Topics
عام طور سے لوگ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ نماز میں یک سوئی نہیں ہوتی اور جیسے ہی نماز کی نیت باندھتے ہیں، خیالات کی یلغار ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ ہم نے نماز میں کون کون سی سورتیں پڑھی ہیں۔ سلام پھیرنے کے بعد کچھ ایسا تاثر قائم ہوتا ہے کہ ایک بوجھ تھا جو اتار کر پھینک دیا گیا۔ نہ کوئی کیفیت ہوتی ہے اور نہ کوئی سرور حاصل ہوتا ہے جب کہ نماز اطمینان قلب اور غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نماز کی ادائیگی میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ نماز کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ جتنی دیر میں خشوع و خضوع کے ساتھ ایک رکعت بھی ختم نہیں ہوتی اتنی دیر میں پوری نماز ختم کر لی جاتی ہے۔ رکوع و سجود میں اتنی جلدی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ اتنی دیر میں ایک بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ نہیں کہا جا سکتا۔ رکوع میں ذرا جھکے، گھٹنوں پر ہاتھ رکھے، سر اٹھایا، کمر سیدھی بھی نہیں ہوئی کہ سجدے میں چلے گئے، سجدے میں سے اٹھے، ابھی صحیح طرح بیٹھے بھی نہ تھے کہ دوسرا سجدہ کیا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
یاد رکھئے!اس طرح نماز ادا کرنا نماز کی بے حرمتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی ہے۔ ایسی نماز ہرگز نماز نہیں ہے بلکہ ایک ناقص عمل ہے جو قیامت کے روز ہمارے لئے وجہِ شرمندگی و پشیمانی بن جائے گا اور ہمیں اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بدترین چوری کرنے والا وہ شخص ہے جو نماز میں چوری کرے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! نماز میں کس طرح چوری کرے گا؟‘‘
فرمایا۔’’نماز میں اچھی طرح رکوع و سجدہ نہ کرنا نماز میں چوری ہے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
اُن خواتین کے نام جو بیسویں صدی کی آخری دہائی