Topics
ابھی ہم نے بتایا ہے کہ نماز کے ایک معنی رحمت بھی ہیں۔ یعنی نماز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔آقائےنامدار خاتم النبیین تاجدار دو عالم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بہت بڑا اعجاز ہے کہ آپﷺ نے اپنی امت اور بنی نوع انسان کے لئے حصول رحمت کا ایک ایسا طریقہ عطا فرمایا جس طریقہ میں انسانی زندگی کی ہر حرکت سمو دی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان ہر حالت میں اور زندگی کی ہر حرکت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ وابستہ رہے۔ ہم جب نماز کے اندر حرکات و سکنات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کی کوئی حرکت ایسی نہیں ہے کہ جس کو حضورﷺ نے نماز میں شامل نہ کر دیا ہو۔مثلاً ہاتھ اٹھانا، بلند کرنا، ہاتھ ہلانا، ہاتھ باندھنا، ہاتھوں سے جسم کو چھونا، کھڑا ہونا، جھکنا، لیٹنا، بیٹھنا، بولنا، دیکھنا، سننا، سر گھما کر اِدھر اُدھر سمتوں کا تعین کرنا۔ غرض زندگی کی ہر حالت نماز کے اندر موجود ہے۔ مقصد واضح ہے کہ انسان خواہ کسی بھی کام میں مصروف ہو یا کوئی بھی حرکت کرے اس کا ذہن اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہے اور یہ عمل عادت بن کر اس کی زندگی پر محیط ہو جائے حتیٰ کہ ہر آن، ہر لمحہ اور ہر سانس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی وابستگی یقینی عمل بن جائے۔
ہم جب نیت باندھتے ہیں تو ہاتھ اوپر اٹھا کر کانوں کو چھوتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لیتے ہیں۔ نماز شروع کرنے سے پہلے یہ بات ہماری نیت میں ہوتی ہے کہ ہم یہ کام اللہ کے لئے کر رہے ہیں۔ نیت کا تعلق دماغ سے ہے یعنی پہلے ہم دماغی اور ذہنی طور پر خود کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں۔
ابتدائے آفرینش سے اب تک جتنی بھی ایجادات و ترقیات ہوئی ہیں ان کا تعلق پہلے دماغ سے ہے اور اس کے بعد ہاتھوں سے۔ جب ہم نماز کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور اللہ کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی تمام ذہنی اور دماغی صلاحیتوں اور ترقی و ایجادات کا رشتہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم کر دیتے ہیں ۔یعنی یہ کہ نوع انسانی سے جو ایجادات معرض وجود میں آئی ہیں یا آئیں گی، ان کا تعلق ان صلاحیتوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں۔ ہم سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے اندر بولنے اور بات کرنے، سوچنے اور سمجھنے کی جو صلاحیت موجود ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا ایک وصف ہے اور ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے۔ الحمد شریف پڑھ کر ہم اپنی نفی کرتے ہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ فی الواقع تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتی ہیں اور وہی ہمیں ہدایت بخشتا ہے اور اسی کے انعام و اکرام سے فلاح یافتہ ہو کر ہم صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔
الحمد شریف کے بعد ہم قرآن پاک کی کوئی سورہ تلاوت کرتے ہیں۔ مثلاً ہم سورہ اخلاص (قل ہو اللہ شریف) پڑھ کر برملا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ یکتا ہے اور مخلوق یکتا نہیں ہے۔ اللہ احتیاج نہیں رکھتا، وہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔ اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ باپ ہے۔ اللہ کی ذات منفرد ہے، یکتا ہے۔ واحد ہے، لا انتہا ہے، غیر متغیر ہے اور اس کا کوئی خاندان نہیں۔ اب ہم اللہ کی بڑائی کا اقرار کرتے ہوئے جھک جاتے ہیں اور پھر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کھڑے ہونے کے بعد ایسی حالت میں چلے جاتے ہیں جس حالت کو لیٹنے سے قریب ترین کہا جا سکتا ہے۔ پھر اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ پھر اٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آخری رکعت میں کافی دیر نہایت سکون اور آرام سے بیٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھ کر سلام پھیر دیتے ہیں۔
غور و فکر کا مقام ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زندگی میں ہر وہ حرکت جو انسانوں سے سرزد ہوتی ہے سب کی سب نماز میں سمو دی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ انسان کچھ بھی کرے کسی بھی حال میں رہے۔۔۔اٹھے، بیٹھے، جھکے، کچھ بولے، اِدھر اُدھر دیکھے، ہاتھ پیر ہلائے، کچھ سوچے، ہر حالت میں اس کا ذہنی ارتباط اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہے۔ قرآن پاک میں جتنی جگہ نماز کا تذکرہ ہوا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ قائم کرو صلوٰۃ اور وہ لوگ جو قائم رکتے ہیں صلوٰۃ وغیرہ وغیرہ پر غور ۔کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک میں نماز قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، یہ نہیں کہا گیا کہ پڑھو۔
نماز اور آتش پرست
نماز پڑھنے اور قائم کرنے میں بہت فرق ہے۔ قرآن کریم میں پڑھنے کے الفاظ بھی ہیں:
’’اے (محمدﷺ)! جو کپڑے میں لپٹ رہے ہو، رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔‘‘ (سورہ مزمل)
فارسی زبان کا ایک لفظ ہے ’’نماز خواندن‘‘ یعنی نماز پڑھنا۔ یہ لفظ آتش پرستوں کے یہاں رائج ہے۔ جب وہ اپنی کتاب ’’ژندواوستا‘‘ پڑھ کر آگ کے سامنے جھکتے ہیں تو اس کو نماز خواندن یعنی نماز پڑھنا کہتے ہیں۔ عربی سے جب اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا تو یہ سہو ہوا کہ ’’صلوٰۃ قائم کرو‘‘ ترجمہ ’’نماز پڑھنا‘‘ کر دیا گیا۔ حالانکہ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق صلوٰۃ کا ترجمہ صلوٰۃ ہی ہونا چاہئے تھا جس طرح کلمہ طیبہ کا ترجمہ کلمہ طیبہ ہے، اللہ کا ترجمہ اللہ ہے، رحمان کا ترجمہ رحمان ہے، پیغمبر کا ترجمہ پیغمبر ہے، رسول کا ترجمہ رسول ہے وغیرہ وغیرہ۔ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق قائم کرو صلوٰۃ اور اردو ترجمہ کے مطابق نماز پڑھو کے معنی و مفہوم میں بڑا فرق واقع ہو جاتا ہے
خواجہ شمس الدین عظیمی
اُن خواتین کے نام جو بیسویں صدی کی آخری دہائی