مشک کی خوشبو

مشک کی خوشبو

Aaj ki bat | January 2025

 

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اس لئے تخلیق کیا تاکہ وہ پہچانا جائے۔ پہچاننے کے لئے ضروری تھا کہ کائنات کے تخلیقی عناصر اور کائنات میں موجود تمام مخلوقات کی نوعیں  اور افراد کا علم جاننے والا کوئی ہو ۔ اس شعبے کو پرُ کرنے کے لئے اللہ نے کائنات کے انتظامی امور انسان کو سکھا دیے ۔ چوں کہ یہ علوم براہِ راست خالق کے تخلیقی فارمولوں سے متعلق ہیں اس لئے انسان کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نائب کی ہو گئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی نیابت و خلافت کے منصب پر فائز کر دیا تو یہ بات ازخود یقینی ہو گئی کہ اللہ کے بنائے ہوئے تمام کائناتی شعبے اور ان شعبوں میں انسان کو تصرف کا حق حاصل ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء کی روشنی میں انسان کو  کائناتی نظام متحرک اور قائم رکھنے کا اختیارتفویض کیا ہے۔نیابت کا یہی اختیار ہے جس کو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت کہا ہے۔نیابت کے تذکرے میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ کائنات کی بنیادی حیثیت کو سمجھا جائے۔ کائنات جن اصولوں، قاعدوں اور فارمولوں پر تخلیق کی گئی ہے، جن قاعدوں، ضابطوں اور مقداروں پر کائنات چل رہی ہے، ان سب امور کے یکجائی پروگرام کا نام تکوین ہے۔جس طرح کسی ملک کے انتظامی شعبوں کو Administration کہا جاتا ہے، اسی طرح کائناتی نظام کو تکوین کہا جاتا ہے۔

حکمتِ تکوین پر جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات لا محالہ زیرِ بحث آجاتی ہے کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی۔روحانیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کائنات کی تشکیل   چار شعبوں پر مشتمل ہے۔ کائنات کا پہلا مرحلہ اس طرح وجود میں آیا کہ کائنات کی موجودگی میں وسائل کا دخل نہیں ہے۔ بغیر اسباب و وسائل کے افرادِ کا ئنات کی موجودگی کے شعبے کو   ۔ ابداء۔ کہتے ہیں۔ یہ کائنات کا آغاز بھی ہے اور کائناتی انتظام کا پہلا شعبہ بھی ہے یعنی کائنات کی موجودگی اس طرح وقوع پذیر ہوئی کہ وسائل زیرِبحث نہیں آئے۔ اللہ نے ”کُن“فرمایا تو کائنات وجود میں آگئی۔ عالمِ موجودات میں شکل و صورت، حرکت و سکون کی طرزیں نمایاں ہوئیں اور زندگی کے مراحل وقوع میں آنا شروع ہوئے تو تکوین کا دوسرا شعبہ بنا۔ اس شعبے کا نام ۔خلق  ہے۔تکوین کا تیسرا شعبہ ۔تدبیر۔ ہے جس میں موجودات کی زندگی کےتمام اعمال و حرکات ترتیب ( زمان و مکان) کے ساتھ قائم ہوگئے۔ چوتھا شعبہ ۔تدلیّٰ۔ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ افرادِ کائنات میں انتظامی امور کے تحت قضا و قدر کی حکمت اور فیصلے مرتب ہو گئے۔

خلاصہ ( (Summary

 پہلا شعبہ جہاں تکوین کا آغاز ہوا، یہ ہے کہ ساری کائنات وجود میں آگئی یعنی اسباب و وسائل کے بغیر موجود ہو گئی جب کہ  مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی چیز بغیر وسائل کے وجود میں نہیں آتی۔ زمین کے اوپر پھیلی ہوئی ایجادات اور تخلیقات اور نئی نئی چیزوں پر جب ہم تفکر کرتے ہیں تو ہمیں کوئی ایک چیز بھی نظر نہیں آتی جہاں وسائل کی محتاجی نہ ہو لیکن خالقِ کائنات کی تعریف یہ ہے کہ وہ اسباب و وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے ارادے و اختیار سے از خود وسائل مہیا ہو جاتے ہیں اور یہ وسائل کا ئناتی خط و خال اختیار کر کے مظہر بن جاتے ہیں۔

دوسرا شعبہ یہ ہے کہ کائنات کے افراد کو اس بات کا علم حاصل ہوا کہ ان کے اندر حرکت و سکون ہے اور کائنات میں ہر فرد شکل و صورت کا محتاج  ہے۔ دوسرے شعبے میں کائنات میں حرکت کا آغاز ہوا۔ کائنات جب بغیر وسائل و اسباب کے موجود ہوئی تو اس کے اندر حرکت و سکون کی طرزیں نہیں تھیں اور نہ ہی کائنات کے افراد  خود سے واقف تھے۔  حیرت کا عالم تھا اور بس! دوسرے شعبے میں جب کائنات میں حرکت کا آغاز ہوا تو موجودات کی زندگی میں ترتیب واقع ہوئی اور موجودات نے یہ جان لیا کہ میری ایک انفرادی حیثیت ہے۔ جب موجودات کے علم میں یہ بات آگئی کہ اس کی انفرادی حیثیت ہے، اس کے اندر حرکت و سکون کی طرزیں موجود ہیں تو وہ اس بات سے بھی واقف ہو گئیں کہ زندگی ایک ایسے دائرے میں بند ہے کہ جہاں وہ قضا و قدر کے فیصلوں کی محتاج  ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تکوین (Administration) کے  چار شعبےہیں  ۔

