زمین ماں ہے— ماں سانس لے رہی ہے۔
تخلیق
کا مادہ*، اصول اورطریقہ ایک ہے، تقاضے یکساں ہیں،
نوعی حیثیت کے مطابق ہرتخلیق باشعور ہے، موت
و حیات کے
دروازے سب کے لئے کھلتے ہیں، بند ہوتے ہیں جب کہ بند نہیں ہوتے *۔مشترک قدروں
کے
باوجود مخلوقات میں انفرادیت ہے۔ انفرادیت کے دو رخ ہیں—ایک نوعی حیثیت میں انفرادیت کہ نوع دوسری نوع سے
مختلف ہے۔ دوسرا یہ کہ نوع کے ہر فرد کی
صورت الگ ہے۔ فاختہ کی نوعی شکل
ایک ہے لیکن روپ لاشمار ہیں ، ہماری طرح کہ ایک پہچان مجموعی ہے، دیکھ
کر معلوم ہوجاتا ہے یہ آدمی ہے، دوسری پہچان انفرادی ہے جس کی بنا پر ہر آدمی الگ نظر آتا ہے۔
تحقیق
و تلاش کہتی ہے کہ انسانی جسم 37 کھرب خلیات سے بنا
ہے جن میں 12 کھرب دماغ کے خلیات ہیں۔ 12میں سے دو کھرب خلیات براہِ راست کام کرتے ہیں جب کہ 10کھرب خلیات
ٹوٹتے، بکھرتے اور یکجان ہوتے ہیں۔ سائنسی زبان میں انفرادی و اجتماعی تشخص کی
وضاحت اس طرح ہے کہ نوع ِآدم کا جسمانی تشخص 37کھرب خلیات ہیں۔ انفرادیت یہ ہے کہ ہر آدمی کے 37 کھرب خلیے
دوسرے آدمی کے 37 کھرب خلیات سے مختلف ہیں۔ ایک خلیہ جس مادے سے بنا ہے،
باقی خلیات بھی اسی مادے سے بنے ہیں اور پہلے خلیے کا ضرب در ضرب پھیلاؤ ہیں ۔ یہ خلیات جس ترتیب کے
ساتھ یکجا ہوتے ہیں، اس سے شکلوں میں فرق
ظاہر ہوتا ہے۔
تخلیق کے پرنٹ درپرنٹ اور اجتماعی و انفرادی نظام کی ایکویشن قرآن میں بیان ہوئی ہے،
’’لوگو! اپنے رب کے لئے تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو نفسِ
واحدہ سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا اور دونوں سے بہت سے مرد و
عورت پھیلادیے۔ ‘‘ (النسآ ء: ۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*مادہ (matter) *بند نہیں ہوتے (ایک عالم میں دروازہ بند ہوتا ہے تو
دوسرے عالم میں کھل جاتا ہے۔ ) |
۱۔ فرض کیجئے کہ چمن میں موسیقی کے راگ
بکھیرنے والی بلبل اگر کاربن کی چار مقداروں سے بنی ہے تو ان چار مقداروں کے یکجا
ہونے سے بلبل بنے گی۔ اب چاروں مقداروں
میں کیمیائی تعامل سے بلبل کے لاشمار روپ ظاہر ہوں گے اور تمام روپ
بلبل کے روپ کا بہروپ ہیں۔
۲۔ مصور کے پیلٹ *میں رنگ ہوتے ہیں۔ وہ پرُفضا پہاڑی
مقام کی تصویر بناتا ہے۔ اگر پیلٹ میں 12رنگ
ہیں تو رنگوں کی مختلف مقداروں سے وہ حسین لینڈ
اسکیپ * کا عکس کینوس پر منتقل کردیتا
ہے۔مصور نے موجود رنگوں کی مقدار کو استعمال کرکے منظر کو جزئیات کے ساتھ ظاہر کیا
ہے ۔ سبز رنگ سے پتےّ اور گھاس بنائی ہے اور سبز رنگ کو کئی روپ میں دکھایا ہے۔
۳۔ پانچ خواتین کو سیخ کباب بنانے کے اجزا دیں تو دستر خوان پر
پانچ ذائقے موجود ہوتے ہیں۔
