Topics
السلام
علیکم ورحمتہ اللہ
اللہ
تعالیٰ آپ کی صحت میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
میں نفسیات
کی طالب علم ہوں اور میری درخواست ہے کہ شعور اور لاشعور کی روحانی حیثیت کے بارے میں
وضاحت فرمادیں۔ شکریہ
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر
انسان جزو لاتجزیٰ اور فی نفسہ احساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو جب ہم حرکت کا نام دینا
چاہیں گے تو نگاہ کہیں گے۔
آدمی دید است و باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
شعر میں مولانا رومی نے انسان کا تذکرہ کیا ہے جو وحدت میں احساس
کا درجہ رکھتا ہے اور کثرت میں نگاہ ہے۔
مثال…… ہم قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور آئینہ میں
اپنا عکس دیکھتے ہیں، اس وقت کہتے ہیں کہ آئینہ میں اپنی صورت دیکھ رہے ہیں۔ دراصل
یہ طرز کلام بالواسطہ ہے، براہ راست نہیں ہے۔ جب ہم کسی بات کو براہ راست کہنا چاہیں
گے تو کہیں گے کہ آئینہ ہمیں دیکھ رہا ہے یا ہم اس چیز کو دیکھ رہے ہیں جس چیز کو آئینہ
دیکھ رہا ہے یعنی ہم آئینہ کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہوا براہ راست طزر کلام۔
اس کی تشریح یہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں، پہلے ہمارے ذہن میں اس کا تصور
ہوتا ہے۔ دوسرے درجہ میں شے کو آنکھ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اگر اس کے بارے میں کبھی کوئی خیال نہیں کیا ہے یا نہیں سوچا
یا ہمیں اس چیز کا علم حاصل نہ ہو تو ہم اس چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔ کسی شخص کا فالج
زدہ ہاتھ خشک ہوگیا ہے، نشتر چبھو کر اس سے سوال کرتے ہیں کہ بتاؤ تمہارے ہاتھ کے ساتھ
کیا ہوا ہے تو وہ جواب دیتا ہے مجھے معلوم نہیں۔ اس نے نفی میں جواب کیوں دیا…… اس
لئے کہ نشتر کی چبھن اس نے محسوس نہیں کی یعنی نشتر چبھونے کا علم نہیں ہوا جو احساس
کا پہلا درجہ ہے۔ وہ اس حالت میں نشتر چبھونے کا عمل دیکھ سکتا تھا کہ اس کی آنکھیں
کھلی ہوئی ہوتیں، یہاں نگاہ ذہن کو نشتر چبھونے کا علم دے سکتی تھی۔ چنانچہ ہر حال
میں یہی علم نگاہ کا پہلا درجہ ہے۔ پھر وہ اس چیز کو دیکھتا ہے، یہ احساس کا دوسرا
درجہ ہے۔ پھر سنتا ہے، یہ احساس کا تیسرا درجہ ہے۔ پھر شے سونگھتا ہے، یہ احساس کا
چوتھا درجہ ہے۔ پھر وہ اس چیز کو چھوتا ہے، یہ احساس کا پانچواں درجہ ہے۔ فی الواقع
احساس کا صحیح نام ”نگاہ“ ہے…… احساس کے پانچ درجات ہیں۔
O پہلے
درجہ میں اس کا نام خیال ہے
O دوسرے
درجہ میں اس کا نام نگاہ ہے
O تیسرے
درجہ میں اس کا نام سماعت ہے
O چوتھے
درجہ میں اس کا نام شامہ ہے…… اور
O پانچویں
درجہ میں اس کا نام لمس ہے
ہر درجہ کی اضافی شکل ہے۔ خیال اپنے درجہ میں ابتدائی علم ہے،
نگاہ اپنے درجہ میں اضافی علم ہے۔ سماعت اپنے درجہ میں تفصیلی علم ہے اور شامہ اپنے
درجہ میں توسیعی علم ہے…… آخر میں لمس اپنے درجہ میں محسوساتی علم بن گیا۔ اولیت صرف
علم کو حاصل ہے جو دراصل نگاہ ہے…… ہر حس اسی کی درجہ بندی ہے۔
نگاہ کا مفہوم واضح ہوچکا ہے اب اس کے زاویئے اور حقیقت کی طرف
آیئے…… نگاہ دو طرح دیکھتی ہے، ایک براہ راست دوسرا بالواسطہ۔ آئینہ کی مثال اوپر آچکی
ہے۔ جب ہم اپنی ذات Inner یعنی داخل میں دیکھتے ہیں یہ نگاہ کا براہ راست دیکھنا
ہے۔ یہی دیکھنا وحدت میں دیکھنا ہے۔ وحدت میں دیکھنے والی یہی نگاہ انسان، امر ربی،
روح یا جزو لاتجزیٰ ہے۔ یہی نگاہ شاہد کو مشہود کے قریب کرتی ہے۔ یہی نگاہ اپنی جگہ
علم الٰہی یا علم توحید ہے۔ یہی نگاہ کثرت میں اضافی، تفصیلی، توسیعی اور محسوساتی
طبیعت بنتی ہے۔ اسی نگاہ کی دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں حرکت، کثرت کا علم ہے۔
یہی نگاہ جب بالواسطہ دیکھتی ہے تو مکانیت اور زمانیت کی تعمیر
کرتی ہے۔ اس کی حرکات میں جیسے جیسے تبدیلی ہوتی ہے، اسی مناسبت سے کثرت کے درجات تخلیق
ہوتے ہیں۔ یہ نگاہ حرکت میں آنے سے پہلے ابتدائی مرحلہ میں علم اور علیم اور حرکت میں
آنے کے بعد دوسرے مرحلہ میں شعور اور لاشعور، تیسرے میں نگاہ اور تشکیل، چوتھے میں
گفتار اور سماعت، پانچویں میں رنگینی اور احساس، چھٹے میں کشش اور لمس بن جاتی ہے۔
دعاگو
عظیمی
مئی ۱۹۹۵ء
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