بغیر کوئی حرکت، احساس  اورعمل   نہیں  بنتا۔

 خالق ِ کائنات  اللہ  کا ارشاد ہے،

’’سن    رکھو،          بے شک  اللہ        ہر         شے  پر                   محیط  ہے۔ ‘‘  (حٰم ٓ السجدّۃ    : ۵۴)

تمام اشیا محوری حرکت کے حصار میں ظاہر اور غائب ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ محیط نے  ہر  شے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ محیط ہونےکا عمل محوری نظام کوتخلیق کرتا ہے جب کہ                     شے کی ظاہری شکل طولانی نظام کے تحت بنتی ہے۔جب طولانی حرکت پرمحوری نظام غالب آتا ہے،ظاہری خدوخال  اوجھل ہوجاتے ہیں۔واضح رہے کہ باطنی علوم  میں  طولانی نظام کو شے یا   triangle  کہا جاتا  ہے۔

 محوری نظام کیا ہے ؟ خالق ِ کائنات اللہ ہمہ وقت تخلیق سے ربط میں ہے۔تخلیق  اپنے وجود کے لئے خالق کی محتاج ہے۔  وہ غیب سے توانائی لے کر آتی ہے، توانائی کا مظاہرہ کرتی ہے اورمزید توانائی کے حصول کے لئے  غیب میں لوٹ جاتی ہے۔ جب تک زندگی کی مقداریں باقی ہیں، اس عمل کا  اعادہ   ہے یہاں تک کہ شے غیب ہوجاتی ہے۔

اللہ حافظ

ماہنامہ قلندر شعور (مئی ۲۰۲۴ء)


More in Aaj ki bat