۴۔ سننا اور دیکھنا بھی مقدار ہے۔ کوئی بات سن کر مفہوم سمجھ لیتا
ہے اور کسی کی سمجھ میں آدھی بات آتی ہے۔ کوئی ایک نظر میں منظر دیکھ لیتا ہے اور کوئی ٹکڑوں میں منظر کو دیکھتا ہے لیکن نہیں دیکھتا۔ بات اور منظر یعنی matter ایک ہے لیکن ذہن کی طرزیں (mechanism)مختلف ہیں۔
۵۔ ذہن بھی مقداروں پر قائم
ہے۔ انسان کی مقداریں احسنِ تقویم ہیں جب
کہ آدمی کی شعوری مقداروں کا نام اسفل سافلین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرشے، تقاضا اور سراپا مقداروں سے مرکب ہے۔ مقداروں سے باہر وجود بے وجود ہے
۔
’’پاک
اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے معین مقداروں سے تخلیق کی اور ان مقداروں کی ہدایت
بخشی۔ ‘‘ (الاعلیٰ: ۱۔۳)
*پیلٹ (رنگوں کی تختی) *لینڈ
اسکیپ ( ارضی منظر۔ Landscape) |
مقداریں
جب آپس میں ردّوبدل یا جذب ہوتی ہیں تو مختلف رنگ اختیار کر لیتی ہیں، رنگ کسی نوع
کے خط وخال بن جاتے ہیں۔ رنگوں کی یہ آمیزش
مقداروں کا پھیلاؤ ہے۔ سرخ اور سفید کو
ملانے سے گلابی رنگ بنتا ہے۔ اگر سرخ
کی مقدارکم اور سفید کی مقدار چارگنا
بڑھا دی جائے تو سرخی چھپ جاتی ہے
اور سفید رنگ غالب آجاتا ہے۔
غور
کیجئے کہ تخلیق کا فارمولا کیا بنا—؟
مادہ
(matter )ایک ہے لیکن ڈائیاں مختلف ہیں۔ ڈائی مادے کو
اپنی ساخت میں ڈھال کر اس طرح متحرک کرتی
ہے کہ مادہ مختلف لیکن معین مقداریں بن جاتا ہے۔ مقداریں
خلط ملط ہونے سے رنگ بنتا ہے۔ رنگ دوسرے رنگ میں جذب ہوکر تیسرا رنگ بنتا ہے ۔ اس
طرح لاشمار رنگ ظاہر ہوتے ہیں جن کا اجتماع کائنات ہے۔
ارشاد ِ ربانی ہے،
’’اور
یہ جو بہت سی رنگ رنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا کی ہیں، ان میں
غوروفکر کرنے والوں کے لئے نشانی ہے۔‘‘ (النحل: ۱۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی
اور مٹی تخلیقات کا بنیادی مادہ ہیں اور دونوں اپنی جگہ پورے پورے نظام ہیں۔ جب پانی کہا جاتا ہے تو اس
میں پانی کی ابتدا و انتہا موجود ہوتی ہے۔ پانی کی ابتدا روشنی ہے اورانتہا رنگ
ہے۔یہی صورت ِ حال مٹی کی ہے اس پس ِمنظر
میں تخلیق کا فارمولا یہ ہے ،
پانی
+ مٹی = تخلیق
روشنی + روشنی = روشنی
رنگ + رنگ = رنگ
روشنی + رنگ = تخلیق
رنگ
و نور کے خالق اللہ تعالیٰ نے ہر شے برابری کے ساتھ پیدا کی ہے، پانی اور مٹی
کی مقداریں معین کرکے رنگوں کی طرزیں قائم کی ہیں اورتخلیقات
کو زمین پر اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے مقداروں کا شعور بخشا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آج
کی بات‘‘ کا خلاصہ پڑھئے۔
ہر ذرّہ باشعور ہے۔ ہر ذرّے کو
اپنی انفرادی و نوعی حیثیت کا علم ہے۔ آدمی کو بابا آدمؑ سے اور درختوں