۱۔   وسائل کے بغیر تخلیق             ۲۔ حرکت کا آغاز

۳۔ ترتیب اور خودشناسی              ۴۔  مخلوق قضا و قدر کے فیصلوں کی محتاج ہے

آدم کو تکوین کے چار شعبوں کا علم اس لئے عطا کیا گیا ہے کہ وہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے اپنے فرائض پورے کر سکے اور کائناتی امور کوچلا سکے۔ انسانی علوم اور اللہ تعالیٰ کے علوم میں یہ واضح فرق ہے کہ انسان جب نائب کی حیثیت سے تکوینی نظام کو چلاتا ہے تو وہ اسباب و وسائل کا محتاج ہوتا ہےاور اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں تو تخلیقات وسائل کے بغیر عمل میں آجاتی ہیں اور قضا و قدر کے فیصلے مدوّن ہو جاتے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو مرتبہ عطا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کائنات میں واحد فرد ہے جو بحیثیت نائب کے، اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات کو اور کائنات میں موجود انتظامی امور کو تفویض کردہ  اختیارات سے چلاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات کی حاکمیت (فی الارض خلیفہ) عطا کردی ہے۔ حاکمیت کا وصف ہی دراصل نیابت و خلافت کے تقاضے پورے کرتا ہے اور جس طرح دنیاوی Administration میں بے شمار لوگ اپنے اپنے شعبوں کو چلاتے ہیں، اسی طرح کائنات میں بھی مختلف شعبوں کے سربراہ ہوتے ہیں اور ان کی سربراہی میں  کائناتی شعبے متحرک ہیں۔

مجھ عاجز بندے نے (عظیمی)نے ”لوح و قلم“ کا املا کرتے ہوئے  ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیاؒ سے سوال کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو نیابت و خلافت عطا کردی تو انسان اللہ کی بنائی ہوئی کائنات میں کس طرح تصرف کرتا ہے اور جب کائنات پہلے سے موجود تھی اور قضا و قدر کے فیصلے مدوّن ہوچکے تھے،  افرادِ  کائنات حرکت و سکون کی طرزوں سے واقف ہوگئے تو پھر انسان نائب کی حیثیت سے کیا کام کرتا ہے؟

  ابدال ِ حق  قلندر بابا اولیاؒ   نے فرمایا ،

’’کائنات مسلسل تخلیق پذیر ہے۔ ہر آن ہر لمحے نئے نئے سیارے بنتے ہیں اور پرانے سیارے ٹوٹتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے بندے جو نیابت کے فرائض انجام دیتے ہیں، ان امور کی نگہبانی کرتے ہیں۔ ان کی duty یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کائناتی تخلیق میں کوئی نئی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو اپنے نائب حضرات کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہ خاص بندے موجودات کی زندگی کے اسباب و وسائل، شکل و صورت، حرکت و سکون کی طرزیں متعین کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرتے ہیں۔ اس کو Administration کی زبان میں یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نائبین پالیسی بناتے ہیں۔ اس پالیسی کو اللہ تعالیٰ اگر قبول فرمالیں تو انتظامی امور چلانے والے دوسرے بے شمار افراد اس نظام پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ تکوینی امور میں نائبین کے ساتھ فرشتے بھی کام کرتے ہیں لیکن فرشتوں کو ذاتی اختیار نہیں ہوتا۔آدم بحیثیت فی الارض خلیفہ،  اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات کا حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اختیارات سے وہ کائنات کی حرکات و سکنات کو ایک ترتیب اور معین مقداروں کے ساتھ قائم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو اپنی نیابت و خلافت سونپی تو نیابت اور خلافت کے فرائض انجام دینے کے لئے کائنات کی ساخت اور کائنات کی حرکات و سکنات اور کائنات کی زندگی سے متعلق تمام اسرار و رموز اسے سکھا دیے ۔ ‘‘

’’اور ہم نے آدم کو علم الاسماء سکھایا۔ ‘‘ (البقرۃ:  ۳۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

محترم خواتین و حضرات !  ’’آج کی بات‘‘ کے عنوان سے آپ نے روحا نیت کے                                                                               پلیٹ فارم سے لکھی ہوئی تحریر پڑھی۔ التماس ہے کہ  تحریر پڑھنے کے بعد  دماغ میں متحرک رموز کے بارے میں   ’’ماہنامہ قلندر شعور ‘‘کے صفحات حاضر ہیں۔

اللہ حافظ

   دستخط

………………………….

 


More in Aaj ki bat