کو بابا درخت سے شعور منتقل ہوا ہے۔ علم سب کو حاصل ہے
اور ہر نوع اپنی دنیا میں ترقی یافتہ ہے۔لیکن آدمی سمجھتا ہے کہ صرف وہ
ترقی کررہا ہے— دوسری
مخلوقات کی زندگی میں جمود ہے۔آدمی کی دلیل یہ ہے کہ بندر زمین پر زندگی کے آغاز سے درختوں پر رہ
رہا ہے جب کہ ہم درختوں سے اتر کر چھوٹے
بڑے بنگلوں میں منتقل ہوچکے ہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ خلاؤں کو تسخیر کررہے ہیں۔ بندر
اور درخت نے کوئی ایسی ترقی نہیں کی جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ درخت اور بندر ہماری طرح
ترقی یافتہ نوع ہیں۔
قارئین
! بظاہر یہ بات صحیح ہے لیکن بباطن حقیقت
تلخ ہے۔اگر درخت، چیونٹی اور بندر آدمی سے سوال کریں کہ ترقی کیا
ہے اور جواب میں آدمی انہیں اپنی ایجادات دکھائے تو بندر، درخت ، چیونٹی اور کوئل اپنے کسی
نوعی ساتھی کو حاضر کرکے آدمی سے کہیں گے کہ جسے تم ترقی کہتے ہو، یہ
صلاحیت ہماری نوع کے فرد میں پہلے سے موجود ہے۔
آدمی کو لاجواب دیکھ کر درخت، چیونٹی اور چڑیا اسے بتائیں گے کہ ترقی اپنے اندر کی دنیا
(اطاعت)سے وابستہ ہونے کا نام ہے۔ چوں کہ ہم
نے نافرمانی نہیں کی، ہمیں عطا کیا
گیا علم بھول کے خانے میں نہیں گیا اورہمارا علم تخریب (مہلک ہتھیار)سے پاک ہے۔
حیوانات بتانا یہ چاہتے ہیں کہ وہ زمین پر زندگی کے
آغاز سے ترقی یافتہ ہیں اور نوعی صلاحیتوں
کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ آدمی ہے جو نافرمانی کرکے اپنا بنیادی شعور بھول گیا ہے
اور بھولی ہوئی صلاحیتوں سےٹکڑے ٹکڑے میں
واقف ہونے کو ترقی کا نام دیا ہے۔
قارئین ! ہر عمل ایک منظر اور پس منظر کی بھول بھلیاّں
ہے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ تخلیقِ
کائنات سے واقفیت ہوجائے تو دنیا اورتمام تخلیقات مقداروں کے میکانزم پر
قائم ہیں۔ مقداریں ہر تخلیق کی اکائی ہیں۔ اکائی کیا ہے— ؟ اکائی
میکانزم ہے جوتخلیق، تردید، حاضر
غیب اور غیب حاضر کی زنجیر ہے۔ زنجیر کی
ہر کڑی کو مقدار تصور کرلیا جائے تو بات
یہ سمجھ میں آتی ہے کہ کائنات میں تمام تخلیقات تغیر سے گزرتی ہیں لیکن تبدیل نہیں
ہوتیں۔ تخلیق کا پورا نظام ایک ورق دو
صفحے ہیں۔ ایک ورق پر تخلیق اور دوسرے ورق
پر تعمیر کی فسوں کاری اور فسوں کاری
کے برعکس نظام ِ کائنات کی عمل داری ہے ۔
قرآن کریم کی سورۃ الاعلیٰ میں اس میکانزم کو دو مراتب میں بیان کیا گیا ہے۔
۱۔ جس نے معین مقداروں سے تخلیق کیا اور ان مقداروں کی ہدایت
بخشی۔
۲۔ جس نے نباتات اگائیں اور انہیں
خشک کرکے بکھیر دیا۔
اللہ حافظ (دستخط)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